ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام! اس وقت اردگرد کی عمومی صورتحال اتنی امید افزا نہیں ۔اُدھر برصغیر میں جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور اِدھر اردو محفل کا یومِ رحلت طے ہوچکا ۔ اگرچہ نین بھائی دھڑادھڑ مراسلہ باری کررہے ہیں لیکن اکثر اراکین چپ ہیں ، شاید ابھی تک اداسی اور مایوسی کی کیفیات سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر یہ ایک پرانی غزل یاد آئی کہ اکثر اشعار میں رجائیت نمایاں ہے۔ امید ہے کہ کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
***
رکھ رہا ہوں میں زمینوں میں شجر کی امید
مجھے سائے کی تمنا ، نہ ثمر کی امید
جس طرف لے چلی وارفتگیِ شوق مجھے
نقشِ پا بنتے گئے راہ گزر کی امید
اور کیا کام دوانے کا ترے کوچے میں
اک تلطف کی توقع ہے ، نظر کی امید
یعنی ہے بیم و رجا کا یہ تماشائے دراز
مختصر عرصۂ ہستی میں بشر کی امید!
ایک شب خون نیا قافلے والوں پہ پڑا
جب کبھی بندھنے لگی رختِ سفر کی امید
راہ خود رہبری کردے تو کرم ہے ورنہ
کارواں چھوڑ چکا میرِ سفر کی امید
غمِ دنیا نے تو موقع دیا ہر بار نیا
غمِ جاناں سے نہیں بارِ دگر کی امید
درِ کعبہ سے ملے ہیں یہ تبرّک میں مجھے
زیرِ لب حرفِ دعا ، دل میں اثر کی امید
تیری دنیا میں مسافر ہوں ، خدایا مجھ کو
وہ سفر دے جو بنے زادِ سفر کی امید
کچھ دیئے ایسے جلے ہیں کفِ جادہ پہ ظہیؔر
سینۂ شب میں جھلکتی ہے سحر کی امید
*****
ظہیؔر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2021
***
رکھ رہا ہوں میں زمینوں میں شجر کی امید
مجھے سائے کی تمنا ، نہ ثمر کی امید
جس طرف لے چلی وارفتگیِ شوق مجھے
نقشِ پا بنتے گئے راہ گزر کی امید
اور کیا کام دوانے کا ترے کوچے میں
اک تلطف کی توقع ہے ، نظر کی امید
یعنی ہے بیم و رجا کا یہ تماشائے دراز
مختصر عرصۂ ہستی میں بشر کی امید!
ایک شب خون نیا قافلے والوں پہ پڑا
جب کبھی بندھنے لگی رختِ سفر کی امید
راہ خود رہبری کردے تو کرم ہے ورنہ
کارواں چھوڑ چکا میرِ سفر کی امید
غمِ دنیا نے تو موقع دیا ہر بار نیا
غمِ جاناں سے نہیں بارِ دگر کی امید
درِ کعبہ سے ملے ہیں یہ تبرّک میں مجھے
زیرِ لب حرفِ دعا ، دل میں اثر کی امید
تیری دنیا میں مسافر ہوں ، خدایا مجھ کو
وہ سفر دے جو بنے زادِ سفر کی امید
کچھ دیئے ایسے جلے ہیں کفِ جادہ پہ ظہیؔر
سینۂ شب میں جھلکتی ہے سحر کی امید
*****
ظہیؔر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2021