افتخار عارف ::::: رنگ تھا، روشنی تھا، قامت تھا ::::: Iftikhar Arif

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
اِفتخارعارِف

رنگ تھا، روشنی تھا، قامت تھا
جس پہ ہم مر مِٹے، قیامت تھا

خُوش جمالوں میں دُھوم تھی اپنی
نام اُس کا بھی وجہِ شُہرت تھا

پاسِ آوارگی ہمیں بھی بہت !
اُس کو بھی اعترافِ وحشت تھا

ہم بھی تکرار کے نہ تھے خُوگر
وہ بھی ناآشنائے حُجّت تھا

خواب تعبیر بَن کے آتے تھے
کیا عجب موسمِ رِفاقت تھا

اپنے لہجے کا بانکپن سارا
اُس کے پندار کی امانت تھا

اُس کے کُندن بَدن کا رُوپ سرُوپ
حُسنِ احساس کی بَدولت تھا

ایک اِک سانس قُربتوں کا گواہ
ہر نَفس لمحۂ غنیمت تھا

اور پھر یُوں ہُوا، کہ ٹوُٹ گیا
وہ جو اِک رشتۂ محبّت تھا

اِفتخارعارِف
 
Top