سید عمران

محفلین
’’عید میں اب دن ہی کے رہ گئے ہیں انور صاحب۔ ایک تو میں آپ کی سست روی سے بہت تنگ ہوں۔کیا مجال کوئی کام اوّل وہلے میں کرلیں۔ ہر کام سب سے آخر میں کرتے ہیں۔‘‘ بیگم انور چائے لے کر ٹیرس پر آئیں تو چائے کے ساتھ زبان کی گرمی بھی بھاپ اڑا رہی تھی۔ چائے کی ٹرے بید کی ٹیبل پر رکھ کر وہ ریلنگ سے لگے انور صاحب کے بازو سے آلگیں۔
’’اری نیک بخت، اب کون سا کام رہ گیا۔اس دفعہ تو سارے کام وقت پر پورے ہو گئے یا نہیں؟‘‘
انور صاحب نے ٹیرس سے جھانکا۔ سامنے سڑک پار آنگن میں زیتون بی بی کی چار بچیاں ملگجے کپڑوں میں جانے کون سا کھیل کھیل رہی تھیں۔ الگنی پر بھی بدرنگ و بدنما کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔
انور صاحب کو یاد آیا پچھلی عید پر جب ان کے گھر میں ہر سو رنگ برنگی چنریاں اپنی بہار دکھا رہی تھیں اس چاند رات بھی زیتون بی بی کے آنگن کی الگنی پر ملگجے کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔ کوشش کی گئی تھی کہ پرانے کپڑوں کو دھو کر صاف ستھرا کیا جائے۔پرانے کپڑوں کا میل تو صاف ہوگیا تھا پر نئے رنگوں کی بہار کہاں سے آتی جو عید کے رنگ کا انگ ہوتی ہے۔
’’پرائے گھر جھانکنا اچھی بات نہیں ہوتی۔‘‘ بیگم انور نے ٹوکا تو انور صاحب کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ دونوں آکر بید کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’سارے کام ہوگئے بس بچیوں کی چنریاں رہ گئیں۔ آج کل کرتے کرتے وقت ایسا گزرا کہ بازار جانے کا موقع نہ مل سکا۔ اب سوچا کہ کام کچھ ہلکے ہوگئے ہیں تو چل کے بچیوں کے لیے چنریاں لے آئیں۔‘‘
بیگم انور کو رنگ برنگی چنریوں سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ عید کے دن تو لڑکیاں چنریوں کے بغیر انہیں روکھی پھیکی لگتی تھیں۔ وہ اپنے اس شوق کو صرف اپنی بچیوں پر پورا نہیں کرتی تھیں بلکہ انور صاحب اور اپنے بہن بھائیوں کی بچیوں کے لیے بھی ہر سال ڈھیر ساری چنریا ں خرید لاتی تھیں۔
’’بیگم اس دفعہ ہاتھ ہولا رکھو، تمہیں معلوم تو ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے تین ماہ گھر بیٹھنا پڑا، اس دوران تنخواہ الگ نہیں ملی، کس طرح قرض لے کر کھینچ تان کے گزارا کیا تھا، اس قرض کی ادائیگی اب بھی باقی ہے۔اس سال رہنے دو، زندگی رہی تو اگلے سال اپنا شوق پورا کرلینا۔ میں نے کبھی منع کیا ہے۔ اور ہاں وہ شیر خورمہ اور کباب وغیرہ بھی ذرا۔۔۔ میرا مطلب ہے دودھ اور گوشت کی قیمتیں دیکھ رہی ہو نا آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔‘‘ انور صاحب رسان سے سمجھانے لگے، کچھ لہجہ میں قرض کی فکر بھی شامل تھی۔ بیگم انور سمجھ رہی تھیں تبھی سرد آہ بھر کر نظریں جھکا لیں اور خاموشی سے اپنے ہاتھ میں پہنے چاندی کے کنگن سے کھیلنے لگیں۔
ان کنگنوں کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کوئی پندرہ برس ہوئے جب دونوں شادی کے بعد ہنی مون پر مری گھوم رہے تھے تب ایک دوکان پر بیگم انور کو چاندی کے یہ کنگن پسند آگئے۔ تھے بھی بہت نفیس، نازک کام والے خوبصورت اور دیدہ زیب۔ انور صاحب ستائشی نظروں سے دیکھنے لگے۔ بس بیگم انور نے شاپنگ کے لیے مختص تمام رقم سے یہی کنگن خریدلیے۔
’’اب کچھ اور نہ خریدوں تو بھی کوئی غم نہیں۔‘‘ کنگن ہاتھ میں پہننے کے بعد بیگم انور سرشاری کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔
پندرہ برس گزرنے کے بعد بھی چاندی کے ان کنگنوں سے بیگم انور کا لگاؤ کچھ کم نہ ہوا تھا۔ جہاں چاندی کی چاندنی مدھم پڑتی فوراً پالش کے لیے دے آتیں۔
دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے۔ جیسے کچھ کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہے ہوں۔ اچانک بیگم انور نے موضو ع بدلا:
’’یہ زیتون بی بی کے گھر کیا جھانک تاک ہورہی تھی؟‘‘ لہجہ میں روائیتی بیویوں والا روائیتی شک تھا۔
انور صاحب مسکرائے اور بیگم کا ہاتھ پکڑ کر ریلنگ تک لے آئے۔ سڑک کے اُس پار زیتون بی بی کا صحن نظر آرہا تھا۔ بچیاں کھیل کھیل کر تھک گئی تھیں۔صحن میں سناٹا تھا۔ الگنی پر بدنما کپڑے اسی طرح پھیلے ہوئے تھے۔
’’یہ بتاؤ ان غریب لوگوں کو عید کی خوشیاں منانے کادل چاہتا بھی ہے یا اپنے حال میں مست رہتے ہیں، کوئی دن آئے، کوئی جائے انہیں کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔ یہ لوگ انسان نہیں ہیں کیا؟ ایک انسان کو جو خوشیاں ملتی ہیں وہی انہیں بھی چاہئیے ہوتی ہیں۔ان کا دل بھی خوشی پر خوش ہوتا ہے، اور غم پر سوگ مناتا ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں یہ لوگ صرف سوگ منانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں یا غم ہی کو خوشی سمجھ کر جیتے ہیں؟‘‘
’’پوچھ اس لیے رہا ہوں کہ پچھلے برس جب یہ لوگ اس مکان میں منتقل ہوئے تھے اور پہلی عید آئی تھی تب بھی ان کے گھر میں عید کی رونقیں چہل پہل، نئے کپڑے اور تمہاری من پسند رنگین چنریاں گلے میں ڈالے کوئی نظر نہیں آیا تھا۔ وہی عام دنوں والے کپڑے دھو کر پہن لیے۔ ایسالگ رہا تھا جیسے انہیں کوئی دلچسپی نہیں، عید آئے یا جائے ان کی بلا سے۔‘‘ انور صاحب نے اپنے خیالات شئیر کیے۔
’’ان غریبوں کو دو وقت کھانے کے غم سے نجات ملے تو کوئی خوشی منائیں۔تن ڈھانکنے کے چند جوڑے پھٹنے سے بچ جائیں تو غنیمت ہے۔ نئے کپڑے، نئے پکوان۔۔۔ ان کا تو تصوربھی نہیں۔ غریب بیوہ عورت ہے، دوسروں کے گھر کام کاج مل جاتا ہے، باجیاں بچے کچھے کھانے اور پرانے کپڑے دے دیتی ہیں تو پیٹ بھر جاتا ہے اور تن ڈھک جاتا ہے۔مہنگائی کے اس دور میں کیسے شیر خورمے، کہاں کی رنگین چنریاں۔ اور کچھ نہیں تو اپنا ہی حال دیکھ لیں۔‘‘ بیگم انور نے گفتگو کا رخ اپنے مالی حالات کی طرف موڑا تو انور صاحب کے چہرہ پر رنجیدگی در آئی۔ بیگم انور بھی سنجیدہ ہوگئیں۔تھوڑی دیر بعد دونوں واپس بید کی کرسیوں پر آکر بیٹھ گئے۔ بیگم انور حسبِ معمول چاندی کے کنگنوں سے کھیلنے لگیں۔
رات کو چاند کا اعلان ہوا تو انور صاحب نے عشاء پڑھتے ہی گھر کا رخ کیا۔ مبارک سلامت کا شور تھما تو انور صاحب نے بیگم سے کہا:
’’اسی خوشی میں گرما گرم چائے کا ایک کپ ہوجائے؟‘‘
’’ابھی لاتی ہوں۔‘‘
بیگم انور نے چائے کا کپ تھماتے ہوئے کہا:
’’نجمہ کے ساتھ بازار جارہی ہوں۔ اسے کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں۔ بس تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔ زیادہ پریشان نہ ہوئیے گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ انور صاحب کچھ بولتے وہ سر پہ چادر رکھ باہر نکل گئیں۔ تھوڑی دیر کا کہہ کر نکلنے والی بیگم انور نے اتنی دیر لگا دی کہ انتظار کرتے کرتے انور صاحب کی آنکھ لگ گئی۔ پھر آنکھ کمرہ میں ہونے والی کھٹ پٹ کی آوازوں سے کھلی۔ دیکھا کہ بیگم انور الماری میں گھسی ہوئی ہیں۔انہوں نے آواز دی تو جلدی سے دروازہ بند کرکے ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔
’’بندی خدا کی کچھ تو خدا کا خوف کرو دو بج رہے ہیں، ساری رات کون سی شاپنگ میں گزار دی۔‘‘ انور صاحب کے لہجہ میں تشویش گھل رہی تھی۔
’’آپ بھی بس خواہ مخواہ پریشان ہوتے رہا کیجیے۔ شاپنگ تو تھوڑی سی کی تھی اصل دیر مہندی لگوانے میں لگ گئی۔انہوں نے دور ہی سے حنائی ہاتھوں کی جھلک دکھائی اور تیزی سے باورچی خانے میں جاگھسیں۔
’’ابھی شیر خورمہ بھی بنانا ہے اور کباب بھی تیار کرنے ہیں۔آپ اطمینان سے اپنی نیند پوری کرلیجئے۔‘‘ انور صاحب نے بیگم کی آواز سن کر نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں موند لیں۔
انور صاحب فجر کی نماز پڑھ کر آئے تو گھر میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ بیگم نےجلدی جلدی ناشتہ تیار کیا، انہیں نہانے بھیجا۔ انور صاحب نیا کلف لگا لباس پہن، خوشبو لگا عید گاہ کو روانہ ہوئے تو تھوڑی دیر کے لیے گھر میں سکون ہوگیا۔
عید کی نماز پڑھ کر انور صاحب جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو جیسے حیرت اور خوشی کا زوردار جھٹکا لگا۔ ان کی بچیاں، بھانجیاں، بھتیجیاں سب حسبِ معمول رنگیلی چنریوں میں ان کے ارد گرد آکھڑی ہوئیں۔ ننھے ننھے ہاتھ عیدی مانگنے کے لیے مچلنے لگے۔ انور صاحب کی نظریں بیگم کو ڈھونڈ رہی تھیں، وہ نہ جانے کہاں غائب تھیں۔ بچوں کی عیدیوں سے نمٹنے کے بعد انور صاحب بیگم کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے باورچی خانہ میں آگئے۔ بیگم چائے کی ٹرے لے کر پلٹ ہی رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مسکرائیں۔ آنکھیں جھل مل کررہی تھیں گویا ان میں کہکشاں کے سارے ستارے چمک رہے ہوں۔
’’عید مبارک انور صاحب۔یوں گم سم کیوں کھڑے ہیں۔ چلیں ٹیرس پر آئیں۔ میں نے آپ کے لیے گرما گرم چائے تیار کی ہے۔‘‘ بیگم ٹرے لے کر آگے بڑھ گئیں۔ انور صاحب پیچھے پیچھے ٹیرس پر آگئے:
’’یہ سب چنریاں، شیر خورمہ، کباب۔۔۔ یہ سب کہاں سے۔۔۔ میرا مطلب کیسے ہوگیا یہ سب کچھ۔ حالاں کہ میں نے تو تمہیں کوئی پیسے نہیں دئیے تھے۔ اور میرے پاس تھے ہی کہاں جو کچھ دیتا۔‘‘ انور صاحب سمجھ نہیں پارہے تھے کہ ہمیشہ کی طرح ساری خوشیاں کیسے پوری ہورہی ہیں، وہی رونقیں کیسے بحال ہیں۔
’’اللہ بڑا کارساز ہے انور صاحب، بڑے راستے ہیں اس کے پاس بندوں کو خوش کرنے کے۔ آپ سب فکریں چھوڑیں، جب مولیٰ خوشیاں دے رہا ہے تو اس کی عنائیتوں میں فکر و پریشانی کی ملاوٹ نہ کریں۔‘‘ بیگم انور منہ پھیر کر ریلنگ کے پاس آگئیں۔ وہ کیا چھپا رہی تھیں انور صاحب سمجھ نہیں پائے۔ وہ آگے بڑھ کر بیگم کے پاس آکھڑے ہوئے۔سڑک کے اس پار زیتون بی بی کا صحن نظر آرہا تھا۔ چار بچیاں گلے میں رنگین چنریاں ڈالے چڑیوں کی طرح خوشی سے اِدھر اُدھر اچھلتی پھر رہی تھیں۔ انور صاحب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا:
’’بیگم کیا تم بھی وہی دیکھ رہی ہو جو میں نے دیکھا؟‘‘ انہوں نے بیگم کے چہرہ کی طرف دیکھا۔
’’ ان کے ہاتھ کون سا خزانہ لگ گیا۔ سارے صحن میں رنگ ہی رنگ بکھر گئے ہیں۔‘‘ انور صاحب اپنے گھر کی رونقیں ہی نہیں سمجھ پا رہے تھے اوپر سے زیتون بی بی کے خزاں رسیدہ گھر میں بہار کی رونقیں دیکھ دیکھ کر حیران ہونے لگے۔
’’کہا ناں انور صاحب اللہ بڑا کارساز ہے۔ بندوں کی خوشیوں کے ہزار راستے نکال لیتا ہے۔‘‘
بیگم انور بید کی کرسی پر آبیٹھیں۔ ہاتھ میں چائے کا گرم گرم کپ تھام لیا۔ انور صاحب گہری سوچ میں ڈوبے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیا:
’’ارے بیگم رات بھی تم باورچی خانہ میں جاگھسیں۔ دکھاؤ کیسی لگ رہی ہے مہندی۔‘‘ انور صاحب نے بڑے شوق سے بیگم کے حنائی ہاتھ تھام لیے۔تبھی انہیں دوسرا جھٹکا لگا:
’’تمہارے کنگن کہاں ہیں صفیہ؟ انہیں تو تم کبھی نہیں اتارتی تھیں۔ پھر آج یہ کلائیاں کیوں سونی رکھیں۔‘‘ کوئی جواب نہ پا کر انہوں نے نظریں اٹھا کے بیگم کی طرف دیکھا۔ آنسوتھے کہ موسلا دھار بارش کی طرح بیگم کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ ٹپک رہے تھے۔ وہ کچھ دیر گم سم رہے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے حواس کام کرنے لگے:
’’تو کیا۔۔۔؟؟؟‘‘ ان کے لہجے میں چھپے ہزار سوال جواب بھی لیے ہوئے تھے۔
بیگم نے آہستہ سے سر ہلادیا۔ وہ بغیر کچھ کہے انور صاحب کی ہر بات سمجھ رہی تھیں۔
’’اور وہ زیتون بی بی کے گھر۔۔؟؟؟‘‘ انور صاحب آہستہ آہستہ سب سمجھ رہے تھے۔
’’ہاں وہ بھی۔۔۔ وہ بھی انسان ہیں ہماری طرح انور صاحب۔ آج کے دن انہیں بھی خوش ہونا آتا ہے انور صاحب۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں، انہیں بھی خوشیاں منانی آتی ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں!!!‘‘
بیگم انور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر رو نے لگیں۔
انور صاحب دم بخود ان کی سونی کلائیاں دیکھ رہے تھے۔
گھر کے اندر خوشیوں کی چنریوں کی مہکار تھی اور سامنے زیتون بی بی کے صحن میں رنگیلی چنریاں چمک رہی تھیں۔
انور صاحب نے بیگم کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
انہیں بیگم کے ہر آنسو میں چنریوں کے ہزار رنگ نظر آرہے تھے!!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
گھر کے اندر خوشیوں کی چنریوں کی مہکار تھی اور سامنے زیتون بی بی کے صحن میں رنگیلی چنریاں چمک رہی تھیں۔
انور صاحب نے بیگم کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
انہیں بیگم کے ہر آنسو میں ہزار چنریوں کے رنگ نظر آرہے تھے!!!!
بہت ڈھیر ساری داد و تحسین آنسو بھری آنکھوں سے لکھ رہی ہوں سلامت رہیے اور اسی طرح لکھتے رہیے ۔ڈھیروں دعائیں آپکے لئیے اور ہماری بٹیا کے لئیے سلامت رہیں وہ لوگ جو آسانیاں بانٹنے کا سبب بنتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس تحریر میں دیا گیا پیغام واضح اور بلیغ ہے اور یقینی طور پر بہت اچھا بھی!

لیکن بُنت کچھ ایسی ہے کہ ایک غیر محسوس پیغام بھی قاری تک پہنچ رہا ہے کہ گھر کی یا استعمال کی چیزیں بیچ کر بھی ہلا گلا کیا جا سکتا ہے یا تہوار منایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے تحریر کا ہر گز، ہرگز یہ مقصد یا پیغام نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔خیر۔ :)
 

سید عمران

محفلین
اس تحریر میں دیا گیا پیغام واضح اور بلیغ ہے اور یقینی طور پر بہت اچھا بھی!

لیکن بُنت کچھ ایسی ہے کہ ایک غیر محسوس پیغام بھی قاری تک پہنچ رہا ہے کہ گھر کی یا استعمال کی چیزیں بیچ کر بھی ہلا گلا کیا جا سکتا ہے یا تہوار منایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے تحریر کا ہر گز، ہرگز یہ مقصد یا پیغام نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔خیر۔ :)
بس یہ احساس کہ بچوں کی معصوم ننھی ننھی خواہشات جو سال میں ایک دفعہ اس رنگ سے آتی ہیں انہیں وہ خوشیاں مل جائیں۔۔۔
اور بڑے بھی ان کی خوشیوں میں اپنی خوشیوں کے رنگ بھرسکیں!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بس یہ احساس کہ بچوں کی معصوم ننھی ننھی خواہشات جو سال میں ایک دفعہ اس رنگ سے آتی ہیں انہیں وہ خوشیاں مل جائیں۔۔۔
اور بڑے بھی ان کی خوشیوں میں اپنی خوشیوں کے رنگ بھرسکیں!!!
مجھ جیسے عام قاری کو اس میں جو ایک خوبصورت تأثر ملا وہ ترجیحات کا ہے اور ہمارے ہاں کی خواتین کا وطیرہ سمجھ لیں کہ جب بھی گھر کسی مالی مشکل سے دوچار ہو وہ سب سے پہلے اپنا زیور بیچنے یا رہن رکھنے کے لیے پیش کر دیتی ہے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
بس یہ احساس کہ بچوں کی معصوم ننھی ننھی خواہشات جو سال میں ایک دفعہ اس رنگ سے آتی ہیں انہیں وہ خوشیاں مل جائیں۔۔۔
اور بڑے بھی ان کی خوشیوں میں اپنی خوشیوں کے رنگ بھرسکیں!!!
بالکل یہی احساس اس تحریر کی جان ہے بے جان چیزیں توڑ کر بھی اگر خوشیاں بانٹی جائیں تو احساس بچ جاتا ہے اور تادیر قائم رہتا ہے !!!!!بہت زیادہ اثر انداز اس لئیے ہوئی آپکی تحریر کہ اس بات نے مجھے اپنی والدہ کی یاد دلادی کیونکہ ہمارے والدین واقعی ایسے تھے ہماری والدہ کو سب سے پہلے پڑوس کی فکر ہوتی تھی اور جتنا وہ باخبر ہوتیں تھیں ہم میں سے کوئی بھی اسطرح نہیں ہے ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مجھ جیسے عام قاری کو اس میں جو ایک خوبصورت تأثر ملا وہ ترجیحات کا ہے اور ہمارے ہاں کی خواتین کا وطیرہ سمجھ لیں کہ جب بھی گھر کسی مال مشکل سے دوچار ہو وہ سب سے پہلے اپنا زیور بیچنے کا رہن رکھنے کے لیے پیش کر دیتی ہے
بھیا زیور بناتی اسی لئیے ہیں کے بُرے وقت میں کام آئے!!!!!!!
 

سید عمران

محفلین
لیکن بُنت کچھ ایسی ہے کہ ایک غیر محسوس پیغام بھی قاری تک پہنچ رہا ہے کہ گھر کی یا استعمال کی چیزیں بیچ کر بھی ہلا گلا کیا جا سکتا ہے یا تہوار منایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے تحریر کا ہر گز، ہرگز یہ مقصد یا پیغام نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔خیر۔ :)
کل اس سلسلہ میں کچھ تفصیلات عرض کرنی تھیں لیکن وقت نہیں مل سکا سو آج کردیتے ہیں۔۔۔
جہاں تک بات ہے ہلے گلے کی تو ظاہر ہے تہورا نام ہی اسی کا ہے، ورنہ اس میں اور عام دنوں میں فرق کیا رہ جائے گا۔۔۔
نئے کپڑے، ان پر خوشبوؤں کا چھڑکاؤ، چمکدار جیولری، ہاتھوں پہ مہندی، مزے دار پکوان، عیدیاں بانٹنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا، کھیل تماشے گھڑ سواری، اونٹ کی سواری کرنا، سیر سپاٹے کے لیے کہیں آؤٹنگ پر یا لانگ ڈارئیو پر جانا یا کھانا باہر کھالینا۔پورے معاشرہ کا اجتماعی طور پر اس تہوار میں شریک ہونا ایک الگ احساس رکھتا ہے۔۔۔
ہمارے یہاں تہوار بس انہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منانے کا نام ہے۔۔۔
پھر ہم نے گھر کی ایسی کوئی چیز نہیں بکوائی جو روز مرہ استعمال کی ہو جیسے برتن، چولہا، فرنیچر، فریج، لحاف گدے، قالین وغیرہ۔۔۔
زیور بکوایا ہے جس کا کوئی استعمال نہیں ہوتا اور جس کی مالیت بھی زیادہ نہیں ہے، سونے کے کنگن ہوتے تو بڑی بات ہوجاتی۔۔۔
یہاں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اپنی خوشی قربان کرکے دوسروں کی آنکھوں میں خوشیوں کی چمک دیکھنا کبھی کبھار تمام خوشیوں کا حاصل ہوتا ہے۔۔۔
زندگی کے سمندر میں اعصاب شکن جد وجہد کے درمیان کبھی سستانے کے لیے خوشیوں کے چھوٹے چھوٹےجزیرے بنانے کا موقع مل جائے تو ایسے موقع کو ہرگز نہیں کھونا چاہیئے۔۔۔
کیوں؟ آپ کی کیا رائے ہے!!!
:) :) :)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
یہ سب لکھنے کا خیال ایک وجہ سے آیا۔ وجہ ایک مشاہدہ کی بنی کہ ہمارے یہاں اچھے خاصے متمول لوگ بھی صدقہ فطر گندم کے حساب سے ادا کرتے ہیں جو آج کل کے حساب سے ڈیڑھ سو روپے سے بھی کم ہے۔اللہ تعالیٰ نے صدقہ فطر کو نفل نہیں رکھا واجب کیا ہے کہ عید کی خوشیاں خود بھی مناؤ اور غریبوں کو بھی اتنا دو کہ وہ بھی عام روٹین سے ہٹ کر معاشرہ کی اس اجتماعی خوشی میں سب کے ساتھ مل کر خوشیاں منائیں، ان سے الگ تھلگ نظر نہ آئیں۔

صدقہ فطر ہر اس آدمی پر واجب ہے جس کے پاس ضروری اسباب سے ز ائد اتنی قیمت کا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو مثلاً کپڑے، برتن، فرنیچر یا نقد رقم ضرورت سے اتنی زیادہ ہو کہ اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچ جائے۔ چاہے وہ مال تجارت کا ہو یا نہ ہو اور چاہے اس پر پورا سال گزر چکا ہو یا نہ ہو۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے گھرانے کے نابالغ بچہ پر بھی صدقہ فطر واجب کردیا ہے۔ان سب کا مقصد یہی ہے کہ غریبوں کو زیادہ سے زیادہ مال پہنچ سکے تاکہ وہ بھی روز مرہ کی زندگی سے ہٹ کر ان خاص خوشیوں میں آپ کے ساتھ شامل ہوسکیں۔

اب اگر امیر آدمی بھی ڈیڑھ سو روپے صدقہ دے گا تو اس سے غریب کیا چیز خرید سکتا ہے؟ ان پیسوں میں نہ کپڑوں کا جوڑا آئے گا نہ پکوان کے پیسے۔ البتہ کشمکش کی قیمت کے صدقہ فطر سے جو تقریباً سولہ سو روپے ہے یقیناً کسی غریب کے تن پر نیا جوڑا چمک سکتا ہے، یا اس کا گھر بھی خاص تہوار کے موقع پر خاص پکوان سے مہک سکتا ہے۔

اگر سارے گھر والوں کے لیے کشمش کا صدقہ نہیں دے سکتے تو جتنے لوگوں کا دے سکتے ان کا اس حساب سے دیں باقی کا گندم، جو یا کھجور کے حساب سے دے دیں۔

اصل میں ہم صدقہ فطر کو ٹیکس سمجھ کر جان چھڑانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں، کم ہیں جو اسے عبادت سمجھتے ہیں، ایسی عبادت جس میں بیک وقت حق اللہ اور حق العباد بدرجہ وجوب کے شامل ہیں۔

اس تحریر میں یہی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عید کی خوشیوں کا اعلیٰ درجہ یہی ہے کہ جیسا آپ اپنے لیے خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں بالکل اسی طرح کسی ایسے گھرانہ کا بھی انتظام کردیں جو خود سے یہ انتظام نہیں کرسکتا۔ ہم سارا سال پیزا، برگر اور نہ جانے کتنی چیزوں میں بے تحاشہ پیسہ خرچ کردیتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اپنے اخراجات میں ایک اس خرچ کا بھی اضافہ کردیں۔

اللہ کے لیے خرچ کیا گیا مال خدا کے ساتھ وہ تجارت ہے جس میں بڑھوتری ہی بڑھوتری ہے۔
یہی ہے وہ ’’تجارۃ لن تبور‘‘ جس میں کوئی خسارہ نہیں!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
خوشیوں کے چھوٹے چھوٹےجزیرے بنانے کا موقع مل جائے تو ایسے موقع کو ہرگز نہیں کھونا چاہیئے۔۔۔
کیوں؟ آپ کی کیا رائے ہے!!!
صد فی صد متفق ۔۔۔۔
زندگی بہت کم ایسے موقع دیتی ہے تو کوشش کرنا چاہیے کہ ان سے فائدہ ضرور اُٹھایا جائے ۔۔۔÷۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کل اس سلسلہ میں کچھ تفصیلات عرض کرنی تھیں لیکن وقت نہیں مل سکا سو آج کردیتے ہیں۔۔۔
جہاں تک بات ہے ہلے گلے کی تو ظاہر ہے تہورا نام ہی اسی کا ہے، ورنہ اس میں اور عام دنوں میں فرق کیا رہ جائے گا۔۔۔
نئے کپڑے، ان پر خوشبوؤں کا چھڑکاؤ، چمکدار جیولری، ہاتھوں پہ مہندی، مزے دار پکوان، عیدیاں بانٹنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا، کھیل تماشے گھڑ سواری، اونٹ کی سواری کرنا، سیر سپاٹے کے لیے کہیں آؤٹنگ پر یا لانگ ڈارئیو پر جانا یا کھانا باہر کھالینا۔پورے معاشرہ کا اجتماعی طور پر اس تہوار میں شریک ہونا ایک الگ احساس رکھتا ہے۔۔۔
ہمارے یہاں تہوار بس انہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منانے کا نام ہے۔۔۔
پھر ہم نے گھر کی ایسی کوئی چیز نہیں بکوائی جو روز مرہ استعمال کی ہو جیسے برتن، چولہا، فرنیچر، فریج، لحاف گدے، قالین وغیرہ۔۔۔
زیور بکوایا ہے جس کا کوئی استعمال نہیں ہوتا اور جس کی مالیت بھی زیادہ نہیں ہے، سونے کے کنگن ہوتے تو بڑی بات ہوجاتی۔۔۔
یہاں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اپنی خوشی قربان کرکے دوسروں کی آنکھوں میں خوشیوں کی چمک دیکھنا کبھی کبھار تمام خوشیوں کا حاصل ہوتا ہے۔۔۔
زندگی کے سمندر میں اعصاب شکن جد وجہد کے درمیان کبھی سستانے کے لیے خوشیوں کے چھوٹے چھوٹےجزیرے بنانے کا موقع مل جائے تو ایسے موقع کو ہرگز نہیں کھونا چاہیئے۔۔۔
کیوں؟ آپ کی کیا رائے ہے!!!
:) :) :)
مجھے آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق ہے سید صاحب، صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ کنگن بیچ کر اگر صرف ہمسائیوں کے ہاں ہی رونق دکھائی جاتی اور کرداروں کے اپنے گھر میں ہونے والے معمولات کو نہ دکھایا جاتا تو شاید قربانی کا تاثر قاری کے ذہن میں زیادہ پڑتا۔ ظاہر ہے یہ صرف میری رائے ہے۔ :)
 

سید عمران

محفلین
مجھے آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق ہے سید صاحب، صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ کنگن بیچ کر اگر صرف ہمسائیوں کے ہاں ہی رونق دکھائی جاتی اور کرداروں کے اپنے گھر میں ہونے والے معمولات کو نہ دکھایا جاتا تو شاید قربانی کا تاثر قاری کے ذہن میں زیادہ پڑتا۔ ظاہر ہے یہ صرف میری رائے ہے۔ :)
ہم نے گھر کی تفصیلات نہیں دیں کہ انور صاحب کے کتنے بچے ہیں، یا عید پر ان کے کیا تاثرات تھے۔۔۔
البتہ پڑوسی کی تفصیلات بیان کیں۔۔۔
قربانی دے کر سب بچوں کو خوشیوں میں شریک کرلیا تو اچھا ہی کیا۔۔۔
جس طرح پڑوسی کے بچوں کا حق ہے اپنے بچوں کا اس سے پہلے ہے، اگر آپ اپنے بچوں کو نہیں پوچھیں گے تو انہیں کون پوچھے گا؟؟؟
 
آخری تدوین:

زوجہ اظہر

محفلین
مجھے آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق ہے سید صاحب، صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ کنگن بیچ کر اگر صرف ہمسائیوں کے ہاں ہی رونق دکھائی جاتی اور کرداروں کے اپنے گھر میں ہونے والے معمولات کو نہ دکھایا جاتا تو شاید قربانی کا تاثر قاری کے ذہن میں زیادہ پڑتا۔ ظاہر ہے یہ صرف میری رائے ہے۔ :)

اور یا پھر قرضہ ... قرض دار ہونے کے باوجود بیگم صاحبہ نے صرف چنری دوپٹے لینے کے شوق میں اپنے عزیز کنگن بیچ ڈالے..
پھر یوں لگا کہ اس گلٹ فیلنگ کو چھپانے کے لئے پڑوسی بچیوں کی بھی چنریاں آگئیں
جناب یہ صرف ایک ذاتی تاثر ہے جو محسوس ہوا
 
اور یا پھر قرضہ ... قرض دار ہونے کے باوجود بیگم صاحبہ نے صرف چنری دوپٹے لینے کے شوق میں اپنے عزیز کنگن بیچ ڈالے..
پھر یوں لگا کہ اس گلٹ فیلنگ کو چھپانے کے لئے پڑوسی بچیوں کی بھی چنریاں آگئیں
جناب یہ صرف ایک ذاتی تاثر ہے جو محسوس ہوا
قرضہ تو صاحبِ خانہ پر ہے، وہ جانیں اور ان کے قرض خواہ ۔۔۔ بیگم کیوں ذمہ دار ہوں :)
 
Top