راہ و رسم ِ الفت میں کچھ کمی سی لگتی ہے

یاران محفل: تسلیمات
آج کل اردو محفل کی سیر کے مزے لوٹ رہا ہوں۔ساتھ ہی یہاں کےمشمولات کی کتابت کے رموز سمجھنے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ آپ نے بوڑھے توتے پر نئے سبق کی آزمائش کی حکایت تو ضرور سنی ہوگی، سو میں اس کو بھگت رہا ہوں ۔دیکھئے کیا انجام ہوتا ہے۔ محفل کی ادبی گفتگو اور تبادلہ ء خیال، شائستہ نوک جھونک اور خوشدلی باعث فخر و مسرت ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ایک غزل لے کر حاضر ہوا ہوں۔ کئی سال سے شاعری تقریبا بند ہے کیونکہ اب سننے والے اور کتابیں ،رسالے پڑھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں ۔ ہندوپاک میں معیاری رسالوں کا قحط ہے ۔یہ زمانہ اوروقت کا فیضان ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ غزل پر آپ کے خیالات اور تاثرات کا انتظار رہے گا۔ آپ کو غزل کی کس خصوصیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا ؟ بندہ نوازی کے لئے ممنون ہوں۔
سرور راز سرور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہ ورسم الفت میں کچھ کمی سی لگتی ہے
ورنہ کیوں لگی دل کی دل لگی سی لگتی ہے؟

بیخودی کے پردے میں آگہی سی لگتی ہے
دیکھتا ہوں جو صورت آپ ہی سی لگتی ہے

ِپیار کے جھروکوں سے یاد ِیار آتی ہے
تیرگی ء شب میں بھی چاندنی سی لگتی ہے

کوچہ ء نگاراں سے جب ہوائے آوارہ
گنگناتی آتی ہے، سر پھری سی لگتی ہے

کیا یہی محبت ہے؟ گر نہیں تو پھر کیا ہے؟
بے کلی سی لگتی تھی، بے کلی سی لگتی ہے

ایک یاد آتی ہے، ایک یاد جاتی ہے
بولتی ہوئی ہر سو خامشی سی لگتی ہے

اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو باوءلی سی لگتی ہے

کس قدر خموشی ہے آخر ِشبِ ہجراں
حسرتوں کی یہ ہچکی آخری سی لگتی ہے

آہ اس محبت میں کیا مقام آیا ہے
خود کو اپنی صورت بھی اجنبی سی لگتی ہے

کوئی کیا سنے سرور تیری داستان ِ غم
بات جو بھی کرتا ہے، شاعری سی لگتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کیا کہنے!
ِپیار کے جھروکوں سے یاد ِیار آتی ہے
تیرگی ء شب میں بھی چاندنی سی لگتی ہے

کوچہ ء نگاراں سے جب ہوائے آوارہ
گنگناتی آتی ہے، سر پھری سی لگتی ہے

کیا یہی محبت ہے؟ گر نہیں تو پھر کیا ہے؟
بے کلی سی لگتی تھی، بے کلی سی لگتی ہے
 
ورنہ کیوں لگی دل کی دل لگی سی لگتی ہے؟
واہ، کیا مصرع ہے! سبحان اللہ.... ماشاء اللہ پوری غزل ہی کمال ہے مگر اس مصرعے کو بار بار پڑھ کر سر دھن رہا ہوں.

استاذی اللہ تبارک و تعالی آپ کے قلم کو مزید برکتوں سے نوازے. آمین.
 

صابرہ امین

لائبریرین
راہ ورسم الفت میں کچھ کمی سی لگتی ہے
ورنہ کیوں لگی دل کی دل لگی سی لگتی ہے؟
بہت خوبصورت مطلع۔۔ کیا کہنے!!

کیا یہی محبت ہے؟ گر نہیں تو پھر کیا ہے؟
بے کلی سی لگتی تھی، بے کلی سی لگتی ہے

کس قدر خموشی ہے آخر ِشبِ ہجراں
حسرتوں کی یہ ہچکی آخری سی لگتی ہے

کوئی کیا سنے سرور تیری داستان ِ غم
بات جو بھی کرتا ہے، شاعری سی لگتی ہے

آپ کی غزل میں جو سلاست اور روانی ہے، کاش ہمارے قلم کو بھی میسر ہو جائے۔ بہت عمدہ اشعار سے مزین غزل۔۔ شکریہ محترم استاد
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! کیا اچھی غزل ہے! کئی اشعار پسند آئے ، سرورؔ صاحب!

آج کل اردو محفل کی سیر کے مزے لوٹ رہا ہوں۔ساتھ ہی یہاں کےمشمولات کی کتابت کے رموز سمجھنے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ آپ نے بوڑھے توتے پر نئے سبق کی آزمائش کی حکایت تو ضرور سنی ہوگی، سو میں اس کو بھگت رہا ہوں ۔دیکھئے کیا انجام ہوتا ہے۔ محفل کی ادبی گفتگو اور تبادلہ ء خیال، شائستہ نوک جھونک اور خوشدلی باعث فخر و مسرت ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ماشاء اللہ ، آپ نے کئی اور نوواردانِ محفل کی نسبت بہت جلد اور بہت حد تک یہاں کے رموز و معاملات کو سمجھ لیا ہے ۔ پھر بھی کوئی بھی مشکل پیش آئے تو بلا تکلف بتائیے گا ۔ ان شاء اللہ فوری رہنمائی میسر آئے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ محفل پر نئے اراکین کے لیے ایک پرچۂ ترکیبِ استعمال ہونا چاہیے ۔ اس پرچے میں مراسلات لکھنے ، ٹیگ کرنے ، نوٹیفیکیشن اور دیگر ترجیحات مرتب کرنے ، غیر مطلوب زمرہ جات کو بلاک کرنے وغیرہ کا طریقہ سادہ اور غیر پیچیدہ انداز میں درج کردیا جائے تو بہت سے لوگوں کے لیے بہت کارآمد ہوگا۔ اگر کوئی مہربان رکن اس سلسلے میں مدد فرمائے تو ہم سب بہت ممنون رہیں گے۔ پیشگی شکریہ!

کئی سال سے شاعری تقریبا بند ہے کیونکہ اب سننے والے اور کتابیں ،رسالے پڑھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں ۔ ہندوپاک میں معیاری رسالوں کا قحط ہے ۔یہ زمانہ اوروقت کا فیضان ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
اس صورتحال کا تو واقعی کوئی علاج نہیں ہے ۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ انٹر نیٹ پر اب بھی ایک آدھ ایسی محفلیں ہیں کہ جہاں ادبی فضا نظر آتی ہے اور جہاں تسکینِ ذوق کا کچھ سامان میسر ہے ۔ الحمدللہ ، اس اردو محفل پر شعر و ادب کی شمع روشن رکھنے کا عزم لیےکئی اہلِ علم و فن موجود ہیں ۔ آپ کی یہاں شمولیت ہم سب کے لیے تقویت اور مسرت کا باعث ہے ۔
غزل پر آپ کے خیالات اور تاثرات کا انتظار رہے گا۔ آپ کو غزل کی کس خصوصیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا ؟
غزل کے روایتی مضامین اور زبان و بیان سے مزیّن پر اثر اشعار ہیں ۔ کیف کی ایک خاص فضا ہے جو تقریباً تمام اشعار میں جھلکتی نظر آتی ہے ۔ اور کیف و جذب کی یہ حالت عشق و محبت اور یادِ ماضی کی عطا معلوم ہوتی ہے ہے۔ ۔ سلاستِ بیان اس غزل کی نمایاں خصوصیت ہے ۔

اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو باؤلی سی لگتی ہے
اس شعر پر مجھے کچھ تذبذب ہے ۔ یہاں لفظ باؤلی بمعنی پاگل استعمال کیا گیا ہے یا بمعنی کنواں؟ گمان ہے کہ یہ لفظ ثانی الذکر معنی میں استعمال ہوا ہے۔( بچپن سے یہ لفظ اور اس سے متعلق کئی کہانیاں بزرگوں سے سنتے آئے ہیں ۔) اگر ایسا ہےتو اس استعمال کی معنویت پر کچھ روشنی ڈالیے گا۔ امید ہے کہ تہذیبِ و تمدنِ رفتہ کے کچھ دریچے کھلیں گے۔
 
+عزیز مکرم ظہیر صاحب: ذرہ نوازی کے لئے ممنون ہوں۔ غزل پر آپ کی خیال آرائی باعث مسرت وافتخار ہے۔ جب میں نے احباب سے یہ پوچھا تھا کہ غزل کی کون سی بات نے انھیں متاثر کیا تو اس سے انھیں داد کی جانب مائل کرنا مقصود نہیں تھا ۔ میں نے یہ دیکھا کہ محفل میں غزلوں پر ناقدانہ نظر بہت کم ڈالی جاتی ہے اور احباب سرسری تبصروں (؟) کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ تحصیل لا حاصل ہے۔تنقید و تحقیق کے بٰغیر ہم زندگی کے کسی شعبے میں بھی کوئی کار نمایاں نہیں کر سکتے۔لوگ اگر سوچنے کی جانب مائل ہوں تو ادب اور قارئین دونوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ لیکن اکثر احباب اس کے قائل نہیں ہیں اورنقد ونظرسے گھبراتے ہیں ۔ چنانچہ ہمارے ادب بلکہ ساری زندگی میں تنقید ی فکر ونظر کی بہت کمی ہے اور کسی طرح اس صورت حال کی اصلاح ضروری ہے۔ آپ نے جو غزل پر توجہ کی تو امید ہے دوسرے احباب بھی اس طرف متوجہ ہوں گے۔
اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو باولی سی لگتی ہے
یہاں باولی سے کنواں مقصود نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ پاگل اور باوءلے میں بہت خفیف سا فرق ہے جسےشاید محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ باولےشخص کی وحشت ایک پاگل سے قدرے کم سمجھ لیں۔سب جانتے ہیں کہ شاعری میں نا ممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ بلبل خدا جانے کیوں گلاب کے عشق میں روتی ہے اور جواب میں گلاب اس پرہنستے ہیں ، ہوائیں گنگناتی ہیں، دیواروں کے کان ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ انسانوں کے گرد تنگ ہو کر ان کو وحشت زدہ کر دیتی ہیں۔ ایسی وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظرآ سکتا ہے۔ :عشق میں میری وحشت کا یہ عالم ہے کہ جانے پہچانے گلی کوچوں میں راہ بھول کر حیران و پریشان دیوانوں کی طرح بھٹکتا پھرتا ہوں اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مجھےہر شے اجنبی اوراپنی ہی طرح پاگل دکھائی دیتی ہے حتی کہ گلی کے در و دیوار بھی مجھے اتنےباولے نظر آتے ہیں کہ برسو ں کی شناسائی کےبا وجود گھر کا راستہ نہیں دکھا سکتے۔:
یہاں پہنچ کرمیری کیفیت یہ ہے کہ گلی کے باولے پن کو تو محسوس کرسکتا ہوں لیکن آپ کا تذبذب میرے لئے فکر و تردد کا باعث ہوگیا ہے کہ وہی باولاپن آپ کو کیوں نظر نہیں آتا؟ اس وقت اور کچھ کہنا مشکل ہے۔ ممکن ہے آپ کا تذبذب بجا ہو اور میری فکر ونگاہ ناقص۔ اس پہلو پر پھر سوچوں گا ، شاید کوئی راہ اس گلی میں سوجھ جائے اور یہی گلی کوچے مجھ کو گھر پہنچا دیں۔ واللہ اعلم!
خاکسار: سرور راز
 

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ غزل ہے سرور صاحب قبلہ۔آپ کی غزل استادانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ انتہائی رواں اشعار ہیں اور بحر بھی آپ نے بہت مترنم منتخب کی ہےجس میں لطافت اور نغمگی ہے۔

راہ ورسم الفت میں کچھ کمی سی لگتی ہے
ورنہ کیوں لگی دل کی دل لگی سی لگتی ہے؟
مصرع ثا نی میں رعایت لفظی کے ماہرانہ استعمال سے آپ نے خوب بات پیدا کی ہے۔

کوچہ ء نگاراں سے جب ہوائے آوارہ
گنگناتی آتی ہے، سر پھری سی لگتی ہے
کیا ہی عمدہ پیرایہ ہے۔ کوچۂ نگاراں، گنگناہٹ، آوارہ، سرپھرا، مراعات النظیر کی بہار ہے!

اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو باوءلی سی لگتی ہے
مجھے اس شعر کی تفہیم میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اور باؤلی سے میرے ذہن میں پاگل پن ہی آیا ہے۔ ہاں دوسرے مصرعے کے وسط میں موجود "تو" تھوڑا سا کھَل رہا ہے۔

ایک بار پھر اس عمدہ غزل کے لیے بہت داد قبول کیجیے محترم۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ !

محترم سرور صاحب!

بہت ہی خوبصورت غزل ہے۔

مطلع سے مقطع تک سب اشعار ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ غزل میں نغمگی اور سلاستِ خیالی لائقِ صد ستائش ہے۔

بیخودی کے پردے میں آگہی سی لگتی ہے
دیکھتا ہوں جو صورت آپ ہی سی لگتی ہے

کوچہ ء نگاراں سے جب ہوائے آوارہ
گنگناتی آتی ہے، سر پھری سی لگتی ہے

کس قدر خموشی ہے آخر ِشبِ ہجراں
حسرتوں کی یہ ہچکی آخری سی لگتی ہے

یہ اشعار بالخصوص پسند آئے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عزیز مکرم ظہیر صاحب: ذرہ نوازی کے لئے ممنون ہوں۔ غزل پر آپ کی خیال آرائی باعث مسرت وافتخار ہے۔ جب میں نے احباب سے یہ پوچھا تھا کہ غزل کی کون سی بات نے انھیں متاثر کیا تو اس سے انھیں داد کی جانب مائل کرنا مقصود نہیں تھا ۔ میں نے یہ دیکھا کہ محفل میں غزلوں پر ناقدانہ نظر بہت کم ڈالی جاتی ہے اور احباب سرسری تبصروں (؟) کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ تحصیل لا حاصل ہے۔تنقید و تحقیق کے بٰغیر ہم زندگی کے کسی شعبے میں بھی کوئی کار نمایاں نہیں کر سکتے۔لوگ اگر سوچنے کی جانب مائل ہوں تو ادب اور قارئین دونوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ لیکن اکثر احباب اس کے قائل نہیں ہیں اورنقد ونظرسے گھبراتے ہیں ۔ چنانچہ ہمارے ادب بلکہ ساری زندگی میں تنقید ی فکر ونظر کی بہت کمی ہے اور کسی طرح اس صورت حال کی اصلاح ضروری ہے۔ آپ نے جو غزل پر توجہ کی تو امید ہے دوسرے احباب بھی اس طرف متوجہ ہوں گے۔
سرور بھائی ، آپ کا شکوہ بہت حد تک حق بجانب ہے ۔اردو محفل کیا اب تو کسی بھی محفل میں کلام پر نقد و نظر کم کم ہی نظر آتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اس موضوع پر کسی اور دھاگے میں کسی مناسب وقت پر بات ہوگی ۔ اب آپ یہاں آگئے ہیں تو امید ہو چلی ہے کہ داد وتحسین سے ہٹ کر بھی کچھ کارآمد باتیں ہوا کریں گی۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
س شعر پر مجھے کچھ تذبذب ہے ۔ یہاں لفظ باؤلی بمعنی پاگل استعمال کیا گیا ہے یا بمعنی کنواں؟ گمان ہے کہ یہ لفظ ثانی الذکر معنی میں استعمال ہوا ہے۔( بچپن سے یہ لفظ اور اس سے متعلق کئی کہانیاں بزرگوں سے سنتے آئے ہیں ۔) اگر ایسا ہےتو اس استعمال کی معنویت پر کچھ روشنی ڈالیے گا۔ امید ہے کہ تہذیبِ و تمدنِ رفتہ کے کچھ دریچے کھلیں گے۔

اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو باولی سی لگتی ہے
یہاں باولی سے کنواں مقصود نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ پاگل اور باوءلے میں بہت خفیف سا فرق ہے جسےشاید محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ باولےشخص کی وحشت ایک پاگل سے قدرے کم سمجھ لیں۔سب جانتے ہیں کہ شاعری میں نا ممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ بلبل خدا جانے کیوں گلاب کے عشق میں روتی ہے اور جواب میں گلاب اس پرہنستے ہیں ، ہوائیں گنگناتی ہیں، دیواروں کے کان ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ انسانوں کے گرد تنگ ہو کر ان کو وحشت زدہ کر دیتی ہیں۔ ایسی وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظرآ سکتا ہے۔ :عشق میں میری وحشت کا یہ عالم ہے کہ جانے پہچانے گلی کوچوں میں راہ بھول کر حیران و پریشان دیوانوں کی طرح بھٹکتا پھرتا ہوں اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مجھےہر شے اجنبی اوراپنی ہی طرح پاگل دکھائی دیتی ہے حتی کہ گلی کے در و دیوار بھی مجھے اتنےباولے نظر آتے ہیں کہ برسو ں کی شناسائی کےبا وجود گھر کا راستہ نہیں دکھا سکتے۔:
یہاں پہنچ کرمیری کیفیت یہ ہے کہ گلی کے باولے پن کو تو محسوس کرسکتا ہوں لیکن آپ کا تذبذب میرے لئے فکر و تردد کا باعث ہوگیا ہے کہ وہی باولاپن آپ کو کیوں نظر نہیں آتا؟ اس وقت اور کچھ کہنا مشکل ہے۔ ممکن ہے آپ کا تذبذب بجا ہو اور میری فکر ونگاہ ناقص۔ اس پہلو پر پھر سوچوں گا ، شاید کوئی راہ اس گلی میں سوجھ جائے اور یہی گلی کوچے مجھ کو گھر پہنچا دیں۔ واللہ اعلم
سرور بھائی ، لفظ باؤلی کا استعمال بذاتِ خود اس تذبذب کی وجہ بنا۔ پہلے مصرع کو پڑھنے کے بعد مصرعِ ثانی میں "اجنبی" کا قافیہ خود بخود ذہن میں آتا ہے۔ یعنی:
اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو اجنبی سی لگتی ہے
شعر کے سیاق و سباق میں اجنبی کا قافیہ فطری ہے اور یہی قافیہ دونوں مصرعوں کو مربوط کرتا ہے۔یعنی میں اپنے ہی شہر میں (کہ جس کے گلی کوچوں سے میں بخوبی واقف ہوں) اب راستہ بھول جاتا ہوں اور وجہ یہ کہ اب اس کے گلی کوچے مجھے شناسا کے بجائے اجنبی سے لگتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اجنبی جگہوں پر ہی راستہ بھولنے کا امکان ہوتا ہے ۔ لیکن گلی کوچوں کا باؤلا سا لگنا مصرعِ اول کے بیانیے کی توجیہہ پیش نہیں کرتا اور نہ ہی مصرعِ ثانی کو اس سے مربوط کرتا ہے ۔اگر مصرع اول میں راستہ بھولنے کے بجائے کچھ اس طرح کی بات ہوتی کہ اپنے ہی شہر میں اب ڈر لگتا ہے یا خوف آتا ہے تو باؤلی کا قافیہ معقول اور برمحل ہوتا۔ یعنی کسی باؤلے کو دیکھ کر آدمی ڈر سکتا ہے ، وحشت زدہ ہوسکتا ہے ، ڈر کر بھاگ سکتا ہے ۔ وغیرہ ۔ باؤلی کے قافیے کی ایک توجیہہ یہ ممکن ہے کہ کسی پاگل کو دیکھ کر آدمی بھاگ اٹھے اور پھر راستہ بھو ل جائے ۔ لیکن ایسی صورت میں دونوں مصرعوں کا ربط بہت کمزور رہے گا ، بہت کچھ قاری کے ذہن اور فکر پر چھوڑنا پڑے گا۔
جہاں تک اس توجیہہ کا تعلق ہے کہ عشق میں شاعر کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ وہ جانے پہچانے گلی کوچوں میں راہ بھول کر حیران و پریشان دیوانوں کی طرح بھٹکتا پھرتا ہے اور اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا، اسےہر شے اجنبی اوراپنی ہی طرح پاگل دکھائی دیتی ہے تو اس ساری صورتحال کا کوئی بھی اشارہ یا کنایہ شعر میں موجود نہیں ۔ چونکہ یہ مسلسل غزل کا شعر نہیں اس لیے اسے مفرد شعر ہی کی طرح سمجھا اور پرکھا جائے گا۔ مصرع اول میں صرف اتنا بیان ہوا ہے کہ شاعر اکثر اپنے شہر میں راہ بھول جاتا ہے ، شاعر کی ذہنی حالت یا وحشتِ عشق کی طرف کوئی لفظی یا معنوی اشارہ موجود نہیں۔ اس شعر میں باؤلی کے قافیے کو معنویت دینے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کی ذہنی کیفیت کے بارے میں کہیں نہ کہیں کوئی بات ضرور کی جائے ۔ ورنہ اس شعر سے قاری یہ مطلب بھی نکال سکتا ہے کہ وقت اور زمانے نے شہر کو اس طرح تبدیل کردیا ہے کہ اب گلی کوچے کم اور بھول بھلیاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں ۔ ہر طرف چکرادینے والی نئی تعمیرات ، نئے موڑ اور نئے لوگ نظر آتے ہیں ۔ وغیرہ ۔
سرور بھائی ، اگرچہ میں سمجھ گیا تھا کہ اس شعر میں باؤلی بمعنی پاگل ہی استعمال ہو ا ہے لیکن اس پر دوسرے معنوں کا گمان یوں گزرا کہ باؤلیوں سے متعلق بہت ساری حکایات اور افسانے مشہور ہیں ۔ قدیم باؤلیوں کی تہہ میں اکثر اشنان وغیرہ کے لیے اس طرح کی کوٹھڑیاں اور راہدداریاں وغیرہ بنائی جاتی تھیں کہ جن پر بھول بھلیوں کا گمان ہوتا تھا اور ان میں بھٹک جانے کے متعلق بہت ساری کہانیاں بھی مشہور ہیں ۔ اس لیے اس گمان کا اظہار ضروری سمجھا تاکہ اسی بہانے اس شعر پر بات ہوجائے۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
سرور بھائی ، آپ کا شکوہ بہت حد تک حق بجانب ہے ۔اردو محفل کیا اب تو کسی بھی محفل میں کلام پر نقد و نظر کم کم ہی نظر آتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اس موضوع پر کسی اور دھاگے میں کسی مناسب وقت پر بات ہوگی ۔ اب آپ یہاں آگئے ہیں تو امید ہو چلی ہے کہ داد وتحسین سے ہٹ کر بھی کچھ کارآمد باتیں ہوا کریں گی۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔



سرور بھائی ، لفظ باؤلی کا استعمال بذاتِ خود اس تذبذب کی وجہ بنا۔ پہلے مصرع کو پڑھنے کے بعد مصرعِ ثانی میں "اجنبی" کا قافیہ خود بخود ذہن میں آتا ہے۔ یعنی:
اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو اجنبی سی لگتی ہے
شعر کے سیاق و سباق میں اجنبی کا قافیہ فطری ہے اور یہی قافیہ دونوں مصرعوں کو مربوط کرتا ہے۔یعنی میں اپنے ہی شہر میں (کہ جس کے گلی کوچوں سے میں بخوبی واقف ہوں) اب راستہ بھول جاتا ہوں اور وجہ یہ کہ اب اس کے گلی کوچے مجھے شناسا کے بجائے اجنبی سے لگتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اجنبی جگہوں پر ہی راستہ بھولنے کا امکان ہوتا ہے ۔ لیکن گلی کوچوں کا باؤلا سا لگنا مصرعِ اول کے بیانیے کی توجیہہ پیش نہیں کرتا اور نہ ہی مصرعِ ثانی کو اس سے مربوط کرتا ہے ۔اگر مصرع اول میں راستہ بھولنے کے بجائے کچھ اس طرح کی بات ہوتی کہ اپنے ہی شہر میں اب ڈر لگتا ہے یا خوف آتا ہے تو باؤلی کا قافیہ معقول اور برمحل ہوتا۔ یعنی کسی باؤلے کو دیکھ کر آدمی ڈر سکتا ہے ، وحشت زدہ ہوسکتا ہے ، ڈر کر بھاگ سکتا ہے ۔ وغیرہ ۔ باؤلی کے قافیے کی ایک توجیہہ یہ ممکن ہے کہ کسی پاگل کو دیکھ کر آدمی بھاگ اٹھے اور پھر راستہ بھو ل جائے ۔ لیکن ایسی صورت میں دونوں مصرعوں کا ربط بہت کمزور رہے گا ، بہت کچھ قاری کے ذہن اور فکر پر چھوڑنا پڑے گا۔
جہاں تک اس توجیہہ کا تعلق ہے کہ عشق میں شاعر کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ وہ جانے پہچانے گلی کوچوں میں راہ بھول کر حیران و پریشان دیوانوں کی طرح بھٹکتا پھرتا ہے اور اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا، اسےہر شے اجنبی اوراپنی ہی طرح پاگل دکھائی دیتی ہے تو اس ساری صورتحال کا کوئی بھی اشارہ یا کنایہ شعر میں موجود نہیں ۔ چونکہ یہ مسلسل غزل کا شعر نہیں اس لیے اسے مفرد شعر ہی کی طرح سمجھا اور پرکھا جائے گا۔ مصرع اول میں صرف اتنا بیان ہوا ہے کہ شاعر اکثر اپنے شہر میں راہ بھول جاتا ہے ، شاعر کی ذہنی حالت یا وحشتِ عشق کی طرف کوئی لفظی یا معنوی اشارہ موجود نہیں۔ اس شعر میں باؤلی کے قافیے کو معنویت دینے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کی ذہنی کیفیت کے بارے میں کہیں نہ کہیں کوئی بات ضرور کی جائے ۔ ورنہ اس شعر سے قاری یہ مطلب بھی نکال سکتا ہے کہ وقت اور زمانے نے شہر کو اس طرح تبدیل کردیا ہے کہ اب گلی کوچے کم اور بھول بھلیاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں ۔ ہر طرف چکرادینے والی نئی تعمیرات ، نئے موڑ اور نئے لوگ نظر آتے ہیں ۔ وغیرہ ۔
سرور بھائی ، اگرچہ میں سمجھ گیا تھا کہ اس شعر میں باؤلی بمعنی پاگل ہی استعمال ہو ا ہے لیکن اس پر دوسرے معنوں کا گمان یوں گزرا کہ باؤلیوں سے متعلق بہت ساری حکایات اور افسانے مشہور ہیں ۔ قدیم باؤلیوں کی تہہ میں اکثر اشنان وغیرہ کے لیے اس طرح کی کوٹھڑیاں اور راہدداریاں وغیرہ بنائی جاتی تھیں کہ جن پر بھول بھلیوں کا گمان ہوتا تھا اور ان میں بھٹک جانے کے متعلق بہت ساری کہانیاں بھی مشہور ہیں ۔ اس لیے اس گمان کا اظہار ضروری سمجھا تاکہ اسی بہانے اس شعر پر بات ہوجائے۔

:)
+عزیز مکرم ظہیر صاحب: ذرہ نوازی کے لئے ممنون ہوں۔ غزل پر آپ کی خیال آرائی باعث مسرت وافتخار ہے۔ جب میں نے احباب سے یہ پوچھا تھا کہ غزل کی کون سی بات نے انھیں متاثر کیا تو اس سے انھیں داد کی جانب مائل کرنا مقصود نہیں تھا ۔ میں نے یہ دیکھا کہ محفل میں غزلوں پر ناقدانہ نظر بہت کم ڈالی جاتی ہے اور احباب سرسری تبصروں (؟) کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ تحصیل لا حاصل ہے۔تنقید و تحقیق کے بٰغیر ہم زندگی کے کسی شعبے میں بھی کوئی کار نمایاں نہیں کر سکتے۔لوگ اگر سوچنے کی جانب مائل ہوں تو ادب اور قارئین دونوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ لیکن اکثر احباب اس کے قائل نہیں ہیں اورنقد ونظرسے گھبراتے ہیں ۔ چنانچہ ہمارے ادب بلکہ ساری زندگی میں تنقید ی فکر ونظر کی بہت کمی ہے اور کسی طرح اس صورت حال کی اصلاح ضروری ہے۔ آپ نے جو غزل پر توجہ کی تو امید ہے دوسرے احباب بھی اس طرف متوجہ ہوں گے۔
اپنے شہر میں اکثر راہ بھول جاتا ہوں
ہر گلی مجھے اب تو باولی سی لگتی ہے
یہاں باولی سے کنواں مقصود نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ پاگل اور باوءلے میں بہت خفیف سا فرق ہے جسےشاید محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ باولےشخص کی وحشت ایک پاگل سے قدرے کم سمجھ لیں۔سب جانتے ہیں کہ شاعری میں نا ممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ بلبل خدا جانے کیوں گلاب کے عشق میں روتی ہے اور جواب میں گلاب اس پرہنستے ہیں ، ہوائیں گنگناتی ہیں، دیواروں کے کان ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ انسانوں کے گرد تنگ ہو کر ان کو وحشت زدہ کر دیتی ہیں۔ ایسی وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظرآ سکتا ہے۔ :عشق میں میری وحشت کا یہ عالم ہے کہ جانے پہچانے گلی کوچوں میں راہ بھول کر حیران و پریشان دیوانوں کی طرح بھٹکتا پھرتا ہوں اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مجھےہر شے اجنبی اوراپنی ہی طرح پاگل دکھائی دیتی ہے حتی کہ گلی کے در و دیوار بھی مجھے اتنےباولے نظر آتے ہیں کہ برسو ں کی شناسائی کےبا وجود گھر کا راستہ نہیں دکھا سکتے۔:
یہاں پہنچ کرمیری کیفیت یہ ہے کہ گلی کے باولے پن کو تو محسوس کرسکتا ہوں لیکن آپ کا تذبذب میرے لئے فکر و تردد کا باعث ہوگیا ہے کہ وہی باولاپن آپ کو کیوں نظر نہیں آتا؟ اس وقت اور کچھ کہنا مشکل ہے۔ ممکن ہے آپ کا تذبذب بجا ہو اور میری فکر ونگاہ ناقص۔ اس پہلو پر پھر سوچوں گا ، شاید کوئی راہ اس گلی میں سوجھ جائے اور یہی گلی کوچے مجھ کو گھر پہنچا دیں۔ واللہ اعلم!
خاکسار: سرور راز

خدا گواہ ہے کہ کوئی بھی شعر کبھی بھی سوچ سمجھ کر نہیں کہا!! اتنا سوچ سوچ کر بھی شاعری ہوتی ہے!! یا اللہ
کتنی ساری باتیں سمجھ میں آئیں ہیں۔ کتنے پہلو ؤں سے شعر کو سوچا جاتا ہے۔ کتنے زاویوں سے نکھارا جاتا ہے۔ مزہ آ گیا !!
ایسا لگ رہا ہے چائے کے ساتھ گرما گرم قیمے کے سموسے کھا لیے ہوں۔ ۔ شکریہ اساتذہ کرام
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
آہ اس محبت میں کیا مقام آیا ہے
خود کو اپنی صورت بھی اجنبی سی لگتی ہے

کوئی کیا سنے سرور تیری داستان ِ غم
بات جو بھی کرتا ہے، شاعری سی لگتی ہے
بھلا کوئی عام شاعر کہاں اسقدر خوبصورت انداز میں یہ بات بیان کرسکتا ہے اور جو بات دل پہ اثر کر جائے وہ بہت خاص ہوتی ہے ۔پر ہمیں اسقدر اچھا لکھنا کہاں آتا ہے جو آپکی تعریف کے لئے آپکی طرح خوبصورت الفاظ کا انتخاب کرسکیں ۔۔
ڈھیروں داد و تحسین ۔
سلامت رہیے ۔آمین
 
آخری تدوین:
Top