تعارف ذوقِ نعت [۱۳۲۶ھ]، نعتیہ دیوان ،
از: شاگرد داغ استاد زمن علامہ حسن رضابریلوی
تحریر: محمد ثاقب رضا قادری
مرکزالاولیا ء ، لاہور

مولانا حسن رضا کا نعتیہ دیوان ’’ذوق نعت‘‘ معروف بہ ’’صلۂ آخرت‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۳۲۶ھ میں آپ کے وصال کے بعدحکیم حسین رضا خان کی سعی و اہتمام سے طبع ہوا۔حمد، نعت، مناقب صحابہ و اولیأ،ذکر شہادت، بیان معراج، نغمۂ رُوح،کشفِ رازِ نجدیت ،رُباعیات اور چند تاریخی قطعات پر مشتمل ہے۔ تقریبًا تمام حروف تہجی کے ردیف میں مولانا نے کلام فرمایا ہے۔ اول طباعت پر اخبار ’’اہل ِفقہ‘‘ ،امرتسرکے ایڈیٹر مولانا غلام احمد صاحب نے ۲۰جولائی، ۱۹۰۹ء کے شمارہ میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا اشتہار دیا، جس کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں :
’’یہ نعتیہ دیوان جناب حضرت مولانا الحاج حسن رضا خان صاحب مرحوم و مغفور بریلوی کی تصنیف ہے۔ حضرت مولانا موصوف اعلیٰ درجہ کے ادیب اور شاعر تھے اور آپ کے کلام میں ایسی تاثیر ہے کہ دل اِس کے سننے سے بے اختیار ہو جاتا ہے۔ آپ کی قادرُالکلامی کا یہ عالم ہے کہ ایک دفعہ مجھے بریلی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نعتیہ رسالہ جاری کرنے والا ہوں، پہلی طرح ہو گی’’محوِ دیدار ِمحمد دل ہمارا ہو گیا‘‘، اس پر ایک نعتیہ غزل تحریر فرما دیجیے۔

آپ نے فورًا قلم برداشتہ غزل لکھ دی جس کے چند اشعار درج ہیں :
ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا
غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا
تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے
تیری ہیبت سے فلک کا مہ دو پارا ہو گیا
نام تیرا ذکر تیرا تُو ترا پیارا خیال
ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا
آپ نے ایام رحلت سے پہلے اپنا نعتیہ دیوان مرتب کرنا شروع کیا مگر افسوس کہ چھپنے سے پہلے آپ رہ گزارِ عالم جاودانی ہوئے اور اب یہ دیوان آپ کے فرزندرشید جناب مولوی حکیم حسین رضا خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ پر بکمالِ آب وتاب چھپوایا ہے۔ علاوہ نعت شریفوں کے حضراتِ بزرگان دین کی شان میں مناقب و قصائد لکھے ہیں۔ بعض مبتدعین کے ردمیں بھی چند نظمیں ہیں۔ تمام مسلمانوں کو عمومًا اور نعت خوانوں کو خصوصًااس قابل قدر کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے’’ ذوق نعت‘‘ کی تاریخ میں ایک شاہکار قطعہ لکھا، قطعہ کیا ہے اعلیٰ حضرت کی شاعر ی شکوہ انداز، حسنؔ کی یادیں ، شاعری اور شخصیت کا حسین مرقع، ملی اور مذہبی خدمات ، اپنے روابط اور حسنؔ سے جذباتی لگاؤ کا واضح اظہار جو اعماقِ قلب سے زبانِ قلم پر اُترا اور صفحہ قرطاس پر بکھر گیا ۔ آخری چار شعر ہر مصرع تاریخ، مصرع نصف کی تکرار، صنائع بدائع سے مملو، حسن وجمال کی تصویر دیکھیے ؎
قوت بازؤے من سُنّی نجدی فگن
حاجی و زائر حسن، سلمہٗ ذوالمنن
نعت چہ رنگیں نوشت، شعر خوش آئیں نوشت
شعر مگو دیں نوشت، دور ز ہر ریب و ظن
شرع ز شعرش عیاں، عرش بہ بتیش نہاں
سُنّیہ را حرزِ جاں، نجدیہ را سر شکن
قلقلِ ایں تازہ جوش، بادہ بہنگام نوش
نور فشاند بگوش، شہد چسکاں در دہن
کلک رضاؔ سالِ طبع، گفت بہ افضال طبع
زا نکہ از اقوالِ طبع، کلک بود نغمہ زن
’’اوج بہیں محمدت، جلوہ گہ مرحمت‘‘
’’عافیت عاقبت باد نوائے حسنؔ‘‘
’’بادِ نوائے حسنؔ، باب رضائے حسن‘‘ؔ
’’باب رضائے حسنؔ، باز بہ جلبِ منن‘‘
’’باز بہ جلبِ منن، بازوئے بخت قوی‘‘
’’بازوِ بخت قوی،نیک حجابِ محن‘‘
’’نیک حجابِ محن، فضل عفو و نبی‘‘
’’فضل عفو و نبی، حبل وی و حبل من‘‘
اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :
نعتِ حسنؔ آمدہ نعتِ حسن
حُسنِ رضا باد بزیں سلام
اِنَّ مِنَ الذَّوْقِ لَسِحْرٌ ہمہ
اِنَّ مِنَ الشِعْرِ لَحِکْمَۃٌ تمام
کلک رضاؔ داد چناں سال آں
یافت قول از شد رأس الانام

پاک و ہند میں’’ذوق نعت‘‘ کے کئی ایڈیشنز چھپ کر قبولیت عامہ حاصل کرچکے، لکھنؤ سے طبع ہونے والے پانچویں ایڈیشن میں کچھ کلام کا اضافہ کیا گیا ، غالبًایہی نسخہ بعد میں مرکزی انجمن حزب الاحناف، لاہور سے شاہ ابوالبرکات (خلیفۂ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی) نے شائع کروایا۔ اضافی کلام کی تفصیل پیش کی جاتی ہے :۱۔ اس ایڈیشن میں مولانا حسن رضا کی مثنویوں کو شامل کیا گیا، جن میں’’ وسائل بخشش ‘‘بھی شامل ہے اور کچھ میلاد شریف کے بیان پر مشتمل ہیں۔۲۔قصیدہ درمدح شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمۃ۳۔نذیر احمد دہلوی نے سیداحمدخان کی مد ح میں قصیدہ لکھا تھا جس کا ردیف ’’باقی‘‘تھا ، مولانانے اس قصیدہ کا ایک ایک شعر نقل کرکے پھر اسی ردیف میں نذیر احمد کے قصیدہ کا رد کیا ہے۔ تقریبًا سو (۱۰۰) سے زائد اشعار ہیں۔
 
علامہ حسن رضابریلوی کی نعتیہ شاعری
نعت اردو کی دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقت ور،معظّم،محترم اور محبوب وپاکیزہ صنف ہے۔اس کا آغاز یومِ میثاق ہی سے ہوچکا تھا۔قادرِ مطلق جل شانہٗ نے قرآنِ عظیم میں جابجا اپنے محبوبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرماکر نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشاہے۔صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات،اہلِ بیتِ اطہار،تابعین،تبع تابعین،ائمۂ مجتہدین،سلف صالحین،اغواث،اقطاب،ابدال،اولیا،صوفیہ،علمااور بلاتفریق مذہب و ملّت شعراوادباکاایک لامتناہی سلسلہ ہے جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہِ محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی عقیدت و محبت کے گل و لالہ بکھیرے ہیں۔
ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے باضابطہ طور پر آغاز کے آثار سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ملتے ہیں۔طوطیِ ہندحضرت امیر خسروؔ کو ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے میدان کا مستند شاعر کہاجاتاہے۔امیر خسروؔ فارسی زبان وادب کے ماہر تھے۔آپ کا کلامِ بلاغت نظام بھی فارسی ہی میں موجود ہے۔بعد ازاں جب اردو زبان کا وجود ہوا تب ہی سے اردو میں نعتیہ شاعری کا بھی آغاز ہوا۔خواجہ بندہ نواز گیسو دراز،فخرِ دین نظامی،غلام امامؔ شہید،لطف علی لطفؔ بدایونی،کفایت علی کافیؔ ،کرامت علی شہیدیؔ ،احمد نوریؔ مارہروی،امیر مینائی،بیدمؔ شاہ وارثی،نیازؔ بریلوی،آسیؔ غازی پوری،محسن کاکوروی اور امام احمد رضا بریلوی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی تک پہنچا اوراردو نعت گوئی کا یہ نا ختم ہونے والامقدس سفر ہنوز جاری و ساری ہے۔
امام احمد رضا بریلوی بلا شبہہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم نعت گو شاعر گزرے ہیں آپ حسّان الہند ہیں۔نعتیہ شاعری کے سرتاج اور اس فن کی عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ سخنورانِ عجم کے امام بھی ۔۔۔ اسی طرح آپ کے برادرِ اصغر علامہ حسن رضا بریلوی کے دیوان کے مطالعہ کے بعد انھیں بھی بلا تردد اردو کا ممتاز نعت گو شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔آپ کے نعتیہ دیوان’’ذوقِ نعت‘‘میں جہاں کلا سیکیت کے عناصر اور تغزّل کے رنگ کی بھر پور آمیزش ہے وہیں پیکر تراشی، استعاری سازی،تشبیہات، اقتباسات،فصاحت وبلاغت،حُسنِ تعلیل و حُسنِ تشبیب،حُسنِ طلب و حُسنِ تضاد ،لف و نشر مرتب و لف ونشر غیر مرتب ،تجانیس،تلمیحات،تلمیعات،اشتقاق،مراعاۃ النظیروغیرہ صنعتوں کی جلوہ گری بھی۔۔۔ اس دیوان میں نعت کے ضروری لواز م کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار قرار دیا جاسکتا ہے۔آپ کا پورا کلام خود آگہی،کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصور سے ہم کنار ہے۔مگر کیا کہا جائے اردو ادب کے اُن مؤرخین و ناقدین اور شعرا کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے گروہی عصبیت اور جانبداریت کے تنگ حصار میں مقید و محبوس ہوکر اردو کے اس عظیم شاعر کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یکسر خالی رکھا نیز یہ شاعر جس قادر الکلام شاعر کی بارگاہ میں اپنے نعتیہ کلام کو زیورِ اصلاح سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے پیش کرتا تھا اُس (یعنی امام احمد رضا بریلوی) کا بھی ذکرِ خیر اپنی کتابوں میں نہ کرکے اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین ادبی جُرم کا ارتکاب کیا ہے۔وہ تو بھلا ہو لالہ سری رام کا جنھوں نے ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جلد دوم کے صفحہ ۴۵۰ پر علامہ حسن رضا بریلوی کا تذکرہ کرکے اپنے آپ کو متعصب مؤرخینِ اردو ادب سے جدا کر لیا ہے۔موصو ف لکھتے ہیں۔
’’سخنورِ خوش بیاں،ناظمِ شیریں زباں مولانا حاجی محمد حسن رضا خاں صاحب حسن ؔ بریلوی خلف مولانا مولوی نقی علی خاں صاحب مرحوم و برادر مولانا مولوی احمد رضاخاں صاحب عالمِ اہلِ سنت و شاگردِ رشید حضرت نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی۔۔۔ ۔۔۔ نعت گوئی میں اپنے برادرِ بزرگ مولوی احمد رضا خاں سے مستفیض ہیں اور عاشقانہ رنگ میں بلبلِ ہندوستان داغؔ سے تلمذ تھا‘‘۔
یہاں یہ امر باعثِ حیرت و استعجاب ہے کہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جیسے ضخیم تذکرے میں امام احمد رضابریلوی کا ذکر محض اس مقام کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے جبکہ آپ کا ذکر بحیثیتِ شاعر الگ سے ہونا چاہیے تھا ،یہاں پر آپ کا تذکرہ صر ف علامہ حسن رضا بریلوی کے بڑے بھائی کی حیثیت سے ہے اس موقع پر ماہرِ غالبیات کالیداس گپتا رضاؔ کی اس تحریر کو نقل کرنا غیر مناسب نہ ہوگا،گپتا صاحب رقم طراز ہیں۔
’’تاہم حیرت ہے کہ اس ضخیم تذکرے میں اِن (حسنؔ رضا بریلوی) کے بڑے بھائی ’’عالمِ اہلِ سنت اور نعت گوئی میں اُن کے استاذ جناب احمد رضا خاں کے ذکر نے جگہ نہ پائی۔‘‘(ماہنامہ قاری،دہلی ، امام احمد رضا نمبر ،اپریل ۱۹۸۹ ء ،مضمون: امام احمد رضا بحیثیتِ شاعر،از: کالیداس گپتا رضا ،ص ۴۵۶)۔
استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کاکلامِ بلاغت نظام معنی آفرینی کے لحاظ سے جس قدر بلند و بالا ہے اس پر اس قدر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا ہے۔غالباً آپ کی شاعری پر پہلا مقالہ رئیس المتغزلین سید فضل الحسن قادری رضوی رزّاقی مولانا حسرتؔ موہانی علیہ الرحمۃ (م)کا تحریر کردہ ہے جو کہ ’’اردوئے معلی‘‘علی گڑھ کے شمارہ جون ۱۹۱۲ء میں اشاعت پذیر ہواتھا۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت،از : فرزندِ استاذ زمن علامہ حسنین رضا خاں بریلوی،مطبوعہ،مکتبۂ مشرق ،بریلی،ص ۱۳ سے ۱۷ تک مولانا حسرتؔ موہانی کا یہ مضمون درج ہے)۔
اس مسلمہ حقیقت سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خانوادۂ رضا کا طرۂ امتیاز ہے۔حدائقِ بخشش(از:امام احمد رضا بریلوی)اور ’’ذوقِ نعت‘‘کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں بھائیوں کو محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھٹی میں گھول کر پلائی گئی ہے۔’’حدائقِ بخشش‘‘ محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایسا میخانہ ہے جہاں کی پاکیزہ شراب سے آج ساری دنیا کے خوش عقیدہ مسلمان سیراب ہورہے ہیں۔اسی طرح ’’ذوقِ نعت‘‘ بھی محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حسیٖن مجموعہ ہے جس کا ورق ورق محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تابندہ و فروزاں اور سطر سطر میں تعظیم و ادبِ رسالت کی جلوہ گری ہے ؂
نام تیرا ، ذکر تیرا تو ترا پیارا خیال
ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہوگیا
یہ پیاری ادائیں ، یہ نیچی نگاہیں
فدا جانِ عالم ہے اے جانِ عالم
یہ کس کے روے نکو کے جلوے زمانے کو کررہے ہیں روشن
یہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے
رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم
رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی
تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا
اللہ کرے وقار آقا
علامہ حسن رضا بریلوی کا روئے سخن نعت گوئی سے قبل غزل گوئی کی طرف تھا۔مگر جب آپ نے اپنے برادرِ اکبر امام احمد رضا بریلوی کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کیا تو طبیعت میں انقلاب برپا ہوگیا،دل میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دبی ہوئی چنگاری شعلۂ جوالہ بن کر اُبھر گئی اور آپ نعتیہ شاعری کے میدان کے ایک ایسے عظیم ترین شہسوار بن گئے کہ جلد ہی ’’اُستاذِ زمن‘‘ کے لقب سے دنیاے شعر وادب میں پہچانے جانے لگے۔امام احمد رضا بریلوی کی اس نظرِ عنایت کا انھیں بھی اعتراف ہے ۔’’ذوقِ نعت‘‘ میں ایک مقام پر اپنے برادرِ معظّم کے حق میں یوں دعا کی ہے ؂
بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضاؔ سے
بھلا ہو الٰہی جنابِ رضاؔ کا
میرے خیال میں’’ حدائقِ بخشش‘‘ کے اشعارِ آبدار کے معنی ومفہوم کے فہم میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا مطالعہ نا گزیر ہے ۔حدائقِ بخشش جہاں فکر و تخیل کا ایک بحرِ بیکراں اور معنی آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے وہیں ذوقِ نعت اس بحرِ بیکراں کی غواصی کے ذریعہ حاصل کردہ صدف سے نکالے گئے قیمتی موتیوں سے پرویا ہوا خوشنما ہار ہے اور اس کے اشعار فکرِ رضا کے سہل انداز میں شارح و ترجمان ہیں ؂
قرآن کھارہا ہے اسی خاک کی قسم
ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز
کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پر لوٹے
تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا
ذات بھی تیری انتخاب ہوئی
نام بھی مصطفی ہوا تیرا
قمر اک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا
زمانہ پہ روشن ہیں طاقت کسی کی
وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ
نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی
علامہ حسن رضا بریلوی کا نعتیہ کلام شاعری کی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات سے سجا سنورا اور تمام تر فنّی محاسن سے مزین اور آراستہ ہے موضوعات کا تنوع،فکر کی ہمہ گیری،محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ جذبات کی فراوانی کے اثرات جابجا ملتے ہیں۔آپ کے کلام میں اندازِبیان کی ندرت بھی ہے اور فکر و تخیل کی بلندی بھی،معنی آفرینی بھی ہے، تصوّفانہ آہنگ بھی،استعارہ سازی بھی ہے، پیکر تراشی بھی ،طرزِ ادا کا بانکپن بھی ہے، جدت طرازی بھی ،کلاسیکیت کا عنصر بھی ہے،رنگِ تغزل کی آمیزش بھی ،ایجاز و اختصاراور ترکیب سازی بھی ہے،عربی اور فارسی کا گہرا رچاؤ بھی ؂
لبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں
ہو مجھے تارِ نفَس ہر خطِ مسطر کاغذ
کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومن
تمہارے در پہ رہ جاوں جو سنگِ آستاں ہوکر
آستانہ پہ ترے سر ہو اجل آئی ہو
اور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو
اونچی ہوکر نظر آتی ہے ہر اک شَے چھوٹی
جاکے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا
شاعری میں ایجاز واختصار کلام کی ایک بڑی اور اہم خوبی ہے۔اس میں علامہ حسن رضا بریلوی کو کافی ملکہ حاصل تھا ۔مشکل اور طویل مضامین کو سہل انداز میں ایک ہی شعر میں کہہ کر گزر جانا آپ کے مسلم الثبوت شاعر ہونے کی واضح اور روشن دلیل ہے ؛مثالیں خاطر نشین ہوں ؂
گناہ گار پہ جب لطف آپ کا ہوگا
کِیا بغیر کِیا بے کِیا ہوگا
کیا بات تمہارے نقشِ پا کی
ہے تاج سرِ وقار آقا
بت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہے
مل مل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج
گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو
جتنی ہو قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو
اسی طرح کم سے کم لفظوں میں مفہوم کی ادائیگی اور شعر میں بلاغت بھرنے کے لیے ترکیب سازی کی بڑی اہمیت ہے۔شاعری میں محبوب یا ممدوح کے اوصافِ بلیغ کے اظہار میں تراکیب اہم رول ادا کرتی ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کے نعتیہ کلام میں جہاں تمام ادبی و فنّی محاسن موجود ہیں وہیں ترکیب سازی کے بہت ہی دل کش اور نادر نمونے ملتے ہیں ؂
اس مہک پر شمیم بیز سلام
اس چمک پر فروغ بار دُرود
زخم دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیٖم
روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس
اے نظمِ رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع
تو نے ہی اسے مطلعِ انوار بنایا
زمیں کے پھول گریباں دریدہ غمِ عشق
فلک پہ بدر ، دل افگارِ تابِ حسنِ ملیح
صبیح ہوں کہ صباحتِ جمیل ہوں کہ جمال
غرض سبھی ہیں نمک خوارِ بابِ حسنِ ملیح
اگر دودِ چراغِ بزمِ شہ چھو جائے کاجل کو
شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کے کلام کی خصوصیات پر اگر قلم کو جنبش دی جائے تواس متنوع خوبیوں اور محاسن سے لبریز کلام کا احاطہ اس مختصر سے مقالے میں ناممکن ہے۔کیوں کی آپ کی شعری کائنات کے کما حقہٗ تعارف کے لیے ایک عظیم دفتر درکار ہے۔اسی لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اجمالی جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔
مالکِ کون ومکاں باعثِ کن فکاں صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ مطلق جل شانہٗ نے مجبور و بے کس نہیں بل کہ مالِک ومختار بناکر اس خا ک دانِ گیتی پر مبعوث فرمایاہے۔آقا و مولا صاحبِ اختیار ہیں اور آپ کے کمالات ارفع و اعلا ہیں ،اس طرح کے اظہار سے ’’ذوقِ نعت ‘‘ کے اوراق مزین و آراستہ ہیں ؂
ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا
تمہیں ہو مالکِ مِلکِ خدا خاص
وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ
نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی
کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
کیوں نہ ہو تم مالکِ مِلکِ خدا مُلکِ خدا
سب تمہارا ہے ، خدا ہی جب تمہارا ہوگیا
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیا و المرسلین ہیں ۔آپ کے اوصاف و کمالات ،شمائل و فضائل اس قدر ارفع و اعلا،افضل و بالا ہیں کہ اس میں دوسرے انبیا آپ کے شریک نہیں اور خداوندِ قدوس سے آپ کو سب سے زیادہ قربت حاصل ہے ؂
شریک اس میں نہیں کوئی پیمبر
خدا سے ہے جو تجھ کو واسطہ خاص
تمام بندگانِ خدا ہر ہر کام میں اپنے خالق و مالک جل شانہٗ کی مرضی و مشیت کے طلب گار ہیں۔مگر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جومرضی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بھی خوش نودی و رضا ہے۔نقاشِ ازل جل شانہٗ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ پیشانی پر یہ بات بہ خطِّ قدرت ازل ہی میں تحریر فرمادی تھی ؂
قدرت نے ازل میں یہ لکھا ان کی جبیں پر
جو ان کی رضا ہو وہی خالق کی رضا ہو
ایک عاشق کی یہ سب سے بڑی آرزو اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے محبوبِ رعنا ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے روئے منور کی زیارت نصیب ہوجائے ۔علامہ حسنؔ رضا بریلوی جامِ روے جاناں کی تشنگی رکھتے ہیں اور آپ کی یہ تشنگی اتنی فزوں تر ہے کہ اگر نزع کے وقت حورانِ خلد آکر آپ کے آگے جام پر جام لنڈھائیں بھی تو آپ ان کی طرف نگہِ التفات کرنے کی بجاے اپنا رُ خ دوسری جانب پھیر لیں گے ؂
دے اس کودمِ نزع اگر حور بھی ساغر
منھ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو
عاشق چاہتا ہے کہ سرورِ انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کے جلووں سے دل منور و مجلا ہوجائے اور ہمہ وقت اس میں مدینے کی یاد رچی بسی رہے ؂
رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے
مرا دل بنے یادگارِ مدینہ
لالہ و گل کی نکہتوں اور گلستانوں کے رنگ و بہار پر صحرائے مدینہ کو اس طرح فوقیت دی جارہی ہے ؂
رنگِ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند
صحراے طیبہ ہے دلِ بلبل کو تُو پسند
علامہ حسنؔ رضا بریلوی آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرِ پاک کی خواہش و تمنا کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں یوں دعا گو ہیں ؂
مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے
خدایا دکھادے بہارِ مدینہ
صحرائے مدینہ کے حصول کے بعد جنت اور بہارِ گلشن کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ان کو صحراے مدینہ کے آگے یوں ہیچ بتایا ہے ؂
خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا
جب زاہد عاشق کو جنت کے باغوں کا پھول دے کر اسے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جنت کے لالہ و گل کو محبوبِ دل نواز ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہرِ رعنا کے خوش نما کانٹوں کے آگے بے وقعت سمجھتے ہوئے زاہد کو اس طرح خطاب کرتا ہے کہ ؂
گلِ خلد لے کے زاہد تمہیں خارِ طیبہ دے دوں
مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی تڑپ اور لگن ہے کہ اس دنیا سے جاتے وقت بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زبان پر ترانۂ نعت جاری رہے ؂
خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رخصت
زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی
موت کے بعد مدینۂ طیبہ کا غبار بننے اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس کوچہ میں دفن ہونے کی ایمانی خواہش کا یوں اظہار کرتے ہیں ؂
مری خاک یارب نہ برباد جائے
پسِ مرگ کردے غبارِ مدینہ
مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی
جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو
زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں
لگادے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے
عاشق کی نظر میں روزِ محشر کا انعقاد صرف اسی لیے ہوگا کہ اس دن محبوبِ خدا( صلی اللہ علیہ وسلم )کی شانِ محبوبی دکھائی جائے گی کیوں کہ آپ اس روز عصیاں شعاروں اور گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے ؂
فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزمِ محشر کا
کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی
عاشق کہتا ہے کہ مجھے میدانِ محشر میں کوئی خوف نہیں ہوگا کیوں کہ یہ آقا و مولا میرا شفیع ہے ؂
خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا
مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے
جب کہ اس کے برعکس منکرینِ شفاعت اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ایک ایک کا منھ تکتے اِدھر اُدھر بھٹکتے رہیں گے ؂
حشر میں اک ایک کا منھ تکتے پھرتے ہیں عدوٗ
آفتوں میں پھنس گئے تیرا سہارا چھوڑ کر
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی محافل میں پڑھے جانے والے بہت سارے میلاد نامے’’ذوقِ نعت‘‘ ہی کے ہیں وہ تمام کے تمام شعری کمال کے اعلا نمونے ہیں۔چند اشعار خاطر نشین ہوں ؂
فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے
زمینِ خلد کی کیاری ہے بارہویں تاریخ
جھکالائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارض
کہ وہ ماہِ دل آرا اَب زمیں پر آنیوالاہے
وہ مہر مِہر فرما وہ ماہِ عالم آرا
تاروں کی چھاوں آیا صبحِ شبِ ولادت
خوشبو نے عنادل سے چھڑائے چمن و گل
جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کایہ کمالِ شاعری ہے کہ آپ ایک لفظ کو ایک معنی پر ایک شعر میں اس پُرکاری اور ہنر مندی سے استعمال کرتے ہیں کہ تکرار کا نقص نہیں بل کہ تخیل کا حسن پیدا ہوجاتا ہے مثلاً ؂
ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر
ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی
رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم
رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی
نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے
نکالی ہے تو آنیوالوں کی حسرت نکالی ہے
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری میں کلاسیکیت اور تغزل کارنگ حد درجہ غالب ہے۔نعت کے اعلا ترین تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان دونوں کو یک جا کرکے سلامت روی کے ساتھ گذر جاناعلامہ حسنؔ رضا بریلوی کی قادرالکلامی کی بیّن دلیل ہے۔ذیل میں برنگِ تغزل آپ کے چیدہ چیدہ اشعار خاطر نشین فرمائیں ؂
مرے دل کو دردِ الفت ، وہ سکون دے الٰہی
مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی
بھرے زخم دل کے ملاحت کسی
روشن ہے ان کے جلوۂ رنگیں کی تابشیں
بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح
ہوا بدلی گھرے بادل کھلیں گل بلبلیں چہکیں
تم آئے یا بہارِ بے خزاں آئی گلستاں میں
کیا مزے کی زندگی ہے زندگی عشاق کی
آنکھیں ان کی جستجو میں دل میں ارمانِ جمال
زینتوں سے ہے حسینانِ جہاں کی زینت
زینتیں پاتی ہیں جلوے تری زیبائی کے
جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھی
ہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حسنِ ملیح
اپنا ہے وہ عزیز جسے تو عزیز ہے
ہم کو تو وہ پسند جسے آئے تو پسند
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو
بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت
مٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو
تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے
پڑے ہوئے تو زرِ رہِ گذار ہم بھی ہیں
’’ذوقِ نعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ قابلِ لحاظ حصہ مناقب پر بھی مشتمل ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی مرتضیٰ ،حضرت امام حسین وشہدائے کربلارضی اللہ عنہم حضرت غوثِ اعظم،حضرت خواجہ غریب نواز،حضرت شاہ اچھے میاں و شاہ بدیع الدین مدار قدست اسرارہم کی شانِ اقدس میں منقبتیں جہاں ایک طرف شعری و فنی کمال کا نمونہ ہیں وہیں علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی اپنے ممدوحین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظہرِ جمیل بھی۔
علاوہ ازیں ’’ذوقِ نعت‘‘ میں شامل ایک نظم بہ عنوان’’کشفِ رازِ نجدیت‘‘لطیف طنز و ظرافت کا بے مثال فنی نمونہ ہے،اسی طرح اس دیوان میں مسدّس منظومات ،نعتیہ رباعیات اور سلامیہ قصائد بھی موجود ہیں۔جہانِ لوح وقلم اور دنیاے سنیت میں استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسن ؔ بریلوی کے نام چند صفحات تحریرکرکے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان کی وسیع ترشعری کائنات کے تعارف کاحق ادا کررہاہوں ،بل کہ خدائے لم یزل کی طرف سے ملنے والی اس رحمتِ بے پایاں اور ثوابِ عظیم میں خود کو شریک کررہاہوں جواُلفتِ مصطفی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم میں ڈوبے ہوئے’’ذوقِ نعت‘‘ کے اشعارِ آب دار کو پڑھ کر گناہ گاروں کی قسمت میں ارزاں کردیا جاتا ہے۔
(ماہ نامہ کنزالایمان ،دہلی جلد نمبر ۳،شمارہ نمبر ۱۱ ،ستمبر ۲۰۰۱ء/جمادی الثانی ۱۴۲۲ھ،صفحہ۳۸/۴۲)
 
(ردیف الف)
ہے پاک رُتبہ فکرسے اُس بے نیاز کا
ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا
کچھ دخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا
شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجاب
کیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا
لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرئے ہوئے
اﷲ رے جگر ترے آگاہ راز کا
غش آ گیا کلیم سے مشتاقِ دید کو
جلوہ بھی بے نیاز ہے اُس بے نیاز کا
ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانع کی صنعتیں
عالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا
اَفلاک و ارض سب ترے فرماں پذیر ہیں
حاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا
اس بے کسی میں دل کو مرے ٹیک لگ گئی
شُہرہ سنا جو رحمتِ بے کس نواز کا
مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہے
دے لطف میری جان کو سوز و گداز کا
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا
بندہ پہ تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیط
اﷲ کر علاج مری حرص و آز کا
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔ
بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کار ساز کا
000000000
 
فکر اسفل ہے مری مرتبہ اَعلیٰ تیرا
فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اعلیٰ تیرا
وصف کیا خاک لکھے خاک کا پُتلا تیرا
طور پر ہی نہیں موقوف اُجالا تیرا
کون سے گھر میں نہیں جلوئہ زیبا تیرا
ہر جگہ ذکر ہے اے واحد و یکتا تیرا
کون سی بزم میں روشن نہیں اِکّا تیرا
پھر نمایاں جو سر طُور ہو جلوہ تیرا
آگ لینے کو چلے عاشقِ شیدا تیرا
خِیرہ کرتا ہے نگاہوں کو اُجالا تیرا
کیجیے کون سی آنکھوں سے نظارہ تیرا
جلوئہ یار نرالا ہے یہ پردہ تیرا
کہ گلے مل کے بھی کھلتا نہیں ملنا تیرا
کیا خبر ہے کہعَلَی الْعَرْش (۱)کے معنی کیا ہیں
کہ ہے عاشق کی طرح عرش بھی جویا تیرا
اَرِنِیِْگوئے سرِ طُور سے پوچھے کوئی
کس طرح غش میں گراتا ہے تجلّا تیرا
پار اُترتا ہے کوئی، غرق کوئی ہوتا ہے
کہیں پایاب کہیں جوش میں دریا تیرا
باغ میں پھول ہوا، شمع بنا محفل میں
جوشِ نیرنگ در آغوش ہے جلوہ تیرا
نئے انداز کی خلوت ہے یہ اے پردہ نشیں
آنکھیں مشتاق رہیں دل میں ہو جلوہ تیرا
شہ نشیں ٹوٹے ہوئے دل کو بنایا اُس نے
آہ اے دیدئہ مشتاق یہ لکھا تیرا
سات پردوں میں نظر اور نظر میں عالم
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ معمّا تیرا
طُور کا ڈھیر ہوا غش میں پڑے ہیں موسیٰ
کیوں نہ ہو یار کہ جلوہ ہے یہ جلوہ تیرا
چار اضداد کی کس طرح گرہ باندھی ہے
ناخنِ عقل سے کھلتا نہیں عقدہ تیرا
دشتِ ایمن میں مجھے خاک نظر آئے گا
مجھ میں ہو کر نظر آتا نہیں جلوہ تیرا
ہر سحر نغمۂ مرغانِ نواسنج کا شور
گونجتا ہے ترے اوصاف سے صحرا تیرا
وحشیِ عشق سے کھلتا ہے تو اے پردئہ یار
کچھ نہ کچھ چاکِ گریباں سے ہے رشتہ تیرا
سچ ہے اِنسان کو کچھ کھو کے ملا کرتاہے
آپ کو کھو کے تجھے پائے گا جویا تیرا
ہیں ترے نام سے آبادی و صحرا آباد
شہر میں ذکر ترا، دشت میں چرچا تیرا
برقِ دیدار ہی نے تو یہ قیامت توڑی
سب سے ہے اور کسی سے نہیں پردہ تیرا
آمدِ حشر سے اک عید ہے مشتاقوں کی
اسی پردے میں تو ہے جلوئہ زیبا تیرا
سارے عالم کو تو مشتاقِ تجلّی پایا
پوچھنے جایئے اب کس سے ٹھکانا تیرا
طور پر جلوہ دکھایا ہے تمنائی کو
کون کہتا ہے کہ اپنوں سے ہے پردہ تیرا
کام دیتی ہیں یہاں دیکھیے کس کی آنکھیں
دیکھنے کو تو ہے مشتاق زمانہ تیرا
مے کدہ میں ہے ترانہ تو اَذاں مسجد میں
وصف ہوتا ہے نئے رنگ سے ہر جا تیرا
چاک ہو جائیں گے دل جیب و گریباں کس کے
دے نہ چھپنے کی جگہ راز کو پردہ تیرا
بے نوا مفلس و محتاج و گدا کون کہ میں
صاحبِ جود و کرم، وصف ہے کس کا تیرا
آفریں اہلِ محبت کے دلوں کو اے دوست
ایک کوزے میں لیے بیٹھے ہیں دریا تیرا
اتنی نسبت بھی مجھے دونوں جہاں میں بس ہے
تو مرا مالک و مولیٰ ہے میں بندہ تیرا
اُنگلیاں کانوں میں دے دے کے سنا کرتے ہیں
خلوتِ دل میں عجب شور ہے برپا تیرا
اب جماتا ہے حسنؔ اُس کی گلی میں بستر
خوب رویوں کا جو محبوب ہے پیارا تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) خالق کائنات نے قرآن پاک میں جہاں تخلیق ارض و سما کا ذکر فرمایا وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا: ثم استوی علی العرش یعنی پھر عرش پر استوا ء فرمایا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) ۔ قرآن پاک میں یہ الفاظ چھ مقام پر آئے ہیں (سورہ الاعراف:۵۴،یونس:۳، الرعد:۲،الفرقان:۵۹، السجدہ:۴، الحدید:۴ )مزید ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے: الرحمن علی العرش استوی یعنی وہ بڑی مِہر والا ،اُس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اُس کی شان کے لائق ہے۔(طہ:۵)
چونکہ استوی کا لغوی معنی قرار پکڑنا، بیٹھنا کے ہیں جو کہ کسی طرح بھی شان اُلوہیت کے لائق نہیں ۔ اسی لیے سیدی اعلیٰ حضرت نے ان آیات کا ترجمہ میں لفظ استوی کا ترجمہ نہ کیا ۔ یہ لفظ متشابہات میں سے ہے ۔ مولانا حسن رضا نے اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ علی العرش کے معنی سمجھنا عقل انسانی کے بس کی بات نہیں۔
000000
 
جن واِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیرا
جن و اِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیرا
سرورا مرجعِ کل ہے درِ والا تیرا
واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیرا
خوب رو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا
دَہر میں آٹھ پہر بٹتا ہے باڑا تیرا
وقف ہے مانگنے والوں پہ خزانہ تیرا
لا مکاں میں نظر آتا ہے اُجالا تیرا
دُور پہنچایا ترے حسن نے شہرہ تیرا
جلوئہ یار اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا
حسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا
یہ نہیں ہے کہ فقط ہے یہ مدینہ تیرا
تو ہے مختار، دو عالم پہ ہے قبضہ تیرا
کیا کہے وصف کوئی دشتِ مدینہ تیرا
پھول کی جانِ نزاکت میں ہے کانٹا تیرا
کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پہ لوٹے
تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا
خسروِ کون و مکاں اور تواضع ایسی
ہاتھ تکیہ ہے ترا، خاک بچھونا تیرا
خوب رویانِ جہاں تجھ پہ فدا ہوتے ہیں
وہ ہے اے ماہِ عرب حُسنِ دل آرا تیرا
دشتِ پُر ہول میں گھیرا ہے درندوں نے مجھے
اے مرے خضر اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا
بادشاہانِ جہاں بہر گدائی آئیں
دینے پر آئے اگر مانگنے والا تیرا
دشمن و دوست کے منہ پر ہے کشادہ یکساں
روے آئینہ ہے مولیٰ درِ والا تیرا
پائوں مجروح ہیں منزل ہے کڑی بوجھ بہت
آہ اگر ایسے میں پایا نہ سہارا تیرا
نیک اچھے ہیں کہ اعمال ہیں اُن کے اچھے
ہم بدوں کے لیے کافی ہے بھروسا تیرا
آفتوں میں ہے گرفتار غلامِ عجمی
اے عرب والے اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا
اُونچے اُونچوں کو ترے سامنے ساجد پایا
کس طرح سمجھے کوئی رُتبۂ اعلیٰ تیرا
خارِ صحراے نبی پاؤں سے کیا کام تجھے
آ مرِی جان مرِے دل میں ہے رستہ تیرا
کیوں نہ ہو ناز مجھے اپنے مقدر پہ کہ ہوں
سگ ترا، بندہ ترا، مانگنے والا تیرا
اچھے اچھے ہیں ترے در کی گدائی کرتے
اُونچے اُونچوں میں بٹا کرتا ہے صدقہ تیرا
بھیک بے مانگے فقیروں کو جہاں ملتی ہو
دونوں عالم میں وہ دروازہ ہے کس کا تیرا
کیوں تمنا مری مایوس ہو اے ابرِ کرم
سُوکھے دھانوں کا مددگار ہے چھینٹا تیرا
ہائے پھر خندۂ بے جا مرے لب پر آیا
ہائے پھر بھول گیا راتوں کا رونا تیرا
حشر کی پیاس سے کیا خوف گنہ گاروں کو
تشنہ کاموں کا خریدار ہے دریا تیرا
سوزنِ گم شدہ ملتی ہے تبسم سے ترے
شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا
صدق نے تجھ میں یہاں تک تو جگہ پائی ہے
کہہ نہیں سکتے اُلش کو بھی تو جھوٹا تیرا
خاص بندوں کے تصدّق میں رہائی پائے
آخر اس کام کا تو ہے یہ نکما تیرا
بندِ غم کاٹ دیا کرتے ہیں تیرے اَبرو
پھیر دیتا ہے بلائوں کو اشارہ تیرا
حشر کے روز ہنسائے گا خطاکاروں کو
میرے غمخوارِ دل شب میں یہ رونا تیرا
عملِ نیک کہاں نامۂ بدکاراں میں
ہے غلاموں کو بھروسا مرے آقا تیرا
بہر دیدار جھک آئے ہیں زمیں پر تارے
واہ اے جلوئہ دل دار چمکنا تیرا
اُونچی ہو کر نظر آتی ہے ہر اک شے چھوٹی
جا کے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا
اے مدینے کی ہوا دل مرا افسردہ ہے
سُوکھی کلیوں کو کھلا جاتا ہے جھونکا تیرا
میرے آقا تو ہیں وہ ابرِ کرم، سوزِ اَلم
ایک چھینٹے کا بھی ہو گا نہ یہ دُہرا تیرا
اب حسنؔ منقبتِ خواجۂ اجمیر سنا
طبع پرُ جوش ہے رُکتا نہیں خامہ تیرا
 
منقبت حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ
خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
مئے سر جوش در آغوش ہے شیشہ تیرا
بے خودی چھائے نہ کیوں پی کے پیالہ تیرا
خفتگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہے
سالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا
ہے تری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارے
کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا
جورِ پامالیِ عالم سے اُسے کیا مطلب
خاک میں مل نہیں سکتا کبھی ذرّہ تیرا
کس قدر جوشِ تحیّر کے عیاں ہیں آثار
نظر آیا مگر آئینے کو تلوا تیرا
گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ اے ابرِ کرم زورِ برسنا تیرا
کیا مہک ہے کہ معطر ہے دماغِ عالم
تختۂ گلشنِ فردوس ہے روضہ تیرا
تیرے ذرّہ پہ معاصی کی گھٹا چھائی ہے
اس طرف بھی کبھی اے مہر ہو جلوہ تیرا
تجھ میں ہیں تربیتِ خضر کے پیدا آثار
بحر و بَر میں ہمیں ملتا ہے سہارا تیرا
پھر مجھے اپنا درِ پاک دکھا دے پیارے
آنکھیں پرُ نور ہوں پھر دیکھ کے جلوہ تیرا
ظِلّ حق غوث پہ، ہے غوث کا سایہ تجھ پر
سایہ گستر سرِ خدام پہ سایہ تیرا
تجھ کو بغداد سے حاصل ہوئی وہ شانِ رفیع
دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رُتبہ تیرا
کیوں نہ بغداد میں جاری ہو ترا چشمۂ فیض
بحرِ بغداد ہی کی نہر ہے دریا تیرا
کرسی ڈالی تری تختِ شہِ جیلاں کے حضور
کتنا اُونچا کیا اﷲ نے پایا تیرا
رشک ہوتا ہے غلاموں کو کہیں آقا سے
کیوں کہوں رشک دہِ بدر ہے تلوا تیرا
بشر افضل ہیں ملک سے تری یوں مدح کروں
نہ ملک خاص بشر کرتے ہیں مُجرا تیرا
جب سے تو نے قدمِ غوث لیا ہے سر پر
اولیا سر پر قدم لیتے ہیں شاہا تیرا
محیِ دیں غوث ہیں اور خواجہ معین الدیں ہے
اے حسنؔ کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا

000000000
 
آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا
آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا
روز اک چاند تصدق میں اُتارا کرتا
طوفِ روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقف
میں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا
صَرصرِ دشتِ مدینہ جو کرم فرماتی
کیوں میں افسردگیِ بخت کی پرواہ کرتا
چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاب
اور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا
یہ وہی ہیں کہ گرِو آپ۔۔ اور ان پر مچلو
اُلٹی باتوں پہ کہو کون نہ سیدھا کرتا
ہم سے ذرّوں کی تو تقدیر ہی چمکا جاتا
مہر فرما کے وہ جس راہ سے نکلا کرتا
دُھوم ذرّوں میں اناالشمس کی پڑ جاتی ہے
جس طرف سے ہے گزر چاند ہمارا کرتا
آہ کیا خوب تھا گر حاضرِ دَر ہوتا میں
اُن کے سایہ کے تلے چین سے سویا کرتا
شوق وآداب بہم گرمِ کشاکش رہتے
عشقِ گم کردہ تواں عقل سے اُلجھا کرتا
آنکھ اُٹھتی تو میں جھنجھلا کے پلک سی لیتا
دِل بگڑ تا تو میں گھبرا کے سنبھالا کرتا
بے خودانہ کبھی سجدہ میں سوے دَر گرِتا
جانبِ قبلہ کبھی چونک کے پلٹا کرتا
بام تک دل کو کبھی بالِ کبوتر دیتا
خاک پر گر کے کبھی ہائے خدایا کرتا
گاہ مرہم نہیِ زخمِ جگر میں رہتا
گاہ نشتر زنیِ خونِ تمنا کرتا
ہم رہِ مہر کبھی گردِ خطیرہ پھرتا
سایہ کے ساتھ کبھی خاک پہ لوٹا کرتا
صحبتِ داغِ جگر سے کبھی جی بہلاتا
اُلفتِ دست و گریباں کا تماشا کرتا
دلِ حیراں کو کبھی ذوقِ تپش پہ لاتا
تپشِ دل کو کبھی حوصلہ فرسا کرتا
کبھی خود اپنے تحیّر پہ میں حیراں رہتا
کبھی خود اپنے سمجھنے کو نہ سمجھا کرتا
کبھی کہتا کہ یہ کیا بزم ہے کیسی ہے بہار
کبھی اندازِ تجاہل سے میں توبہ کرتا
کبھی کہتا کہ یہ کیا جوشِ جنوں ہے ظالم
کبھی پھر گر کے تڑپنے کی تمنا کرتا
ستھری ستھری وہ فضا دیکھ کے میں غرقِ گناہ
اپنی آنکھوں میں خود اُس بزم میں کھٹکا کرتا
کبھی رَحمت کے تصور میں ہنسی آجاتی
پاسِ آداب کبھی ہونٹوں کو بخیہ کرتا
دل اگر رنجِ معاصی سے بگڑنے لگتا
عفو کا ذکر سنا کر میں سنبھالا کرتا
یہ مزے خوبیِ قسمت سے جو پائے ہوتے
سخت دیوانہ تھا گر خلد کی پروا کرتا
موت اُس دن کو جو پھر نام وطن کا لیتا
خاک اُس سر پہ جو اُس در سے کنارا کرتا
اے حسنؔ قصدِ مدینہ نہیں رونا ہے یہی
اور میں آپ سے کس بات کا شکوہ کرتا
:redrose: :redrose: :redrose: :redrose: :redrose: :redrose: :redrose: :redrose:
عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
کشفِ رازِ مَنْ رَّاٰنِی(۱) یوں ہوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا
بے خودی ہے باعثِ کشفِ حجاب
مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا
اُن کے دَر نے سب سے مستغنی کیا
بے طلب بے خواہش اِتنا مل گیا
ناخدائی کے لیے آئے حضور
ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا
دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا
نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا
خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن
مجھ کو صحراے مدینہ مل گیا
آنکھیں پُرنم ہو گئیں سر جھک گیا
جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا
ہے محبت کس قدر نامِ خدا
نامِ حق سے نامِ والا مل گیا
اُن کے طالب نے جو چاہا پا لیا
اُن کے سائل نے جو مانگا مل گیا
تیرے دَر کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا
اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحراے مدینہ مل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ّ(۱) اس شعر میں حدیث مبارکہ کا عند الصوفیہ مشہور مضمون پیش کیاگیا ہے: من راٰنِیْ فَقَدْ رَأَ الْحَقْ یعنی جس نے میری زیارت کی تحقیق اس نے حق تعالیٰ کی زیارت کی۔
:redrose:
 
دل مرا دنیا پہ شیدا ہو گیا
دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا
اے مِرے اﷲ یہ کیا ہو گیا
کچھ مرے بچنے کی صورت کیجیے
اب تو جو ہونا تھا مولیٰ ہو گیا
عیب پوشِ خلق دامن سے ترے
سب گنہ گاروں کا پردہ ہو گیا
رکھ دیا جب اُس نے پتھر پر قدم
صاف اک آئینہ پیدا ہو گیا
دُور ہو مجھ سے جو اُن سے دُور ہے
اُس پہ میں صدقے جو اُن کا ہو گیا
گرمیِ بازارِ مولیٰ بڑھ چلی
نرخِ رحمت خوب سستا ہو گیا
دیکھ کر اُن کا فروغِ حسنِ پا
مہر ذرّہ ، چاند تارا ہو گیا
رَبِ سَلِّمْ وہ اِدھر کہنے لگے
اُس طرف پار اپنا بیڑا ہو گیا
اُن کے جلوئوں میں ہیں یہ دلچسپیاں
جو وہاں پہنچا وہیں کا ہو گیا
تیرے ٹکڑوں سے پلے دونوں جہاں
سب کا اُس دَر سے گزارا ہو گیا
السلام اے ساکنانِ کوے دوست
ہم بھی آتے ہیں جو ایما ہو گیا
اُن کے صدقے میں عذابوں سے چھٹے
کام اپنا نام اُن کا ہو گیا
سر وہی جو اُن کے قدموں سے لگا
دل وہی جو اُن پہ شیدا ہو گیا
حسنِ یوسف پر زلیخا مٹ گئیں
آپ پر اﷲ پیارا ہو گیا
اُس کو شیروں پر شرف حاصل ہوا
آپ کے دَر کا جو کتا ہو گیا
زاہدوں کی خلد پر کیا دُھوم تھی
کوئی جانے گھر یہ اُن کا ہو گیا
غول اُن کے عاصیوں کے آئے جب
چھنٹ گئی سب بھیڑ رستہ ہو گیا
جا پڑا جو دشتِ طیبہ میں حسنؔ
گلشن جنت گھر اُس کا ہو گیا
0000000
کہوں کیا حال زاہد گلشن طیبہ کی نزہت کا
کہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کا
کہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا
تعالیٰ اللہ شوکت تیرے نامِ پاک کی آقا
کہ اب تک عرشِ اعلیٰ کو ہے سکتہ تیری ہیبت کا
وکیل اپنا کیا ہے احمد مختار کو میں نے
نہ کیوں کر پھر رہائی میری منشا ہو عدالت کا
بلاتے ہیں اُسی کو جس کی بگڑی وہ بناتے ہیں
کمر بندھنا دیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا
کھلیں اسلام کی آنکھیں ہوا سارا جہاں روشن
عرب کے چاند صدقے کیا ہی کہنا تیری طلعت کا
نہ کر رُسواے محشر، واسطہ محبوب کا یا ربّ
یہ مجرم دُور سے آیا ہے سن کر نام رحمت کا
مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میں
ہجومِ جود نے روکا ہے بڑھنا دستِ حاجت کا
شبِ اسریٰ ترے جلوئوں نے کچھ ایسا سماں باندھا
کہ اب تک عرشِ اعظم منتظر ہے تیری رُخصت کا
یہاں کے ڈوبتے دَم میں اُدھر جا کر اُبھرتے ہیں
کنارا ایک ہے بحرِ ندامت بحرِ رحمت کا
غنی ہے دل، بھرا ہے نعمت کونین سے دامن
گدا ہوں میں فقیر آستانِ خود بدولت کا
طوافِ روضۂ مولیٰ پہ ناواقف بگڑتے ہیں
عقیدہ اَور ہی کچھ ہے اَدب دانِ محبت کا
خزانِ غم سے رکھنا دُور مجھ کو اُس کے صدقے میں
جو گل اے باغباں ہے عطر تیرے باغِ صنعت کا
الٰہی بعدِ مردن پردہ ہاے حائل اُٹھ جائیں
اُجالا میرے مرقد میں ہو اُن کی شمعِ تُربت کا
سنا ہے روزِ محشر آپ ہی کا منہ تکیں گے سب
یہاں پورا ہوا مطلب دلِ مشتاقِ رؤیت کا
وجودِ پاک باعث خِلقتِ مخلوق کا ٹھہرا
تمہاری شانِ وحدت سے ہوا اِظہار کثرت کا
ہمیں بھی یاد رکھنا ساکنانِ کوچۂ جاناں
سلامِ شوق پہنچے بے کسانِ دشتِ غربت کا
حسنؔ سرکارِ طیبہ کا عجب دربارِ عالی ہے
درِ دولت پہ اک میلہ لگا ہے اہلِ حاجت کا
000000000
تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاکِ سرور کا
تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سرور کا
بھرا آتا ہے پانی میرے منہ میں حوضِ کوثر کا
جو کچھ بھی وصف ہو اُن کے جمالِ ذرّہ پرور کا
مرے دیوان کا مطلع ہو مطلع مہرِ محشر کا
مجھے بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا
لیے جاؤں گا چھوٹا سا کوئی ذرّہ ترے دَر کا
جو اک گوشہ چمک جائے تمہارے ذرّۂ دَر کا
ابھی منہ دیکھتا رہ جائے آئینہ سکندر کا
اگر جلوہ نظر آئے کفِ پاے منور کا
ذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشید محشر کا
اگر دم بھر تصور کیجیے شانِ پیمبر کا
زباں پہ شور ہو بے ساختہ اﷲ اکبر کا
اُجالا طور کا دیکھیں جمالِ جاں فزا دیکھیں
کلیم آ کر اُٹھا دیکھیں ذرا پردہ ترے دَر کا
دو عالم میہماں، تو میزباں، خوانِ کرم جاری
اِدھر بھی کوئی ٹکڑا میں بھی کتّا ہوں ترے دَر کا
نہ گھر بیٹھے ملے جوہر صفا و خاکساری کے
مریدِ ذرّئہ طیبہ ہے آئینہ سکندر کا
اگر اُس خندئہ دنداں نما کا وصف موزوں ہو
ابھی لہرا چلے بحرِ سخن سے چشمہ گوہر کا
ترے دامن کا سایہ اور دامن کتنے پیارے ہیں
وہ سایہ دشتِ محشر کا یہ حامی دیدئہ تر کا
تمہارے کوچہ و مرقد کے زائر کو میسر ہے
نظارہ باغِ جنت کا ، تماشا عرشِ اکبر کا
گنہ گارانِ اُمت اُن کے دامن پر مچلتے ہوں
الٰہی چاک ہو جس دم گریباں صبحِ محشر کا
ملائک جن و اِنساں سب اِسی در کے سلامی ہیں
دو عالم میں ہے اک شہرہ مرے محتاج پرور کا
الٰہی تشنہ کامِ ہجر دیکھے دشتِ محشر میں
برسنا ابرِ رحمت کا ، چھلکنا حوضِ کوثر کا
زیارت میں کروں اور وہ شفاعت میری فرمائیں
مجھے ہنگامۂ عیدین یا رب دن ہو محشر کا
نصیب دوستاں اُن کی گلی میں گر سکونت ہو
مجھے ہو مغفرت کا سلسلہ ہر تار بستر کا
وہ گریہ اُسْتُنِ حَنَّانہ کا آنکھوں میںپھرتا ہے
حضوری نے بڑھایا تھا جو پایہ اَوجِ منبر کا
ہمیشہ رہروانِ طیبہ کے زیرِ قدم آئے
الٰہی کچھ تو ہو اِعزاز میرے کاسۂ سر کا
سہارا کچھ نہ کچھ رکھتا ہے ہر فردِ بشر اپنا
کسی کو نیک کاموں کا حسنؔ کو اپنے یاوَر کا
00000000
مجرم ہیبت زدہ جب فرد عصیاں لے چلا
مجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلا
لطفِ شہ تسکین دیتا پیش یزداں لے چلا
دل کے آئینہ میں جو تصویرِ جاناں لے چلا
محفل جنت کی آرائش کا ساماں لے چلا
رہروِ جنت کو طیبہ کا بیاباں لے چلا
دامنِ دل کھینچتا خارِ مغیلاں لے چلا
گل نہ ہو جائے چراغِ زینتِ گلشن کہیں
اپنے سر میں مَیں ہواے دشتِ جاناں لے چلا
رُوے عالم تاب نے بانٹا جو باڑا نور کا
ماہِ نو کشتی میں پیالا مہرِ تاباں لے چلا
گو نہیں رکھتے زمانے کی وہ دولت اپنے پاس
پَر زمانہ نعمتوں سے بھر کے داماں لے چلا
تیری ہیبت سے ملا تاجِ سلاطیں خاک میں
تیری رَحمت سے گدا تختِ سلیماں لے چلا
ایسی شوکت پر کہ اُڑتا ہے پھریرا عرش پر
جس گدا نے آرزو کی اُن کو مہماں لے چلا
دبدبہ کس سے بیاں ہو اُن کے نامِ پاک کا
شیر کے منہ سے سلامت جانِ سلماں لے چلا
صدقے اُس رحمت کے اُن کو روزِ محشر ہر طرف
ناشکیبا شورِ فریادِ اَسیراں لے چلا
ساز و سامانِ گداے کوے سرور کیا کہوں
اُس کا منگتا سروری کے ساز و ساماں لے چلا
دو قدم بھی چل نہ سکتے ہم سرِ شمشیر تیز
ہاتھ پکڑے رَبِّ سَلِّمْ کا نگہباں لے چلا
دستگیرِ خستہ حالاں دست گیری کیجیے
پائوں میں رعشہ ہے سر پر بارِ عصیاں لے چلا
وقتِ آخر نا اُمیدی میں وہ صورت دیکھ کر
دِل شکستہ دل کے ہر پارہ میں قرآں لے چلا
قیدیوں کی جنبشِ اَبرو سے بیڑی کاٹ دو
ورنہ جُرموں کا تسلسل سوے زنداں لے چلا
روزِ محشر شاد ہوں عاصی کہ پیشِ کبریا
رَحم اُن کو اُمَّتِیْ گویاں و گِریاں لے چلا
شکل شبنم راتوں کا رونا ترا ابرِ کرم
صبحِ محشر صورتِ گل ہم کو خنداں لے چلا
کشتگانِ ناز کی قسمت کے صدقے جایئے
اُن کو مقتل میں تماشاے شہیداں لے چلا
اختر اِسلام چمکا ، کفر کی ظلمت چھنٹی
بدر میں جب وہ ہلالِ تیغِ بُرّاں لے چلا
بزمِ خوباں کو خدا نے پہلے دی آرائشیں
پھر مرے دُولہا کو سوے بزمِ خوباں لے چلا
اﷲ اﷲ صرصرِ طیبہ کی رنگ آمیزیاں
ہر بگولا نزہتِ سروِ گلستاں لے چلا
قطرہ قطرہ اُن کے گھرسے بحرِ عرفاں ہو گیا
ذرّہ ذرّہ اُن کے دَر سے مہرِ تاباں لے چلا
صبحِ محشر ہر اداے عارضِ روشن ہیں وہ
شمع نور افشاں پئے شامِ غریباں لے چلا
شافعِ روزِ قیامت کا ہوں اَدنیٰ امتی
پھر حسنؔ کیا غم اگر میں بارِ عصیاں لے چلا
00000000000
قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا
قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا
کعبہ کا بھی قبلہ خمِ اَبرو نظر آیا
محشر میں کسی نے بھی مری بات نہ پوچھی
حامی نظر آیا تو بس اِک تو نظر آیا
پھر بندِ کشاکش میں گرفتار نہ دیکھے
جب معجزئہ جنبشِ اَبرو نظر آیا
اُس دل کے فدا جو ہے تری دید کا طالب
اُن آنکھوں کے قربان جنھیں تو نظر آیا
سلطان و گدا سب ہیں ترے دَر کے بھکاری
ہر ہاتھ میں دروازے کا بازو نظر آیا
سجدہ کو جھکا جائے براہیم میں کعبہ
جب قبلۂ کونین کا اَبرو نظر آیا
بازارِ قیامت میں جنھیں کوئی نہ پوچھے
ایسوں کا خریدار ہمیں تو نظر آیا
محشر میں گنہ گار کا پلّہ ہوا بھاری
پلّہ پہ جو وہ قربِ ترازو نظر آیا
یا دیکھنے والا تھا ترا یا ترا جویا
جو ہم کو خدا بِین و خدا جُو نظر آیا
شل ہاتھ سلاطیں کے اُٹھے بہرِ گدائی
دروازہ ترا قوتِ بازو نظر آیا
یوسف سے حسیں اور تمناے نظارہ
عالم میں نہ تم سا کوئی خوش رُو نظر آیا
فریادِ غریباں سے ہے محشر میں وہ بے چین
کوثر پہ تھا یا قربِ ترازو نظر آیا
تکلیف اُٹھا کر بھی دعا مانگی عدو کی
خوش خُلق نہ ایسا کوئی خوش خو نظر آیا
ظاہر ہیں حسنؔ احمد مختار کے معنی
کونین پہ سرکار کا قابو نظر آیا
00000000
 
ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا
ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا
یوسف کو ترا طالبِ دیدار بنایا
طلعت سے زمانے کو پُر انوار بنایا
نکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا
دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوے
آئینوں کو جن جلوئوں نے دیوار بنایا
وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھے
اُس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا
اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع
تو نے ہی اُسے مطلعِ انوار بنایا
کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر
کونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا
کنجی تمھیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
اﷲ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمت
عاصی کا تمہیں حامی وغم خوار بنایا
آئینۂ ذاتِ احدیٰ آپ ہی ٹھہرے
وہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا
انوارِ تجلّٰی سے وہ کچھ حیرتیں چھائیں
سب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا
عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاری
سرکار بنایا تمھیں سرکار بنایا
گلزار کو آئینہ کیا منہ کی چمک نے
آئینہ کو رُخسار نے گل زار بنایا
یہ لذتِ پا بوس کہ پتھر نے جگر میں
نقشِ قدمِ سید ابرار بنایا
خدّام تو بندے ہیں ترے حسنِ خلق نے
پیارے تجھے بد خواہ کا غم خوار بنایا
بے پردہ وہ جب خاک نشینوں میں نکل آئے
ہر ذرّہ کو خورشیدِ پُر انوار بنایا
اے ماہِ عرب مہرِ عجم میں ترے صدقے
ظلمت نے مرے دن کو شبِ تار بنایا
ﷲ کرم میرے بھی ویرانۂ دل پر
صحرا کو ترے حسن نے گلزار بنایا
اﷲ تعالیٰ بھی ہوا اُس کا طرف دار
سرکار تمھیں جس نے طرفدار بنایا
گلزارِ جناں تیرے لیے حق نے بنائے
اپنے لیے تیرا گل رُخسار بنایا
بے یار و مددگار جنہیں کوئی نہ پوچھے
ایسوں کا تجھے یار و مددگار بنایا
ہر بات بد اعمالیوں سے میں نے بگاڑی
اَور تم نے مری بگڑی کو ہر بار بنایا
ان کے دُرِّ دنداں کا وہ صدقہ تھا کہ جس نے
ہر قطرئہ نیساں دُرِ شہوار بنایا
اُس جلوئہ رنگیں کا تصدق تھا کہ جس نے
فردوس کے ہر تختہ کو گلزار بنایا
اُس رُوحِ مجسم کے تبرک نے مسیحا
جاں بخش تمھیں یوں دمِ گفتار بنایا
اُس چہرئہ پُر نور کی وہ بھیک تھی جس نے
مہر و مہ و انجم کو پُر انوار بنایا
اُن ہاتھوں کاجلوہ تھا یہ اے حضرتِ موسیٰ
جس نے یدِبیضا کو ضیا بار بنایا
اُن کے لبِ رنگیں کے نچھاور تھی وہ جس نے
پتھر میں حسنؔ لعلِ پُر اَنوار بنایا
000000000
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہو گا
گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہو گا
کیا بغیر کیا ، بے کیا کیا ہو گا
خدا کا لطف ہوا ہو گا دستگیر ضرور
جو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہو گا
دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبی
کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہو گا
خداے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشی
خداے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہو گا
کسی کے پاوں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے
کوئی اسیرِغم اُن کو پکارتا ہو گا
کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ
نہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہو گا
کسی کے پلّہ پہ یہ ہوں گے وقتِ وزنِ عمل
کوئی اُمید سے منہ اُن کا تک رہا ہو گا
کوئی کہے گا دہائی ہے یَا رَسُوْلَ اﷲ
تو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہو گا
کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوے جحیم
وہ اُن کا راستہ پھِر پھِر کے دیکھتا ہو گا
شکستہ پا ہوں مرے حال کی خبر کردو
کوئی کسی سے یہ رو رو کے کہہ رہا ہو گا
خدا کے واسطے جلد اُن سے عرضِ حال کرو
کسے خبر ہے کہ دَم بھر میں ہائے کیا ہو گیا
پکڑ کے ہاتھ کوئی حالِ دل سنائے گا
تو رو کے قدموں سے کوئی لپٹ گیا ہو گا
زبان سُوکھی دِکھا کر کوئی لبِ کوثر
جنابِ پاک کے قدموں پہ گر گیا ہو گا
نشانِ خسروِ دیں دُور کے غلاموں کو
لِواے حمد کا پرچم بتا رہا ہو گا
کوئی قریبِ ترازو کوئی لبِ کوثر
کوئی صراط پر اُن کو پکارتا ہو گا
یہ بے قرار کرے گی صدا غریبوں کی
مقدس آنکھوں سے تار ا شک کا بندھا ہو گا
وہ پاک دل کہ نہیں جس کو اپنا اندیشہ
ہجومِ فکر و تردد میں گھر گیا ہو گا
ہزار جان فدا نرم نرم پاؤں سے
پکار سن کے اَسیروں کی دوڑتا ہو گا
عزیز بچہ کو ماں جس طرح تلاش کرے
خدا گواہ یہی حال آپ کا ہو گا
خدائی بھر اِنھیں ہاتھوں کو دیکھتی ہو گی
زمانہ بھر اِنھیں قدموں پہ لوٹتا ہو گا
بنی ہے دَم پہ دُہائی ہے تاج والے کی
یہ غل، یہ شور، یہ ہنگامہ، جابجا ہو گا
مقام فاصلوں ہر کام مختلف اِتنے
وہ دن ظہورِ کمالِ حضور کا ہو گا
کہیں گے اور نبی اِذھَبُوْاِلٰی غَیرِی
مرے حضور کے لب پر اَ نَا لھَا ہو گا
دُعاے اُمتِ بدکار وردِ لب ہو گی
خدا کے سامنے سجدہ میں سر جھکا ہو گا
غلام اُن کی عنایت سے چین میں ہو نگے
عدو حضور کا آفت میں مبتلا ہو گا
میں اُن کے دَر کا بھکاری ہوں فضل مولیٰ سے
حسنؔ فقیر کا جنت میں بسترا ہو گا
 
یہ اِکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا
یہ اکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا
کہ سب کچھ خدا کا ہوا مصطفیٰ کا
یہ بیٹھا ہے سکہ تمہاری عطا کا
کبھی ہاتھ اُٹھنے نہ پایا گدا کا
چمکتا ہوا چاند ثور و حرا کا
اُجالا ہوا بُرجِ عرشِ خدا کا
لحد میں عمل ہو نہ دیوِ بلا کا
جو تعویذ میں نقش ہو نقشِ پا کا
جو بندہ خدا کا وہ بندہ تمہارا
جو بندہ تمہارا وہ بندہ خدا کا
مرے گیسوئوں والے میں تیرے صدقے
کہ سر پر ہجومِ بَلا ہے بَلا کا
ترے زیرِ پا مسندِ ملکِ یزداں
ترے فرق پر تاجِ مُلکِ خدا کا
سہارا دیا جب مرے ناخدا نے
ہوئی نائو سیدھی پھرا رُخ ہوا کا
کیا ایسا قادر قضا و قدر نے
کہ قدرت میں ہے پھیر دینا قضا کا
اگر زیرِ دیوارِ سرکارِ بیٹھوں
مرے سر پہ سایہ ہو فضل خدا کا
ادب سے لیا تاجِ شاہی نے سر پر
یہ پایا ہے سرکار کے نقشِ پا کا
خدا کرنا ہوتا جو تحتِ مشیّت
خدا ہو کر آتا یہ بندہ خدا کا
اَذاں کیا جہاں دیکھو ایمان والو
پسِ ذکرِ حق ذکر ہے مصطفیٰ کا
کہ پہلے زباں حمد سے پاک ہو لے
تو پھر نام لے وہ حبیبِ خدا کا
یہ ہے تیرے ایماے اَبرو کا صدقہ
ہدف ہے اَثر اپنے تیرِ دُعا کا
ترا نام لے کر جو مانگے وہ پائے
ترا نام لیوا ہے پیارا خدا کا
نہ کیوںکر ہو اُس ہاتھ میں سب خدائی
کہ یہ ہاتھ تو ہاتھ ہے کبریا کا
جو صحراے طیبہ کا صدقہ نہ ملتا
کھلاتا ہی تو پھول جھونکا صبا کا
عجب کیا نہیں گر سراپا کا سایہ
سراپا سراپا ہے سایہ خدا کا
خدا مدح خواں ہے خدا مدح خواں ہے
مرے مصطفیٰ کا مرے مصطفیٰ کا
خدا کا وہ طالب خدا اُس کا طالب
خدا اُس کا پیارا وہ پیارا خدا کا
جہاں ہاتھ پھیلا دے منگتا بھکاری
وہی در ہے داتا کی دولت سرا کا
ترے رُتبہ میں جس نے چون و چرا کی
نہ سمجھا وہ بدبخت رُتبہ خدا کا
ترے پائوں نے سر بلندی وہ پائی
بنا تاجِ سر عرش ربِّ عُلا کا
کسی کے جگر میں تو سر پر کسی کے
عجب مرتبہ ہے ترے نقشِ پا کا
ترا دردِ الفت جو دل کی دوا ہو
وہ بے درد ہے نام لے جو دوا کا
ترے بابِ عالی کے قربان جائوں
یہ ہے دوسرا نام عرشِ خدا کا
چلے آئو مجھ جاں بلب کے سِرھانے
کہ سب دیکھ لیں پھر کے جانا قضا کا
بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضا سے
بھلا ہو الٰہی جنابِ رضا کا
000000000
سر صبحِ سعادت نے گریباں سے نکالا
سر صبحِ سعادت نے گریباں سے نکالا
ظلمت کو ملا عالمِ اِمکاں سے نکالا
پیدائشِ محبوب کی شادی میں خدا نے
مدت کے گرفتاروں کو زِنداں سے نکالا
رحمت کا خزانہ پئے تقسیم گدایاں
اﷲ نے تہ خانۂ پنہاں سے نکالا
خوشبو نے عنادِل سے چھڑائے چمن و گل
جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا
ہے حسنِ گلوے مہِ بطحا سے یہ روشن
اب مہر نے سر اُن کے گریباں سے نکالا
پردہ جو ترے جلوئہ رنگیں نے اُٹھایا
صَرصَر کا عمل صحنِ گلستاں سے نکالا
اُس ماہ نے جب مہر سے کی جلوہ نمائی
تاریکیوں کو شامِ غریباں سے نکالا
اے مہرِ کرم تیری تجلی کی اَدا نے
ذرّوں کو بلاے شبِ ہجراں سے نکالا
صدقے ترے اے مردمکِ دیدئہ یعقوب
یوسفؔ کو تری چاہ نے کنعاں سے نکالا
ہم ڈوبنے ہی کو تھے کہ آقا کی مدد نے
گِرداب سے کھینچا ہمیں طوفاں سے نکالا
اُمت کے کلیجے کی خلِش تم نے مٹائی
ٹوٹے ہوئے نشتر کو رَگِ جاں سے نکالا
اِن ہاتھوں کے قربان کہ اِن ہاتھوں سے تم نے
خارِ رہِ غم پاے غریباں سے نکالا
اَرمان زدوں کی ہیں تمنائیں بھی پیاری
اَرمان نکالا تو کس ارماں سے نکالا
یہ گردنِ پُر نور کا پھیلا ہے اُجالا
یا صبح نے سر اُن کے گریباں سے نکالا
گلزارِ براہیم کیا نار کو جس نے
اُس نے ہی ہمیں آتشِ سوزاں سے نکالا
دینی تھی جو عالم کے حسینوں کو ملاحت
تھوڑا سا نمک اُن کے نمکداں سے نکالا
قرآں کے حواشی یہ جَلَالَیْن لکھی ہے
مضموں یہ خطِ عارضِ جاناں سے نکالا
قربان ہوا بندگی پہ لُطفِ رہائی
یوں بندہ بنا کر ہمیں زِنداں سے نکالا
اے آہ مرے دل کی لگی اور نہ بجھتی
کیوں تو نے دُھواں سینۂ سوزاں سے نکالا
مدفن نہیں پھینک آئیں گے اَحباب گڑھے میں
تابوت اگر کوچۂ جاناں سے نکالا
کیوں شور ہے ، کیا حشر کا ہنگامہ بپا ہے
یا تم نے قدم گورِ غریباں سے نکالا
لاکھوں ترے صدقے میں کہیں گے دمِ محشر
زِنداں سے نکالا ہمیں زِنداں سے نکالا
جو بات لبِ حضرتِ عیسیٰ نے دکھائی
وہ کام یہاں جنبشِ داماں سے نکالا
منہ مانگی مرادوں سے بھری جیب دو عالم
جب دستِ کرم آپ نے داماں سے نکالا
کانٹا غمِ عقبیٰ کا حسنؔ اپنے جگر سے
اُمت نے خیالِ سرِ مژگاں سے نکالا
00000000
اگر قسمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتا
اگر قسِمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتا
غمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا
جو اے گل جامۂ ہستی تری پوشاک ہو جاتا
تو خارِ نیستی سے کیوں اُلجھ کر چاک ہو جاتا
جو وہ اَبرِ کرم پھر آبروے خاک ہو جاتا
تو اُس کے دو ہی چھینٹوں میں زمانہ پاک ہو جاتا
ہواے دامنِ رنگیں جو ویرانے میں آ جاتی
لباسِ گل میں ظاہر ہر خس و خاشاک ہو جاتا
لبِ جاں بخش کی قربت حیاتِ جاوداں دیتی
اگر ڈورا نفس کا ریشۂ مسواک ہو جاتا
ہوا دل سوختوں کو چاہیے تھی اُن کے دامن کی
الٰہی صبحِ محشر کا گریباں چاک ہو جاتا
اگر دو بوند پانی چشمۂ رحمت سے مل جاتا
مری ناپاکیوں کے میل دُھلتے پاک ہو جاتا
اگر پیوند ملبوسِ پیمبر کے نظر آتے
ترا اے حُلّۂ شاہی کلیجہ چاک ہو جاتا
جو وہ گل سُونگھ لیتا پھول مرجھایا ہوا بلبل
بہارِ تازگی میں سب چمن کی ناک ہو جاتا
چمک جاتا مقدر جب دُرِ دنداں کی طلعت سے
نہ کیوں رشتہ گہر کا ریشۂ مسواک ہو جاتا
عدو کی آنکھ بھی محشر میں حسرت سے نہ منہ تکتی
اگر تیرا کرم کچھ اے نگاہِ پاک ہو جاتا
بہارِ تازہ رہتیں کیوں خزاں میں دَھجیاں اُڑتیں
لباسِ گل جو اُن کی ملگجی پوشاک ہو جاتا
کماندارِ نبوت قادِر اندازی میں یکتا ہیں
دو عالم کیوں نہ اُن کا بستۂ فتراک ہو جاتا
نہ ہوتی شاق گر دَر کی جدائی تیرے ذرّہ کو
قمر اِک اَور بھی روشن سرِ اَفلاک ہو جاتا
تری رحمت کے قبضہ میں ہے پیارے قلبِ ماہیت
مرے حق میں نہ کیوں زہر گنہ تریاک ہوجاتا
خدا تارِ رَگِ جاں کی اگر عزت بڑھا دیتا
شراکِ نعلِ پاکِ سیدِ لولاک ہو جاتا
تجلی گاہِ جاناں تک اجالے سے پہنچ جاتے
جو تو اے تَوسنِ عمرِ رواں چالاک ہو جاتا
اگر تیری بھرن اے ابرِ رحمت کچھ کرم کرتی
ہمارا چشمۂ ہستی اُبل کر پاک ہو جاتا
حسنؔ اہلِ نظر عزت سے آنکھوں میں جگہ دیتے
اگر یہ مُشتِ خاک اُن کی گلی کی خاک ہو جاتا
0000000000
دشمن ہے گلے کا ہار آقا
دشمن ہے گلے کا ہار آقا
لُٹتی ہے مری بہار آقا
تم دل کے لیے قرار آقا
تم راحتِ جانِ زار آقا
تم عرش کے تاجدار مولیٰ
تم فرش کے با وقار آقا
دامن دامن ہوائے دامن
گلشن گلشن بہار آقا
بندے ہیں گنہگار بندے
آقا ہیں کرم شعار آقا
اِس شان کے ہم نے کیا کسی نے
دیکھے نہیں زینہار آقا
بندوں کا اَلم نے دل دُکھایا
اَور ہو گئے بے قرار آقا
آرام سے سوئیں ہم کمینے
جاگا کریں با وقار آقا
ایسا تو کہیں سنا نہ دیکھا
بندوں کا اُٹھائیں بار آقا
جن کی کوئی بات تک نہ پوچھے
اُن پر تمھیں آئے پیار آقا
پاکیزہ دلوں کی زینت ایمان
ایمان کے تم سنگار آقا
صدقہ جو بٹے کہیں سلاطیں
ہم بھی ہیں اُمیدوار آقا
چکرا گئی نائو بے کسوں کی!
آنا مرے غمگسار آقا
اﷲ نے تم کو دے دیا ہے
ہر چیز کا اختیار آقا
ہے خاک پہ نقشِ پا تمہارا
آئینہ بے غبار آقا
عالم میں ہیں سب بنی کے ساتھی
بگڑی کے تمھیں ہو یار آقا
سرکار کے تاجدار بندے
سرکار ہیں تاجدار آقا
دے بھیک اگر جمالِ رنگیں
جنت ہو مرا مزار آقا
آنکھوں کے کھنڈر بھی اب بسا دو
دل کا تو ہوا وقار آقا
ایماں کی تاک میں ہے دشمن
آئو دمِ احتضار آقا
ہو شمعِ شبِ سیاہ بختاں
تیرا رُخِ نور بار آقا
تُو رحمتِ بے حساب کو دیکھ
جُرموں کا نہ لے شمار آقا
دیدار کی بھیک کب بٹے گی
منگتا ہے اُمیدار آقا
بندوں کی ہنسی خوشی میں گزرے
اِس غم میں ہوں اشکبار آقا
آتی ہے مدد بَلا سے پہلے
کرتے نہیں انتظار آقا
سایہ میں تمہارے دونوں عالم
تم سایۂ کردگار آقا
جب فوجِ اَلم کرے چڑھائی
ہو اَوجِ کرم حصار آقا
ہر ملکِ خدا کے سچے مالک
ہر ملک کے شہر یار آقا
مانا کہ میں ہوں ذلیل بندہ
آقا تُو ہے با وقار آقا
ٹوٹے ہوئے دل کو دو سہارا
اَب غم کی نہیں سہار آقا
ملتی ہے تمھیں سے داد دل کی
سنتے ہو تمھیں پکار آقا
تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا
اﷲ کرے وقار آقا
اﷲ کے لاکھوں کارخانے
سب کا تمھیں اختیار آقا
کیا بات تمہارے نقشِ پا کی
ہے تاجِ سرِ وقار آقا
خود بھیک دو خود کہو بھلا ہو
اِس دَین کے میں نثار آقا
وہ شکل ہے واہ وا تمہاری
اﷲ کو آئے پیار آقا
جو مجھ سے مجھے چھپائے رکھے
وہ جلوہ کر آشکار آقا
جو کہتے ہیں بے زباں تمہارے
گونگوں کی سنو پکار آقا
وہ دیکھ لے کربلا میں جس نے
دیکھے نہ ہو جاں نثار آقا
آرام سے شش جہت میں گزرے
غم دل سے نہ ہو دو چار آقا
ہو جانِ حسنؔ نثار تجھ پر
ہو جائوں ترے نثار آقا
000000000
واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا
واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا
تو خدا کا خدا ہوا تیرا
تاج والے ہوں اِس میں یا محتاج
سب نے پایا دیا ہوا تیرا
ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرے
ہے خزانہ بھرا ہوا تیرا
آج سنتے ہیں سننے والے کل
دیکھ لیں گے کہا ہوا تیر
اِسے تو جانے یا خدا جانے
پیش حق رُتبہ کیا ہوا تیرا
گھرہیں سب بند دَرہیں سب تیغ
ایک دَر ہے کھلا ہوا تیرا
کام توہین سے ہے نجدی کو
تو ہوا یا خدا ہوا تیرا
تاجداروں کا تاجدار بنا
بن گیا جو گدا ہوا تیرا
اور میں کیا لکھوں خدا کی حمد
حمد اُسے وہ خدا ہوا تیرا
جو ترا ہو گیا خدا کا ہوا
جو خدا کا ہوا ہوا تیرا
حوصلے کیوں گھٹیں غریبوں کے
ہے اِرادہ بڑھا ہوا تیرا
ذات بھی تیری انتخاب ہوئی
نام بھی مصطفیٰ ہوا تیرا
جسے تو نے دیا خدا نے دیا
دَین رب کا دیا ہوا تیرا
ایک عالم خدا کا طالب ہے
اور طالب خدا ہوا تیرا
بزمِ اِمکاں ترے نصیب کھلے
کہ وہ دُولھا بنا ہوا تیرا
میری طاعت سے میرے جرم فزوں
لطف سب سے بڑھا ہوا تیرا
خوفِ وزنِ عمل کسے ہو کہ ہے
دل مدد پر تُلا ہوا تیرا
کام بگڑے ہوئے بنا دینا
کام کس کا ہوا ہوا تیرا
ہر اَدا دل نشیں بنی تیری
ہر سخن جاں فزا ہوا تیرا
آشکارا کمالِ شانِ حضور
پھر بھی جلوہ چھپا ہوا تیرا
پَردہ دَارِ اَدا ہزار حجاب
پھر بھی پردہ اُٹھا ہوا تیرا
بزمِ دنیا میں بزمِ محشر میں
نام کس کا ہوا ہوا تیرا
مَنْ رّاٰنِیْ فَقَدْ رَا اَلْحَقَّ
حُسن یہ حق نما ہوا تیرا
بارِ عصیاں سروں سے پھینکے گا
پیش حق سر جھکا ہوا تیرا
یمِ جودِ حضور پیاسا ہوں
یم گھٹا سے بڑھا ہوا تیرا
وصلِ وحدت پھر اُس پہ یہ خلوت
تجھ سے سایہ جدا ہوا تیرا
صنعِ خالق کے جتنے خاکے ہیں
رنگ سب میں بھرا ہوا تیرا
ارضِ طیبہ قُدومِ والا سے
ذرّہ ذرّہ سما ہوا تیرا
اے جناں میرے گل کے صدقے میں
تختہ تختہ بسا ہوا تیرا
اے فلک مہر حق کے باڑے سے
کاسہ کاسہ بھرا ہوا تیرا
اے چمن بھیک ہے تبسم کی
غنچہ غنچہ کھِلا ہوا تیرا
ایسی شوکت کے تاجدار کہاں
تخت تختِ خدا ہوا تیرا
اِس جلالت کے شہر یار کہاں
مِلک مُلکِ خدا ہوا تیرا
اِس وجاہت کے بادشاہ کہاں
حکم حکمِ خدا ہوا تیرا
خلق کہتی ہے لامکاں جس کو
شہ نشیں ہے سجا ہوا تیرا
زیست وہ ہے کہ حُسنِ یار رہے
دل میں عالم بسا ہوا تیرا
موت وہ ہے کہ ذکرِ دوست رہے
لب پہ نقشہ جما ہوا تیرا
ہوں زمیں والے یا فلک والے
سب کو صدقہ عطا ہوا تیرا
ہر گھڑی گھر سے بھیک کی تقسیم
رات دن دَر کھلا ہوا تیرا
نہ کوئی دو سَرا میں تجھ سا ہے
نہ کوئی دُوسرا ہوا تیرا
سوکھے گھاٹوں مرا اُتار ہو کیوں
کہ ہے دریا چڑھا ہوا تیرا
سوکھے دھانوں کی بھی خبر لے لے
کہ ہے بادل گھرا ہوا تیرا
مجھ سے کیا لے سکے عدو ایماں
اور وہ بھی دیا ہوا تیرا
لے خبر ہم تباہ کاروں کی
قافلہ ہے لٹا ہوا تیرا
مجھے وہ درد دے خدا کہ رہے
ہاتھ دل پہ دَھرا ہوا تیرا
تیرے سر کو ترا خدا جانے
تاجِ سر نقشِ پا ہوا تیرا
بگڑی باتوں کی فکر کر نہ حسنؔ
کام سب ہے بنا ہوا تیرا
000000000
معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا
معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا
جب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا
ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا
غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا
تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے
تیری ہیبت سے فلک کا مہ دوپارا ہو گیا
اللہ اللہ محو حُسنِ روے جاناں کے نصیب
بند کر لیں جس گھڑی آنکھیں نظارا ہو گیا
یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطے
قسمت اُس کی ہے جسے کہہ دو ہمارا ہو گیا
تیرگی باطل کی چھائی تھی جہاں تاریک تھا
اُٹھ گیا پردہ ترا حق آشکارا ہو گیا
کیوں نہ دم دیں مرنے والے مرگِ عشقِ پاک پر
جان دی اور زندگانی کا سہارا ہو گیا
نام تیرا، ذکر تیرا، تو، ترا پیارا خیال
ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا
ذرّۂ کوے حبیب‘ اللہ رے تیرے نصیب
پاؤں پڑ کر عرش کی آنکھوں کا تارا ہو گیا
تیرے صانع سے کوئی پوچھے ترا حُسن و جمال
خود بنایا اور بنا کر خود ہی پیارا ہو گیا
ہم کمینوں کا اُنھیں آرام تھا اِتنا پسند
غم خوشی سے دُکھ تہِ دل سے گوارا ہو گیا
کیوں نہ ہو تم مالکِ مُلکِ خدا مِلک خدا
سب تمہارا ہے خدا ہی جب تمہارا ہو گیا
روزِ محشر کے اَلم کا دشمنوں کو خوف ہو
دُکھ ہمارا آپ کو کس دن گوارا ہو گیا
جو ازل میں تھی وہی طلعت وہی تنویر ہے
آئینہ سے یہ ہوا جلوہ دوبارا ہو گیا
تو نے ہی تو مصر میں یوسف کو یوسف کر دیا
تو ہی تو یعقوب کی آنکھوں کا تارا ہو گیا
ہم بھکاری کیا ہماری بھیک کس گنتی میں ہے
تیرے دَر سے بادشاہوں کا گزارا ہو گیا
اے حسنؔ قربان جاؤں اُس جمالِ پاک پر
سینکڑوں پردوں میں رہ کر عالم آرا ہو گیا
 
منقبت خلیفۂ اوّل رضی اﷲ عنہ
بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا
ہے یارِ غار محبوبِ خدا صدیق اکبر کا
الٰہی رحم فرما خادمِ صدیق اکبر ہوں
تری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق اکبر کا
رُسل اور انبیا کے بعد جو افضل ہو عالم سے
یہ عالم میں ہے کس کا مرتبہ صدیق اکبر کا
گدا صدیق اکبر کا خدا سے فضل پاتا ہے
خدا کے فضل سے میں ہوں گدا صدیق اکبر کا
نبی کا اور خدا کا مدح گو صدیق اکبر ہے
نبی صدیق اکبر کا خدا صدیق اکبر کا
ضیا میں مہر عالم تاب کا یوں نام کب ہوتا
نہ ہوتا نام گر وجہِ ضیا صدیق اکبر کا
ضعیفی میں یہ قوت ہے ضعیفوں کو قوی کر دیں
سَہارا لیں ضعیف و اَقویا صدیق اکبر کا
خدا اِکرام فرماتا ہے اَتْقٰی کہہ کے قرآں میں
کریں پھر کیوں نہ اِکرام اتقیا صدیق اکبر کا
صفا وہ کچھ ملی خاک سرِ کوے پیمبر سے
مصفّٰٰی آئینہ ہے نقشِ پا صدیق اکبر کا
ہوئے فاروق و عثمان و علی جب داخلِ بیعت
بنا فخر سلاسِل سلسلہ صدیق اکبر کا
مقامِ خوابِ راحت چین سے آرام کرنے کو
بنا پہلوے محبوبِ خدا صدیق اکبر کا
علی ہیں اُس کے دشمن اور وہ دشمن علی کا ہے
جو دشمن عقل کا دشمن ہوا صدیق اکبر کا
لٹایا راہِ حق میں گھر کئی بار اس محبت سے
کہ لُٹ لُٹ کر حسنؔ گھر بن گیا صدیق اکبر کا
000000
منقبت خلیفۂ دوم رضی اﷲ عنہ
نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا
ملا تقدیر سے حاجت روا فاروقِ اعظم سا
ترا رشتہ بنا شیرازئہ جمعیتِ خاطر
پڑا تھا دفترِ دینِ کتابُ اﷲ برہم سا
مراد آئی مرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئی
ملا حاجت رَوا ہم کو درِ سلطانِ عالم سا
ترے جود و کرم کا کوئی اندازہ کرے کیوں کر
ترا اِک اِک گدا فیض و سخاوت میں ہے حاتم سا
خدارا مہر کر اے ذرّہ پرور مہر نورانی
سیہ بختی سے ہے روزِ سیہ میرا شبِِ غم سا
تمہارے دَر سے جھولی بھر مرادیں لے کے اُٹھیں گے
نہ کوئی بادشاہ تم سا نہ کوئی بے نوا ہم سا
فدا اے اُمّ کلثوم آپ کی تقدیر یاوَر کے
علی بابا ہوا ، دُولھا ہوا فاروق اکرم سا
غضب میں دشمنوں کی جان ہے تیغِ سر افگن سے
خروج و رفض کے گھر میں نہ کیوں برپا ہو ماتم سا
شیاطیں مضمحل ہیں تیرے نامِ پاک کے ڈر سے
نکل جائے نہ کیوں رفّاض بد اَطوار کا دم سا
منائیں عید جو ذی الحجہ میں تیری شہادت کی
الٰہی روز و ماہ و سن اُنھیں گزرے محرم سا
حسنؔ در عالمِ پستی سرِ رفعت اگر داری
بَیا فرقِ اِرادت بر درِ فاروقِ اعظم سا
00000000000000
منقبت خلیفۂ سوم رضی اﷲ عنہ
اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا
محبوبِ خدا یار ہے عثمانِ غنی کا
رنگین وہ رُخسار ہے عثمان غنی کا
بلبل گل گلزار ہے عثمان غنی کا
گرمی پہ یہ بازار ہے عثمانِ غنی کا
اﷲ خریدار ہے عثمانِ غنی کا
کیا لعل شکر بار ہے عثمانِ غنی کا
قند ایک نمک خوار ہے عثمانِ غنی کا
سرکار عطا پاش ہے عثمانِ غنی کا
دربار دُرر بار ہے عثمانِ غنی کا
دل سوختو ہمت جگر اب ہوتے ہیں ٹھنڈے
وہ سایۂ دیوار ہے عثمانِ غنی کا
جو دل کو ضیا دے جو مقدر کو جلا دے
وہ جلوۂ دیدار ہے عثمانِ غنی کا
جس آئینہ میں نورِ الٰہی نظر آئے
وہ آئینہ رُخسار ہے عثمانِ غنی کا
سرکار سے پائیں گے مرادوں پہ مرادیں
دربار یہ دُر بار ہے عثمانِ غنی کا
آزاد، گرفتارِ بلاے دو جہاں ہے
آزاد، گرفتار ہے عثمانِ غنی کا
بیمار ہے جس کو نہیں آزارِ محبت
اچھا ہے جو بیمار ہے عثمانِ غنی کا
اﷲ غنی حد نہیں اِنعام و عطا کی
وہ فیض پہ دربار ہے عثمانِ غنی کا
رُک جائیں مرے کام حسنؔ ہو نہیں سکتا
فیضان مددگار ہے عثمانِ غنی کا
00000000000000
منقبت خلیفۂ چہارم کرم اﷲ وجہہ
اے حبِّ وطن ساتھ نہ یوں سوے نجف جا
ہم اور طرف جاتے ہیں تو اور طرف جا
چل ہند سے چل ہند سے چل ہند سے غافل !
اُٹھ سوے نجف سوے نجف سوے نجف جا
پھنستا ہے وبالوں میں عبث اخترِ طالع
سرکار سے پائے گا شرف بہر شرف جا
آنکھوں کو بھی محروم نہ رکھ حُسنِ ضیا سے
کی دل میں اگر اے مہِ بے داغ و کلف جا
اے کُلفتِ غم بندۂ مولیٰ سے نہ رکھ کام
بے فائدہ ہوتی ہے تری عمر تلف جا
اے طلعتِ شہ آ تجھے مولیٰ کی قسم آ
اے ظلمتِ دل جا تجھے اُس رُخ کا حَلف جَا
ہو جلوہ فزا صاحبِ قوسین کا نائب
ہاں تیرِ دعا بہرِ خدا سُوے ہدف جا
کیوں غرقِ اَلم ہے دُرِ مقصود سے منہ بھر
نیسانِ کرم کی طرف اے تشنہ صدف جا
جیلاں کے شرف حضرتِ مولیٰ کے خلف ہیں
اے نا خلف اُٹھ جانبِ تعظیمِ خلف جا
تفضیل کا جویا نہ ہو مولیٰ کی وِلا میں
یوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تو بہر خذف جا
مولیٰ کی امامت سے محبت ہے تو غافل
اَربابِ جماعت کی نہ تو چھوڑ کے صف جا
کہہ دے کوئی گھیرا ہے بَلائوں نے حسنؔ کو
اے شیرِ خدا بہرِ مدد تیغ بکف جا
 
(ردیف باے تازی)
دردِ دل کر مجھے عطایا رب
دردِ دل کر مجھے عطا یا رب
دے مرے درد کی دوا یا رب
لاج رکھ لے گناہ گاروں کی
نام رحمن ہے ترا یا رب
عیب میرے نہ کھول محشر میں
نام ستّار ہے ترا یا رب
بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل
نام غفار ہے ترا یا رب
زخم گہرا سا تیغِ اُلفت کا
مرے دل کو بھی کر عطا یا رب
یوں گموںمیں کہ تجھ سے مل جاؤں
یوں گما اِس طرح ملا یا رب
بھول کر بھی نہ آئے یاد اپنی
میرے دل سے مجھے بھلا یا رب
خاک کر اپنے آستانے کی
یوں ہمیں خاک میں ملا یا رب
میری آنکھیں مرے لیے ترسیں
مجھ سے ایسا مجھے چھپا یا رب
ٹیس کم ہو نہ دردِ اُلفت کی
دل تڑپتا رہے مرا یا رب
نہ بھریں زخمِ دل ہرے ہو کر
رہے گلشن ہرا بھرا یا رب
تیری جانب یہ مُشتِ خاک اُڑے
بھیج ایسی کوئی ہوا یا رب
سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ
تو نے جب سے سنا دیا یا رب
آسرا ہم گناہ گاروں کا
اور مضبوط ہو گیا یا رب
ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِِی بِیْ
میرے ہر دَرد کی دوا یا رب
تو نے میرے ذلیل ہاتھوں میں
دامنِ مصطفیٰ دیا یا رب
تو نے دی مجھ کو نعمتِ اسلام
پھر جماعت میں لے لیا یا رب
کر دیا تو نے قادِری مجھ کو
تیری قدرت کے میں فدا یا رب
دولتیں ایسی نعمیتں اتنی
بے غرض تو نے کیں عطا یا رب
دے کہ لیتے نہیں کریم کبھی
جو دیا جس کو دے دیا یا رب
تو کریم اور کریم بھی ایسا
کہ نہیں جس کو دُوسرا یا رب
ظن نہیں بلکہ ہے یقین مجھے
وہ بھی تیرا دیا ہوا یا رب
ہوگا دنیا میں قبر و محشر میں
مجھ سے اچھا معاملہ یا رب
اِس نکمّے سے کام لے ایسے
یہ نکما ہو کام کا یا رب
مجھے ایسے عمل کی دے توفیق
کہ ہو راضی تری رضا یا رب
جس نے اپنے لیے بُرائی کی
ہے یہ نادان وہ بُرا یا رب
ہر بھلے کی بھلائی کا صدقہ
اِس بُرے کو بھی کر بھلا یا رب
میں نے بنتی ہوئی بگاڑی بات
بات بگڑی ہوئی بنا یا رب
میں نے سُبحٰن رَبیِ الَاعْلٰی
خاک پر رکھ کے سر کہا یا رب
صدقہ اس دی ہوئی بلندی کا
پستیوں سے مجھے بچا یا رب
بونے والے جو بوئیں وہ کاٹیں
یہ ہوا تو میں مر مٹا یا رب
آہ جو بو چکا ہوں وقتِ درو
ہو گا حسرت کا سامنا یا رب
صدقہ ماہِ ربیع الاوّل کا
گیہوں اس کھیت سے اُگا یا رب
پاک ہے دُرد و دَرد سے جو میَ
جام اُس کا مجھے پلا یا رب
کرکے گستر وہ خوانِ اُدْعُوْنیِْ
تو نے بندوں کو دی صلا یا رب
آستاں پر ترے ترا منگتا
سن کر آیا ہے یہ صدا یا رب
نعمت اَسْتَجِبْ سے پائے بھیک
ہاتھ پھیلا ہوا مرا یا رب
تجھ سے وہ مانگوں میں جو بہتر ہو
مدعی ہو نہ مدعا یا رب
مجھے دونوں جہاں کے غم سے بچا
شاد رکھ شاد دائما یا رب
مجھ پر اور میرے دونوں بھائیوں پر
سایہ ہو تیرے فضل کا یا رب
عیش تینوں گھروں کے تینوں کو
اپنی رحمت سے کر عطا یا رب
میرے فاروق و حامد وحسنین(۱)
درد و غم سے رہیں جدا یا رب
لختِ دل مصطفیٰ، حسین، رضا(۲)
ہر جگہ پائیں مرتبہ یا رب
سایۂ پنجتن ہوں پانچوں پر
دائماً ہو تری عطا یا رب
علم و عمر و عمل فراخ معاش
مجتبیٰ (۳) کو بھی کر عطا یا رب
دونوں عالم کی نعمتیں پائے
مرتضیٰ بہرِ مصطفیٰ یا رب
کر دے فضل و نعم سے مالا مال
غم اَلم سے اِنھیں بچا یا رب
اِن کے دشمن ذلیل و خوار رہیں
رَد رہے اِن کی ہر بَلا یا رب
بال بیکا کبھی نہ ہو اِن کا
بول بالا ہو دائما یا رب
میری ماں میری بہنیں بھانجے سب
پائیں آرامِ دو سَرا یا رب
اور بھی جتنے میرے پیارے ہیں
حاجتیں سب کی ہوں رَوا یا رب
میرے احباب پر بھی فضل رہے
تیرا تیرے حبیب کا یا رب
اہلِ سُنّت کی ہر جماعت پر
ہر جگہ ہو تری عطا یا رب
دشمنوں کے لیے ہدایت کی
تجھ سے کرتا ہوں اِلتجا یا رب
تُو حسنؔ کو اُٹھا حسن کر کے
ہو مع الخیر خاتمہ یا رب
00000000000
سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجواب
سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجواب
خوبرویوں میں نہیں تیرا جواب
حُسن ہے بے مثل صورت لاجواب
میں فدا تم آپ ہو اپنا جواب
پوچھے جاتے ہیں عمل میں کیا کہوں
تم سکھا جائو مرے مولیٰ جواب
میری حامی ہے تری شانِ کریم
پُرسشِ روزِ قیامت کا جواب
ہے دعائیں سنگِ دشمن کا عوض
اِس قدر نرم ایسے پتھر کا جواب
پلتے ہیں ہم سے نکمّے بے شمار
ہیں کہیں اُس آستانہ کا جواب
روزِ محشر ایک تیرا آسرا
سب سوالوں کا جوابِ لاجواب
میں یدِ بیضا کے صدقے اے کلیم
پر کہاں اُن کی کفِ پا کا جواب
کیا عمل تو نے کیے اِس کا سوال
تیری رحمت چاہیے میرا جواب
مہر و مہ ذرّے ہیں اُن کی راہ کے
کون دے نقشِ کفِ پا کا جواب
تم سے اُس بیمار کو صحت ملے
جس کو دے دیں حضرت عیسیٰ جواب
دیکھ رِضواں دشتِ طیبہ کی بہار
میری جنت کا نہ پائے گا جواب
شور ہے لطف و عطا کا شور ہے
مانگنے والا نہیں سنتا جواب
جرم کی پاداش پاتے اہلِ جرم
اُلٹی باتوں کا نہ ہو سیدھا جواب
پر تمہارے لطف آڑے آ گئے
دے دیا محشر میں پُرسش کا جواب
ہے حسنؔ محو جمالِ روے دوست
اے نکیرین اِس سے پھر لینا جواب
00000000000
جانب مغرب وہ چمکا آفتاب
جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب
بھیک کو مشرق سے نکلا آفتاب
جلوہ فرما ہو جو میرا آفتاب
ذرّہ ذرّہ سے ہو پیدا آفتاب
عارضِ پُر نور کا صاف آئینہ
جلوۂ حق کا چمکتا آفتاب
یہ تجلّی گاہِ ذاتِ بحت ہے
زُلفِ انور ہے شب آسا آفتاب
دیکھنے والوں کے دل ٹھنڈے کیے
عارضِ انور ہے ٹھنڈا آفتاب
ہے شبِ دیجور طیبہ نور سے
ہم سیہ کاروں کا کالا آفتاب
بخت چمکا دے اگر شانِ جمال
ہو مری آنکھوں کا تارا آفتاب
نور کے سانچے میں ڈھالا ہے تجھے
کیوں ترے جلووں کا ڈھلتا آفتاب
ناخدائی سے نکالا آپ نے
چشمۂ مغرب سے ڈوبا آفتاب
ذرّہ کی تابش ہے اُن کی راہ میں
یا ہوا ہے گِر کے ٹھنڈا آفتاب
گرمیوں پر ہے وہ حُسنِ بے زوال
ڈھونڈتا پھرتا ہے سایہ آفتاب
اُن کے دَر کے ذرّہ سے کہتا ہے مہر
ہے تمہارے دَر کا ذرّہ آفتاب
شامِ طیبہ کی تجلی دیکھ کر
ہو تری تابش کا تڑکا آفتاب
روے مولیٰ سے اگر اُٹھتا نقاب
چرخ کھا کر غش میں گرتا آفتاب
کہہ رہی ہے صبحِ مولد کی ضیا
آج اندھیرے سے ہے نکلا آفتاب
وہ اگر دیں نکہت و طلعت کی بھیک
ذرّہ ذرّہ ہو مہکتا آفتاب
تلوے اور تلوے کے جلوے پر نثار
پیارا پیارا نور پیارا آفتاب
اے خدا ہم ذرّوں کے بھی دن پھریں
جلوہ فرما ہو ہمارا آفتاب
اُن کے ذرّہ کے نہ سر چڑھ حشر میں
دیکھ اب بھی ہے سویرا آفتاب
جس سے گزرے اے حسنؔ وہ مہرِ حسن
اُس گلی کا ہو اندھیرا آفتاب
00000000
 
(ردیف تاے منقوطہ)

پرُ نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت
پرُ نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت
پرَدہ اُٹھا ہے کس کا صبح شبِ ولادت
جلوہ ہے حق کا جلوہ صبح شبِ ولادت
سایہ خدا کا سایہ صبح شبِ ولادت
فصلِ بہار آئی شکلِ نگار آئی
گلزار ہے زمانہ صبح شبِ ولادت
پھولوں سے باغ مہکے شاخوں پہ مُرغ چہکے
عہدِ بہار آیا صبح شبِ ولادت
پژ مُردہ حسرتوں کے سب کھیت لہلہائے
جاری ہوا وہ دریا صبح شبِ ولادت
گل ہے چراغِ صرَصَر گل سے چمن معطر
آیا کچھ ایسا جھونکا صبح شبِ ولادت
قطرہ میں لاکھ دریا گل میں ہزار گلشن
نشوونما ہے کیا کیا صبح شبِ ولادت
جنت کے ہر مکاں کی آئینہ بندیاں ہیں
آراستہ ہے دنیا صبح شب ولادت
دل جگمگا رہے ہیں قسمت چمک اُٹھی ہے
پھیلا نیا اُجالا صبح شبِ ولادت
چِٹکے ہوئے دِلوں کے مدّت کے میل چھوٹے
اَبرِ کرم وہ برسا صبح شب ولادت
بلبل کا آشیانہ چھایا گیا گلوں سے
قسمت نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت
اَرض و سما سے منگتا دوڑے ہیں بھیک لینے
بانٹے گا کون باڑا صبح شبِ ولادت
انوار کی ضیائیں پھیلی ہیں شام ہی سے
رکھتی ہے مہر کیسا صبح شبِ ولادت
مکہ میں شام کے گھر روشن ہیں ہر نگہ پر
چمکا ہے وہ اُجالا صبح شب ولادت
شوکت کا دبدبہ ہے ہیبت کا زلزلہ ہے
شق ہے مکانِ کِسریٰ صبح شبِ ولادت
خطبہ ہوا زمیں پر سکہ پڑا فلک پر
پایا جہاں نے آقا صبح شبِ ولادت
آئی نئی حکومت سکہ نیا چلے گا
عالم نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت
رُوح الامیں نے گاڑا کعبہ کی چھت پہ جھنڈا
تا عرش اُڑا پھریرا صبح شبِ ولادت
دونوں جہاں کی شاہی ناکتخدا دُولہن تھی
پایا دُولہن نے دُولہا صبح شبِ ولادت
پڑھتے ہیں عرش والے سنتے ہیں فرش والے
سلطانِ نو کا خطبہ صبح شبِ ولادت
چاندی ہے مفلسوں کی باندی ہے خوش نصیبی
آیا کرم کا داتا صبح شبِ ولادت
عالم کے دفتروں میں ترمیم ہو رہی ہے
بدلا ہے رنگِ دنیا صبح شبِ ولادت
ظلمت کے سب رجسٹر حرفِ غلط ہوئے ہیں
کاٹا گیا سیاہا صبح شبِ ولادت
ملکِ ازل کا سرور سب سروروں کا اَفسر
تختِ اَبد پہ بیٹھا صبح شبِ ولادت
سُوکھا پڑا ہے ساوا دریا ہوا سماوا
ہے خشک و تر پہ قبضہ صبح شبِ ولادت
نوابیاں سدھاریں جاری ہیں شاہی آئیں
کچا ہوا علاقہ صبح شبِ ولادت
دن پھر گئے ہمارے سوتے نصیب جاگے
خورشید ہی وہ چمکا صبح شبِ ولادت
قربان اے دوشنبے تجھ پر ہزار جمعے
وہ فضل تو نے پایا صبح شبِ ولادت
پیارے ربیع الاوّل تیری جھلک کے صدقے
چمکا دیا نصیبہ صبح شبِ ولادت
وہ مہر مہر فرما وہ ماہِ عالم آرا
تاروں کی چھائوں آیا صبح شبِ ولادت
نوشہ بنائو اُن کو دولھا بنائو اُن کو
ہے عرش تک یہ شُہرہ صبح شب ولادت
شادی رچی ہوئی ہے بجتے ہیں شادیانے
دُولھا بنا وہ دُولھا صبح شبِ ولادت
محروم رہ نہ جائیں دن رات برکتوں سے
اس واسطے وہ آیا صبح شبِ ولادت
عرشِ عظیم جھومے کعبہ زمین چُومے
آتا ہے عرش والا صبح شبِ ولادت
ہشیار ہوں بھکاری نزدیک ہے سواری
یہ کہہ رہا ہے ڈنکا صبح شبِ ولادت
بندوں کو عیشِ شادی اَعدا کو نامرادی
کڑکیت کا ہے کڑکا صبح شبِ ولادت
تارے ڈھلک کر آئے کاسے کٹورے لائے
یعنی بٹے گا صدقہ صبح شبِ ولادت
آمد کا شور سن کر گھر آئے ہیں بھکاری
گھیرے کھڑے ہیں رستہ صبح شبِ ولادت
ہر جان منتظر ہے ہر دیدہ رہ نگر ہے
غوغا ہے مرحبا کا صبح شبِ ولادت
جبریل سر جھکائے قدسی پرّے جمائے
ہیں سرو قد ستادہ صبح شبِ ولادت
کس داب کس ادب سے کس جوش کس طرب سے
پڑھتے ہے اُن کا کلمہ صبح شبِ ولادت
ہاں دین والو اُٹھو تعظیم والوں اُٹھو
آیا تمہارا مولیٰ صبح شبِ ولادت
اُٹھو حضور آئے شاہِ غیور آئے
سلطانِ دین و دنیا صبح شبِ ولادت
اُٹھو ملک اُٹھے ہیں عرش و فلک اُٹھے ہیں
کرتے ہیں اُن کو سجدہ صبح شبِ ولادت
آئو فقیرو آئو منہ مانگی آس پائو
بابِ کریم ہے وا صبح شبِ ولادت
سُوکھی زبانوں آئو اے جلتی جانوں آئو
لہرا رہا ہے دریا صبح شبِ ولادت
مُرجھائی کلیوں آئو کمھلائے پھولوں آئو
برسا کرم کا جھالا صبح شبِ ولادت
تیری چمک دمک سے عالم جھلک رہاہے
میرے بھی بخت چمکا صبح شب ولادت
تاریک رات غم کی لائی بلا سِتم کی
صدقہ تجلّیوں کا صبح شبِ ولادت
لایا ہے شِیر تیرا نورِ خدا کا جلوہ
دل کر دے دودھ دھویا صبح شبِ ولادت
بانٹا ہے دو جہاں میں تو نے ضیا کا باڑا
دے دے حسنؔ کا حصہ صبح شبِ ولادت
000000000
ذکر شہادت
باغ‘ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلِ بیت
کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلِ بیت
مدح گوے مصطفیٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت
اُن کی پاکی کا خداے پاک کرتا ہے بیاں
آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت
مصطفیٰ عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دُودمانِ اہلِ بیت
اُن کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت
مصطفیٰ بائع خریدار اُس کا اﷲ اشتری
خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت
رزم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہِ حسن وعشق
کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلِ بیت
پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہواے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلِ بیت
حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگار
خوبرو دُولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلِ بیت
ہو گئی تحقیق عیدِ دید آبِ تیغ سے
اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلِ بیت
جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلِ بیت
اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا
کٹ رہا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلِ بیت
کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے
دن دہاڑے لُٹ رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت
خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات
خاک تجھ پر دیکھ تو سُوکھی زبانِ اہلِ بیت
خاک پر عباس و عثمانِ علم بردار ہیں
بے کسی اب کون اُٹھائے گا نشانِ اہلِ بیت
تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں
پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبانِ اہلِ بیت
قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر
وارثِ بے وارثاں کو کاروانِ اہلِ بیت
فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہلِ بیت
وقتِ رُخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ
لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہلِ بیت
اَبر فوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے
فاطمہ کا چاند مہر آسمانِ اہلِ بیت
کس مزے کی لذتیں ہیں آبِ تیغِ یار میں
خاک و خوں میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہلِ بیت
باغِ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا
اے زہے قسمت تمہاری کشتگانِ اہلِ بیت
حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سر کھولے ہوئے
آج کیسا حشر ہے برپا میانِ اہلِ بیت
کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بے کسی
آج کیسا ہے مریضِ نیم جانِ اہلِ بیت
گھر لُٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلِ بیت
سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اَور اونچی کی خدا نے قدر و شانِ اہلِ بیت
دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا میں خوب ہی چمکی دوکانِ اہلِ بیت
زخم کھانے کو تو آبِ تیغ پینے کو دیا
خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہلِ بیت
اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے
کون سی بستی بسائی تاجرانِ اہلِ بیت
اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں
لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَیْکُمْ دشمنانِ اہل ِبیت
بے ادب گستاخ فرقہ کو سنا دے اے حسنؔ
یوں کہا کرتے ہیں سُنّی داستانِ اہلِ بیت
 
(ردیف ثاے مثلثہ)
جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاث
جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاث
ہوتے ہیں کچھ اور ساماں الغیاث
درد مندوں کو دوا ملتی نہیں
اے دواے درد منداں الغیاث
جاں سے جاتے ہیں بے چارے غریب
چارہ فرماے غریباں الغیاث
حَد سے گزریں درد کی بے دردیاں
درد سے بے حد ہوں نالاں الغیاث
بے قراری چین لیتی ہی نہیں
اَے قرارِ بے قراراں الغیاث
حسرتیں دل میں بہت بے چین ہیں
گھر ہوا جاتا ہے زنداں الغیاث
خاک ہے پامال میری کُو بہ کُو
اے ہواے کوے جاناں الغیاث
المدد اے زُلفِ سرور المدد
ہوں بلائوں میں پریشاں الغیاث
دلِ کی اُلجھن دُور کر گیسوے پاک
اے کرم کے سنبلستان الغیاث
اے سرِ پُر نور اے سرِ خدا
ہوں سراسیمہ پریشاں الغیاث
غمزدوں کی شام ہے تاریک رات
اے جبیں اے ماہِ تاباں الغیاث
اَبروے شہ کاٹ دے زنجیرِ غم
تیرے صدقے تیرے قرباں الغیاث
دل کے ہر پہلو میں غم کی پھانس ہے
میں فدا مژگانِ جاناں الغیاث
چشمِ رحمت آ گیا آنکھوں میں دم
دیکھ حالِ خستہ حالاں الغیاث
مردمک اے مہر نورِ ذاتِ بحت
ہیں سیہ بختی کے ساماں الغیاث
تیر غم کے دل میں چھد کر رہ گئے
اے نگاہِ مہر جاناں الغیاث
اے کرم کی کان اے گوشِ حضور
سُن لے فریادِ غریباں الغیاث
عَارضِ رنگیں خزاں کو دُور کر
اے جناں آرا گلستاں الغیاث
بینی پُر نور حالِ ما بہ بیں
ناک میں دم ہے مری جاں الغیاث
جاں بلب ہوں جاں بلب پر رحم کر
اے لب اے عیساے دوراں الغیاث
اے تبسم غنچہ ہاے دل کی جاں
کھل چلیں مُرجھائی کلیاں الغیاث
اے دہن اے چشمۂ آبِ حیات
مر مٹے دے آبِ حیواں الغیاث
دُرِّ مقصد کے لیے ہوں غرقِ غم
گوہرِ شادابِ دنداں الغیاث
اے زبانِ پاک کچھ کہہ دے کہ ہو
رد بلاے بے زباناں الغیاث
اے کلام اے راحتِ جانِ کلیم
کلمہ گو ہے غم سے نالاں الغیاث
کامِ شہ اے کام بخشِ کامِ دل
ہوں میں ناکامی سے گریاں الغیاث
چاہِ غم میں ہوں گرفتارِ اَلم
چاہِ یوسف اے زنخداں الغیاث
ریشِ اطہر سنبلِ گلزارِ خلد
ریشِ غم سے ہوں پریشاں الغیاث
اے گلو اے صبح جنت شمع نور
تیِرہ ہے شامِ غریباں الغیاث
غم سے ہوں ہمدوش اے دوش المدد
دوش پر ہے بارِ عصیاں الغیاث
اے بغل اے صبحِ کافورِ بہشت
مہر بر شام غریباں الغیاث
غنچۂ گل عطر دانِ عطر خلد
بوے غم سے ہوں پریشاں الغیاث
بازوے شہ دست گیری کر مری
اے توانِ ناتواناں الغیاث
دستِ اقدس اے مرے نیسانِ جود
غم کے ہاتھوں سے ہوں گریاں الغیاث
اے کفِ دست اے یدِ بیضا کی جاں
تیرہ دل ہوں نور افشاں الغیاث
ہم سیہ ناموں کو اے تحریر دست
تو ہو دستاویز غفراں الغیاث
پھر بہائیں اُنگلیاں اَنہارِ فیض
پیاس سے ہونٹوں پہ ہے جاں الغیاث
بہرِ حق اے ناخن اے عقدہ کشا
مشکلیں ہو جائیں آساں الغیاث
سینۂ پُر نور صدقہ نور کا
بے ضیا سینہ ہے ویراں الغیاث
قلبِ انور تجھ کو سب کی فکر ہے
کر دے بے فکری کے ساماں الغیاث
اے جگر تجھ کو غلاموں کا ہے درد
میرے دُکھ کا بھی ہو درماں الغیاث
اے شکم بھر پیٹ صدقہ نور کا
پیٹ بھر اے کانِ احساں الغیاث
پشتِ والا میری پُشتی پر ہو تو
رُوبرو ہیں غم کے ساماں الغیاث
تیرے صدقے اے کمر بستہ کمر
ٹوٹی کمروں کا ہو درماں الغیاث
مُہر پشتِ پاک میں تجھ پر فدا
دے دے آزادی کا فرماں الغیاث
پاے انور اے سَرفرازی کی جاں
میں شکستہ پا ہوں جاناں الغیاث
نقشِ پا اے نو گل گلزارِ خلد
ہو یہ اُجڑا بَن گلستاں الغیاث
اے سراپا اے سراپا لطفِ حق
ہوں سراپا جرم و عصیاں الغیاث
اے عمامہ دَورِ گردش دُور کر
گرِد پھر پھر کر ہوں قرباں الغیاث
نیچے نیچے دامنوں والی عبا
خوار ہے خاکِ غریباں الغیاث
پڑ گئی شامِ اَلم میرے گلے
جلوۂ صبحِ گریباں الغیاث
کھول مشکل کی گرہ بندِ قبا
بندِ غم میں ہوں پریشاں الغیاث
آستیں نقدِ عطا در آستیں
بے نوا ہیں اَشک ریزاں الغیاث
چاک اے چاکِ جگر کے بخیہ کر
دل ہے غم سے چاک جاناں الغیاث
عیب کھلتے ہیں گدا کے روزِ حشر
دامنِ سلطانِ خوباں الغیاث
دور دامن دور دورہ ہے تیرا
دُور کر دُوری کا دوراں الغیاث
ہوں فسردہ خاطر اے گلگوں قبا
دل کھلا دیں تیری کلیاں الغیاث
دل ہے ٹکڑے ٹکڑے پیوندِ لباس
اے پناہِ خستہ حالاں الغیاث
ہے پھٹے حالوں مرا رختِ عمل
اے لباسِ پاک جاناں الغیاث
نعل شہ عزت ہے میری تیرے ہاتھ
اے وقارِ تاجِ شاہاں الغیاث
اے شراکِ نعلِ پاکِ مصطفیٰ
زیرِ نشتر ہے رگِ جاں الغیاث
شانۂ شہ دل ہے غم سے چاک چاک
اے انیسِ سینہ چاکاں الغیاث
سُرمہ اے چشم وچراغِ کوہِ طور
ہے سیہ شام غریباں الغیاث
ٹوٹتا ہے دم میں ڈورا سانس کا
ریشۂ مسواکِ جاناں الغیاث
آئینہ اے منزلِ انوارِ قدس
تیرہ بختی سے ہوں حیراں الغیاث
سخت دشمن ہے حسنؔ کی تاک میں
المدد محبوبِ یزداں الغیاث
00000000
اِستغاثہ بجنابِ غوثیت
پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث
مدد پر ہو تیری اِمداد یا غوث
اُڑے تیری طرف بعد فنا خاک
نہ ہو مٹی مری برباد یا غوث
مرے دل میں بسیں جلوے تمہارے
یہ ویرانہ بنے بغداد یا غوث
نہ بھولوں بھول کر بھی یاد تیری
نہ یاد آئے کسی کی یاد یا غوث
مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ فرماتے آئو
بَلائوں میں ہے یہ ناشاد یا غوث
گلے تک آ گیا سیلاب غم کا
چلا میں آئیے فریاد یا غوث
نشیمن سے اُڑا کر بھی نہ چھوڑا
ابھی ہے گھات میں صیاد یا غوث
خمیدہ سر گرفتارِ قضا ہے
کشیدہ خنجر جلاّد یا غوث
اندھیری رات جنگل میں اکیلا
مدد کا وقت ہے فریاد یا غوث
کھلا دو غنچۂ خاطر کہ تم ہو
بہارِ گلشنِ ایجاد یا غوث
مرے غم کی کہانی آپ سن لیں
کہوں میں کس سے یہ رُوداد یا غوث
رہوں آزادِ قیدِ عشق کب تک
کرو اِس قید سے آزاد یا غوث
کرو گے کب تک اچھا مجھ برے کو
مرے حق میں ہے کیا اِرشاد یا غوث
غمِ دنیا غمِ قبر و غمِ حشر
خدارا کر دو مجھ کو شاد یا غوث
حسنؔ منگتا ہے دے دے بھیک داتا
رہے یہ راج پاٹ آباد یا غوث
0000000000000
 
(ردیف جیم تازی)
کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج
کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج
کاغذ پہ جو سو ناز سے رکھتا ہے قدم آج
آمد ہے یہ کس بادشہِ عرش مکاں کی
آتے ہیں فلک سے جو حسینانِ اِرم آج
کس گل کی ہے آمد کہ خزاں دیدہ چمن میں
آتا ہے نظر نقشۂ گلزارِ اِرم آج
نذرانہ میں سر دینے کو حاضر ہے زمانہ
اُس بزم میں کس شاہ کے آتے ہیں قدم آج
بادل سے جو رحمت کے سرِ شام گھرے ہیں
برسے گا مگر صبح کو بارانِ کرم آج
کس چاند کی پھیلی ہے ضیا کیا یہ سماں ہے
ہر بام پہ ہے جلوہ نما نورِ قدم آج
کھلتا نہیں کس جانِ مسیحا کی ہے آمد
بت بولتے ہیں قالبِ بے جاں میں ہے دَم آج
بُت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہے
مِل مِل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج
کعبہ کا ہے نغمہ کہ ہوا لوث سے میں پاک
بُت نکلے کہ آئے مرے مالک کے قدم آج
تسلیم میں سر وجد میں دل منتظر آنکھیں
کس پھول کے مشتاق ہیں مُرغانِ حرم آج
اے کفر جھکا سر وہ شہِ بُت شکن آیا
گردن ہے تری دم میں تہِ تیغِ دو دم آج
کچھ رُعبِ شہنشاہ ہے کچھ ولولۂ شوق
ہے طرفہ کشاکش میں دلِ بیت و حرم آج
پُر نور جو ظلمت کدۂ دَہر ہوا ہے
روشن ہے کہ آتا ہے وہ مہتابِ کرم آج
ظاہر ہے کہ سلطانِ دو عالم کی ہے آمد
کعبہ پہ ہوا نصب جو یہ سبز علم آج
گر عالمِ ہستی میں وہ مہ جلوہ فگن ہے
تو سایہ کے جلوہ پہ فدا اہلِ عدم آج
ہاں مفلسو خوش ہو کہ ملا دامنِ دولت
تر دامنو مژدہ وہ اُٹھا ابرِ کرم آج
تعظیم کو اٹھے ہیں مَلک تم بھی کھڑے ہو
پیدا ہوئے سُلطانِ عرب شاہِ عجم آج
کل نارِ جہنم سے حسنؔ امن واماں ہو
اُس مالکِ فردوس پہ صدقے ہوں جو ہم آج
000000000000
 
(ردیف حاے حطّی)
دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح
دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح
ہر ذرّہ کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح
منہ دھو کے جوے شِیر میں آئے ہزار صبح
شامِ حرم کی پائے نہ ہر گز بہار صبح
ﷲ اپنے جلوۂ عارض کی بھیک دے
کر دے سیاہ بخت کی شب ہاے تار صبح
روشن ہے اُن کے جَلوۂ رنگیں کی تابشیں
بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح
رکھتی ہے شامِ طیبہ کچھ ایسی تجلیاں
سو جان سے ہو جس کی اَدا پر نثار صبح
نسبت نہیں سحر کو گریبانِ پاک سے
جوشِ فروغ سے ہے یہاں تار تار صبح
آتے ہیں پاسبانِ درِ شہ فلک سے روز
ستر ہزار شام تو ستر ہزار صبح
اے ذرّۂ مدینہ خدارا نگاہِ مہر
تڑکے سے دیکھتی ہے ترا انتظار صبح
زُلفِ حضور و عارضِ پُر نور پر نثار
کیا نور بار شام ہے کیا جلوہ بار صبح
نورِ ولادت مہِ بطحا کا فیض ہے
رہتی ہے جنتوں میں جو لیل و نہار صبح
ہر ذرّۂ حَرم سے نمایاں ہزار مہر
ہر مہر سے طلوع کناں بے شمار صبح
گیسو کے بعد یاد ہو رُخسارِ پاک کی
ہو مُشک بار شام کی کافور بار صبح
کیا نورِ دل کو نجدیِ تیرہ دروں سے کام
تا حشر شام سے نہ ملے زینہار صبح
حُسنِ شباب ذرّۂ طیبہ کچھ اور ہے
کیا کورِ باطن آئینہ کیا شیر خوار صبح
بس چل سکے تو شام سے پہلے سفر کرے
طیبہ کی حاضری کے لیے بے قرار صبح
مایوس کیوں ہو خاک نشیں حُسنِ یار سے
آخر ضیاے ذرّہ کی ہے ذمَّہ دار صبح
کیا دشتِ پاکِ طیبہ سے آئی ہے اے حسنؔ
لائی جو اپنی جیب میں نقدِ بہار صبح
0000000000000
جو نور بار ہوا آفتاب حسن ملیح
جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیح
ہوئے زمین و زماں کامیابِ حُسنِ ملیح
زوال مہر کو ہو ماہ کا جمال گھٹے
مگر ہے اَوج ابد پر شبابِ حُسنِ ملیح
زمیں کے پھول گریباں دریدۂ غمِ عشق
فلک پہ بَدر دل افگار تابِ حُسنِ ملیح
دلوں کی جان ہے لطفِ صباحتِ یوسف
مگر ہوا ہے نہ ہو گا جوابِ حُسنِ ملیح
الٰہی موت سے یوں آئے مجھ کو میٹھی نیند
رہے خیال کی راحت ہو خوابِ حُسنِ ملیح
جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھی
ہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حُسنِ ملیح
زمینِ شور بنے تختہ گل و سنبل
عرق فشاں ہو اگر آب و تابِ حُسنِ ملیح
نثار دولتِ بیدار و طالعِ ازواج
نہ دیکھی چشمِ زلیخا نے خوابِ حُسنِ ملیح
تجلیوں نے نمک بھر دیا ہے آنکھوں میں
ملاحت آپ ہوئی ہے حجابِ حُسنِ ملیح
نمک کا خاصہ ہے اپنے کیف پر لانا
ہر ایک شے نہ ہو کیوں بہرہ یابِ حُسنِ ملیح
عسل ہو آب بنیں کوزہائے قند حباب
جو بحرِ شور میں ہو عکس آبِ حُسنِ ملیح
دل صباحتِ یوسف میں سوزِ عشقِ حضور
نبات و قند ہوئے ہیں کبابِ حُسنِ ملیح
صبیح ہوں کہ صباحتِ جمیل ہوں کہ جمال
غرض سبھی ہیں نمک خوار باب حُسنِ ملیح
کھلے جب آنکھ نظر آئے وہ ملاحت پاک
بیاضِ صبح ہو یا رب کتابِ حُسنِ ملیح
حیاتِ بے مزہ ہو بخت تیرہ میدارم
بتاب اے مہِ گردوں جنابِ حُسنِ ملیح
حسنؔ کی پیاس بُجھا کر نصیب چمکا دے
ترے نثار میں اے آب و تابِ حُسنِ ملیح
0000000000000
 
(ردیف خاے معجمہ)
سحابِ رحمت ِباری ہے بارھویں تاریخ
سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ
کرم کا چشمۂ جاری ہے بارھویں تاریخ
ہمیں تو جان سے پیاری ہے بارھویں تاریخ
عدو کے دل کو کٹاری ہے بارھویں تاریخ
اِسی نے موسمِ گل کو کیا ہے موسمِ گل
بہارِ فصلِ بہاری ہے بارھویں تاریخ
بنی ہے سُرمۂ چشمِ بصیرت و ایماں
اُٹھی جو گردِ سواری ہے بارھویں تاریخ
ہزار عید ہوں ایک ایک لحظہ پر قرباں
خوشی دلوں پہ وہ طاری ہے بارھویں تاریخ
فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے
زمینِ خلد کی کیاری ہے بارھویں تاریخ
تمام ہو گئی میلادِ انبیا کی خوشی
ہمیشہ اب تری باری ہے بارھویں تاریخ
دِلوں کے میل دُھلے گل کھلے ُسرور ملے
عجیب چشمہ جاری ہے بارھویں تاریخ
چڑھی ہے اَوج پہ تقدیر خاکساروں کی
خدا نے جب سے اُتاری ہے بارھویں تاریخ
خدا کے فضل سے ایمان میں ہیں ہم پورے
کہ اپنی رُوح میں ساری ہے بارھویں تاریخ
ولادتِ شہِ دیں ہر خوشی کی باعث ہے
ہزار عید سے بھاری ہے بارھویں تاریخ
ہمیشہ تو نے غلاموں کے دل کیے ٹھنڈے
جلے جو تجھ سے وہ ناری ہے بارھویں تاریخ
خوشی ہے اہلِ سنن میں مگر عدو کے یہاں
فغان و شیون و زاری ہے بارھویں تاریخ
جدھر گیا ، سنی آوازِ یَا رَسُوْلَ اﷲ
ہر اِک جگہ اُسے خواری ہے بارھویں تاریخ
عدو ولادتِ شیطاں کے دن منائے خوشی
کہ عید عید ہماری ہے بارھویں تاریخ
حسنؔ ولادتِ سرکار سے ہوا روشن
مرے خدا کو بھی پیاری ہے بارھویں تاریخ
0000000000000000
 
(ردیف دالِ مہملہ)
ذات ِوالاپہ بار بار درود
ذاتِ والا پہ بار بار درود
بار بار اور بے شمار درود
رُوئے اَنور پہ نور بار سلام
زُلفِ اطہر پہ مشکبار درود
اُس مہک پر شمیم بیز سلام
اُس چمک پہ فروغ بار درود
اُن کے ہر جلوہ پر ہزار سلام
اُن کے ہر لمعہ پر ہزار درود
اُن کی طلعت پر جلوہ ریز سلام
اُن کی نکہت پہ عطر بار درود
جس کی خوشبو بہارِ خلد بسائے
ہے وہ محبوبِ گلعذار درود
سر سے پا تک کرور بار سلام
اور سراپا پہ بے شمار درود
دل کے ہمراہ ہوں سلام فدا
جان کے ساتھ ہو نثار درود
چارۂ جان درد مند سلام
مرھمِ سینۂ فگار درود
بے عدد اور بے عدد تسلیم
بے شمار اور بے شمار درود
بیٹھتے اُٹھتے جاگتے سوتے
ہو الہٰی مرا شعار درود
شہر یارِ رُسل کی نذر کروں
سب درودوں کی تاجدار درود
گور بیکس کو شمع سے کیا کام
ہو چراغِ سرِِ مزار درود
قبر میں خوب کام آتی ہے
بیکسوں کی ہے یارِ غار درود
اُنھیں کس کے دُرود کی پروا
بھیجے جب اُن کا کردگار درود
ہے کرم ہی کرم کہ سنتے ہیں
آپ خوش ہو کے بار بار درود
جان نکلے تو اِس طرح نکلے
تجھ پہ اے غمزدوں کے یار درود
دل میں جلوے بسے ہوئے تیرے
لب سے جاری ہو بار بار درود
اے حسنؔ خارِ غم کو دل سے نکال
غمزدوں کی ہے غمگسار درود
0000000000000000
رنگ ِچمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند
رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند
صحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو توُ پسند
اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہے
ہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند
مایوس ہو کے سب سے میں آیا ہوں تیرے پاس
اے جان کر لے ٹوٹے ہوئے دل کو تو پسند
ہیں خانہ زاد بندۂ احساں تو کیا عجب
تیری وہ خُو ہے کرتے ہیں جس کو عدُو پسند
کیوں کر نہ چاہیں تیری گلی میں ہوں مٹ کے خاک
دنیا میں آج کس کو نہیں آبرو پسند
ہے خاکسار پر کرمِ خاص کی نظر
عاجز نواز ہے تیری خُو اے خوبرو پسند
قُلْکہہ کر اپنی بات بھی لب سے ترے سنی
اﷲ کو ہے اِتنی تری گفتگو پسند
حُورو فرشتہ جن و بشر سب نثار ہیں
ہے دو جہاں میں قبضہ کیے چار سُو پسند
اُن کے گناہگار کی اُمیدِ عفو کو
پہلے کرے گی آیتِ لَا تَقْنَطُوْا پسند
طیبہ میں سر جھکاتے ہیں خاکِ نیاز پر
کونین کے بڑے سے بڑے آبرو پسند
ہے خواہشِ وصالِ درِ یار اے حسنؔ
آئے نہ کیوں اَثر کو مری آرزو پسند
000000000000000
 
(ردیف ذال معجمہ)
ہو اگر مدحِ کف ِپا سے منور کا غذ
ہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذ
عارضِ حور کی زینت ہو سراسر کاغذ
صفتِ خارِ مدینہ میں کروں گل کاری
دفترِ گل کا عنادِل سے منگا کر کاغذ
عارضِ پاک کی تعریف ہو جس پرچے میں
سو سیہ نامہ اُجالے وہ منور کاغذ
شامِ طیبہ کی تجلّی کا کچھ اَحوال لکھوں
دے بیاضِ سحر اک ایسا منور کاغذ
یادِ محبوب میں کاغذ سے تو دل کم نہ رہے
کہ جدا نقش سے ہوتا نہیں دَم بھر کاغذ
ورقِ مہر اُسے خط غلامی لکھ دے
ہو جو وصفِ رُخِ پُر نور سے انور کاغذ
تیرے بندے ہیں طلبگار تری رحمت کے
سن گناہوں کے نہ اے دَاورِ محشر کاغذ
لَبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں
ہو مجھے تارِ نفس ہر خَطِ مسطر کاغذ
مدح رُخسار کے پھولوں میں بسا لوں جو حسنؔ
حشر میں ہو مرے نامہ کا معطر کاغذ
000000000000000
 
(ردیف راے مہملہ)
اگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کر
اگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کر
چلیں گے بیٹھتے اُٹھتے غبارِ کارواں ہو کر
شبِ معراج وہ دم بھر میں پلٹے لامکاں ہو کر
بَہارِ ہشت جنت دیکھ کر ہفت آسماں ہو کر
چمن کی سیر سے جلتا ہے جی طیبہ کی فرقت میں
مجھے گلزار کا سبزہ رُلاتاہے دُھواں ہو کر
تصور اُس لبِ جاں بخش کا کس شان سے آیا
دلوں کا چین ہو کر جان کا آرامِ جاں ہو کر
کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومن
تمہارے دَر پہ رہ جائوں جو سنگِ آستاں ہو کر
دکھا دے یا خدا گلزارِ طیبہ کا سماں مجھ کو
پھروں کب تک پریشاں بلبلِ بے آشیاں ہو کر
ہوئے یُمن قدم سے فرش و عرش و لامکاں زندہ
خلاصہ یہ کہ سرکار آئے ہیں جانِ جہاں ہو کر
ترے دستِ عطا نے دولتیں دیں دل کیے ٹھنڈے
کہیں گوہر فشاں ہو کر کہیں آبِ رواں ہو کر
فدا ہو جائے اُمت اِس حمایت اِس محبت پر
ہزاروں غم لیے ہیں ایک دل پُر شادماں ہو کر
جو رکھتے ہیں سلاطیں شاہیِ جاوید کی خواہش
نشاں قائم کریں اُن کی گلی میں بے نشاں ہو کر
وہ جس رَہ سے گزرتے ہیں بسی رہتی ہے مدت تک
نصیب اُس گھرکے جس گھرمیں وہ ٹھہریں میہماں ہو کر
حسنؔ کیوں پائوں توڑے بیٹھے ہو طیبہ کا رستہ لو
زمینِ ہند سرگرداں رکھے گی آسماں ہو کر
0000000000000000
مرحبا عزت وکمالِ حضور
مرحبا عزت و کمالِ حضور
ہے جلالِ خدا جلالِ حضور
اُن کے قدموں کی یاد میں مریے
کیجیے دل کو پائمالِ حضور
دشتِ ایمن ہے سینۂ مؤمن
دل میں ہے جلوۂ خیالِ حضور
آفرنیش کو ناز ہے جس پر
ہے وہ انداز بے مثالِ حضور
مَاہ کی جان مہر کا ایماں
جلوۂ حُسنِ بے زوالِ حضور
حُسنِ یوسف کرے زلیخائی
خواب میں دیکھ کر جمالِ حضور
وقفِ انجاح مقصدِ خدام
ہر شب و روز و ماہ و سالِ حضور
سکہ رائج ہے حکم جاری ہے
دونوں عالم ہیں مُلک و مالِ حضور
تابِ دیدار ہو کسے جو نہ ہو
پردۂ غیب میں جمالِ حضور
جو نہ آئی نظر نہ آئے نظر
ہر نظر میں ہے وہ مثالِ حضور
اُنھیں نقصان دے نہیں سکتا
دشمن اپنا ہے بد سگالِ حضور
دُرّۃ التاج فرقِ شاہی ہے
ذرّۂ شوکتِ نعالِ حضور
حال سے کشفِ رازِ قال نہ ہو
قال سے کیا عیاں ہو حالِ حضور
منزلِ رُشد کے نجوم اصحاب
کشتیِ خیر و امنِ آلِ حضور
ہے مسِ قلب کے لیے اکسیر
اے حسنؔ خاکِ پائمالِ حضور
00000000000000000
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر
سر گزشتِ غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئے
کس کے دَر پر جائوں تیرا آستانہ چھوڑ کر
بے لقاے یار اُن کو چین آ جاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر
کون کہتا ہے دلِ بے مدعا ہے خوب چیز
میں تو کوڑی کو نہ لوں اُن کی تمنا چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگر اُس دَر سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر
کس تمنا پر جئیں یا رب اَسیرانِ قفس
آ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر
بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسے
کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر
خلد کیسا نفسِ سرکش جائوں گا طیبہ کو میں
بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رستہ چھوڑ کر
ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار
کیا غرض کیوں جائوں جنت کو مدینہ چھوڑ کر
حشر میں ایک ایک کا منہ تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر
مرکے جیتے ہیں جو اُن کے دَر پہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کہ مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر
0000000000000000​
 
Top