دیوان ٹرانسپورٹ

نبیل

تکنیکی معاون
آج رونامہ جنگ میں عطاءالحق قاسمی نے اپنے کالم میں ایک کتاب دیوان ٹرانسپورٹ کا ذکر کیا ہے جو کہ ان صاحب نے مرتب کی ہے جو کہ بسلسلہ ملازمت پورے پاکستان میں سفر کرتے رہے ہیں اور انہیں جہاں جہاں کسی بس یا ویگن کے پیچھے کوئی دلچسپ شعر نظر آیا ہے، اسے انہوں نے گاڑی کے نمبر کے حوالے کے سمیت محفوظ کر لیا ہے۔ :) اس بے مثال شعری مجموعے چند شہ پارے جو اس کالم میں پیش کیے ہیں، یہاں بھی حاضر کر رہا ہوں۔ :)

تو جہاں پر بھی جائے
چھہتر تیس کو یاد رکھنا

ہم کو اس کا پروا نہیں کہ تم ملا نہیں
دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم تمہارا نصیب میں نہ تھا​

گویا اصل دکھ اپنی محرومی کا نہیں بلکہ محبوب کی بدنصیبی کا ہے جو گوہر نایاب ( شاید گل خان ) کو ہاتھ سے جانے دیا!

لازم ہے ہر بشر کو صبر کرنا چاہئے
بس جب کھڑی ہو جائے تو اترنا چاہئے

عشق کے سمندر میں غوطہ لگایا
پانی بہت ٹھنڈا تھا باہر نکل آیا

تم بھی بے سہارا ہم بھی بے سہارا
فیٹے منہ تمہارا، فیٹے منہ ہمارا

شادی کے انتظار میں ہم بوڑھے ہو گئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

موڑ موڑا، موشن توڑا، باڈی توڑا
ایکسل توڑا، سیٹھ کے پاس گیا
سیٹھ نے مارا، گھر گیا، بھائی نے مارا

گوشت کھانے کے لئے پیدا کیا انسان کو
گھاس کھانے کیلئے تو کم نہ تھیں کچھ بکریاں

آدمی، آدمی کو ڈس رہا ہے
سانپ سامنے بیٹھا ہنس رہا ہے

یہ جینا بھی کوئی جینا ہے؟
جہلم کے آگے دینہ ہے​

:laugh:
 

شمشاد

لائبریرین
فرزانہ نے ایک دفعہ کچھ اسی قسم کا دھاگہ شروع کیا تھا وہ یاد آ گیا۔

یہ شعر تو بہت مزے کا ہے :

گوشت کھانے کے لئے پیدا کیا انسان کو
گھاس کھانے کیلئے تو کم نہ تھیں کچھ بکریاں
 

شمشاد

لائبریرین
پھر وہی بات کی تم نے۔ بھئی یہ ہائی لیول کی باتیں ہیں، تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔
 
Top