دیکھتا کیا ہے میر منہ کی طرف

تحریر وجاہت مسعود ،لاہور
تیس برس پہلے شام کی اذان کے ساتھ ہی سینکڑوں پرندے قطار اندر قطار اپنے گھونسلوں کی طرف اُڑتے دکھائی دیتے تھے
پاکستان کے ابتدائی دن تھے۔ جہاں تہاں سے قافلے بے سروسامانی کی داد دیتے چلے آ رہے تھے۔ کوئی انبالہ کے لٹے ہوئے قریے کی روشنی تھا تو کوئی دہلی کا روڑا ۔ کچھ جن کے ہاتھ پاؤں میں دم تھا وہ متروکہ جائیدادوں کی بہتی گنگا دیکھ کر گھر بیٹھے مہاجر ہو گئے تھے۔
اردو دان مہاجروں میں سے بہت سوں کو شعر کی چیٹک بھی تھی۔ یوں اہل زبان کو شعر فہمی کا دعوٰی تو رہتا ہی ہے۔ معمولاتِ زندگی درہم برہم تھے۔ کرنے کو کچھ تھا نہیں۔ سو لاہور میں مشاعروں کا بازار گرم ہو گیا۔ لارنس باغ کے ایسے ہی ایک مشاعرے میں امرتسر کے نووارِد شاعر نفیس خلیلی سے ایک شعر سرزد ہوا جو گلشن میں طرزِ بیان کا درجہ اختیار کر گیا۔

دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائداعظم کا پاکستان دیکھ

روایت ہے کہ اس شعر پر ایسا غلغلہ ہوا کہ شاعر عدالت میں کھنچا کھنچا پھرا۔ خیر گزری کہ میرِ عدالت جسٹس رستم کیانی تھے جن کی آنکھ سرکاری بوالعجبیوں کی تحقیق میں تہہ در تہہ جاتی تھی۔ اُنہوں نے نفیس خلیلی کو یہ کہہ کے بری کر دیا کہ شاعر محبِ وطن ہے اور اس کی تجویز ہے کہ قائد اعظم نے جو ملک بنایا ہے، اسے گھوم پھر کر دیکھا جائے۔ آپ اگر چاہیں تو نعم البدل کے طور پر نفیس خلیلی کا منہ دیکھتے رہیں۔
 
Top