زاہدہ پروین دریا کے بہاؤ سی آواز

زبیر مرزا

محفلین
زاہدہ پروین کا نام ذہن میں آتے ہی ، کافی گائیکی کا عہد زریں یاد آجاتا ہے ۔ کیونکہ زاہدہ پروین نے اپنی شیریں ، تاثیر انگیز اور دریا کے بہاؤ سے آواز کے خرام سے دلو ں پر انمٹ نقش چھوڑا ہے ۔ زاہدہ پروین امرتسر کے مردم خیز شہر میں25 19ء کو پیدا ہوئیں ان کا گھرانہ ، کوئی اہم گویوں کا نہ تھا ، اس لئے اوائل عمری میں بڑی بہن پیراں دتی نے باب تاج امرتسری کا شاگرد کرایا ، وہ بچپن ہی میں والدین کی ناگہانی موت اور غربت وافلاس کی وجہ سے اس لائق نہ تھیں کہ کسی بڑے گویے سے موسیقی کی تعلیم حاصل کر تیں ۔
اس دور میں امرتسر فنون لطیفہ کا مرکز کا تھا اور آئے دن کنسرٹ ہوتے رہتے تھے ۔ جس میں برصغیر کے نامور گائیک حصہ لیتے ۔ زاہدہ پروین کے کان کم سنی ہی میں استاد تو کل حسین خان ، استاد عاشق علی خان ، بھائی لال امرتسر ی ، الٰہی جا ن جگرانوالی سے آشنا ہو چکے تھے ۔ اپنے شوق اور خداداد پُر سوز گلے کی خوبی کہیے کہ وہ اوائل عمری ہی میں ایسا گاتیں کہ لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ۔ انجام کا ر ، وہ استاد عاشق علی خان جیسے بے مثال کلاسیکل استاد کی شاگردی اختیار کرنے میں کامران ہوئیں اور 1947ء میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی اپنی بہنوں کے ہمراہ لاہور آگئیں ، یہاں انہوں نے استاد عاشق علی خان سے راگ ودیا کے باب میں علم حاصل کیا ۔
استاد عاشق علی خان کو اپنی اس شاگردہ پر بڑا مان تھا اور ان کا اندازہ سو فیصد درست نکلا کیو نکہ زاہدہ پروین نے خیال گائیکی کے ساتھ ہی ٹھمری ، غزل ، کافی ، اور گیتوں میں نامور موسیقاروں اور استادانِ فن سے تحسین پائی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ زاہدہ پروین شاگرد تو ہوئیں استادعاشق علی خان مرحوم کی مگر انہوں نے گانے کا انگ تو کل حسین خان کا اپنایا ۔ تیسری بات یہ کہ زاہدہ پروین ان نامور گائیکوں کے ہوتے ہوئے حقیقت میں متاثر استاد امیر خان اندوروالے سے تھیں ۔ اس کا اظہار انہوں نے انٹر ویو میں بھی کیا ۔ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ کس درجہ طناز اور راگ ودیا کے بارے میں حساس اور ذہین خاتون تھیں ۔
اس امر میں ذرہ بھی کلام نہیں کہ کلاسیکل موسیقی پر جو دستگاہ استاد امیر خان اندور والے کو ہے ، وہ ضرب المثل کے مصداق ہے دوسرے لفظوں میں زاہدہ پروین نے یہ بتایا کہ وہ راگ کی صحت اورکمال کیلئے کس درجہ تڑپ رکھتیں تھیں ۔ یہی بات ہے کہ زاہدہ پروین نے تھوڑے ہی عرصے میں ملک گیر شہرت حاصل کی ۔ 50 ء کی دہائی کا یہ زمانہ پاکستان میں فنون لطیفہ کے فروغ کا تھا ۔ استاد بڑے غلام علی خان بھی پاکستان میں تھے ، استاد امیر علی خان ، روشن آراء بیگم ، استاد نزاکت علی خان ، استاد سلامت علی خان ، استاد فتح علی خان ،استاد امانت علی خان بھی آسمان موسیقی پر پوری تابنا کی کے ساتھ جگمگا رہے تھے ۔
اس کہکشاں میں زاہدہ پروین نے اپنے اسلوب فن کی دجدا گانہ تراش کے بعد سب کو ورطۂ حیرت میں ڈالا ، زاہدہ پروین نے 50ء کے اوائل میں استاد عاشق علی خان کے وصال کے بعد ریڈیو پاکستان اور فلمو ں میں بھی قسمت آرمائی کی اور راگ کے ساتھ ساتھ ٹھمری ، دادرا ، غزل ، گیت ، کا فی کو بھی اپنے دائرہ فن میں سمیٹ لیا ۔ بابا جے اے چشتی ، رشید عطرے اور رحمن ورما کے اصرار پر زاہدہ پروین نے یادگار نغمات ریکارڈ کروائے ۔ ان میں فلم ’’ وعدہ ‘‘ میں درباری کا خیال ’’نین سے نین ملائے رکھتے ‘‘ فلم جان بہار ، اب تو جی بھر کے خنجر چلائنگے ہم ، کے علاوہ فلم مورنی میں اُن کا نہایت سُریلا اور خوبصورت گیت ’’ ڈھول مسافرا‘‘ کے علاوہ فلم دربار کا ’’ میری پریت بڑی انمول ‘‘ کا بھی جواب نہیں ان کے علاوہ فلم بے گناہ ، بچہ جمہورا ، مندری ، بلو، پرکھا اور دُلا بھٹی میں بھی زاہدہ پروین نے شہرت کے پرچم گاڑھے ۔
مگر فلم کی مسموم اور سازشی فضا میں زاہد ہ پروین سی زاہدہ ، فقیر منش مغینہ کا رہنا محال تھا ۔ پابانِ کار ، زاہدہ نے کئی نامور موسیقاروں کے اصرار کے باوصف فلمی دنیا کو خیر باد کہا اور پھر اس مصنوعی دنیا کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔
زاہدہ باطنی طور پر درویش صفت خاتون تھیں ، اس زمانے میں ان سے قادرفریدی کی ملاقات ہوگئی اور انہوں نے اس کے گلے کے پھیلاؤ بے پناہ سوز اورسریلے پن کو دیکھ کر اُسے حضرت خواجہ فرید ؒ کی کافیاں گانے پر راجع کیا اور زاہدہ پروین نے تن بہ تقدیر ہو کر خواجہ فریدؒ کی کافیوں کو حدیث دل بنا لیا ۔
زاہدہ پروین نے نیاز حسین شامی سے بھی اکتساب فن کیا اور کافیوں کے ساتھ ساتھ مغربی اور مشرقی پاکستان کی محافل مو سیقی میں غزلیں بھی گائیں ۔ یہ غزلیں انہوں نے ریڈیو پاکستان میں اولاً ریکارڈ کروائیں تھیں ۔
زاہدہ پروین کی فی الجملہ ، شہرت اس دور میں کافی کی وجہ سے بہت پھیل چکی تھی ۔ قسمت کی خوبی کے اسے ملتان کے قریب ایک گاؤں قصبہ مڑل کے جاگیر دار پیر بخش مڑل کی سرپرستی حاصل ہو گئی اور 60ء کی دہائی میں وہ قصبہ مڑل میں سکونت پذیر ہوئیں اور سرائیکی وسیب میں اپنی آواز کا سونا اس حسن سے بکھیرا کہ یہاں اس کے طرز احساس نے کا فی کو زندہ کر دیا ۔ قصبہ مڑل کا زمانہ معاشی اعتبار سے پُر سکون رہا۔
خواجہ فریدؒ کی کافی گائیکی کا انداز بدرو بائی ملتانی ، گھن پت رام ، عنایت بائی ڈھیر والی ، حاجی عبدالرحمن فریدی ، حیدر باندی حتیٰ کہ استاد نزاکت علی خان ، استاد سلامت علی خان ، حسین بخش ڈھاڈی کی وجہ سے چہارانگ عالم میں گونج رہا تھا ۔ مگر زاہدہ پروین نے کافی گائیکی کو اپنی سحر طراز آواز میں یوں گایا کہ کافی سرائیکی وسیب کے ریگزاروں میں سونے کی مثال چمک اُٹھی ۔
زاہدہ پروین کا گلا خالصتاً کلاسیکل وضع کا تھا اور اپنے عہد کے مایہ ناز کلاسیکل گائیکوں سے استفادہ کے باعث اس کی گائیکی میں صحراؤں سی وسعت اور روحانیت در آئی ۔ زاہدہ پروین کو بھیرویں ، پیلو ، سندھڑا، جو گ ، مالکونس ،پہاڑی ، تلنگ ، ایمن ، جو نپوری ، باگیشری ، کیدارااور بھیم پلاسی سے بے پناہ لگاؤ تھا ۔ قدرت نے اسے مشکل کلاسیکل راگو ں کے مقامات کو سرکرنے کا حسن اور استعداددی تھی اس واسطے زاہدہ پروین نہایت سہولت سے مرکیوں ،تان ، پلٹا اور گمگ کی ادائیگی پر قادر تھیں ، وہ لے اور تال اور ماتروں کی تقسیم میں بھی طاق تھیں اور بڑے بڑے طبلہ نواز یا سارنگی نواز سنگیت استغراق اور نڈرپن سے گاتی تھیں ، وہ ان کے اولین برسوں کے شب و روز کے زبردست ریاض کی وجہ سے تھا ۔وہ راگ میں کبھی کبھار سریتوں کا استعمال بھی کرتی رہتیں ، مگر عمر کے آخری حصے میں نقاہت اور نشے کی کثرت نے اُسے کمزور کر دیا تھا ۔
زاہدہ پروین کی گائیکی کے عناصر ترکیبی میں کافی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ،انہیں کافی کے میدان میں ایک یکتا اور بینظیرفنکارہ کا درجہ حاصل ہے ، تخصیصاً خواجہ فرید ؒ کے کلام کو انہو ں نے جس والہانہ پن اور فنی کمال کے ساتھ گایا ہے ، وہ ناقابل تقلید اور تناسب فن کے نقطہ نظر سے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے ، انہوں نے خواجہ فرید ؒ کی کم وبیش ستر سے زائد کافیوں کے ذریعے عوام الناس کے دلوں پر راج کیا ۔
ان کافیوں کی معنونیت کو آواز کے پیکر میں یوں اُتارا ہے کہ کافی کا مرکزی خیال ایک وحدت میں ڈھل کر سامنے آجاتا ہے یا یوں کہیے کہ کافی مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے ۔ زاہدہ پروین نے صرف پچاس برس کی عمر پائی ۔ ہر چند انہوں نے گانا محض دس برس کی عمر میں آغاز کیا تھا اور یوں ان کی گائیکی کا زمانہ چالیس برس پر پھیلا ہے ۔ ان چالیس سالوں کے دوران میں آواز کا سحر ، برصغیر میں دوام کا سبب بنا ہے وہ کم فنکاروں کے مقسوم میں آیا ہے ۔
(بشکریہ علی تنہا)
 

زبیر مرزا

محفلین
کیا حال سناواں دل دا کوئی محرم راز نا مل دا


کیا حال سُناواں دِل دا
کوئی محرم راز نہ مِل دا
دلِ زار کا حال کیا سناؤں کہ کوئی محرم راز ہی نہیں ملتا۔

مونہہ دُھوڑ مٹی سر پایم
سارا ننگ نموج ونجایم
کوئی پُچھن نہ ویہڑے آیم
ہتھوں اُلٹا عالم کِھل دا
ننگ نموج - عزت و شرم، ونجایم - گم کرنا، ہتھوں - بلکہ، کھل دا - ہنستا ہے
اس عشق نے میرے چہرے اور سر میں مٹی ڈال دی ہے اور ساری عزت و شرم و وقار برباد ہو گیا ہے، اور کوئی بھی میرا یہ حال دیکھنے میرے گھر نہیں آیا بلکہ الٹا لوگ ٹھٹھا اور مذاق کرتے ہیں۔

آیا بھار برہوں سِر باری
لگی ہو ہو شہر خواری
روندے عمر گذاریم ساری
ناں پایم ڈس منزل دا
برہوں - ہجر، ڈس - سراغ
میرے سر پر ہجر کا بھاری بوجھ آن پڑا ہے، اور شہر شہر رسوائی اور خواری ہو رہی ہے، اور اسی حالت میں ساری عمر روتے روتے گزر گئی ہے لیکن پھر بھی منزل کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

دل یار کِتے کُرلاوے
تڑپاوے تے غم کھاوے
دُکھ پاوے سُول نبھاوے
ایہو طَور تینڈے بیدل دا
میرا دل یار کی جدائی میں روتا ہے، تڑپتا ہے اور غم کھاتا ہے، دکھ سہتا ہے اور درد برداشت کرتا ہے، تیرے عاشق کی یہی حالت ہے۔

کئی سہنس طبیب کماون
سے پڑیاں گھول پیاون
مینڈے دل دا بھید نہ پاون
پوے فرق نہیں ہِک تِل دا
سہنس - تجربہ کار، سے - سو
کئی سیانے اور تجربہ کار طبیب مرا علاج کر رہے ہیں، سو سو دوائیں گھول گھول کر پلا رہے ہیں، لیکن وہ میرے دل کا راز نہیں پاتے اور انکے اس درمان سے مجھے کوئی ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔

پُنوں ہُوت نہ کھڑ موکلایا
چھڈ کلہڑی کیچ سدھایا
سُوہنے جان پچھان رُلایا
کُوڑا عذر نبھایم گِھل دا
نہ کھڑ موکلایا - ساتھ نہ لے کے گیا، کُوڑا - جھوٹا، گِھل دا، کچی نیند کا
پنوں مجھے ساتھ نہیں لے کے گیا اور اکیلی چھوڑ کر کیچ چلا گیا ہے، اس کی جان پہچان نے رلایا ہے اور اس نے سب کچھ بھلا دیا ہے اور میں نے اس حالتِ زار میں کچی نیند کا جھوٹا بہانہ کر لیا ہے۔

سُن لیلیٰ دھانہہ پکارے
تینڈا مجنوں زار نزارے
سُوہنا یار توڑیں ہک وارے
کدی چا پردہ محمِل دا
دھانہہ -فریاد، زار نزار - غموں کا مارا ہوا، کمزور
اے لیلیٰ میری فریاد سن لے، تیرا یہ مجنوں غموں کا مارا ہوا ہے۔ اے دوست کبھی ایک بار محمل کا پردہ اٹھا کر مجھے اپنا دیدار عطا کر دے۔

دل پریم نگر ڈوں تانگھے
جتھاں پینڈے سخت اڑانگے
نہ یار فرید نہ لانگھے
ہے پندھ بہوں مشکِل دا
ڈوں - طرف، تانگھے - چاہے، اڑانگے - دشوار، لانگھے - رستے، پندھ - سفر
دل پریم نگر کی طرف جانے کی چاہ رکھتا ہے، لیکن وہاں کے راستے بڑے دشوار ہی ہیں اور فرید ادھر کی راہوں سے واقف نہیں ہے، یہ سفر بہت ہی مشکل ہے۔

کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مِل دا
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت اعلی۔
مرزا صاحب آپ نے موسیقی کے ایک درخشندہ ستارے کا انتہائی تفصیلی تعارف کروایا ہے۔ بے حد شکریہ۔ بلاشبہ زاہدہ پروین کے بغیر پاکستانی کی موسیقی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
زاہدہ پروین کا تعارف کرانے کے لیے شکریہ۔۔۔ میں نے محترمہ کا نام ہی ابھی پہلی بار سنا ہے۔ :)
 

تلمیذ

لائبریرین
زاہدہ پروین کا تعارف کرانے کے لیے شکریہ۔۔۔ میں نے محترمہ کا نام ہی ابھی پہلی بار سنا ہے۔ :)
ان کی کافیاں اگرآپ کو کہیں سے مل سکیں تو ضرور سنیں۔ آپ کو یقینا لطف آؕئے گا۔ ان کے چند فلمی گانے بھی ہیں ۔ وہ بھی آپ کو اچھے لگیں گے۔
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ بہت خوب سماں باندھ دیا کرتی تھی اپنی گائیگی سے محترمہ زاہدہ پروین صاحبہ
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم زبیر بھائی
 
زبردست کلاسیکل سنگر تھیں زاہدہ پروین۔۔۔خواجہ غلام فرید کا کلام بہت خوبصورت طریقے سے گایا ہے انہوں نے۔۔۔یہ بھی سنئیے ذرا۔۔
ہے عشق دا جلوہ ہر ہر جا، سبحان اللہ سبحان اللہ

 

فاتح

لائبریرین
زاہدہ پروین کی بیٹی شاہدہ پروین بھی اپنی والدہ کی طرح کافیاں گانے کے لیے مشہور تھیں لیکن میں نے شاہدہ پروین کی آواز میں سب سے پہلا کلام جو سنا وہ تھا ان کی گائی ہوئی غزل "دیپک راگ ہے چاہت اپنی، کاہے سنائیں تمہیں" تھی اور مجھے شاہدہ کا گایا ہوا یہی کلام سب سے زیادہ پسند ہے۔
دیپک راگ ہے چاہت اپنی، کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں، کیوں سلگائیں تمہیں​
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
عابدہ پروین صاحبہ بھی انہی کی رشتہ دار ہیں کیا ؟
نام کا پہلا حصہ ہم قافیہ اور دوسرا حصہ مشترک۔۔۔ صوتی تاثر تو یہی ابھرتا ہے کہ بہن ہی ہوں گی لیکن شاہدہ پروین اور زاہدہ پروین امرتسر کی پنجابی خواتین تھیں اور عابدہ پروین لاڑکانے کی سندھی خاتون۔ کوئی قریبی رشتے داری تو نہیں لگتی۔
زاہدہ پروین پٹیالہ گھرانے کے استاد کی شاگرد تھیں اور عابدہ پروین شام چوراسی گھرانے کے استاد کی۔
 
Top