ردیف الف - غزلیں 1 تا 15

تفسیر

محفلین
صفحہ اوّل

فہرست غزلیات ردیف الف


001 ۔ نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
002 ۔ جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
003 ۔ جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
004 ۔ کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
005 ۔ ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
006 ۔ دل میرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا
007 ۔ شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
008 ۔ دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
009 ۔ شمار سبحہ،" مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا
010 ۔ دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
011 ۔ ستایش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
012 ۔ نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
013 ۔ سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
014 ۔ محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
015 ۔ بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
 

تفسیر

محفلین
[line]
GhalibFrontPage.JPG

[line]
 

تفسیر

محفلین
Ghalib.JPG



01 - 001

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا​

فرہنگ

نقش
تصویر، چھاپ، نشان، لکھا ہوا، کُھدا ہوا

فَریادی
دُہائی دینےوالا، انصاف چاہنےوالا

شوخی
چُلبلاپن، گستاخی

تحریر
لکھنا، لکھنے کا ڈھنگ

پیراہن
کپڑا، پوشاک، لباس

پیکر
چہرہ، صورت

تصویر
صورت بنانا، نقشہ، شبیہ، نہایت خوبصورت، حسین

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ اس طرح لکھنے کا ڈھنگ کس کی شرارت کوظاہر کرتا ہے؛ انصاف چاہنے والے کی یا خود تصویر کی؟

مصرعہ نمبر 2۔ ہمارا وجود ایک تصویر کی طرح نظری ہے جس میں سوگواری، غم، دکھ اور رنج وملال ہے۔


تبصرہ

1۔ زندگی میں عاشق کی معشوق سےجدائ اتنی شدید ہوتی ہے کہ تصویرمیں ایک شبیہ بھی شکایت کرتی ہے۔ اور حاصلِ زندگی تصویر نہیں ایک زندگی ہے۔ تصویرخود بھی زندگی پانے کےجذبےمیں فنا ہونے کی آرزو رکھتی ہے۔
2 ۔ تصویر زبان حال سے تظلم و فریاد کرتی ہے۔
3 ۔ حیات اپنی بےثباتی اور ناپائیداری کی بنا پرتکلیف اورغم کا منبع ہےاور ہم اس کےدائمی فریادی۔


قصص و روایات

ایران کےشہنشاہ نوشیرواں نےاپنی آرام گاہ کے باہرایک زنجیرلگوائ تھی جس کےسرے پرایک گھنٹی تھی۔ فریادی کاغذ کےلبادے میں ملبوس آ کراس زنجیر کو کھینچتا تھا۔ نوشرواں، اس کی فریاد سنتا اورانصاف کرتا تھا۔ شہنشاہ جہانگیرنے بھی نوشیراں کی طرح ” انصاف کی زنجیر“ لگائ تھی۔


لفظی و معنوی خوبیاں

شعر کی پہلی سطر انشائیہ ہے۔

انشائیہ
ایساجملہ جس کوجھوٹ نہیں کہا جاسکتا۔ عام طور سوالیہ، قیاسیہ، ندائیہ، شرطیہ، تعجباً جملےایسے ہوتے ہیں۔ انشائیہ کا تضاد خبریہ کہلاتا ہے۔
جس طرح کہ بعض اوقات دنیا میں فریادی ناانصافی کےخلاف شمع جلاتے ہیں یا عرب لوگ مقتول کے خون سے بھرے ہوئے کپڑوں کی کھمبوں پرنمائش کرتے ہیں، اسی طرح ایران میں ایک رسم ہے جیسےنقشِ فریادی کہتے ہیں۔ اس رسم کےمطابق فریادی حکمران کے پاس کاغذ کا لباس پہن کرجاتا ہے

مراعت النظیر
کلام میں ایسی اشیاء کا ذکر کرنا جن میں تضاد یا تقابل کےسوا کوئ اور نسبت ہو ۔ مثلاً سرو، گل، لالہ، بلبل، چمن کا ایک جگہ ذکر کرنا۔ یا صراحی، پیمانہ، جام کا ذکر کرنا۔ اس صنعت کو توفیق، تلفیق اور ایتلاف بھی کہتے ہیں۔
اس شعر میں تحریر، کاغذی، پیرہن، پیکر، اور تصویر مراعت النظیر کی امثال ہیں۔

مناسبت
شعرمیں آوازوں کا خوبصورت تناسب بھی ہے ۔
فریادی، کس کی، شوخی، کاغذی ہے، پیرہن، ہر پیکر۔ اس شعر میں ’ ای‘ چار بار آتا ہے اور’ اے‘ تین بار ۔

تجاہلِ عارفانہ
لغوی معنی " جان بوجھ " کر انجان بننا ۔ یعنی ایک چیز کوجاننے کے باوجود کسی نکتے کےلئے اس سےلاعلمی ظاہر کرنا۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
” کس نےتمام تخلیقات میں ایسی شوخی ظاہر کی کہ ہرمنفرد کے لیے یہ برداشت سے باہر ہے اور وہ فریاد کرتا ہے؟ “

حسنِ تعلیل
کسی چیز کے وقوع کے لیےایسی وجہ بیان کی جائے جوحقیقت پر مبنی نہ ہو لیکن شاعرایسے انداز میں پیش کرے کہ حقیقت معلوم ہو۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

پہلی سطرمیں ” شوخیِ تحریر۔ اشیاء کا بننا اور بگڑنا“ ، دوسری سطرمیں ” تصویر کا لبادہ کاغذ۔ فریادی کا لباس“
یا
جیسےسب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

میں لالہ وگل کے زمین سے اُبھرآنے کی وجہ یہ بتائ ہے کہ حسینوں کو زمین میں دفن کردیا جاتاہے توحسن فنا نہیں ہوتا بلکہ لالہ وگل کی شکل میں پھر نمودار ہوجاتا ہے۔ حالانکہ لالہ و گُل کے زمین سے نمودار ہونے کی یہ وجہ ہرگز نہیں ہے۔


شاعری کےاصطلاحات

دیوان ۔ دیوان شاعر کے کلام کا ایک مجموعہ ہے ۔ شاعرعموماً اس میں کلام کومنتخب کرتا ہے۔دیوان میں، غزلیں ردیف کے لحاظ سےترتیب دی جاتی ہیں۔اگر ردیف موجود نہ ہو توقافیہ استعمال کیا جاتاہے۔ ہرحرف میں شاعراپنی پسند سے غزلیں ترتیب دیتاہے۔

مطلع۔ غزل کا پہلا شعر، جس کی دونوں مصرعوں میں ایک جیسا قافیہ ہونا ضروری ہے اور اگر ردیف موجود ہے تو اس کا بھی ایک جیسا ہونا ضروری ہے۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع ہونا لازم نہیں۔

[line]

02 - 001

کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

فرہنگ

کاو کاو
کوشش، تفشش، کجھانا، زخم کو ناخون سے چِھیلنا۔۔ فارسی مصدر کاویدن سے ہے، جس کے معنی ہیں کھودنا، کاوش، سخت محنت، رنج ( نوائے سروش )، تلاش، جستجو، کھوج

سخت جان
وہ شخص جس کی جان مشکل سےنکلے، جفا کش، بےحیائ سےزندہ رہنےوالا

تنہائ
علحیدگی، اکیلا رہنا

جوئے
جُو ندی یا نہر کو کہتے ہیں۔ ئے اضافت کے لیے ہے۔

شِیر
دودھ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 ۔ الف ۔ اس مشکل اور جفاکش زندگی میں جو کھود میں نے کی ہے، اس کا مت پوچھو
ب ۔ اس مشکل اور جفاکش زندگی نے جو کھودا ہے اس کا مجھ سےمت پوچھو۔

مصرعہ نمبر 2 ۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں سورج کےنکلنےسے پہلےاور اس کے غروب ہونے تک ایک دودھ کی نہرکھود رہا ہوں۔


تبصرہ

1 ۔اس مشکل اور جفاکش زندگی کی کھود کا مجھ سےمت پوچھو جس نےمجھے لچکدار اور ضدی بنادیا ہے، اس زندگی نےایسی تنہائ، علحیدگی اور ویرانی دی ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے میں سورج کےنکلنےسے پہلےاور اس کےغروب ہونے تک ایک دودھ کی نہر کھود رہا ہوں۔

2 ۔ نہر کی تکمیل کامیابی فرہاد کی موت کا سامان بن گئ۔ میں بھی اس شام غم کومر کر ہی ختم کرسکتا ہوں۔


قصص و روایات

سنگ تراش فرہادنےایک دن شہزادی شیرین کو دور سےدیکھا اور اس اس کےعشق میں گرفتار ہوگیا۔ اس کےشیرین پر عاشق ہونے کا چرچہ شیرین کےشوہرخسرو تک پہنچا، خسرو نےفرہاد کا مذاق اڑانے کےلیے کہا ” اگرفرہاد پہاڑ کھود کرایک نہر بنائےجس میں دودھ بہہ کرشیرین کےغسل خانےتک پہنچے تو فرہاد کو شیرین مل سکتی ہے“ ۔ یہ کام کوہِ بےستون کو کاٹنا تھا، مگرفرہاد کو شیرین کی ایسی لگن تھی کہ اس نےاس کام کوتقریباً مکمل کرلیا اور اس کا لقب کوہ کُن بن گیا۔ خسرو کو جب یہ خبرملی کہ فرہاد نہرکومکمل کرلےگا تواس نےفورا ایک قاصد کے ہاتھ فرہاد کو یہ پیغام بھیجا ” شیرین کی موت ہوگئ“، فرہاد نےجب یہ سنا تواس نے کدال اپنےسر پرمارلیا۔ اس طرح اس کی موت ہوگئ۔


لفظی و معنوی خوبیاں

بےمعانیات : مشاعرہ میں پڑھی جانے والی غزلوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ جب تک دوسری سطرنہ پڑھی جائے پہلی سطر بےمعنی لگتی ہے ۔ یہاں بلکہ پورا شعرسمجھ سے باہر ہوگا تا آنکہ ہمیں شیرین اور فرہاد کا قصہ معلوم نہ ہو۔

سخت جان: میں ( جفا کش ، بے حیائ سے زندہ رہنے والا ) اچھائ اور بُرای کی دونوں صِفات موجود ہیں۔ غالب نے ’ کاوکاوِ‘ کو جس طرح استعمال کیا ہے اس سے یہ لفظ ایک صوتی ترکیب بن گیا ہے۔

کاوکاوِ سخت جانی: اضافت کا استعمال دو معنی پیدا کرتا ہے۔ ” اور جفاکش زندگی میں جو کھود میں نے ’ یا ‘ مشکل اور جفاکش زندگی نےجو کھود مجھ میں“

شاعری کے اصطلاحات

دن اور رات: غالب کے کم از کم چودہ اشعار میں صبح و شام، شب و دن، شب و روز کا ذکر ہے۔

[line]

03 - 001

جذبۂ بےاختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا


فرہنگ

جذبہ
ولولہ، غصہ، کشش، دل کاجوش

بےاختیار
بےقابو، بےبس، بہت زیادہ، خود بخود

شوق
خواہش، رغبت

سینہ
چھاتی، صدر، سامنے کےرخ پرگردن اور پیٹ کا درمیانی حصۂ جسم

شمشیر
تلوار، تیغ، (شم، بعمنی ناخن) شیر کےناخن کےمانند

دم
سانس، زندگی، تلوار کی دھار


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1
میرے بےقابو جذبات د یکھنے کے قابل ہیں

مصرعہ نمبر 2
سانس، زندگی، تلوار کی دھار، سب تلوار کے سینے سے باہر ہیں


تبصرہ

میرا جوش اور ولولہ تودیکھو کہ تلوار کی آب باہر آگئی ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

تجاہلِ عارفانہ
لغوی معنی ” جان بوجھ “ کر انجان بننا۔ یعنی ایک چیز کوجاننے کے باوجود کسی نکتہ کے لئےاس سےلاعلمی ظاہر کرنا۔

” میرا جوش اور ولولہ تودیکھو کہ تلوار کی آب باہر آگئی ہے“ ۔
اسی طرح تلوار بھی ہتھیار اور شوق کےمعنی میں استعمال ہوئ ہے، تلوار کےذکرمیں لفظ آب داری ( باڑھ تیزی) بھی استعمال ہوتا ہے، آب داری کو تلوار کا ’دَم‘ کہتے ہیں، تلوار کےآب کا رخ ہمیشہ بیرونی طرف ہوتاہے ۔

رعایتِ لفظی
ایک قسم کی صنعتِ لفظی جس میں الفاظِ تشبیہات اور استعارے پہلےلفظ کی مناسبت سےآتے ہیں۔

شمشیر کا دو دفعہ استعمال اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ دَم کےیہاں دو معنی’سانس‘ اور ’دھار‘ مناسب ہیں۔ دم کوسانس اور تلوار کی دھار کے معنی میں استعمال رعایت کی نشان دہی کرتا ہے۔

[line]
04 - 001

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

فرہنگ

آگہی
آگاہی کا مخفّف، واقفیّت، خبر، علم ہونا، معلوم ہونا

دام
جال، پھندا، قیمت

شُنیدن
سننا

قدر
عزت ، بزرگی، قیمت، مقدار، یکساں

مدّعا
مطلب ، مقصد ، خواہش

عنقا
نایاب، نادر شے، ایک قسم کا سب سے بڑا خیالی پرند جس کا حقیقت میں کوئ وجود نہیں۔

عالمِ
حالت، کیفیت، دنیا

تقریر
بیان، ذکر، گفتگو، وعظ، بحث و مباحثہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 ۔ الف ۔ جس حد تک ' ہوشیار' جال پھیلانا چائیں پھیلانےدو ۔
ب ۔ مجھے پرواہ نہیں کس حد تک ' ہوشیار' اپنا جال پھیلائیں

مصرعہ نمبر 2 ۔ الف ۔ میرےالفاظ کی دنیا کا مدعا، بمثلِ عنقا ہے۔
ب ۔ میرے الفاظ کی دنیا میں کوئ مدعا نہیں
پ ۔ مدعا ہی میرےالفاظوں کی دنیا کا عنقا ہے
ت ۔ عنقا ہی خود کے الفاظوں کی دنیا کا مدعا ہے


تبصرہ

آپ چاہے کچھ ہی کہیں اور ایک شکاری کی طرح عقلمندی کے جال بچھائیں، تو کیا؟ میرا بیان ایک انوکھے پرندہ کی طرح ہے جواس جال میں نہیں پھنس سکتا، میری باتوں میں سراسر اَسرارِغیبی ہیں۔


لفظی و معنوی خوبیاں

مُتعدِّی: دوسری سطر مُتعدِّی ( فعل معفول کو چاہے ) ۔ یعنی ' مدعا عنقاہے ' یا ' عنقا مدعا ہے'

معنی آفرینی
ایک بات میں کئی معنی چُھپے ہوں۔ غالب کےا شعار زیادہ تر ذومعنی ہوتے ہیں۔
غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ اردو شاعری مضمون نگاری ہے قافیہ بندی نہیں۔


شاعری کے اصطلاحات

عنقا ۔ عربی کہاوتوں میں ایک فرضی پرندہ ، جس کی ایک ہی صفت ہے کہ وہ " نہیں ہے" لہذا پکڑا نہیں جاسکتا۔

غالب نے دو اور شعروں میں اس کا ذکر کیا ہے۔

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنّا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقاہے

[line]
05 - 001

بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

فرہنگ

بسکہ
چونکہ، القصہ ،حاصلِ کلام، غرض

اسیری
قید، گرفتاری

زیر
نیچے، تلے، کم طاقت، گھٹیا، کَسَرہ

پا
پاؤں، قدم، پیر، نیچے، قدرت، بنیاد

موئے
مو کے معنی ہیں بال، ئے اضافت کےلیے ہے۔

آتش
آگ

دیدہ
آنکھ

آتش دیدہ
آگ کو دیکھایا ہوا وہ بال جو پیچیدہ ( آنکھ کی شکل کا ہوجائے ) ہوجائے

حلقہ
دائرہ، گھیرا، مجلس، ضلع

زنجیر
لڑی سلسہ، دروازے کی کنڈی


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 ۔ ( الف ) غالب، میں قید بھی میں بےچین ہوں۔
( ب ) غالب، اگرچہ میں قید میں ہوں مگر بےچین ہوں۔

مصرعہ نمبر 2 ۔( الف ) وہ بال ہے جس نےآگ دیکھی ہے میری زنجیر کی ایک کڑی ہے۔
( ب ) میری زنجیر کی ایک کڑی وہ بال ہے جس نےآگ دیکھی ہے۔


تبصرہ

1 ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم مجھےاس طرح مقید کردوگے؟ میرا آتشی جوش میری زنجیر کو ایک خاک کےدائرے میں تبدیل کردےگا۔
2 ۔ میں اپنے جوش و ولولہ سے میں اتنا جل چکا ہوں کہ موئے آتش دیدہ میں مجھے باندھ سکتے ہو۔


لفظی و معنوی خوبیاں

حسنِ تعلیل
کسی چیز کے وقوع کے لیے ایسی وجہ بیان کی جائے جو حقیقت پر مبنی نہ ہو۔ لیکن شاعر ایسے انداز میں پیش کرے کہ حقیقت معلوم ہو۔

موئے آتش دیدہ ایک بال جس نے آگ دیکھی ہے، اگر آپ ایک جلتا ہوا بال دیکھیں تو وہ ایک دائرہ بن رہا ہوتا ہے - دوسرے مصرعہ میں غالب کی دلیل ” اگر یہ ہے تو وہ ہے“ اور ” اگر وہ ہے تو یہ ہے“ قابل تعریف ہے

بسکہ
پہلے مصرصہ میں بسکہ کا استعمال ( اگرچہ ، اس حد تک، جب سے ) ذومعنی ہے۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg



- 002 -

جَراحَت تحفہ الماس ارمغاں داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسد غم خوارِ جانِ درد مند آیا



border3.jpg

[line]


01 - 002

جَراحَت تحفہ الماس ارمغاں داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسد غم خوارِ جانِ درد مند آی

فرہنگ

جَراحَت
زخم، گھاؤ

تحفہ
ہدیہ، سوغات، نذر۔ پیش کش، انوکھا، عمدہ

الماس
ہیرا، ایک قیمتی جواہر جو نہایت چمکیلا ہوتاہے

ارمغاں
تحفہ، ہدیہ، سوغات، نذر، پیش کش

داغ
نشان، دھبہ، صدمہ

جگر
کلیجہ، جان، طاقت، حقیقت، معشوق، بیٹا، یار

ہدیہ
تحفہ، نذرانہ، نذر، پیش کش،- کلام اللہ کی قیمت

١سد
اسداللہ خان غالب کا پہلا تخلص، غالب نے یہ تخلص کم از کم چالیس غزلوں میں استعمال کیا ہے

غم خوار
دکھ درد کا شریک، ہمدرد

جان
روح، زندگی، طاقت، ہمت، جوہر، نہایت عزیرچیز، پیارکا کلمہ

درد مند
ہمدرد، غم گسار، غم خوار

شعر

غم خوار میرے محبوب کو یہاں آنے کے لیے رضامند کرنےگیا تھا۔ مبارک ہواسد وہ کم بخت تمہارے لے تین تحفوں ( زخم، ہیرے کا تحفہ اور جگرچیری کا نذرانہ ) کی سوغات لے کر کے واپس ہوا ہے۔
یا
غم خوار میرے محبوب کو یہاں آنے کے لیے رضامند کرنےگیا تھا۔ مبارک ہو اسد وہ رحم دل تمہارے لے تین تحفوں ( زخم، ہیرے کا تخفہ اور جگر چیری کا نذرانہ ) کی سوغات لے کر کے واپس ہوا ہے۔

تبصرہ

دیوان غالب میں اس شعر کو فرد کے طور پر پہلی غزل کے بعد لکھاگیا ہے ۔بعض تنقید نگاروں نےاس شعر کو دیوان کی آٹھویں غزل۔

شمارِ سبحہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل پسند آیا۔

کا آخری شعر شمار کیا ہے ۔

پہلا مصرعہ میں تین تحفوں کو لانے کا ذکر ہے ۔ دوسرے مصرعہ میں درد مند کوطنز کرنے والا یا مخلص دوست ، دونوں کی صورتوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔غم خوار کا استعمال اضافت کی رعنائیوں کوظاہرکرتا ہے۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 003 -

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسود تھا

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہ کہ رفت گیا اور بود تھا

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا


border3.jpg


[line]

01 - 003

جُز قَیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسُود تھا​

فرہنگ

جُز
سوائے، علاوہ ، بن ، ماورا، پارا ، ٹکڑا، سولہ صفحوں کا مجموعہ

قَیس
مجنون کا نام جو لیلیٰ کا عاشق تھا

رُو
چہرا، رُخ، وجہ ، تختہ، سامنا، اُمید ، سمت

کار
کام کاج، پیشہ ، مطلب، شغل، معماعلہ، غرض، شادی کی تقریب

بروئے کار آنا
نمایاں ہونا، بر سرِ کار آنا ، سامنے میدان میں آنا

صحرا
میدان جہاں درخت وغیرہ کچھ نہ ہو بیابان ، ویرانہ، ریگستان

مگر
شاید، لیکن ، ماسوا ، پھر، با این ہمہ

تنگی
کوتاہی، کمی، چھوٹا پن ، غربت ، مشکل ، کنجوسی ، تھیلا ، بوری

چشم
آنکھ ، دیدہ ، نین، نیتر، عین، آس، امید

حُسُود
بدخواہ ، حسد کرنے والا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 ۔ قیس کے علاوہ کوئ اس پیشہ (عاشقی) میں نہیں آیا۔
مصرعہ نمبر 2 ۔ الف۔ شاید اس لئے کہ صحرا ایک حاسد کی آنکھ کی طرح تنگ نظر (چوڑا نہیں تھا) تھا۔
ب۔ لیکن صحرا ایک حاسد کی آنکھ کی طرح تنگ نظر تھا


تبصرہ

معشوقہ کی دنیا میں قیس کے علاوہ دوسرے نہیں آئے۔ان کے ساتھ صحرا شاید حاسد کی آنکھ کی طرح تنگ چوڑا نہیں تھا ۔ صحرا کو قیس سےعشق ہے لیکن دوسروں کےلیےصحرا ایک حاسد کی آنکھ کی طرح تنگ اور بدخواہ تھا


قصص و روایات

ليلیٰ و مجنون عشق کی ایک مستند کہانی ہے۔ ساتویں صدی میں بنواميہ کے زمانے میں ایک چرواہا لیلیٰ کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ قیس کو لیلیٰ سےعشق کا جنون اتنا تھا کہ لوگ اس کو لیلیٰ کا مجنون کہنے لگے۔ لیلیٰ کے باپ نے لیلیٰ کی مجنوں سے شادی نہیں کی۔ آخرکار قیس نے مایوس ہوکراپنی زندگی صحرا اور بیاناں میں گزار دی۔ بارھویں صدی میں ایران کے نظامی نے ایک ہزار سطروں کی مثنوی لکھی جو خمسہ کا ایک حصہ ہے۔ نظامی نے اس روایت میں کافی تبدلیاں کیں۔ تیرہویں صدی میں امیر خسرو نے نظامی کی ليلیٰ و مجنون سے متاثر ہو کر اردو میں ليلیٰ و مجنون لکھی۔ پندرہویں صدی میں جامی کی ليلیٰ و مجنوں عربی کہاوت پر منحصر ہے


لفظی و معنوی خوبیاں

مگر
' مگر ' کے دونوں معنی ' شاید اور لیکن ' یہاں استعمال ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم شاید کو استعمال کرتے ہیں تو پہلا مصرعہ دوسرے مصرعے کا نتیجہ بن جاتی ہے۔

مناسبت
شعرمیں آوازوں کا خوبصورت تناسب بھی ہے۔

لفظ ’رو‘ جس کے معنی چہرہ ہیں اور چشم جس کے معنی آنکھ ہیں اس دونوں رو اور چشم میں مناسبت ہے۔

[line]
02 - 003

آشفتگی نےنقشِ سُوَیدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

فرہنگ

آشفتگی
پریشانی، دیوانہ پن، حیرانی

نقش
تصویر، چھاپ، نشان، لکھا ہوا، کُھدا ہوا

سُوَیدا
وہ سیاہ نقطہ جو انسان کے قلب پر ہوتا ہے۔ دل کا مرکز

دُرُست
ٹھیک، صحیح، بجا، موزوں

ظاہر
واضح، آشکار، روشن، عیاں، کھلا ہوا، باطن کا نقیض

داغ
نشان، دھبہ، صدمہ

سرمایہ
دولت، پونجی، اصل زر، وہ اشیا جو دولت پیدا کرنے میں مدد کریں

دُود
دھواں، دھند، غبار، بخارات،۔ بھاپ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرے دیوانے پن نے میرا ' سویدا ' درست کردیا۔
مصرعہ نمبر 2۔ مجھے پتہ چلا کہ میرے زخم کے داغ جنہیں میں سرمایہ سمجھا، عارضی تھے۔


تبصرہ

میرے دیوانہ پن نےمیرے ' سویدا ' کودرست کردیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک مستقل داغ نہ تھا بلکہ میرے دل پر یہ عارضی غبارتھا ۔

1 ۔اگر غالب نے آشفتگی کا مطلب طبیعت کی پریشانی لیا ہے اور نقشِ سویدا کو عشق کے داغ ، تو عشق کا ولولہ اور آہ اصلیت میں ایک دھند اور غبار ہیں جو کہ توجہ نہ دینے پر چلےجاتے ہیں۔

2 ۔ شاعر کے نزدیک دل کے نقطے یعنی سویدا کی سیاہی آہ و فغاں کے اسی دھویں کا کرشمہ تھی جو عشق کی پریشانی و آشگفتگی میں مسلسل اٹھتا رہتا ہے


لفظی و معنوی خوبیاں

سویدا
سویدا لفظ ’سودا‘ کا خفیف ہے۔ جس کے معنی ' کالا ' ہے لیکن مجازاً اس کو ' پاگل پن ' کے لئے استمال کیا جاتا ہے۔ غزل میں اس کا استعمال شاعر پر منحصر ہے

ہزاروں دل دیے جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں

اس شعر میں غالب نےسویدا کو قلب کا سیاہ داغ کہا ہے۔

دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں

یہاں سویدا کا استعمال متصوفانہ ہے۔

03 - 003

تھاخواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زِیاں تھا نہ سُود تھا​

فرہنگ

خواب
وہ بات جو انسان نیند میں دیکھے، سُپنا، نیند، خیال، وہم

خیال
تصور، وہ صورت جو آدمی بیداری میں تصور کرے یا خواب میں دیکھے، فکر، اندیشہ، دھیان، سمجھ، لحاظ

معاملہ
عمل، کام کاج، لین دین، قول و قرار، بات، خاص بات، جھگڑا، تعلق

زِیاں
نقصان، خسارہ

سُود
قرض دیئے ہوئے روپے پر نفع، بیاج، فائدہ، بھلائ

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔خواب میں میرا خیال تجھ سےلین دین کر رہا تھا۔
مصرعہ نمبر 2۔جاگنے پر پتہ چلا کہ یہ لین دین پرابر رہا۔ اس لین دین میں نا تو مجھےفائدہ ہوا اور نا ہی مجھے کوئ نقصان ہوا۔


تبصرہ

پہلا مصرعہ پڑھنے پر معاملہ کی اصلیت واضح نہیں ہوتی۔ کیا یہ صرف ایک خواب تھا؟ یا صرف ایک خیال؟ اور اگر یہ خواب تھا تو کس بارے میں تھا؟ کیوں کہ غزل میں معاملہ بندی، رومانی معاملات میں ہوتی ہے۔ اس لئے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ شاید یہ خوشی یا غم سے متعلق خواب و خیال ہو۔ دوسرا مصرعے اس گتھی کا حل نہیں کرتا۔ ہم سےیہ معاملہ پوشیدہ رہتا ہے۔ دوسرا مصرعہ صرف اس معاملہ میں نفع اور نقصان کا ہونے کا ذکر کرتا ہے، یعنی معاملہ برابر رہا۔ لیکن کس چیز میں؟ ہاں ہمیں یہ پتہ ہے ' وہ ' جو بھی ہے اس سے غالب کا ' خیال' لین دین کر رہا تھا، غالب بہ ذات خود نہیں۔ اگر ہم ' تم ' کو دنیا سے خطاب سمجھ لیں تو اس شعر کا مطلب ' دنیاوی حیات ایک دھوکا ہے ' ہوجاتاہے۔

[line]
04 - 003

لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہ کہ رَفت گیا اور بُود تھا​

فرہنگ

مکتب
لکھنے پڑھنے کی جگہ، مدرسہ، درس گاہ، اسکول

غم
رنج، دُکھ، افسوس، ملال، حزن، الم

دل
ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کوخون پہنچانا ہے، قلب، حوصلہ، جرات، رُخ، مرضی، سخاوت، مرکز

غمِ دل
دل کا رنج
سبق
کتاب کا وہ حصہ جو شاگرد اُستاد سے بہ طورِ درس ایک دفعہ پڑھے، عبرت، تجربہ، نصیحت، سزا، سبقت

ہنوز
ابھی تک، اب تک، اس وقت تک، ابھی

رفت
چلنا، روانگی، آمدو رفت،گیا

بُود
تھا، وجود، قیام، ہستی


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔الف ۔ میں اب مکتبِ غمِ کےاسکول میں صرف یہ سبق لیتا ہوں
ب ۔ میں ابھی بھی مکتبِ غمِ کے اسکول میں صرف یہ سبق لیتا ہوں

مصرعہ نمبر 2 ۔ الف ۔کہ " ہےگیا اور تھا ہےتھا "۔
ب ۔ کہ " گیا، گیا اور تھا، تھا"۔

تبصرہ

1 ۔ میں اب وہ سبق سیکھ رہا ہوں ۔ کہ “گیا ہے گیا اور تھا ہے تھا“۔ یہ سبق میں نے پہلے نہیں سیکھے تھے، اس میں کوئ حیرانی نہیں کہ میں مکتبِ غمِ اسکول میں مبتدی ہوں

2۔ کیونکہ میں اب بھی سبق سیکھ رہا ہوں کہ ' گیا، گیا اور تھا، تھا '۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میرا اس کو کھونے کا غم کتناگہرا ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

ہنوز
اس شعر میں ' ہنور ' دو معنی میں اب بھی اور ابھی تک استعمال ہوا ہے۔

کنایہ
کنایہ لغت میں مخفی اشارہ یا پوشیدہ بات کو کہتے ہیں ۔ علمِ بیان کی اصطلاح میں کنایہ وہ لفظ ہے جس کے معنئ حقیقی مراد نہ ہوں بلکہ معنئ غیر حقیقی مراد ہوں اور اگر حقیقی معنی بھی مراد لئےجائیں توجائز ہو، اس میں ملزوم سے لازم مراد لیا جائے۔ مثلا سفید ریش سے بوڑھا مراد لینا ہے۔

ع ہوگئے موئے سیاہ موئے سپید

اس کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ سیاہ بال سفید ہوگئے مگر مراد مجازی معنی لئے جاتے ہیں کہ جوانی گئی اور بڑھاپا آیا تاہم اگر حقیقی معنی بھی مراد لیں تو درست ہیں۔

مکتبِ غمِ دل ایک اچھا کنایہ ہے جو ناقابوجذبہ کو ظاہر کرتاہے۔

دوسرے مصرعے میں تصوف جھلکتا ہے “جوگیا وہ تھا“

[line]
05 - 003

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا​

فرہنگ

ڈھانپنا
چُھپانا، ڈھکنا

کفن
وہ کپڑا جس میں مُردے کو لپیٹتے ہیں، مُردے کی چادر

داغ
دھبہ، نشان، عیب، کلنک کا ٹیکہ، غم، حسد، عیب

عیوب
عیب کی جمع، نقص، بُرائ، خرابی، قصور، گناہ

برہنگی
عریانی، ننگاپن

وَرنہ
اور بھی تو، وگرنہ

لباس
پوشاک، جامہ، کپڑے، رُوپ، شکل، بھیس

ننگ
لحاظ، شرم، حیا، ذلت، بدنامی

وجود
زندگی، ہستی، جسم، بدن، ذات، ظہور، پیدائش، مادہ، جوہر


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرے نقائص کو میرے کفن نے ڈھک دیا۔
مصرعہ نمبر 2۔ الف۔ ورنہ میں وجود کےلیےشرم و ذلت تھا
ب۔ ورنہ ہرلحاظ سےمیں وجود کےلئے شرم و ذلت ہوتا


تبصرہ

میرے مرنے سے میرے میرے نقائص مٹ گئے ورنہ میرا وجود زندگی کے لیے شرم و ذلت تھا۔
یہ شعر ہمارا دھیان قران شریف ۔ سورۃ اعراف پارہ نمبر 8، آیت نمبر 26 کی طرف لے جاتا ہے۔

ترجمہ: اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمہارے لئے اتارا ہے لباس جو تمہارے پردہ دار بدن کو ڈھانکتا ہے اور زینت کی چیز ہے اور تقویٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ اللہ کو یاد رکھیں۔

لفظی و معنوی خوبیاں

ورنہ
اس شعر میں ورنہ ذو معنی ہے ۔ یہ ماضی کو ظاہر کرتاہے یا حقییقت بیان کرتا ہے۔

ننگ
ننگ کےدونوں معنوں میں تضاد ہے ۔ایک طرف عزت ، لحاظ اور قدر کےمعنی میں استعمال ہوسکتاہے اور دوسری طرف بےعزتی ، بدنامی ، رسوائی کے لیے۔


06 - 003

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود تھا​

فرہنگ

تیشہ
کدال، بڑھئیوں کا ایک اوزار جس سے لکڑی تھوڑی تھوڑی چھیلتے ہیں، بسولا

کوہ کن
پہاڑ کھودنے والا، شیرین کےعاشق فرہاد کا لقب

سر
کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصہ، ابتداء، دماغ، زور، عنوان، عشق، خیال، خلاصہ، سردار

گشتہ
پھرا ہوا، اُلٹا ہوا، بدلہ ہوا، بنا ہوا

سرگشتہ
سر کا چکرانا

خمار
نشہ، سرشاری، کیف، نشہ اترنے کے قریب جو سر درد ہوتاہے

رُسُوم
رَسم کی جمع، دستور، رواج، نشان، نقوش، عادتیں، آئین ، بکے ہوے مال پر کمیشن یا دستوری

قُیُود
قید کی جمع، شرطیں، پابندیاں


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ کوہ کن سر میں بغیر کدال مارے نہ مر سکا۔

مصرعہ نمبر 2 ۔ وہ رسم و رواج میں اس قدر مقید تھا


تبصرہ

کوہ کن رسم و رواج میں اس قدر مقید تھا کہ وہ سر میں کدال مارے بغیر نہ مر سکا۔

غالب نے فرہاد کے رسم نبانے پرطنز کیا ہے۔ شیرین کی موت کی خبر سن کر فرہاد نے نے کدال سےاپنا سر پھوڑ لیا۔ فرہاد، رسم و رواج کا اتنا پابند تھا کہ اُن کے بغیر بھی مرنہ سکا۔اگرعشق کا خمار صحیح طرح ہوتا تو وہ بغیرسر پھوڑے مرجاتا۔ مرنے کے لئے ایک ٹھنڈی آہ ہی کافی تھی۔


قصص و روایات

سنگ تراش فرہاد نےایک دن شہزادی شیرین کو دور سےدیکھا اور اس اس کےعشق میں گرفتار ہوگیا۔ اس کےشیرین پر عاشق ہونے کا چرچہ شیرین کےشوہرخسرو تک پہنچا، خسرو نےفرہاد کا مذاق اڑانے کےلیے کہا ”اگرفرہاد پہاڑ کھود کرایک نہر بنائےجس میں دودھ بہہ کرشیرین کےغسل خانےتک پہنچے تو فرہاد کو شیرین مل سکتی ہے“۔ یہ کام کوہِ بےستون کو کاٹنا تھا، مگرفرہاد کو شیرین کی ایسی لگن تھی کہ اس نےاس کام کوتقریباً مکمل کرلیا اور اس کا لقب کوہ کُن بن گیا۔ خسرو کو جب یہ خبرملی کہ فرہاد نہرکومکمل کرلےگا تواس نےفورا ایک بوڑھی عورت کے ہاتھ فرہاد کو یہ پیغام بھیجا ” شیرین کی موت ہوگئ“۔ فرہاد نےجب یہ سنا تواس نے کدال اپنےسر پرمارلیا۔ اس طرح اس کی موت ہوگئ۔ غالب ایک اور جگہ کہتے ہیں۔

دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پاؤں
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 004 -

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا

دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرت آزما پایا

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا



border3.jpg

[line]

01 - 004

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا
فرہنگ

دل
ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، حوصلہ، جرات ، خواہش

گم
کھویا ہوا، ضائع، رائیگاں، غائب، ناپید، مفرور، حواس باقتہ، حیران

مدعا
مطلب ، مقصد،مراد، غرض، خواہش،ارادہ، مال ملکیت، مالِ مسروقہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ تم کہتے ہو کہ کھویا ہوا دل واپس نہیں کروگے۔

مصرعہ نمبر 2۔ الف۔ میرے پاس اب دل ہی کہاں؟ جو کھوجائے۔ مجھ پتہ چل گیا کہ تم کیا چاہتےہو۔
ب۔ میری تو مراد پوری ہوچکی۔ یعنی میرا دل تمہارے پاس ہے۔


تبصرہ

تم کہتے ہو کہ اگر تمہیں میرا کھویا ہودل مل جائے توتم ایسے واپس نہیں کروگے۔ میرے پاس تو دل ہی نہیں جو میں کھودوں اور تمہیں کہیں پڑا ملے۔ لیکن تمہارے اس اظہار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میرا دل تمہارے پاس ہے۔ یعنی تم نے ہی نے میرا دل چرایا ہے۔ مجھے میرا صلہ مل گیا۔کیوں کہ میں ہی چاہتا تھا کہ میرا دل تمہارے پاس ہو۔
[line]]
02 - 004

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا
فرہنگ

عشق
محبت، فریبگی، پریم، پیار، چاہ، شوق، خواہش، عادت، لت

طبیعت
مزاج، فطرت، طینت، سِرشت، خصلت، عادت، سُبھاؤ، خلقت، پیدائش

زیست
زندگی، حیات، عُمر

مزا
لذت، سواد، ذائقہ، چسکا، چاٹ، لطف، حَظ، خوشی، شباب، سزا، جزا

درد
تکلیف، دُکھ، ٹیس، ہُوک، کِسک، افسوس، سوزوگداز، رحم، ترس، ہمدردی، غم، رنج

دوا
دارُو، درماں، دوائ ، علاج معالجہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ عشق کےجذبہ اورولولہ کی وجہ سے مزاج کو زندگی کی لذت ملی۔

مصرعہ نمبر 2 ۔ اس لذتِ زندگی سے مزاج کی کِسک دور ہوگی۔ مگر یہ خود اس سوز کا کوئ علاج نہیں۔


تبصرہ

پہلی سطر میں شاد مان اور امیدانہ بیان ہے۔ عشق کا جوش اور جذبہ زندگی کو لطف عطا کرتا ہے۔ دوسری سطر کی شروعات میں غالب اس بات کو دہراتے ہیں۔ لیکن آخری موقع پر وہ اپنا خیال بدل دیتے ہیں “ عشق کا جوش اور جذبہ ہی تو ہے جو ایسا درد پیدا کرتا ہے جو بےدوا ہے“۔

دوسری سطر میں غالب نے مصرعہ کو درمیان میں توڑ دیا ہے۔اور اس کے دونوں طرف خوبصورت بہلاوی ، تیڑھی اور مزیدار صحیح مگر تضاد کی بات کہی ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

مزہ
شعر کے وزن کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں مزہ کو مزا لکھا گیا ہے۔ شاعروں کو اس کا اختیار ہے۔


شاعری کےاصطلاحات

مطلع
غزل کے پہلا شعر جس کے دونوں مصرعہوں میں قافیے ہوں مطلع کہلاتا ہے۔

حسن مطلع یا زیب مطلع
یہ شعر، غزل کا وہ دوسرا شعر ہے۔ جس کے دونوں مصرعے میں قافیے موجود ہیں۔ بعض غزلوں میں دو یا دو سےذیادہ مطلع بھی ہوتے ہیں۔ ہر مطلع کو مطلع کہتے ہیں۔ البتہ آخری مطلع کے بعد جوشعر آتا ہے ایسے شعر کو حسن مطلع کہلاتا ہے۔

03 - 004

دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

فرہنگ

دوست
آشنا، یار، خیر خواہ، محبوب

دار
خانہ، گھر، محلہ، سرا، جگہ، مقام
دشمن
مخالف، بدخواہ، عدو، بیری، حریف، رقیب

دارِدشمن
دشمن کا گھر

اِعتماد
اعتبار، بھروسہ، یقین

مَعلُوم
جانا گیا، تمیز کیا گیا، ظاہر، روشن، واضع، نمودار، مشہور و معرف، نامکمن، دشوار جس ان تک رسائ معلوم

آہ
کلمہ افسوس، ہائے، وائے، اُف، سانس، دم، نفس

اثر
تاثیر، نشان، کھنڈر، کھوج، نتیجہ، فائدہ

بےاثر
جس کا اثر نہ ہو، بے کار، بے فائدہ

نالہ
فریاد، واویلا،شور،غُل، فغاں

نا
علامت نفی، بغیر

نا رَسَا
نہ پہنچنے والا، بے اثر، نامُراد

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرا دل دشمن کا دوست ہے۔

مصرعہ نمبر 2 ۔ نہ تو میری آہ کا نتیجہ نہ نکلا اور نہ ہی فریاد کا فائدہ


تبصرہ

میرا دل دشمن کا دوست ہے۔ نہ تو میری آہ کا نتیجہ نہ نکلا اور نہ ہی فریاد کا فائدہ۔


لفظی و معنوی خوبیاں

الفاظ کا کھیل
نالہ نا رسا پایا میں' آ ' میں لمبائ واقعی ایک آہ ہے۔دوسری سطر صرف پہلی سطر میں دل کی بے اعتباری ظاہر کرتی ہے اور محبوب کی سخت دلی اور نارسائ کو بتاتی ہے محبوب کے دل کی بے وفائ نہیں۔

اردوغزل میں عاشق ہمیشہ خود کوسرزنش (لتاڑتا) ہے


شاعری کےاصطلاحات

تجنیس حرفی
کلام میں دو یا زیادہ الفاظ ایسے لانا جو تلفظ یا تحریر میں مشابہ ہوں اور معنی میں مختلف ہوں۔ تجنیس کی کئی قسمیں ہیں۔ جن کا ذکر مناسب جگہ پر ہوگا۔

دوست دارِ دشمن اور اعتمادِ دل میں تجنیس حرفی ( دال کا دوہرانا) اور ' دوست ' دشمن میں

[line]
04 - 004

سادگی و پرکاری، بےخودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا


فرہنگ

سادگی
صفائ ، ہو حلت جو بغیر بناوٹ، نمائش یا تکلف کے ہو، بھولا پن، سیدھا پن

پُرکاری
موٹا، دبیز، دانا، عیّار، ہوشیار

بےخُودی بے ہوشی، ازخود رفتگی، شرمساری، مستی، بے خبری، مدہوشی

ہُشیاری
ہُوشیاری کا مخفّف ، دانائ،عقل مندی، خبرداری، چوکسی، دُور اندیشی، عیّاری، چترائ، احتیاط

حُسن
خوبی، خوبصورت

تَغافُل
جان بوجھ کرغفلت، بے الفاتی، کن توجہی، بے پروائ

جرات
دلیری،دلاوری، شجاعت، بے باکی، جواں مردی، چالاکی، شوخی

آزما
امتحان لینے والا، تجربہ کرنے والا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1
الف۔ سادگی و پرکاری، بےخودی و ہشیاری ۔ ایک وقت میں موجود !
ب۔ اس کی سادگی و پرکاری، بےخودی و ہشیاری!
پ۔ میری سادگی، اس کی پرکاری، میری بےخودی اور اسکی ہشیاری!
ت۔ اس کی سادگی، میرے پرکاری، اس کی بےخودی اورمیری ہشیاری !
ٹ۔ اس کی سادگی اور پرکاری، میری بےخودی اورہشیاری !
ث۔ ' سادگی ' اور پرکاری ! ' بےخودی' اور ہشیاری !

مصرعہ نمبر 2
اس کی خوبصورتی اور غفلت میں بھی مجھ کو آزماتا پایا۔

تبصرہ

صرف اس لئے خوبصورت معشوق ، مجھےنظر انداز کررہا ہے اور میری کیفیت سے بےخبری ظاہر کررہا ہے کہ وہ میری جان بازی کا امتحان لےرہا ہے۔ حقیقت میں یہ چالاکی اور چوکس پن ہے لیکن باطن میں یہ بھولا پن اور بےخبری ہے


لفظی و معنوی خوبیاں

غالب میں پہلی سطر کے چار خصوصیات سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری کے درمیان میں کوئ فعل نہیں استعمال کیا ہے۔ یہ ہم کو مختلف مطالب نکالنے پرمدعو کرتا ہے۔غالب یہ نہیں ظاہر کرتے کہ کونسی خصوصیات معشوق سے منسلک ہیں اور کونسی عاشق سے۔ میں نے یہاں صرف چند ممکنات کا ذکر ہے۔

کیا اپنےکو بےخبرظاہر کرنا ایک ہوشیاری ہے؟ اورکیا اسکی خوبصورتی اور بےخبری بذات خود میرا امتحان ہےِ؟
یا
میرا معشوق، میری ہمت کو آزمائےکےلیے مجھ کو نظر انداز کر رہا ہے۔درحقیقت معشوق کی عیاری اور چوکسی اسکی سادگی اور مستی ہے۔
یا
میرا دل دیکھنے لیے معشوق سادگی ظاہر کررہا ہے۔لیکن اس کی سادگی میں عیاری اور چالاکی ہے۔

[line]
05 - 004

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نےاپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

فرہنگ

غُنچَہ
پھولوں کی کلی، گُلِ ناشگفتہ، شگوفہ

کِھلنا
کلی کا پھولنا، پھول کاشگفتہ ہونا، پھول آنا،خوش ہونا، ہنسنا، زیب دینا، پھبنا، سجنا، نکھرنا
دل
ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، حوصلہ، جرات ، خواہش، توجہ

خُون
لہو، قتل، نسل، وہ سرخ رطوبت جوحیوانی جسم گردش کرکے اسے زندہ رکھتی ہے

گم
کھویا ہوا، ضائع، رائیگاں، غائب، ناپید، مفرور، حواس باقتہ، حیران

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ آج کلی کو کِھلتا دیکھ کر ہمیں اپنے دل کے۔
مصرعہ نمبر 2۔کھونے کا اور پھرخون ہوتا ہوا یاد آیا۔


تبصرہ
عاشق جو دل کھو چکا ہے کلی کو کِھلتا دیکھ کر یہ شبہ کرتا ہے کہ کہیں یہ میرا کھویا ہوا دل تو نہیں۔

غالب یہ کہتے ہیں کہ میں خون کے آنسو رویا جو زمیں پرگرے اور جذب ہوگے یعنی گم ہو گے۔ آج میں نے سے ایک کلی کو کِھلتے دیکھا۔یہ تو میرا کھویا ہوا دل ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

یہاں لفظ ‘ پھر‘ کا استعمال معنی آفرینی ہے۔ بھر “ دوباہ اور تب“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔


شاعری کےاصطلاحات

تشبیہہ
شاعری میں دل کو ایک کلی یا پھول سے تشبیہہ دی جاتی ہے ۔

تشبیہہ کے لغوی معنی مانند کردن یعنی دو چیزوں کو ایک جیسا بنانا۔ “مشابہت دینا“ ۔ علمِ بیان کی رو سے جب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری شیز کی مانند قرار دیا جائے تو اُسے “تشبیہہ“ کہتے ہیں۔ تشبیہہ س غرض اس پہلی چیز کی کسی صفت ، حالت یا کیفیت کو واضھ اور موثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اس سے فصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔

مثلا رخسار چھول کی مانند ہے۔

یہاں رخسار کو پھول سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ دونوں رخسار اور پھول مختلف چیزیں ہیں لیکن رنگ اور ملائمت کی صفت دونوں میں موجود ہے۔
06 - 004

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا

فرہنگ

حال
موجودہ زمانہ، کیفیت، حیثیت، طور طریق، وجد، دقت، ذکر، بیان، سکت، اس وقت، مجذوب ہونے کی کیفیت

دل
ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، حوصلہ، جرات، خواہش، توجہ

مَعلُوم
جانا گیا، تمیز کیا گیا، ظاہر، روشن، واضع، نمودار، مشہور و معرف، نامکمن، دشوار جیس ان تک رسائ معلوم

قدر
عزت ، بزرگی ، قیمت ، مقدار، یکساں

یعنی
مقصد، ارادہ، مدعا، مطلب، منشا،مراد، سبب، وجہ، باعث، اصلیت، ماہیت، حقیقت

ڈُھونڈنا
تلاش کرنا، جستجو کرنا

بار ہا
اکثر، کئی بار

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ دل کی حالت کا پتہ اس حد تک ہے کہ

مصرعہ نمبر 2 ۔ ہم نے اسے بارہا بار تلاش کیا لیکن تم نے اس کو اکثر بار ڈھونڈ لیا ہے۔


تبصرہ

دل کی حالت کا پتہ اس حد تک ہے کہ ہم نے اسے بارہا بار تلاش کیا لیکن تم نے اس کو اکثر بار ڈھونڈ لیا ہے۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کہ معشوق بارہا بار دل کو ڈھونڈ لیتا ہے۔کیا وہ اس کو ہر بار واپس کردیتا ہے؟ کیا ہردفعہ یہ مختلف دل ہے؟


لفظی و معنوی خوبیاں

یہاں دل تصوری ہے۔ صرف عاشق کا دل نہیں؟


شاعری کےاصطلاحات

مضمون
شاعر ی کا ایک مضمون دل کو ڈھونڈنا اور پالینا

سہلِ ممتنع
شاعری میں یہ شعر سہلِ ممتنع کہلاتا ہے۔یہ شعر اتنا آساں لگنا ہے کہ آپ سوچیں گےکہ یہ تو میں بھی کرسکتاہوں۔ مگر آپ نہیں کر پائیں گے۔

07- 004

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

فرہنگ

شور
غُل، غوغا، شہرت، دھوم، کھاری نمک، عشق، جنون، خفگی، غصہ
پَند
نصیحت، ہدایت، بھلی بات، اُپدیش، تعلیم، تجویز

ناصِح
نصیحت کرنے والا، صلاح کار

زخم
کھاؤ، ناسور، نقصان، خسارہ، ضرر، زیاں

زخم پر نمک چھڑکنا
ایذا دینا، ستائے ہئے کو ستانا، تکلیف پر تکلیف دینا،نقصان یا تکلیف میں طن و تشنیع کتنا

مزا
اصل میں یہ لفظ مزہ ہے، لیکن قافیہ کے لحاظ سے کبھی الف کے ساتھ بھی آتا ہے، سواد، ذائقہ

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ الف ۔ غل غپاڑا کرنے والے ناصِح ‘ آپ‘ کو میرے زخموں پر نمک چھڑک کر کیا ملا۔
ب - نمکینی ناصح میرے زخموں پر نمک چھڑک کر کیا ملا۔

مصرعہ نمبر 2۔ الف ۔کوئ اس سے پوچھے کہ اس کو مجھے تکلیف دینے سے کیا مزا آیا؟
ب ۔ کوئ اس سے پوچھے کہ اس کو مجھے تکلیف دینے سے کیا مزا ملا؟ جب کہ مجھے بڑا لطف آیا۔


تبصرہ
شور مچانے والے ناصِح ‘ آپ‘ کو مجھے تکلیف پر تکلیف دینے سے کیا ملا۔ کوئ ‘ تم ‘ سے پوچھے کہ تم کومجھے تکلیف دینے سے کیا آرام ملا؟
یہاں عاشق، ناصح کو ' آپ ' سےخطاب کرتا ہے ۔ یعنی وہ ناصح کا ادب کرتا ہے۔ مگر تکلیف میں ہونے کی وجہ سے وہ خود ناصح سے سوال نہیں کرتا۔ تاکہ وہ ناصح کی بےعزتی نہ کردے۔ جب وہ دوسروں سے ناصح کو خطاب کروانا چاہتا ہے تو ان سے ناصح کے لیے' تم' استعمال کرتا ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

شور پند – نیا مرکب لفظ ، شاید اس کے معنی تیز، کھاری ، تلخ اور کڑوی نصحیت ہو سکتے ہیں۔

اس شعر میں شورِ ناصح سے دو معنی نکلتے ہیں ۔
1 - ناصح کی نصیحت کو شور و غل سے گردانا ہے۔ اور یہ معنی بہت صحیح ہیں کیوں کہ جس بات کو ہم ناپسند کرتے ہیں وہ ہمارے کانوں کو شور ہی لگتی ہے۔
2 - دوسرے معنی بنتے ہیں شور بمعنئ نمک یعنی ناصح کی نصیحت نے اس نمک کا کام کیا جو محاورتاً زخم پر چھڑکتے ہیں۔


شاعری کےاصطلاحات

ناصح
شاعری میں ایک فرضی عقل مند اور دانا کردار کا نام ہے جو ہمیشہ عاشق کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے اور عاشق کو نصحیت کرتا ہے۔طبعاً عاشق اس کی بات نہیں سنتا۔
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg



- 005 -

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا


border3.jpg

[line]

-005 -

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
فرہنگ

تمنّا
خواہش، آرزر، شوق، اشتیاق، درخواست، ارمان

قدم
پاؤں، پیر، گام ، ڈگ ( ایک قدم سےدوسرے قدم کا فاصلہ) ، روِش، رفتار، پیر کا نشان، تشریف آوری،گھوڑے کی چال، موجودگی، ( مجازاً ) واسطہ، دخل

یا رب
اے پروردگار، اے اللہ

دَشت
جنگل، صحرا، بیابان، میدان، شطرنج کا تختہ، مُشک نافہ

امکاں
ہوسکنا، ممکن ہونا، مجال، طاقت، مقدر، مقدرت، قابو، اختیار

نقش
تصویر، چھاپ، نشان، لکھا ہوا، کُھدا ہوا

پا
پاؤں ، قدم ، پیر، نیچے، قدرت، بنیاد


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ آرزوں اور اشتیاق کا دوسرا قدم کہاں ہے؟ اے پروردگار ۔ کیا اس سے زیادہ اس دنیا میں نہیں ہے؟۔

مصرعہ نمبر 2۔ ہمارے پہلے ہی قدم میں ہی ہماری تمام آرزوئیں اور اشتیاق پورا ہوگیے ۔


تبصرہ

لگتا ہے کہ ہمارے پہلے ہی قدم میں ہی ہماری تمام آرزوئیں اور اشتیاق پورا ہوگیے ۔ مگراے پروردگار کیا اس سے زیادہ اس دنیا میں نہیں ہے؟۔دوسرا قدم کہاں ہے؟۔

یہ دنیا بہت بڑی ہے مگر بنجر اور بیاباں ہے۔ انسان کےدل میں زیادہ ( اوربھی ) کی دُھن اور چاہت ہوتی ہے۔ کیا دنیا کی لامحدویت صرف ایک قدم تک محدود ہے؟۔ کیا دنیا بے آب و تاب ہے؟ ۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک نشان قدم ہم کو کیوں بتاتا ہے کہ یہاں کوئ پہنچا تھا۔ اور آگےگیا۔

تواریخ

غالب نے اپنی زندگی میں اس شعر کو دیوان میں شامل نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دیوان میں صرف غالب کی اپنی چنی ہوئ غزلیں شامل ہیں۔ غالب نے اپنی بہت سی غزلوں اور اشعار کو دیوان میں قابل شمولیّت نہیں سمجھا۔ یہ ان میں سے ایک ہے


لفظی و معنوی خوبیاں

عالمِ امکان یا دشتِ امکان
عام طور سے تمام ممکِنات کے لیے عالم ( کائنات۔ شرط یا کیفیت) امکان کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے اس کے بجائے دشتِ ( جنگل۔ صحرا یا بیابان ) امکان استعمال کیا ہے۔​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 006 –

دل میرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا

دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالب! کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا


border3.jpg

[line]
01 -006

دل میرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا​

فرہنگ

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

سوز
جلن، سوزش، دُکھ، درد

نہاں
چُھپا ہوا، پوشیدہ

سوز ِنہاں
چُھپا ہوا درد

بے
بغیر

مُحابا
لحاظ، مرّوت، پاس داری، صلح، اِعانت، فروگزاشت، احتیاط، ڈر، خوف

جل گیا ( جلنا )

آگ لگنا ، آگ سُلگنا، rشک حسد کرنا، سوزش یا جلن ہونا، ناراض یا غصہ ہونا

آتش
آگ

خاموشی
چپ، ساکوت، سکون، سناٹا

آتش خاموش
راکھ میں چُھپی چنگاریاں

ماننّد
مثل، نظیر، مشابہ، مطابق، جیسا، ہُوبہو، بعینہ

گُویا
تسلیم کیا جانا، مانند، مثل، ہوبہو، بولنے والا، خوش گفتار


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میرا دل ایک چُھپے ہوے دُکھ اوردرد میں جل گیا ہے
مصرعہ نمبر2۔ جس طرح راکھ میں چُھپی چنگاری سےجلتےہیں۔


تبصرہ

میرا دل محبت کی خاموش آگ میں جل کر راکھ ہو گیا ہے۔ اور مجھےاُس وقت تک پتہ نہ چلا جب تک کہ یہ تمام ہوچکا تھا۔


لفظی و معنوی خوبیاں

صنعت الفاظ ۔ پہلےمصرعےمیں آتشِ خاموش اور دوسرے میں سوزِ نہاں پہلو بہ پہلو بلاغت کی حد ہیں۔
ایک لطیف و فصیح الٹی بات ( وہ بات جو بظاہر باطل اور حقیقت میں صحیح ہو) یعنی آگ ’ خاموش ‘ بھی تھی اور ’گویا‘ بھی تھی۔


شاعری کےاصطلاحات

گویا۔ شاعری میں لفظ گویا عموما شعر میں خالی جگہ کو بھرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن غالب اس کا استعمال بلاغت اور فصیحت کی حدود تک پہنچادیتےہیں۔ غالب نے ’ گویا ‘ کو آٹھ یا نو شعروں میں استعمال کیا ہے۔

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں

[line]
02 - 006

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا​

فرہنگ

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

ذوق
مزہ، لطف، شوق، خوشی

وصل
ملاقات، معشوق سے ملنا، ہجر کی ضد

یاد
ذہن، خیال، تسبیح، یاداشت

یار
دوست، مددگار، پیارا، چہیتا، ساتھی، رفیق، معشوق، محبوب

باقی
بچاہوا، واجب الادا، واجب الوصول، ہمیشہ موجود رہنے والا

آگ لگنا
جلنا، جل اُٹھنا، بھڑکنا، جان سےجانا، بےچین ہونا، دل جلنا

جل گیا ( جلنا )
آگ لگنا، آگ سُلگنا، رشک حسد کرنا، سوزش یاجلن ہونا، ناراض یا غصہ ہونا

جو تھا
سب، تمام


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ دل میں معشوق سےملاپ کی خوشی تک باقی نہیں رہی۔
مصرعہ نمبر2۔ یہ جذبہ عشق کی آگ اتنی شدید تھی کہ اس گھر (دل) کی ہرچیزجل گی۔


تبصرہ

حسد، رشک اور بدگمانی کی آگ نےدل سےمعشوق کی یاد نکال دی ہے۔ میری مایوسی اور ناامیدی اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کےامید کی بھی خواہش نہیں۔
[line]

03 - 006

میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا​

فرہنگ

عدم
نہ ہونا، ناپیدی، غیرحاضری، نقصان ، نیستی

پَرے
دور، بعید، دوسرے کنارے

غافل
بے پرواہ، بےخبر، غفلت کرنے والا

بارہا
اکثر، کئی بار

آہ
کلمہ افسوس، ہائے، وائے، اُف، سانس، دم، نفس

آتشیں
آگ جیسا، آگ کی طرح گرم، آگ کی طرح سرخ

بال
رواں، رونگٹا، پرندوں کے بازو، پر، جوار باجرا یا گیہوں وغیرہ کاخوشہ، بالی

عنقا
نایاب، ایک قسم کا سب سے بڑا خیالی پرند جس کا حقیقت میں کوئ وجود نہیں

جل گیا ( جلنا )۔ آگ لگنا، آگ سُلگنا، رشک حسد کرنا، سوزش یا جلن ہونا، ناراض یا غصہ ہونا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ (الف) میں نیستی (نا ہونا ) سے بھی باہر ہوں ورنہ بےخبری میں سے کئی دفعہ
(ب) میں نیستی سے بھی باہر ہوں ورنہ اے غافل کئی دفعہ
مصرعہ نمبر2۔ (الف) میری آتشی آہوں سےعنقا کے پرجل گئے ہیں۔
(ب) میری آتشی آہوں سےعنقا کے پرجل چکے ہوں گے


تبصرہ

اے غافلوں، میں اب نا ہونے یا فنا فئل الّاہ تک پہونچ چکا ہوں اور جب میں ہونےاور نا ہونے کی حدود سےگزرا تو کئ بار میری آتشین آہوں نےعنقا کے پرجلا دیئے ہیں۔


شاعری اصطلاحات

عنقا
نایاب، ایک قسم کا سب سے بڑا خیالی پرند جس کا حقیقت میں کوئ وجود نہیں۔

[line]
04 - 006

عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا​

فرہنگ

عرض
چوڑائی، پنا، چکلائی، بیان، گزارش، اِظہار، التماس، عرصہ، درمیان، اثنا

جُوہر
قیمتی پتھر، خلاصہ، وہ چیز جو بذآت خود قائم ہو،خاصیت، ہنر، کمال، ایٹم

اندیشہ
فکر، سوچ، تردّد، خوف

گرمی
تپیش، حرارت، موسم گرما، تپاک، گرم جوشی، شوخی، تیزی، غصہ، الفت

خیال آیا
کچھ یاد آیا

وحشت
گھبراہٹ، سودا، خفقان، دیوانگی، جنون، حیوانیت، بھڑک، نامانوس ہونا، آرارگی

صحرا
میدان جہاں درخت وغیرہ کچھ نہ ہو بیابان، ویرانہ ، ریگیستان

جل گیا ( جلنا )
آگ لگنا ، آگ سُلگنا، رشک حسد کرنا، سوزش یا جلن ہونا، ناراض یا غصہ ہونا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ ( الف ) کس طرح حیال کی چوڑائ (شدت) کو ظاہر کریں؟
( ب ) کہاں خیال کی چوڑائ (شدت) کو ظاہر کریں
( ث ) جی، شدتِ خیال
مصرعہ نمبر 2۔ صحرا کے جلنےسےمیری وحشت و دیوانگی کا خیال آیا۔


تبصرہ

مجھ پر کیسےظاہر ہوتا میرے مزاج کی گرمی صحرا میں آگ لگادے گی۔ میں نےتو صرف صحرا میں جانے کا سوچا تھا۔​
[line]
05 - 006

دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا​

فرہنگ

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

بَہار
پھول کھلنے کا موسم، بسنت، سرسبزی، شادمانی، سیر، تماشہ، تفریح، سرور، رونق

چراغ
دیا، لمپ، شمع، بتی، گھوڑے کا پچھلے پاؤں پر کھڑا ہونا

چراغاں
بہت روشنی، چراغوں کا اکھٹا جلنا، بہت سےچراغ جلنا

کارفرما
کام لینےاور کام بنانےوالا، حکم کرنےاور چلانےوالا، کمانڈر، بادشاہ، اُستاد

جل گیا ( جلنا )
آگ لگنا، آگ سُلگنا، rشک حسد کرنا، سوزش یا جلن ہونا، ناراض یا غصہ ہونا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میرے پاس اب دل نہیں ورنہ میں تجھ کو زخموں کہ بہار دکھلاتا۔
مصرعہ نمبر2۔ (الف) حکم چلانے والا تو جل چکا اب میں چراغاں کیا کروں؟
(ب) چراغاں کرنے والا تو جل گیا اب چراغاں کیوں کروں؟


تبصرہ

میرے زخموں کی شادابی تو دیکھنے کےقابل تھی۔ لیکن میرا دل جو اس کو دیکھلاتا اب نہیں رہا۔
[line]
006 - 06
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالب! کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا​

فرہنگ

افسردگی
غمگینگی، اداسی، کمہلاہٹ، اضمحلال، پژمردگی

آرزو
خواہش، تمنا، چاہ، مراد ، مقصد، مطلب

غالب
اسد االلہ خان کا وہ مختصر نام (تخلص) جو وہ اشعار میں استعمال کرتے ہیں

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

طرز
روش، طور، طریقہ، ڈھنگ، انداز، قاعدہ، شکل، عادت

تپاک
گرم جوشی، شوق، آؤ بھگت، آخلاص، محبت

اہل دنیا
دنیا کےلوگ، دُنیا دار، دُنیا کے بندے

طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا
دنیا کے لوگوں کی محبت کا طریقہ

جل گیا ( جلنا )
آگ لگنا، آگ سُلگنا، شک حسد کرنا، سوزش یا جلن ہونا، ناراض یا غصہ ہونا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ مجھےاب غم اور اداسی کی آرزو ہے کہ میرا دل
مصرعہ نمبر2۔ لوگوں کی گرم جوشی دیکھ جل جاتا ہے۔


تبصرہ

اب میں دنیا کہ لوگوں سےعلحیدہ رہناچاہتا ہوں۔ ان کےاوپری محبت اور اندونی عداوت کو دیکھ کر میرا دل منجمد ہوگیا ہے۔
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 007 -

شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا

اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا


border3.jpg

[line]
007 -01

شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا​

فرہنگ

شوق
خواہش، رغبت

رنگ
رنگت، روپ، انداز، طرز، روش، روغن، خوبصورتی

رَقِیب
ایک معشوق کےعاشقوں میں سے کوئ ایک ، حریف، ہم پیشہ ، نگہبان

سروساماں
ضروری اسباب، لوازمات

قَیس
مجنوں عامری کا نام جو لیلیٰ کا عاشق تھا

تصویر
صورت بنانا، نقشہ، شبیہ، نہایت خوبصورت، حسین

پردۂ
گھونھٹ، آڑ، حجاب، نقاب، بُرقع، دروازے کے آگے پردے کی دیوار

عریاں
ننگا، برہنہ، بےپروہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ شوق ہر رنگ میں سروساماں کا دشمن ہے۔
شوق ہر کیفیت اورحال میں ضروری لوازمات کا حریف اور دشمن ہے۔
مصرعہ نمبر 2۔ اور قیس ہرتصویر کے پردے میں ننگاہے۔


تبصرہ

رقیب کا لفظ یہاں مخالف یعنی حریف کےمعنی میں استعمال ہوا ہے۔
جذبہ عشق ہر رنگ میں سروساماں ) ضروری لوامات ( َ کا دشمن ہے۔ اس کا یہ ثبوت ہے کہ قیس جوساری زندگی ننگا سرگرداں پھرا، اپنی تصویر کے پردہ پر بھی ( ضروری لوامات، عزت، ضبط نفس، لباس ) ننگاہے۔


قصص و روایات

ليلیٰ و مجنون عشق کی ایک مستند کہانی ہے۔ ساتویں صدی میں بنواميہ کے زمانےمیں ایک چرواہا لیلیٰ کےعشق میں گرفتار ہوگیا۔ قیس کولیلیٰ سےعشق کا جنون اتنا تھا کہ لوگ اس کو لیلیٰ کا مجنون کہنےلگے۔ لیلیٰ کے باپ نے لیلیٰ کی مجنوں سےشادی نہیں کی۔ آخرکار قیس نےمایوس ہوکراپنی زندگی صحرا اور بیاناں میں گزار دی۔ بارھویں صدی میں ایران کےنظامی نےایک ہزارسطروں کی مثنوی لکھی جوخمسہ کا ایک حصہ ہے۔ نظامی نےاس روایت میں کافی تبدلیاں کیں۔ تیرہویں صدی میں امیر خسرو نے نظامی کی ليلیٰ و مجنون سےمتاثر ہو کراردو میں ليلیٰ و مجنون لکھی۔ پندرہویں صدی میں جامی کی ليلیٰ و مجنوں عربی کہاوت پر منحصر ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

مناسبت
لفظوں کا باہم تعلق۔ موزونیت اور نسبت، شعر میں آواز کی خوبصورت رنگ اورتصویر میں مناسبت ہے۔ تصویر کو بنانےمیں رنگ کی ضرورت ہے۔
[line]
01 - 007

زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا​

[INDENT]فرہنگ

زخم
کھاؤ، ناسور، نقصان، خسارہ، ضرر، زیاں

داد
آفرین، تحسین، واہ وا، عدل، انصاف، عطا، بحشش، نالش، پاداس

داد دینا
انصاف کرنا، عد کرنا، اداے حو کرنا

تنگی
کوتاہی، کمی، چھوٹا پن، غربت، مشکل، کنجوسی، تھیلا، بوری

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

تنگی دل
دل کا تنگ ہونا

توجہ
کسی کی طرف منہ کرنا۔ رجحان، رغبت، رجوع، خیال، مہربانی، عنایت

یارب
اے پروردگار، اے اللہ
تیر
ایک قسم کا جنگلی ہتھیار جو کمان میں رکہ کر چلایا جاتاہے

سینہ
چھاتی، صدر، سامنے کےرخ پرگردن اور پیٹ کا درمیانی حصۂ جسم

بسمل
ذبح کرنا

پَرافشاں
پرجھاڑتا ہوا، پریشان، بےتاب، پھڑپھڑاتاہوا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ یارب، دل کی تنگی نے زخم کے ساتھ ناانصافی کی
مصرعہ نمبر 2۔ یہاں تک کہ دل کی تنگی کی وجہ سےتیر بھی سینہ سر پھڑ پھڑاتا ہو نکلا۔


تبصرہ

میرا دل اس قدر تنگ اور چھوٹا ہےکہ تیراس میں سےسبب تنگی کےاڑتا ہوا اور حدت وسرعت کے ساتھ نکلا۔ اس لئےشاعرتنگی دل کی داد طلب کرتاہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

صنعت معنوی
پرندے کی صنعت پَرافشاں ہے اور پَرافشاں کی تیرسےمناسبت ہے ۔

استعارہ
لغوی معنی مانگنا، مستعارلینا، ادھار لینا ہیں۔ اصطلاح میں استعارہ سےمراد یہ ہے کہ حقیقی اورمجازہ معنی کےمبین تشبیہ کا علاقہ پیدا کرنا۔ یعنی حقیقی معنی کا لباس عاریتاً مانگ کرمجازی معنی کو پہنانا استعارہ کہلاتا ہے۔
تنگئ دل کولغوی معنی دل کا سکڑاؤ، تنگی، کوتاہی، رکاوٹ میں استعمال کیا ہے۔ [/INDENT]


02 --007

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا​

فرہنگ

بو
باس، مہک، خوشبو، بدبو، سڑاند، خبر، بہنک، راز، آن بان، شبہ اور شک کی جگہ

گُل
پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

نالہ
فریاد، واویلا، شور، غُل، فغاں

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

دُود
دھواں، دحند، غبار، بخارات، بھاپ

چراغ
دیا، لمپ، شمع، بتی، بیٹا، رہنما، گھوڑے کا پچھلے پاؤں پر کھڑا ہونا

محفل
مجلس، جلسہ، انجمن، سبھا

بزم
محفل، مجلس، خوشی کی محفل، سبھا

سو
بہر صورت، ہرچند، ایک سو ( گنتی )، سینکڑا، صد

پریشاں
حیران، سرگردان، آشفتہ، متر ّّ دد، مضطرب، منتشر، تیتّر بتّر، پراگندہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ پھول کی خوشبو۔ دل کے زخم کی فریاد، محفل کہ شمع کا دھواں۔
مصرعہ نمبر2۔ ہرشخص جو تمہاری محفل سے رخصت ہوا پریشانی میں تھا۔


تبصرہ

پھول کی خوشبو، دل کےزخم کی فریاد، محفل کہ شمع کا دھواں۔ ہرشخص جوتمہاری محفل سےرخصت ہوا پریشانی میں تھا۔
[line]
03 - 007

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا​

فرہنگ

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

حسرت
افسوس، پشیمانی، آرزو، ارمان، شوق

زدہ
مارا ہوا، ضرب رسیدہ، مصیبت کا مارا، مفلوک، گلا ہوا، کمزور

حسرت زدہ
حسرت کا مارا ہوا

مائدۂ
دسترخوان جس پر کھانا چناہو، قران شریف کی ایک سورۃ

لذت
مزہ، ذائقہ، سواد، حَظ

درد
تکلیف، دُکھ، ٹیس، ہُوک، کِسک، افسوس، سوزوگداز، ہمدردی، غم

مائدۂ لذتِ درد
لذت درد کادستر خوان

کام
کار، کاج، کاروبار، دھندا، بیوپار، ہنر، مطلب، روزگار، فرض، ضرورت

کام نکلنا
مطلب نکلنا، مدعا پورا ہونا

یاروں
یارکی جمع، دوست، مدگار، پیارا، چہیتا، ساتھی، رفیق، معشوق، محبوب

بہ
کےساتھ، بہتر، اچھا، عمدہ

قدر
استداد، عزت، بزرگی، قیمت، مقدار، یکساں

لب
ہونٹ، کنارہ، طرف، جانب، ساحل، کراڑا، حاشیہ، مُنڈیر

دندان
دانت

بہ قدر لب و دنداں
استداد لیاقت کےلحاظ سے


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میرا حسرت ذدہ دل اتک دسترخوان ہے
مصرعہ نمبر2۔ حوصلےاور استداد کےمطابق دسترخوان سے میرا کام نکلا


تبصرہ

1۔ شاعر نےاپنےحسرت ذدہ دل کو لذتِ دل کا دسترخوان قرار دیا ہے۔ میرے حوصلےاوراستداد کےمطابق دسترخوان سےمیرا کام نکلا اور میں نےاپنےحوصلہ کےمطابق غم اٹھائے۔

2۔ مجھےچاہت یا روزگاری سےجودکھ ملے ہیں وہ اتنےسخت، طاقتور اور ٹوٹ کرنے والےہیں کہ وہ شاید کی کیسی اور کوملے ہوں۔


شاعری کےاصطلاحات

ضلع۔ ذو معنی بات کہنا جیسے کام ۔ روزگاری اورچاہت۔


04 - 007

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا​

فرہنگ

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

حسرت
افسوس، پشیمانی، آرزو، ارمان، شوق

زدہ
مارا ہوا، ضرب رسیدہ، مصیبت کا مارا، مفلوک، گلا ہوا، کمزور

حسرت زدہ
حسرت کا مارا ہوا

مائدۂ
دسترخوان جس پر کھانا چناہو، قران شریف کی ایک سورۃ

لذت
مزہ، ذائقہ، سواد، حَظ

درد
تکلیف، دُکھ، ٹیس، ہُوک، کِسک، افسوس، سوزوگداز، ہمدردی، غم

مائدۂ لذتِ درد
لذت درد کادستر خوان

کام
کار، کاج، کاروبار، دھندا، بیوپار، ہنر، مطلب، روزگار، فرض، ضرورت

کام نکلنا
مطلب نکلنا، مدعا پورا ہونا

یاروں
یارکی جمع، دوست، مدگار، پیارا، چہیتا، ساتھی، رفیق، معشوق، محبوب

بہ
کےساتھ، بہتر، اچھا، عمدہ

قدر
استداد، عزت، بزرگی، قیمت، مقدار، یکساں

لب
ہونٹ، کنارہ، طرف، جانب، ساحل، کراڑا، حاشیہ، مُنڈیر

دندان
دانت

بہ قدر لب و دنداں
استداد لیاقت کےلحاظ سے


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میرا حسرت ذدہ دل اتک دسترخوان ہے
مصرعہ نمبر2۔ حوصلےاور استداد کےمطابق دسترخوان سے میرا کام نکلا


تبصرہ

1۔ شاعر نےاپنےحسرت ذدہ دل کو لذتِ دل کا دسترخوان قرار دیا ہے۔ میرے حوصلےاوراستداد کےمطابق دسترخوان سےمیرا کام نکلا اور میں نےاپنےحوصلہ کےمطابق غم اٹھائے۔

2۔ مجھےچاہت یا روزگاری سےجودکھ ملے ہیں وہ اتنےسخت، طاقتور اور ٹوٹ کرنے والےہیں کہ وہ شاید کی کیسی اور کوملے ہوں۔


شاعری کےاصطلاحات

ضلع۔ ذو معنی بات کہنا جیسے کام ۔ روزگاری اورچاہت۔

[line]
05 - 007
اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا​

فرہنگ

نو
نیا، جدید، تازہ، ابھی کا

آموز
سیکھنے والا

نوآموز
مبتدی، نیا سیکھنے والا، نا تجربہ کار

فنا
موت، ہلاکت، نابود، بربادی

ہمت
عزم و ارادہ

دشوار
مشکل، کٹھن، دوبھر، بھاری ، سخت

پسند
مقبول، مرغوب، حسب خواہش

دشوار پسند
مشکل کاموں کو پسند کرنے والا

سخت
بہت، بڑا، بڑی

مُشکِل
دشوار، کٹھن، سخت، پیچیدہ، اُلجھاہوا، دشواری، سختی، مصیبت، کام

آسان
سہل، سہج

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ اے تباہ ہونےوالی ہمت تجھے مشکل کام چاہیےتھا۔
مصرعہ نمبر2۔ لیکن فنا ہونا توبہت آسان تھا۔


تبصرہ

میرا مبتدی، مشکل پسند عزم کوئ ایسا کام کرنا چاہتا تھا جواور کےنہ کرسکے۔ لیکن پتہ چلا کہ فنا ہونا توبہت آسان تھا۔

شاعری کےاصطلاحات

صنعت تضاد۔ دو ایسے معنی کو کلام میں ذکر کرنا جن میں کسی قسم کا تقابل و متضاد ہو۔

دل سےنکلا نہ نکلا دل سے
ہے تیرے تیر کا پیکان عزیز

مثال نکلا اور نہ انکلا میں تضاد ہے۔

اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

اس شعرمیں مشکل اور آسان میں تضاد ہے۔

[line]
06 - 007

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا​

فرہنگ

دل
قلب، حوصلہ، جرات، خواہش

گریہ
رونا، پیٹنا، آہ زاری کرنا

شور
غُل، غوغا، شہرت، دھوم، کھاری نمک، عشق، جنون، خفگی، غصہ

غالب
اسد االلہ خان کا وہ مختصرنام (تخلص) جو وہ اشعار میں استعمال کرتے ہیں

آہ
کلمہ افسوس، ہائے، وائے، اُف، سانس، دم، نفس

قطرہ
پانی کی بوند، کسی سیال چیز کی بوند

سُو
بہر صورت، ہرچند، ایک سو ( گنتی )، سینکڑا، صد

طوفاں
غرق کرنےوالی رو، سیلاب، پانی کا چڑھاو، شدید بارش، تہمت، فسد جھگڑا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ دل میں آہ زاری نے ایک شور مچا رکھا تھا
مصرعہ نمبر 2۔ لیکن جو آنسو نہیں نکلا تھا اب تو سیلاب میں بدل گیا ہے۔


تبصرہ

میرے دل میں گریہ نےبارہا شور مچایا پہلےتو میری آنکھ سےایک آنسو بھی نہ نکلا اور اب وہ آنسو ایک سیلاب کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔


شاعری کےاصطلاحات

مراعت النظیر ۔ کلام میں ایسی اشیاء کا ذکر کرنا جن میں تضاد یا تقابل کےسوا کوئ اور نسبت ہو۔ مثلاً سرو، گل، لالہ، بلبل، چمن کا ایک جگہ ذکر کرنا۔ یا صراحی، پیمانہ، جام کا ذکر کرنا۔ اس صنعت کو توفیق، تلفیق اور ایتلاف بھی کہتےہیں۔

لفظ شوراورطوفان میں مناسبت ہے۔ طوفان کےلئےشور لازم و ملزوم ہے۔ توطوفان کی وجہ سےلفظ شور سے صنعت مراعت النظیر پیدا ہوگی۔
 

تفسیر

محفلین
.

border3.jpg


- 008 -

دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
"عشقِ نبرد پیشہ" طلبگارِ مرد تھا

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

دل تاجگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی !
دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا

احباب چارہ سازئ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، ببایاں نورد تھا

یہ لاشِ بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


border3.jpg



01 - 008

دھمکی میں مرگیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
"عشقِ نبرد پیشہ" طلبگارِ مرد تھا​

فرہنگ

دھمکی
خوف، ڈر، کھرکی

مر نا
انتقال کرنا، وفات پانا، دم نکلنا، دنیا سےگزرنا، عاشق ہونا

باب
دروازہ، مقدمہ، معاملہ، کتاب کاحصہ فصل، قسم، پارہ، مطلب، مقصد، تذکرہ، بحث، دربار

نبرد
لڑائ، جنگ

عشق
محبت، فریبگی، پریم، پیار، چاہ، شوق، خواہش، عادت، لت، سلام رخصت

پیشہ
ہنر، فن، کام، دھندا، روزگار

نبرد پیشہ
جنگ آزمودہ، پرانا جنگ جو سپاہی

طلبگار
خواہش مند، متلاشی

مرد
آدمی، بشر، شخص، خاوند


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - جو جنگ کے اصولوں سے قاقف نہ ہو اس کا دہمکی سی ہی کام تمام ہوجاتا ہے

مصرعہ نمبر 2 - اس لیے عشق اور عاشقی مردوں کا کام ہے۔


تبصرہ

عشق کی جنگ میں جذبہ عشق نئے عاشق کوڈراتا دہمکاتا ہے اگر یہ عشق کا مبتدی، عشق کے لائق اور قابل نہیں اور بزدل یا زن صفت ہے تو اس کام دہمکی میں ہی تمام ہوجائےگا۔ شاعر کے خیال میں عشق اور عاشقی مردوں کا کام ہے
[line]
02 - 008
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا​

فرہنگ

زندگی
زیست، حیات، جیون، عمرمرگ
مرگ
مرگ، موت، اَجل

کھٹکا لگنا(محاورہ)
اندیشہ ہونا، فکر رہنا، تشوہش رہنا

رنگ
رنگت، روپ، انداز، خوبصورتی، بہار، مزہ، خمار، مکر، راگ، سماں، خون

رنگ اڑنا (محاورہ)
رنگ جانا، رنگ جاتا رہنا، رنگ پھیکا پڑنا، (کنایتہًً ) چہرے کا رنگ متغیر ہونا

رنگ
رنگت، روپ، انداز، طرز، خوبصورتی، بہار، مزہ، خمار، مکر، راگ، سماں، خون

زرد
پیلا، سنہرا

پیشتر
پہلے، بہت پہلے


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - زندگی بھر مجھے موت کا ڈر لگا رہتا تھا۔

مصرعہ نمبر 2 - یہی وجہ ہے کے موت آنے سے پہلے میرا رنگ زرد ہوگیا۔


تبصرہ

زندگی میں مجھے خوف کا اتنا ڈر لگا رہتا تھا کہ مجھ کو زندگی میں لطف نہیں ملا۔ میری ساری زندگی موت کے آنے خوف میں گزری اور اس وجہ سے میرا رنگ ہمیشہ زرد رہا۔


لفظی و معنوی خوبیاں

1۔ پہلے رنگ زرد ہوتا ہے اور پھر رنگ اڑجاتا ہے۔ کھٹکا ( دستک ) اور کھٹکا لگنا ( اندیشہ ہونا ) ۔ زندگی کی مصروفیات میں رنگ دروازے پر دستک ( لفظی ) سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ موت دروازے پر کھڑی ہے۔ پہلے رنگ پیلا پڑجاتا ہے اور پھر رنگ اڑ جاتا ہے۔

2 ۔ رنگ خوف مرگ میں زندگی گزار رہا تھااور اس وجہ سےزرد تھا۔اور اس دہشت میں اڑ رہا تھا۔

[line]
03 - 008

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا​


فرہنگ

تالیف
مختلف کتابوں سے مضامین چن کر نئے پیرائےمیں ترتیب دینا، دوستی پیدا کرنا

نسخہ
نوشہ، لکا ہوا، مکتوب، کتاب، طرہقہ، ترکیب، ڈھنگ، طبیب کا دوا کا نسخہ

ہائے
افسوس، دریغ، آہ، فریاد، بیماری یا دکھ کی حالت، ماتم

وفا
نباہ، ساتھ دینا، خیر خواہی، نمک حلالی، وبستگی، عقیدت مندی، تعمیل، تکمیل

مجموعۂ
جمع کیا ہوا، کھٹا کیا ہوا، جوڑ، دخیرہ، خزانہ، مخزن، کلیات، پشتارہ

خیال
تصور، وہ صورت جو آدمی بےداری میں تصور کرے یا خواب میں دیکھے، فکر، اندیشہ، دھیان، سمجھ، لحاظ

فرد
واحد، ایک آدمی، تنہا، یکتا، بے مثل، طاق، ایک شعر، فہرست حساب، چادر شال


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - میں وفاداری کے مسودے لکھ رہا تھا۔

مصرعہ نمبر 2 - مگر میرے خیالات نے ابھی تکمیل نہیں پائ تھی۔


تبصرہ
میرا مجموعہ خیال کم عمری میں جمع نہیں ہوا تھا مگر باوجود اس کے میں وفاداری کی کتاب تالیف کررہا تھا۔ یعنی میں بچپن سے ہی عاشق وفا شعار اور وفادارہوں۔

[line]
04 - 008

دل تاجگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا​

فرہنگ

دل
ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، جرات ، توجہ

جگر
کلیجہ، جان، طاقت، حقیقت، معشوق، بیٹا، یار

دریا
پانی جو پہاڑ یا جھیل سے نکل سمندر کی طرف بہے ، وسیع ، خون

رہ گزر
راہ گزر ، راستہ، سڑک، شارع

جلوۂ
خود کو دوسروں کو دکھانا، تجلّی، نور، معشوق کا ناز و انداز سےچلنا، تجلی، نور

گُل
پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق گرد

گرد ہونا ( محاورہ )
خاک ہونا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - دل اور جگر کے درمیان اب خون کا سمندر ہے اوردل اور جگر اس خون کے سمندر کےدو ساحل ہیں

مصرعہ نمبر 2 - پہلے اس راہ ہر ایک پھول تھاجو اب گرد ہے


تبصرہ

ہم نازک دماغ اور نازک مزاج تھے اور جلوہ گل بھی جوایک نفیس شہ ہے۔ ہمارے دل و جگر پرگرد ایک خاک کی طرح ناگوار اور باپسند تھا مگر اب عشق کے سبب سے دل اور جگر دونوں خون کےدریا کا ساحل ہیں۔ اب غم عشق اور زخم دل نے ہماری نازک مزاجی کی جگہ لے لی ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

اس شعر میں گل کا لفظ نازک مزاجی کا مضمون پیدا کرتا ہے

شاعری کےاصطلاحات

مراعت النظیر
کلام میں ایسی اشیاء کا ذکر کرنا جن میں تضاد یا تقابل کےسوا کوئ اور نسبت ہو۔ مثلاً سرو، گل، لالہ، بلبل، چمن کا ایک جگہ ذکر کرنا۔ یا صراحی، پیمانہ، جام کا ذکر کرنا۔ اس صنعت کو توفیق، تلفیق اور ایتلاف بھی کہتے ہیں۔

اس شعر میں

دل اور جگر میں ذات ہے کہ دونوں اعضا ہیں
خون اور گل ذات ہے کہ یہ دونوں سرخ رنگ اور لال ہوتے ہیں۔

[[line]
05 - 008

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی !
دل بھی اگرگیا، تو وُہی دل کا درد تھا​

فرہنگ

جاتی ہے ( جانا)
روانہ ہونا، رخست ہونا، چلنا

کوئی
کچھ ، کسی، نامعلوم شخص، ایک ادھ، ذرا، کہیں

کشمکش
کھینچاتانی، جھگڑا

اَندوہ
رنج و غم، فکر، تروّد

عشق
محبت، فریبگی، پریم، پیار، چاہ، شوق، خواہش، عادت، لت، سلام رخصت

دل
ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، جرات ، توجہ

اگر
بشرطیکہ، بلفرض، اگرچہ، جو، جب، ہر چند، باوجودیکہ، گو کہ

وُہی
وہ ہی، پہلے ہی جیسے طریقے سے، اسی طرح، مثل، سابق

درد
تکلیف، دُکھ، ٹیس، ہُوک، کِسک، افسوس، سوزوگداز، رحم، ترس، ہمدردی، غم


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - کھبی جذبہ عشق کےغم کی کھینچاتانی بھی جاتی ہے؟

مصرعہ نمبر 2 - اگر دل رخصت ہوا تو بھی تکلیف ہوگی۔


تبصرہ

1 ۔ یہ ممکن نہیں کہ دل کے جانے سے غم عشق ختم ہو جائے۔
2 ۔ دل کا جانا بھی دل کے لیے درد مند ہوگا۔

06 - 008
احباب چارہ سازئ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، ببایاں نورد تھا​

فرہنگ

احباب
حبیب کی جمع، بہت سے دوست، یار، آشنا

چارہ
علاج، تدبیر، ،درد، دوستی، سرانجام

چارہ سازئ
تد بیروعلاج، امداد، یاری، معالجہ

وحشت
گھبراہٹ، سودا، خفقان، دیوانگی، جنون، حیوانیت، بھڑک، نامانوس ہونا، آرارگی

زندان
قید خانہ، جیل

خیال
تصور، فکر، اندیشہ، دھیان، سمجھ، لحاظ

بیاباں
ریگیستان، جنگل، ویرانہ، اُجاڑ، جہاں کوسوں تک پانی اور درخت نہ ہوں

نورد
طے کرنے والا، لپیٹنے والا، پھرنے والا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - احباب کی تدبیر اور علاج سے میری وحشت دور نہ ہوئ۔

مصرعہ نمبر 2 - قید میں رہ کر بھی میرے خیالات بیاباں میں رہے۔


تبصرہ

خیال نے قید خانہ کو بھی بیاباں تصور کرلیا اور قید میں بھی بیاباں کے چکر کھاتا رہا کیونکہ اسکو جنگل سمجھ لیا اس لیےمجھے وہی وحشت حاصل رہی جو صحرا میں ہوتی ہے لہذا احباب سے میری وحشت کا علاج نہ ہوسکا ۔

[line]
07 -008

یہ لاشِ بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا​

فرہنگ

لاش
مُردہ جسم، نعش، میّت، جنازہ

بے کفن
جیسے کفن نہ ملے

اسد
اسد اللہ خان غالب کا پہلا تخلص

خستہ
تھکا ہوا، زخمی، گھائل، خراب، بد حال، مفلس، نادر، تنگ دست، بُھر بُھرا

حق
واجب، دُرست، فرض، جائز، انصاف، صلہ، انعام، عدل

مغفرت
بخشنا، نجات، رہائی، چھٹکارا، خلاصی

عجب
تعجب، حیرت، انوکہا، نادر،تعجب انگیز، نیا، عمدہ ، طُرفہ

آزاد
بری، خود مختار، بے غم، بے قید

مرد
آدمی، بشر، شخص، خاوند


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - یہ بے کفن لاش اس بدحال، تھکے ہوئے زخمی اسد کی ہے۔

مصرعہ نمبر 2 - اللہ اس پر رحم فرمائے وہ آذاد مرد تھا۔


تبصرہ

اسد جب تک زندہ تھا وہ حد بندی، انحصار، قید، تعین، بندش، پابندی سے پاک تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اسکی لاش بے کفن تھی چناچہ لاش بھی کفن و قبر کی پابند نہیں تھی۔ اللہ اس پر رحم کرے۔ عجب آزاد مرد تھا۔
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 009 -

شمار سبحہ،" مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا

بہ فیضِ بے دلی، نومیدئ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

ہوائے سیرِگل، آئینۂ بے مہرئ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ* بسمل پسند آیا


border3.jpg

[line]

01 -009
شمار سبحہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا​

فرہنگ

شُمار
گنتی، تعداد، حساب، تخمینہ

سبحہ
تسبیح، مالا

مرغوبِ
رغبت کیا، پسندیدہ، دل پسند، دل کش، مزیدار، لذیذ، من بھاتا

بتِ
مجسہ، ( مجازاً) معشوق، محبوب، احمق، مورتی

مُشکِل
دشوار، کٹھن، سخت، پیچیدہ، اُلجھاہوا، دشواری، سختی، مصیبت، دقت

پسند
مقبول، مرغوب، حسب خواہش

تماشا
دید ، سیر، تفریح، نظارہ، مزہ، لطف، کھیل، مذاق، عجین بات ، ناٹک
بہ
کے ساتھ، بہتر، اچھا، عمدہ

یک
ایک، اکیلا، واحد، تنہا

کف
ہاتھ ، پنجہ، ہتھیلی، روکنا، بحر کے زُکن، کے ساتوں حرف کو ساقط کردینا

صد
سو، سیکڑہ، اسم عدد

بُردنِ
دل لیے جانا، معشوقی کرنی

کف بُردنِ صد
سو دل اڑانا

دل
ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، جرات ، توجہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - مشکل پسند بتوں کو تسبیح کا پڑھنا پسند آیا

مصرعہ نمبر 2 - اس طرح معشوق کو سو دلوں کو مٹھی میں پکڑنا مرغوب آیا۔


تبصرہ

عابدون کا سو دانوں کی تسبیح کو ہاتھ میں رکھنا معشوق کو بہت پسند آیا۔معشو نے یہ خیاک کیا کہ میں بھی اسی طرح میرے پاتھ میں بھی سو دل آجائیں گےاور میں دلربائ اور دلبری کروں گا۔


لفظی و معنوی خوبیاں

غالب نے اپنے شعروں میں لفظ تماشا کو دنیاوی معنی اور صوفیانہ معنی میں استعمال کیا ہے۔

دنیاوی معنی جیسے دنیا کی خوبصورتی، تبدیلی، رنگ برنگت، تنوع اور لا انتہایت ۔

اور صوفیانہ معنی ۔ جو کہ آنکھ کے بغیر یا بند کر کےصرف دل سے دیکھ سکتے ہیں،

نہیں گر سر و برگِ ادراکِ معنی
تماشاے نیرنگِ صورت سلامت

ردیف کے علاوہ مصرہ فارسی میں ہے۔

[line]
02 - 009
بہ فیضِ بے دلی، نومیدئ جاوید آساں ہے
کُشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا​

فرہنگ

بہ
کے ساتھ، بہتر، اچھا، عمدہ

فیض
فائدہ، نفع، سخاوت، فیّاضی، نیکی، بھلائی

بے دلی
رنجیدگی، اداسی، افسردگی

نومیدئ
مایوسی، نااُمیدی

جاوید
وائمی، ہمیشہ ہمیشہ کی لیے

آسان
سہل، سہج

کُشائش
فراخی، کُشادگی، وُسعت

عقدۂ
گرہ، گانٹھ، مشکلبات، پیچیدہ بات، راز، بکھیڑا

مُشکِل
دشوار، کٹھن، سخت، پیچیدہ، اُلجھاہوا، دشواری، سختی، مصیبت، دقت

پسند
مقبول، مرغوب، حسب خواہش


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - ناامیدی اور مایوسی عاشقی کا فیض ہے جو عاشقوں کو ملا ہے۔

مصرعہ نمبر 2 - عاشقی کے فیض سے نومیدی جو مشکل اور کٹھن کام تھی آسان ہوگی ہے۔


تبصرہ

عاشق لوگ ہمشہ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں کیونکہ ان کو وصال نعشوق کی امید نہیں ہوتی۔ ناامیدی اور مایوسی عاشقی کا فیض ہے جو عاشقوں کو ملا ہے۔اور عاشقی کے فیض سے نومیدی جو مشکل اور کٹھن کام تھی آسان ہوگی ہے۔ یعنی جب دل عاشق شدہ کا یہ حال ہے تو گویا کشادگی اور وصال معشوق نہیں ہوگا۔


لفظی و معنوی خوبیاں

پہلے مصرعے میں اگر ہے کو است سے بدل دیا جائے تو پورا مصرعہ فارسی ہوجاتا ہے۔

بہ فیضِ بے دلی، نومیدئ جاوید آساں است


شاعری کےاصطلاحات

استعارہ
کے لغوی معنی مانگنا ، مستعار لینا، ادھار لینا ہیں۔ اصطلاح میں استعارہ سے مراد یہ ہے کہ حقیقی اور مجازہ معنی کے میں تشبیہ کا علاقہ پیدا کرنا۔یعنی حقیقی معنی کا لباس عاریتاً مانگ کر مجازی معنی کو پہنانا استعارہ کہلاتا ہے۔

یہاں عقدۂ مشکل سے دل باختہ یعنی دل جو عاشق ہوگیا ہو مراد ہے

[line]
03 - 009

ہوائے سیرِگل، آئینۂ بے مہرئ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلتیدنِ*بسمل پسند آیا​

فرہنگ

ہَوا
آرزو، دوستی، خیر خواہی، سانس، خلا اور زمین کے درمیان کی فضا

گُل
پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

آئینہ
منہ دیکھانے کا ششہ ، درپن، حیران، ششدر، روشن، ظاہر، صاف ، اُجلا

بےمہرئ
ظلم و ستم ، جور و جفا، بے رخی، بے توجہی، بے محبتی

قاتل
( مجازاً) معشوق، قتل کرنے والا، جلّاد، خونی، مہلک، جان لیوا، ظالم

انداز
طور اور طریقہ، قیاس، وضع، معشوقانہ لگاوٹ، اعتدال، نمونہ، پیمانہ
بسمل
( مجازاً) عاشق ، تڑپنے والا، بیقرار

بخوں غلتیدن بسمل
بسمل عاشق کا خون میں لوٹنا

پسند
مقبول، مرغوب، حسب خواہش


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - معشوق کے طلم و ستم کی دکھانے والی یہ بات ہے کہ اس کو سیرگل کی آرزو کی خواہش ہوئ ہے۔

مصرعہ نمبر 2 - گل ایک بسمل ہے جو سراپا خون آلود ہے اور معشوق کو یہ پسند آیا۔


تبصرہ

معشوق کے طلم و ستم کی دکھانے والی یہ بات ہے کہ اس کو سیرگل کی آرزو کی خواہش ہوئ ہے۔ گل گویا ایک بسمل ہے جو سراپا خون آلود ہےاور ہمارا معشوق اس کی سیر کو جاتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ معشوق جفا پسند اور طلم دوست ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

اگر آیا کی جگہ آمد لکھیں تو یہ شعر فارسی میں ہوجاتا ہے

ہوائے سیرِگل، آئینۂ بے مہرئ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلتیدنِ*بسمل پسند آمد!

شاعری کےاصطلاحات

مراعت النظیر:
کلام میں ایسی اشیاء کا ذکر کرنا جن میں تضاد یا تقابل کےسوا کوئ اور نسبت ہو۔ مثلاً سرو، گل، لالہ، بلبل، چمن کا ایک جگہ ذکر کرنا۔ یا صراحی، پیمانہ، جام کا ذکر کرنا۔ اس صنعت کو توفیق، تلفیق اور ایتلاف بھی کہتے ہیں۔

یہاں
ہوا اور گل۔ وجہ تناسب فعل ہے۔ ہوا پھولوں کو کھولتی ہے
آئینہ مہر ۔ مہر بہ معنی آفتاب مناسبت ہے۔ مہر اور آفتاب دونوں روشن اور شفاف ہوتے ہیں۔

خون اور گل ۔وجہ تناسب صفت رنگ ہے دونوں سرخ ہوتے ہیں۔
خون اور بسمل ۔ وجہ تناسب فعل ہے۔ بسمل سے خون نکلتا ہے اور خون کا نکلنا بسمل کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 010 -

دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا

کس سے محرومئ قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا


border3.jpg

[line]
010 - 01
دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا​


فرہنگ

دہر
زمانہ، دنیا، وقت، زمانہ، مدّ ت العمر، قسمت، اتفاق، بدقسمتی، رواج، حفاطت، چکنی مٹی

نقش
تصویر، چھاپ، نشان، لکھاہوا، کُھدا ہوا

وفا
نباہ، ساتھ دینا، خیرخواہی، نمک حلالی، وبستگی، عقیدت مندی، تعمیل، تکمیل

وجہ
سبب، باعث، دلیل، طریقہ، شکل، جانب

تَسلّی
دل خوشی، دلاسا ، خاطر، جمع، تسکین

لفظ
کلمہ، بات، لغت، وہ بامعنی کلمہ جومنہ سےنکلے، شبد

شرمندہ
شرمسار، نادم، ممنون

معنی
مطلب، مقصد، ارادہ، منشا، مراد، سبب، وجہ، باعث، اصلیت، حقیقت، ماہیت، مدعا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ دنیا میں وفا کی امید عاشقوں کے لیے باعث تسلی نہیں ہے
مصرعہ نمبر2۔ لفظ کی شرمندگی یہ ہے کہ وہ بےمعنیٰ ہو۔یعنی وفاداری بےمعنی بات ہے۔


تبصرہ

معشوق اپنی بیوفائ سےشرمندہ نہیں ہوتےاوراس لیےمعشوقان دنیا و محبوبان ماہ سیما کی وفاداری بےمعنی بات ہے ۔ مطلب یہ کہ معشوقوں سےوفا کی امید نہ کرنی چاہیےکیونکہ معشوق بیوفا ہوا کرتے ہیں۔


لفظی و معنوی خوبیاں

شرمندہ کےلفظی معنی شرمسار اور نادم کے ہیں اور مرہون کے ممنون ہیں۔ دونوں کا استعمال جائز ہے۔

[line]
02 - 010
سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا​

فرہنگ

سبزۂ
نیا سبزہ جو ڈاڑھی مونچوں کے نئے بال نکلنے سے پہلےمرد کے چہرے پر نمودار ہوتی ہے۔

خط
نوشہ، تحریر، لکیر، نشان، مکتوب، نیا سبزہ جو کہ مرد کےچہرے پر آتا ہے۔

کاکل
سر کے بڑے بڑے آگےلٹکے ہوئے بال، زُلف، گیسو، لِٹ۔

سرکش
باغی، نافرمان، مغرور، بےوفا

زمرد
سبز رنگ کا قیمتی پتھر

یہ زمرد
یہ زمرد تشبہہ سبزۂ خط

حریف
ہم پیشہ، دشمن، بدخواہ، چالاک، ہوشیار، مقابلہ کرنےوالا

دم
سانس، زندگی، دھار ( تلوار کی)

افعی
اک، ایک قسم کا زہریلا سانپ، کالا سانپ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ سبزہ خط کےسامنےتیرا کاکل د ب نہ سکا۔
مصرعہ نمبر2 ۔ اس سبزہ خط کےسامنے کاکل جمارہا۔


تبصرہ

اے معشوق تیرا کاکل سرکش اس قدر خوش نما ہے کہ اس کی خوش نمائی سبزہ خط کی خوشنمائ سے بہتر ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ سبزہ خط کے سامنے تیرا کاکل د ب جائے گا اور خط کی دل کشی کاکل کو بے رونق کر دے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور تیرا کاکل ہمیشہ کی طرح سرکش بنا رہا اور سبزہ خط تیرے کاکل کا مقابل نہ ہوسکا۔


لفظی و معنوی خوبیاں

تشبیہ
تشبیہ کےلغوی معنی ’مانند کردن ‘ یعنی دوچیزوں کوایک جیسا بنانا۔ “مشابہت دینا“ ۔ علمِ بیان کی رو سےجب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائے تواُسے” تشبیہ “ کہتے ہیں۔ تشبیہ سےغرض اس پہلی چیز کی کسی صفت، حالت یا کیفیت کو واضح اورموثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہےاس سےفصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔

سبزۂ خط کو زمرد سےتشبہ ہے۔ کاکل کو افعی سے تشبہ ہے۔

توجہ: کہا جاتا ہے کہ اگرسانپ افعی زمرد کو دیکھ لےتواندھا ہوجاتا ہے۔


[line]
03 -010
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا​

فرہنگ

چاہنا
محبت کرنا، پسند کرنا، قصد کرنا، مانگنا

اندوہ
رنج و غم، فکر، تروّد

وفا
نباہ، ساتھ دینا، خیر خواہی، نمک حلالی، عقیدت مندی، تعمیل، تکمیل

چھوٹ
رہائی، فرصت، آزادی، بےتکلفانہ پھکڑ، گالی گفتار

ستم گر
جفا کار، تکلیف دینےوالا، ستانےوالا

مرنا
انتقال کرنا، وفات پانا، دم نکلنا، دنیا سےگزرنا، عاشق ہونا، لہو پانی ایک کرنا

راضی
شاد، خوش، رضامند، صابر، شاکر، تندرست


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔میں چاہتا تھا کہ وفاداری کےستم سےحھٹکارا پالوں۔
مصرعہ نمبر2۔الف۔لیکن وہ جفا کار اس بات پر راضی نہیں ہوا
ب۔ لیکن وہ جفا کار میرے مرنےپر بھی خوش نہیں تھا۔


تبصرہ

میرا معشوق ایسا ظالم ہے کہ میرے مرنے ہر بھی راضی نہ ہوا کیونکہ مرجانے میں میری رہائ ہوجاتی مگر اس نے میری رہائ نہ چاہی۔
[line]
04 - 010
دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا​

فرہنگ

دل
قلب، حوصلہ، جرات ، خواہش

گزر گاہ
راستہ، سڑک، شارع عام

خیال
تصور، فکر، اندیشہ، دھیان، سمجھ، لحاظ

مے
شراب، خُمر، بادہ، دارو، دختِ زر، صہبا، بنت العنب

ساغر
شراب کا پیالہ، جام، پیالہ، گلاس

سہی
ٹھیک، قبول، فرض کیا، غنیمت ہے ۔بے پروائ ظاہر کنا۔ جیسے ہم دیوانے ہی سہی

گر
اگر کا مخفف، بنانےوالا، کرنےوالا

نفَس
سانس، دم، گھڑی، ساعت، وقیقہ

جادۂ
راستہ، راہ، سڑک، پگ ڈنڈی، طریقہ، رواج، رسم
سر
کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصہ، ابتداء، دماغ، زور، سردار

منزل
ٹھہرنے کا مقام، سرائے، مکان، اترنے کی جگہ، چاند کا گھر

تقوی
خدا کا خوف، پرہیزگاری، پارسائ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ تو دل کو مے و ساغر کے خیال کا راستہ بنا رہنے دو۔
مصرعہ نمبر2۔اگرسانس لینےسے منزل مقصود پرہیزگاری و خدا ترستی نہیں بنتی۔


تبصرہ

اس شعر میں دوسرا مصرعہ شرط ہے اور پہلا مصرعہ اس کی جزا ہے۔
اگرسانس لینے سے منزل مقصود پرہیزگاری و خدا ترستی نہیں بنتی۔ تو دل کو مےو ساغر کے خیال کا راستہ بنا رہنےدو ۔مطلب یہ کہ بیکاری بری چیز ہے۔اگر آدمی کوخیرنصیب ہو تو شر ہی میں نہ مبتلا ہو۔


لفظی و معنوی خوبیاں

شبیہ۔ تشبیہ کےلغوی معنی مانند کردن یعنی دوچیزوں کوایک جیسا بنانا۔ مشابہت دینا۔ علمِ بیان کی رو سےجب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائے تواُسےتشبیہ کہتے ہیں۔ تشبیہ سےغرض اس پہلی چیز کی کسی صفت، حالت یا کیفیت کو واضح اورموثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہےاس سےفصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔

نفس کو جادہ اور راستہ سےتشبیہ دی ہے۔ وجہ شبیہ نفس کی آمدورفت۔

ذرا سی تبدیلی سے یہ شعرسالم فارسی کا شعر بن گیا۔

دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ماید
گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نشود

ہی سہی۔ ہی سہی میں ہم آہنگ آوازوں میں دو ہی ہیں

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی

یا

نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

[line]
05 - 010
ہوں ترے وعدہ نہ کرنےپر بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا​

[line]
[hr:fd5f47317f]
06 - 010

کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں، سو وہ بھی نہ ہوا​

فرہنگ

محرومی
نااُمیدی، مایوسی، ناکامی

قسمت
تقدیر، نصیب، حصہ، بخرہ

شکایت
گلہ، شکوہ، مرض، بیماری، فریاد

چاہا ( چاہنا )
محبت کرنا، پسند کرنا

مرا ( مرنا )
انتقال کرنا، وفات پانا

سو
اس لیے، اس واسطے، جو، وہ

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ منزل مقصود نہ ملنے کی میں کس سے شکایت کروں۔
مصرعہ نمبر2۔ میں اپنی مرضی سے مر بھی نہ سکا۔

تبصرہ

شاعر پوچھتا ہے کہ ایک شخص مرنا چاہتا ہے لیکں مر نہیں سکتا کیوں؟ ہم یہ آخذ کرسکتے ہیں کہ یہ وجوہات ہوسکتی ہیں۔

1۔ موت اپنے وقت سے پہلے نہیں آتی۔
2 ۔ وہ اس لیے نہیں مر سکا کہ معشوق اس کو بزدک ہونے کا طعنہ دے گا۔
3۔ اس ڈر سے کہ معشوق رسوا نہ ہوجائے
4 عشق میں بعض دفعہ عاشق زہر کھا لیتا ہے یا اس کو زہردیا جاتا ہے لیکن وہ جذبہ عشق میں اتنا غرق ہو تا ہے کہ اس کی روح اس زہر کو قبول نہیں کرتی۔

لفظی و معنوی خوبیاں

اس غزل کا تیسرا شعر

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

ہم معنی شعر ہے۔ دونوں شعروں کا مطلب ایک ہے۔ یعنی اگر ہم مرجاتےتو ہماری مشکلی ختم ہوجائیں۔ اور اسی لیے یہ ہماری خواہش تھی۔ مگر پوری نہیں ہوئ۔
[line]
07 - 010
مرگیا صدمہ یک جنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا​

فرہنگ

مر (مرنا)
انتقال کرنا، وفات پانا

صدمہ
آسیب، کوٹنا یا ملانا، دھکا، ٹکر، تکلیف، حادثہ

یک
ایک، اکیلا، واحد، تنہا

جنبش
حرکت، گردش، ہلنا، جلنا

لب
ہونٹ، کنارہ، طرف، جانب، ساحل، حاشیہ، مُنڈیر

غالب
زبردست، زور آور، ملغوب کرنے والا، اردو کے مشہور شاعر اسد اللہ خان کا تخلص

ناتوانی
کمزوری، ناطاقتی، نقاہت

حَرِیف
( مجازﴼ ) ہم صحبت اور ہم نشین، ہم پیشہ، دشمن، بد خواہ، چالاک، ہوشیار، مقابلہ کرنے والا

دم
سانس، زندگی، دھار ( تلوار کی )

عیسیٰ
پیغمبر عیسٰی کو حضرت مریم


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میں معشوق کےلب کی ایک جنش سےمرگیا۔
مصرعہ نمبر2۔ میری ایسی ناتوانی تھی کہ حضرت عیسیٰ بھی مجھے اپنی سانس سےجلا نہ سکے۔


تبصرہ

میری ایسی ناتوانی تھی کہ حضرت عیسیٰ بھی مجھے اپنی سانس سے جلا نہ سکے۔ میں معشوق کےلب کی ایک جنش سےمرگیا۔


لفظی و معنوی خوبیاں

صنعت ایہام التناسب۔ کلام میں دو ایسےلفظ لانا جن کےمعنی میں باہم مناسبت نہ ہو۔ لیکن ان دونوں لفظوں میں سے کسی ایک کا ایک اور معنی ایسا بھی ہوجو دوسرے لفظ کے معنی سےمناست رکھے۔ اس کو ایہام تناسب اس لئے کہتے ہیں کہ تناسب فی الحقیقت نہیں لیکن دوسرے معنی تناسب کا وہم دلاتےہیں۔

صدمہ کے دو معنی آسیب اور کوٹنا۔ اس شعرمیں صدمہ کے پہلےمعنی آسیب مراد ہیں۔اور چونکہ ہوٹنوں کا باہم ملانا کو کوٹنے کےساتھ مشابہت رکھتا ہے لہذا لفظ صدمہ سےاس شعر میں صنعت ایہام التناسب پیدا ہوگی۔ یہاں اس کے دوسرے معنےمقصود نہیں مگر جنبش کےساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔


شاعری کےاصطلاحات

قافیہ ۔ قافیہ کے لغوی معنی پیچھے آنے والا۔ قافیہ وہ حروف اور حرکات کا مجموعہ ہے جومختلف الفاظ کے ساتھ غیرمستقل طور پرشعری مصرعے کے آخر میں بار بار آئے۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 011 -

ستایش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا

بیاں کیا کیجئے بیدادِکاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرہء خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ نَیَستاں کا

دکھاؤں گا تماشہ ، دی اگر فرصت زمانے نے
مِرا ہر داغِ دل ، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خُورشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولٰی برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا

اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ ، ویرانی تماشہ کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا

خموشی میں نہاں ، خوں گشتہ* لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مُردہ ہوں ، میں بے زباں ، گورِ غریباں کا

ہنوز اک "پرتوِ نقشِ خیالِ یار" باقی ہے
دلِ افسردہ ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

نہیں معلوم ، کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا


border3.jpg

[line]
01 - 011
ستایش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کےطاقِ نسیاں کا​

فرہنگ

ستایش
تعریف، حمد و ثناہ

گر
اگر کا مخفف، بنانے والا، کرنے والا

زاہد
متقی، پرہیزگار، دنیا سے رغنبت اورخواھش نہ رکھنے والا

قدر
عزت، بزرگی، قیمت، مقدار، یکساں

باغ
گلزار، پھلواڑی، چمن، جہاں بہت سےدرخت لگائےجائیں

رضواں
ایک فرشتہ جو کہ بہشت کا دربان اور موکل ہے، بہشت، برکت، رضامند ی

گلدستہ
پھولوں کا گچھا، طاق یا محراب جہاں اذان ہو، غزلوں کا رسالہ یا مجموعہ

بےخود
آپ سے بے خبر، از خود رفتہ ، مدہوش، سر شار، جمع بیخودوں

طاق
محراب، فرد، یکتا، لاثانی، وہ عدد جوخفت نہ ہو

نسیاں
بھول، چوک، فراموشی

طاقِ نسیاں
محاورہ بھول جانا، بھلا دینا

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ بہشت جس کی زاہد اتنی تعریف کرتے ہیں۔
مصرعہ نمبر2۔ بےخودی ہم اس بہشت کوفراموش کرگے ہیں۔

تبصرہ

ہم بیخودوں کواپنےعالم محویت میں جو دیکھائ دے رہا ہےاس نےجنت کوبھلا دیا ہے۔ یعنی کہ جنت سےبہتر ہے۔اس شعرمیں شاعرہم پریہ ظاہرنہیں کرتا کہ وہ کون سی ایسی چیز ہوسکتی ہے۔

[line]
02 - 011
بیاں کیا کیجئے بیدادِکاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرہء خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا​

فرہنگ

بیان
ذکر، اظہار، صاف، اطلاع، واضح، وعظ

بیداد
ظلم و ستم، بےانصافی

کاوش
کھودنا، کھوج لگانا، خلش، کرید، دشمنی، حسد

ہائے
افسوس، دریغ، آہ، فریاد، بیماری یا دکھ کی حالت، ماتم

مژگاں
مژہ کی جمع، پلکیں

یک ایک ، اکیلا، واحد، تنہا

قطرہ
پانی کی بوند، کسی سیال چیز کی بوند

خُون
لہو، قتل، نسل، وہ سرخ رطوبت جوحیوانی جسم گردش کرکےاسے زندہ رکھتی ہے

دانہ
بیج، تخم، اناج، غلہ، چھوٹی پھنسی، چنا

تسبیح
سو دانوں کی مالا، اللہ اللہ کہنا

مرجاں
مونگا، حجرالجر، ایک قسم کےسمندری کیڑوں کےگھر جن کی کثرت سےپورے کے پورے جزیرے بن جاتے ہیں۔


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میں کیا بتاوں کہ پلکوں کی کرید نے مجھ پر کتنا ظلم کیا ہے
مصرعہ نمبر2۔ کہ اگر میں مرجاں کی مالا بناوں تو ہردانہ میرے خون کا قطرہ ہوگا۔

تبصرہ

میری آنکھوں کی بیداد سےاس قدر خون ایک ایک کر کے بہا دیا کہ اس کے شمار کےلیے تسبیح مرجان چاہیے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

قطر، خون اور دانہ تسبیح میں تشبیہ تامہ ہے​

[line]
03 - 011
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ نَیَستاں کا​

فرہنگ

سطوت
قہر، دبدبہ، رعب، شان و شوکت

قاتل
قتل کرنے والا، جلّاد، خونی، مہلک، جان لیوا، ظالم

مانع
منع کرنے والا، روکنے والا، سدِّراہ، روک، ممانعت ، اٹکاؤ

نالوں
نالہ کی جمع ، نالہ ،فریاد، واویلا، شور، غُل، فغاں

دانتوں
دانت کی جمع۔ چبانے اور کانٹنے کا عضو، میل، ارادہ

تنکا
سوکھی گھاس کا ٹکڑا، مجازﴼ ۔ ذرا سی چیز

ریشہ
درخت کی رگیں، سوت کا تار، پھلوں کا تار، نس

نَیَستاں
بھول، چوک، فراموشی

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ قاتل کا قہر و دبدبہ بھی میرے نالوں کو روک نہ سکا
مصرعہ نمبر2۔ جوتنکا میں نےاپنےدانتوں کےدرمیاں دبایا تھا توایک موٹی ڈنڈی لگا۔

تبصرہ

یہ ایک رسم سمجھی جاتی ہے کہ اگر ملظوم اپنے دانتوں کے درمیان ایک تنکا رکھ لیےتو ظالم اس پر اپنے کو فتحیاب سمجھ کراس کو جان سے نہیں مارے گا۔

شاعر کہتا ہے کہ قاتل کا قہرو دبدبہ بھی میرے نالوں کو روک نہ سکا اور جو تنکا میں نے دانتوں میں دبایا تھا وہ درخت کی ایک ڈنڈی کی طرح محسوس ہونےلگا۔ وہ تنکا میری نالہ کشی کی جڑ بن گیا۔​

[line]
04 - 011
دکھاؤں گا تماشہ ، دی اگر فرصت زمانے نے
مِرا ہر داغِ دل ، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا​

فرہنگ

دکھاؤں ( دِکھاؤُ )
دور کی چیز کا نظر آنا، سامنا ھونا، دیداروُ، خوشنما

تماشا
دید، سیر، تفریح، نظارہ، مزہ، لطف، کھیل، مذاق، عجیب بات ، ناٹک

اگر
بشرطیکہ، بلفرض، اگرچہ، جو، جب، ہر چند، باوجودیکہ، گو کہ

فُرصت
مہلت، فراغت، چُھٹی، اطمینان، خلوت کا مقام

داغ
دھبا، نشان ، عیب، کلنک کا ٹیکہ، غم، حسد، عیب

دل
قلب، جرات، خواہیش

اِک
ایک کا مخفف، ایک

تخم
بیج، انڈا، گٹھلی، اولاد، نطفہ

سروِ چراغاں
سرد کی مانند جھاڑ جو محفلوں میں روشن کیا جاتاہے۔


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ اگر عمر نے ساتھ دیا تو میں تماشا دکھاوں گا۔
مصرعہ نمبر2۔ میرا ہر داغ دل ایک جھڑ بیری کےدرخت کی طرح جلےگا۔


تبصرہ

میرے ہرداغ دل سےنالہ و فغان اس طرح نکلےگا جیسےایک جھڑ بیری کا درخت جلتا ہے۔​

[line]
05 - 011
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خُورشید عالم شبنم ستاں کا​

فرہنگ

آئینہ خانے
وہ مکان جس میں چاروں طرف آئینہ لگے ہوں۔

نقشہ
تصویر، روپ، شکل، طرز، حالت

جلوے
جلوۂ کی جمع، خود کو دوسروں کو دکھانا، تجلّی، معشوق کا ناز و انداز سےچلنا، تجلی، نور

پَرتَو
سایہ، عکس، پَرچھائیں، روشنی، کرن، چمک

خُورشید
سورج، آفتاب

عالمِ
حالت، کیفیت، دنیا

شبنم
رات کی نمی، اوس، ایک قسم کا سفید باریک کیڑا

ستاں
جگہ، مقام، لینے والا

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ تیری جلوہ کے آگے شیشہ کا گھر بھی ماند ہوگیا
مصرعہ نمبر2۔ جس طرح جب آفتاب نکلتا ہے تو شبنم غائب ہوجاتی ہے۔

تبصرہ

1۔ جس طرح شبنم ، سورج کو برداشت کرسکتی ہے اس طرح شیشہ کا گھر تمہارے جلوہ کو سہہ سکتا ہے۔

2۔ جس طرح سورج کی کرنوں میں شبنم کے ہرایک قطرے چمکتے ہیں اسی طرح شیشہ کا گھر کے ہرایک شیشہ تمہارے جلوہ سے چمکتا ہے۔
[line]
06 - 011
مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولٰی برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا​


فرہنگ

تعمیر
بناوٹ ،مکان بنانا، مرمت کرنا

مُضمر
پوشیدہ، مخفی، دل میں رکھا گیا

اِک
ایک کا مخفف ، ایک

صورت
شکل، نقش، خاکہ، حالت، طرح، تدبیر

خراب
ویران، غیرآباد، ضائع، بُرا، نکما

ہیولٰی
ہر چیز کا مادہ، ماہیت،اصل، ڈھیر، بیڈول جسم

برق
آسمانی بجلی، صاعقہ، مصنوعی بجلی، تیز، چالا ک

خِرمَن
کھلیان، انبار، غلے کا وہ ڈھیر جس سے بہوسا الگ نہ کیا گیا ہو

خُون
لہو، قتل، نسل، وہ سرخ رطوبت جوحیوانی جسم گردش کرکے اسے زندہ رکھتی ہے

گرم
جلتا ھوا، دہکتا ھوا، اختلاط رکھنےوالا، مستعد، خفا

دہقاں
دیہات یا گاوں کا باشندہ، گنوار، نمبردار، قاضی

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 - میری تباہی کا ایک راز میری بناوٹ میں چھپا ہے
مصرعہ نمبر 2 - کسان کی کوشش ہی غلے کے ڈھیر کوجلادیتی ہے۔

تبصرہ

1 ۔ میں وہ کسان ہوں جس کا جوش و خروش ایک بجلی کی طرح ہے جو میری ہی فصل کو جلادیتا ہے۔
2 ۔ میری صلاح و فلاح بہبود کے واسطے لوگ جو کوشش کرتے ہیں وہ کوشش میرے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہوتی ہے۔ کیونکہ میں اصلیت و ماہیت کے لحاظ سے خرابی اور ویرانی کی صورت ہوں اس لیے میر ے محسن کی سعی و سفارش میرے لیے مضر ہی نہیں بلکہ میرے محسن کو بھی نقصان پہونچاتی ہے۔​

[line]
07 - 011
اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ ، ویرانی تماشہ کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا​

فرہنگ

اُگا ( اُگانا )
پیدا کرنا، جمانا، روشن کرنا، ظاہر کرنا

گھر
مکان، رہنے کی جگہ، ٹھکانہ، گھونسلہ، وطن

سُو
سمت، جانب، طرف

سبزہ
نیا سبزی جوڈاڑھی مونچوں کے نئے بال نکلنے سے پہلےمرد کے چہرے پر نمودار ہوتی ہے، زمّرد، ہریال، شادابی

ویرانی
اجاڑپن، غیرآبادی، تباہی، ابتری، بےرونقی، اداسی

تماشا
دید، سیر، تفریح، نظارہ، مزہ، لطف، کھیل، مذاق، عجب بات ، ناٹک

مدار
گردش کی جگہ، منحصر، دور، قیام

کھودنا
گڑھا کرنا، جڑ سےاکھاڑنا، خالی کرنا، نقاشی کرنا

گھاس
سبزہ، پھوس، چارہ، گاہ، ساگ پات

دربان
چوکیدار، پھرے دار، سنتری


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔اے ویرانی دیکھ ہر طرف سبزہ اگ رہا ہے ۔
مصرعہ نمبر2۔ اب اس گھاس کا نکالنا میرے دربان پر منصر ہے۔

تبصرہ

جس طرح ویران اور غیر آباد جگہوں میں جنگلی گھانس اگ جاتی ہے۔ اے ویرانی دیکھ میرے گھر میں بھی سبزہ اگ رہا ہے۔ اس سبزہ اس قدر اگا ہوا ہے کہ دعبان اس کو کھود کے بیچتا ہے او ر اس کی قیمت پر اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔​

[line]
08 - 011
خموشی میں نہاں ، خوں گشتہ* لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مُردہ ہوں ، میں بے زباں ، گورِ غریباں کا​


فرہنگ

خموشی
خاموشی، چپ، ساکوت، سکون، سناٹا

نہاں
چُھپا ہوا، پوشیدہ خوں

گشتہ
پھرا ہوا، اُلٹا ہوا، بدلہ ہوا، بنا ہوا

لاکھوں
ہزاروں، سینکڑوں، بہت سے، بےشمار

آرزوئیں
آرزو کی جمع ، خواہش، تمنا، چاہ، مراد، مقصد، مطلب

چراغ
دیا، لمپ، شمع، بتی، بیٹا، رہنما، گھوڑے کا پچھلے پاؤں پر کھڑا ہون

مُردہ
بے جان، بے روح، مرا ہوا، مجازﴼ کمزور، ناتواں

بےزباں
نہ بولے، گونگا، خاموش، باشرم، مظلوم حیوان

گور
قبر، تربت، مزار

غریباں
غریب کی جمع

گورِ غریباں
ان لوگوں کی قبر جو پردیس میں مریں

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میری لاکھوں آرزوئی کا خاموشی میں خون ہو جا تا ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ میں اس غریب الدیار کی طرح ہوں جس کی قبر نہیں جلتا۔


تبصرہ

1۔ میں ایک غریب کی قبر پر بجھا ہولیمپ ہوں۔ جس کی لا تعداد خواہشات خون میں مل گئیں ہیں۔ کیونکہ میری لو بجھ چکی میرے پاس اس مرے ہوئے کی طرح زبان نہیں ہے جواس کے نہ ہونے کی وجہ سےاپنی زندگی میں اپنی خواہشات پورا نہ کرسکا۔ اوراس بات کو ظاہر کرنے کے لیےلوگ اس قبر پر لیمپ بھی نہیں جلاتے۔

2۔ اگرچہ میں خاموش ہوں اور زبان سےکچھ نہیں کہتا مگرمیرے دل میں لاکھوں آرزویں تڑپ رہی ہیں۔ میری احوال اور میری آرزوں کا کوئ پرسان حال نہیں۔​
[line]

09 - 011
ہنوز اک "پرتوِ نقشِ خیالِ یار" باقی ہے
دلِ افسردہ ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا​

فرہنگ

ہنوز
ابھی تک، اب تک، اس وقت تک، ابھی

اک
ایک کا مخفف، ایک

پرتو
سایہ، عکس، پَرچھائیں، روشنی، کرن، چمک

نقش
تصویر، چھاپ، نشان، لکھا ہوا، کُھدا ہوا

خیال
تصور، فکر، اندیشہ، دھیان، سمجھ، لحاظ

یار
دوست، مدگار، پیارا، چہیتا، ساتھی، رفیق، معشوق، محبوب

باقی
بچا ہوا، واجب الادا، واجب الوصول، ہمیشہ موجود رہنےوالا
دل
قلب، جرات ، خواہش

افسردہ
ٹِھٹھرا، مجھایا ہوا، پژمردہ، اداس، رنجیدہ، دلگیر

گویا
تسلیم کیا جانا، مانند، مثل، ہوبہو، بولنے والا، خوش گفتار

حجرہ
کوٹھڑی۔مسجد کے متصل چھوٹا کمرہ، خلوت خانہ

یوسف
حضرت یعقوب کے بیٹے جو حسن میں اپنی نظیر نہ رکھتےتھے۔ نہایت خوبصورت

زنداں
قید خانہ، جیل


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ اب تک میرے تصور میں یار کی ایک جھلک محفوظ ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ میرا دل حضرت یوسف علیٰہ لسلام کی قید خانے کی طرح ایک افسردہ کمرہ ہے۔


تبصرہ

ہمارے دل افسردہ معشوق کے ایک ذرا سے خیال میں اس طرح منور ہے جس طرح حضرت یوسف علیٰہ لسلام حجرہ ، ان کے فروغ حسن و جمال سے منور تھا۔


قصص و روایات

یوسف۔ حضرت یعقوب کے بیٹےجوحسن میں اپنی نظیر نہ رکھتےتھے۔ مصر کےعزیز نےحضرت یوسف علیہ السلام کو قید کردیا تھا۔​
[line]
10 - 011
نہیں معلوم ، کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا​


فرہنگ

مَعلُوم
جانا گیا، تمیز کیا گیا، ظاہر، روشن، واضع، نمودار، مشہور و معرف

لہو
لوہو کا مخفف ۔ خون، ایک باپ کی اولاد، کنایتاً ۔ بہت سرخ

قیامت
روز محشر، مسلمانوں کے عقیدے میں وہ دن جب مردے زندہ ہو کے کھڑے ہوں گے اور حساب کتاب ہوگا۔

سر
کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصہ، ابتداء ، دماغ، زور، خیال، سردار

سر شک آلودہ

مژگاں
مژہ کی جمع، پلکیں


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کتنے لوگوں کا خون پانی بن جائے گا۔
مصرعہ نمبر2 ۔ تمہاری پلکھوں کا بھیگنا یہ تو ایک قیامت ہے۔

تبصرہ

اے معشوق توجو روتا ہے یہ ایک بہت بڑی بات ہےاور یہ ایک آفت خیزمعاملہ ہے۔ نہیں معلوم تونے کون کون سےعاشقان وفادار کا قتل کردیا ہے جس کی وجہ سے اب پچتاتا ہے اور روتاہے۔

لفظی و معنوی خوبیاں

کنایہ۔ کنایہ لغت میں مخفی اشارہ یا پوشیدہ بات کو کہتے ہیں۔ علمِ بیان کی اصطلاح میں کنایہ وہ لفظ ہے جس کےمعنی حقیقی مراد نہ ہوں بلکہ معنی غیر حقیقی مراد ہوں اور اگر حقیقی معنی بھی مراد لئےجائیں تو جائز ہو، اس میں ملزوم سے لازم مراد لیا گیاجائے۔ مثلا سفید ریش سے بوڑھا مراد لینا ہے

مژگاں کا سرشک آلودہ ہونا کنایہ ہے رونےکا​
[line]
011 - 11
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا​


فرہنگ

نظر
بغور دیکھنا، نگاہ، آنکھ، بصارت، غور، نگرانی، بھوت پریت کا اثر

جادۂ
راستہ، راہ، سڑک، طریقہ، رواج

راہ
راستہ، غرض، میل جول، خبر

فنا
موت، ہلاکت، نابود، بربادی

غالب
زبردست، ملغوب کرنے والا، شاعراسد اللہ خان کا تخلص

شیرازہ
فیتہ لگانا، جوڑنا، جزبندی کرنا، مجلد، انتظام، سلسلہ

عالم
حالت، کیفیت، دنیا

اجزا
جز کی جمع، حصے، ٹکڑے

پریشاں
حیران، سرگردان، آشفتہ، متر ّّ دد، مضطرب، منتشر، تیتّر بتّر، پراگندہ


نثری ترجمہ

مصر نمبر1۔ اے غالب ہماری نظرمیں یہ راستہ تباہی کا ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ یہ دنیا کے بکھرے ہوئے حصوں کو کتاب کی جلد کی طرح جوڑےگا۔

تبصرہ

میں یہ بات نہیں بھولا ہوں کہ دنیا کی ورق تباہی کےدھاگے سے جڑے ہیں۔ یعنی میں تباہی میں موت کو یاد رکھتا ہوں اور انجام اور خاتمہ پر نظر ڈالے رکھتا ہوں۔​

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 012 -

نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا


border3.jpg

[line]
01 - 012

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا​

فرہنگ

یک
ایک ، اکیلا، واحد، تنہا

بیاباں
ریگیستان، جنگل، ویرانہ، جہاں کوسوں تک پانی اور درخت نہ ہوں

یک بیاباں
کثیراور بےانتہا، نہایت

ماندگی
تکان، تھکن، سستی، ایک قسم کا جنون، بیماری

ذوق
مزہ، لطف، شوق، خوشی

کم
ذرا سا، تھوڑا، ادنیٰ ، قلیل، گھٹیا

حباب
پانی کا بلبلہ، ایک زیور جو ہاتھ میں پہنا جاتا ہے، روشنی کے باریک کنول

موجۂ
موج لہر، ترنگ، طلاطم، امنگ، جوش، ولولہ، طبیعت کی خوشی

رفتار
چال، چلن، روش

نقش
تصویر، چھاپ، نشان، لکھا ہوا، کُھدا ہوا

قدم
پاؤں، گام ، ڈگ ( ایک قدم سےدوسرے قدم کا فاصلہ) ، گھوڑے کی چال، ( مجازاً ) واسطہ، دخل


نثری ترجمہ

مصرع نمبر1۔میری بے انتہا تھکاوٹ سے خوشی کم نہیں ہوگی۔

مصرع نمبر2۔ جس طرح بلبلے موج کے ساتھ چلتے ہیں میرا میرا نقش قدم بھی میرے ساتھ ساتھ چلتاہے۔


تبصرہ

میرا نقشِ قدم بھی میرے ساتھ ساتھ چلا آتا ہے جس طرح موج کت ساتھ موج کے بلبلےچلےآتے ہیں اور میرا ذوقِ صحرا گروی کبھی کم نہ ہوگا۔

[line]
02 -012
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئےگل سے ناک میں آتا ہے دم میرا​

فرہنگ

محبت
الفت، پیار، چاہ، عشق، دوستی، یارانہ

چمن
وہ جگہ جہاں سبزہ پھول وغیرہ بوئیں، باغ کےقطعات، گلزار، پھلواری

بےدماغی
بے پروائ، ناخوشی

موج
لہر، ترنگ، طلاطم، امنگ، جوش، ولولہ، طبیعت کی خوشی

بُو
باس، مہک، خوشبو، بدبو، سڑاند، خبر، بھنک

گُل
پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

ناک
سانس لینے کا عضو، غیرت، نمود کی چیز،آبرو، کوی چیز باعث فخر

دم
سانس، زندگی، دھار ( تلوار کی )

ناک میں دم آنا
بیزار ہونا

نثری ترجمہ

مصرع نمبر1۔ مجھے باغ سےاُلفت تھی مگرمجھےاب اس کی کوئ پرواہ نہیں ہے۔
مصرع نمبر2۔ مجھے اب پھولوں کی بےانتہا بُو پریشان کرتی ہے۔

تبصرہ

گل کی بو اب میرے موافقِ مزاج اور سازگارِ طبیعت نہ رہی ۔ یعنی وقت کےساتھ میری محبت، نفرت میں تبدیل ہوگی۔

لفظی و معنوی خوبیاں

تشبیہ۔ تشبیہ کےلغوی معنی مانند کردن یعنی دو چیزوں کو ایک جیسا بنانا۔ مشابہت دینا۔ علمِ بیان کی رو سےجب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری شیز کی مانند قرار دیا جائے تواُسے تشبیہ کہتے ہیں۔ تشبیہ سے غرض اس پہلی چیز کی کسی صفت، حالت یا کیفیت کو واضح اور موثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اس سےفصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔ مثلا رخسار چھول کی مانند ہے۔

یہاں رخسار کو پھول سےتشبیہ دی گئی ہے۔ دونوں رخسار اور پھول مختلف چیزیں ہیں لیکن رنگ اور ملائمت کی صفت دونوں میں موجود ہے۔

اس شعر میں بوئےگل کو موج کےساتھ تشبیہ دی گی ہے۔

بُو کو موج سے تشبیہ دینے کی شرط یہ ہے کہ بُو میں افراط اور طغیانی کی کثرت سے ہو۔

ایہام ۔ کلام میں دو ایسےالفاظ لانا جن کےمعنی میں باہم مناسبت نہ ہو لیکن ان دونوں لفطوں میں سے کسی ایک کا ایک اور معنی ایسا بھی ہو کے معنی مناسبت رکھے۔ اس کو ایہام تناسب اس لئے کہتے ہیں۔ کہ تناسب فی الحقیقت نہیں لیکن دوسرے معنی تناسب کا وہم دلاتے ہیں۔

جب سانس لیا جاتا ہے تو پھول کی بو ناک میں آتی ہے۔ یہ کہنا کہ گل کی بو کےساتھ سانس بھی ناک میں آتی ہے۔ اورسانس کا ناک میں آنا محاروہ ہے جس کا مطلب بیزار ہونا ہے۔ شعر میں دوسرے بیزار کے معنی استعمال ہوئےہیں۔ تو یہ پہلےمعنی کی طرف ایہام پیدا کرتا ہے۔​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 013 -

سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی
جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

border3.jpg

[line]
013-01
سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا​

فرہنگ

سراپا
تمام بدن سر سے پاؤں تک، حُلیہ

رہن
گرو، گروی، کِفالت

عشق
محبت، فریب، پریم، پیار، چاہ، شوق، خواہش، عادت، لت، سلام رخصت

ناگزیر
ضروری، لازمی

اُلفت
پیار، محبت، دوستی

ہستی
وجود، قیام، موجودگی۔ مخلوقات و کائنات، حیات، اصل، بساط، مجال، دولت، خود پسندی

عِبادت
بندگی، نماز و دعا

برق
آسمانی بجلی، صاعقہ، مصنوعی بجلی، تیز، چالا ک

افسوس
پچھتاوا، غم، صدمہ

حاصل
کسی چیز کا بقیہ، آمدنی، مطلب، منافع


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میں سرسے پیرتک عشق کا مرہون ہوں جس سے مجھے زندگی دوام حاصل ہوئ ہے

مصرعہ نمبر 2۔ لیکن میں نےبرق مجازاً عشق کی عبادت اس صلہ کےلیےنہیں کی تھی۔


تبصرہ

میری منشا کےخلاف مجھ کو ہستی حاصل ہوئ اور ناگزیر ہستی کی محبت و الفت میرے دامن گیرہوئ۔ میں عشق اس لیےکرتا ہوں کہ میں فنا ہوجاؤں مگرمجھ کوفنا کےبجائے بقا حاصل ہوا۔ اس حاصل پرمیں افسوس کرتا ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

استعارہ
کے لغوی معنی مانگنا ، مستعار لینا، ادھار لینا ہیں۔ اصطلاح میں استعارہ سے مراد یہ ہے کہ حقیقی اور مجازہ معنی کےمبین تشبیہ کا علاقہ پیدا کرنا۔ یعنی حقیقی معنی کا لباس عاریتاً مانگ کر مجازی معنی پہنانا استعارہ کہلاتا ہے۔
برق مجازاً عشق

پہلا مصرعہ پورا فارسی ہے۔
سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
[line]
02 - 013
بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی
جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا​

فرہنگ

بقدر
باندازہ، موافق، بدستور، جیسا کہ، بہ تعداد، اس سبب سے، بایں احتیاج، حد تک، برابر

ظرف
حوصلہ واستعداد، دانائ، برتن، بھانڈا، صرف و نحو میں وہ اس اسم ذات جو جگہ یا وقت کے معنوں پردلالت، کرئے

ساقی
شراب یا حقہ پلانے والا

خمار
نشہ، سرشاری، کیف، نشہ اترنے کے قریب جو سر درد ہوتا ہے

تشنہ
پیاسا، خواہش مند

کامی
کاروباری، کام سے لگا ہوا، کام کا، کار آمد، عیاش

تشنہ کامی
تشنگی اور پیاس

دریا
پانی جو پہاڑ یا جھیل سےنکل سمندر کی طرف بہے، وسیع، خون
مے
شراب، خُمر، بادہ، دارو، دختِ زر، صہبا، بنت العنب

خمیازہ
بدلہ، مکافات، رنج، تکلیف، پشمانی، افسوس، انگڑائ، بدن تاننا

ساحل
سمندر یا دریا کا کنارہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔جس قدر ساقی کے پاس شراب ہے میں بھی اس قدر پیاسا ہوں

مصرعہ نمبر2۔اگر ساقی ایک شراب کےدریا کی طرح ہے تو میں ایک ساحل کی طرح پیاسا اور خشک لب ہوں

تبصرہ

جس قدر ساقی فراخ حوصلہ ہے اس قدر میں محروم القسمت ہوں۔


لفظی و معنوی خوبیاں

تشبیہ۔ تشبیہ کےلغوی معنی مانند کردن یعنی دو چیزوں کو ایک جیسا بنانا۔ “مشابہت دینا“۔ علمِ بیان کی رو سےجب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائے تواُسے “تشبیہ“ کہتے ہیں۔ تشبیہ سے غرض اس پہلی چیز کی کسی صفت ، حالت یا کیفیت کو واضح اور موثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اس سےفصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔
مثلا رخسار پھول کی مانند ہے
یہاں رخسار کو پھول سےتشبیہ دی گئی ہے۔ دونوں رخسار اور پھول مختلف چیزیں ہیں لیکن رنگ اور ملائمت کی صفت دونوں میں موجود ہے۔
ساقی تشبیہ دریا سے
ذات کو ساحل سے

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 014 -

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا

رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا

تو اور سوئے غیر نظرہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
طُعمہ ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا

ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا

تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسد!
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

border3.jpg

[line]
01 - 014
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا​


فرہنگ

محرم
راز دار، ہم راز، واقف کار

نوا
نغمہ، آواز، صدا، کوک، سُر، روزی

ہائے
افسوس، دریغ، آہ، فریاد، بیماری یا دکھ کی حالت، ماتم

راز
بھید، خفیہ یا پوشیدہ بات

یاں
دنیا میں یا محفل سماع یا بزم نشاط میں

حجاب
پردہ، اوٹ، نقاب، حیا، شرم، لحاظ

پردہ
گھونھٹ، آڑ، اوجھل، حجاب، نقاب، انگرکھے کا سینہ، راز

ساز
سامان، اسباب، باجا، جنگ کے ہتھیار، گھوڑے کا زیور

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ تم ہی ہو جو بزم نشاط سے وقف نہیں ہے اور

مصرعہ نمبر2۔ اس دنیا میں وہ جو پردہ کی طرح نظر آتا ہے دراصل ایک ساز کے تار ہیں کو غیب کی باتیں سنا رہے ہیں۔

تبصرہ

صوفیہ کے بعض گروہ میں سماع راگ کا سننا،رقص و سرود جائز ہے اور یہ گروہ سمجھتا ہے کہ تقرب الی اللہ حاصل ہوسکتا ہے۔ شاعراس شعرمیں ان لوگوں سے مخاطب ہے جوسماع کےخالف ہیں۔
اے سماع کےمخالفت کرنے والوں تم نوا ہاے راز کا راز دار اور واقف کار نہیں ہے۔
اگر تم کو پتہ ہوتا تو تم ہرایک حجاب کو پردہ ساز تصور کرتے۔

لفظی و معنوی خوبیاں

مناسبت۔ باہم تعلق، موزونیت اور نسبت، شعر میں آواز کی خوبصورتی کو مناسبت کہتے ہیں۔ ( فریادی، کس کی ، شوخی، کاغزی ہے پیرہن ہر پیکر )

یہاں اس شعرمیں ساز پردے میں ہوتےہیں اس لیے حجاب کا لفظ ساز کےساتھ مناست رکھتا ہے

نوا، موسقی کے بارہ مقامات میں سےایک مقام ہے لہذا نوا بھی ساز کےساتھ مناسبت رکھتا ہے۔

پردہ کی ذو معنیت، پردہ اور کان کا پردہ ۔ یعنی کان کے پردہ کا ساز کےتار کی طرح ہلنا یعنی دماغ کا ڈرم​

[line]
02 - 014
رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا​


فرہنگ

رنگ
رنگت، روپ، انداز، خوبصورتی ، بہار، مزہ، مکر، راگ، سماں،
خون

شکستہ
ٹوٹا ہوا، خراب، وہ رسم و خط جوگھسیٹ کر لکھا جائے

رنگ شکستہ
رنگ رفتہ ۔ وہ رنگ جو چہرہ سے اڑ گیا ہو۔ شکستہ رنگ کی صفات میں سے ہے

صبح
تڑکا، فجر، سویرا، سحر

بہار
پھول کھلنے کا موسم، بسنت، سرسبزی، شادمانی، سیر، تماشہ، تفریح، سرور، رونق

نظارہ
دیکھنا، نظر ڈالنا، دیدار

وقت
گھڑی، دم، عرصہ، مُدّت، میعاد، زمانہ، موقع، فرصت ،عمر، موت کی گھڑی، مصیبت

گُل
پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

ہائے
افسوس، دریغ، آہ، فریاد، بیماری یا دکھ کی حالت، ماتم

ناز
ادا، نخرہ، غمزہ، پیار، لاڈ، چونچلا، گُھنڈ، فخر، غرور، بڑائ

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ پھیکا رنگ بہار کی صبح کی آمد کا نظارہ ہے۔

مصرعہ نمبر 2۔ یہ پھولوں ہر جوبن آنے کا وقت ہے۔

تبصرہ

1۔ جس طرح سرو کے پھل اور پھول نہیں ہوتےاس طرح ہم عاشقوں کی صبح بہار ہمارا ہی رنگ شکستہ ہے اور کچھ نہیں۔ یہاں صبح بہار ہی نہیں بلکہ صرف ہمارے ہی رنگ شتستہ کا نظارہ ہے۔

2۔ معشوق کےچہرہ کا رنگ اڑ گیا ہے۔ کیونکہ وہ کسی کےعشق میں گرفتار ہوگی ہے۔ اس جذبہ عشق میں وہ مجھ سے
پردہ چھوڑ دے گی۔ اور یہ میرے لیےصبحِ بہارِ نظارہ ہوگا، کیونکہ میں اُس کو دیکھ سکوں گا۔اور کیونکہ اس کی سخت دلی کا جا چکی ہوگی اس سے ناز و ادا کے پھول جوبن پر آئیں گے۔

ایک دوسری غزل میں غالب کہتے ہیں

ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے​

[line]
03 - 014
تو اور سوئے غیر نظرہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا​

فرہنگ

سُو
سمت، جانب، طرف

غیر
( مجازاً ) رقیب، اجنبی، علیحدہ شے، بیگانہ

نظر
غور دیکھنا، نگاہ، آنکھ، بصارت، غور، نگرانی، توجہ، معاینہ، بھوت پریت کا اثر

ہائے
افسوس، دریغ، آہ، فریاد، بیماری یا دکھ کی حالت، ماتم

تیز
دھار وار ، تلخ ، چالاک، بدمزاض، مضبوط، شدید، گالب، گرم، سرگرم، شریر، زخم یا آنکھ میں لکنے والا، جوشیلا

دُکھ
درد، تکلیف، رنجو اندوہ و غم والم، عذاب، بیماری

مِژہ
پلک

دراز
لمبا، پھیلا، میزیا الماری کا لمبا خانہ

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1 ۔ہاے تم پر رقیب کو ان تیز تیز آنکھوں سےدیکھنا لازم ہے۔
مصرعہ نمبر2 ۔اور مجھےتیرے مژگان دراز کا غم کھانا لازم ہے۔

تبصرہ

کس طرح تم دوسروں کوالتفات دیکھتی ہو مجھےاس سےجلن اور حسد ہوتی ہے۔​

[line]
04 - 014
صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
طُعمہ ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا​


فرہنگ

صرفہ
فائدہ و منفعت و نفع

ضبط
نگہبانی، حفاظت، انتظام، روک و رکاوٹ، قید

آہ
کلمۂ افسوس، ہائے، وائے، اُف، سانس، دم، نفس

وگرنہ
ورنہ، اور اگر نہیں

طُعمہ
نوالہ ، روزی، رزق، لقمہ شکاری پرندوں کا کھاجا

نَفَس
سانس، دم، گھڑی، ساعت، لحطہ، وقیقہ

جان
روح، زندگی، طاقت، ہمت، جوہر، نہایت عزیرچیز، پیارکا کلمہ

گداز
نرمی، ملائمت، پگھلانے والا، نرم

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ ضبط آہ میں میرا صرفہ ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ اگر میں ضبط آہ نہ کروں تو ایک ہی نفس جان گذار کا طعمہ ہوں۔

تبصرہ

1۔ میں اپنی آہوں کو روک رہا ہوں ورنہ ایک ہی آہ سےمیرا کمزور جسم پگھل جائےگا اور میرے جوش و جذبہ کا نوالہ بن جائے گا۔

2۔ میں اس لیے آہ بھر رہا ہوں کہ میں کمزور ہوں اور اگر میں سانس نکلوں تو مجھ میں سانس کو واپس لانے کی طاقت نہیں ہے​
[[line]
05 -014
ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا​

فرہنگ

بسکہ
چونکہ ، القصہ ، حاصلِ کلام ، غرض

جوش
اُبال، جذبات کا بےقابو ہونا، ولولہ، حرارت، مستی، غصہ

باد
ہوا، باؤ ، پَون

اُچھل ( اُچھلنا )
اُبھرنا، دھڑکنا، ناز و غرور کرنا

گوشۂ
طرف، جانب، خلوت، تنہائ، کنارہ، تخلیہ

بساط
فرش، بستر بچھوانا، سرمایہ، حوصلہ

سر
کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصہ، ابتداء ، دماغ، زور، عشق، سردار

شیشہ
آئینہ، کانچ، بوتل

باز
(صفت) کھیلنے والا ، ایک شکاری پرندہ۔ شکرا، دوبارہ

شیشہ باز
شیشہ کے گلاسوں سے کھیلنے والا، تماشا گر، بازی گر۔ مداری

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ شراب کی تیز و تندی سےگلاس اچھل رہے ہیں۔
مصرعہ نمبر2۔ فرش کا ہرایک گوشہ شیشہ باز کا سر ہے۔

تبصرہ

فرش کا ہر کونہ میں جہاں شراب کےگلاس رکھے ہیں ایک تماشا گر بن گیا ہے جس طرح گلاسوں سے کھیلنے والا تماشا گراپنے جسم کے مختلف حصوں پرگلاس اچھال کرتماشا دیکھاتاہے۔ شراب کی تند و تیزی سےگلاس اچھل کرایسا کر رہے ہیں۔​

[line]
06 - 014
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا​

فرہنگ

کاوش
کھودنا، کھوج لگانا، خلش، کریدنا، دشمنی، کاو کاو

دل
قلب، جرات، خواہیش

تقاضا
طلب، تاکید، دیا ھوا قرض واپس مانگنا، ءخواہش

ہنوز
ابھی تک، اب تک، اس وقت تک، ابھی

ناخن
انگلیوں کے سروں کی ہڈی، چوپالوں کے کُھریا سُم، پرندوں اور درندوں کے پنجوں کے اُوپر کی ہڈی

قرض
ادھار، مانگا ہوا، مستعار

گِرِہ
گانٹھ، عقدھ، جیب، جوڑ، بند کا آخری شعر، مشکل

نیم باز
ادھا کھلا اور ادھا بند

گِرِہ نیم باز

(مراد) دل


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ ابھی تک دل کاوش کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ ناخن پرگرہ نیم باز کا دل کا قرض ہے۔

تبصرہ

اس شعر میں دل قرض ہے اور ناخن قرض گیراور کاوش قرض ہے اس واسطے دل اپنے مال کا تقاضہ کرتا ہے جو کاوش ہے۔ دل اب بھی اپنا قرضہ مانگتا ہے۔

لفظی و معنوی خوبیاں

گرہ نیم باز سےمراد دل ہے۔ دل اور گرہ میں تشبیہ ہوتی ہے، وجہ تشبیہ چکی اورگول ہونا ہے ۔ یہاں ناخن کے حقیقی معنی مراد ہے۔ کیوں کےدل کو گرہ کہا گیا ہے اور گرہ کےلیے ناخن حقیقی درکار ہیں۔​
[line]
07 - 014
تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسد!
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا​

فرہنگ

تاراج
لوٹ، غارت، بربادی

کاوش
کھودنا، کھوج لگانا، خلش، کریدنا، دشمنی

غم
رنج، دُکھ، افسوس، ملال، حزن، الم

ہجراں
ہجر، جدائی، مفارقت

اسد
اسد اللہ خان غالب کا پہلا تخلص،غالب نے یہ تخلص کم از کم چالیس غزلوں میں استعمال کیا ہے

سینہ
چھاتی، صدر، سامنے کےرخ پرگردن اور پیٹ کا درمیانی حصۂ
جسم

دفینہ
دفن کیا ہوامال، خزانی، گڑا ہوا خزانی، دفن کی ہوئ شے

گُہر
موتی، جوہر، قیمتی پتھر، اصل نسل، حسب نسب، ذات، خاندان، مادہ، اصلیت

ہائے
افسوس، دریغ، آہ، فریاد، بیماری یا دکھ کی حالت، ماتم

راز
بھید، خفیہ یا پوشیدہ بات


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ کھود لگانے سےغم ہجراں کا خزانہ لٹ گیا۔
مصرعہ نمبر2۔ سینہ جو اب بھیدوں کا خزانہ تھا۔

تبصرہ

غم ہجراں نےمیرے سینہ کو جوگہرہاے راز کا دفینہ تھا، برباد کردیا یعنی غم ہجراں نے ہم کو مار ڈالا اور ہمارے مرگ کا باعث ہوا اور ہماری کچھ قدر نہ کی۔

لفظی و معنوی خوبیاں

غالب کے شعروں میں کاوش کا استعمال عملی ( فعالی ) یا استعاری ( انفعالی ) موجود ہے۔

اگر ہوا کو بشد سے اور کا کو را سے بدل دیں تو یہ فارسی کا شعر ہو گیا

تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں بشد، اسد!
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز را.
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 015 -

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا

شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

منہ نہ کھلنے پرہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب! گنبدِ بے در کھلا


border3.jpg

[line]
01 - 015

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِگنجینۂ گوہر کھلا​

فرہنگ

بزم
محفل، مجلس، خوشی کی محفل، سبھا

شاہنشاہ
بادشاہوں کا بادشاہ، سب سے بڑا بادشاہ

گنجینۂ گوہر
بزم شاہنشاہ

اشعار
شعر کی جمع

دفتر
حساب کتاب کے کاغذ، رجسٹر، مجموعہ اشعار، وہ کمرہ جہاں کاغذات رکھےجائیں

یارب
اے پروردگار، اے اللہ

در
پھاٹک، چو کھٹ

گنجینۂ
خزانہ، دفینہ، ذخیرہ

گوہر
موتی، جواہر، قیمتی پتھر، اصل، مادہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ شاہنشاہ کی بزم میں مجموعہ اشعار پش ہیں۔
مصرعہ نمبر2۔ اے یارب موتیوں کے حزانے کو کھلا رکھ ۔


تبصرہ

ہمارے شاہنشاہ کو شعروشاعری کا شوق ہوا ہے اور وہ شاعروں کی قدر کرتے ہیں۔ چونکہ میں شاعرہوں لہذا یہ دعا کرتا ہوں کہ اس بزم شاہنشاہ کو قائم رکھےتاکہ میری بھی کبھی کچھ قدر ہوجائے اورانعام وخطاب مل جائے۔


شاعری کےاصطلاحات

شعر۔ شعر شعور سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی' جاننا' ہے۔ اصطلاح میں شعر وہ کلام موزوں ہے جو مقفیٰ اور مخیل ہونے کے ساتھ ہی بامعنی بھی ہو اور قصداً کہا جائےاور متکلم کی کیفیت نفسانی مثلاً انبسط حیرت وغیرہ کا اظہار کرتا ہو۔ جس سےسامع کا نفس ایک خاص کیفیت محسوس کرے​
[line]
02 - 015

شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا​

فرہنگ

شب
رات، رَین

انجمِ
نجم کی جمع۔ ستارے

رخشندہ
چمکیلا، روشن

منظر
جائےنظر، نظارہ، سیر گاہ، چہرہ، حدِ نظر

تکلّف
تکلیف اٹھا کر کوئ کام کرنا۔ظاہرداری

گویا
تسلیم کیا جانا، مانند، مثل، ہوبہو، بولنے والا، خوش گفتار

بتکدے
وہ جگہ بت رکھےجاتے ہیں

در
پھاٹک، چو کھٹ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ پھر رات ہوئ اور چمکتے ستارے نظر آئے۔
مصرعہ نمبر2۔ اسی انداد میں جیسے مندر کا دروازہ کھلتا ہے۔


تبصرہ

رات ہوئ اورآسمان ہر روشن ستاروں کا ہجوم ہوا جس طرح جب ہندو مندر کےدرازے کھلتے ہیں اور روشنی کرتے ہیں اور چراغ جلاتے ہیں ۔​
[line]
03 -015

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا​


فرہنگ

گرچہ
ہرچند، باوجودیکہ، گو کہ

دیوانہ
پاگل، مجنوں، عاشق

پر
لیکن، مگر، کیونکہ

دوست
آشنا، یار، خیر خواہ، محبوب

فریب
دغا، مکَر، دھوکا، دَم جھانسہ، چالاکی، عیاری، شعبدہ

آستیں
شیروانی کوٹ، کرتے یا قمیض وغیرہ کی بانہں

دشنہ
بڑاچھرا، خنجر، کٹاری، ساطور

پنہاں
چھپا ہوا، پوشیدہ

نشتر
زخم چیرنے کاآوزار


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ اگرچہ میں غصہ ہوں۔ لیکن میں کیوں دوست کے جھانسہ میں آوں۔
مصرعہ نمبر2۔ اسکی آستین میں ایک چھپا دشنہ ہے اور ہاتھ میں نشتر


تبصرہ

یہ شعرمعشوق کی کلائ کی تعریف میں کہا گیا ہے۔ جس ہاتھ میں مجھ دیوانہ کےنشتر ہے وہی ہاتھ میرے لیے باعث جنون ہورہا ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

دشنہ ، ساطور کو کہتے ہیں جس سےگوشت کاٹنتے ہیں۔ کلائ کواس کےساتھ تشبیہ دیجاتی ہے۔​
[line]
04 - 015

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا​

فرہنگ

گو
ہرچند، اگرچہ، کہنے والا

پاؤں
قدم، پیر

بھید
راز، پوشیدہ بات، پہیلی

پر
لیکن، مگر، وجہ یا سبب ظاہر کرنے کے لیے، پتا ، پرندوں کے بدن پر اگنے والے بال

کم
ذرا سا، تھوڑا، ادنیٰ ، قلیل، گھٹیا

پری پیکر
نہایت خوب صورت، بہت حسین، معشوق

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ اگرچہ میں اس کی بات کو نہ سمجھ پاؤں اور مجھےاسکا راز نہ پتہ چلے
مصرعہ نمبر2۔ لیکن یہ کیا کم ہر کہ میرا پری چہرہ معشوق نے مجھ سے کچھ کہا۔

تبصرہ

اگرچہ میں اس کی بات کو نہ سمجھ پاؤں اور مجھےاسکا راز نہ پتہ چلے۔ لیکن یہ کیا کم ہر کہ میرا پری چہرہ معشوق نے مجھ سے کچھ کہا۔​
[line]

05 - 015

ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا​


فرہنگ

خیال
تصور، فکر، اندیشہ، دھیان، سمجھ، لحاظ

حُسن
خوبی، خوبصورت

عمل
کام، فعل، اثر، جادو، منتر

خلد
بہشت، جنت، فردوس

اک
ایک کا مخفف ، ایک

در
پھاٹک، چو کھٹ

گور
قبر، تربت، مزار

اندر
بیچ، درمیان، اندرون


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ خوبصورتی کے متعلق سوچ ، خود ایک حسن کا کام ہے۔
مصرعہ نمبر2 ۔ میری قبرسےایک راستہ بہشت کو جاتا ہے۔

تبصرہ

میرا معشوق کےحسن بہشت کی خوبصورتی ہے۔ اس کےحسن کا خیال بھی بذات خود بہشت کا ملنا ہے۔
[line]
06 - 015

منہ نہ کھلنے پرہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا​

فرہنگ

منہ
دہن، دہانہ، شکل، چہرہ ، در، راستہ

پر
لیکن، مگر، وجہ یا سبب ظاہر کرنے کے لیے، پرندوں کے بدن پر اگنے والے بال

عالم
حالت ، کیفیت ، دنیا

زلف
بلوں کا لچھا جو کان، کے پاس کنپٹی پر لٹکتا ہے، کاکل، گیسو، مینڈی، گُندھے ہوئے بال

نقاب
گھونگٹ، برقعہ، چہرے ڈالنے والا پردہ

شوخ
طرار، بے باک، شریر، دل لھی باز، چمکیلا، نڈر


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ تیرے چہرہ نقاب میں بھی بہت ہی خوشنما ہے
مصرعہ نمبر2 ۔ لیکن نقاب اترنے چہرہ زلف سے بھی بڑھ کر ہے۔


تبصرہ

تیرے چہرہ نقاب میں بھی بہت ہی خوشنما ہے۔ لیکن نقاب اترنے چہرہ زلف سے بھی بڑھ کر ہے۔​
[line]
07 -015

در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا​

فرہنگ

در
پھاٹک، چو کھٹ

پِھرگیا
تبدیل ہوگیا، مکرگیا، چکر میں آگیا

لپٹا ہوا
تہہ کیا ہوا، بندھا ہوا، سمیٹا ہوا

بِستر
بچھونا، فرش


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔معشوق نےمجھ دروازے پر رہنے کی اجازت دے دی لیکن پھراپنا ارادہ بدل دیا
مصرعہ نمبر2۔ میں نےجتنی دیرمیں اپنا لپٹا ہو بستر کھولا۔


تبصرہ

میرا معشوق ایسا رنگ برنگا ہے کہ مجھ کو دروازے پر سونے کی اجازت دے دی لیکن جب تک کہ میں بستر کھولوں اس نےاپنا ارادہ بدل دیا۔​
[line]
08 - 015

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا​


فرہنگ

اندھیری
تاریک، سیاہ

شب
رات، رَین

غم
رنج، دُکھ، افسوس، ملال، حزن، الم

بلاؤں
بلا کی جمع۔ چڑیل، ڈائن، آفت، قہر

نزول
اترنا، نیچےآنا، وارد ہونا

دیدۂ
آنکھ

اختر
ستارہ، سیارہ، تارا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میرے رنج والم کی رات اتنی تاریک کیوں ہے کیا آج ناگہانی مصیبت آئے گی۔
مصرعہ نمبر2۔ آج روشن ستارہ دوسری سمت میں چمکےگا۔


تبصرہ

آج کی غمگین رات اتنی تاریک کیوں ہے۔ شاید آج ستارے میرے معشوق کا نظارہ کر رہے ہیں اور میرے گھر ہرغم کے بادل چھا گئے ہیں۔ اس لیے بلائے آسمانی میرے گھر پر نازل ہو رہی ہیں۔​
[line]
09 - 015
کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا​

فرہنگ

غربت
کنگالی، مفلسی، فقیری، پیسہ یا مال نہ ہونا

خوش
مسرور، شاداں، چنگا بھلا، ترع و تازہ، شاداب

حواد ث
حادثہ کی جمع۔ وارداتیں، واقعیات، سانحات

حال
فی الحال ، کیفیت، حیثیت، طور طریق، وَجد، بےخودی، ذکراس وقت، مجذوب کی کیفیت

نامہ
خط، تحریر، رسالہ، رجسٹر

وطن
پیدا ھونے اور رہنے کی جگہ، دیس ،اپنا ملک

نامہ بر
چھٹی رساں، قاصد، خط لانے اور لیجانےوالا

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میں اپنےملک سے باہر کیسے خوش رہوں جب کے یہ حال ہے
مصرعہ نمبر2۔ کہ نامہ برمیرے پاس وطن کا خط کُھلا ہوا لاتا ہے۔

تبصرہ

یہ رسم ہے کہ موت کی خبر کُھلے لفافہ میں بھیجتے ہیں۔
اپنے وطن سے باہر بھی مصیبتوں نےساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ یہاں تک وطن سے جو خط آ تے ہیں ان میں کسی نہ کسی عزیز کی موت کا ذکر ہوتا ہے۔ بھلا ان ھالات میں میں خوش کیسے رہوں گا۔

شاعری کےاصطلاحات

نامہ بر۔ عاشق اورمعشوق کےدرمیان خط لےجانے والا​
[line]
10 - 015
اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب! گنبدِ بے در کھلا​

فرہنگ

اُمّت
پیچھے چلنے والے، پیرو، تابع، گروہ

کام
کار، کاج، کاروبار، دھندا، بیوپار، ہنر، مطلب، روزگار، فرض، ضرورت

بند
مقفل، تالا لگا ہوا، کھلا نا ہو

واسطے
کے لیے

شہ
شاہ کا مخفف، بادشاہ

غالب
اسد االلہ خان کا وہ مختصر نام (تخلص) جو وہ اشعار میں استعمال کرتے ہیں

گنبد
گول چھت،عمارت کا بالائ حصہ جوگول ہو

بےدر
بغیردروازہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میرے کام کیوں مکمل نہ ہوں جب کہ میں اس کی اُمّت سے ہوں۔
مصرعہ نمبر2۔ وہ بادشاہ جس کے لئے بغیر دروازہ والا گنبد کھولا تھا۔


تبصرہ

میں اس کی اُمّت میں سے ہوں جس کے لیےبغیردروازے ولےگنبد میں دروازہ بنایا گیا تھا۔ اسلیےاسی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ میرے کام مکمل نہ ہوں

یروشلم کی مسجد اقزا میں ایک سبز رنگ کاہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیادہ کہ پیغمبر محمداس گنبد سےاللہ کوملنے گے تھے۔ غالب اپنی شاعری میں اللہ سےشوخیاں کرتے ہیں۔ مگر پیغمبراوران کے خاندان کا نام ہمشہ اداب اور عزت سے لیتے ہیں۔​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 016 -

شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

یاں سرِ پرشور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا

یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا


border3.jpg

[hr:87daa9b2e0]
016 - 01

شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا​

  • فرہنگ

    شب
    رات

    برقِ سوزِ دل
    دل کی غیر معمولی تپش اور برق کی طرح چمکنے والا درد

    زہرۂ ابر آب
    ابر کا پتہ پانی ہونا

    شعلۂ جوّالہ
    بلند ہونے والا شعلہ

    حلقۂ گرداب
    گرداب کا دائرہ


    نثری ترجمہ

    مصرع نمبر 1 ۔ رات کو دل کی تپش بے پایاں ایسی برق بنی ہوئی تھی جس کے اثر سے ابر کا پتہ پانی ہوگیا تھا
    مصرع نمبر 2 ۔ اس پانی میں جو بھور یا گرداب کی صورت تھی جیسے شعلے بلند ہو رہے ہوں۔


    تبصرہ

    رات کو دل کی تپش بے پایاں ایسی برق بنی ہوئی تھی جس کے اثر سے ابر کا پتہ پانی ہوگیا تھا اور اس پانی میں جو بھور یا گرداب کی صورت تھی جیسے شعلے بلند ہو رہے ہوں۔

    [hr:87daa9b2e0]
    016 - 02

    واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
    گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا​

    فرہنگ

    واں
    وہاں کا مخفّف

    کرم
    عنایت، مہربانی، ہمت، بخشش

    عذرِ
    بہانہ، حیلہ، معذرت، اعتراض، معافی، انکار

    بارش
    مینہ، برکھا

    عناں
    باگ، لگام، ڈور، راس

    گِیر
    پکڑنےوالا، لگام پکڑنے والا

    عناں گیر
    چلنےسےروکنے والا

    خرام
    ناز و ادا کی چال، مٹک چال

    گریہ
    رونا، پیٹنا، آہ زاری کرنا

    یاں
    یاں کا مخفّف

    پنبۂ
    کپاس، روئ

    بالش

    تکیہ، مسند، سرہانہ

    کف
    جھاگ، ہاتھ، پنجہ، ہتھیلی، روکنا

    سیلاب
    پانی کی رو، طغیانی، پانی کا چڑھاؤ

    کفِ سیلاب
    سیلاب کا جھاگ


    نثری ترجمہ

    مصرعہ نمبر1۔ وہاں معشوق کا نہ آنے کا بہانہ بارش تھی۔
    مصرعہ نمبر2۔ یہاں ہمارے رونےسے تکیہ کی روئ سیلاب میں کا جھاگ۔


    تبصرہ

    معشوق کےنہ آنے کا بہانہ بارش تھی اور اس کی جدائ ہم اتنا روئے کہ ہمارے تکیہ کی روئ ہمارے آنسووں کے سیلاب میں بہہ گی۔

    [hr:87daa9b2e0]
    016 - 03

    واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
    یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا​

    [hr:87daa9b2e0]
    016 - 04

    جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
    یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا​

    فرہنگ

    جلوۂ
    خود کو دوسروں کو دکھانا، تجلّی، نور، معشوق کا ناز و انداز سےچلنا

    گل
    پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

    جلوۂ گل
    گلابوں کی مظاہرہ

    واں
    وہاں کا مخفّف

    چراغاں
    بہت روشنی، چراغوں کا اکھٹا جلنا، بہت سے چراغ جلنا

    آب جو
    نہر، نالا، چھوٹی ندی، چشمہ

    یاں
    یاں کا مخفّف

    رواں
    جاری، بہتا

    مژگان
    مژہ کی جمع، پلکیں

    چشمِ
    آنکھ، دیدہ ، نین، نیتر، عین، آس، امید

    تر
    گیلا، بھیگا ہوا، نرم، رس دار

    مژگانِ چشمِ تر
    بھیگی آنکھوں کی پلکیں

    ناب
    خالص، صاف

    خونِ ناب
    خالص خون


    نثری ترجمہ

    مصرعہ نمبر1۔ وہاں پھولوں نےنہرمیں چراغوں کا سماں پیدا کردیا۔
    مصرعہ نمبر2۔ یہاں میری بھیگی آنکھوں کی پلکوں سےخالص خون بہہ رہا تھا


    تبصرہ

    پانی کے نزدیک دور تک بےشمار پھولوں کی کیاریاں تھیں اور پھولوں کےعکس نے پانی میں ایک چراغان کا سماں پیدا کردیا تھا۔ یہاں میرے بھیگی آنکھوں سےخون کےآنسووں نے نکل کر ایک ندی بنادی تھی۔


    لفظی و معنوی خوبیاں

    شبیہ کےلغوی معنی مانند کردن یعنی دوچیزوں کوایک جیسا بنانا۔ مشابہت دینا ۔ علمِ بیان کی رو سےجب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیاجائے تو اُسے تشبیہ کہتے ہیں۔
    تشبیہہ دینے کی وجہ اس پہلی چیز کی کسی صفت، حالت یا کیفیت کوواضح اور موثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اس سےفصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔

    یہاں گل اور چراغ میں تشبیہ ہے۔

    [hr:87daa9b2e0]
    016 - 05

    یاں سرِ پرشور بے خوابی سے تھا دیوار جو
    واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا​

    فرہنگ

    یاں
    یاں کا مخفّف

    سر
    کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصہ، ابتداء ، دماغ، زور، عشق، سردار

    پرشور
    شور سے بہرا، دیوانہ

    بےخوابی
    بغیرخواب

    دیوار جو
    دیوار ڈھونڈنے والا

    واں
    وہاں کا مخفّف فرق

    ناز
    ادا، نخرہ، غمزہ، پیار، لاڈ، چونچلا، گُھنڈ، فخر، غرور، بڑائ

    فرق
    جدائ، علحیدگی

    فرقِ ناز
    سر (محاوراً )

    محو
    مصروف،گم، معدوم، دور، فریقہ

    بالش
    تکیہ، مسند، سرہانہ

    بالش کمخواب
    ایک ریشمی کپڑا جو قیمتی زردوزی و پرتکلف ہوتا ہے


    نثری ترجمہ

    مصرعہ نمبر1۔ یہاں میرا شورغل سے بھرا سراور جس کوسونا بھی نہیں ملا دیوار کی تلاش میں ہے۔
    مصرعہ نمبر2۔ وہاں میرا معشوق کا سر ریشمی تکیہ پرگہری نیند میں ہے۔


    تبصرہ

    میرا دماغ خیالات سے بھر پور ہےاور میں سونہیں سکتا۔ معشوق کی جدائ میں دل چاہتا ہے کہ دیوار پر سر دے ماروں۔ دوسری طرف معشوق آرام سے ریشمی تکیہ پرسر رکھ کرگہری نیند میں ہے۔


    لفظی و معنوی خوبیاں

    مجاز مرسل
    کسی لفظ کو حقیقی معنوں کےبجائے کسی قرینے کی بناء پرمجازی معنوں میں استعمال کرنا مجاز کہلاتا ہے۔ اگرتشبیہ کےعلاوہ کوئ اورتعلق ہو تواسےمجازمرسل کہتے ہیں۔

    اس شعر میں لفظ فرق کےدو معانی ہیں۔ علحیدگی اور سر۔ فرق کوسر کے معنی میں استعمال کرنا مجازمرسل ہے۔

    [hr:87daa9b2e0]
    016 - 06

    یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
    جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا​

    فرہنگ

    یاں
    یاں کا مخفّف

    نَفَس
    سانس، دم، گھڑی، ساعت، لحطہ، وقیقہ

    روشن
    چمکتا ہوا، تاباں، ظاہر، آشکارا، کشادہ

    شمع
    موم بتی، چربی کی بتی، موم بتی کی چربی

    بزم
    محفل، مجلس، خوشی کی محفل، سبھا

    بےخودی
    بےہوشی، سرشاری، مستی

    شمعِ بزمِ بےخودی
    جلوۂ
    خود کودوسروں کو دکھانا، تجلّی، نور، معشوق کا ناز و انداز سےچلنا

    گل
    پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

    واں
    وہاں کا مخفّف فرق

    بساط
    فرش، بستر بچھوانا، سرمایہ، حوصلہ

    صحبت
    یاری، ہمراہی، محفل، ہم بستری عورت کےساتھ سونا

    احباب
    حبیب کی جمع، بہت سے دوست، یار، آشنا

    بساطِ صحبتِ احباب


    نثری ترجمہ

    مصرعہ نمبر1۔ یہاں ہماری بزم میں آہوں نےشمع جلائ۔
    مصرعہ نمبر2۔ وہاں پھولوں کےقالین پرمعشوق کےدوست بیٹھے۔


    تبصرہ

    ہم بہ سبب شدت غم و اندوہ کے بےخود اور بےہوش ہوگے۔ دوسرے طرف بزم میں پھولوں کے قالین پر معشوق کےدوست بیٹھےتھے۔

    [hr:87daa9b2e0]
    016 - 07
    فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
    یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا​

    فرہنگ

    فرش
    بچھونا، بستر بچھانے کی چیز، غالیچہ، زمین

    عرش
    آسمان، چھت، سقف، تخت

    واں
    وہاں کا مخفّف فرق

    طوفاں
    غرق کرنے والی رو، سیلاب، پانی کا چڑھاو، شدید بارش، تہمت

    موج
    لہر، ترنگ، طلاطم، امنگ، جوش، ولولہ، طبیعت کی خوشی

    رنگ
    رنگت، روپ، انداز، خوبصورتی ، بہار، مزہ، مکر، راگ، سماں، خون

    موجِ رنگ

    یاں
    یاں کا مخفّف

    زمین
    دھرتی، ارض، وہ خاکی کرّہ جس پرہم رہتے ہیں

    آسماں
    فلک، آکاش، چرخ، گردوں، چکی مانند

    سوختن
    جلنے جوگ، جلنے کے قابل، بھڑکنے والا، سوختنی

    باب
    دروازہ، مقدمہ، معاملہ، کتاب کاحصہ فصل، پارہ، مطلب، مقصد دربار


    نثری ترجمہ

    مصرعہ نمبر1۔ فرش سے آسمان تک رنگ کی موجوں کا طوفان تھا۔
    مصرعہ نمبر2۔ زمین سے آسمان تک لگی تھی۔


    تبصرہ

    ایک گہری ، رنگین اور عش و عشرت کی تبدیلی ظہور آرہی ہے اور ہم سب جل رہے تھے۔ زمیں و آسمان آگ لگا رکھی تھی۔

    [hr:87daa9b2e0]
    016 - 08

    ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
    دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا​

    فرہنگ

    ناگہاں
    اچانک، یکایک، بےخبری میں

    رنگ
    رنگت، روپ، انداز، خوبصورتی ، بہار، مزہ، مکر، راگ، سماں، خون

    خون
    لہو، قتل، نسل

    ناب
    خالص، صاف

    ٹپک
    پانی کے قطرے کی لگاتارگرنے کی آواز

    دل
    قلب، جرات، خواہیش

    ذوق
    مزہ، لطف، شوق، خوشی

    کاوش
    کھودنا، کھوج لگانا، خلش، کریدنا، دشمنی

    ناخن
    انگلیوں کےسروں کی ہڈی، چوپالوں کے کُھریا سُم

    ذوقِ کاوشِ ناخن
    ( مجازا ً ) زنج و غم کی چبھن

    لذت یاب
    مزہ حاصل ھونا، ذائقہ ملنا، سواد پانا


    نثری ترجمہ

    مصرعہ نمبر1۔ اچانک خالص خون اس طور سےٹپکنے لگا۔
    مصرعہ نمبر2۔ جیسےدل کو ناخون کے کریدنےسےلذت تھی۔


    تبصرہ

    دل جو درد و اندود سےواقف تھا اچانک اس سےخون ٹپکنےلگا۔
 

تفسیر

محفلین

Ghalib.JPG




01 - 001

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا


فرہنگ

نقش
تصویر، چھاپ، نشان، لکھا ہوا، کُھدا ہوا

فَریادی
دُہائی دینےوالا، انصاف چاہنےوالا

شوخی
چُلبلاپن، گستاخی

تحریر
لکھنا، لکھنے کا ڈھنگ

پیراہن
کپڑا، پوشاک، لباس

پیکر
چہرہ، صورت

تصویر
صورت بنانا، نقشہ، شبیہ، نہایت خوبصورت، حسین

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ اس طرح لکھنے کا ڈھنگ کس کی شرارت کوظاہر کرتا ہے؛ انصاف چاہنے والے کی یا خود تصویر کی؟

مصرعہ نمبر 2۔ ہمارا وجود ایک تصویر کی طرح نظری ہے جس میں سوگواری، غم، دکھ اور رنج وملال ہے۔


تبصرہ

1۔ زندگی میں عاشق کی معشوق سےجدائ اتنی شدید ہوتی ہے کہ تصویرمیں ایک شبیہ بھی شکایت کرتی ہے۔ اور حاصلِ زندگی تصویر نہیں ایک زندگی ہے۔ تصویرخود بھی زندگی پانے کےجذبےمیں فنا ہونے کی آرزو رکھتی ہے۔
2 ۔ تصویر زبان حال سے تظلم و فریاد کرتی ہے۔
3 ۔ حیات اپنی بےثباتی اور ناپائیداری کی بنا پرتکلیف اورغم کا منبع ہےاور ہم اس کےدائمی فریادی۔


قصص و روایات

ایران کےشہنشاہ نوشیرواں نےاپنی آرام گاہ کے باہرایک زنجیرلگوائ تھی جس کےسرے پرایک گھنٹی تھی۔ فریادی کاغذ کےلبادے میں ملبوس آ کراس زنجیر کو کھینچتا تھا۔ نوشرواں، اس کی فریاد سنتا اورانصاف کرتا تھا۔ شہنشاہ جہانگیرنے بھی نوشیراں کی طرح ” انصاف کی زنجیر“ لگائ تھی۔


لفظی و معنوی خوبیاں

شعر کی پہلی سطر انشائیہ ہے۔

انشائیہ
ایساجملہ جس کوجھوٹ نہیں کہا جاسکتا۔ عام طور سوالیہ، قیاسیہ، ندائیہ، شرطیہ، تعجباً جملےایسے ہوتے ہیں۔ انشائیہ کا تضاد خبریہ کہلاتا ہے۔
جس طرح کہ بعض اوقات دنیا میں فریادی ناانصافی کےخلاف شمع جلاتے ہیں یا عرب لوگ مقتول کے خون سے بھرے ہوئے کپڑوں کی کھمبوں پرنمائش کرتے ہیں، اسی طرح ایران میں ایک رسم ہے جیسےنقشِ فریادی کہتے ہیں۔ اس رسم کےمطابق فریادی حکمران کے پاس کاغذ کا لباس پہن کرجاتا ہے

مراعت النظیر
کلام میں ایسی اشیاء کا ذکر کرنا جن میں تضاد یا تقابل کےسوا کوئ اور نسبت ہو ۔ مثلاً سرو، گل، لالہ، بلبل، چمن کا ایک جگہ ذکر کرنا۔ یا صراحی، پیمانہ، جام کا ذکر کرنا۔ اس صنعت کو توفیق، تلفیق اور ایتلاف بھی کہتے ہیں۔
اس شعر میں تحریر، کاغذی، پیرہن، پیکر، اور تصویر مراعت النظیر کی امثال ہیں۔

مناسبت
شعرمیں آوازوں کا خوبصورت تناسب بھی ہے ۔
فریادی، کس کی، شوخی، کاغذی ہے، پیرہن، ہر پیکر۔ اس شعر میں ’ ای‘ چار بار آتا ہے اور’ اے‘ تین بار ۔

تجاہلِ عارفانہ
لغوی معنی " جان بوجھ " کر انجان بننا ۔ یعنی ایک چیز کوجاننے کے باوجود کسی نکتے کےلئے اس سےلاعلمی ظاہر کرنا۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
” کس نےتمام تخلیقات میں ایسی شوخی ظاہر کی کہ ہرمنفرد کے لیے یہ برداشت سے باہر ہے اور وہ فریاد کرتا ہے؟ “

حسنِ تعلیل
کسی چیز کے وقوع کے لیےایسی وجہ بیان کی جائے جوحقیقت پر مبنی نہ ہو لیکن شاعرایسے انداز میں پیش کرے کہ حقیقت معلوم ہو۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

پہلی سطرمیں ” شوخیِ تحریر۔ اشیاء کا بننا اور بگڑنا“ ، دوسری سطرمیں ” تصویر کا لبادہ کاغذ۔ فریادی کا لباس“
یا
جیسےسب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

میں لالہ وگل کے زمین سے اُبھرآنے کی وجہ یہ بتائ ہے کہ حسینوں کو زمین میں دفن کردیا جاتاہے توحسن فنا نہیں ہوتا بلکہ لالہ وگل کی شکل میں پھر نمودار ہوجاتا ہے۔ حالانکہ لالہ و گُل کے زمین سے نمودار ہونے کی یہ وجہ ہرگز نہیں ہے۔


شاعری کےاصطلاحات

دیوان ۔ دیوان شاعر کے کلام کا ایک مجموعہ ہے ۔ شاعرعموماً اس میں کلام کومنتخب کرتا ہے۔دیوان میں، غزلیں ردیف کے لحاظ سےترتیب دی جاتی ہیں۔اگر ردیف موجود نہ ہو توقافیہ استعمال کیا جاتاہے۔ ہرحرف میں شاعراپنی پسند سے غزلیں ترتیب دیتاہے۔

مطلع۔ غزل کا پہلا شعر، جس کی دونوں مصرعوں میں ایک جیسا قافیہ ہونا ضروری ہے اور اگر ردیف موجود ہے تو اس کا بھی ایک جیسا ہونا ضروری ہے۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع ہونا لازم نہیں۔​

[line]
02 - 001

کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

فرہنگ

کاو کاو
کوشش، تفشش، کجھانا، زخم کو ناخون سے چِھیلنا۔۔ فارسی مصدر کاویدن سے ہے، جس کے معنی ہیں کھودنا، کاوش، سخت محنت، رنج ( نوائے سروش )، تلاش، جستجو، کھوج

سخت جان
وہ شخص جس کی جان مشکل سےنکلے، جفا کش، بےحیائ سےزندہ رہنےوالا

تنہائ
علحیدگی، اکیلا رہنا

جوئے
جُو ندی یا نہر کو کہتے ہیں۔ ئے اضافت کے لیے ہے۔

شِیر
دودھ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 ۔ الف ۔ اس مشکل اور جفاکش زندگی میں جو کھود میں نے کی ہے، اس کا مت پوچھو
ب ۔ اس مشکل اور جفاکش زندگی نے جو کھودا ہے اس کا مجھ سےمت پوچھو۔

مصرعہ نمبر 2 ۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں سورج کےنکلنےسے پہلےاور اس کے غروب ہونے تک ایک دودھ کی نہرکھود رہا ہوں۔


تبصرہ

1 ۔اس مشکل اور جفاکش زندگی کی کھود کا مجھ سےمت پوچھو جس نےمجھے لچکدار اور ضدی بنادیا ہے، اس زندگی نےایسی تنہائ، علحیدگی اور ویرانی دی ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے میں سورج کےنکلنےسے پہلےاور اس کےغروب ہونے تک ایک دودھ کی نہر کھود رہا ہوں۔

2 ۔ نہر کی تکمیل کامیابی فرہاد کی موت کا سامان بن گئ۔ میں بھی اس شام غم کومر کر ہی ختم کرسکتا ہوں۔


قصص و روایات

سنگ تراش فرہادنےایک دن شہزادی شیرین کو دور سےدیکھا اور اس اس کےعشق میں گرفتار ہوگیا۔ اس کےشیرین پر عاشق ہونے کا چرچہ شیرین کےشوہرخسرو تک پہنچا، خسرو نےفرہاد کا مذاق اڑانے کےلیے کہا ” اگرفرہاد پہاڑ کھود کرایک نہر بنائےجس میں دودھ بہہ کرشیرین کےغسل خانےتک پہنچے تو فرہاد کو شیرین مل سکتی ہے“ ۔ یہ کام کوہِ بےستون کو کاٹنا تھا، مگرفرہاد کو شیرین کی ایسی لگن تھی کہ اس نےاس کام کوتقریباً مکمل کرلیا اور اس کا لقب کوہ کُن بن گیا۔ خسرو کو جب یہ خبرملی کہ فرہاد نہرکومکمل کرلےگا تواس نےفورا ایک قاصد کے ہاتھ فرہاد کو یہ پیغام بھیجا ” شیرین کی موت ہوگئ“، فرہاد نےجب یہ سنا تواس نے کدال اپنےسر پرمارلیا۔ اس طرح اس کی موت ہوگئ۔


لفظی و معنوی خوبیاں

بےمعانیات : مشاعرہ میں پڑھی جانے والی غزلوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ جب تک دوسری سطرنہ پڑھی جائے پہلی سطر بےمعنی لگتی ہے ۔ یہاں بلکہ پورا شعرسمجھ سے باہر ہوگا تا آنکہ ہمیں شیرین اور فرہاد کا قصہ معلوم نہ ہو۔

سخت جان: میں ( جفا کش ، بے حیائ سے زندہ رہنے والا ) اچھائ اور بُرای کی دونوں صِفات موجود ہیں۔ غالب نے ’ کاوکاوِ‘ کو جس طرح استعمال کیا ہے اس سے یہ لفظ ایک صوتی ترکیب بن گیا ہے۔

کاوکاوِ سخت جانی: اضافت کا استعمال دو معنی پیدا کرتا ہے۔ ” اور جفاکش زندگی میں جو کھود میں نے ’ یا ‘ مشکل اور جفاکش زندگی نےجو کھود مجھ میں“

شاعری کے اصطلاحات

دن اور رات: غالب کے کم از کم چودہ اشعار میں صبح و شام، شب و دن، شب و روز کا ذکر ہے۔​

[line]
03 - 001

جذبۂ بےاختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا


فرہنگ

جذبہ
ولولہ، غصہ، کشش، دل کاجوش

بےاختیار
بےقابو، بےبس، بہت زیادہ، خود بخود

شوق
خواہش، رغبت

سینہ
چھاتی، صدر، سامنے کےرخ پرگردن اور پیٹ کا درمیانی حصۂ جسم

شمشیر
تلوار، تیغ، (شم، بعمنی ناخن) شیر کےناخن کےمانند

دم
سانس، زندگی، تلوار کی دھار


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1
میرے بےقابو جذبات د یکھنے کے قابل ہیں

مصرعہ نمبر 2
سانس، زندگی، تلوار کی دھار، سب تلوار کے سینے سے باہر ہیں


تبصرہ

میرا جوش اور ولولہ تودیکھو کہ تلوار کی آب باہر آگئی ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

تجاہلِ عارفانہ
لغوی معنی ” جان بوجھ “ کر انجان بننا۔ یعنی ایک چیز کوجاننے کے باوجود کسی نکتہ کے لئےاس سےلاعلمی ظاہر کرنا۔

” میرا جوش اور ولولہ تودیکھو کہ تلوار کی آب باہر آگئی ہے“ ۔
اسی طرح تلوار بھی ہتھیار اور شوق کےمعنی میں استعمال ہوئ ہے، تلوار کےذکرمیں لفظ آب داری ( باڑھ تیزی) بھی استعمال ہوتا ہے، آب داری کو تلوار کا ’دَم‘ کہتے ہیں، تلوار کےآب کا رخ ہمیشہ بیرونی طرف ہوتاہے ۔

رعایتِ لفظی
ایک قسم کی صنعتِ لفظی جس میں الفاظِ تشبیہات اور استعارے پہلےلفظ کی مناسبت سےآتے ہیں۔

شمشیر کا دو دفعہ استعمال اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ دَم کےیہاں دو معنی’سانس‘ اور ’دھار‘ مناسب ہیں۔ دم کوسانس اور تلوار کی دھار کے معنی میں استعمال رعایت کی نشان دہی کرتا ہے۔
[line]

04 - 001

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

فرہنگ

آگہی
آگاہی کا مخفّف، واقفیّت، خبر، علم ہونا، معلوم ہونا

دام
جال، پھندا، قیمت

شُنیدن
سننا

قدر
عزت ، بزرگی، قیمت، مقدار، یکساں

مدّعا
مطلب ، مقصد ، خواہش

عنقا
نایاب، نادر شے، ایک قسم کا سب سے بڑا خیالی پرند جس کا حقیقت میں کوئ وجود نہیں۔

عالمِ
حالت، کیفیت، دنیا

تقریر
بیان، ذکر، گفتگو، وعظ، بحث و مباحثہ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 ۔ الف ۔ جس حد تک ' ہوشیار' جال پھیلانا چائیں پھیلانےدو ۔
ب ۔ مجھے پرواہ نہیں کس حد تک ' ہوشیار' اپنا جال پھیلائیں

مصرعہ نمبر 2 ۔ الف ۔ میرےالفاظ کی دنیا کا مدعا، بمثلِ عنقا ہے۔
ب ۔ میرے الفاظ کی دنیا میں کوئ مدعا نہیں
پ ۔ مدعا ہی میرےالفاظوں کی دنیا کا عنقا ہے
ت ۔ عنقا ہی خود کے الفاظوں کی دنیا کا مدعا ہے


تبصرہ

آپ چاہے کچھ ہی کہیں اور ایک شکاری کی طرح عقلمندی کے جال بچھائیں، تو کیا؟ میرا بیان ایک انوکھے پرندہ کی طرح ہے جواس جال میں نہیں پھنس سکتا، میری باتوں میں سراسر اَسرارِغیبی ہیں۔


لفظی و معنوی خوبیاں

مُتعدِّی: دوسری سطر مُتعدِّی ( فعل معفول کو چاہے ) ۔ یعنی ' مدعا عنقاہے ' یا ' عنقا مدعا ہے'

معنی آفرینی
ایک بات میں کئی معنی چُھپے ہوں۔ غالب کےا شعار زیادہ تر ذومعنی ہوتے ہیں۔
غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ اردو شاعری مضمون نگاری ہے قافیہ بندی نہیں۔


شاعری کے اصطلاحات

عنقا ۔ عربی کہاوتوں میں ایک فرضی پرندہ ، جس کی ایک ہی صفت ہے کہ وہ " نہیں ہے" لہذا پکڑا نہیں جاسکتا۔

غالب نے دو اور شعروں میں اس کا ذکر کیا ہے۔

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنّا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقاہے

[line]
05 - 001

بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

فرہنگ

بسکہ
چونکہ، القصہ ،حاصلِ کلام، غرض

اسیری
قید، گرفتاری

زیر
نیچے، تلے، کم طاقت، گھٹیا، کَسَرہ

پا
پاؤں، قدم، پیر، نیچے، قدرت، بنیاد

موئے
مو کے معنی ہیں بال، ئے اضافت کےلیے ہے۔

آتش
آگ

دیدہ
آنکھ

آتش دیدہ
آگ کو دیکھایا ہوا وہ بال جو پیچیدہ ( آنکھ کی شکل کا ہوجائے ) ہوجائے

حلقہ
دائرہ، گھیرا، مجلس، ضلع

زنجیر
لڑی سلسہ، دروازے کی کنڈی


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1 ۔ ( الف ) غالب، میں قید بھی میں بےچین ہوں۔
( ب ) غالب، اگرچہ میں قید میں ہوں مگر بےچین ہوں۔

مصرعہ نمبر 2 ۔( الف ) وہ بال ہے جس نےآگ دیکھی ہے میری زنجیر کی ایک کڑی ہے۔
( ب ) میری زنجیر کی ایک کڑی وہ بال ہے جس نےآگ دیکھی ہے۔


تبصرہ

1 ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم مجھےاس طرح مقید کردوگے؟ میرا آتشی جوش میری زنجیر کو ایک خاک کےدائرے میں تبدیل کردےگا۔
2 ۔ میں اپنے جوش و ولولہ سے میں اتنا جل چکا ہوں کہ موئے آتش دیدہ میں مجھے باندھ سکتے ہو۔


لفظی و معنوی خوبیاں

حسنِ تعلیل
کسی چیز کے وقوع کے لیے ایسی وجہ بیان کی جائے جو حقیقت پر مبنی نہ ہو۔ لیکن شاعر ایسے انداز میں پیش کرے کہ حقیقت معلوم ہو۔

موئے آتش دیدہ ایک بال جس نے آگ دیکھی ہے، اگر آپ ایک جلتا ہوا بال دیکھیں تو وہ ایک دائرہ بن رہا ہوتا ہے - دوسرے مصرعہ میں غالب کی دلیل ” اگر یہ ہے تو وہ ہے“ اور ” اگر وہ ہے تو یہ ہے“ قابل تعریف ہے

بسکہ
پہلے مصرصہ میں بسکہ کا استعمال ( اگرچہ ، اس حد تک، جب سے ) ذومعنی ہے۔

 
Top