دیے کی آنکھ - مقبول عامر

مقبول عامر صوبہ سرحد کے خوبصورت لہجے کے غزل گو شاعر تھے۔ ان کی موت کے بعد ان کا مجموعہ اب ناپید ہوچکا ہے۔ اس لیے سوچا کہ ان کی کتاب کو فورم میں شامل کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا جا ئے۔ اس کے علاوہ ایک یہ مقصد بھی ہے کہ گمنام شعراء کے کلام کو منظر عام پر لایا جا سکے۔ان کے متعلق احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:


(مقبول عامر پٹھان ہے۔ اس کی مادری زبان پشتو ہے اردو بولتے وقت اس کا پشتون لہجہ واضح ہوتاہے۔ (سنا ہے علامہ اقبال بھی پنجابی لہجے میں اردو بولتے تھے) مگر اُس کی شاعری پر غور کیجیے تو وہ نہایت صاف ستھری اردو میں جذبہ و خیال سے آراستہ ایسی رواں دواں خوبصورت شاعری کرتا ہے کہ اس پر رشک آتا ہے، کہیں کہیں تو سراسر اہل زبان معلوم ہوتا ہے، وہ محاورے اور روزمرے کو ایسے سلیقے سے استعمال کرتا ہے کہ اُن کے مفاہیم میں اضافہ ہوتا محسوس ہوتا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ بنوں کا یہ پٹھان شاعر فراق اور یگانہ کے لحن میں شعر کیسے کہہ لیتا ہے جبکہ وہ اپنی انفرادیت پر بھی آنچ نہیں آنے دیتا۔
مقبول عامر کے ہاں جذبے کی شدت نہایت سلاست اور بے ساختگی سے اظہار پاتی ہے۔ اس کا یہ جذبہ ذاتی بھی ہے اور اجتماعی بھی کہ وہ محض باطن کا شاعر نہیں ہے۔ وہ اپنے گردوپیش سے آنکھیں بند نہیں کرتا۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے اسے اپنے اندر کھپا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ شعر کہتا ہے تو اس کےایک ایک لفظ میں روحِ عصر سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ شعور اور وجدان کو جس طرح مقبول عامر نے اپنی شاعر میں یک جان کیا ہے۔ اُس کی مثالیں اردو میں کم ہی دستیاب ہوں گی۔ بلاشبہ اُس نے زندہ رہنے والی شاعری کی ہے۔)



کتاب کی ابتداء ایک چھوٹی سی نظم سے ہوتی ہے۔


فرد جرم

فقیہِ‌ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا!
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک شعر

وہ فصل گل کی طرح آ تو جائے گا لیکن
مجھے خزاں‌ کی ہوا دور لے گئی ہوگی‌
 
غزل نمبر ا

غزل

یہی چنار یہی جھیل کا کنارا تھا
یہیں کسی نے میرے ساتھ دن گزارا تھا

نظر میں نقش ہے صبحِ سفر کی ویرانی
بس ایک میں تھا اور اک صبح‌کا ستارا تھا

مرے خلاف گواہی میں‌ پیش پیش رہا
وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا

خراج دیتا چلا آرہا ہوں آج تلک
میں ایک روز زمانے سے جنگ ہارا تھا

مجھے خود اپنی نہیں اس کی فکر لاحق ہے
بچھڑنے والا بھی مجھ سا ہی بے سہارا تھا

زمیں کے کام اگر میری دسترس میں نہیں
تو پھر زمیں پہ مجھے کس لیے اتارا تھا

میں جل کے راکھ ہوا جس الاو میں‌ عامر
وہ ابتدا میں‌ سلگتا ہوا شرارہ تھا​
 
غزل نمبر 2

غزل

پھر وہی ہم ہیں وہی تیشہء رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے

اپنا مسلک ہی نہیں‌ زخم دکھاتے پھرنا
جانتا ہوں کہ ترے پاس مسیحائی ہے

سانحہ پھر کوئی بستی میں ہوا ہے شاید
شام روتی ہوئی جنگل کی طرف آئی ہے

صبح دم دل کے دریچوں میں پہ یہ ہلکی دستک
دیکھ تو بادِ صبا کس کی خبر لائی ہے

کچھ تو ہم مائل گریہ تھے بڑی مدت سے
کچھ تری یاد بڑی دیر کے بعد آئی ہے

دور اڑتے ہیں فضاوں میں پرندے عامر
میری کشتی کسی ساحل کے قریب آئی ہے​
 
غزل 3

آنکھوں کے خواب زار کو تاراج کر گئی
پاگل ہوا چلی تو حدوں سے گزر گئی

دو گام تک ہی سبز مناظر تھے اس کے بعد
اک دشتِ بیکراں تھا جہاں تک نظر گئی

پھر شام کی ہوا نے تری بات چھیڑ دی
پھر میرے چار سو تری خوشبو بکھر گئی

پل بھر و چشمِ‌ تر سے مجھے دیکھتا رہا
پھر اس کے آنسووں سے میری آنکھ بھر گئ

دو سائے اک مینار کے نیچے بہم ہوئے
اور دھوپ کوہسار کے پیچھے اتر گئی

میں‌ دشت میں بھٹکتا رہا اور ہوائے گل
مجھ کو تلاش کرتی ہوئی در بدر گئی

لہجے میں وہ اثر تھا کہ باوصفِ اختلاف
جو بات منہ سے نکلی دِلوں‌ میں‌اتر گئی​
 
غزل 5

غزل

سلگ رہی ہے فضا سائباں کے ہوتے ہوئے
زمیں پہ اتنے ستم آسماں‌کے ہوتے ہوئے

کسی بھی گھاٹ نہ اُترا مرا سفینہء دل
ہوا کے رخ‌ پہ کھلے بادباں‌کے ہوتے ہوئے

کہ جیسے اُس کو فضاوں‌سے خاص نسبت ہو
پرندہ اڑتا رہا آشیاں کے ہوتے ہوئے

مہ و نجوم کی جانب نظر اُٹھے کیسے!
اس اپنے رنگ بھرے خاکداں کے ہوتے ہوئے

عجب طرح‌کا مسافر تھا اپنا عامر بھی
اکیلا چلتا رہا کارواں‌کے ہوتے ہوئے​
 
نظم (زندگی) نظم( مسافتِ‌ جاں) نظم (جوئے شیر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


زندگی

روزِ آغاز سے آج تک
لاکھوں‌صدیوں پہ پھیلے ہوئے وقت کو
ذہن میں لائیے
اور پھر آج سے حشر تک
آنے والے زمانوں کی وسعت کا
ادراک کرتے ہوئے سوچئے
آپ کی زندگی!
یامری زندگی!
وقت کے بیکراں دشت میں
ایک ذرے برابر بھی ہے یا نہیں؟


کیا اسی سانس بھر وقت کا نام ہی زیست ہے
کیا یہی جرم ہے جس کی پاداش میں
روز مرتے ہیں ہم
بیکراں پستیوں میں اترتے ہیں‌ ہم
دوسروں پر ہی کیا
اپنی جانوں‌ پہ بھی ظلم کرتے ہیں‌ ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم (مسافتِ جاں)

لمبے اور ویراں‌ رستے پر تنہا چلنا
اپنے آپ سے باتیں‌کرنا
بھولی بسری میٹھی یادیں
تازہ کرنا
تم کو بھی اچھا لگتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم (جوئے شیر)

ذرا اے راہرو، اک بات سننا
میں‌ پربت پار کا نادار بندہ
تری بستی کی جانب آگیا ہوں
کہ اِک نازک بدن شیریں سخن نے
حریری پیراہن مانگا ہے مجھ سے
تجھے کچھ علم ہے ان وادیوں‌میں
کوئی ریشم کے کیڑے پالتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 6

غزل

زمین خشک، فلک بادلوں سے خالی ہے
اک ایک بوند کا دشتِ نظر سوالی ہے

یہ جنگِ صدق و صفا یادگار ٹھہرے گی
عدو ہے تیغ بکف، میرا ہاتھ خالی ہے

کوئی پڑاو نہیں‌ وقت کے تسلسل میں
یہ ماہ سال کی تقسیم تو خیالی ہے

سفر کی دھوپ اڑا لے گئی ہے رنگ تمام
نہ میرے زخم نہ تیرے لبوں‌ پہ لالی ہے

تمہارا حسن ہی یکتا نہیں‌ زمانے میں
خدا گواہ مرا عشق بھی مثالی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 7

غزل

منتظر رہنا مری جان بہار آنے تک
رنگ شاخوں سے گلابوں میں‌ اتر جانے تک

ایک تتلی ہے کہ بے چین اڑی پھرتی ہے
تیرے آنگن سے مرے دل کے پری خانے تک

دشتِ بے آب سے پوچھو کہ وہاں‌کے اشجار
کن مراحل سے گزرتے ہیں‌ نمو پانے تک

ہم تو چپ چاپ چلے آئے بحکمِ حاکم
راستہ روتا رہا شہر سے ویرانے تک

تشنگی اپنے نصیبوں‌ میں‌ لکھی تھی ورنہ
فاصلہ کچھ بھی نہ تھا ہونٹ سے پیمانے تک

چند لمحوں‌میں‌سبھی عکس نکھر آئیں‌گے
دھند کا راج ہے بس دھوپ نکل آنے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 8

غزل

یہ عہد کرب مرے نقش کو ابھارے گا
زمانہ اس کو مرے نام سے پکارے گا

ازل سے آدم و فطرت میں‌ برسرِ پیکار
خبر نہیں ہے کہ یہ جنگ کون ہارے گا

ہمیں‌ یہ غم ہے نگارِ‌ وطن کہ ہم نہ رہے
تو جانے کون ترا قرضِ غم اتارے گا

ترے وصال سے آباد تھی مری دنیا
ترا فراق مری عاقبت سنوارے گا

مجھے یقین ہے عامر کہ ایک روز خدا
اسی زمیں‌ پہ بہشت بریں‌ اتارے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
واہ جناب، آپ نے تو کمال کر دیا، جمال کر دیا۔ خیر، مجھے اتنی جلدی فرمائش پوری ہونے کی توقع نہیں تھی۔ لیکن اچھا لگا(شکریہ کی اجازت نہیں ہےمجھے)۔مزید کی توقع رکھوں؟
قیصرانی
 
غزل 9

غزل

خوشبووں‌ کی بارش تھی، چاندنی کا پہرہ تھا
میں بھی اُس شبستاں‌ میں ایک رات ٹھہرا تھا

تو مری مسیحائی جان! کس طرح‌کرتا
تیری جھیل آنکھوں‌سے میرا زخم گہرا تھا

میں‌ نے اس زمانے میں‌ تیرے گیت گائے ہیں
تیرا نام لینا بھی جب گناہ ٹھہرا تھا

اس گھڑی نبھایا تھا اس نے وصل کا وعدہ
جب تمام رستوں‌ پر چاندنی کا پہرہ تھا

رنگ یاد ہے اس کا شام کے دھندلکے میں
آنسووں‌ سے میں‌ تر چہرہ کس قدر سنہرا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 10

غزل

دل دریا کے پار اک ایسی وادی تھی
جس میں‌ سارے جذبوں‌کی آزادی تھی

بوٹے قد کی کومل سی شہزادی تھی
جس نے سارے شہر میں‌دھوم مچا دی تھی

آگ بجھاکر بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا
اک جھونکے نے ساری راکھ اڑا دی تھی

دریا پر پہنچا تو کتنا رویا تھا
وہ جس نے صحرا میں‌ عمر گنوا دی تھی

میں‌ اس کے انبوہ میں‌اکثر کھو جاتا
میرے اندر اک ایسی آبادی تھی

میری چھبتی نظروں نے اک دن عامر
اُس پیکر کو عریانی پہنا دی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
فیض احمد فیض

فیض احمد فیض

بادشاہوں کا بادشاہ تھا وہ
ہم فقیروں کی خانقاہ تھا وہ

ظلمتِ شب میں صبح کا تارہ
دشتِ غم میں نشانِ راہ تھا وہ

خوبصورت بھی ، خوب سیرت بھی
جھیل میں جیسے عکسِ ماہ تھا وہ

جو اسے سنگسار کرتے رہے
وہ بھی کہتے ہیں بے گناہ تھا وہ

آدمی بھی بلا کاتھا عامر
اور شاعر تو بے پناہ تھا وہ​
 
غزل 11

غزل

دل و نگاہ میں قندیل سی جلا دی ہے
سوادِ شب نے مجھے روشنی دکھا دی ہے

میں بارشوں میں نہاتا ہوں دھوپ اوڑھتا ہوں
مرا وجود کڑے موسموں کا عادی ہے

اسے کہو کہ ہواوں سے دوستی کر لے
وہ جس نے شمع سرِ رہگزر جلادی ہے

کنارِ آب کھڑے اک اداس پیکر نے
ندی میں چپکے سے ایک پنکھڑی بہا دی ہے

فلک نے بھیج کے صحرا میں ابر کا ٹکڑا
ہم اہل دشت کی تشنہ لبی بڑھا دی ہے

قفس میں میرے سوا جب کوئی نہیں عامر
تو پھر یہ کس نے جوابا مجھے صدا دی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل میں 12

غزل

آسماں کی چادر پرجس قدر ستارے ہیں
ہم نے اتنے ہی لمحے جاگ کر گزارے ہیں

رنگ و نور کے پیکر دیکھ کر خیال آئے
حسن نے مری خاطر کتنے روپ دھارے ہیں

تم قیام کے خوگر، ہم سفر کے شیدائی
بستیاں تمہاری ہیں، راستے ہمارے ہیں

جانے پھول کب مہکیں ، جانے آگ کب بھڑکے
دل میں نیم وا کلیاں ذہن میں شرارے ہیں

دل کی ڈولتی کشتی کیسے گھاٹ اترے گی
بے گراں سمندر ہے، بے لگام دھارے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 13

غزل

رچی ہوئی ہے یہ کیسی مہک ہواوں میں
میں گھل نہ جاوں کہیں‌شام کی فضاوں میں

یہ کس کا عکس مرے آنسووں میں لرزاں ہے
یہ کس کا نام ہے شامل مری دعاوں میں

چراغ و اطلس و کمخواب ہو گئے ہیں بہم
لگے گی آگ کسی دن حرم سراوں میں

زمانے والوں سے مایوس ہو گیا شاید
وہ شخص گھورتا رہتا ہے اب خلاوں میں

میں اڑ تو جاوں فضائے بسیط کی جانب
مگر یہ آہنی زنجیر میرے پاوں میں

وصال و ہجر کا جھگڑا نہیں ہے میرے لیے
میں جی رہا ہوں محبت کی دھوپ چھاوں میں

میں اپنے بخت ستارے کے کھوج میں عامر
تمام عمر بھٹکتا رہا خلاوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
نظمیں

۔۔۔۔۔۔
صبح کاذب

شب کے عقوبت خانے کا
نگران سپاہی
ہاتھ میں مشعل لیے ہوئے
دھیرے دھیرے
زنداں کے زینے سے
نیچے اتررہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منصف سے

ماں تو آخر ماں ہوتی ہے
بچوں کی خاطرروتی ہے
تم اس کی باتوں پہ نہ جاو
میں نے وفا کا جرم کیا ہے
مجھ کو زنجیریں پہناو
اہل وفا کامان بڑھاو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شب خون

بے خبری میں
ایسے سانحے ہم پر گزرے ہیں
جیسے خوابیدہ بچوں پر
کمرے کی چھت آن گرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 14

غزل

کیوں خوابوں کے محل بنائیں کیوں سپنے تعمیر کریں
جو کچھ ہم پر بیت رہی ہے کیوں نہ وہی تحریر کریں

ہم تو دل کی بات کہیں گے چاہے وقت کے آہن گر
سوچوں پر تعزیر لگائیں جذبوں کو زنجیر کریں

دل کے اندر رسنے والے آنسو کس نے دیکھے ہیں
جو نظروں سے اوجھل ہے اسے دکھ کی کیا تشہیر کریں

بستی کی ساری قندیلیں صبح تلک روشن رکھیں
تیرہ شبی سے لڑنے والے لوگوں کی توقیر کریں

حال اُس نے پوچھا لیکن یہ سوچ کے ہم خاموش رہے
خود تو صدموں سے بوجھل ہیں اُس کو کیوں دلگیر کریں

جس کے سارے رنگ مری آنکھوں کو ازبر ہیں عامر
آو دل کی دیواروں پر وہ صورت تصویر کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 15

جانے کیا سوچ کے اربابِ نظر لوٹ آئے
ایک دو گام پہ منزل تھی مگر لوٹ آئے

کاش یوں ہو کہ ٹھہری ہوئی شب ڈھل جائے
کاش یوں ہو کہ وہ گم گشتہ سحر لوٹ آئے

راستہ اتنا کھٹن تھا کہ سفیران وفا
گل بکف نکلے تھے اور خاک بسر لوٹ آئے

ایسے تازہ ہوا بھولے ہوئے غم کااحساس
ہم تیری بزم سے روتے ہوئے گھر لوٹ آئے

منصبِ عدل پہ بھی اہل ستم فائز تھے
لوگ ہاتھوں میں لیے کاسہء سر لوٹ آئے

مدتیں ہوگئیں جس کو یہ نگر چھوڑے ہوئے
کل اچانک وہ یہاں کس کو خبر لوٹ آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل 16

غزل
راحتیں کہاں ہوں گی کونسے نگر جائیں
کیوں تیری آنکھوں کی جھیل میں اتر جائیں

کیوں نہ اک الگ اپنا راستہ تراشیں ہم
کس کا نقش پا ڈھونڈیں کس کی راہ پرجائیں

اس ملول صورت کی تاب کیسے لاو گے
یوں نہ ہو کہ پھر آنکھیں آنسووں سے بھر جائیں

تیری جنبشِ لب پر انحصار ہے اپنا
تو کہے تو جی لیں ہم تو کہے تو مر جائیں

کون اس زمانے میں سر پہ ہاتھ رکھےگا
کس کے در پہ لے ہم اپنی چشمِ ترجائیں

اہل درد کہتے ہیں وقت ایک مرہم ہے
اپنے زخم بھی شاید ایک روز بھر جائیں

گام گام پر عامر مشعلیں جلائیں گے
آنے والوں کی خاطر روشنی تو کر جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top