ذرا سوچئے!

ذوالقرنین

لائبریرین
باپ رات کو دیر سے گھر لوٹ آیا۔ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے تھکاوٹ اور چڑچڑاپن محسوس کر رہا تھا۔ اس کا کم سن بیٹا اس کے انتظار میں دروازے کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔
بیٹا: ابو! کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟
باپ: ہاں بیٹا! کیوں نہیں، پوچھو۔
بیٹا: آپ ایک گھنٹے میں کتنا کماتے ہو؟
باپ (غصے سے): یہ سوچنا تمہارا کام نہیں۔ اس طرح کا سوال تمہارے ذہن میں آیا کیسے؟
بیٹا: بس یوں ہی، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہو؟
باپ: اگر تم ضروری جاننا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے۔ (سوچتے ہوئے) 500 روپے۔
بیٹا: او ہو۔۔۔۔ (کہتے ہوئے اپنا سر جھکا لیا) ابو! کیا آپ مجھے 250 روپے قرض دو گے؟
باپ کا پارا ایک دم چڑھ گیا۔ "کیا تم مجھ سے صرف اس وجہ سے پوچھ رہے تھے کہ کسی گھٹیا کھلونے یا اس طرح کی دوسری چیزیں خریدنے کے لیے مجھ سے قرض مانگ سکو تو بہتر یہی ہے کہ جاؤ اپنے کمرے میں اور بستر پر سو جاؤ۔ اس طرح کی چھچھوری حرکت کرتے ہوئے تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ تمہارا باپ ایک گھنٹے میں اتنے پیسے کتنی مشکل اور خون پسینہ بہا کر حاصل کرتا ہے۔"
بیٹا خاموشی سے مڑا اور اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔
باپ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ابھی تک غصے سے بیٹے کے اس حرکت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کیوں اسے مجھ سے اتنے پیسے مانگنے کی ضرورت پڑ گئی؟ گھنٹے بھر بعد جب اس کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا تو دوبارہ سوچنے لگا۔
ہو سکتا ہے کہ اسے کسی بہت ضروری چیز خریدنا ہے جو کہ مہنگا ہوگا اس لیے مجھ سے اتنے پیسے مانگ رہا تھا۔ ویسے تو اس نے کبھی مجھ سے اتنے پیسے نہیں مانگے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ بیٹے کے کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا۔
باپ: کیا تم سو گئے بیٹا؟
بیٹا (اٹھ کر بیٹھتے ہوئے): نہیں ابو! جاگ رہا ہوں۔
باپ: مجھے لگتا ہے کہ میں نے تم سے کافی سختی سے پیش آیا۔ دراصل آج میں نے بہت سخت اور تھکا دینے والا دن گزارا ہے۔ اس لیے تم پر ناراض ہو گیا۔ یہ لو 250 روپے۔
بیٹا (خوشی سے مسکراتے ہوئے): بہت بہت شکریہ ابو! واؤ۔
ایک ہاتھ میں پیسے لے کر دوسرے ہاتھ کو اپنے تکیے کی طرف بڑھایا اور جب اپنا ہاتھ تکیے کے نیچے سے نکالا تو اس کی مٹھی میں چند مڑے تڑے نوٹ دبے ہوئے تھے۔ دونوں پیسے باہم ملا کر گننا شروع کیا۔ گننے کے بعد باپ کی طرف دیکھا۔
باپ نے جب دیکھا کہ بیٹے کے پاس پہلے سے بھی پیسے ہیں تو اس کا غصہ دوبارہ چڑھنا شروع ہو گیا۔
باپ: جب تمہارے پاس پہلے ہی سے اتنے پیسے ہیں تو تمہیں مزید پیسے مانگنے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟
بیٹا: دراصل میرے پیسے کم پڑ رہے تھے لیکن اب پورے ہیں۔ اب میرے پاس پورے 500 روپے ہیں۔ (پیسے باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے) ابو! میں آپ سے آپ کا ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں۔ پلیز کل آپ ایک گھنٹہ پہلے آ جائیے گا تاکہ میں آپ کے ساتھ کھانا کھا سکوں۔
باپ سکتے میں آ گیا۔ بانہیں پھیلا کر بیٹے کو آغوش میں لے لیا اور گلوگیر آواز سے اس سے اپنے رویہ کا معافی مانگنے لگا۔
ذرا سوچئے! زندگی کی روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں کہیں آپ بھی اپنے بچے کو وقت نہیں دے پا رہے؟
 

سید زبیر

محفلین
نیرنگ خیال بھائی ، آپ نے شائد یہ کہانی سنیہو لیکن اسی کہنی پر عمل کرتے ہوئے میرے دوست ڈاکٹر جو صبح آٹھ بجے سے رات دس بجے تک پریکٹس کرتے ہیں اور 1000 روپے فیس ہت کے بچوں نے اپنے وال کو حقیقتا ایسا ہی کہا تھا ۔ مگر وہ ڈاکٹر صاحب آج بھی اسی طرح مصروف عمل ہیں اور بچے ترستے ہیں اب ماشا اللہ جوان ہو گئے ہیں مگر ان کے ذہنوں میں باپ کی ایسی ہی تصویر ہے اللہ ہدائت دے
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بالکل بھی نہیں نایاب بھائی! بچے تو والدین کے عکس ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے عکس کو دھندلا نہ ہونے دیں۔ ورنہ خود کا چہرہ بھی کھو دیں گے۔
 

نایاب

لائبریرین
بالکل بھی نہیں نایاب بھائی! بچے تو والدین کے عکس ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے عکس کو دھندلا نہ ہونے دیں۔ ورنہ خود کا چہرہ بھی کھو دیں گے۔
میرے محترم بھائی وقت نے کبھی ایسا الجھایا تھا کہ میں اپنے بیٹے کی پیدائیش کے سات سال بعد اس سے مل پایا تھا ۔ اور اس نے بھی معصومیت کے عالم میں کچھ ایسی ہی بات کی تھی ۔
 
Top