روحانی اقوال

دع الأيام تفعل ما تشاء
وطب نفسا إذا حكم القضاء
ولا تجزع لحادثة الليالي
فما لحوادث الدنيا بقاء (محمد بن ادریس بمقلب امام شافعی)
زمانے کو چھوڑو اسے جو چاہے کرنے دو(یعنیحدیث شریف بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں زمانہ کو برا مت کہو کیونکہمیں زمانہ میں خود ہوں(لکل یوم ھو فی الشان) میں ہر روز ایک نئی شان سےجلوہ گر ہوتا ہوں۔​
اپنے آپ کو مطمئن کرو.اللہ کا فیصلہ سمجھکر(ہاتھ کار وَل تے دل یار ول) احمد جام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیںکشتگان خنجر تسلیم راہر زماں از غیب جان دیگر استجو اللہ تعالیٰجو کہ قادر بھی بھی ہے جو مرید (فعال لما یرید جو مرضی کرنے والا) بھی ہےاس کے تسلیم و رضا یعنی جو کتاب زندگی میں یعنی (لکل اجل کتاب) اس کے مطابقہر مصیبت اور غم کو دوست کی عطا کہتے ہیں وہ ہر لمحہ ایک نئی زندگی پاتےہیں۔ ایمان مفصل کی بات ہورہی ہے یعنی میں ایمان لایا اللہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھی اور بری تقدیر پر کہ وہ اللہ کی جانب سے ہے۔۔۔۔​
رات کی اندھیروں میں ہونے والے حادثوں پر غمگین مت ہو.​
دنیا کے حوادث(مصائب )باقی رہنے والے نہیں‌ہے(یعنی ہر رنج و غم کے بعد راحت و فرحت ہے.​
 
وأرض الله واسعةولكن
إذا نزل القضا ضاق الفضاء
دع الأيام تغدر كل حين
نفما يغني عن الموت الدواء
اور اللہ کی زمین بہت کشادہ ہے لیکن جب تقدیر غالب آتی ہے تو اللہ کی زمین تنگ ہو جاتی ہےزمانہ کی تو بات ہی نہ کر یہ تو ہمیشہ دھوکہ ہی دیتا ہےیہ ایسا ہی (مرض) ہے جیسا کہ مرض الموت کہ کوئی دوافائدہ نہیںدیتی ہے۔
یہ ترجمہ میرے ایک دوست نے کیا ہے لیکن میرے خیال سے اس میں تیسرے شعر میں (دع الأيام تغدر كل حي۔۔ن) گردش ایام کی بات ہورہی ہے نہ کہ زمانہ کی۔ کیونکہ زمانہ تو خود اللہ تبارکتعالیٰ کی ایک صفت ہے بلکہ اس کی ترجمہ کچھ اسطرح ہونا چاہیے تھا جیسا کہعہد جاہلیہ کے شاعر طرفۃ بن العبد الکبریٰ یعنی صاحب المتعلقہ نےکیاخوب کہاہے۔
اری العیش کنزاً ناقصاً کل لیلۃ
وما تنقص الایام والدھر ینفد
میںزندگی کو ایسا خزانہ سمجھ لیتا ہوں جو ہر شب گھٹتا رہتا ہے اور زمانہ اور ایام جس چیز کو گھٹاتا رہے وہ فنا ہوجائے گی۔
 
فیس بک پر ایک تصویر دیکھی جس میں یہ لکھا ہوا تھا
وقت اور سمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کوملتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پر سمجھ نہیں ہوتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا کیونکہ وقت کسی کا انتطار نہیں کرتا ہے۔(ماسوا کامل اولیاء کے جن کو ابو الوقت کہا جاتا ہے)
یہ پڑھتے ہی صاعقہ کی رفتار سے لوحِ دماغ پر یہ شعر چمکا
بخت جب بیدار تھا کمبخت آنکھیں سو گئیں
سوگیا جب بخت تو بیدار آنکھیں ہوگئیں
میرے خیال سے اس میں بخت وقت اور آنکھیں سمجھ کا استعارہ ہیں
 
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
سب انسان مردہ ہیں صرف صاحبِ علم زندہ ہیں
سب عالم فاضل سوئے ہوئے ہیں صرف صاحبِ عمل بیدار ہیں
تمام عامل صاحبِ خسارہ(گھاٹا،لوزر)ہیں صرف صاحبِ اخلاص منفعت(فائدہ،پرافٹ)میں ہیں
سب صاحبِ اخلاص خطرے کی حدود (ڈینجر زون) میں ہیں صرف صاحبِ عجز محفوظ ہیں(سیف ایریا)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم: جس کے دل میں رائی برابر تکبر بھی ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔
 

مہ جبین

محفلین
لگتا ہے مہ جبین آنٹی کو میری شیئرنگ پسند آئی ہے۔ بہت بہت شکریہ آنٹی
حیرت ہے کہ ابھی تک روحانی بابا کو یقین کی یہ منزل حاصل نہیں ہوئی؟؟؟
یعنی کہ اتنی ریٹنگ اور تبصرے کے بعد بھی ؟؟؟ لگتا ہے؟؟
ازراہِ تفنن لکھا ہے برا نہ مانیے گا

اچھی بات کوئی بھی کہے مجھے اچھی لگتی ہے روحانی بابا
اور میں اسکی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی
اور یہاں تو آپ نے بے شمار اچھی باتوں کے اقتباسات نقل کئے ہیں جو میرے جیسی کم علم کے لئے تو یقیناً علم میں اضافے کا سبب ہیں اور اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں کی روشنی میں اپنے افکار و نظریات اور کردار کو سنوارنے کی توفیق عنایت فرمائے اور یہ سب آپ کے لئے صدقہء جاریہ بنائے آمین
جزاک اللہ
 
1006183_348068315319797_1190556164_n.jpg
 
فیس بک سے اقتباس
یہ دو ایسے نوجوانوں کا قصہ ہے جو مدینہ منورہ سے ترکی سیر سپاٹے کیلئے گئے۔ ان کا مقصد اپنے جیسے دوسرے نوجوانوں کی طرح شراب و شباب کے مزے لینا اور مستیاں کرنا تھیں۔
استنبول پہنچتے ہی ندیدوں کی طرح انہوں نے سب سے پہلے کچھ کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ اپنا مدعا اول شراب کی بوتلیں خریدیں اور ٹیکسی پر بیٹھ کر ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہوٹل انہوں نے شہر کے مضافات میں جا کر ایسا پسند کیا جہاں انہیں کوئی جاننے پہچاننے والا نا دیکھ سکے۔
کاؤنٹر پر رجسٹریشن کراتے ہوئے کلرک کو جیسے ہی پتہ چلا یہ دونوں مدینہ شریف سے آئے ہیں تو اس نے عام کمرے کے ریٹ میں ان کو ایک سوئٹ کھلوا کر دیدیا۔ اہل مدینہ چل کر اس کے ہوٹل میں آ گئے ہیں اس کی خوشی دیدنی تھی۔
دونوں کمرے میں پہنچے اور بس بوتلیں کھول کر معدے میں انڈیلنے بیٹھنے بیٹھ گئے۔ ایک تو کم ظرف نکلا کچھ ہی دیر میں نشے سے دھت بے سدھ سو گیا جبکہ دوسرا نیم مدہوش باقی کی بوتلوں کو کل کیلئے چھوڑ کر سو گیا۔ ان کو سوتے کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
صبح کے ساڑھے چار بجے تھے، ایک نے غنودگی میں اُٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے کاؤنٹر کلرک کھڑا تھا۔ کہنے لگا کہ ہمارے امام مسجد نے یہ جان کر کہ ہوٹل میں مدینہ شریف سے دو آدمی آ کر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اور یہ کہہ کر نماز پڑھانے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ ایسی بے ادبی ہرگز نہیں کر سکتا۔ ہم لوگ آپ کا مسجد میں انتظار کر رہے ہیں، آپ جلدی سے تیار ہو کر آ جائیں۔
اس جوان کو یہ بات سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا، اس نے جلدی سے اپنے دوسرے ساتھی کو جگا کر بتایا کہ صورتحال ایسی ہوگئی ہے۔ کیا تجھے کچھ قرآن شریف یاد ہے؟
دوسرے ساتھی نے کہا ہاں گزارے لائق قرآن شریف تو یاد ہے مگر لوگوں کی امامت کراؤں، ایسا نا سوچا ہے اور نا ہی کراؤں گا۔ دونوں سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور لگے سوچنے کہ اس گلے آن پڑی مصیبت سے کیسے جان چھڑائیں۔
اس اثناء میں ایک بار پھر دورازہ کھٹکا؛ کاؤنٹر کلرک کہہ رہا تھا بھائیو جلدی کرو کرو ہم لوگ مسجد میں آپ کے منتظر ہیں، کہیں نماز میں دیر نا ہو جائے۔
ایک کے بعد دوسرے نے بھاگ کر غسل کیا، جلدی سے تیار ہو کر نیچے مسجد پہنچے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسا لگتا تھا نماز فجر کیلئے نہیں لوگ مدینہ شریف کے شہزادوں کی اقتداء میں جمعہ کی نماز کیلئے اھتمام سے بیٹھے ہوں۔
ایک جوان کہتا ہے، میں مصلے پر چڑھا، اللہ اکبر کہہ کر لڑکھڑاتی زبان سے الحَمْدُ للهِ رَبِّ العَالَمِين پڑھا۔ نمازیوں میں سے کسی کی اس تصور سے کہ مدینے کا مکیں، دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا ہوا اور مسجد رسول کا ہمسایہ انہیں نماز پڑھا رہا ہے کی سسکاری نکل گئی۔ پھر کیا تھا کئیوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹے۔ کہتا ہے نمازیوں کے رونے سے میری ندامت کیا بڑھی کہ میں بھی رو پڑا۔ سورۃ الفاتحہ کے بعد میں نے پڑھی تو محض سورۃ الاخلاص ہی، مگر اپنے پورے اخلاص کے ساتھ۔
نماز ختم ہوئی، نمازی میرے ساتھ مصافحہ کرنے کیلئے امڈ پڑے اور کئی ایک تو فرط محبت سے مجھے گلے بھی لگا رہے تھے۔ میں سر جھکائے کھڑا اپنا محاسبہ کر رہا تھا۔ اللہ نے مجھ پر اپنا کرم کیا اور یہ حادثہ میری ہدایت کا سبب بن گیا۔
 
1043857_381742761926817_21035722_n.jpg


میں اپنے والد کی شفقت اور محبت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ زندگی کہ ہر موڑ پر جہاں مجھے سہارے کی ضرورت پیش آئی تو کبھی میرے ہاتھوں میں میرے والد کا ہاتھ تھا تو کبھی ان کا ہاتھ میری پشت پر تھا۔
پتہ نہیں کس مشکل سے یہ الفاط میں نے نقل کیئے ہیں میرا چہرہ آنسوؤں سے شرابور ہے
 
فیس بک سے اکتساب
کون کہتا میرے دیس میں کاروبار مندے پڑ گئے ہیں؟۔
میں یہاں گردہ بیچ سکتا ہوں گردہ خرید سکتا ہوں۔
عورت کی عزت کیا چیز ہے
پوری عورت بیچ سکتا ہوں عورت خرید سکتا ہون،
میں ووٹ بیچ سکتا ہوں ووٹ خرید سکتا ہوں،
میں بچے بیچ سکتا ہوں بچے خرید سکتا ہوں،
میں فتویٰ بیچ سکتا ہوں فتویٰ خرید سکتا ہوں۔
انصاف خرید سکتا ہوں انصاف بیچ سکتا ہوں،
یہاں جج بکتے ہیں، وکیل بکتے ہیں، یہاں علم بکتا ہے یہاں دین بکتا ہے۔،
یہاں تلاوت کے دام ملتے ہیں
یہاں نعتیں بیچی جاتی ہے۔
یہاں شاعر کے ایک ایک لفظ کا بھاؤ لگتا ہے
یہاں ادیب کے ھر پیرے فقرے کی الگ الگ قیمت لگتی ہے۔
یہاں خون بکتا ہے یہاں سکون بکتا ہے۔
یہاں جھوٹ بولنے کی قیمت وصول کی جاتی ہے
یہاں سچ بھی اچھی قیمت پر نیلام ہوجاتا ہے۔
یہاں باپ بیٹے سے اس کی پرورش کی قیمت لیتا ہے
یہاں بیٹا باپ سے اپنی خدمتوں کے روپے کھرے کرتا ہے،
یہاں شرافت بھی آپ خرید سکتے ہیں
یہاں رسوائی بدنامی کی بھی منہ مانگی رقم مانگی جاتی ہے۔
یہاں ھر کاروباری جلدی میں ہے کہ اسے خریدنے کے فورا" بعد کچھ بیچنا ہوتا ہے۔
میں بھی خریدار تو بھی خریدار، میں بھی دکاندار تو بھی دکاندار، کاروبار کا ایسا جمعہ بازار جس کا ہفتہ اتوار کبھی نہیں آتا۔
یہاں عبادتوں کا بھی پروردگار سے سودا طے کر لیا جاتا ہے۔
اتنا دے گا تو اتنے نفل پڑھوں گا۔ اتنا منافع ہوا تو اتنے روزے رکھوں گا۔ مسجد میں سودے مندر میں سودے چرچ میں سودے درباروں پر سودے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چلو آؤ آج ایک نیا سودا کرکے دیکھیں۔

چلو پسینہ دے کر آنسو خریدیں۔
چلو پھول سے خوشبو خرید کر بلبل کے نغمے کے عوض اسے بیچ دیں۔ چلو نیند بیچ کر خواب خریدیں۔
چلو عبادت دے کر اس سے محبت لے لیں۔
چلو دھوپ بارش چاندنی ہوا اس سے شکر کے بدلے حاصل کریں۔
چلو ظالم سے ظلم خرید کر اسے انسانیت دے دیں۔
چلو کسی سے درد لے کر اسے خوشی دے دیں۔
چلو بے وفائی خرید کر وفا دے دیں۔
آؤ ایک طوائف سے اس کی مجبوری خرید کر اسے عزت دے دیں۔
آؤ آؤ میرے ساتھ آؤ وقت کم ہے یہ نہ ہو دکانیں جل کر خاکستر ہو جائیں یہ نہ ہو زمین قدموں کے نیچے سے اپنا دامن سمیٹ لے۔
 












کتاب چہرہ سے اکتساب
یک روز میں نے قدرت للہ سے پوچھا "یہ جو الله والے لوگ ہوتے ہیں‘ یہ عورت سے کیوں گھبراتے ہیں۔"

"زیادہ تر بزرگ تو عورتوں سے ملتے ہی نہیں۔ ان کے دربار میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے."
"یہ تو ہے." وہ بولے.
"سر راہ چلتے ہوئے کوئی عورت نظر آجاے تو گھبرا کر سر جھکا لیتے ہیں. ان کی اس گھبراہٹ میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے. وہ عورت سے کیوں ڈرتے ہیں؟"
"شاید وہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں." قدرت نے کہا۔
"لیکن وہ تو اپنے آپ پر قابو پا چکے ہوتے ہیں‘ اپنی میں کو فنا کر چکے ہوتے ہیں."
"اپنے آپ پر جتنا زیادہ قابو پا لو اتنا ہی بے قابو ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے."
"آپ کا مطلب ہے شر کا عنصر کبھی پورے طور پر فنا نہیں ہوتا؟"
"شر کا عنصر پورے طور پر فنا ہو جائے تو نیکی کا وجود ہی نہ رہے۔ چراغ کے جلنے کے لئے پس منظر میں اندھیرا ضروری ہے۔"
"میں نہیں سمجھا. مجھے ان جملوں سے کتاب اور دانشوری کی بو آتی ہے۔"
"انسان میں جوں جوں نیکی کی صلاحیت بڑھتی ہے توں توں ساتھ ساتھ شر کی ترغیب بڑھتی ہے. شر کی ترغیب نہ بڑھے تو نیکی کی صلاحیت بڑھ نہیں سکتی."
"سیدھی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔"
قدرت میری طرف دیکھنے لگے.
"کہ تمام قوت کا منبع شر ہے. نیکی میں قوت کا عنصر نہیں۔ الله کے بندوں کا کام ٹرانسفارمر جیسا ہے. شر کی قوت کا رخ نیکی کی طرف موڑ دو ."
 
لوگ پیار کے لیئے ہوتے ہیں اور چیزیں استعمال کے لیئے ،بات تب بگڑتی ہے جب چیزوں سے پیار کیا جائے اور لوگوں کو استعمال کیا جائے۔۔۔فرمان حضرت علی کرم اللی وجہہ الکریم
600293_171520409656209_1015389737_n.jpg
 
حضرت ذالنون مصری رحمتہ الله علیہ

کسی نے آپ سے عرض کیا مجھے کچھ نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا کہ اپنے ظاہر کو خلق کے اور باطن کو خالق کے حوالے کر دو -

اور خدا سے ایسا تعلق قائم کرو جس کی وجہ سے وہ تمھیں مخلوق سے بے نیاز کر دے -

اور یقین پہ کبھی شک کو ترجیح مت دو -

جس وقت نفس اطاعت کے لیے آمادہ نہ ہو مسلسل اس کی مخالفت کرتے رہو

اور مصائب میں صبر کرتے ہوئی زندگی الله کی یاد میں گزار دو -

قلب کو ماضی و مستقبل کے چکر میں نہ ڈالو یعنی گزرے ہوئے اور آنے والے وقت کا تصور قلب سے نکال دو صرف حال کو غنیمت جانو -

از حضرت شیخ فریدالدین عطار تذکرۃ الاولیاء صفحہ ٩
 
Top