مصطفیٰ زیدی دیوانوں پہ کیا گزری

غزل قاضی

محفلین
دِیوانوں پہ کیا گُزری

صِرف دو چار برس قبل یُونہیں برسرِ راہ
مِل گیا ہوتا اگر کوئی اشارا ہم کو
کِسی خاموش تکلّم کا سہارا ہم کو
یہی دُزدیدہ تبسّم ، یہی چہرے کی پُکار
یہی وعدہ ، یہی ایما ، یہی مُبہم اِقرار

ہم اِسے عرش کی سرحَد سے مِلانے چلتے
پُھول کہتے کبھی سِنگیت بنانے چلتے
خانقاہوں کی طرف دِیپ جلانے چلتے

صِرف دو چار برس قبل ! مگر اب یہ ہے
کہ تِری نرم نِگاہی کا اِشارا پا کر
کبھی بِستر کبھی کمرے کا خیال آتا ہے

زِندگی جِسم کی خواہش کے سوا کُچھ بھی نہیں
خُون میں خُون کی گردش کے سوا کچُھ بھی نہیں

مصطفیٰ زیدی

( قبائے سَاز )
 

باباجی

محفلین
واہ


صِرف دو چار برس قبل ! مگر اب یہ ہے
کہ تِری نرم نِگاہی کا اِشارا پا کر
کبھی بِستر کبھی کمرے کا خیال آتا ہے

زِندگی جِسم کی خواہش کے سوا کُچھ بھی نہیں
خُون میں خُون کی گردش کے سوا کچُھ بھی نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
دِیوانوں پہ کیا گُذری

صِرف دو چار برس قبل یُونہی برسرِ راہ
مِل گیا ہوتا اگر کوئی اشارا ہم کو
کِسی خاموش تکلّم کا سہارا ہم کو
یہی دُزدیدہ تبسّم ، یہی چہرے کی پُکار
یہی وعدہ ، یہی ایما ، یہی مبہم اِقرار

ہم اِسے عرش کی سرحَد سے مِلانے چلتے
پُھول کہتے کبھی سِنگیت بنانے چلتے
خانقاہوں کی طرف دِیپ جلانے چلتے

صِرف دو چار برس قبل! مگر اب یہ ہے
کہ تِری نرم نِگاہی کا اِشارا پا کر
کبھی بِستر کبھی کمرے کا خیال آتا ہے

زِندگی جِسم کی خواہش کے سوا کُچھ بھی نہیں
خُون میں خُون کی گردش کے سوا کچُھ بھی نہیں

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top