ردائف س تا گ - غزلیں 88 تا 97

تفسیر

محفلین
.
صفحہ اول​


فہرست تبصرہ غزلیات
ردائف س تا گ - غزلیں 88 تا 97



88 ۔ مُژدہ ، اے ذَوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
89 ۔ اے اسد ہم خود اسیرِ رنگ و بوئے باغ ہیں
ش
90 ۔ نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
ر
91 ۔جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
92 ۔ رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
75 ۔کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
ف
93 ۔ بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
94 زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
95۔ آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
96۔ دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک
گ
97 ۔ گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت ، دُعا نہ مانگ


صفحہ اول​


ردیف الف - غزل 1 تا 15

ردیف الف ۔ غزل 16 تا 30

ردیف الف ۔ غزل 31 تا 45

ردیف الف ۔ غزل 46 تا 60

ردیف ب تا چ - غزل 61 تا 69

ردیف د تا ز - غزل 70 تا 87

ردیف س تا گ - غزل 88 تا 97

ردیف ل تا م - غزل 98 تا 102

ردیف ن حصہ اول - غزل103 تا 118

ردیف ن حصہ دوئم - غزل 119 تا 131

ردیف ن حصہ سوئم - غزل 132 تا 142

ردیف و - غزل 143 تا 155

ردیف ھ - غزل 156 تا 160

ردیف ے اول - غزل 161 تا 175

ردیف ے دوئم - غزل 176 تا 190

ردیف ے سوئم - غزل 191 تا 205

ردیف ے چہارم - غزل 206 تا 220

ردیف ے پنجم- غزل221 تا 235

ردیف ے ششم ۔غزل 236 تا 250

ردیف ے ہفتم - غزل 251 تا 265

ردیف ے ہشتم - غزل 266 تا 274

.
 

تفسیر

محفلین
.
- 88 -
مُژدہ ، اے ذَوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
دامِ خالی ، قفَسِ مُرغِ گِرفتار کے پاس
جگرِ تشنۂ آزار ، تسلی نہ ہوا
جُوئے خُوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس
مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہَے ہَے!
خُوب وقت آئے تم اِس عاشقِ بیمار کے پاس
مَیں بھی رُک رُک کے نہ مرتا ، جو زباں کے بدلے
دشنہ اِک تیز سا ہوتا مِرے غمخوار کے پاس
دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے ، لیکن اے دل
نہ کھڑے ہوجیے خُوبانِ دل آزار کے پاس
دیکھ کر تجھ کو ، چمن بسکہ نُمو کرتا ہے
خُود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر غالب وحشی ، ہَے ہَے !
بیٹھنا اُس کا وہ ، آ کر ، تری دِیوار کے پاس​
.
 

تفسیر

محفلین
.
01 - 088​

مُژدہ ، اے ذوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
دامِ خالی ، قفَسِ مُرغِ گِرفتار کے پاس

فرہنگ

مُژدہ = خوش خبری، بشارت، مبارک باد، تہنیت
ذوق = مزہ، لطف، شوق، خوشی
اسیری = قید، گرفتار
نظر = بغور دیکھنا، نگاہ، آنکھ، بصارت، غور، تامل، نگرانی، تمیز، امید، توجہ، معاینہ، بھوت پریت کا اثر
داغ = دھبا، نشان ، عیب، کلنک کا ٹیکہ، غم، حسد ، عیب،
دام = جال ، پھندا، قیمت
خالی = جو بھرا نہ ہو، کھوکھلا، تہی، صرف، محض، اکیلا، تنہا، بے کار، نکمّا، بے روزگار، سُنا، غیرمقبوضہ غیرآباد، فارغ، بےمشغلہ، غیر موثر، بے اثر، عاری ، مبّرا
قفَس = پنجرا، جال، پھندا ، مجازا قالب، خاکی ، جسم، اس معنی میں قفس عنصری
مُرغ = پرند، اُڑنے والا جانور، مرغا، خروس
گرفتار = پکڑا ہوا، قیدی، اسیر، پھنسا ہوا، عاشق، فریفتہ
پاس = قریب، نزدیک، قابو میں قبضے میں، تصرف میں، ملکیت میں


غالب کہتے ہیں :

مبارک ہو، خوشی کی بات ہے کہ وہ جال خالی ہے جو بند کے ہوے پرندے ( چارہ ) کے نزدیک ( جنگلی پرندوں کو پکڑنے کے لئے ) رکھا تھا۔

تبصرہ

خوشی کی بات ہے کہ شکار، شکاری کی چال میں نہیں پھنسا۔
جنگلی پرندوں کو بلانے کے لے اں کو جھانسا دیا جاتا ہے۔ جال کو ایک پنجرے کے نزدیک رکھا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کے جنگلی پرندہ چارہ کھانے کے لئے آئےگا اور وہ جال میں پھنس جائےگا۔ برخلاف پرندے کہ جو اس جال سے دور رہتا ہے عاشق ہمشہ اپنے جذبہ کے جوش میں ایسے ہی موقع کہ تلاش میں رہتا ۔ اور موقع ملنے پر ا پنےآپ کو اسیری کے لیے پیش کردتا ہے۔


شاعری کی اصطلاحات

صییاد
شکاری ( صییاد) ، مجازاً معشوق اپنے عاشق ( صید = شکار ) کی تلاش میں۔


.
 

تفسیر

محفلین
.
02 - 088​

جگرِ تشنۂ آزار، تسلی نہ ہوا
جُوئے خُوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس

فرہنگ

جگر = کلیجہ، جان، طاقت، حقیقت، معشوق، بیٹا، یار
تشنۂ = پیاس، شدّت آرزو
آزار = بیماری، دکھ، مرض، تکلیف، سختی، بپتا، جنجال، بکھیڑا
تَسلّی = دلاسا، خاطر، جمع ، تسکین
جوئے = ندی یا نہر
خُون = لہو، قتل، نسل، وہ سرخ رطوبت جوحیوانی جسم گردش کرکے اسے زندہ رکھتی ہے،
بہائی = پانی کی رو میں ڈالنا
بُن = جڑ، بنیاد، سرا، نوک
خار = کانٹا، پھانس، مُرغ کے پاؤں کا کانٹا جو ٹخنے کے اوپر ہوتا ہے، حسد، رشک، جلن، ڈاڑھی کے سخت بال
پاس = قریب، نزدیک، قابو میں قبضے میں، تصرف میں ، ملکیت میں


غالب کہتے ہیں :

ہم نے ہر کانٹے کے نزدیک خون کی ندی بہادی مگرجگر کی بیماری کی پیاس نہ بُجھی۔

تبصرہ


بیابان کی خانہ بدوشی میں کانٹوں نےتلوں کو زخمی کردیا اور ان زخموں سے خون کی ندیاں بہہ گئ ہیں۔
یا
جب کانٹے تلوں میں سے نہ نکلے تو خون نہ صرف ان پاؤں کے تلوں سے بہا بلکہ تکلیف کی شدت نے خود بھی بھایا۔
اگر ازروئے منطق پہلی سطر کو ’ اول‘ سمجھیں
“ جتنی تکلیف جگری آرزو کے مطابق فکرمند عاشق کو دکھ سے پہنچنی چاہیے اتنی تکلیف اُسے نہیں ہوئ کیونکہ عاشق کی یہ آرزو ابھی پوری نہیں ہوی لہذا عاشق نے ہر کانٹے کے نزدیک خون کی ندی بہا دی۔
اگر دوسری سطر کو ’ اول‘ سمجھیں تو ہر کانٹے کے نزدیک عاشق خون کی ندی بہاچکا ہے۔ لیکن یہ سب ہونے کہ باوجود بھی جگرخوش نہیں ہے۔
’ تسلی نہ ہوا ‘ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ’ تسلّی پانے والا نہ ہوا‘ ہے۔



شاعری کی اصطلاحات

شاعری کی عضویات میں جگر کا کام تازہ خون بنانا ہے۔ جگر کو برداشت، بردباری، صبر، تحمل، ثابت قدمی، قائم مزاجی اور استقلال کی علامت سمجھا جاتا ہے
غاالب نے ’جگر‘ کو کم از کم چھتیس اشعار میں استعمال کیا ہے ۔
خونِ جگر، دل تا جگر، لذّتِ ریشِ جگر، جگر کے پار، جگر داری ، دل سے جگر جدا، دل جگر تشنہ ، جگر یاد آیا، داغِ جگر، جگر تشہ ناز، جگر خوں نابہ مشرب، زخمِ جگر، مے خانہ جگر، جگرِ تشنہ آزار، طاقت جگر، جگر خراش، پیٹوں جگر، جگر کو کھودنا، پارہ جگر، لختِ جگر، دل و جگر میں، جگر ریشہ دوانی، منہ نہ لگایا ہو جگر

شاعرانہ خیال
بیابان کی خانہ بدوشی، عاشق کا پیشہ ہے

.
 

تفسیر

محفلین
.
03 - 088​

مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہَے ہَے!
خُوب وقت آئے تم اِس عاشقِ بیمار کے پاس

فرہنگ

مُند = موندنا کا مخفف ، بند کرنا، ڈھانپنا ، معمور کرنا
کھولتے( کھولنا) = کسی بند چیز کا وا کرنا، ظاہر کرنا، بھانڈا پھوڑنا، اُدھیڑنا، آذاد کرنا، ننگا کرنا، سلجھانا، حل کرنا، قفل کو زنجیر سے دور کرنا
آنکھیں = آنکھ کی جمع، نین، دیدہ، چشم، نظر، اشارہ، توجہ، امتیاز، واقفیت، اولاد، اندازہ، اُمید، مروت
خُوب = اچھا، عمدہ، خوبصورت، نفیس، زیبا، ہردلعزیز، ہاں ( جواب میں کہا جاتا )، عمدہ کلام کی تعریف میں بھی کہتےہیں ، طنزاً بھی کہا جاتا ہے
وقت = گھڑی، ساعت، دم، عرصہ، مُدّت، میعاد، زمانہ، موقع، موسم، فصل، فرصت، عمر، موت کی گھڑی، مصیبت
عاشِق = چاہنےوالا، محبت کرنےوالا، طالب، فریفتہ، پسند کرنےوالا، عارف، کامل، بےفکرا، بےپروا، غافل، مدہوش، وہ پرزہ جوگھنڈی کی طرح گلےمیں ڈالا جاتا ہے
بیمار = مریض، روگی، عاشق
پاس = قریب، نزدیک، قابو میں قبضےمیں، تصرف میں، ملکیت میں


غالب کہتے ہیں :

اے معشوق، افسوس کہ تم عاشقِ بیمار کے پاس دیر سے آئے جب عاشق نے آنکھوں کو کُھولنے کی کوشش کی وہ مکمل بند ہوگیں۔

تبصرہ

عاشق بہت ہی کمزور ہے جب وہ اپنے محبوب کی خوبصورتی کی جھلک دیکھنے کیلئے آنکھیں کُھولتا ہے تو اسکی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں یعنی اس کی موت ہوجاتی ہے۔

شاعری کی اصطلاحات

’ کھولتے ہی کھولتے‘ انتظار کی کیفیت بتاتی ہے
.
 

تفسیر

محفلین
.
04 - 088​

میں بھی رُک رُک کے نہ مرتا ، جو زباں کے بدلے
دشنہ اِک تیز سا ہوتا مِرے غمخوار کے پاس

فرہنگ

رُک رُک کر = گھٹ گھٹ کر، ٹھہر ٹھہر کر، لکنت سے ہکلا کر
مرتا = مرنا، انتقال کرنا، وفات پانا، دم نکلنا، دنیا سےگزرنا، عاشق ہونا، لہو پانی ایک کرنا
زَبان = جیبھ، لِسان، بول ثال، نطق، اقرار، بیان
بدلے ( بدل ) = عوض، معاوضہ، اُجرت
دشنہ = خنجر، کٹاری
اِک = ایک کا مخفف ، ایک
تیز = دھار وار، تلخ ، چالاک، بدمزاج، مضبوط، شدید، گالب، گرم، سرگرم، شریر، زخم یا آنکھ میں لکنے والا، جوشیلا
غم خوار = دکھ درد کا شریک، ہمدرد
پاس = قریب، نزدیک، قابو میں قبضے میں، تصرف میں، ملکیت میں


غالب کہتے ہیں :

اگر تیز زبانی کےبجائے میرا غم خوار ایک تیز دھار خنجر استعمال کرتا تو میری جان ایک دم نکل جاتی اور اس طرح رُک رُک کےنہ نکلتی

تبصرہ

غم خوار کےالزام، سزنش، ملامت، طعن، سخت سست باتیں اور جھڑکیاں ایک کند آلہ کی طرح ہیں جس سے اس نے مجھےمارا۔ اگر میری جان ہی لینی تھی تو مجھے تیز خنجر سے مارتا تا کہ میری موت فوری واقع ہوتی ۔
.
 

تفسیر

محفلین
.
05 - 088​

دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے، لیکن اے دل
نہ کھڑے ہوجیے خُوبانِ دل آزار کے پاس

فرہنگ

دَہَنِ = مُنہ
شیر = ایک جنگلی جانور، بہادر۔ شجاع۔ نڈر
دل = ایک اندرونی عُضوجس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، حوصلہ، جرات، خواہش، توجہ،
خُوبانِ = خوب کی جمع، خوبصورت، حیسن، خوبصورت عورتیں
آزار = بیماری، دکھ، مرض، تکلیف، سختی، بپتا، جنجال، بکھیڑا
پاس = قریب، نزدیک، قابو میں قبضے میں، تصرف میں، ملکیت میں


غالب کہتے ہیں :

ظالم، اذیت رساں خوبصورت معشوق جوتیرا دل کودکھ دیتی ہے کے پاس جانے کے بجائے ایک شیر کے منہ میں بیٹھ جا۔

تبصرہ

ایک ظالم، اذیت رساں اور خوبصورت معشوق کو دل دینے سے بہتر ہے کہ ایک شیر کے منہ کا نوالا بن جاؤ۔
دَہَنِ شیر ’ بیٹھنے‘ اور خُوبانِ دل آزار کے پاس’ کھڑ ے ‘ ہونے تضاد ہے۔


شاعری کی اصطلاحات :

تضاد
کلام کی معنوی خوبی ۔ مثال ” نکلا“ اور ” نہ نکلا“ میں تضاد ہے۔ یا ” اچھا“ اور ” بُرا“ ۔
تضاد ایجابی ۔ الفاظ متضاد کے ساتھ حرف نفی نہ ہو جسے باپ بیٹا، اِدھر اُدھر، اچھا بُرا، کرم ستم۔
تضاد سلبی ۔ الفاظ متضاد کےساتھ حرف نفی ہو جیسے رہنےنہ رہنے، سمجھا نہ سمجھا۔

.
 

تفسیر

محفلین
.
06 - 088​

دیکھ کرتجھ کو، چمن بسکہ نُمو کرتا ہے
خُود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس

فرہنگ

چمن = وہ جگہ جہاں سبزہ پھول وغیرہ بوئیں، باغ کے قطعات، گلزار، پھلواری
بسکہ = چونکہ، القصہ ، حاصلِ کلام ، غرض
نُمو = بالیدگی، روءدگی، بڑھنے پُھولنے کی قوت
نمو کرنا = محاورہ، ظاہر داری کرنا، دھوم دھام کرنا، نمائش کرنا، ایسی بات کرنا جس سے لوگوں میں شہرت ہو، شہرے حاصل کرنا۔
خُود بخود = آپ ہی آپ، از خود، بے کہے
گُل = پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق
گوشہ = کنارہ ، خلوت، تنہای، کنارہ، تخلیہ، طرف، جانب، کمان کا سرا
دَستار = پگڑی کا سجاوٹی کپڑا، پگڑی، عمامہ ، پھنیٹا، چیرا
پاس = قریب، نزدیک، قابو میں قبضے میں، تصرف میں ، ملکیت میں


غالب کہتے ہیں :

تجھ کو دیکھ کر باغ میں پھول کِھل کرتیری پگڑی کے کپڑے تک پہنچ جاتا ہے۔

تبصرہ

اے معشوق جب تو باغ میں جاتی ہے تو پھول میں نمو آجاتی ہے کہ وہ اپنی خوشی اور طاقت سے تیرے عمامہ کی طرف جاتا ہے۔ یعنی معشوق کر دیکھ کر عاشقوں کا دل بے چین ہوجاتا ہے۔
بسکہ ( اگرچہ) تجھے دیکھ کر پورے باغ کی بالیدگی میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے مگرگلاب خود بخود شوق و ولولہ سے تیری دستار کی سجاوٹ بنے کے لیے بڑھتاہے۔
بسکہ ( اس حد تک ) - تجھے دیکھ کر باغ کی بلیدگی میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس حد تک کہ وہ بغیر جالی، جھنجھری، جعفری کی مدد کےسر ( جہاں پگڑی ہے ) کی اونچائ کے برابر پہونچ جاتاہے۔


شاعری کی اصطلاحات

غالب کے کسی بھی شعر کو سمچھنے کا پہلا قدم اُن کے ایک جسے شعرکا مطالحہ ایک دوسرے کی روشنی میں کیا جائے۔ اس مطالحہ کو دو گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ایک - اردو گرامر ، الفاظ کی بناوٹ ، اور ادبی اختراع و خیال
دو - شاعرانہ تصور (image) ( جسے جگر ، دل، شیشہ)، موضوع ( بغیر منہ کی محبوبہ )


شاعرانہ خیال لاحات

معشوق
غزل کی دنیا میں مخزن انوار، منبع نور، مادہ، خرانہ اور اصل زندگی ہے۔
دَستار
پگڑی کا سجاوٹی کپڑا۔ غالب کے زمانے میں سولہ ، سترہ سال کےخوبصورت لڑکوں کو بھی معشوق کہا جاتا تھا۔ لڑکے پگڑی پہنتےتھے۔ اس وجہ سےلفظ دَستار کا استعمال۔
نمو کردن ( فارسی میں ) کےمعنی زیادہ وسیع ہیں اردو کےنمو کرنا (پانا) سے
بسکہ
’ پہنچ ‘ کےمعئ میں استعمال ہوا ہے۔

.
 

تفسیر

محفلین
.
07 - 088​

مرگیا پھوڑ کےسر غالب وحشی ، ہَے ہَے !
بیٹھنا اُس کا وہ ، آ کر، تری دِیوار کے پاس

فرہنگ

مر = مرنا، انتقال کرنا، وفات پانا، دم نکلنا، دنیا سےگزرنا، عاشق ہونا، لہو پانی ایک
پھوڑ ( پھوڑنا) = توڑنا ، ٹکڑے کرنا، ظاہر کرنا
سر = کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصہ، ابتداء، دماغ، زور، عنوان، عشق، خیال، خلاصہ، سردار
غالب = اسد االلہ خان کا وہ مختصرنام (تخلص) جو وہ اشعار میں استعمال کرتے ہیں
وحشی = جسے انسانوں سے وحشت ہوتی ہے، غیرمانوس، بھڑکنے والا، صحرائی، جنگلی، غیرمہذب، ناراشیدہ، اجڈّ
ہَے ہَے = ہائے ہائے، افسوس
دیوار = اوٹ، پردہ، پختہ پردہ، مکان یا چہار دیواری کا ایک پہلو، حد، رکاوٹ
پاس = قریب، نزدیک، قابو میں قبضے میں، تصرف میں، ملکیت میں


غالب کہتے ہیں :

افسوس کہ ( وہ ) وحشی غالب جو تیری دیوار کے پاس بیٹھتا تھا اپنا سر پھوڑ کر مرگیا۔

تبصرہ

افسوس کہ وہ وحشی غالب جو تیری دیوار کے پاس بیٹھتا تھا اپنا سر پھوڑ کر مرگیا۔
’ وہ ‘ کا استعمال انشائیہ ہے۔ یعنی معشوق کو پتہ ہے کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔ ’ اگر‘ اس بات کی شناخت کرتا ہے کہ ہم عاشق کی بات کر رہے ہیں ۔ دیوار کے پاس آکر بیٹھنا صرف ’ تفصیل‘ ہے۔
دوسر ی سطر میں ‘ یاد آتا ہے ‘ کی کمی ہے۔ یاد آتا ہے کے محذوف ہونےسےاس مقطع کی خوبصورتی بڑھتی ہے۔


شاعری کی اصطلاحات

مقطع۔
لفظاً اس کا مطلب “ جہاں کاٹا جائے“ ۔ غزل کا آخری یا آخری سے پہلا شعر جس میں شاعر کا تخلص ہو، خاص طور پر قطعہ کے شروع میں۔
انشا اور خبر
انشا شاعری کا دل ہے ۔ جو بات جو جھٹلائ نہ جا سکے عموماً یہ سوالیہ، متحیرایہ ، ندائیہ ، شرطیہ ، بالفرضہ میں پیش کی جاتی ہے۔ یہ خبر کا تضاد ہے۔
محذوف
بعض دفعہ شاعر جان کر مخصوص لفظ یا الفاط حذف کردیتا ہے۔ اس سے شعر کی خوب صورتی دو بالا ہوجاتی ہے۔ پڑھنے والے کے ذہن میں حذف خود بخود آجاتا ہے۔

.
 

تفسیر

محفلین
.

- 090 -
نہ لیوے گر خسِ جوہر طراوت سبزہ خط سے
لگاوے خانہ آئینہ میں روئے نگار آتش
فروغِ حسن سے ہوتی ہے حلِّ مشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پا سے نکالے گر نہ خار آتش​
.
 

تفسیر

محفلین
.
پہلا شعر​

نہ لیوےگر خسِ جوہرطراوت سبزہ خط سے
لگاوے خانہ آئینہ میں روئے نگار آتش

فرہنگ

لیوا = لے ( پرانی زبان)،، لینے والا، محصل ، گائے بھینس یا بکری کا تھن، ہانڈی کے پیندے پر چڑھانے والی مٹی
گر = اگر
خس = سوکھی گھاس، کوڑا کرکٹ، پھوس، خاشاک، ایک خاص قسم کی خوشبودارگھاس کی جڑ جوگرمی کےموسم میں ٹٹیاں بنانے کے کام آتی ہے۔ جنہیں دروازے پر لگا کر پانی چھڑک دیتے ہیں
جُوہر = قیمتی پتھر، خلاصہ، لب لباب، وہ چیز جو بذات خود قائم ہو، خاصیت، ہنر،
طَرَاوَت = نمی، تری، رظوبت، ٹھنڈک، خنکی، تازگی
سبزہ = روئیدگی، نباتات، زمّرد، پنّا، ہریال، شادابی، تازگی، کان کا اتک زیور، نیی سبزی جو ڈاڑھی مونچوں کے نئے بال نکلنے سے پہلےمرد کے چہرے پر نمودار ہوتی ہے۔
خط = نوشہ، تحریر، لکیر، نشان، نامہ ، مکتوب، نیا سبزہ جو کہ مرد کے چہرے پر آتا ہے، ہاتھ کا لکھا۔
لگاوے = لگائے ، لگاوے ( پرانی زبان)
خانہ = گھر، مکان، بیت، کبوتروں یا مرغیوں کا ڈربہ، آشیانہ، صندوقچہ کے اندر کا حصہ ، شطرنج کی بساط کا ایک حصہ، پیٹ، شکم، انگوٹھی میں وہ جگہ جہاں نگینہ رکھتے ہیں۔
آئینہ = منہ دیکھانے کا ششہ ، درپن، حیران، ششدر، روشن، ظاہر، صاف ، اُجلا
رُوئے = دیکھیے رُو ، چہرہ
نگار = تصویر، بُت، خوبصورت، ،عشوق، محبوب، وہ شکل جو عورتیں اپنے ہاتھ پر مہندی سے بناتی ہیں، زیبائش ، آرائش، زینت
آتش = آگ


غالب کہتے ہیں :

حسین نوجوان کی ڈاڑھی مونچوں کے نئے بال (سبزہ) کی تازگی سے آئینہ کونمی اور ٹھنڈک ملی ورنہ اس کا حسین چہرہ ششہ میں آگ لگا دیتا۔

تبصرہ

اس شعر میں عکس کا ششہ ہرگرنا اور آگ کا شروع ہونا دونوں صورتوں میں مشابہت ‘حرکت ‘ کی وجہ سے ہے۔ یہ تشبیہ بدیع ہے۔ کیونکہ مشابہت اس میں شائستہ اور فصیح ہے۔
“حسین جوان کے ڈاڑھی مونچوں کے نئے بال (سبزہ) کی تازگی سے آئینہ کو نمی اور ٹھنڈک ملی ورنہ اس کا حسین چہرہ ششہ میں آگ لگا دیتا“۔
غالب نے خوبصورتی کے بیان میں مبالغہ سے کام لیا ہے۔
الفاظ ‘ لیوے اور لگاوے ‘ پرانی زبان کے ہیں ان ہم ‘ لے اور لگاے ‘ استعمال کرتے ہیں۔

.
 

تفسیر

محفلین
.
دوسرا شعر​

فروغِ حسن سے ہوتی ہے حلِّ مشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پا سے نکالےگر نہ خار آتش

فرہنگ

فروغ = روشنی، نور، چمک، دمک، رونق
حُسن = خوبی، خوبصورت
حَلّ = کھولنا، عقدہ کشائ، انکشاف، مشکل کام کو آسان کرنا، سلجھاؤ ، تحلیل ہونا، حساب کے سوال کا عمل
مُشکِل = دشوار، کٹھن، سخت، پیچیدہ، اُلجھاہوا، دشواری، سختی، مصیبت، دقت
عاشِق = چاہنے والا، محبت کرنے والا، طالب، فریفتہ، پسند کرنے والا، عارف، کامل، بے فکرا، بے پروا، غافل، مدہوش، وہ پرزہ جو گھنڈی کی طرح گلے میں ڈالا جاتا ہے۔
شمع = موم بتی، چربی کی بتی، موم بتی کی چربی
پا = پاؤں، قدم ، پیر ،نیچے، قدرت، بنیاد
گر = اگر
خار = کانٹا، پھانس، مُرغ کے پاؤں کا کانٹا جو ٹخنے کے اوپر ہوتا ہے۔
آتش = آگ


غالب کہتے ہیں :

جب تک آگ ، فِتیلہ ( چراغ کی بتی ) کو نہیں جلاتی ہے تو وہ شمع سے باہرنہیں نکلتا ہے۔ اس طرح حسن کی چمک دمک سےعاشق کی مشکل دور ہوتی ہے۔

تبصرہ

جب تک آگ ، فِتیلہ ( چراغ کی بتی ) کونہیں جلاتی ہے تو وہ شمع سے باہرنہیں نکلتا ہے۔ اس طرح حسن کی چمک دمک سےعاشق کی مشکل دور ہوتی ہے۔ مراداً
حسن کی چمک دمک سےعاشق کی اذیت شروع ہوتی ہے۔ یہ شعلہِ حسن نہ صرف اسکی خوشی اور غم دونوں کا سبب ہے بلکہ اس کی مشکل کا حل بھی ہے۔


کنایہ
مبہم بات، مجازا استعارہ ، مراداً ، ضمناً ، اشاراً ، در پردہ
ربط
تناسب اور ترصیع
 

تفسیر

محفلین
.
شعر​

جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
چرخ وا کرتا ہے ماہِ نو سے آغوشِ وداع

فرہنگ

جادۂ = راستہ ، راہ ، سڑک ، پگڈنڈی، طریقہ، رواج، رسم
رہ = راہ کا مخفف ، راستہ
خُور = خورشید کا مخفف ہے، سورج، گرگٹ، مشرق، ہر شمسی ایرانی مہینے کا گیارہواں دن
وقت = گھڑی، ساعت، دم، عرصہ، مدّت، میعاد، وقفہ، زمانہ، عہد، دور، باری، نوبت، حالت، عمر، موت کی گھڑی، مصیبت، دشواری
شام = سورج ڈوبنے کا وقت، غروب آفتاب ، بحیرہ روم کے کنارے ایک ملک
تار = تاگا، دھاگا، کس دھات وغیرہ کا لمبا اورگول دورا، تانا بانا، سلسلہ، ریزہ، پارہ، قوام کا چیپ، فائل، خطوط پرونے کا تار، تار برقی، وہ خبر جو تار کے ذریعے آئے، اندھیرا، باولہ ، چھلا
شعاع = کرن ، روشنی، چمک
چرخ = آسمان، کنوئیں یا پن چکی کا پہیّا، کمہار کا چاک، خراد،گردش، چکر، گردش کرنے والی چیز، وہآلہ جس پر ظروف کو چڑھا کر صاف کرتے ہیں، وہ لکڑی جس پر اُونی کپڑے کو چڑھاتے ہیں، ایک سفید رنگ کا باز، لگڑ بگڑ، کھیچی ہوئ کمان
ماہ = چاند، قمر ، ماہ تاب، چندر مان ، مہینا، ماس
نو = نیا، جدید، تازہ، ابھی کا
آغوش = گود، بغل، کنار
وداع = رخصت، روانگی، دلہن کی رخصتی کی رسم یا تقریب


غالب کہتے ہیں :

شام کوسورج مشر ق کا سفر کرتا ہے اسکی راہ کرن کا تار ہے۔ آسمان کُھل کر نیے چاندکواپنی آغوش میں لے لیتا ہے اسطرح سورج کی رخصتی ہوتی ہے۔

تبصرہ

سورج غروب ہونے کی وقت آسماں پر ایک سفید لائن بن جاتی ہے۔اور اس موقع پر چاند اُبھرتا ہے۔ غالب اس چمک دار لائن کو سورج کے رخصتی کی راہ کہتے ہیں۔
اس شعر میں حسن تعلیل ہے۔ سورج غروب ہونے پر سفیدی اور نئے چاند کا نکلنا۔ اور اس وقت ایک مسافر ( سورج) اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ اور اسکا “ آغوش وداع“ ہوتا ہے۔
بعض تبصرہ نگار اس شعر میں تعریف، مقصد اور معنی آفرینی دیکھ کر اس کو قصیدہ کا پہلا شعر قرار دیتےہیں۔

شاعری کی اصطلاحات

حسن تعلیل
کس چیز کے وقوع کے لیے ایسی وجہ بیان کی جائے جو حقیقت پر مبنی نہ ہو۔ لیکن شاعر ایسے انداز میں پیش کرے کہ حقیقت معلوم ہو۔

معنی آفرینی
ایک بات میں کئی معنی چُھپے ہوں۔ غالب کےا شعار زیادہ تر ذو معنی ہوتے ہیں۔

قصیدہ
لغوی معنی موٹے اور گاڑے مغز کے ہیں۔ قصدہ اُس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی تعریف یا ہجو ہو یا نصیت یا شکایت روزگار کی جائے۔ ساخت کےلحاظ سےقصدے اور غزل میں صرف تعداد اشعار کا فرق ہے۔ قصدے میں کم ازکم پندرہ بیس اشعار سے لے کر سو دو سو بلکہ اس سے بھی زیادہ تعداد اشعار ہوسکتی ہے۔
 

تفسیر

محفلین
.
-93-
بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار ، حیف !
جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِک بار جل گئے
اے ناتمامیِ نَفَسِ شعلہ بار حیف !​
.
 

تفسیر

محفلین
.
پہلا شعر​

بیم رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار ، حیف !

فرہنگ

بیم = خوف ، خطرہ ، اندیشہ، ڈر
رَقِیب = ایک معشوق کے عاشقوں میں سے کوئ ایک ، حریف، ہم پیشہ ، نگہبان ، پاسبان، محافظ، خُدا کا یک صفاتی نام
وداع = رخصت، روانگی، دلہن کی رخصتی کی رسم یا تقریب
ہوش = عقل، دانش، دانائ ، فہم، سمجھ، شعور، خبر، واقفیت، آگاہی، سُدھ، روح، دل، جان، حواس، حس، یاد
مجبور = ناچار، تنگ، بے بس
تلک = تک
اختیار = چھانٹنا، پسند کرنا، قبول ، منظور، اجازت، جائز، قابو، قبضہ، حکومت، حق منصب
حیف = درئع، افسوس، ہائے، ظلم و ستم، جبر، تعدی


غالب کہتے ہیں :

ہائے ہماری یہ مجبوری یہاں تک پہونچی کہ ہم حریف کی خوف سے اپنے کو بےہوش نہیں ہونے دیتی۔

تبصرہ

میرا دل چاہتا ہے کہ میں ہوش کھودوں مگر مجھے یہ خوف ہے کہ اس بے ہوشی میں شاید رقیب کو میرے جذبہ اور ولولہ عشق کا راز پتہ چل جائے گا۔ بیم میں دوسرے الفظ مثلا ‘ ڈر‘ سے زیادہ خوفیت ہے۔ اسلئے یہاں ‘ وداعِ ہوش ‘ کا استعمال ہے۔یہاں اس کی خوف کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں ؛
میرے بے ہوش (ایک بےلحاظ لغزش) ہونےسے یا تو میرے معشوق کو غصہ آئےگا یا رقیب اس موقع کو میرے خلاف استعمال کر لےگا اور معشوق کےقریب ہو جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عاشق بےہوش کیوں ہونا چاہتا ہے؟ خوبصورت معشوق کی قربت سے ؟ یا محبوب بخودی کی حالت میں اپنے خدا کے لیے ۔
‘ اے اختیار حیف‘ انشائیہ ہے، جسے کے کئی مطلب ہیں
آخ کل کہ شاعروں نے‘ تلک ‘ کا استعمال ختم کردیا ہے۔
دوسری سطر میں غالب نے ‘دو تضادال معنی لفظوں‘ کو ملا کر صنعتِ تضاد پیدا کی ہے۔ مجبور (جبر - زبردستی مرضی کے خلاف) اور اختیار ( منظوری - حق منصب) میں تضاد ہے۔

شاعری کی اصطلاحات

رقیب
ایک معشوق کے عاشقوں میں سے کوئ ایک جو معشوق کی توجہ چاہتا ہے لیکن معشوق کا عاشقِ حقیقی نہیں صرف عاشق کا ہم پیشہ ہے

صنعت تضاد

انشائیہ

.
 

تفسیر

محفلین
.
آخری شعر​

جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِک بار جل گئے
اے ناتمامیِ نَفَسِ شعلہ بار حیف !

فرہنگ

جلنا = آگ لگنا ، آگ سُلگنا، بُننا، داغ لھنا، رشک حسد کرنا، سوزش یا جلن ہونا، ناراض یا غصہ ہونا، روش ہونا، مشتعل ہونا۔ پودوں کا سوکھ جانا
دل = ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے۔ قلب۔ حوصلہ۔ جرات ۔ خواہش۔ توجہ۔
بار = مرتبہ، دفع، نوبت، گھر کے ساتھ بطور تابع بمعنی اہل و عیال، عرصہ ، دیر، ہفتہ کا دن، شنبہ
ناتمام = نامکمل، اِدھورا، ناقص
نَفَس = سانس ، دم، گھڑی، ساعت، لحطہ، وقیقہ
حیف = درئع، افسوس، ہائے، ظلم و ستم، جبر، تعدی


غالب کہتے ہیں :

ہائے افسوس یہ ادھورا شعلہ۔ میرا دل ( بار بار رشک حسد کرنا، سوزش یا جلن ہونا) اُس شعلہ نے میرادل ایک بار میں ہی کیوں نہ جلادیا؟

تبصرہ

ہرسانس میرے دل کی آگ سلگاتا ہے مگر آگ بجھ جاتی ہے ۔ یہ آگ ایک دفعہ بھڑک کر میرے دل کا مکمل طور پر کیوں نہیں جلادیتی۔
کیونکہ جلنا کئی بار ہورہا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم ہزار ہا موت مررہے ہیں۔
جلنا ایک دم نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی مقدار میں ہے۔ ہم کو تکلیف دیتے ہوئے مارا جارا ہے۔
جلانے کا کو اختتام نہیں، بار بار جلاتے ہیں۔ تو موت کی خواہش بھی بڑھتی جارہی ہے۔

.
 

تفسیر

محفلین
.
-97-
گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت ، دُعا نہ مانگ
یعنی، بغیر یک دلِ بے مُدعا نہ مانگ
آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد
مُجھ سے مرے گُنہ کا حساب ، اے خدا! نہ مانگ​
.
 

تفسیر

محفلین
.
پہلا شعر​

گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت ، دُعا نہ مانگ
یعنی، بغیر یک دلِ بے مُدعا نہ مانگ

فرہنگ

یقین = اعتبار، اعتماد، بھروسہ، اطمینان، گمان، بےشبہ ۔ بلاشک، ضرور
اجابت = جواب دینا، قبولِدُعا، مقبولیّت، رفع حاجت
یقینِ اجابت = قبول ہونے کا یقین
دُعا = خدا سے مانگنا، التجا، التماس، استدعا، دُعا کی عبادت، مناجات، مغفرت کی طلب، کسی کی بہتری کی خواہش، مراد، سلام، مبارک، اشرباد
مانگ = مدعا، مطلب، خواہش، مدنظر،۔ غرض،۔ ضرورت، حاجت، مانگ
یعنی = مراد یہ ہے، مطلب یہ ہے۔ کیونکہ۔ اسلئے
بغیر = سوا کے
یک = ایک ، اکیلا، واحد، تنہا
دل = ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، حوصلہ، جرات ، خواہش، توجہ
بے = بغیر
مُدعا = مطلب ، مقصد،مراد، غرض، خواہش،ارادہ، مال ملکیت، مالِ مسروقہ


غالب کہتے ہیں :

اورتم کو یہ یقین ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوجائےگی تو پھر‌ “ اللہ مجھے ایسا دل ہے جس کو کسی چیز کی ضرورت نہ ہو“ کے سوا کوئ دوسری دُعا مت مانگو۔

تبصرہ

اگر تمہیں اپنی دُعا کے قبول ہونے کا یقین ہے ۔تو سواے ایسے دل کے لے جس کو کسی چیز کی ضرورت نہ ہو دُعا کرو اور کسی چیز کے لیے دُعا مت کرو ۔ یہاں بغیر کا استعمال ‘ سواے ‘ ہے۔ اور یقینِ اجابت کا مطلب “ قبول ہونے کا یقین“ لیا گیا ہے۔دوسرے الفاظ میں معمولی ، بے معنی، ادنیٰ ، بے وقعت ، روزمرہ دنیاوئ چیزوں کے لیے دعا مت مانگو۔
اگر تمہیں اللہ کی مرضی کے قبول کرنے کا یقین ہو۔ سواے ایسے دل کے لئے جس کو کسی چیز کی ضرورت نہ ہو دعا مانگو اور کسی چیز کے لیے دُعا مت کرو۔اگر ہم یقینِ اجابت کا مطلب “ اللہ کی مرضی کو قبول کرنے کا یقین ہو“ تو بھی اس شعر کا مطلب صحیح ہوتا ہے۔
اس شعر غالب کہ ان شعروں میں سے ہے جو لاحل“ معنی بنانے کی مشین “ ہیں۔

.
 

تفسیر

محفلین
.
آخری شعر​

آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد
مُجھ سے مرے گُنہ کا حساب ، اے خدا ! نہ مانگ

فرہنگ

آتا = آنے والا ، قرض
داغ = دھبا، نشان ، عیب، کلنک کا ٹیکہ، غم، حسد ، عیب،،
حسرت = افسوس، پشیمانی، آرزو، ارمان، شوق
دل = ایک اندرونی عُضو جس کا کام رگوں کو خون پہنچانا ہے، قلب، حوصلہ، جرات ، خواہش، توجہ،
شُمار = گنتی، تعداد، حساب، تخمینہ
یاد = ذہن ، خیال ، تسبیح ، یاداشت،
گُنہ = گناہ کا مخفف، جرم ، خطا ، قصور
حساب = گنتی ، شمار ، علم ریاضی کی ایک شاخ، نرخ، بھاؤ، قیمت، قاعدہ، لیں دین، میزان، جوڑ، کیفیت
خُدا = اللہ تعالٰے، مالک، آقا، حاکم


غالب کہتے ہیں :

اے اللہ جب تو مجھ سےمیرے گناہوں کا حساب مانگتا ہے تو مجھ میری اپنی آرزوں کا نہ پورا کا ہونے غم ہوتا ہے۔

تبصرہ

میرے گناہوں کی وجہ میرا “ زبردست جذبہ عشق اورچاہ“ ہے اس لئےجب تومیرے گناہوں کا ذکر کرتا ہے تو مجھےمیرے جذبہ عشق اور چاہ سے ملنے والے غم یاد آجاتے ہیں کیونکہ دونوں گنتی میں برابر ہیں۔
.
 
Top