منیر نیازی راستے کی تھکن

راستے کی تھکن

آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بددیا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے

کتنے جتن کئے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے
 
Top