وہاب اعجاز خان
محفلین
مقبول عامر صوبہ سرحد کے خوبصورت لہجے کے غزل گو شاعر تھے۔ ان کی موت کے بعد ان کا مجموعہ اب ناپید ہوچکا ہے۔ اس لیے سوچا کہ ان کی کتاب کو فورم میں شامل کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا جا ئے۔ اس کے علاوہ ایک یہ مقصد بھی ہے کہ گمنام شعراء کے کلام کو منظر عام پر لایا جا سکے۔ان کے متعلق احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
(مقبول عامر پٹھان ہے۔ اس کی مادری زبان پشتو ہے اردو بولتے وقت اس کا پشتون لہجہ واضح ہوتاہے۔ (سنا ہے علامہ اقبال بھی پنجابی لہجے میں اردو بولتے تھے) مگر اُس کی شاعری پر غور کیجیے تو وہ نہایت صاف ستھری اردو میں جذبہ و خیال سے آراستہ ایسی رواں دواں خوبصورت شاعری کرتا ہے کہ اس پر رشک آتا ہے، کہیں کہیں تو سراسر اہل زبان معلوم ہوتا ہے، وہ محاورے اور روزمرے کو ایسے سلیقے سے استعمال کرتا ہے کہ اُن کے مفاہیم میں اضافہ ہوتا محسوس ہوتا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ بنوں کا یہ پٹھان شاعر فراق اور یگانہ کے لحن میں شعر کیسے کہہ لیتا ہے جبکہ وہ اپنی انفرادیت پر بھی آنچ نہیں آنے دیتا۔
مقبول عامر کے ہاں جذبے کی شدت نہایت سلاست اور بے ساختگی سے اظہار پاتی ہے۔ اس کا یہ جذبہ ذاتی بھی ہے اور اجتماعی بھی کہ وہ محض باطن کا شاعر نہیں ہے۔ وہ اپنے گردوپیش سے آنکھیں بند نہیں کرتا۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے اسے اپنے اندر کھپا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ شعر کہتا ہے تو اس کےایک ایک لفظ میں روحِ عصر سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ شعور اور وجدان کو جس طرح مقبول عامر نے اپنی شاعر میں یک جان کیا ہے۔ اُس کی مثالیں اردو میں کم ہی دستیاب ہوں گی۔ بلاشبہ اُس نے زندہ رہنے والی شاعری کی ہے۔)
کتاب کی ابتداء ایک چھوٹی سی نظم سے ہوتی ہے۔
فرد جرم
فقیہِ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا!
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شعر
وہ فصل گل کی طرح آ تو جائے گا لیکن
مجھے خزاں کی ہوا دور لے گئی ہوگی
(مقبول عامر پٹھان ہے۔ اس کی مادری زبان پشتو ہے اردو بولتے وقت اس کا پشتون لہجہ واضح ہوتاہے۔ (سنا ہے علامہ اقبال بھی پنجابی لہجے میں اردو بولتے تھے) مگر اُس کی شاعری پر غور کیجیے تو وہ نہایت صاف ستھری اردو میں جذبہ و خیال سے آراستہ ایسی رواں دواں خوبصورت شاعری کرتا ہے کہ اس پر رشک آتا ہے، کہیں کہیں تو سراسر اہل زبان معلوم ہوتا ہے، وہ محاورے اور روزمرے کو ایسے سلیقے سے استعمال کرتا ہے کہ اُن کے مفاہیم میں اضافہ ہوتا محسوس ہوتا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ بنوں کا یہ پٹھان شاعر فراق اور یگانہ کے لحن میں شعر کیسے کہہ لیتا ہے جبکہ وہ اپنی انفرادیت پر بھی آنچ نہیں آنے دیتا۔
مقبول عامر کے ہاں جذبے کی شدت نہایت سلاست اور بے ساختگی سے اظہار پاتی ہے۔ اس کا یہ جذبہ ذاتی بھی ہے اور اجتماعی بھی کہ وہ محض باطن کا شاعر نہیں ہے۔ وہ اپنے گردوپیش سے آنکھیں بند نہیں کرتا۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے اسے اپنے اندر کھپا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ شعر کہتا ہے تو اس کےایک ایک لفظ میں روحِ عصر سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ شعور اور وجدان کو جس طرح مقبول عامر نے اپنی شاعر میں یک جان کیا ہے۔ اُس کی مثالیں اردو میں کم ہی دستیاب ہوں گی۔ بلاشبہ اُس نے زندہ رہنے والی شاعری کی ہے۔)
کتاب کی ابتداء ایک چھوٹی سی نظم سے ہوتی ہے۔
فرد جرم
فقیہِ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا!
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شعر
وہ فصل گل کی طرح آ تو جائے گا لیکن
مجھے خزاں کی ہوا دور لے گئی ہوگی