ذوقِ نعت، از : مولانا حسن رضا بریلوی کااجمالی تعارف
تحریر: محمد ثاقب رضا قادری
مرکزا لاولیاء لاہور، پاکستان
پیش کش: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی

بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا

’حسن رضا بریلوی‘ جہانِ شعروسخن کا ایک مشہور اور دنیائے علم واَدب کا ایک مظلوم نام ہے۔ یہ نام میلادکی محفلوں میں کثرت سے کانوں میں رس گھولتا ہے؛ لیکن علم واَدب کے عصری دبستان اس نام سے بہت کم مانوس ہیں۔ حالانکہ اس نام کی گونج علم وفکرکے ایوانوں میں زیادہ سنی سنائی جانی چاہیے؛ کیوں کہ یہ نام شعروسخن کے میدان سے زیادہ فکروتحقیق اورعقائدونظریات کے میدانوں میں معرکہ آرا رہا ہے۔ اس مظلوم مجاہد نے نظم و نثردونوں میدانوں میں بے تکان لکھا، اور اتنا لکھا کہ عقائد ومعمولات اہلسنّت کونکھار نکھار کے رکھ دیا، اورمنکرین و مخالفین کو رجھارجھا کے پچھاڑا؛ تاہم ہم جیسے ننگ اَسلاف ان گراں قدر سرمایوں کی کیا قدر جانتے۔ نہ اُن کی حفاظت کا کوئی معقول بندوبست کیا، اور نہ اُن کی اشاعت مکرر کرکے اُن کی صیانت کو یقینی بنایا۔ گویا ایسے بیش قیمت خزانے کو ضائع کرنے میں ہم نے اپنی طرف سے تو کوئی کسر روانہ رکھی؛ تاہم مالک الملک پروردگار کو ایسے بیش قیمت شہ پاروں کا ضیاع منظور نہ تھا؛ کیوںکہ اُن میں توحیدباری کی تابانیاں اور عشق رسول مقبول علیہ السلام کی جلوہ سامانیاں مستور تھیں، سو اُس نے اُن کے تحفظ وبچائو کا غیبی سامان کیا، اور آج محض اُسی کی توفیق بے پایاں اورنوازشِ بے کراں کے طفیل ایک ایک کرکے وہ ہم دست ہوتے چلے جارہے ہیں۔ فللہ الحمد علی منہٖ وکرمہٖ- اس مضمون کے ذریعہ دراصل حسن رضا بریلوی کے انھیں نایاب وپایاب لعل وگہرکی تب وتاب کا کچھ اجمالی وتفصیلی بیان مقصودہے۔

ذوق نعت [۱۳۲۶ھ]

مولانا حسن رضا کا نعتیہ دیوان ’’ذوق نعت‘‘ معروف بہ ’’صلۂ آخرت‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۳۲۶ھ میں آپ کے وصال کے بعدحکیم حسین رضا خان کی سعی و اہتمام سے طبع ہوا۔حمد، نعت، مناقب صحابہ و اولیأ،ذکر شہادت، بیان معراج، نغمۂ رُوح،کشفِ رازِ نجدیت ،رُباعیات اور چند تاریخی قطعات پر مشتمل ہے۔ تقریبًا تمام حروف تہجی کے ردیف میں مولانا نے کلام فرمایا ہے۔ اول طباعت پر اخبار ’’اہل ِفقہ‘‘ ،امرتسرکے ایڈیٹر مولانا غلام احمد صاحب نے ۲۰جولائی، ۱۹۰۹ء کے شمارہ میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا اشتہار دیا، جس کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں :
’’یہ نعتیہ دیوان جناب حضرت مولانا الحاج حسن رضا خان صاحب مرحوم و مغفور بریلوی کی تصنیف ہے۔ حضرت مولانا موصوف اعلیٰ درجہ کے ادیب اور شاعر تھے اور آپ کے کلام میں ایسی تاثیر ہے کہ دل اِس کے سننے سے بے اختیار ہو جاتا ہے۔ آپ کی قادرُالکلامی کا یہ عالم ہے کہ ایک دفعہ مجھے بریلی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نعتیہ رسالہ جاری کرنے والا ہوں، پہلی طرح ہو گی’’محوِ دیدار ِمحمد دل ہمارا ہو گیا‘‘، اس پر ایک نعتیہ غزل تحریر فرما دیجیے۔

آپ نے فورًا قلم برداشتہ غزل لکھ دی جس کے چند اشعار درج ہیں :
ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا
غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا
تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے
تیری ہیبت سے فلک کا مہ دو پارا ہو گیا
نام تیرا ذکر تیرا تُو ترا پیارا خیال
ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا

آپ نے ایام رحلت سے پہلے اپنا نعتیہ دیوان مرتب کرنا شروع کیا مگر افسوس کہ چھپنے سے پہلے آپ رہ گزارِ عالم جاودانی ہوئے اور اب یہ دیوان آپ کے فرزندرشید جناب مولوی حکیم حسین رضا خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ پر بکمالِ آب وتاب چھپوایا ہے۔ علاوہ نعت شریفوں کے حضراتِ بزرگان دین کی شان میں مناقب و قصائد لکھے ہیں۔ بعض مبتدعین کے ردمیں بھی چند نظمیں ہیں۔ تمام مسلمانوں کو عمومًا اور نعت خوانوں کو خصوصًااس قابل قدر کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے’’ ذوق نعت‘‘ کی تاریخ میں ایک شاہکار قطعہ لکھا، قطعہ کیا ہے اعلیٰ حضرت کی شاعر ی شکوہ انداز، حسنؔ کی یادیں ، شاعری اور شخصیت کا حسین مرقع، ملی اور مذہبی خدمات ، اپنے روابط اور حسنؔ سے جذباتی لگاؤ کا واضح اظہار جو اعماقِ قلب سے زبانِ قلم پر اُترا اور صفحہ قرطاس پر بکھر گیا ۔ آخری چار شعر ہر مصرع تاریخ، مصرع نصف کی تکرار، صنائع بدائع سے مملو، حسن وجمال کی تصویر دیکھیے ؎
قوت بازؤے من سُنّی نجدی فگن
حاجی و زائر حسن، سلمہٗ ذوالمنن
نعت چہ رنگیں نوشت، شعر خوش آئیں نوشت
شعر مگو دیں نوشت، دور ز ہر ریب و ظن
شرع ز شعرش عیاں، عرش بہ بتیش نہاں
سُنّیہ را حرزِ جاں، نجدیہ را سر شکن
قلقلِ ایں تازہ جوش، بادہ بہنگام نوش
نور فشاند بگوش، شہد چسکاں در دہن
کلک رضاؔ سالِ طبع، گفت بہ افضال طبع
زا نکہ از اقوالِ طبع، کلک بود نغمہ زن
’’اوج بہیں محمدت، جلوہ گہ مرحمت‘‘
’’عافیت عاقبت باد نوائے حسنؔ‘‘
’’بادِ نوائے حسنؔ، باب رضائے حسن‘‘ؔ
’’باب رضائے حسنؔ، باز بہ جلبِ منن‘‘
’’باز بہ جلبِ منن، بازوئے بخت قوی‘‘
’’بازوِ بخت قوی،نیک حجابِ محن‘‘
’’نیک حجابِ محن، فضل عفو و نبی‘‘
’’فضل عفو و نبی، حبل وی و حبل من‘‘
اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :
نعتِ حسنؔ آمدہ نعتِ حسن
حُسنِ رضا باد بزیں سلام
اِنَّ مِنَ الذَّوْقِ لَسِحْرٌ ہمہ
اِنَّ مِنَ الشِعْرِ لَحِکْمَۃٌ تمام
کلک رضاؔ داد چناں سال آں
یافت قول از شد رأس الانام

پاک و ہند میں’’ذوق نعت‘‘ کے کئی ایڈیشنز چھپ کر قبولیت عامہ حاصل کرچکے، لکھنؤ سے طبع ہونے والے پانچویں ایڈیشن میں کچھ کلام کا اضافہ کیا گیا ، غالبًایہی نسخہ بعد میں مرکزی انجمن حزب الاحناف، لاہور سے شاہ ابوالبرکات (خلیفۂ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی) نے شائع کروایا۔ اضافی کلام کی تفصیل پیش کی جاتی ہے :
۱۔ اس ایڈیشن میں مولانا حسن رضا کی مثنویوں کو شامل کیا گیا، جن میں’’ وسائل بخشش ‘‘بھی شامل ہے اور کچھ میلاد شریف کے بیان پر مشتمل ہیں۔
۲۔قصیدہ درمدح شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمۃ
۳۔نذیر احمد دہلوی نے سیداحمدخان کی مد ح میں قصیدہ لکھا تھا جس کا ردیف ’’باقی‘‘تھا ، مولانانے اس قصیدہ کا ایک ایک شعر نقل کرکے پھر اسی ردیف میں نذیر احمد کے قصیدہ کا رد کیا ہے۔ تقریبًا سو (۱۰۰) سے زائد اشعار ہیں۔
 
Top