زبان کی آفتیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
زبان کی آفتیں
کتاب احیاء علوم الدین از امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
زبان، ایک عظیم نعمت: زبان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت اور لطائف صنائع میں سے ایک لطیفہ ہے۔ اس کا حجم اگرچہ مختصر ہے لیکن اس کی اطاعت بھی زیادہ ہے اور گناہ بھی بڑا ہے۔ ایمان اور کفر دونوں حقیقتوں کا اظہار زبان ہی کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ ان میں اول الذکر غایت اطاعت ہے اور ثانی الذکر انتہائی درجے کی معصیت ہے۔ ہر چیز خواہ وہ موجود ہو یا معدوم، خالق ہو یا مخلوق، خیالی ہو یا حقیقی، ظنی ہو یا وہمی ، زبان پر آتی ہے اور زبان ہر چیز کے متعلق نفی یا اثبات کرتی ہے۔ علم کے دائرے میں جتنی بھی چیزیں ہیں خواہ وہ حق ہوں یا باطل، سب کی سب زبان ہی کے ذریعے بیان کی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو زبان کو دوسرے تمام اعضاء سے ممتاز کرتی ہے۔ آنکھ کی رسائی صرف رنگوں اور شکلوں تک ہے، کانوں کے دائرہ اختیار میں صرف آوازیں ہیں، ہاتھ صرف ان چیزوں تک دراز ہو سکتے ہیں جن کا جسمانی وجود ہو۔ یہی حال تمام اعضاء کا ہے۔ ان میں صرف زبان ہی ایسا عضو ہے جس کا دائرہ اختیار انتہائی وسیع ہے۔ جس طرح زبان خیر کے میدان میں دوڑ سکتی ہے اسی طرح شر کےمیدان میں بھی اسے کوئی شکست دینے والا نہیں۔ اس لیے زبان پر قابو رکھنا نہایت ضروری ہے۔ جو شخص زبان پر قابو نہیں رکھتا شیطان اس سے نہ جانے کیا کچھ کہلوا لیتا ہے اور اسے برے انجام کی طرف لے جاتا ہے۔
زبان کے شر سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اسے شریعت کی لگام پہنائے اور سنت کی زنجیریں ڈال دے۔ اور صرف اس وقت آزاد کرے جب کوئی ایسی بات کرنی ہو جو دین و دنیا کے لیے مفید ہو اور اسے ہر ایسی بات سے روکے جس کی ابتدا یا انتہا سے برے انجام کی توقع ہو۔ تاہم یہ بات معلوم کرنا کہ کون سی بات اچھی ہے اور کون سی بات بری،کہاں زبان کو بولنے کے لیے آزاد کرنا بہتر ہے اور کہاں برا ہے، انتہائی دشوار ہے۔ اور معلوم بھی ہوجائے تو اس پر عمل کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ انسان کے اعضاء میں سب سے زیادہ نافرمانیاں زبان سے سر زد ہوتی ہیں کیونکہ اسے حرکت دینے میں نہ کوئی دقت ہے اور نہ تعب و تھکن۔ لوگ زبان کی آفات سے بچنے میں تساہل برتتے ہیں اور اس کے شر کو معممولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ شیطان کا مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ اس کے ذریعے وہ اللہ کے بندوں کو شکست دیتا ہے اور انہیں گمراہی کے راستے میں چلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آنے والے صفحات میں ہم ، بتوفیق ایزدی، زبان کی آفتیں الگ الگ بیان کریں گے اور پوری تفصیل کے ساتھ ہر آفت کی حدود، اسباب اور نتائج پر گفتگو کریں گے، نیز اس سے بچنے کی تدابیر بھی ذکر کریں گے اور اس کی مذمّت میں جتنے اخبار و آثار وارد ہوئے ہیں انہیں بھی بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
زبان کی آفات بیان کرنے سے پہلے ہم زبان کے خطرات اور خاموشی کے فضائل بیان کرتے ہیں۔

زبان کا خطرہ عظیم اور خاموشی کی فضیلت :-جاننا چاہیے کہ زبان کا خطرہ عظیم ہے۔ اور اس سے بچنے کا واحد راستہ خاموشی ہے۔ اسی لیے شریعت نے خاموشی کی مدح کی ہے اور اپنے متبعین کو خاموش رہنے کی ترغیب دی ہے، چنانچہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :-
مَنْ صَمَتَ نَجا۔۔۔ جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (ترمذی)​
اسی طرح ابو منصور دیلمی حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں:-
الصَّمْتُ حِكَمٌ, وَ قَلِيلٌ فَاعِلُهُ ۔۔۔ خاموشی حکمت ہے لیکن اس کے کرنے والے (خاموش رہنے والے) کم ہیں۔ (بیہقی)​
عبداللہ بن سفیان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بتلائیے کہ آپ کے بعد کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ آپ نے فرمایا ، کہہ میں اللہ پر ایمان لایا ، اس کے بعد اس ایمان پر ثابت قدم رہ۔
میں نے عرض کیا؛ یا رسول اللہ، میں کس چیز سے اجتناب کروں؟ آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔(مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

عن عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : قُلْتُ : يَارَسُولَ اللهِ ، مَا النَّجَاةُ ؟ قَالَ : امْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ.
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ نجات کا راستہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنی زبان پر قابو رکھ، اور تیرا گھر تجھے کافی ہونا چاہیے(یعنی گھر سے باہر مت نکل) اور اپنی غلطی پر (ندامت کے) آنسو بہا۔ (مسند امام احمد، ترمذی و صحیح الالبانی)​

من یتکفل لی بما بین لحییه و رجلیه، اتکفل له بالجنة۔ جو شخص مجھے اپنی دونوں داڑھوں کے درمیان کی چیز (یعنی زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) سے بچنے کی ضمانت دے میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔ (صحیح بخاری)۔

من وقي شر قبقبه وذبذبه ولقلقه فقد وقي الشر كله۔ جو شخص اپنے پیٹ، اپنی شرمگاہ اور اپنی زبان کے شر سے محفوظ رہا وہ ہر طرح کے شر سے محفوظ رہا۔(ابو منصور دیلمی)​

یہی تین اعضاء ایسے ہیں جن کی شہتوں کے باعث عام طور پر لوگ ہلاکت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے پیٹ اور شرمگاہ کی شہتوں کے بیان سے فارغ ہونے کے بعد زبان کی آفتیں بیان کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے باعث لوگ جنت میں داخل ہوں گے، فرمایا: تقوی اللہ و حسن خلق۔ یعنی اللہ کا خوف اور خوش خلقی۔ عرض کیا گیا کہ وہ چیز بھی بتلا دیجیئے جس کی بنا ء پر لوگ دوزخ میں جائیں گے، فرمایا: الا جوفان الفم والفرج۔ یعنی دو کھوکھلی چیزوں ، منھ اور شرمگاہ کے باعث۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

اس حدیث میں منھ سے مراد زبان کی آفات بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ منھ زبان کا محل ہے، اور اس سے پیٹ بھی مراد ہو سکتا ہے کیونکہ منھ پیٹ بھرنے کا ذریعہ اور راستہ بھی ہے۔
حضر معاذ بن جبل نے سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ جو کچھ ہم بولتے ہیں اس پر بھی مواخذہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ جَبَلٍ ، وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ۔ اے ابن جبل! تیری ماں تجھے روئے، دوزخ میں لوگ اپنی زبانوں کا بویا کاٹنے کے لیے اوندھے منھ ڈالے جائیں گے۔(ترمذی، ابن ماجہ و حاکم)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :​
لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُهُ ، وَلَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُهُ حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُهُ ، وَلَا يَدْخُلُ رَجُلٌ الْجَنَّةَ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ۔
بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب درست نہ ہو، اور اس کا قلب اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان صحیح نہ ہو۔ اور جنت میں وہ شخص داخل نہ ہو گا جس کا پڑوسی اس کے شر سے مامون نہ ہو۔(ابن ابی الدنیا، خرائطی)

ایک حدیث میں ہے :مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْلَمَ فَلْيَلْزَمِ الصَّمْتَ ۔ جسے سلامتی پسند ہو اسے خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ (انس بن مالک،ابن ابی الدنیا)۔
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآل وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ: اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ، فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا۔
جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ عزوجل سے ڈرنا، اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور تو ٹیڑھی ہوئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ (ترمذی ، ابن خزیمہ)​

صفون بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:​
ألاّ أخبركم بأيسر العبادة وأهونها على البدن؟ الصمت وحسن الخُلق۔ کیا میں تمہیں ایسی عبادت نہ بتلاؤں جو بہت سہل اور بدن کے لیے بہت آسان ہے، (وہ عبادت) خاموشی اور خوش خلقی ہے۔ (ابوذر، ابو درداء۔ ابن ابی الدنیا)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:​
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ- جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)۔​

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس کا کلام زیادہ ہوتا ہے اس کی لغزشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور جس کی لغزشیں زیادہ ہوتی ہیں اس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں۔ اور جس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں وہ آگ کا زیادہ مستحق ہوتا ہے۔ (ابو نعیم، ابو حاتم و بیہقی)۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی زبان کو بولنے سے روکنے کے لیے منھ میں کنکر ڈال لیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، زبان کے علاوہ کوئی چیز لمبی قید کی محتاج نہیں ہے۔ وہب بن منبہ حکمت آل داؤد میں فرماتے ہیں کہ عقل مند پر واجب ہے کہ وہ اپنے زمانے کی معرفت رکھنے والا، اپنی زبان کی حفاطت کرنے والا اور اپنی وضع پر رہنے والا ہو۔ حسن کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرتا اسے دین کی سمجھ نہیں ہے۔ محمد بن واسع نے مالک بن دینار سے کہا کہ ابو یحیٰ، زبان کی حفاظت درہم و دینار کی حفاظت سے افضل ہے۔ ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں کہ فارس، روم ہندوستان اور چین کے بادشاہوں کی ملاقات ہوئی، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں بات کہہ کر نادم ہوتا ہوں، چپ رہ کر نادم نہیں ہوتا۔ دوسرے نے کہا کہ جب میں کوئی لفظ زبان سے نکالتا ہوں اس کے اختیار میں ہو جاتا ہوں اور وہ میرے اختیار میں نہیں رہتا، اور جب تک وہ لفظ زبان سے نہیں نکالتا اس وقت تک وہ میرے اختیار میں رہتا ہے۔ تیسرے نے کہا مجھے ایسے بولنے والے پر حیرت ہوتی ہے کہ اگر اس کا کلام اس پر واپس ہو تو اسے نقصان پہنچائے اور واپس نہ ہو تب بھی کوئی نفع نہ ہو۔ چوتھے نے کہا کہ ان کہی بات ہٹانے پر قدرت رکھتا ہوں لیکن جو بات زبان سے نکل جائے اسے لوٹانے پر قادر نہیں ہوں۔
خاموشی کے افضل ہونے کی وجہ: - یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خاموشی اس قدر افضل کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بولنے میں بے شمار آفات ہیں۔ غلطی،جھوٹ، غیبت، چغل خوری، ریاء، نفاق، فحش گوئی، خود نمائی، خود ستائی، خصومت، لغو گوئی، تعریف، بات بڑھانا گھٹانا، ایذا دہی اور پردہ دری جیسے عیوب کا تعلق زبان ہی سے ہے۔ زبان کو حرکت دینے میں نہ کوئی تکلیف ہے اور نہ تھکن۔ بلکہ بولنے میں لذت ملتی ہے۔ خود طبیعت بھی بولنے پر اکساتی ہے اور شیطان بھی کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ جو لوگ بولنے کے عادی ہیں وہ عموماً یہ نہیں دیکھتے کہ ہمیں کہاں بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے۔ بہرحال بولنے میں خطرات ہیں اور خاموشی میں ہر خطرے سے حفاظت ہے۔ اسی لیے اس کی فضیلت بھی زیادہ ہے۔ خاموشی کے بے شمار فائدے ہیں۔ ہمت مجتمع رہتی ہے، خیالات میں انتشار نہیں ہوتا، وقار بنا رہتا ہے، فکر، ذکر اور عبادت کے لیے فراغت رہتی ہے، دنیا میں بولنے کے غلط نتائج سے اور آخرت میں اس کے محاسبے سے نجات ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌO وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے۔ سورۃ ق، آیت نمبر 18۔​

خاموش رہنے کی فضیلت پر ایک بہترین دلیل یہ ہے کہ کلام کی چار قسمیں ہیں، ایک وہ جس میں صرف ضرر ہے، دوسری وہ جس میں صرف نفع ہے، تیسری وہ جس میں نفع بھی ہے اور ضرر بھی ، اور چوتھی وہ جس میں نہ نفع ہے اور نہ ضرر۔ جہاں تک کلام کی اس قسم کا تعلق ہے جس میں صرف ضرر ہے اس سے بچنا اور خاموش رہنا ضروری ہے۔ یہی حکم اس کلام کا ہے جس میں ضرر اور نفع دونوں ہوں بشرطیکہ ضرر نفع سے زیادہ ہو۔ تیسری قسم جس میں نہ نفع ہو اور نہ ضرر، لغو اور بے کار ہے ایسے کلام سے بھی سکوت ضروری ہے۔ کیونکہ اس طرح کے کلام میں مشغول ہونا محض اپنا وقت ضائع کرنا ہے اور وقت کا ضیاع سب سے بڑا نقصان ہے۔ اب صرف ایک قسم رہ جاتی ہے۔ اس طرح کلام کے تین حصے ختم ہو جاتے ہیں اور صرف ایک حصہ باقی رہ جاتا ہے اور اس میں بھی خطرات اور اندیشے موجود ہیں۔ بعض دفعہ ریاء ، تصنع، غیبت، خودستائی اور دوسرے عیوب کلام میں اس طرح گھس آتے ہیں کہ بولنے والے کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس لے مفید کلام کرنے والا بھی گویا خطرات سے کھیلنے والا ہے ۔ جو شخص زبان سے تعلق رکھنے والی آفتوں کی باریکیاں سمجھ لے گا وہ اس اعتراف پر مجبور ہو گا کہ اس سلسلے میں سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے کہ
مَنْ صَمَتَ نَجا۔۔۔ جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (ترمذی)​

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
(امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں زبان کی کل بیس آفات نہایت شرح و بسط سے بیان فرمائی ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان کو مختصر طور پر یہاں پیش کر دیا جائے)۔

پہلی آفت- لایعنی (بے فائدہ) کلام:-
بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے الفاظ کی ان تمام آفات سے حفاظت کرے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہیں یعنی غیبت، چغل خوری،جھوٹ اور خصومت وغیرہ۔ اور صرف وہ بات کہے جو جائز ہو اور جس میں نہ بولنے والے کے لیے کوئی ضررہو اور نہ کسی مسلمان بھائی کے لیے۔ جائز اور ضرر نہ دینے والی بعض باتیں ایسی بھی زبان سے نکل جاتی ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ لایعنی اور بے فائدہ باتیں ہیں۔ ان میں وقت کا ضیاع بھی ہے اور آخرت کا محاسبہ بھی ہے۔ اور بہتر کے عوض کمتر کو حاصل کرنے کا عمل بھی ہے کیونکہ اگر متکلم بولنے کی بجائے اپنے قلب و دماغ کو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں فکر کرنے کی طرف مائل کرتا تو یہ اس کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔ بہت ممکن تھا کہ اس فکر کے نتیجے میں اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے کھل جاتے اور قلب کو انشراح نصیب ہو جاتا۔ جو شخص خزانہ حاصل کر سکتا ہو اگر وہ پتھر جمع کرنے بیٹھ جائے تو اسے بدبختی کے علاوہ کیا کہا جائے گا۔ یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر ترک کر کے کسی لا یعنی اور بے فائدہ مگر مباح کام میں مشغول ہو جائے ۔ اگرچہ وہ گنہگار نہیں ہے لیکن یہی نقصان کیا کم ہے کہ اسے نفع عظیم حاصل نہیں ہو سکا۔ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہمِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ ۔ آدمی کے اسلام کے اچھا ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی کام ترک کر دے۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تجھے ایسا عمل نہ بتلا دوں جو جسم کے لیے ہلکا ہو اور میزان کے لیے بھاری ہو۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ضرور بتلائیں۔ فرمایا ،هو الصمت, وحسن الخلق, وترك ما لا يعنيك۔ وہ عمل خاموشی، خوش اخلاقی اور غیر ضروری (کام یا کلام) کا ترک کرنا ہے۔ (ابن ابی الدنیا)
بے فائدہ کلام کی تعریف : بے فائدہ کلام اس کلام کو کہتے ہیں کہ اگر تم خاموش رہو تو نہ کوئی گناہ لازم آئے ، اور نہ فی الوقت یا بعد میں کسی وقت اس کی وجہ سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو۔ اس کلام کی مثال یہ ہے کہ تم کسی مجلس میں بیٹھ کر اپنے سفر کے قصے سناؤ اور لوگوں کو بتلاؤ کہ میں نے بلند و بالا پہاڑ اور رواں دواں نہریں دیکھی ہیں، خوش ذائقہ کھانے کھائے ہیں، طرح طرح کی چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے ، فلاں فلاں بزرگوں اور مشائخ سے ملاقاتیں کی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ امور ہیں کہ اگر تم انہیں بیان نہ بھی کرو تب بھی کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ کسی قسم کا نقصان ہے۔ یہ بھی اس صورت میں ہے جب کہ تمام واقعات بلا کم و کاست صحیح صحیح بیان کیے جائیں۔ نہ ان میں کسی قسم کمی ہو نہ زیادتی، نہ کسی شخص کی غیبت ہو اور نہ کسی مخلوق کی مذمت، نہ خود ستائی اور نہ اظہار تفاخر۔ اس احتیاط کے باوجود یہی کہا جائے گا کہ تم نے اپنے سفر کا حال بیان کر کے وقت ضائع کیا ہے۔ یہی حکم کسی شخص سے غیر ضروری بات پوچھنے کا ہے۔ اس طرح کا سوال کرنا بھی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ بلکہ سوال میں زیادہ قباحت ہے کیونکہ سوال کر کے تم نے اپنے مخاطب کو جواب پر مجبور کیا ہے اور اس کا وقت بھی ضائع کیا ہے، اور یہ اس صورت میں ہے جب کہ سوال کرنے میں کوئی آفت نہ ہو، ورنہ اکثر سوالات میں آفات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ مثلاً تم کسی سے یہ پوچھو کہ کیا تم روزے سے ہو، اور وہ اثبات میں جواب دے تو کہا جائے گا کہ اس نے اپنے جواب سے عبادت کا اظہار کیا ہے، ممکن ہے وہ اس اظہار سے ریاء کا شکار ہو جائے، اگر ریاء کا شکار نہ بھی ہو تب بھی اس کی خفیہ عبادت کھلی عبادت میں بدل جائے گی جبکہ چھپ کر عبادت کرنا افضل ہے۔ اور اگر اس نے نفی میں جواب دیا تو یہ جھوٹ ہو گا۔ جواب نہ دیا خاموش رہا تو اس سے سوال کرنے والے کی تحقیر لازم آئے گی اور اسے تکلیف ہو گی۔ اور اگر کوئی حیلہ ایسا کیا کہ جواب نہ دینا پڑے تو خواہ مخواہ کی ذہنی الجھن ہو گی۔ اس طرح ایک غیر ضروری سوال کی وجہ سے ان آفات میں سے ایک آفت ضرور لازم آئے گی۔ اسی طرح گناہوں کا حال بھی نہ پوچھنا چاہیے اور نہ کوئی ایسی پوشیدہ بات پوچھنی چاہیے جسے بتلانے میں شرم آئے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
بے فائدہ کلام، گزشتہ سے پیوستہ:-
اسی طرح کسی عالم سے ایسا مسئلہ دریافت نہ کرو جس کی تمہیں ضرورت نہ ہو۔ بعض اوقات مسئول (جس سے سوال کیا جائے) جواب نہ دینے میں اپنی توہین محسوس کرتا ہے اور وہ علم و بصیرت کے بغیر مسئلہ بتلا کر اپنے آپ بھی گمراہ ہوتا ہے اور تمہیں بھی غلط راستے پر ڈال دیتا ہے۔ غیر مفید کلام میں اس طرح کے سوالات داخل نہیں ہیں کیونکہ ان میں گناہ یا ضرر بہرحال موجود ہے۔ غیر مفید کلام سے ہمارا مقصد اس مثال سے واضح ہو گا کہ حضرت لقمان حکیم حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس گئے۔ وہ اس وقت زرہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے زرہ نہ دیکھی تھی اس لیے انہیں لوہے کا لباس دیکھ کر حیرت ہوئی اور انہوں نے حضرت داؤد علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کرنے کا ارادہ کیا لیکن حکمت مانع آئی اور خاموش رہے۔ جب زرہ تیار ہو گئی تو حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے پہن کر دیکھا اور فرمایا کہ لڑائی کے لیے زرہ کتنا عمدہ لباس ہے۔ لقمان حکیم نے دل میں کہا کہ خاموشی ہی بڑی حکمت ہے، لیکن اس راز کو سمجھنے والے اور سمجھ کر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔ یہاں انہیں سوال کے بغیر ہی زرہ کا علم ہو گیا اور پوچھنے کی ضرورت نہ رہی۔ اس طرح کے سوالات میں اگر ضرر، کسی کی اہانت ، مبالغہ آمیزی، ریاء اور جھوٹ وغیرہ کے عیوب نہ بھی ہوں تو وہ غیر مفید کلام میں داخل ہیں اور ان کا ترک کرنا حسن اسلام کی دلیل ہے۔
بے فائدہ کلام کے اسباب اور اس کا علاج :-
بے فائدہ کلام کئی اسباب کی بناء پر کیا جاتا ہے۔ کبھی اس لیے کہ متکلم کو غیر ضروری بات پوچھنے کی حرص ہوتی ہے۔ کبھی اس لیے کہ بات پھیلانا اس کی عادت ہوتی ہے یا وہ تفصیلی بات کر کے مخاطب کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتا ہے۔ کبھی اس لیے کہ مخاطب سے محبت ہوتی ہے اور لمبی بات کر کے زیادہ دیر تک اسے مخاطب بنائے رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کبھی دل بہلانے کے لیے قصے کہانیاں کہی جاتی ہیں۔ ان سب کا علاج یہ ہے کہ موت کو اپنے سامنے تصور کرے اور یہ سوچے کہ مجھ سے ہر لفظ کا محاسبہ کیا جائے گا۔ میرے سانس راس المال ہیں اور زبان ایک جال ہے جس کے ذریعہ میں جنت کی ابدی نعمتیں پھانس سکتا ہوں۔ اپنا اصل سرمایہ ضائع کرنا اور اتنے قیمتی جال کو بے کار پڑے رہنے دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ یہ بے فائدہ کلام کے مرض کا علمی علاج ہے۔ عملی علاج یہ ہے کہ گوشہ تنہائی اختیار کرے، یا اپنی زبان کو کبھی کبھی مفید کلام سے بھی روک لیا کرے تاکہ غیر مفید کلام نہ کرنے کی عادت ہو جائے۔ تاہم اس شخص کے لیے جسے گوشہ تنہائی کی بجائے مل جل کر رہنا زیادہ پسند ہو ، زبان کو روکنا بہت مشکل ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
دوسری آفت۔ زیادہ بولنا:-
زیادہ بولنا بھی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اس میں بے فائدہ کلام بھی شامل ہے اور وہ کلام بھی جو مفید تو ہو لیکن قدر ضرورت سے زائد ہو جائے۔ مفید کلام مختصر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اختصار پر قدرت رکھنے کے باوجود ایک لفظ کی جگہ دو لفظ بولے تو یہ کہا جائے گا کہ وہ فضول گو ہے خواہ اس تکرار سے تقریر یا تاکید مقصود ہو۔ یہ فضول گوئی بھی ممنوع ہے، اگرچہ اس میں کوئی گناہ یا ضرر نہیں ہے۔ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہیں فضول گوئی سے نفرت تھی۔ ان کے نزدیک کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور دنیا کی شدید ضرورتوں سے تعلق رکھنے والے کلام کے علاوہ ہر کلام زائد شمار ہوتا تھا۔ کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کے دائیں بائیں کراماً کاتبین بیٹھے ہوئے اچھے اور برے اعمال نامے ترتیب دے رہے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ
مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌO وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے۔ سورۃ ق، آیت نمبر 18۔​
کیا تمہیں اس بات سے شرم نہیں آتی کہ جب میدان حشر میں تمہارا اعمال نامہ کھلے گا تو اس میں بے شمار باتیں ایسی ہوں گی کہ نہ ان کا تعلق دین سے ہو گا نہ دنیا سے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ لوگ مجھ سے ایسے سوالات کرتے ہیں کہ جس طرح پیاسے کو ٹھنڈا پانی لذیذ لگتا ہے اسی طرح مجھے ان کا جواب دینے میں مزا آتا ہے، لیکن میں اس ڈر سے خاموش رہ جاتا ہوں کہ کہیں میرا کلام زائد نہ ہو جائے۔
زائد کلام کا حصر: یہ بتلانا بہت مشکل ہے کہ کون سا کلام زائد اور غیر ضروری ہے، کیونکہ اس کاحصر نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں زائد کلام سے ڈراتا ہوں، آدمی کے لیے اتنا کلام کافی ہے جو ضرورت پوری کر دے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ آدمی کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اپنے بچے کو خاموش کرنے کے لیے کہہ دے کہ میں تیرے لیے فلاں چیز خرید کر لاؤں گا اور خریدنے کی نیت نہ ہو تو اسے جھوٹ لکھا جائے گا۔ حضرت ابراہیم تیمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مؤمن بولنے سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ بولنا اس کے حق میں مفید ہے یا مضر، اگر مفید ہو تو بولتا ہے ورنہ چپ رہتا ہے اور فاجر بے سوچے سمجھے بولتا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم کہتے ہیں کہ آدمی مال اور کلام کی زیادتی سے تباہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
تیسری آفت- باطل کا ذکر:-
باطل سے وہ کلام مراد ہے جس کا تعلق معاصی سے ہو، مثلاً عورتوں کے حسن و جمال اور عشق و محبت کے قصے سنانا، فسق و فجور کی مجلسوں کا حال بیان کرنا، مالداروں کی عیاشی کا ذکر کرنا، بادشاہوں کے اعمال بد کا ذکر کرنا، یہ سب باطل امور ہیں اور ان میں مشغول ہونا حرام ہے۔ غیر ضروری کلام حرام نہیں ہے صرف غیر مستحب اور ناپسندیدہ ہے، اسی طرح زیادہ بولنا بھی حرام نہیں ہے ، یہ بھی ناپسندیدہ عمل ہے ، لیکن باطل کلام میں حرمت پائی جاتی ہے۔ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ غیر ضروری موضوع پر زیادہ بولنے والا ، بہکنے اور باطل میں پڑ جانے کے قریب رہتا ہے۔ تفریحی گفتگو آج کے دور کا خاص مشغلہ ہے۔ اکثر لوگ اس مشغلے کے لیے مجلسیں ترتیب دیتے ہیں اور ان مجلسوں کا موضوع باطل ہوتا ہے، کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے، کسی کے عیوب ظاہر کیے جاتے ہیں، کسی میں عیوب تلاش کیے جاتے ہیں ، کسی کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں۔ غرضیکہ کوئی مجلس معصیت سے خالی نہیں ہوتی۔ باطل کی انواع اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا حصر کرنا ممکن نہیں۔ ان سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دینی مہمات اور دنیاوی ضروریات سےمتعلق گفتگو پر اکتفا کرے۔
باطل امور کا ذکر ایک خطرناک آفت ہے۔ اس آفت کا شکار ہونے والا عموماً تباہ و برباد ہو جاتا ہے، اگرچہ وہ اس ذکر کو معمولی سمجھتا ہے اور اس کے خطرات کا احساس نہیں کرتا لیکن قیامت کے روز اس پر یہ انکشاف ہو گا کہ وہ جس معصیت کو معمولی سمجھ رہا تھا وہ اس کے لیے کتنی تباہی لے کر آئی ہے۔ حضرت بلال بن الحرث رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ " آدمی اللہ کو خوش کرنے والا ایک لفظ کہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس سے کوئی بڑی خوشنودی حاصل نہیں ہو گی، لیکن اللہ تعالیٰ اس لفظ کی وجہ سے قیامت تک کے لیے اپنی رضا مندی لکھ دیتا ہے۔ اور کبھی آدمی اللہ کو ناراض کرنے والا ایک لفظ بولتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض نہیں ہوں گے لیکن اللہ عزوجل اس ایک لفظ کی وجہ سے قیامت تک اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے"۔(ابن ماجہ، ترمذی)
قرآن مجید کی یہ دو آیتیں بھی اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَO اور بیہودہ مشاغل والوں کے ساتھ (مل کر) ہم بھی بیہودہ مشغلوں میں پڑے رہتے تھے۔(سورۃالمدثر، آیت نمبر 45)۔

فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ۔ تو تم ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ (انکار اور تمسخر کو چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔ (سورۃ النساء ، آیت نمبر 140)۔
ابن سیرین کہتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی جب اس طرح کا باطل کلام کرنے والوں کی مجلس سے گزرتے تو ان سے فرماتے، وضو کر لو اس لیے کہ تمہاری بعض باتیں حدث سے بھی زیادہ بری ہیں۔ یہ ہے باطل کلام کی تفصیل۔ یہ غیبت، چغل خوری اور بد گوئی سے الگ ایک قسم ہے۔ باطل کلام ان ممنوعہ امور کا ذکر کرنا ہے جن کا سابق میں وجود ہو چکا ہو اور کوئی دینی ضرورت ان کے ذکر کا باعث نہ ہو، اسی میں بدعات اور فاسد مذاہب کی حکایات اور صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کا ذکر بھی داخل ہے۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
چوتھی آفت- بات کاٹنا اور جھگڑا کرنا:-
بات کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں " اپنے بھائی کی بات مت کاٹ، اور نہ اس سے (ناشائستہ) مذاق کر اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کر جسے تو پورا نہ کرے"۔(ترمذی، عن ابن عباس رضی اللہ عنہ)۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ "بندے کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ بات کاٹنا نہ چھوڑ دے اگرچہ حق پر ہی کیوں نہ ہو"۔ (ابن ابی الدنیا)۔ مسلم بن یسار کہتے ہیں کہ قطع کلامی سے بچو، عالم کی جہالت کا لمحہ وہی ہے جس میں وہ کسی دوسرے کی بات کاٹتا ہے ، اور اسی وقت شیطان اس کی لغزش کا متمنی رہتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دین میں جھگڑوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ بھی فرمایا کہ بات کاٹنے اور جھگڑا کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے اور سینوں میں کینے کا بیج پڑ جاتا ہے۔
بات کاٹنے کی تعریف: کسی کی بات کاٹنے کے لیے احادیث میں "مراء" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مراء کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص پر اس کے کلام میں نقص نکال کر اعتراض کیا جائے خواہ یہ نقص کلام کے الفاظ میں ہو یا معنی میں یا اس کے ارادہ و نیت میں۔ اس سلسلے میں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جو کلام بھی تم سنو اگر حق ہو تو اس کی تصدیق کر دو اور باطل ہو تو چپ رہو بشرطیکہ کلام دین سے متعلق نہ ہو۔بعض لوگ زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے ، بعض لوگ بولنا کچھ چاہتے ہیں اور زبان سے کچھ نکل جاتا ہے، عبارت میں غلطی کی وجہ کچھ بھی ہو اس پر نکتہ چینی کرنے کا جواز نہیں ہے۔
جدال اور مراء سے بچنے کا طریقہ: ان دونوں سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ آدمی مباحات سے بھی خاموش رہے۔ یہ دونوں عیوب دراصل اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنے مخالف کی تحقیر اور اپنی برتری مقصود ہوتی ہے۔ اپنی برتری کا اظہار خود ستائی کی قبیل سے ہے اور خودستائی اپنے آپ کو بڑا اور بلند و اعلیٰ سمجھنے کا ردعمل ہے جبکہ کبریائی اور عظمت رب کریم کی صفات ہیں اور اسی کو زیب دیتی ہیں۔ یہ ایک مرض ہے جس کا علاج یہ ہے کہ اس کبر کا قلع قمع کیا جائے جس سے اپنی برتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ہر مرض کا علاج اس کے اسباب دور کرنے سے ہی ممکن ہے۔ مراء اور جدال کے اسباب کبر و غرور اور بہیمانہ اوصاف ہیں۔ جب تک ان اوصاف کا ازالہ نہ ہو گا یہ مرض دور نہیں ہو گا۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے داؤد طائی سے ان کی عزلت نشینی کی وجہ دریافت کی ، انہوں نے کہا کہ میں اس لیے عزلت میں بیٹھتا ہوں تاکہ جدال نہ کرنے کا مجاہدہ کروں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ یہ مجاہدہ کہاں ہوا، مجاہدہ تو یہ ہے کہ مجلسوں میں جاؤ، لوگوں کی سنو اور خاموش رہو۔ داؤد طائی کہتے ہیں کہ میں نے اس پر عمل کیا، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس مجاہدے سے سخت کوئی مجاہدہ نہیں ہو سکتا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی کی زبان سے غلط بات سن کر خاموش رہنا بڑا مشکل اور صبر آزما کام ہے، خاص طور پر اس صورت میں کہ جب وہ اس غلطی کی تصحیح پر قادر بھی ہو۔ اسی لیے سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہ کرتا ہو، جنت کے اعلیٰ درجے کی بشارت دی ہے کیونکہ حق کا علم رکھتے ہوئے باطل پر خاموش رہنا نفس پر بڑا شاق گزرتا ہے۔ انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ اہل قبلہ کو کچھ کہنے سے زبان کو باز رکھے۔ اگر کوئی بدعت میں مبتلا نظر آئے تو اسے نرمی کے ساتھ تنہائی میں نصیحت کرے۔ اگر یہ دیکھے کہ نصیحت کا اس کے دل میں کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور یہ کہ اس کے دل میں قبول حق کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے تو اپنے نفس میں مشغول ہو جائے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دے۔ ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات مرتبہ یہ فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ اس پر شخص پر رحم کرے جو اس اچھے قول کے علاوہ جس پر وہ قدرت رکھتا ہو ، اہل قبلہ سے اپنی زبان کو روکے۔ (ابن ابی الدنیا)۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
پانچویں آفت۔ خصومت:-
خصومت بھی ایک مذموم صفت ہے، یہ جدال اور مراء سے الگ ایک صفت ہے کیونکہ مراء کہتے ہیں کسی کے کلام میں نقص پیدا کر کے اس طرح طعن کرنا کہ اس طعن اور اظہار نقص سے متکلم کی تحقیر اور اہانت اور اپنی ذہانت و ذکاوت کے اعلان کے علاوہ کوئی اور غرض وابستہ نہ ہو۔ اور جدال ان بحثوں کو کہتے ہیں جن کا تعلق مذاہب اور عقائد سے ہو۔ خصومت میں بھی جدال پایا جاتا ہے لیکن اس جدال سے مقصود کسی کے مال یا حق پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ خصومت میں کبھی اعتراض ہوتا ہے اور کبھی اعتراض نہیں ہوتا جبکہ مراء اور جدال میں اعتراض ضرور ہوتا ہے۔ روایات و آثار میں خصومت کی مذمت وارد ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے نقل کرتی ہیں کہ " اللہ کے نزدیک آدمیوں میں سب سے برا شخص وہ ہے جو بہت زیادہ جھگڑالو اور خصومت پسند ہو"- (بخاری)۔
ابن قتیبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ بشر ابن عبداللہ بن ابی بکرہ ادھر سے گزرے تو مجھے وہاں بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگے، یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ میں نے عرض کیا ایک خصومت کی وجہ سے جو میرے اور میرے چچا زاد بھائی کے درمیان چل رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ تیرے باپ کا مجھ پر ایک احسان ہے میں اس کا بدلہ چکانا چاہتا ہوں ، یاد رکھ خصومت سے زیادہ بری چیز کوئی دوسری نہیں ہے۔ یہ دین کو ضائع کرتی ہے، جبین شرافت کو داغدار کرتی ہے، اس سے زندگی کا لطف ختم ہو جاتا ہے اور دل ذکر و فکر میں لگنے کی بجائے خصومت کی الجھنوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ میں بشر بن عبداللہ کی یہ نصیحت سن کر جانے کے لیے کھڑا ہوا تو میرے حریف نے کہا ، کہاں چلے؟ میں نے جواب دیا کہ اب میں تجھ سے خصومت نہیں کروں گا۔ اس نے کہا کہ خصومت ترک کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ تو نے میرا حق تسلیم کر لیا ہے۔ میں نے کہا کہ حق تو تسلیم نہیں کیا، البتہ میں حصول کے مقابلے میں عزت نفس کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں۔ اس نے کہا ، اگر یہی بات ہے تو میں بھی اپنی ضد چھوڑتا ہوں اور یہ چیز تجھے دیتا ہوں اور یہ تیرا حق ہے اور میں اب اس کا مدعی نہیں ہوں۔
یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی انسان کا دوسرے پر حق ہو اور وہ اسے دینے پر رضا مند نہ ہو تو اسے حاصل کرنے کے لیے خصومت ضرور کرنی چاہیے، خواہ ظالم کتنا ہی ظلم کیوں نہ کرے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ہر خصومت کی مذمت نہیں کرتے بلکہ مذموم صرف وہ خصومت ہے جو باطل پر مبنی ہو یا بغیر علم کے کی جائے، جیسے وکیل یہ جانے بغیر کہ حق کس طرف ہے کسی ایک فریق کی طرف سے لڑا کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ خصومت بھی مذموم ہے جس میں اپنا حق طلب کیا جائے لیکن جس قدر حق واجب ہے اس پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ زیادہ سے زیادہ دشمنی اور عداوت کا مظاہرہ کیا جائے، مقصد اپنا حق حا صل کرنا نہ ہو بلکہ مخالف کو ایذا پہنچانا ہو۔ ہاں اگر مظلوم اپنے دعویٰ کو شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق مدلل کرے، نہ اس میں دشمنی ہو، نہ مبالغہ ہو ، نہ عناد کا جذبہ ہو اور نہ تکلیف پہنچانے کا مقصد ہو تو اس کا یہ عمل حرام نہیں ہے لیکن یہ بھی اس صورت میں ہے جب کہ خصومت کے بغیر اپنا حق حاصل کرنا ممکن نہ رہے۔ کیونکہ خصومت میں زبان کو حد اعتدال پر قائم رکھنا مشکل ہے۔ خصومت میں ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب وجہ خصومت ذہنوں سے نکل جاتی ہے اور دونوں فریقوں کے سامنے صرف ایک مقصد رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اپنے مخالف کو شکست دیں، اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے کو تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کے تار و پود بکھیر دیتے ہیں۔
یہی حال مراء اور جدال کا ہے، ان دونوں سے بھی شر جنم لیتا ہے۔ خصومت ، مراء اور جدال کا ادنیٰ شر یہ ہے کہ آپس میں اچھی طرح بات کرنے کی روایت ختم ہو جاتی ہے حالانکہ حسن کلام حسن معاشرت کا جزء ہے اور قابل ثواب عمل ہے۔ خوش کلامی کے متعلق سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرما تے ہیں، " تمہیں جنت میں خوش کلامی سے اور کھانا کھلانے سے جگہ ملے گی"۔ (طبرانی)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ۔ اور لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کرنا۔ (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نیکی ایک آسان عمل ہے اور وہ یہ کہ خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور نرم گفتگو کرو۔ خوش کلامی خصومت ، مراء اور جدال کی ضد ہے۔ ان تینوں میں جو کلام کیا جاتا ہے وہ ناپسندیدہ ، تکلیف دہ اور اشتعال انگیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خوش کلامی سے پیش آنے اور بدکلامی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
چھٹی آفت- فصاحت کلام کے لیے تصنّع:-
اکثر مدعیان خطابت کی عادت ہے کہ وہ کلام کو خوب بنا سنوار کر پیش کرتے ہیں۔ تمہیدات اور مقدمات گھڑتے ہیں اور اسے سجع و قافیہ سے آراستہ کرتے ہیں۔ یہ تکلف اور تصنّع مذموم ہے اور حدیث میں ہے کہ " تم میں سے میرے نزدیک زیادہ برے اور نشست میں مجھ سے بعید تر لوگ وہ ہیں جو گھٹیا گفتگو کرنے والے، زیادہ بولنے والے اور کلام میں تصنّع اختیار کرنے والے ہیں"۔(احمد، ترمذی)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کلام میں بلبلانا اور طوالت اختیار کرنا شیطانی عمل ہے۔ عمرو بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد کے پاس کسی ضرورت سے آئے اور ضرورت کے اظہار سے پہلے ایک طویل تمہید باندھی۔ حضرت سعد نے فرمایا ، اس سے پہلے تو کبھی تم نے اتنی لمبی تمہید نہیں باندھی، آج کیا ہوا؟ میں نے سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ کلام کو اپنی زبانوں سے اس طرح الٹ پلٹ کریں گے جس طرح گائے گھاس کو اپنی زبان سے الٹ پلٹ کرتی ہے"۔ (احمد)۔
گویا حضرت سعد نے اپنے بیٹے کی اس حرکت کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا کہ انہوں نے بلا ضرورت کلام کو طول دیا اور مقصد کے اظہار کے لیے ایک ایسی تمہید باندھی جو اس موقع پر غیر ضروری تھی اور جس کے بغیر مقصد پورا ہو سکتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تصنع مذموم ہے۔ وہ قافیہ بندی بھی اسی حکم میں ہے جو عادت سے خارج ہے۔ اسی طرح عام بول چال میں سجع بندی بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
کلام ایسا کرنا چاہیے جو مخاطب کی سمجھ میں آ جائے۔ کلام کا مقصد ہی دوسرے کو سمجھانا ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے لغو ہے اور تکلف میں داخل ہے۔ شریعت نے اس طرح کے تکلفات کی مذمت کی ہے۔ البتہ اس حکم سے وہ قافیہ بندی مستثنیٰ ہے جو خطبوں میں مروّج ہے بشرطیکہ اس میں افراط و مبالغہ نہ ہو۔ خطیب اور واعظ کا مقصد وعظ و تذکیر سے یہ ہوتا ہے کہ سننے والوں کے دلوں میں آتش شوق بھڑکے اور اچھے اعمال کے جذبے کو تحریک ملے۔ اس سلسلے میں الفاظ کی اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن عام بول چال میں نہ وزن کی ضرورت ہے نہ قافیے کی اور نہ تشبیہ و استعارے کی۔ اس لیے روز مرہ کی گفتگو میں خطبہ کا انداز اختیار کرنا سراسر جہالت ہے۔ اس تصنع کا محرک ریا ہے اور اس آفت میں مبتلا شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی فصاحت و بلاغت سے مرعوب ہوں اور اس کی تعریف و تحسین کریں۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

مزمل اختر

محفلین
چھٹی آفت- فصاحت کلام کے لیے تصنّع:-
اکثر مدعیان خطابت کی عادت ہے کہ وہ کلام کو خوب بنا سنوار کر پیش کرتے ہیں۔ تمہیدات اور مقدمات گھڑتے ہیں اور اسے سجع و قافیہ سے آراستہ کرتے ہیں۔ یہ تکلف اور تصنّع مذموم ہے اور حدیث میں ہے کہ " تم میں سے میرے نزدیک زیادہ برے اور نشست میں مجھ سے بعید تر لوگ وہ ہیں جو گھٹیا گفتگو کرنے والے، زیادہ بولنے والے اور کلام میں تصنّع اختیار کرنے والے ہیں"۔(احمد، ترمذی)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کلام میں بلبلانا اور طوالت اختیار کرنا شیطانی عمل ہے۔ عمرو بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد کے پاس کسی ضرورت سے آئے اور ضرورت کے اظہار سے پہلے ایک طویل تمہید باندھی۔ حضرت سعد نے فرمایا ، اس سے پہلے تو کبھی تم نے اتنی لمبی تمہید نہیں باندھی، آج کیا ہوا؟ میں نے سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ کلام کو اپنی زبانوں سے اس طرح الٹ پلٹ کریں گے جس طرح گائے گھاس کو اپنی زبان سے الٹ پلٹ کرتی ہے"۔ (احمد)۔
گویا حضرت سعد نے اپنے بیٹے کی اس حرکت کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا کہ انہوں نے بلا ضرورت کلام کو طول دیا اور مقصد کے اظہار کے لیے ایک ایسی تمہید باندھی جو اس موقع پر غیر ضروری تھی اور جس کے بغیر مقصد پورا ہو سکتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تصنع مذموم ہے۔ وہ قافیہ بندی بھی اسی حکم میں ہے جو عادت سے خارج ہے۔ اسی طرح عام بول چال میں سجع بندی بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
کلام ایسا کرنا چاہیے جو مخاطب کی سمجھ میں آ جائے۔ کلام کا مقصد ہی دوسرے کو سمجھانا ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے لغو ہے اور تکلف میں داخل ہے۔ شریعت نے اس طرح کے تکلفات کی مذمت کی ہے۔ البتہ اس حکم سے وہ قافیہ بندی مستثنیٰ ہے جو خطبوں میں مروّج ہے بشرطیکہ اس میں افراط و مبالغہ نہ ہو۔ خطیب اور واعظ کا مقصد وعظ و تذکیر سے یہ ہوتا ہے کہ سننے والوں کے دلوں میں آتش شوق بھڑکے اور اچھے اعمال کے جذبے کو تحریک ملے۔ اس سلسلے میں الفاظ کی اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن عام بول چال میں نہ وزن کی ضرورت ہے نہ قافیے کی اور نہ تشبیہ و استعارے کی۔ اس لیے روز مرہ کی گفتگو میں خطبہ کا انداز اختیار کرنا سراسر جہالت ہے۔ اس تصنع کا محرک ریا ہے اور اس آفت میں مبتلا شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی فصاحت و بلاغت سے مرعوب ہوں اور اس کی تعریف و تحسین کریں۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
بہت خوب بڑی اہم بات بیان فرمائی آپ نے۔
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 

الشفاء

لائبریرین
ساتویں آفت۔ فحش گوئی اور سبّ و شتم:-
یہ بھی مذموم اور ممنوع ہے۔ فحش گوئی اور سبّ و شتم کا منبع و مصدر خبث باطنی اور دنائت ہے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، "فحش گوئی سے بچو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو فحش گوئی اور بے ہودگی پسند نہیں"۔ (نسائی، حاکم ۔ ابن عمر)۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کفار و مشرکین کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا جو بدر کی جنگ میں مارے گئے تھے۔۔۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "عیب لگانے والا، لعنت کرنے والا، فحش کہنے والا اور زبان دراز آدمی مؤمن نہیں ہوتا"- (نسائی،ابن عباس)۔
اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ "فحاشی اور بے ہودگی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگوں میں اچھا مسلمان وہ ہے جو ان میں اچھے اخلاق کا حامل ہو"۔ (احمد، ابن ابی الدنیا)۔

فحش گوئی کی تعریف: قبیح امور کو صریح الفاظ میں ذکر کرنا فحش گوئی ہے۔ مثلاً شرمگاہ کا نام لیا جائے۔ فحاشی عام طور پر جماع اور اس کے متعلقہ امور ہی سے متعلق ہے۔ مفسدہ پرداز اور بد کردار لوگوں نے اس سلسلے میں صریح اور فحش عبارتیں وضع کر رکھی ہیں، وہ ان عبارتوں کو کسی جھجھک اور شرم کے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ نیکو کار اور خوش اطوار لوگ ان عبارتوں کے استعمال سے بچتے ہیں، بلکہ اس طرح کے امور میں اشاروں اور کنایوں سے بات کرتے ہیں اور صریح الفاظ کے بجائے اشاراتی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، اللہ حیا والا ہے، کریم ہے، وہ گناہوں کو معاف کرتا ہے اور کنائے میں بیان کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں لمس سے جماع کی تعبیر کی گئی ہے۔ دخول، لمس اور صحبت وغیرہ الفاظ جماع کے کنایات ہیں، ان میں فحاشی نہیں ہے۔ لوگوں نے تو لفظ جماع پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس فعل کی تعبیر کے لیے ایسے ایسے کلمات اور الفاظ وضع کر لیے ہیں کہ جنہیں سن کر شرم آتی ہے اور ناگواری کا احساس ہوتا ہے۔ ان میں بھی بعض الفاظ کچھ کم فحش ہیں اور بعض زیادہ۔ اس سلسلے میں ہر ملک اور ہر علاقے کی عادت جداگانہ ہے۔ بہرحال کم درجے کے الفاظ مکروہ ہیں اور انتہائی درجے کے حرام۔ اور الفاظ میں تفحش جماع ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بد طینت افراد غیر جماع میں بھی فحش بکتے ہیں۔ مثلاً پیشاب پاخانے کے لیے اگر یہی الفاظ استعمال کیے جائیں تو یہ گوموت کی بہ نسبت بہتر ہیں۔ اس طرح کی چیزیں مخفی رکھی جاتی ہیں۔ اور جو چیزیں مخفی رکھی جائیں انہیں ذکر کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے پیشاب پاخانے کا ذکر بھی صریح الفاظ میں نہیں ہونا چاہیے۔ عورتوں کا ذکر بھی صریح نہ ہونا چاہیے بلکہ کنایوں اور اشاروں میں ذکر کرنا چاہیے۔ مثلاً یہ نہ کہے کہ تیری بیوی نے کہا، بلکہ یہ کہ گھر میں کہا گیا، پردے کے پیچھے سے آواز آئی، یا بچے کی ماں نے یہ کہا وغیرہ۔ عورتوں کا صریح ذکر بھی فحش کی طرف لے جاتا ہے۔ علاء بن ہارون کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنی زبان کی بہت حفاظت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کی بغل میں پھوڑا نکلا، ہم لوگ ان کی عیادت کے لیے گئے اور معلوم کیا کہ یہ تکلیف کس جگہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا ، ہاتھ کے اندرونی حصے میں ۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بغل کا صریح ذکر بھی پسند نہیں تھا۔
فحش گوئی کا محرک عادت بھی ہوتا ہے اور اہل فسق کی صحبت بھی۔ کیونکہ کمینوں اور فسق و فجور میں مبتلا لوگوں کو سبّ و شتم کی عادت ہوتی ہے۔ ان کی اس عادت سے وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں جو ان کی صحبت اختیار کرتے ہیں۔ عیاض بن حمار نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ، ایک شخص جو رتبے میں مجھ سے کم ہے، مجھے گالی دیتا ہے، اگر میں اس سے بدلہ لے لوں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ، " دونوں گالی دینے والے دو شیطان ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو جھٹلاتے ہیں اور ایک دوسرے پر تہمت تراشتے ہیں"۔ (احمد، ابو داؤد طیالسی)۔
ایک مرتبہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔
سِبَابُ الْمُسْلِم فُسُوقٌ وَقِتالُهُ كُفْرٌ۔ یعنی مؤمن کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔ (بخاری و مسلم۔ ابن مسعود)۔​
ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمام کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا، ہاں، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے کے باپ کو گالی دے اور دوسرا جواب میں اس کے باپ کو گالی دے۔ (احمد، ابو یعلیٰ، طبرانی۔ ابن عباس)۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
آٹھویں آفت۔ لعنت کرنا :-
لعنت خواہ انسان کے لیے ہو یا حیوان کے لیے یا جماد کے لیے، مذموم ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، لا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لَعَّانًا ، یعنی مؤمن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔ (ترمذی، ابن عمر)۔
ایک حدیث میں ہے۔ لاَ تَلاعنُوا بلعنةِ اللَّه، وَلاَ بِغضبِهِ، وَلاَ بِالنَّارِ۔ آپس میں ایک دوسرے پر لعنت نہ کرو، نہ خدا کے غضب کی اور نہ جہنم کی۔ (ابوداؤد، ترمذی-سمرہ بن جندب)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس قوم نے ایک دوسرے پر لعنت کی ، وہ عذاب الہٰی کی مستحق ہوئی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں تھے اور انصار کی ایک عورت بھی اونٹنی پر سوار سفر کر رہی تھی۔ راستے میں اونٹنی نے کچھ تنگ کیا تو عورت بولی ، کم بخت تجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اس اونٹنی کا بوجھ اتار دو اور اسے بالکل خالی کر دو، اس لیے کہ اب یہ ملعون ہو گئی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس کے ملعون ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا، نہ کوئی اس پر سفر کرتا تھا اور نہ سامان لادتا تھا۔ (مسلم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق کو سنا کہ وہ اپنے کسی غلام کو لعنت کر رہے ہیں۔ آپ نے ان سے فرمایا، اے ابو بکر، کیا صدّیق بھی لعنت کیا کرتے ہیں۔ ہر گز نہیں، رب کعبہ کی قسم ہر گز نہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت غلام کو آزاد کر دیا اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اب کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا۔(ابن ابی الدنیا)

لعنت کی تعریف: لعنت کے معنیٰ ہیں اللہ (کی رحمت) سے ہٹانا اور دور کرنا۔ اس لفظ کو اس شخص کے لیے استعمال کرنا درست ہو گا جس میں خدا سے دور کرنے والی صفت موجود ہو جیسے کفر اور ظلم۔ اس صورت میں یہ کہنا جائز ہے۔ ظلم کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو، کفر کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس سلسلے میں شریعت کے بیان کردہ الفاظ کی اتباع کرنی چاہیے کیونکہ لعنت میں خطرہ ہے۔ یہ ایک نازک مرحلہ ہے۔ اس میں اللہ پر حکم لگانا ہے کہ اس نے ملعون کو اپنی قربت سے محروم کر دیا ہے اور یہ امر غیب ہے۔ جس پر اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا مطلع نہیں ہوتا، یا اللہ تعالیٰ اپنے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کو آگاہ فرما دے تو وہ مطلع ہو سکتے ہیں۔
لوگ لعنت کے باب میں اپنی زبان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ ہمارا لعن کرنا شرعی حدود میں ہے یا نہیں۔ حدیث شریف کے مطابق مؤمن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔ اس شخص کے سوا جو کفر پر مر گیا ہو کسی پر لعنت نہ کرنی چاہیے، اگر غیر کافر پر لعنت کرے تو مخصوص و معین افراد کا نام نہ لے بلکہ عام اوصاف ذکر کرے اور ان اوصاف کے حاملین کو اللہ کی لعنت کا مستحق قرار دے۔ لعنت کرنے سے بہتر اللہ کا ذکر ہے، اللہ کا ذکر نہ کرے تو چپ ہی رہے۔ مکی بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم ابن عون کی مجلس میں تھے ۔ بلال بن ابی بردہ کا ذکر ہوا تو لوگ اس کی مذمت کرنے لگے اور اس پر زبان طعن دراز کرنے لگے۔ ابن عون خاموشی سے سنتے رہے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اس کی مذمت اس لیے کر رہے ہیں کہ اس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قیامت کے دن میرے نامہ اعمال میں دو کلمے ہوں گے، ایک لا الٰہ الااللہ اور دوسرا یہ کہ فلاں فلاں کو لعنت کی ۔ مجھے یہ اچھا لگتا ہے کہ میرے اعمال نامے میں لعنت کی بجائے لا الہٰ الااللہ کا ذکر ہو۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
نویں آفت۔ راگ اور شاعری:-
کتاب السماع میں ہم اس موضوع پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں کہ کون سا راگ حرام ہے اور کون سا راگ حلال ہے۔ اب ہم اس بحث کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ، اچھی شاعری اچھی اور بری شاعری بری ہے۔ البتہ شاعری کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینا اور اسے اپنا مشغلہ بنا لینا اچھا نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ " تم میں سے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے اور وہ اسے خراب کر دے، یہ اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھر جائے"۔ (بخاری، ابن عمر)
مسروق سے کسی نے کوئی شعر دریافت کیا، آپ کو یہ بات بری لگی۔ سائل نے عرض کیا کہ بھلا اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے۔ فرمایا مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے اعمال نامے میں شعر موجود ہوں۔ کسی بزرگ سے ایک شعر پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا ، شعر گوئی چھوڑو ، اللہ کا ذکر کرو۔ بہرحال نہ شعر کہنا حرام ہے اور نہ شعر بنانا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی بات شرعی حدود سے متجاوز نہ ہو۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ان من الشعر لحکمۃ ۔ بلاشبہ بعض اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں"۔ (بخاری، ابی بن کعب)۔
شعر عموماً مدح و ذم کے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں جھوٹ کی بڑی گنجائش ہے۔ تاہم نہ مطلق ہجو ناپسندیدہ ہے اور نہ مطلق مدح مکروہ۔ خود سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے ہجو بیان کرنے کے لیے کہا۔ مدح میں مبالغہ بھی کر سکتے ہیں ، اس باب میں توسع ہے اگرچہ مبالغہ میں کذب کی آمیزش بھی ہو، مثلاً اس طرح کے اشعار جھوٹ کی وجہ سے حرام نہیں کہے جا سکتے ۔
ولو لم یکن فی کفہ غیر روحہ
لجادبھا فلیت اللہ سائلہ
(اگر اس کے پاس روح کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو وہ اسے ہی لُٹا دیتا، مانگنے والے کو بھی اللہ سے ڈرنا چاہیے)​
اگر ممدوح سخی نہیں ہے تو یہ شعر کذب محض ہے، لیکن اگر وہ واقعتاً سخی ہے تو یہ مبالغہ مباح ہو گا اور اسے شعر کا حسن قرار دیا جائے گا کیونکہ اس سے حقیقت مقصود نہیں ہوتی بلکہ ممدوح کی انتہائی سخاوت کا بیان مقصود ہوتا ہے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بارہا ایسے شعر پڑھے گئے جن میں اس نوع کا مبالغہ ملتا ہے لیکن آپ نے منع نہیں فرمایا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک روز میں چرخہ کات رہی تھی اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا جوتا مبارک سی رہے تھے۔ میں نے نگاہ اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی پیشانی پر پسینے کے قطرات سورج کی روشنی میں ستاروں کی طرح جھلملا رہے تھے۔ میں اس حسین منظر کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ آپ نے مجھے حیرت سے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا تو دریافت کیا ، اے عائشہ ، کس بات پر حیرت کر رہی ہو۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ، آپ کی پیشانی پر پسینے کے قطرات ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں، اگر ابو کبیر ہذلی (زمانہ جاہلیت کا مشہور شاعر) آپ کو دیکھ لیتا تو اپنے اشعار کا صحیح مصداق آپ کو قرار دیتا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کہ ابو کبیر ہذلی کیا کہتا ہے ، تو میں نے یہ دو شعر سنائے۔
ومُبَرَّأً من كُلِّ غُبَّرِ حَيْضَةٍ **** ورَضَاعِ مُغْيِلَةٍ وداءٍ مُعْضِلِ
وَإِذا نَظَرتَ إِلى أَسِرَّةِ وَجهِهِ**** بَرَقَت كَبَرقِ العارِضِ المُتَهَلِّلِ
(وہ (ممدوح) حیض کی کدورت اور دودھ پلانے کی خرابی اور اس کے ہر مرض سے پاک ہے۔ جب میں اس کے چہرے کے خطوط دیکھتا ہوں تو وہ ایسے دمکتے ہیں جیسے بادلوں میں بجلی چمکتی ہے)۔​
سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ شعر سنے تو اپنا کام چھوڑا اور میری پیشانی پہ بوسہ دیا اور فرمایا ،جَزَاكِ اللهُ يَا عَائِشَةُ خَيْرًا مَا سُرِرْتِ مِنِّي كَسُرُورِي مِنْكِ ۔ یعنی اے عائشہ ، اللہ تجھے جزائے خیر دے۔ تو اتنا مجھ سے لطف اندوز نہیں ہوئی جتنا تم نے مجھے مسرور کر دیا۔ (بیہقی۔ دلائل النبوۃ)۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
دسویں آفت- مزاح :-
یہ بھی ممنوع اور ناپسندیدہ ہے، لیکن اگر تھوڑی ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " نہ اپنے بھائی کی بات کاٹ اور نہ اس سے مذاق کر"۔ (ترمذی)۔
اس سلسلے میں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ بات کاٹنے سے منع کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے، اس میں واقعتاً متکلم کی توہین ہے اور اسے اذیت میں مبتلا کرنا ہے۔ لیکن مزاح میں نہ کسی کی اہانت ہے اور نہ اسے اذیت پہنچانا ہے، یہ دل لگی اور خوش دلی کی علامت ہے، پھر اس سے کیوں منع کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دل لگی میں مبالغہ کرنا یا اس پر مداومت کرنا بھی ممنوع ہے۔ مداومت کا مطلب یہ ہوا کہ دل ہمیشہ کھیل اور ہزل میں مشغول رہے۔ کھیل اگرچہ مباح ہے لیکن اس پر مواظبت کرنا ممنوع ہے۔ افراط اور مبالغہ کرنے سے ہنسی زیادہ آتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے آدمی کا دل مردہ ہو جاتا ہے اور اس کی ہیبت ختم ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات دلوں میں کینہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اگر ہنسی میں یہ عیوب نہ ہوں تو ہنسنا برا نہیں ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں خوش طبعی ضرور کرتا ہوں لیکن سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔ (ترمذی)۔
لیکن یہ آپ ہی کی شان تھی کہ خوش طبعی اور دل لگی کے مواقع پر بھی زبان سے کلمہ حق ہی نکلتا، دوسرے لوگ خواہ وہ زہد و تقویٰ کے کتنے ہی اعلیٰ درجے پر فائز کیوں نہ ہوں ، مذاق کے کوچے میں قدم رکھنے کے بعد کذب سے اپنا دامن بچانے پر قادر نہیں رہتے۔ ان کا مقصد لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے خواہ کسی بھی طرح ہنسائیں۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے "ﺇﻥ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻟﻴﺘﻜﻠﻢ ﺑﺎﻟﻜﻠﻤﺔ ﻟﻴﻀﺤﻚ ﺑﻬﺎ ﺟﻠﺴﺎﺀﻩ ﻳﻬﻮﻱ ﺑﻬﺎ ﻣﻦ ﺃﺑﻌﺪ ﻣﻦ ﺍﻟﺜﺮﻳﺎ" یعنی آدمی اپنے ہم نشینوں کو ہنسانے کے لیے ایک بات کہتا ہے اور اس کی وجہ سے جہنم میں ثریا سے بھی دور جا پڑتا ہے۔ (مسند احمد)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، جو زیادہ ہنستا ہے اس کا رعب ختم ہو جاتا ہے۔ جو دل لگی کرتا ہے لوگ اس کی تعظیم نہیں کرتے ۔ جو زیادہ بولتا ہے وہ اکثر غلطیاں کرتا ہے ، اور جو زیادہ غلطی کرتا ہے اس میں حیا کم ہو جاتی ہے۔ اور جس کی حیا کم ہو جاتی ہے اس میں خوف خدا باقی نہیں رہتا، اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہنسنا آخرت سے غفلت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ محمد بن واسع نے کسی شخص سے پوچھا کہ اگر تم جنت میں کسی کو روتا ہوا دیکھو تو کیا تمہیں حیرت نہ ہو گی۔ اس نے کہا یقیناً ہو گی، بھلا جنت بھی کوئی رونے کی جگہ ہے۔ فرمایا، اس سے زیادہ حیرت اور تعجب اس شخص پر ہونا چاہیے جو دنیا میں ہنستا ہے، بھلا دنیا بھی کوئی ہنسنے کی جگہ ہے۔ یہاں یہ بتلا دینا ضروری ہے کہ ہنسی وہ مذموم ہے جس میں آواز ہو، تبسم (بلا آواز کے مسکرانا) ممنوع نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح مسکرایا کرتے تھے۔

حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح: یہ صحیح ہے کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ کے رفقاء و اصحاب سے مزاح منقول ہے۔ لیکن آپ کے مزاح کو ہمارے مزاح پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ اگر واقعتاً کوئی شخص اس مزاح پر قادر ہو جو سرکار صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے اور جس پر آپ کے اصحاب کاربند رہے تو یہ نہ مذموم ہے اور نہ غیر پسندیدہ، بلکہ ایک درجے میں مسنون اور مستحب ہے۔ آپ کا مزاح یہ تھا کہ نہ اس میں جھوٹ کی آمیزش تھی، نہ کوئی ایسی بات تھی جس سے دوسروں کو ایذا ہوتی ہو ، نہ اس میں مبالغہ تھا بلکہ آپ شاذو نادر ہی مزاح فرمایا کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص مزاح کی ان تمام شرائط کو عملی طور پر قبول کر سکتا ہو تو اسے مزاح کی اجازت ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آدمی مزاح کو پیشہ بنا لے اور اسے روز و شب کے مشغلے کے طور پر اپنائے رکھے اور پھر رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل سے حجت پکڑے اور یہ سمجھے کہ میں آپ کی اتباع کر رہا ہوں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص دن بھر حبشیوں کے کھیل تماشے دیکھتا رہے اور ان کے ساتھ لگا پھرے، پھر یہ دعویٰ کرنے لگے کہ میرا عمل صحیح ہے ، اور دلیل یہ ہے کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید کے روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حبشیوں کا کھیل تماشا دیکھنے کی اجازت دی تھی۔ یہ استدلال غلط ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ صغیرہ گناہ اصرار سے کبیرہ ہو جاتا ہے اور جائز عمل صغیرہ بن جاتا ہے۔ اس سے غفلت نہ برتنی چاہیے۔ حضور کا مزاح حضرت ابو ہریرہ کی اس روایت کی روشنی میں دیکھیے، فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ، آپ ہم سے دل لگی فرماتے ہیں۔ فرمایا، ہاں ، لیکن میں اس میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں-(ترمذی)۔ مروی ہے کہ ایک بوڑھی عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ، آپ نے اس سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔ وہ عورت یہ سن کر رونے لگی۔ آپ نے فرمایا کہ بھئی تم اس روز بوڑھی نہیں رہو گی۔ زید ابن اسلم روایت کرتے ہیں کہ ام ایمن نامی ایک عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ، میرے شوہر آپ کو بلاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، تیرے شوہر وہی ہیں نا جن کی آنکھ میں سفیدی ہے۔ اس نے عرض کیا ، بخدا ان کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا ، نہیں اس کی آنکھ میں سفیدی ہے۔ اس نے عرض کیا خدا کی قسم اس کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے۔ فرمایا، ہر شخص کی آنکھ میں سفیدی ہوتی ہے۔ ایک عورت نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ، مجھے سواری کے لیے اونٹ عطا کریں۔ آپ نے فرمایا، میں تیری سواری کے لیے اونٹ کا بچہ دوں گا۔ وہ کہنے لگی ، بچہ میرا بوجھ کہاں اٹھا سکے گا مجھے تو اونٹ دیجیے۔ آپ نے فرمایا کوئی اونٹ ایسا نہیں ہوتا جو اونٹ کا بچہ نہ ہو۔ (ابوداؤد، ترمذی)۔
یہ تھا آپ کا مزاح، صاف ستھرا اور پاکیزہ۔ ہر طرح کی کدورتوں سے خالی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک روز آپ نے مجھ سے فرمایا، اے عائشہ آؤ دوڑ لگائیں، دیکھیں کون آگے نکلتا ہے۔ میں نے اپنا دوپٹہ مضبوط باندھ لیا اور زمین پر ایک نشان لگا کر کھڑی ہو گئی۔ ہم دونوں دوڑے اور حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے نکل گئے، اور فرمایا کہ یہ ذی الحجاز کا بدلہ ہے۔ ذی الحجاز کے واقعہ کے بارے میں حضرت عائشہ نے یہ بتلایا کہ ایک روز حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ، میں ذی الحجاز میں تھی۔ میرے والد نے مجھے ایک چیز دے کر بھیجا تھا۔ آپ نے وہ چیز مجھ سے مانگی، میں نے انکار کر دیا اور بھاگ گئی۔ آپ میرے پیچھے دوڑے لیکن مجھے نہ پکڑ سکے۔ علقمہ ابو سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو (چوم رہے تھے اور ) اپنی زبان مبارک دکھا دکھا کر ہنسا رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک صحابی نے عرض کیا ، یارسول اللہ، بخدا میں اپنے بیٹوں کو کبھی پیار نہیں کرتا ، وہ جوان بھی ہو جاتے ہیں اور ان کے داڑھی بھی نکل آتی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا "ن لا يَرحم لا يُرحم"۔ یعنی جو شخص رحم نہیں کرتا ، اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ (مسلم)
ایک مرتبہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ خرما کھا رہے تھے اور ان کی آنکھ میں تکلیف تھی۔ آپ نے ان سے فرمایا ، صہیب، تم خرما کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، میں دوسری داڑھ سے کھا رہا ہوں۔ آپ ان کا یہ جواب سن کر اتنا ہنسے کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں۔ (ابن ماجہ)۔ نعیمان الانصاری ایک خوش طبع اور ہنس مکھ آدمی تھے۔ ایک زمانے میں شراب بھی پیا کرتے تھے، شراب پی کر پکڑے جاتے تو لوگ انہیں آپ کی خدمت میں لے کر آتے، آپ انہیں جوتے لگاتے اور صحابہ بھی اپنے جوتوں سے مارتے۔ ایک روز کسی صحابی نے انہیں ملامت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ خدا تجھ پر لعنت کرے۔ حضور نے ان صحابی کو منع کیا اور فرمایا، اسے ایسی بات نہ کہوکہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ منورہ کے بازاروں میں جب بھی کوئی چیز بکنے کے لیے آتی ، یا کوئی خوانچہ فروش ان کی طرف آ نکلتا تو وہ حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ضرور خریدتے ، (چاہے ادھار ہی لینا پڑتا) اور یہ کہہ کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے کہ یا رسول اللہ، یہ میری طرف سے آپ کے لیے ہدیہ ہے۔ اس کے بعد جب دکاندار اپنے پیسوں کے تقاضے کے لیے آتا تو اسے بھی حضور کے پاس لے آتے اور عرض کرتے کہ یا رسول اللہ ، فلاں چیز کی قیمت دے دیجیے۔ آپ فرماتے کہ بھئی وہ چیز تو تم نے ہمیں ہدیہ کی تھی۔ عرض کرتے ، اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے اور میری خواہش تھی کہ آپ وہ چیز ضرور تناول فرمائیں۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا کر قیمت ادا فرما دیتے۔ بہرحال اس طرح کی خوش فعلیاں مباح ہیں لیکن ان پر مداومت کرنا برا ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
گیارہویں آفت- استہزاء :-
کسی کا مذاق اڑانا بھی پسندیدہ عمل نہیں ہے، کیونکہ اس سے دوسروں کو اذیت ہوتی ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔
. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۔
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں۔ (سورۃ الحجرات ، آیت نمبر 11)۔
تمسخر کے معنی ہیں اہانت و تحقیر کے ارادہ سے کسی کے عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔ تمسخر قول سے بھی ہو سکتا ہے، اشارے کنائے سے بھی اور اس کے فعل کی نقل کرنے سے بھی۔ اگر پیٹھ پیچھے ہو تو یہ غیبت ہے اور سامنے ہو تو تمسخر و استہزاء ہے۔ اگرچہ یہ غیبت نہیں ہے لیکن غیبت سے کسی طرح کم بھی نہیں ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک آدمی کی نقل اتاری تو حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، اللہ کی قسم مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل اتاروں۔ (ابوداؤد، ترمذی)۔
ایک روایت میں ان لوگوں کے انجام کی اطلاع دی گئی ہے جو دنیا میں لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ فرمایا کہ
" لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کے لیے جنت ایک دروازہ کھول دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ آؤ۔ جب وہ اپنے مصائب و آلام کے ساتھ دروازے کے قریب آئیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ۔ وہ اپنے مصائب و آلام کے ساتھ اس دروازے تک آئیں گے، اور دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ اسی طرح ہوتا رہے گا حتٰی کہ ایک مرحلہ وہ بھی آئے گا کہ جب ان سے کہا جائے گا، آؤ آؤ، تو وہ نہیں آئیں گے۔(ابن ابی الدنیا، عن حسن)۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ " جو شخص اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر عار (شرم) دلائے گا جس سے اس نے توبہ کر لی ہو تو وہ عار دلانے والا اس گناہ میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں مرے گا"- (ترمذی)
ان سب روایات کا ماحصل یہی ہے کہ دوسروں کی اہانت و تحقیر کرنا اور ان کا مذاق اڑانا جائز نہیں۔ آیت کریمہ میں اس کی وجہ بھی بیان کر دی گئی ہے کہ تم جن لوگوں پر ہنستے ہو اور انہیں برا سمجھتے ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ تم سے اچھے ہوں۔ کسی پر ہنسنا اس صورت میں منع ہے جب کہ اس کو اذیت ہوتی ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے اوپر ہنسنے سے خوش ہوتا ہو تو یہ مزاح میں داخل ہے۔ مزاح کی تفصیل گزشتہ صفحات میں کی جا چکی ہے، یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ صرف وہ استہزاء حرام و ممنوع ہے جس سے کسی کو اذیت ہوتی ہو۔ مثلاً کسی کی زبان سے گفتگو کے دوران کوئی غلط جملہ یا لفظ نکل جائے اس پر ہنسنا، یا کسی کے لہجے کی نقل اتارنا یا کسی بدخط آدمی سے کہنا کہ تم کتنا اچھا لکھتے ہو۔ کسی دراز قامت، پستہ قد ، موٹے یا حد درجہ دبلے آدمی پر ہنسنا، یا کسی کے نقصان پر ہنسنا، اس طرح کے استہزاء و تمسخر سے منع کیا گیا ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
بارہویں آفت۔ افشائے راز :-
کسی کا راز ظاہر کرنا بھی منع ہے کیونکہ اس میں بھی ایذا ہوتی ہے اور دوستوں اور شناساؤں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الحَدِيثَ ثُمَّ التَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ۔ یعنی جب آدمی کوئی بات کہے اور چلا جائے تو یہ (بات) امانت ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی-عن جابر)۔
ایک حدیث میں ہے الحدیث بینکم امانۃ۔ یعنی تمہاری باہمی گفتگو امانت ہے۔ (ابن ابی الدنیا۔ ابن شہاب)۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی بھائی کی وہ بات جسے وہ راز رکھنا چاہے، ظاہر کر دینا بھی خیانت ہے۔ مروی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ولید بن عتبہ سے کوئی بات کہی، انہوں نے اپنے والد کے پاس جا کر کہا، ابا جان! امیرالمؤمنین نے مجھ سے ایک بات کہی ہے اور میرے خیال میں جو بات مجھ سے کہی گئی ہے وہ آپ پر ضرور ظاہر ہو گی۔ انہوں نے کہا، بیٹے امیرالمؤمنین کی بات مجھ سے بیان مت کرو، اس لیے کہ جب تک آدمی راز چھپائے رہتا ہے وہ اس کے اختیار میں رہتا ہے اور جب ظاہر کر دیتا ہے تو دوسرے کے قابو میں چلا جاتا ہے۔ ولید نے کہا ، کیا باپ اور بیٹے کے درمیان بھی یہی بات ہے۔ انہوں نے جواب دیا ، اگرچہ باپ اور بیٹے کے درمیان ایسی بات نہیں ہے تاہم میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہاری زبان افشائے راز پر کھلے۔ ولید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ سے اس واقعے کا ذکر کیا، انہوں نے فرمایا، تیرے باپ نے تجھے خطاء کی غلامی سے آزاد کر دیا ہے۔ بہرحال کسی کا راز ظاہر کرنا خیانت ہے اور یہ حرام ہے اگر اس میں کسی کا ضرر ہوتا ہو۔ اگر ضرر نہ ہو تب بھی کمینگی کی علامت ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
تیرہویں آفت۔ جھوٹا وعدہ :-
جاننا چاہیے کہ زبان وعدہ کرنے میں سبقت کرتی ہے۔ پھر بعض اوقات نفس زبان کے وعدے کا پاس نہیں رکھتا اور اسے وفا کرنے آمادہ نہیں ہوتا۔ اس صورت میں وعدہ خلافی ہوتی ہے۔ یہ امر نفاق کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۔ اے ایمان والو! عہد کو پورا کرو۔ (سورۃ المائدہ، آیت نمبر 1)۔
حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وعدہ کو عطیہ قرار دیا ہے۔ جس طرح عطیہ واپس نہیں لیا جاتا اسی طرح وعدہ کر کے اس کے خلاف کرنا بھی صحیح نہیں۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا "وعدہ کرنا قرض دینے کے برابر یا اس سے افضل ہے"۔ (ابن ابی الدنیا، ابو منصور دیلمی)۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے پیغمبر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس وصف کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ وہ وعدے کے پکے تھے۔ عبداللہ بن ابی الخنساء کہتے ہیں کہ میں نے قبل از نبوت حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز خریدی تھی اور اس کی کچھ قیمت میرے ذمہ باقی رہ گئی تھی۔ میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ آپ یہیں ٹھہریں ، میں باقی رقم لے کر آتا ہوں۔ لیکن میں اس دن بھول گیا ۔ دوسرے دن بھی مجھے اس کا خیال نہ آیا۔ تیسرے دن وہاں پہنچا تو آپ اسی جگہ موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا، بھائی! تم نے تو ہمیں مشقت میں ڈال دیا، میں تین دن سے یہاں تمہارے انتظار میں ہوں۔ (ابو داؤد)۔
ابراہیم بن ادہم سے کسی شخص نے پوچھا اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کا وعدہ کر لے اور اس کا وقت بھی مقرر کر دے ، پھر وہ شخص نہ آئے تو کتنی دیر اس کا انتظار کیا جائے۔ آپ نے فرمایا، جب تک آنے والی نماز کا وقت نہ آ جائے ،منتظر رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کسی سے وعدہ کرتے تو ان شاء اللہ ضرور کہتے۔ یہی بہتر بھی ہے، پھر اس کے ساتھ ایفائے عہد کا پختہ ارادہ بھی ہو تو ایفا کرنا ضروری ہے، الاّ یہ کہ کوئی عذر پیش آ جائے۔ اگر وعدہ کے وقت پورا نہ کرنے کا ارادہ ہو تو یہ نفاق ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ۔منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے ، جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور امانت میں خیانت کرے۔( صحیح بخاری و مسلم)۔
یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو وعدہ کرنے کے باوجود پورا نہ کرنے کی نیت رکھتا ہو۔ مگر جس شخص کی یہ نیت ہو کہ وہ وعدہ پورا کرے گا، پھر کوئی عذر مانع بن جائے اور وعدہ پورا نہ کر سکے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہو گا اور اسے منافق نہیں کہا جائے گا، اگرچہ صورت نفاق ہی کی ہے۔ اس لیے جس طرح اصل نفاق سے بچنا ضروری ہے اسی طرح نفاق کی صورت اور اس کے شائبے سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے۔ کسی ضرورت کے بغیر اپنے نفس کو وعدہ وفا نہ کرنے کے سلسلے میں معذور نہ سمجھنا چاہیے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
چودہویں آفت۔ جھوٹ بولنا اور قسم کھانا :-
یہ بھی بد ترین عیب اور عظیم گناہ ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ظاہر و باطن ، قول و فعل اور مدخل و مخرج کے اختلاف کو نفاق کہتے ہیں، اور اس اختلاف و نفاق کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ
کبرت خیانۃ أن تحدث أخاک حدیثًا ہو لک بہ مصدق وأنت لہ بہ کاذب ۔ بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات کہے جسے وہ سچ سمجھتا ہواور حال یہ ہو کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ (بخاری فی ادب المفرد، ابو داؤد، سفیان بن اسید)
ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا ، التجارھم الفجار (تاجر ہی فاجر ہوتے ہیں)۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! تاجروں کو فاجر کیوں فرمایا گیا، کیا اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال نہیں کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ، نعم ولکنھم یحلفون ویاثمون ویحدثون فیکذبون۔ ہاں ! لیکن تاجر (جھوٹے) حلف اٹھاتے ہیں اور گناہ کماتے ہیں، بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں۔ (احمد، حاکم، بیہقی)۔ ایک مرتبہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے کہ یہ ارشاد فرمایا ، کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے گناہ ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا، شرک باللہ، اور والدین کی نافرمانی، پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا، جھوٹ بھی کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے۔ (بخاری و مسلم)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ " میری چھ باتیں مان لو، میں تمہارے لیے جنت کا وعدہ کر لوں گا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ وہ چھ باتیں کیا ہیں، فرمایا : جب بات کہو تو جھوٹ نہ بولو، وعدہ کرو تو خلاف نہ کرو، امانت میں خیانت نہ کرو، نگاہیں نیچی رکھو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور ہاتھوں کو (ایذا سے) روکو۔ (مستدرک حاکم)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی۔ چنانچہ آپ کو اگر کسی صحابی کے متعلق یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ دروغ گو ہے تو آپ کے دل میں کدورت ہوتی اور اس وقت تک آپ کا دل صاف نہ ہوتا جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اللہ عزوجل سے اپنے گناہ کی توبہ کر لی ہے۔ (مسند احمد)۔
کن مواقع پر جھوٹ بولنا جائز ہے :-
جاننا چاہیے کہ جھوٹ اپنی ذات کی وجہ سے حرام نہیں ہے، بلکہ اس لیے حرام ہے کہ اس سے مخاطب کو یا دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے۔ سب سے کم درجہ نقصان کا یہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز کا اعتقاد کر لیتا ہے جس کا حقیقت میں وجود نہیں ہوتا اور امر واقعی سے جاہل رہ جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی حقیقت سے ناواقف رہنے ہی میں منفعت اور مصلحت ہوتی ہے، اس صورت میں جھوٹ کی اجازت ہے۔ بلکہ بعض اوقات جھوٹ بولنا واجب ہے۔ میمون ابن مہران کہتے ہیں کہ بعض مواقع پر جھوٹ بولنا سچ بولنے سے بہتر ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کے پیچھے تلوار لے کر دوڑے اور اسے قتل کرنا چاہے اور وہ قتل کے خوف سے تمہارے ہاں کسی جگہ چھپ جائے اور دوسرا شخص تم سے یہ معلوم کرے کہ کیا تم نے فلاں شخص کو کہیں دیکھا ہے، اس صورت میں کیا تم یہ نہیں کہو گے کہ مجھے نہیں معلوم۔ تم اسے اس کے چھپنے کی جگہ سے آگاہ نہیں کرو گے، ایسا کرناتم پر واجب ہو گا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کلام مقاصد کے وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی اچھے مقصد تک پہنچنا جھوٹ اور سچ دونوں ذریعوں سے ممکن ہو تو جھوٹ بولنا حرام ہے، اور اگر صرف جھوٹ ہی کے ذریعہ ممکن ہو تو جھوٹ بولنا مباح ہے اگر وہ مقصد مباح ہو ۔ اور واجب ہے اگر وہ مقصد واجب ہو۔ چنانچہ مسلمان کے خون کی حفاظت کرنا واجب ہے، اس لیے اگر سچ بولنے سے مسلمان کی جان ضائع ہوتی ہے تو جھوٹ بولنا واجب ہے۔ اسی طرح اگر لڑائی میں دو شخصوں کے درمیان صلح کرانے میں اور مظلوم کے دل سے خوف و ہراس دور کرنے میں جھوٹ کے بغیر چارہ نہ ہو تو جھوٹ بولنا مباح ہے، لیکن اس سے حتی الامکان بچنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات آدمی کی زبان ضروری جھوٹ سے تجاوز کر کے غیر ضروری جھوٹ تک متجاوز کر جاتی ہے۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان تین مواقع کے علاوہ جھوٹ کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا، ایک دو شخصوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے، دوسرے جنگ میں، تیسرے میاں بیوی کی باہمی گفتگو کے دوران (مسلم)۔
جھوٹ کسی اہم ضرورت کے لیے مباح کیا گیا ہے، اگر اس ضرورت کے اہم ہونے ہی میں تردد ہو تو حرمت اپنی جگہ باقی رہے گی۔ مقاصد کے درجات انتہائی دقیق ہوتے ہیں ، ہر شخص کے لیے ان کا ادراک ممکن نہیں ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنا ہی اچھا ہے۔ اگر کوئی ضرورت بھی وابستہ ہو تب بھی جھوٹ ترک کر دینا چاہیے۔

کنایۃً بھی جھوٹ نہ بولنا چاہیے:- سلف سے منقول ہے کہ کنایتہً جھوٹ بولنا کذب کے دائرے میں نہیں آتا۔ بزرگوں کا مقصود یہ ہے کہ اگر انسان جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جائے تو اسے کنایۃً جھوٹ بول دینا چاہیے اگر یہ کنایہ کفایت کر جائے۔ اگر ضرورت اور مجبوری نہ ہو تو نہ صراحتاً جائز ہے اور نہ کنایۃً، تاہم کنایہ میں نرمی ہے۔ کنایہ کی مثال یہ ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عامل تھے۔ جب وہ گھر واپس آئے تو ان کی اہلیہ نے پوچھا تم بھی اپنے اہل و عیال کے لیے کچھ لے کر آئے ہو یا نہیں، دوسرے عمال تو لے کر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ نہیں لایا، میرے ساتھ ایک نگران موجود تھا۔ ان کی بیوی یہ سن کے متعجب ہوئیں اور کہنے لگیں ، عجیب بات ہے تم حضور اکرم کے دور میں بھی امین تھے، اور حضرت ابو بکر کے عہد خلافت میں بھی امین رہے۔ ان دونوں نے تو تم پر کبھی کوئی نگران مقرر نہیں کیا، حضرت عمر نے ایسا کیوں کیا۔ یہ بات انہوں نے دوسری عورتوں سے کہی اور اس کا اس قدر چرچا ہوا کہ کسی نے حضرت عمر سے بھی جا کر یہ کہہ دیا۔ آپ نے حضرت معاذ کو بلایا اور پوچھا کہ میں نے تمہارے ساتھ کس شخص کو نگران بنا کر بھیجا تھا؟ حضرت معاذ نے کہا کہ میری بیوی نے دوسرے عمال کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ اپنے گھر تحفے تحائف لے کر آتے ہیں تم کیوں نہیں لائے۔ میں نے اس کے جواب میں یہی کہہ دیا کہ میرے ساتھ ایک نگران تھا ، میرا مطلب یہ تھا کہ باری تعالیٰ میرے نگران تھے اور میرا ہر عمل ان کے سامنے تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر مسکرائے اور انہیں کچھ دے کر کہا کہ یہ لے جاؤ اور اپنی بیوی کوراضی کرو۔
ایک اور جھوٹ جس سے آدمی فاسق نہیں ہوتا وہ ہے جس سے مبالغہ مقصود ہو۔ مثلاً یہ کہنا کہ میں نے تجھے سو بار بلایا، یا ہزار بار فلاں بات کہی۔ خواہ بلانے والے نے سو بار نہ بلایا ہو یا کہنے والے نے ہزار بار وہ بات نہ کہی ہو لیکن اسے جھوٹا نہیں کہا جائے گا، کیونکہ اس طرح کے مواقع پر عدد کی تکثیر شمار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ مبالغے کے لیے ہوتی ہے۔ مبالغہ بھی خطرات سے خالی نہیں ہے۔ بعض مرتبہ آدمی مبالغہ سے گزر کر جھوٹ کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایک اور جھوٹ جسے لوگ عادتاً بولتے ہیں اور اسے جھوٹ بھی نہیں سمجھتے یہ ہے کہ جب ان سے کھانا کھانے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں بھوک نہیں ہے، حالانکہ بھوک ہوتی ہے۔ ایسا کہنا ممنوع و حرام ہے بشرطیکہ اس میں کوئی صحیح غرض نہ ہو۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

الشفاء

لائبریرین
پندرہویں آفت- غیبت : -
غیبت کی مذمت شرعی دلائل سے: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں غیبت کی مذمت کی ہے اور اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے ۔ ارشاد فرمایا:
وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۔ اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، اس کو تو تم ناگوار سمجھتے ہو۔ (سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12)
سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ۔ ہر مسلمان، اس کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو مسلمان پر حرام ہے۔ (مسلم-ابوہریرہ)۔ غیبت سے مسلمان کی آبرو پر حرف آتا ہے۔
ابو داؤد کی روایت ہے کہ "معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے چہروں کو ناخنوں سے نوچ کھسوٹ رہے تھے۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا ، یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں اور ان کی آبرو سے کھیلتے ہیں
حضرت حسن فرماتے ہیں ، بخدا غیبت آدمی کے دین پر اتنی تیزی سے اثر انداز ہوتی ہے کہ آکلہ (کینسر) مرض بھی اتنی تیزی سے جسم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ہم نے اکابرین سلف کو دیکھا ہے ، وہ لوگ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کو عبادت نہیں سمجھتے تھے بلکہ لوگوں کی بے آبروئی سے بچنے کو عبادت سمجھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، اللہ عزوجل کا ذکر کیا کرو کہ اس میں شفا ہے۔ لوگوں کا ذکر مت کیا کرو کہ اس میں بیماری ہے۔ ہم اللہ سے حسن توفیق کا سوال کرتے ہیں۔
غیبت کے معنی اور اس کی حدود:-
غیبت کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص کا اس طرح ذکر کیا جائے کہ اگر وہ سنے تو بُرا جانے، خواہ اس ذکر کا تعلق اس کے جسمانی نقص سے ہو یا اخلاقی عیب سے ہو ، خواہ اس کے قول کو ہدف بنایا جائے یا اس کے فعل کو، خواہ اس کے نام میں کیڑے نکالے جائیں یا نسب میں۔ اس کے دین ، اس کی دنیا یہاں تک کہ اس کے جانور میں بھی وہ الفاظ استعمال کرنا جو اسے ناگوار گزریں ، غیبت ہے۔ بدن کے عیب کی مثال یہ ہے کہ کسی کو چندھا، بھینگا یا گنجا کہا جائے۔ نسب میں کسی کے باپ کو غلام ، فاسق، موچی یا کسی مکروہ پیشے والا بتلایا جائے۔ اخلاقی عیب میں بد مزاج، بخیل، متکبر ، بزدل وغیرہ کہا جائے۔ دین سے متعلق افعال میں چور، جھوٹا، بے ایمان، ظالم ، عبادات میں سستی کرنے والا کہا جائے۔ دنیا سے تعلق رکھنے والے افعال میں زیادہ بولنے والا، زیادہ کھانے والا وغیرہ کہنا، کپڑوں میں عیب اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی آستینیں چوڑی ہیں، اس کا دامن وسیع ہے، اس کے کپڑے گندے اور میلے ہیں۔
ایک غلط استدلال اور اس کا جواب:-
بعض لوگ کہتے ہیں کہ دین کے سلسلے میں کسی کو کچھ کہنا غیبت نہیں ہے کیونکہ یہ اس چیز کی مذمت ہے جس کی اللہ نے مذمت کی ہے۔ ایک شخص گنہگار ہے، اگر اسے اس کے گناہ کی وجہ سے برا کہہ دیا جائے تو اس میں کیا خرابی ہے۔ دلیل میں یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک ایسی عورت کا تذکرہ کیا گیا جو بہت زیادہ نیک تھی اور کثرت سے روزے رکھتی تھی لیکن اپنے پڑوسیوں کو تکلیف بھی پہنچایا کرتی تھی۔ آپ نے فرمایا ، یہ عورت دوزخ میں جائے گی۔ (ابن حبان، حاکم) اسی طرح آپ کے سامنے ایک عورت کے بخل کا ذکر ہوا، آپ نے فرمایا کہ اگر وہ بخیل ہے تو اس میں کوئی خیر نہیں۔ (خرائطی مکارم الاخلاق) یہ استدلال غلط ہے کیونکہ صحابہ کرام حضور کے سامنے ان الفاظ میں لوگوں کا ذکر برائی یا اہانت کی غرض سے نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد مسائل اور احکام سے واقفیت حاصل کرنا ہوتا تھا اور حضور کی مجلس مبارک کے علاوہ اس کی کسی جگہ ضرورت نہ تھی، اس کی دلیل کہ ان امور کا ذکر غیبت میں داخل ہے یا نہیں علمائے امت کا اجماع ہے۔ غیبت کا ماحصل یہ ہے کہ کسی آدمی کے متعلق ایسی بات کہنا کہ اگر وہ سنے تو بُرا مانے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی یہی تعریف فرمائی ہے۔ آپ نے صحابہ سے دریافت فرمایا، جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں؟ عرض کیا گیا، اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا ،ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ ، یعنی اپنے بھائی کی ناپسندیدہ بات کا ذکر کرنا (غیبت) ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ، اگر وہ بات اس شخص میں موجود ہو، فرمایا: اگر موجود ہو تو غیبت ہے، ورنہ تہمت ہے۔ (مسلم، ابو ہریرہ)
غیبت کسی ایسی بات کا ذکر کرنا ہے جو اس میں موجود ہے اور بہتان وہ بات بیان کرنا ہے جو اس میں موجود ہی نہیں اور افک وہ بات بیان کرنا ہے جو تم نے کسی سے سنی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کسی کی غیبت نہ کرو، ایک مرتبہ میں نے سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں کسی عورت کے متعلق یہ کہہ دیا کہ وہ طویل دامن والی ہے۔ آپ نے فرمایا ، تھوکو، تھوکو۔ میں نے تھوکا تو گوشت کا لوتھڑا نکلا۔ (ابن ابی الدنیا)۔

(غیبت کا بیان جاری ہے۔۔۔۔۔)
 
Top