رجال الغیب

پرسوں دنیا نیوز میں خورشید ندیم نے ایک کالم لکھا تھا جس میں رجال الغیب کے موضوع پر اس نے کچھ سوالات اٹھائے تھے۔ آج اوریا مقبول جان نے شائد اسی حوالے سے یہ کالم لکھا ہے۔
221409_44691633.jpg
 

نایاب

لائبریرین
اوریا مقبول جان صاحب کا کالم مدلل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خورشید ندیم صاحب کے سوالات کے مدلل جواب دیئے ۔
 
مجھے حیرت ہے کہ خورشید ندیم جیسے صاحبِ علم آدمی نے سورہ کہف اور قصہِ موسیٰ و خضر علیہمما السلام پر غور کیوں نہیں کیا۔
 

الشفاء

لائبریرین
بے شک اُس قادر مطلق نے اس کائنات میں افعال کو اسباب سے مربوط فرما دیا ہے۔ لیکن اس سے اُس کی قدرت کاملہ معطل نہیں ہوتی۔ جب وہ چاہتا ہے آگ جلانا چھوڑ دیتی ہے اور لوہا کاٹنا بند کر دیتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو آنکھ سننے لگے اور کان دیکھنے لگے۔۔۔
اور جب وہ چاہتا ہے اپنے کسی بندے کے ہاتھ پر بھی اپنی قدرت کا ظہور فرما دیتا ہے۔ کہ چاند دو ٹکڑے ہو جاتا ہے اور ڈوبا ہوا سورج واپس پلٹ آتا ہے۔ اور جب وہ چاہتا ہے اس کے کسی بندے کے پاؤں کی جوتیاں ہوا میں تیرتے جوگی کو زمین پر لے آتی ہیں۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔

وکل یوم ھو فی شان۔۔۔
 
دیکھیں تکوینی نظام اپنی جگہ ایک اتل حقیقت ہے اس سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن جو لوگ انکار کرتے ہیں تو وہ بھی حق بجانب ہیں۔ برسبیل تذکرہ ایک واقعہ کا تذکرہ کرتا چلوں کہ گو موضوع سے متعلقہ نہیں ہے لیکن کچھ لمس ضرور رکھتا ہے قریبا 1994 کی بات ہے بندہ بارہویں کلاس کا طالب علم تھا ایک دوست کے گھر بیٹھے تھے کہ اچانک بات حاضرات ارواح کے موضوع پر چھڑ گئی ایک دوست کہنے لگا کہ یہ سب گپ ہے نہ جانے کیوں میں نے اس محفل میں کہہ دیا کہ یہ گپ نہیں ہے یہ حقیقت ہے تو سب اصرار کرنے لگے کہ پھر نظارا کراؤ میں نے کہا کہ یار یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ پھر بعد میں حاضرات کرانے والے کو بہت زور ملتا ہے اور جس پر حاضرات کی جاتی ہے اس کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو وہ دوست جو کہ منکر تھا اس نے کہ اب بہانے نہ بناؤ اور کہنے لگا کہ یہ گوہ اور یہ میدان تم عامل میں معمول۔ بس مجھے طیش آگیا ہے اور میں نے اس پر حاضرات کرنے کی کوشش کی تو کچھ بھی نہ ہوا تو وہ ہنسنے لگا کہ بس یہی تمہاری حاضرات تھی مجھے اور طیش آگیا اور میں نے اس حاضرات کو کہا اس پر مسلط ہوجاؤ ۔۔۔۔۔ پھر دوسرے دوست پر حاضرات کیں تو حاضرات ہوگئیں اور ساری محفل کے سامنے حاضرات نے چھوٹی موٹی چیزیں ادھر ادھر کرکے اپنی مؤجودگی کا احساس دلایا ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حاضرات صرف لطیف اور حساس طبیعت والے بندوں پر فورا ہوجاتی ہے جیسے جن کا رائزنگ سائن کینسر ،سکارپیو اور پائسز ہو میرے اس دوست کا سائن بعد میں مجھے پتہ چلا کہ میزان ہے ایسا بندہ بہت سٹرکٹ ہوتا ہے بہرحال اگلے دن وہ دوست دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہورہا ہے میں نے کہا کہ کیا ہوا ہے تو کہنے لگا کہ میرا براز بند ہوگیا ہے اب کیا ہوگا میں نے کہا یہ کیس دوستوں کے سامنے رکھتے ہیں تو کہنے لگا یار مجھے مزید مت شرماؤ تم جو کہتے ہو مجھے قبول ہے تو میں نے کہا کہ مجھے کڑاہی کھلاؤ گے تو پھر معاملہ درست ہوگا اس نے حامی بھرلی تو میں نے اسی وقت بطریق مشہور حاضرات کو رخصت کردیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
شائد کچھ صحافی بھائی میرے تذبذب میں میری مدد فرمائیں گے، کیا باقی دنیا میں بھی مین سٹریم اخباروں میں مذہبی مضامین پر کالم لکھنے کا رواج ہے؟ اگر نہیں ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں ہے اور اس کی مدیران کیا منطق بیان کرتے ہیں؟
 
کالم نگار حضرات معاشرے کے حوالے سے مختلف ایشوز پر قلم اٹھاتے ہیں۔۔اور ہمارے معاشرے میں مذہب ایک بہت اہم اور بڑا ایشو ہے، چنانچہ کوئی حرج نہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
کالم نگار حضرات معاشرے کے حوالے سے مختلف ایشوز پر قلم اٹھاتے ہیں۔۔اور ہمارے معاشرے میں مذہب ایک بہت اہم اور بڑا ایشو ہے، چنانچہ کوئی حرج نہیں۔

لیکن اس کا تعلق کسی "خبر" سے ہو تو سمجھ بھی آتی ہے کیسے کہ اگر فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی کوئی واقعہ ہو گیا ہو یا پھر بہبود آبادی یا تعلیم کا ایشو ہو۔ لیکن خالص مذہبی موضوعات کا اخبارات (جو کہ خبروں کے لئے ہوتے ہیں) کیساتھ کیا تعلق ہے۔
اس مقصد کے لئے مذہبی کتب اور جرائد موجود ہیں۔ اور کیا یہ حضرات واقعی میں سمجھتے ہیں کہ مذہب جیسے پیچیدہ اورسنجیدہ موضوع پر یہ آدھے صفحے کے آرٹیکل میں کوئی بھی معقول بات لکھ پائیں گے؟
اور دوسری بات یہ کہ اگر مجھے مذہب پر معلومات درکار ہوں گی تو میں مذہب کے علماء کی کتب یا رسائل کا مطالعہ کروں گا نہ کہ کسی اخبار کے تراشے کا؟
 

حسان خان

لائبریرین
کالم نگار حضرات معاشرے کے حوالے سے مختلف ایشوز پر قلم اٹھاتے ہیں۔۔اور ہمارے معاشرے میں مذہب ایک بہت اہم اور بڑا ایشو ہے، چنانچہ کوئی حرج نہیں۔

متفق ہوں۔ لیکن محمود بھائی، ہمارے مذہب پر لکھنے والے اہلِ قلم اُن ٹھوس مسئلوں پر قلم کیوں نہیں اٹھاتے جنہیں ہم عام زندگی میں جھیلتے ہیں۔ اِن مذہبی اہلِ قلم کو تو فرقہ واریت، شدت پسندی، تعلیم کی کمی، اور اس جیسے کئی دیگر مسئلوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ ایک بہت مذہبی معاشرہ ہے، معاشرتی برائیوں کے خلاف مذہب کے تناظر میں لکھا جائے گا تو یقیناً اچھا اثر پڑے گا۔ لیکن اس کے بجائے رجال الغیب جیسے غیر ضروری اور غیر معاشرتی مسئلوں پر اخبارات میں کالم چھپنا تو سمجھ سے بالاتر ہے۔
 
متفق ہوں۔ لیکن محمود بھائی، ہمارے مذہب پر لکھنے والے اہلِ قلم اُن ٹھوس مسئلوں پر قلم کیوں نہیں اٹھاتے جنہیں ہم عام زندگی میں جھیلتے ہیں۔ اِن مذہبی اہلِ قلم کو تو فرقہ واریت، شدت پسندی، تعلیم کی کمی، اور اس جیسے کئی دیگر مسئلوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ ایک بہت مذہبی معاشرہ ہے، معاشرتی برائیوں کے خلاف مذہب کے تناظر میں لکھا جائے گا تو یقیناً اچھا اثر پڑے گا۔ لیکن اس کے بجائے رجال الغیب جیسے غیر ضروری اور غیر معاشرتی مسئلوں پر اخبارات میں کالم چھپنا تو سمجھ سے بالاتر ہے۔
یہ دونوں کال م نگار ان تماما حوالوں سے اکژر کالم لکھتے رہتے ہیں جنکا آپ نے تذکرہ کیا، اگر کبھی کبھی ایسے موضوعات پر بھی بات جا نکلے تو کوئی حرج نہیں۔
 
لیکن اس کا تعلق کسی "خبر" سے ہو تو سمجھ بھی آتی ہے کیسے کہ اگر فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی کوئی واقعہ ہو گیا ہو یا پھر بہبود آبادی یا تعلیم کا ایشو ہو۔ لیکن خالص مذہبی موضوعات کا اخبارات (جو کہ خبروں کے لئے ہوتے ہیں) کیساتھ کیا تعلق ہے۔
اس مقصد کے لئے مذہبی کتب اور جرائد موجود ہیں۔ اور کیا یہ حضرات واقعی میں سمجھتے ہیں کہ مذہب جیسے پیچیدہ اورسنجیدہ موضوع پر یہ آدھے صفحے کے آرٹیکل میں کوئی بھی معقول بات لکھ پائیں گے؟
اور دوسری بات یہ کہ اگر مجھے مذہب پر معلومات درکار ہوں گی تو میں مذہب کے علماء کی کتب یا رسائل کا مطالعہ کروں گا نہ کہ کسی اخبار کے تراشے کا؟
آپ اس موضوع یعنی "رجال الغیب" کو اگر وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو یہ اور ان جیسے دوسرے موضوعات کی بنیاد پر معاشرے میں دو مختلف مکاتبِ فکر پائے جاتے ہیں اور اس اختلاف کی جڑیں کافی دور تک پہنچی ہوئی ہیں۔۔۔ چنانچہ تعلق تو بنتا ہے۔۔رہی بات یہ کہ ایک کالم میں ان موضوعات کا احاطہ ناممکن ہے ، تو یہ بات درست ہے لیکن کالم کا مقصد تو صرف توجہ دلانا ہوتا ہے۔
 
پتہ نہیں آپ سب لوگ بےوقوفوں اور کم علموں کی کونسی جنت کی کونسی گھاٹی میں رہائش پذیر ہو خورشید ندیم کا کالم مذہبی بالکل نہیں ہے یہ تو ایک متھ پر مبنی ہے اور اس متھ کا جو تصور عام طور پر عوام الناس میں پایا جاتا ہے اس کے بارے میں استفسار ہے۔
برائے مہربانی آپ لوگ پہلے مذہب کو سمجھئے اور پھر مذہب کا نام استعمال کیجئے۔
 

سید ذیشان

محفلین
پتہ نہیں آپ سب لوگ بےوقوفوں اور کم علموں کی کونسی جنت کی کونسی گھاٹی میں رہائش پذیر ہو خورشید ندیم کا کالم مذہبی بالکل نہیں ہے یہ تو ایک متھ پر مبنی ہے اور اس متھ کا جو تصور عام طور پر عوام الناس میں پایا جاتا ہے اس کے بارے میں استفسار ہے۔
برائے مہربانی آپ لوگ پہلے مذہب کو سمجھئے اور پھر مذہب کا نام استعمال کیجئے۔

غالباً یہ میری طرف ہی اشارہ تھا۔ آپ کسی کی ہتک کئے بغیر بھی معقول گفتگو کر سکتے ہیں۔محمود بھائی کو بھی میری رائے سے اختلاف ہے لیکن انہوں نے کسی کو کم علمی کا طعنہ تو نہیں دیا ہے؟
 
غالباً یہ میری طرف ہی اشارہ تھا۔ آپ کسی کی ہتک کئے بغیر بھی معقول گفتگو کر سکتے ہیں۔محمود بھائی کو بھی میری رائے سے اختلاف ہے لیکن انہوں نے کسی کو کم علمی کا طعنہ تو نہیں دیا ہے؟
میرے خیال میں انہوں نے ہم سب کو ہی یہ کہا ہے۔۔صرف آپ نہیں۔:D
نہ تنہا من در ایں میخانہ مستم
جنید و شبلی و عطّار شد مست
 

سید ذیشان

محفلین
میرے خیال میں انہوں نے ہم سب کو ہی یہ کہا ہے۔۔صرف آپ نہیں۔:D
نہ تنہا من در ایں میخانہ مستم
جنید و شبلی و عطّار شد مست

روحانی بابا مجھے no nonsense ٹائپ کے انسان لگے ہیں۔ اس لئے میں ان کی باتوں کا زیادہ برا نہیں مناتا۔ اور ویسے بھی یہ اپنے پشاور سے ہیں اور روحانی بھی ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ کسی موکل کو ہماری طرف کا راستہ نہ دکھا دیں۔ ;)
 
نہیں ایسی بات نہیں ہے، البتہ ان میں بے ساختگی بہت ہے۔ پورا دھاگہ پڑھ کر انکے ذہن میں سب سے پہلے جو بات ابھری، انہوں نے اسے بلا کم و کاست بیان کردیا۔ روحانی بندوں اور عام عقل کے بندوں میں ایک فرق یہ بھی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
نہیں ایسی بات نہیں ہے، البتہ ان میں بے ساختگی بہت ہے۔ پورا دھاگہ پڑھ کر انکے ذہن میں سب سے پہلے جو بات ابھری، انہوں نے اسے بلا کم و کاست بیان کردیا۔ روحانی بندوں اور عام عقل کے بندوں میں ایک فرق یہ بھی ہے۔

no nonsense سے مراد "کھرا" ہی لی ہے جو کسی کی نانسینس برداشت نہ کرے۔:p
 
Top