زندگی گزاری ہے
دیوتا کی خدمت میں
اپنی جان واری ہے
دیوتا کی خدمت میں


دیوتا اگر خوش ہو
رحمتیں برستی ہیں
قسمتیں چمکتی ہیں
دیوتا جوناخوش ہو
آفتیں اتر تی ہیں
بجلیاں کڑکتی ہیں
۔۔۔۔۔۔
دیوتا ہو گرراضی
نعمتیں لٹاتاہے
زندگی سجاتا ہے
راستے بناتا ہے
۔۔۔۔۔۔
دیوتا ہو گرناراض
دھرتیاں ہلاتا ہے
آندھیاں چلاتا ہے
سب دئیے بجھاتاہے
۔۔۔۔۔
دیوتا سے کیاڈرنا
دیوتا تو قسمت ہے
ہم غلام لوگوں کی
زندگی غنیمت ہے
دیوتا کی ہستی بھی
ایک اور نعمت ہے
دیوتا ہے نفرت بھی
دیوتا محبت بھی
 
جناب شعیبی صاحب ، سب سے پہلے تو بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے کہ آپ اپنے کلام سے نوازتے رہیں گے اور رونقِ محفل بڑھاتے رہیں گے ۔ میں آپ کا گرمجوشی سے استقبال کرتا ہوں ۔ مرحبا!
آپ کی نظم خوب ہے ۔خیال سے پختگی اور کلام سے کہنہ مشقی ظاہر ہورہی ہے ۔ بہت خوب!
یہ بات البتہ میں سمجھنا چاہوں گا کہ اس نظم میں دیوتا کا لفظ کیوں اور کس پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے ۔ چونکہ نظم پر عنوان بھی موجود نہیں اس لیے مجھے سمجھنے میں دقت ہورہی ہے۔
شعیبی صاحب، اگر اس پر 500 واٹس کی روشنی ڈالیں تو عنایت ہوگی۔ :)
 
جناب شعیبی صاحب ، سب سے پہلے تو بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے کہ آپ اپنے کلام سے نوازتے رہیں گے اور رونقِ محفل بڑھاتے رہیں گے ۔ میں آپ کا گرمجوشی سے استقبال کرتا ہوں ۔ مرحبا!
آپ کی نظم خوب ہے ۔خیال سے پختگی اور کلام سے کہنہ مشقی ظاہر ہورہی ہے ۔ بہت خوب!
یہ بات البتہ میں سمجھنا چاہوں گا کہ اس نظم میں دیوتا کا لفظ کیوں اور کس پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے ۔ چونکہ نظم پر عنوان بھی موجود نہیں اس لیے مجھے سمجھنے میں دقت ہورہی ہے۔
شعیبی صاحب، اگر اس پر 500 واٹس کی روشنی ڈالیں تو عنایت ہوگی۔ :)
مجھے لگتا ہے کہ متعدد کیفیات اور احساسات کو بکھیر کر پیش کر دیا گیا ہے اور کسی موضوعی تنظیم کے تابع نہیں ۔ اسی لیے اجمالی مافی الضمیر شاید ضمیر میں ہی رہ گیا اور الجھاؤ کی سی تصویر بن گئی ۔
ویسے آزاد نظم کا سا تاثر ہے لیکن پیشکش اچھی ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محترم بھائی صبیح الدین شعیبی !

آپ کی نظم دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آخر آپ نے لکھنے لکھانے پر کمر باندھ لی ہے۔ نہ صرف کمر باندھ لی ہے بلکہ یہ نظم لکھ کر محفل میں پیش بھی کر دی ہے۔ تخلیق کے مدارج میں سے یہ دو بڑے اہم سنگِ میل آپ نے بخوبی عبور کر لیے ہیں۔

تیسرا مرحلہ اس معاملے میں یہ ہوتا ہے کہ اہلِ علم کی ناقدانہ رائے کی روشنی میں تخلیق کو مزید سنوارا جائے۔ تنقید بظاہر ایک کڑوی چیز ہوتی ہے لیکن تخلیق کے لیے اس کی تاثیر بہت اچھی ہوا کرتی ہے ، اور اس سے تخلیق کو جلا ملتی ہے۔

احباب کے محبت بھرے سوال جواب آپ کے منتظر ہیں۔ ذرا نظرِ کرم فرمائیے۔ :) :) :)
 
لڑی کا عنوان ہی نظم کا عنوان ہے ۔ یعنی دیوتا علامت ہے۔

اب یہ آپ نے اندازہ لگانا ہے کہ دیوتا کس ہستی کی علامت ہے؟ :)
نظم میں بیان کردہ تمام خصوصیات سے تو لگ رہاہے کہ دیوتا کی علامت بیگم کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ :unsure:
 
Top