رجال الغیب

قیصرانی

لائبریرین
روحانی بابا مجھے no nonsense ٹائپ کے انسان لگے ہیں۔ اس لئے میں ان کی باتوں کا زیادہ برا نہیں مناتا۔ اور ویسے بھی یہ اپنے پشاور سے ہیں اور روحانی بھی ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ کسی موقل کو ہماری طرف کا راستہ نہ دکھا دیں۔ ;)
مؤکل
 
روحانی بابا مجھے no nonsense ٹائپ کے انسان لگے ہیں۔ اس لئے میں ان کی باتوں کا زیادہ برا نہیں مناتا۔ اور ویسے بھی یہ اپنے پشاور سے ہیں اور روحانی بھی ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ کسی موکل کو ہماری طرف کا راستہ نہ دکھا دیں۔ ;)
ویسے اگر آپ پیشگی معافی نامہ لکھ دیں تو مؤکل بھیجنے کی بابت غور کیا جاسکتا ہے۔
 
رجال الغیب myth نہیں بلکہ ایک حقیقت ہیں، البتہ عوام الناس اور متصوفین نے انکے متعلق جو خود ساختہ باتیں اور اوہام تراش رکھے ہیں وہ یقیناّ ایک myth سے بڑھ کر نہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
رجال الغیب myth نہیں بلکہ ایک حقیقت ہیں، البتہ عوام الناس اور متصوفین نے انکے متعلق جو خود ساختہ باتیں اور اوہام تراش رکھے ہیں وہ یقیناّ ایک myth سے بڑھ کر نہیں۔

جی بالکل سو فیصد حقیقت ہے!
آجکل سپریم کورٹ میں "رجال الغیب" پر مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس مخلوق کا وجود ہے لیکن ہماری ایجنسیاں اس پر ایمان نہیں لاتی ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم دوستو
" رجال الغیب " میں سب سے زیادہ متحرک ہستی کون سی ہے ۔؟
کیا آپ میں سے کسی نے ان میں سے کسی کی زیارت کی ہے ،؟
یہ " تکوینی امور " کیا ہوتے ہیں ۔۔۔؟
 
محترم دوستو
" رجال الغیب " میں سب سے زیادہ متحرک ہستی کون سی ہے ۔؟
کیا آپ میں سے کسی نے ان میں سے کسی کی زیارت کی ہے ،؟
یہ " تکوینی امور " کیا ہوتے ہیں ۔۔۔ ؟
متحرک ہستی سے آپکی کیا مراد ہے؟ اگر سب سے زیادہ متحرک ہستی سے مراد کارکنانِ قضا و قدر کے محکمے میں سب سے زیادہ با اختیار اور سب سے بڑے دائرہِ کار کا حامل شخص ہے ، تو وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ اور دنیا اسکے وجود سے کبھی خالی نہیں رہتی۔ خلافتِ راشدہ تک ایک ہی فرد میں ظاہری و باطنی خلافت جمع ہوتی تھی، لیکن حضرت امام حسن کے دور میں انکی دستبرداری کے نتیجے میں ظاہری خلافت اور باطنی خلافت علیحدہ علیحدہ ہوگئیں۔ اسی خلیفہِ باطن کو کچھ لوگ مختلف ناموں سے پکارتے ہیں یعنی غوث، قطب الاقطاب وغیرہ۔(یہ ایک وسیع موضوع ہے) واللہ اعلم بالصواب۔
رجال الغیب میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بالکل عام انسانوں کی طرح معاشرے میں زندگی گذار رہے ہوتے ہیں اور انکو عام لوگوں سے ممتاز کرکے پہچاننا بغیر اللہ کی مرضی کے، ممکن نہیں۔ چنانچہ کچھ پتہ نہیں کہ ہم ایسے کسی فرد سے زندگی میں مل چکے ہوں لیکن ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا تھا ۔ چونکہ انکی اس حیثیت کو عام لوگوں سے چھپا لیا گیا ہوتا ہے، اسی لئے انکو رجال الغیب کہتے ہیں۔
تکوینی امور کی ایک بہترین مثال تو سورہ کہف میں حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے قصے میں نظر آتی ہے۔ خضر کا اس کشتی میں سوراخ کردینا، لڑکے کو قتل کردینا، اور بغیر کسی معاوضے اور بغیر کسی ظاہری سبب کے اس دیوار کی مرمت کردینا ہی تو تکوینی امور ہیں۔ و علیٰ ھٰذا القیاس۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
متحرک ہستی سے آپکی کیا مراد ہے؟ اگر سب سے زیادہ متحرک ہستی سے مراد کارکنانِ قضا و قدر کے محکمے میں سب سے زیادہ با اختیار اور سب سے بڑے دائرہِ کار کا حامل شخص ہے ، تو وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ اور دنیا اسکے وجود سے کبھی خالی نہیں رہتی۔ خلافتِ راشدہ تک ایک ہی فرد میں ظاہری و باطنی خلافت جمع ہوتی تھی، لیکن حضرت امام حسن کے دور میں انکی دستبرداری کے نتیجے میں ظاہری خلافت اور باطنی خلافت علیحدہ علیحدہ ہوگئیں۔ اسی خلیفہِ باطن کو کچھ لوگ مختلف ناموں سے پکارتے ہیں یعنی غوث، قطب الاقطاب وغیرہ۔(یہ ایک وسیع موضوع ہے) واللہ اعلم بالصواب۔
رجال الغیب میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بالکل عام انسانوں کی طرح معاشرے میں زندگی گذار رہے ہوتے ہیں اور انکو عام لوگوں سے ممتاز کرکے پہچاننا بغیر اللہ کی مرضی کے، ممکن نہیں۔ چنانچہ کچھ پتہ نہیں کہ ہم ایسے کسی فرد سے زندگی میں مل چکے ہوں لیکن ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا تھا ۔ چونکہ انکی اس حیثیت کو عام لوگوں سے چھپا لیا گیا ہوتا ہے، اسی لئے انکو رجال الغیب کہتے ہیں۔
تکوینی امور کی ایک بہترین مثال تو سورہ کہف میں حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے قصے میں نظر آتی ہے۔ خضر کا اس کشتی میں سوراخ کردینا، لڑکے کو قتل کردینا، اور بغیر کسی معاوضے اور بغیر کسی ظاہری سبب کے اس دیوار کی مرمت کردینا ہی تو تکوینی امور ہیں۔ و علیٰ ھٰذا القیاس۔ :)
بہت شکریہ محترم بھائی
میرے ناقص علم سے جناب حضرت خضر علیہ السلام سب سے زیادہ متحرک با اختیار اور دائرہ کار کی حامل ہستی ہیں ۔
اللہ تعالی کا " امر " جو کہ " کن " کی صورت صادر ہوتا ہے ۔ کے " فیکون " تک پہنچ " عدم سے وجود " میں آنے تک جو اسباب کارفرما ہوتے ہیں ان اسباب کو بجا لانے والے کارکنان قضاء و قدر ہی ہوتے ہیں ۔ اور یہ کسی بھی " واسطے " سے بے نیاز " امر اللہ " کو پورا کرتے ہیں ۔ اور یہ تکمیل کا عمل " تکوینی امور " کہلاتا ہے ۔
یہ اک الگ سوال کہ " کارکنان قضاء و قدر " صرف " ملائک ہوتے ہیں یا کہ اللہ کی دیگر مخلوق بھی ان کا درجہ پا سکتی ہے ۔۔۔؟
حضرت خضر علیہ السلام کی ہستی " انسان یا ملائک " کی حقیقت بھی پردے میں ہے ۔
" تکوینی امور " کے علاوہ باقی سب " امور " روح الامین " اور " دیگر مقرب ملائک " کے " واسطے " سے انجام پاتے ہیں ۔
 
Top