ردی

زیف سید

محفلین
سموسوں کی ریڑھی، سموسوں کی ریڑھی سے آگے، گھڑی ساز کا ٹوٹا کھوکھا، گھڑی ساز کے ٹوٹےکھوکھے سے آگے کتابوں کی دکان، ردی کتابوں کی دکان، جس میں پرانے رسالے، کرم خوردہ ناول، پھٹی جلد والی نصابی کتابیں۔ خجالت زدہ لغزشوں کی طرح بھولی بسری ہوئی، کہنہ لکڑی کے ریکوں میں ٹھونسی ہوئی۔۔۔ اک رسالہ اٹھاؤ تو مٹی کا بادل امنڈتا تھا۔

مگر سال دو سال بعد آپ ہی آپ ردی کتابوں کی دکان میں چمچماتی، لشکتی کتابوں کی اک کھیپ آتی۔ مجلد صحیفے، نفاست سے کاڑھے ہوئے گردپوشوں میں ملفوف نسخے۔محبت کی پہلی کرن کی طرح سینت کر رکھی نازک بیاضیں۔ نئی کھیپ کی یہ کتابیں پرانی کتابوں کو نخوت بھری بے نیازی سے اک لمحے کو دیکھتیں، پھرسلیقے سے خود اپنے اوپر جمی گرد کو جھاڑ کرایک ترتیب سے بیٹھ جاتیں۔

مجھے ایک دن شیخ رحمت علی(مالکِ ایں دکاں) نے بتایا کہ جب بھی کتابوں کا عاشق کوئی اس جہاں سے گزرتا ہے اور اس کی اولاد کو اپنے مرحوم ابا کے کمرے کو بچوں کا بیڈروم، گودام، مہمان خانہ وغیرہ بنانے کا نادر خیال آتا ہے تو اتروا کے مرحوم کے شیلف، عشروں کی محنت سے ان مول یادوں کی مانند یہ جمع کردہ خزانہ مرے پاس کاروں میں بھر بھر کے لاتی ہے۔۔۔ دھندا اسی رنگ سے چل رہا ہے۔

بہت خوب دھندا ہے یہ شیخ رحمت علی۔ پر مرے روز و شب کے مڑے کونوں والے کیلنڈر، کسی کارنس پر پڑی خستہ یادوں کے البم (کہ رنگینیاں جن کی گھل گھل کے کاغذ میں حل ہو گئی ہیں) تپائی پہ سپنوں کی دیمک زدہ جنتری، تشنہ ارمانوں، خفتہ تمناؤں کے ادھڑے ادھڑے رجسٹر (کہ جن کے بہت سے ورق پچھلی شفٹنگ میں جانے کہاں کھو گئے تھے) ارادوں کی الماریوں میں دھری کچے پکے سے منصوبوں کی فائلیں۔۔۔

شیخ رحمت علی، سائبر دور میں اس پرانی کتابوں کی دکان کو کوئی ردی کی دکاں ملے گی؟
 

محمد وارث

لائبریرین
دو دن پہلے کی بات ہے، میں نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ سیالکوٹ میں ایک گول گپوں والے کی دوکان ہے، میں اس کے پاس گول گپوں کیلیے رکا کہ اسکی دوکان کی بالائی منزل میں مجھے کچھ کتابوں کی جھلک نظر آئی، معلوم ہوا کہ وہ پرانی کتابیں بھی بیچتا ہے، میں اوپر گیا تو ایسی ایسی نادر کتب نظر آئیں کہ عرصہ دراز سے جن کو دیکھنے کی حسرت تھی (اور ہے)، زیادہ خوشی اس بات کی تھی ایسی ایک دوکان سیالکوٹ میں مل گئی ہے کیوں کہ مجھے ہمیشہ لاہور کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کافی دیر میں وہاں سے کتابیں منتخب کرتا رہا اور پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے کہ آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلنے پر جو تاسف ہوا وہ بیان سے باہر ہے، بے اختیار منہ سے 'اے بسا آرزو کہ خاک شدہ' نکل گیا۔

صبح اٹھ کر، دفتر آیا اور یہاں سے اردو محفل پر حاضری ہوئی تو آپ کی یہ نظم میری منتظر تھی، کل سے اس "حسنِ اتفاق" پر سوچ رہا ہوں :)
 
میری بیوی اور چھوٹا بھائی بھی مذاقاّ کہتے ہیں کہ آپ کے بعد آپکی سب کتابوں سے بچّے کاغذ کی کشتیاں اور جہاز بنا کر کھیلا کریں گے:)
 
ویسے اس نظم سے مجھے بھاٹی گیٹ لاہور کی ایک بیٹھک یاد آگئی، ہمارے لڑکپن کے دن تھے اور میں کبھی کبھی سنوکر کھیلنے کیلئے اس بیٹھک میں جایا کرتا تھا۔ ۔ وہاں ایک بہت بڑی سالخوردہ الماری بھی تھی جو پرانی کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔۔ ۔ اگرچہ مقفل تھی لیکن اسکے اند بھی گرد کی کافی تہیں بیٹھی ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔میں نے جب پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ مرحوم مسعود کھدر پوش کی کتابیں ہیں اور انکا بیٹا یا شائد پوتا، انس سے کسی قسم کی مناسبت نہیں رکھتا تھا، جبھی تو سنوکر ٹیبل اور ہنگامہءٰ ہا و ہو میں بیچاری کتابیں ایک کونے میں چپ چاپ افسردہ سی زبان حال سے پکار رہی تھیں کہ :
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں مری عمر بھر کا ریاض تھا۔ ۔ ۔ ۔
مرے درد دل کی تھی داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
 

زیف سید

محفلین
وارث اور محمود صاحبان: دیارِ غیر میں حالت اس سے بھی بری ہے۔ یہاں تو ردی کی دکان بھی نصیب نہیں ہوتی۔ ایک تو یہاں کتابیں اکٹھی کرنا بہت مشکل ہے اور دوسرے یہ کہ نئی نسل کو اردو سے کوئی رغبت نہیں ہے۔ ایک ادب دوست صاحب کے پاس ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ ان کی وفات کے بعد اولاد نے کوشش کی کہ کتابیں کسی لائبریری کو دے دی جائیں، لیکن لائبریری نے انکار کر دیا کہ ہمیں اردو کی کتابوں سے کیا واسطہ۔یہاں ردی بیچنے خریدنے کا تصور بھی نہیں ہے، اس لیے آخر آخر ہوا یہ کہ بے حد محبت سے جمع کی ہوئی اور نفاست سے رکھی ہوئی کتابیں کوڑے میں پھینک دی گئیں۔

زیف
 

مغزل

محفلین
رسید حاضر ہے ، دماغ غیر حاضر تھا افطار کے بعد آتا ہوں۔ کیا حیرت کا سامان کرتے پھر رہے ہیں زیف بھیا
 

زیف سید

محفلین
رسید حاضر ہے ، دماغ غیر حاضر تھا افطار کے بعد آتا ہوں۔ کیا حیرت کا سامان کرتے پھر رہے ہیں زیف بھیا

مغل صاحب، دو چار پکوڑے اور ایک آدھ سموسہ بھی تھالی میں رکھ کر ساتھ لیتے آئیے گا۔ بڑی سخت ضرورت ہے اس وقت :)

زیف
 
Top