شاہد شاہنواز

لائبریرین
کیا یہ رباعی ہے؟ اور کیا یہ بھی مفعول مفاعیل مفاعیل فعل کے وزن پر درست ہے؟؟

آتا ہی نظر ہم کو رخ یار نہیں
آئینہ نما اپنا تو کردار نہیں
تم وسعت قلبی جو دکھاتے ہو تو کیا
ہم لوگ محبت کے سزاوار نہیں
÷÷÷÷÷
مزمل شیخ بسمل، فاتح ، اسد قریشی ، محمد وارث ، محمد اظہر نذیر
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
لیکن معنوی اعتبار سے شاید کمزور ہو۔۔۔خیر۔۔۔ ہماری پہلی رباعی مزمل شیخ بسمل بھائی کی زیر نگرانی مکمل ہوئی۔ اس بات کی خوشی ہے۔۔
 
شان دار لکھا ہے مزمل بھائی۔۔۔ مزہ آگیا۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔
کچھ دن پہلے بھی پڑھا تھا۔۔۔ اب دوبارہ مزید لطف آیا۔۔۔۔
بہت آسان کرکے سمجھایا ہے آپ نے۔
اللہ خوش رکھے۔
 
ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔
قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ ہوگا البتہ جو نا مانوس ہیں ان کے لئے تو یقیناً نئی چیز ہے۔ بہر حال کوئی لمبی کہانی نہیں ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ رباعی کے سب اوزان بحرِ ہزج سے ہیں، لیکن اس میں اتنی لمبی چوڑی تراکیب اور پھر شجرے وغیرہ یہ محض الجھانے والی باتیں ہیں رباعی کے محض دو وزن ہیں۔ بلکہ میں تو ایک ہی وزن مانتا ہوں ان دو کو بھی۔ مگر سمجھنے کی نیت سے ابھی ہم انہی دو وزن کو دیکھتے ہیں، اور در حقیقت یہی دو وزن کا اجتماع جائز ہے باقی چوبیس الگ الگ اوزان کی تراکیب بھول جائیں۔
بحرِ ہزج مثمن سالم:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
رباعی کے زحافات:
1۔ خرب (= خرم اور کٖف )
2۔ کف
3۔ قبض
4۔ بتر
یہ چار زحافات ہیں جو رباعی پر کام کرتے ہیں۔
خرب میں کف اور خرم جمع ہوتے ہیں،
خرم: کا کام ہے کہ رکن کے شروع میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکا پہلا حرف گرا دے مفاعیلن میں میم گرے گا۔
اور کف کا کام ہے کہ رکن کے آخری میں جو سبب خفیف ہو اس کے دوسرے حرف یعنی ساکن کو گرا دیتا ہے مفاعیلن میں نون ساقط ہونا مراد ہے۔
خرم و کف دونوں جب ایک ہی رکن پر کام کرتے ہیں تو ”خرب“ کہلاتے ہیں
کف: کا کام اکیلے میں وہی ہے جو اوپر بیان کیا کہ مفاعیلن سے نون کا اسقاط۔
قبض: کا زحاف حرف پنجم گرا دیتا ہے جو سبب خفیف میں ہو اور ساکن ہو۔ مفاعیلن سے ”ی“ کا گرانا مقصود ہے یہاں۔
بتر: کا زحاف پورا وتد مجموع ختم کرتا ہے جو رکن کے شروع میں ہو، مفاعیلن سے ”مفا“ کا ختم کرنا مراد ہے یہاں۔

اب آتے ہیں ان دو اوزان پر جو رباعی میں استعمال ہوتے ہیں
پہلا وزن:
مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
دوسرا:
مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل

مفعولُ خرب سے حاصل ہوا ۔ اخرب کہلاتا ہے
مفاعلن قبض سے۔ مقبوض کہلاتا ہے
مفاعیلُ کف سے۔ مکفوف کہلاتا ہے
فعَل بتر اور قبض سے۔ ابتر مقبوض کہلاتا ہے

الغرض ہم ان دو اوزان کو اپنی رباعی میں جمع کر سکتے ہیں
1۔ مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
2۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل
اور جیسا آاپ پہلے پڑھ چکے ہیں تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آخری میں ایک ساکن بڑھانا عروض میں جائز ہے تو فعل کو فعول بھی بنایا جاسکتا ہے، گویا یہ دو اوزان یاد ہونے کے بعد آپ کو دو مزید اوزان خود ہی حاصل ہوگئے یوں چار اوزان آپ کے پاس ہو گئے۔
اب آپ کو وہی کام کرنا ہے جو ہندی بحر کے ساتھ کیا تھا !!!!
جی ہاں! تسکین اوسط۔۔
بس تسکینِ اوسط کا زحاف لگاتے جائیں اور وزن اپنے آپ بنتے جائینگے اور کل ملا کر انکی تعداد چوبیس ہوگی۔
میں نے یہ کام بھی آپ کی سہولت کے لئے کردیا ہے تو ذرا خود ہی ملاحظہ فرمالیں ۔
مذکورہ بالا دو اوزان میں جو پہلا وزن ہے اس میں دو جگہ تسکین اوسط کا زحاف کام کرتا ہے،
اور دوسرے والے میں تین جگہ۔
بس جہاں تین حرکات مستقل ہوں وہاں اپنی مرضی سے درمیان والی حرکت کو ساکن کردیں یوں پہلے وزن سے آٹھ اور دوسرے سے سولہ اوزان کا استخراج ہوگا ملاحظہ فرمائیں:

رباعی کے دو اوزان:
پہلا:
1۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعل
2۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعل =مفعولن فاعلن مفاعیل فعَل
3۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عل =مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
4۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عل= مفعولن فاعلن مفاعیلن فع

5۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعول =مفعول مفاعلن مفاعیل فعول
6۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعول =مفعولن فاعلن مفاعیل فعول
7۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عول =مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع
8۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عول =مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع

دوسرا:
9۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
10۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعل =مفعولن مفعول مفاعیل فعَل
11۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعل =مفعول مفاعیلن مفعول فعَل
12۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عل =مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
13۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عل =مفعولن مفعولن مفعولن فع
14۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعل =مفعولن مفعولن مفعول فعَل
15۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عل =مفعولن مفعول مفاعیلن فع
16۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عل =مفعول مفاعیلن مفعولن فع

17۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعول =مفعول مفاعیل مفاعیل فعول
18۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعول =مفعولن مفعول مفاعیل فعول
19۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعول =مفعول مفاعیلن مفعول فعول
20۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عول =مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع
21۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عول = مفعولن مفعولن مفعولن فاع
22۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعول =مفعولن مفعولن مفعول فعول
23۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عول = مفعولن مفعولُ مفاعیلن فاع
24۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عول =مفعول مفاعیلن مفعولن فاع

بس یہی کل چوبیس اوزان ہیں جو ان دو اوزان سے حاصل ہوتے ہیں۔ بعض عروضیوں مثلاً یاس عطیم آبادی مرحوم یا اور دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ تسکین اوسط کے زحاف لگانے پر سیکڑوں اوزان نکل سکتے ہیں مگر رباعی فقط چوبیس اوزان پر ہے تو بسمل عرض کرتا ہے کہ ہمیں بھی ان سیکڑوں اوزان میں سے چند ایک نکال کر بتادیں جو ان چوبیس اوزان کے علاوہ ہوں!!!!
خیر یہی تھوڑی سی کہانی تھی رباعی کی۔ امید کرتا ہوں کہ سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
دعائے خیر کا طلبگار:
مزمل شیخ بسملؔ​
چند ایک سوالات ہیں ۔
١ ۔ جس حکم کے تحت حشوِ اول کی نشست پر مکفوف اور مقبوض کا اجتماع ہوا ہے اسی حکم (یعنی معاقبہ) کے تحت حشوِ ثانی کی نشست پر دونوں کا اجتماع کیوں ممکن نہیں ؟ یعنی اوزان چھتیس کیوں نہیں ؟ اور اسی حکم کے تحت خرب اور شتر کا اجتماع کیوں نہیں کیا جا سکتا ؟ یعنی اوزان چون کیوں نہیں ؟
٢ ۔ اور اس میں بتر (اگرچہ میں اس تعریف سے اتفاق نہیں کرتا کہ ابتدائی جزو کا اسقاط بنیادِ بحر ڈھانے کے مترادف ہے اور ویسے بھی فارسی والوں کے اس زحاف کی اردو کو ہرگز ضرورت نہیں ) کا استعمال نہیں ہے ۔ میرے خیال میں رباعی میں سات زحافات استعمال ہوتے ہیں ۔ خرب ، شتر ، کف ، قبض ، جب ، اہتم اور تخنیق کو عمل میں لایا گیا ہے ۔ خرب و شتر اور کف و قبض کا اجتماع از روئے معاقبہ جائز ہے ۔ جب اور اہتم کا اجتماع ضرورتِ شعری کا تابع ہے ۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔
قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ ہوگا البتہ جو نا مانوس ہیں ان کے لئے تو یقیناً نئی چیز ہے۔ بہر حال کوئی لمبی کہانی نہیں ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ رباعی کے سب اوزان بحرِ ہزج سے ہیں، لیکن اس میں اتنی لمبی چوڑی تراکیب اور پھر شجرے وغیرہ یہ محض الجھانے والی باتیں ہیں رباعی کے محض دو وزن ہیں۔ بلکہ میں تو ایک ہی وزن مانتا ہوں ان دو کو بھی۔ مگر سمجھنے کی نیت سے ابھی ہم انہی دو وزن کو دیکھتے ہیں، اور در حقیقت یہی دو وزن کا اجتماع جائز ہے باقی چوبیس الگ الگ اوزان کی تراکیب بھول جائیں۔
بحرِ ہزج مثمن سالم:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
رباعی کے زحافات:
1۔ خرب (= خرم اور کٖف )
2۔ کف
3۔ قبض
4۔ بتر
یہ چار زحافات ہیں جو رباعی پر کام کرتے ہیں۔
خرب میں کف اور خرم جمع ہوتے ہیں،
خرم: کا کام ہے کہ رکن کے شروع میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکا پہلا حرف گرا دے مفاعیلن میں میم گرے گا۔
اور کف کا کام ہے کہ رکن کے آخری میں جو سبب خفیف ہو اس کے دوسرے حرف یعنی ساکن کو گرا دیتا ہے مفاعیلن میں نون ساقط ہونا مراد ہے۔
خرم و کف دونوں جب ایک ہی رکن پر کام کرتے ہیں تو ”خرب“ کہلاتے ہیں
کف: کا کام اکیلے میں وہی ہے جو اوپر بیان کیا کہ مفاعیلن سے نون کا اسقاط۔
قبض: کا زحاف حرف پنجم گرا دیتا ہے جو سبب خفیف میں ہو اور ساکن ہو۔ مفاعیلن سے ”ی“ کا گرانا مقصود ہے یہاں۔
بتر: کا زحاف پورا وتد مجموع ختم کرتا ہے جو رکن کے شروع میں ہو، مفاعیلن سے ”مفا“ کا ختم کرنا مراد ہے یہاں۔

اب آتے ہیں ان دو اوزان پر جو رباعی میں استعمال ہوتے ہیں
پہلا وزن:
مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
دوسرا:
مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل

مفعولُ خرب سے حاصل ہوا ۔ اخرب کہلاتا ہے
مفاعلن قبض سے۔ مقبوض کہلاتا ہے
مفاعیلُ کف سے۔ مکفوف کہلاتا ہے
فعَل بتر اور قبض سے۔ ابتر مقبوض کہلاتا ہے

الغرض ہم ان دو اوزان کو اپنی رباعی میں جمع کر سکتے ہیں
1۔ مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
2۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل
اور جیسا آاپ پہلے پڑھ چکے ہیں تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آخری میں ایک ساکن بڑھانا عروض میں جائز ہے تو فعل کو فعول بھی بنایا جاسکتا ہے، گویا یہ دو اوزان یاد ہونے کے بعد آپ کو دو مزید اوزان خود ہی حاصل ہوگئے یوں چار اوزان آپ کے پاس ہو گئے۔
اب آپ کو وہی کام کرنا ہے جو ہندی بحر کے ساتھ کیا تھا !!!!
جی ہاں! تسکین اوسط۔۔
بس تسکینِ اوسط کا زحاف لگاتے جائیں اور وزن اپنے آپ بنتے جائینگے اور کل ملا کر انکی تعداد چوبیس ہوگی۔
میں نے یہ کام بھی آپ کی سہولت کے لئے کردیا ہے تو ذرا خود ہی ملاحظہ فرمالیں ۔
مذکورہ بالا دو اوزان میں جو پہلا وزن ہے اس میں دو جگہ تسکین اوسط کا زحاف کام کرتا ہے،
اور دوسرے والے میں تین جگہ۔
بس جہاں تین حرکات مستقل ہوں وہاں اپنی مرضی سے درمیان والی حرکت کو ساکن کردیں یوں پہلے وزن سے آٹھ اور دوسرے سے سولہ اوزان کا استخراج ہوگا ملاحظہ فرمائیں:

رباعی کے دو اوزان:
پہلا:
1۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعل
2۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعل =مفعولن فاعلن مفاعیل فعَل
3۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عل =مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
4۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عل= مفعولن فاعلن مفاعیلن فع

5۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعول =مفعول مفاعلن مفاعیل فعول
6۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعول =مفعولن فاعلن مفاعیل فعول
7۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عول =مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع
8۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عول =مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع

دوسرا:
9۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
10۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعل =مفعولن مفعول مفاعیل فعَل
11۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعل =مفعول مفاعیلن مفعول فعَل
12۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عل =مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
13۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عل =مفعولن مفعولن مفعولن فع
14۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعل =مفعولن مفعولن مفعول فعَل
15۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عل =مفعولن مفعول مفاعیلن فع
16۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عل =مفعول مفاعیلن مفعولن فع

17۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعول =مفعول مفاعیل مفاعیل فعول
18۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعول =مفعولن مفعول مفاعیل فعول
19۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعول =مفعول مفاعیلن مفعول فعول
20۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عول =مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع
21۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عول = مفعولن مفعولن مفعولن فاع
22۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعول =مفعولن مفعولن مفعول فعول
23۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عول = مفعولن مفعولُ مفاعیلن فاع
24۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عول =مفعول مفاعیلن مفعولن فاع

بس یہی کل چوبیس اوزان ہیں جو ان دو اوزان سے حاصل ہوتے ہیں۔ بعض عروضیوں مثلاً یاس عطیم آبادی مرحوم یا اور دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ تسکین اوسط کے زحاف لگانے پر سیکڑوں اوزان نکل سکتے ہیں مگر رباعی فقط چوبیس اوزان پر ہے تو بسمل عرض کرتا ہے کہ ہمیں بھی ان سیکڑوں اوزان میں سے چند ایک نکال کر بتادیں جو ان چوبیس اوزان کے علاوہ ہوں!!!!
خیر یہی تھوڑی سی کہانی تھی رباعی کی۔ امید کرتا ہوں کہ سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
دعائے خیر کا طلبگار:
مزمل شیخ بسملؔ​
باعی میں استعمال ہونے والے زحافات کی کل تعداد نو ہے۔
خرب: لغوی مفہوم کانوں کے اطراف میں سوراخ کرنا ہے۔ اگر وتد مجموع سے شروع ہونے والا کوئی رکن سبب پر منتہی ہو تو اصطلاحِ عروض میں اس کے حرفِ اول کا اسقاط خرب کہلاتا ہے۔ چنانچہ مفاعیلن زحافِ خرب کے بعد فاعیل رہ جاتا ہے جس کی مانوس شکل مفعول (بہ تحریکِ لام) ہے

خرم: لغوی مفہوم نتھنوں کی درمیانی ہڈی کو چھیدنا ہے۔ اگر کسی رکن کے آغاز میں وتد مجموع ہو تو اس کے حرفِ اول کا اسقاط خرم کہلاتا ہے۔ چنانچہ مفاعیلن زحافِ خرم کے بعد فاعیلن رہ جاتا ہے جس کی مانوس صورت مفعولن ہے۔ لہذا مفاعیلن سے مفعولن اخرم کہلائے گا۔

کف: لغوی مفہوم روکنا ہے۔ سبب خفیف پر منتہی ہونے والے سات حرفی رکن کے حرفِ آخر کا اسقاط کف کہلاتا ہے۔ چنانچہ مفاعیلن سے مفاعیل (بہ تحریک لام) مکفوف ہے۔

قبض: لغوی مفہوم پکڑنا ہے ؛ اگر کسی رکن کا حرفِ پنجم سبب پر منتہی ہو تو اس سبب کے حرفِ آخر کا اسقاط قبض کہلاتا ہے۔ لہذا مفاعیلن سے مفاعلن مقبوض ہے۔

شتر: بفتحتین ، لغوی مفہوم پلک جھپکنا ہے۔ اصطلاحِ عروض میں قبض و خرم کا اجتماع شتر کہلاتا ہے۔ مفاعیلن سے مفاعلن مقبوض ہے ، جو زحافِ خرم کے بعد فاعلن کی صورت اختیار کرتا ہے۔ لہذا مفاعیلن سے فاعلن اشتر کہلائے گا

ھتم: لغوی مفہوم دانت توڑنا ہے ، یہ زحافِ حذف و قصر کے اجتماع سے عبارت ہے۔ مفاعیلن زحافِ حذف سے فعولن بن جاتا ہے اور فعولن زحافِ قصر کے باعث فعول (بہ سکونِ لام) کی صورت اختیار کرتا ہے۔ لہذا مفاعیلن سے فعول (بہ سکونِ لام) اہتم ہے۔

زلل: لغوی مفہوم پھسلنا ہے ، یہ زحافِ ہتم پر خرم کے عمل سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مفاعیلن سے فعول اہتم ہے اور فعول خرم کے عمل سے عول رہ جاتا ہے جس کی مانوس صورت فاع ہے۔

جب: بفتح جیم و تشدید باء ؛ لغوی مفہوم خصی کرنا ہے۔ مفاعیلن کے ہر دو سببِ آخر کا اسقاط اصطلاحِ عروض میں جب کہلاتا ہے۔ مفاعیلن زحافِ جب کے باعث مفا رہ جاتا ہے جس کی مانوس صورت فعل (بہ سکونِ لام) ہے۔
بتر: ( بہ فتحِ بائے موحدہ و سکونِ تائے فوقانی) لغوی مفہوم کاٹنا ہے ؛ یہ جب و خرم کے اجتماع سے عبارت ہے۔ مفاعیلن سے فعل مجبوب ہے ، جو زحافِ خرم کے عمل سے عل رہ جاتا ہے جس کی مانوس سورت فع ہے۔ لہذا مفاعیلن سے فع ابتر کہلائے گا۔
 
Top