رہے گا پنجرہ خالی!

رہے گا پنجرہ خالی!


ریمنڈ ڈیوس رہا!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نہیں کہتے تھے!
تو لاکھ حفاظت کرلے
تولاکھ کرے رکھوالی
بےکار ہے تیرا رونا
بےکار ہے آہ وزاری
...اُڑجائے گا اک دن ریمنڈ
رے گا پنجرہ خالی
پنجرہ خالی!!!

ٓآخرکارگُذشتہ چند ماہ سے جو ایک بحث و مباحثہ کی فضا بنی ہوئی تھی بلاخر ریمنڈ کی رہائی کے بعد خود ہی چھٹ گئی!

اور اس خبرکے آنے کی دیر تھی کہ ایک بار پھر سے لکیر پیٹنے کا عمل شروع ہوگیا!

اب جب ریمنڈ ڈیوس رہاہونے کے بعد پاکستان سے سُدھار چکا ہے تو ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرائے جانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ کل سے میں ریمنڈ کی رہائی کے حوالے سے نجانے کتنے تبصرہ سُن چکا ہوں کہ اب یہ یاد نہیں کہ کس شخص نے کیا بات کہی ہاں مگر ایک چیز ہے جو باعثِ تکلیف بنی وہ یہ کہ ہر دوسرے شخص کی گفتگو کے آخری الفاظ کُچھ اس طرح کے تھے



ُبہت اچھا ہوا، ہمارے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا‘ یا پھر کوئی یہ بول رہا تھا ’ہماری قوم ہی بے غیرت ہے اس کے ساتھ جوہو وہ اچھا ہے’

ہرگفتگو زہر بھرالہجہ لئیے ہوئے، ہرلفظ حقارت میں ڈوبا ہوا!

صرف بات اتنی ہے جو ہمیں سمجھ لینی چاہئیے کہ ریمنڈ ڈیوس جا چُکا ہے مگر اس کے رہائی کے حوالے سے جو ہم پوری قوم کو موردِ الزام ٹہرا رہے ہیں اس کو بے غیرت جیسے القابات سے نواز رہے، یہ رویہ اور سوچ انتہائی غلط ہے کون نہیں جانتا یا کس کو یہ بات نہیں پتا کہ شروع سے آخر تکپس پردہ کیا کُچھ چلتا رہا ہے؟ اب یہ بحث ہی لاحاصل ہے مگر کیا ہماری قومی عزت ووقار اتنا ہی حقیر اور بے وقعت ہے کہ کوئی بھی شخص مُنہ کھول کے بے غیرتی کا الزام دھردے؟

مُجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ خود کو حقیر سمجھنے کی یہ خُو ہم میں کہاں سے آگئی؟

ہماری ذات اُس وقت کسی کی تنقید و مذاق کا نشانہ بنتی ہے جب ہم اپنی ذات سے لاتعلقی کا اظہارکرتےہوئے لوگوں کے ہر روئے ہر بات پر چُپ سادھ لیں اور یہی چیزیں دوسرے لوگوں کو اپنے اپنے الفاط میں تبصرہ کرنے کے لئے آذاد بنادیتی ہیں!

ہم نے جانے انجانے ۔ ہی سہی مگر اُسی راہ پر چلنا شروع کردیا ہے جس پرایک مخصوص طبقہ اور کُچھ مخصوص لوگ ہمیں چلانا چاہتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ اور قومیں خود کو حقیر سمجھنا شروع کردیتی ہیں وہ انفرادی و قومی طور پر اپنا وقار و تشخص کھو بیٹھتی ہیں اور پھر اُن کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا اور اُن کے ہاتھ صرف وہ صفحات۔ آتے ہیںجہاں تاریخ کی صورت میں اُن کی ذلت ورسوائی کی داستان چپھی ہوئی ہوتی ہے!



ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے یہاں مسائل پیدا نہیں ہوتے کئیے جاتے ہیں اور وہ بھی اس سوچ کہ پیش نظر کہ کہ کس کو کتنی اہمیت دینی ہے؟ کس کو کتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے؟ اور کس مسئلے میں کس حد تک اپنا ذاتی مفاد اور فائدہ تلاش کرنا ہے!



ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں مسائل پیدا نہیں ہوتے کئیے جاتے ہیں اور وہ بھی اس سوچ کہ پیش نظر کہ کہ کس کو کتنی اہمیت دینی ہے؟ کس کو کتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے؟ اور کس مسئلے میں کس حد تک اپنا ذاتی مفاد اور فائدہ تلاش کرنا ہے!

یہ وہ لوگ ہیں جوکسی بھی مسلئے اور واقعے کو اپنی ضرورتوں کے پیشِ نظر زندہ یا مردہ بنادیتے ہیں!

ہمارے ذہن میں حقیر اور کمتر جیسے سوچیں بٹھاکر یہ پہلے ہی ہمیں کمزور سے کمزورتر بنارہے ہیں اور اُس پر مسداد یہ کہ ہم بھی اُسی راہ پر اندھادُھند چلنا شروع کردیتے ہیں۔

ہماری جب تک یہ سوچ رہے گی کہ جو ہورہا ہے ہونے دو جو چل رہا ہے چلنے دو! تب تک ہمارا ایسے ہی استحصال ہوتارہے گا جب تک ہم دوسروں کے مرتب کیئے گئے فیصلوں پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ غلط ہیں سر جھکاتے رہیں گے۔ کم از کم اب ہمیں اس بات کا ادراک اچھی طرح ہوجانا چاہئیے کہ گو ہم سینکڑوں نام نہاد سیاستدانوں میں کے بیچ میں گھرے ہوئے ہیں گو ہم دانستہ اور غیردانستہ اُن

کے کھیلے جانے والے کھیل کا حصہ بنتے رہیں گے شکست ہمارا ایسے ہی مقدر بنتی رہے گی۔ راستہ ہمارا ہے، قدم ہمارے ہیں تو اپنی منزل کا تعین بھی ہمیں خود ہی کرنا ہوگا۔ اپنی ملکی فلاح وبقا کے لئیے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس سیاستدان بہت ہیں مگر اب کوئی دوسرا قائد اعظم نہیں آنے کا جب تک پاکستان ہے ہم ہیں ہماری پہچان ہے ہماری اپنی تحقیر و ذلت ہماری اپنی ذات سے ہی وابستہ نہیں اس کا براہ راست نشانہ ہمارے اپنے ملک کی عزت وعظمت کے لئیے تازیانہ ہے، اپنا ذاتی و ملکی وقار برقرار رکھنے کے لئیے ہمیں ایسی تمام مُنفی سوچوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اسی میں ہماری بقا ہے!



ندیم جاوید عثمانی
 

محمداحمد

لائبریرین
ٹھیک کہا آپ نے ۔ ہماری قوم بہت غیرت والی ہے اس لئے یہ بات اُن کے لئے اتنی تکلیف دہ ہے کہ وہ خود کو لعنت ملامت کر رہے ہیں کہ اُن کا اختیار اپنی ذات تک ہی محدود ہے اور سیاست دانوں کے معاملے میں وہ لاچار ہیں۔

بہر کیف یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا آپ نے کردیا ہے جس بات کو آپ "لکیر پیٹنے" سے تشبیہ دے رہے ہیں وہ بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اس قسم کی حرکات کی بھرپور مذمت نہیں کی گئی تو آپ کے پیارے حکمرانوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا (جو کہ اُنہیں پہلے ہی ملا ہوا ہے :) ) پھر بھی جب جب وہ بہکیں اُنہیں ہوش میں لانا بہت ضروری ہے کہ بے غیرتی اُن کی فطرت ہے لیکن ایک حد میں رہیں تو بہتر رہے گا۔

اُمید ہے کوئی بات طبیعت پر گراں نہیں گزری ہو گی۔
 
Top