دیہات کی رات- فاخر ہریانوی

کاشفی

محفلین
دیہات کی رات
(فاخر ہریانوی- 1901ء)
چپکے چپکے گیت خاموشی کے گاتی ہے فضا
دیکھ کر تاروں کی جانب مسکراتی ہے فضا
اوڑھ کر اپنے تنِ نازک پہ چادر چاندنی
بام گردوں سے اُترتی ہے زمیں پر چاندنی
مسجد و محراب سے شورِ اذاں اُٹھتا نہیں
سرد اور خاموش چولہوں سے دھواں اُٹھتا نہیں
لیٹ جاتی ہےگھروں میں بیبیاں آرام سے
آدمی بے فکر ہوجاتے ہیں اپنے کام سے
ساگ لے لے کر گھروں میں پھرنے والی عورتیں
شوخ اور مُنہ پھٹ مگر شب رنگ کالی عورتیں
سارا دن چکّی پہ محنت کرنے والی لڑکیاں
کم سے کم اُجرت پہ پانی بھرنے والی لڑکیاں
بھاری بھرکم اور ضدی گاؤں کے سادہ رئیس
پہلوانوں، مجلسوں، کتّوں کے دلدادہ رئیس
مسجدوں کی کہنہ دیواروں کے رکھوالے امام
آئے دن پردیسوں سے بخشنے والے امام
خانقاہوں کے مجاور اور بھیک منگے فقیر
ادھ موئے،م گستاخ، سر اور پاؤں سے ننگے فقیر
موسمی گیتوں سے واقف خوش گلو میراسنیں
ہر کسی سے لڑنے والی تُندخو میراسنیں
ڈوم جن کی مبتذل باتوں پہ سر دُھنتے ہیں سب
اپنا اپنا من گھڑت شجرہ نسب سنتے ہیں سب
وہ مدّرس جن کے دم سے مدرسہ آباد ہے
جن کو سعدی کی گلستاں کچھ زبانی یاد ہے
رفتہ رفتہ نیند سے مدہوش ہوجاتے ہیں سب
اور اس پُرکیف وادی میں کھو جاتے ہیں سب
آدمی اعمال سے دوچار ہوتے ہیں جہاں
خواب رُوحوں کے لئے تیار ہوتے ہیں جہاں
 
Top