کاشفی

محفلین
رونق ِجہاں پاکستان
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

اب تو میں یہ سوچتا ہوں کہ پاکستان نہ ہوتا تو کرہِ ارض پر سوائے خالی پن ، بوریت ، اور اداسی کے بھلا کیا ہوتا۔تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے۔۔۔۔۔کہاں ملے گا ’جہاں ہے اور جیسا ہے ‘ کی بنیاد پر ایسا ملک جہاں کامیڈی، ٹریجڈی اور ٹریجڈی کامیڈی ہوجاتی ہو ۔اقلیت عقلیت پر غالب ہو۔
یہاں طرح طرح کی انفرادی و اجتماعی کشش کا سامان کب وافر نہ تھا ۔مہمان نواز ایسے کہ بھلے کوئی سر پے بم پھوڑ کے بھی چلاجائے تب بھی پاسِ میزبانی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔قوتِ برداشت ایسی کہ کوئی طاقتور دائیں گال پر تھپڑ ماردے تو بایاں بھی بڑھا دیتے ہیں۔ فراست ایسی کہ بیالیس برس پہلے اکثریت اقلیت سے جان چھڑا کر بھاگ لی۔
مروت ایسی کہ کوئی کمزور حق مانگ لے تو اس کی قبر پر ’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘ لکھوا دیتے ہیں۔ انا ایسی کہ گھر کے جھگڑوں کا تصفیہ کروانے کے لیے دساور سے مقدس ثالث منگوائے جاتے ہیں اور دماغ ایسے کہ امامت ِ عالمِ اسلامی کا وارث کسی اور کو نہیں گردانتے۔
فراغ دلی ایسی کہ ایک ہی کھوپڑی میں روشن خیالی اور عقل چوس کہنہ نظریات ساتھ ساتھ سوتے ہیں ۔آزادی اس قدر کہ ٹیکس، محصول ، واجبات ، بل ، قرضہ ، تنخواہ اور بنیادی حقوق دیں نہ دیں ۔چاہے تو صفائی کریں دل چاہے تو صفایا کردیں۔چاہیں تو دوہرے راستے کو ون وے کردیں نہ چاہیں تو ون وے بھی بند کردیں۔چاہیں تو ٹائر گاڑی میں لگائیں یا پھر چوک میں جلائیں۔ڈگری امتحان دے کر لیں یا امتحان لینے والے کی ڈگری نکلوا دیں۔
فیصلہ جرگے سے کرائیں کہ سرکاری و نجی شرعی عدالت سے کہ اینگلوسیکسن کورٹ سے کہ خصوصی ٹریبونل سے ۔جیسی آپ کی گنجائش ، قسمت اور اوقات۔۔۔۔پھر بھی منصفوں کی آدھی توانائی فیصلے سنانے میں اور باقی آدھی ان پر عمل کرانے کی کوشش میں صرف ہوجاتی ہے۔نوبت بہ ایں جا رسید کہ ان دنوں منصف طلبِ انصاف کے لئے سوئٹزر لینڈ اور عوام برطانوی نظامِ انصاف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
شاید یہ واحد ملک ہے جہاں حکمرانوں کو ہر ہفتے کہنا پڑتا ہے کہ وہ عدلیہ کا دل سے احترام کرتے ہیں۔جہاں ماتحت فوجی قیادت کو ہر تیسرے مہینے حکومت کی بالادستی کی قسم کھانا پڑتی ہے۔جہاں فول پروف سیکورٹی کا مطلب ہے کہ ہر فول اپنی سیکورٹی کا خود ذمہ دار ہے۔جہاں واردات کے بعد سیکورٹی بڑھا دی جاتی ہے۔جہاں پہلے سے ریڈ الرٹ سیکورٹی دستوں کو دوبارہ الرٹ ہونے کا حکم جاری ہوتا رہتاہے۔
اگرچہ یونیسکو نے پاکستان کو رسمی طور پر عالمی ورثہ قرار نہیں دیا مگر عملاً یہ عالمی ورثہ ہی تو ہے۔جس مفرور کو کہیں پناہ نہ ملے پاکستان اس کے لئے جہاں پناہ ہے۔رہی بات عالمی برادری کی تو کچھ ممالک صرف سفارتی صاحب سلامت رکھنا پسند کرتے ہیں۔کچھ کو محض تجارتی تعلقات کے نام پر اپنی اشیا و مشاورت بیچنے سے دلچسپی ہے۔کچھ اسے پاکستان لمیٹڈ کمپنی کے طور سے دیکھتے ہیں اور نہ صرف اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں بلکہ مارکیٹ میں لانے کے بجائے آپس میں ہی شئیرز خریدتے بیچتے رہتے ہیں۔
اس کمپنی کے چھیاسٹھ برس کے سٹاکس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ انچاس فیصد شئیرز مقامی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں۔باقی اکیاون فیصد میں سے چالیس فیصد اینگلو سعودی امریکن کنسورشیم کی ملکیت ہیں اور گیارہ فیصد شیرز چین ، ایران اور عالمی مالیاتی اداروں نے خرید رکھے ہیں۔منافع کی تقسیم بھی اسی تناسب سے ہونی چاہئیے ۔ چونکہ ایسا نہیں ہے اس لئے منافع میں خسارے کا جھگڑا شکلیں بدل بدل کر کراچی تا چترال سامنے آتا رہتا ہے۔بظاہر ہر شیئر ہولڈر اسے نقصان کی سرمایہ کاری کہتا ہے ۔تب بھی اپنے شیئرز کسی اور پارٹی کو بیچنے پر آمادہ نہیں۔حالانکہ عوام نے کئی دفعہ بولی میں شرکت کی کوشش بھی کی ہے۔۔۔۔۔۔
جناح صاحب مغفور نے فرمایا تھا کام کام اور صرف کام ۔یہی تو ہو رہا ہے ۔کام لگایا جا رہا ہے ، کام اتارا جا رہا ہے ، کام تمام کیا جا رہا ہے۔
 
Top