روزوں کے متعلق چند اہم سوالات کے جوابات

روزوں کے متعلق چند اہم سوالات کے جوابات
x7716_17242099.jpg.pagespeed.ic.raYkZ20Chb.jpg
 

زیک

مسافر
یعنی کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر آنکھ میں دوائی ڈالنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ :rolleyes:
 

حسیب

محفلین
یعنی کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر آنکھ میں دوائی ڈالنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ :rolleyes:
مجھے لگتا ہے کہ (شاید دانستہ یا پھر غیر دانستہ طور پر ) اسلامی احکامات کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام لوگ اسلامی احکامات کو سیکھنے کی طرف ہی نہ آئیں
اس کی چھوٹی سی مثال کان اور آنکھ میں دوائی ڈالنے والا معاملہ، یا پھر جس طرح دوسرے کالم میں بتایا گیا تھا کہ قے کی چوبیس اشکال ہیں اب ظاہری بات ہے کہ عام آدمی اس طرف آئے گا ہی نہیں
جبکہ اگر احادیث کو دیکھا جائے تو یہی مسئلہ سادہ سا ہے کہ اگر جان بوجھ کر قے کرے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اگر خودبخود قے ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جس روزہ دار کو خودبخود قے آئے اس پر قضا نہیں ہے، البتہ جو روزہ دار قصدا قے لائے وہ قضا روزہ رکھے۔“
صحیح سنن ابی داؤد، الجزءالثانی، رقم الحدیث2084
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے حسیب کی بات پورا پورا اتفاق ہے۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ٹیکہ لگانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ وہ ٹیکہ جس سے شفا مطلوب ہو نہ کہ طاقت کا ٹیکہ۔
 
مفتی صاحب نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ اجتہادی مسائل ہیں اور علماء کے درمیان ان مسائل پر اجتہاد و تحقیق کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
مفتی صاحب کے آخری سوال جواب پر ایک بات یاد آئی کہ حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق کچھ لوگوں نے ان کے اساتذہ (علماء) سے شکایت کی کہ یہ اپنی عقل سے مسائل کا حل بتاتے ہیں۔

علماء نے ان سے جواب طلبی کی تو آپ نے پوچھا "نماز زیادہ ضروری ہے یا روزہ؟" جواب ملا "نماز"
آپ نے فرمایا اگر میں اپنی عقل سے کہتا تو نمازوں کی قضا کا کہتا۔

پھر آپ نے پوچھا کہ پیشاب زیادہ پلید ہے یا منی؟ جواب ملا "پیشاب"
آپ نے فرمایا میں پیشاب کے نکلنے پر غسل کا کہتا نہ کہ منی کے نکلنے پر۔
 
مفتی صاحب کے آخری سوال جواب پر ایک بات یاد آئی کہ حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق کچھ لوگوں نے ان کے اساتذہ (علماء) سے شکایت کی کہ یہ اپنی عقل سے مسائل کا حل بتاتے ہیں۔

علماء نے ان سے جواب طلبی کی تو آپ نے پوچھا "نماز زیادہ ضروری ہے یا روزہ؟" جواب ملا "نماز"
آپ نے فرمایا اگر میں اپنی عقل سے کہتا تو نمازوں کی قضا کا کہتا۔

پھر آپ نے پوچھا کہ پیشاب زیادہ پلید ہے یا منی؟ جواب ملا "پیشاب"
آپ نے فرمایا میں پیشاب کے نکلنے پر غسل کا کہتا نہ کہ منی کے نکلنے پر۔

امام اعظم ابو حنیفہؒ پر قیاس کا الزام اور اس کی تردید
عبد اللہ بن مبارکؒ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے حج کیا تو ابو جعفر محمد بن علی بن حسینؓ بن علی ابی طالبؓ کی زیارت کی۔ ابو جعفر نے امام صاحبؒ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ"تم وہی ہو جو عقل و قیاس کے ذریعے حدیثوں کی مخالفت کر تے ہو؟" ابو حنیفہ نے فرمایا "اللہ کی پناہ تشریف رکھئیے۔ آپ کی تعظیم ہم پر واجب ہے کیونکہ آپ سادات میں سے ہیں۔" ابو جعفر محمد بیٹھ گئے، امام صاحبؒ نے با ادب عرض کیا "حضرت! آپ سے صرف تین مسئلے دریافت کر رہا ہوں جواب عنایت فرمائیں۔ اول یہ کہ مرد زیادہ کمزور ہے یا عورت؟" فرمایا "عورت۔" امام صاحبؒ نے عرض کیا"مرد اور عورت کے کیا کیا حصے وراثت میں ہوتے ہیں؟" ابو جعفر نے فرمایا"عورت کا حصہ مرد کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے۔" امام ابو حنیفہؒ نے عرض کیا اگر میں قیاس سے کہتا اور عقل کا استعمال کرتا تو اسکے برعکس کہتا کیونکہ عورت مرد سے کمزور ہے لہٰذا اس کا دو حصہ ہو نا چاہیے تھا۔
دوسرا مسئلہ عرض یہ ہے کہ نماز افضل ہے یا روزہ؟ فرمایا "نماز" تب امام صاحبؒ نے عرض کیا اگر میں قیاس سے کہتا تو دوسرا حکم دیتا اور کہتا کہ حائضہ عورت نماز کی قضا کرے، روزہ کی نہیں، کیونکہ نماز روزہ سے افضل ہے۔
تیسرا مسئلہ امام صاحب نے دریافت کیا کہ پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی؟ فرمایا"پیشاب زیادہ نجس ہے۔" اس پر امام صاحبؒ نے فرمایا کہ اگر میں قیاس سے کہتا تو یہ حکم دیتا کہ پیشاب سے غسل واجب ہے، منی سے نہیں کیونکہ پیشاب زیادہ نجس ہے۔
اللہ کی پناہ کہ میں حدیث کے خلاف کوئی بات کہوں میں تو حدیث کے چاروں طرف پھرتا ہوں۔ یہ سن کر ابو جعفر محمد کھڑے ہو گئے اور ابو حنیفہ کا منہ چوم لیا۔
 
مجھے لگتا ہے کہ (شاید دانستہ یا پھر غیر دانستہ طور پر ) اسلامی احکامات کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام لوگ اسلامی احکامات کو سیکھنے کی طرف ہی نہ آئیں
اس کی چھوٹی سی مثال کان اور آنکھ میں دوائی ڈالنے والا معاملہ، یا پھر جس طرح دوسرے کالم میں بتایا گیا تھا کہ قے کی چوبیس اشکال ہیں اب ظاہری بات ہے کہ عام آدمی اس طرف آئے گا ہی نہیں
جبکہ اگر احادیث کو دیکھا جائے تو یہی مسئلہ سادہ سا ہے کہ اگر جان بوجھ کر قے کرے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اگر خودبخود قے ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جس روزہ دار کو خودبخود قے آئے اس پر قضا نہیں ہے، البتہ جو روزہ دار قصدا قے لائے وہ قضا روزہ رکھے۔“
صحیح سنن ابی داؤد، الجزءالثانی، رقم الحدیث2084
مجھے لگتا ہے کہ ایک سازش کے تحت عوام الناس کو علما سے متنفر کیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے۔کہ ہربندہ عالم بن جائے ، ہر بندہ عالم تو بن نہیں سکتا ہاں نیم ملا ضرور بن جائے گا اور ٹامک ٹوئیاں مارے گا اور گمراہی کا اندیشہ زیادہ ہے
ابتدائے اسلام سے ہی کچھ مسلم افراد علما ہوتے تھے اور باقی عامی مسلم ان سے مسائل اور معاملات کے متعلق راہنمائی لیتے تھے
 
یہ اصلی نام "عزرائیل" کہاں آیا ہے؟
قران مجید میں صرف 3 فرشتوں کے نام آئے ہیں۔
سورہ بقرہ آیات 97-98 میں حضرت جبرائیل علیہ سلام اور حضرت میکائیل علیہ سلام کا ذکر ہے۔ جبکہ سورہ زخرف آیت 77 میں حضرت مالک علیہ سلام کا ذکر آیا ہے۔ جبکہ قران مجید کی سورہ سجدہ آیت 11 میں موت کے فرشتے کو ملک الموت کے نام سے پکارا گیا ہے۔
 
ان کے علاوہ سورہ بقرہ آیت 102 میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت کا ذکر ہے۔ سورہ رعد آیت 11 میں حفاظت کرنے والے فرشتوں کا ذکر ہے۔ سورہ ق آیت 17 میں کراماً کاتبین کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ملک الموت کو عزرائیل کیوں کہا جاتا ہے؟
قران پاک میں " ملک الموت " صرف " ملک الموت " کے نام سے ذکر فرمائے گئے ہیں ۔
اسرائیلیات میں " ملک الموت کو " جناب عزرائیل علیہ السلام " کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے ۔
بلا شک اللہ ہی سچ جانتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ملک الموت کو عزرائیل کیوں کہا جاتا ہے؟
نایاب بھائی نے صحیح کہا کہ اسرائیلیات میں " ملک الموت کو " جناب عزرائیل علیہ السلام " کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے ۔
اور جب اسلرائیلیات اسلام سے نہ ٹکرا نہ رہی ہوں تو ان تردید نہیں کر سکتے۔ شاید اسی لئے امت کے اکثر علماء اس نام کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اکثر مفسرین نے بھی انکا یہ نام ذکر کیا ہے۔
عزرائیل اصل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنیٰ ہے عبداللہ۔
 
Top