دینی نقطۂ نظر اور ہمارے اختلافات

جو نظریہ آپ نے پیش کیا ہے میری منطق کے جواب میں ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک شیطانی نظریہ ہے ۔ کیونکہ میں نے ایسا نہیں کہا جو آپ پیش کر رہے ہیں اور اسی سوچ اور استدلال پر آپ سارا دین پیش کر رہے ہیں ۔ میری ساری بات کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ۔ ویسے آپ اور واجد ایک ہی سکے کہ دو رخ ہیں ۔ دونوں‌کی باتیں ہی بے سروپا ہوتیں ہیں ۔ :)

اس لیے کہ اپکی مرضی/عقل کے مطابق نہیں‌ہیں ;)
 

ظفری

لائبریرین
الحمد للہ آپ نے ایک نازک اور نہایت پیچیدہ موضوع کو شروع کیا کہ جس کیلئے دفتر کے دفتر درکار ہوں‌ گے۔ ایک ایک لفظ تشریح‌کا محتاج ہے فی الحال میں‌صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ آپ تقلید سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اور ہم سب جو کہ اس فورم میں دینی لحاظ سے شائد مستند طالب علم بھی نہیں‌ ہیں۔ کیا مقلد نہیں۔

تقلید سے مراد یہ ہے کہ آدمی یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے ہر صورت میں فلاں آدمی کی بات ماننی ہے اور اس پر غور نہیں کرنا کہ ، آیا اس کی بات صحیح ہے یا غلط یعنی بات کو دلیل کی بنیاد پر سمجھنے کے بجائے یہ فیصلہ کرلیناہے کہ بس یہ عالم جو بھی بات فرمائے گا میں تو اسی کو مانوں گا۔اس رویے کے نتیجے میں ظاہر ہے شخصیت پرستی اور فرقہ پرستی کو ہواملتی ہے ۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویہ درست نہیں ہے۔طالب علم اور مقلد میں فرق یہ ہوتاہے کہ طالب علم اگرچہ اپنی رائے خود نہیں بناتاوہ کسی عالم کی رائے ہی کو مانتاہے لیکن اسے پہلے سمجھتاہے اور پھر اس کو میرٹ پر ماننے یانہ ماننے کا فیصلہ کرتاہے جبکہ مقلد عالم کی بات کو محض شخصیت کی بنیاد پر مانتاہے یا رد کرتاہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ظفری، براہ کرم اپنی بات کو مکمل کر لیں۔ اگر ان حضرات سے فضول میں الجھ گئے تو سب کچھ ایسے ہی رہ جائے گا
 
میں یہاں کسی مباحثے‌ میں نہیں پڑوں گا بس اتنا عرض ہے کہ دین کے‌ ٹھیکیدار نہیں بلکہ چوکیدار بن کر دین کا کام کرنا چاہئے۔ کرو اختلافات آپس میں زور شور سے کرو۔۔۔ اپنے نقطہائے نظر ایک دوسرے پر ٹھوکو۔۔۔ قابل تحسین کام ہے۔۔۔ بہت اچھا!

اغیار تو چاند پر پہنچ گئے۔۔ ہم اختلافات میں بٹ گئے۔۔۔ لگے‌ رہو۔۔ لگے رہو۔

دو تین منطق کے‌ لفظ پڑھ کر اپنی عالمیت بگھاڑنے‌ سے بہتر ہے بندہ دین کے معاملات میں پختہ ہوکر دوسروں کا سامنا کرے۔ اناپ شناپ‌ لکھنے‌ سے اختلافات اور رنجشوں کے سوا کچھ پلے‌ نہیں آئے گا۔
 
جن لوگوں کا نبی بخارا و کاشغر سے ہے، ان کے " اعمال و انصاف " کی سزا مسلمانوں نے 1947 میں‌ کئی لاکھ مسلمانوں کے خون بہا اور عزت بہا سے ادا کی ۔وہ لوگ جن کو بخارا و کاشغر کے نبی قرار دیا جاتا ہے، وہ بھی اگر آج اپنے بیانات کو دیکھ لیں تو حیران رہ جائیں کہ جو ان سے منسوب کیا جارہا ہے وہ انہوں نے کبھی لکھا ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ روایات کی کتابوں کا کوئی اصل موجود ہی نہیں ، جوں جوں‌ پیچھے جائیں یہ کتب پتلی ہوتے ہوتے صرف 400 سال پیشتر میں بالکل غائب ہوجاتی ہیں۔ یہ اسرائیلیات کے چاہنے والوں ‌کے سراسر جھوٹ و دھوکہ پر مبنی ذاتی بیانات ہیں جن کو بخارا و کاشغر کے ایرانی النسل نبیوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ کہنے میں‌ کوئی باک نہیں کہ یہ حرکت خلاف قرآن امور کا قران میں پیوند لگانے کے جرم کے مترادف ہے۔

ان بخارا و کاشغر کے نبیوں کو چھوڑو بھائی۔۔۔

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کرلو
ملت احمد مرسل کو مقامی کرلو۔
 
ان بخارا و کاشغر کے نبیوں کو چھوڑو بھائی۔۔۔

اور قادیان کے انبیاء کے تذکرے کرو ۔ کیونکہ وہ کاشعر اور بخارا سے قریب اور جدید ہیں ;)
بھائی ہمارے باتوں میں نہ پڑو اپنا کام جاری رکھو کیونکہ آپ کے" ٹچی" کے انتظار میں ہیں
 

ظفری

لائبریرین
یہ بات تقریباً ہر کسی کے مشاہدے میں آچکی ہوگی کہ مذہب میں جہاں اختلاف پیدا ہوا ۔ وہ صرحیاً مخالفت بن جاتا ہے ۔ اگرچہ یہ رویہ تنگ نظری ، عدم ِ برداشت اور جاہلیت کے سبب پیدا ہوتا ہے ۔ مگر دین میں چند ایسے نقطہ ہائے نظر ہیں ۔ جن کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے اس روش کو اختیار کیا گیا ہے ۔ جس سے فرقہ بندی وجود میں آئی ۔ اور پھراس فرقہ بندی نے مخالفت ، دشمنی اور ایک دوسرے کو واجبِ قتل اور دین سے خارج کرنے کی رسم جاری کی ۔ ( جیسا کہ یہاں اردو محفل پر بھی عام ہے ) ۔ عدم برداشت نے مکالمے کی فضا ہی ناپید کردی ہے ۔ تنگ نظری نے ایک صحیح بات کو بھی ماننے سے انکار کردیا ہے اور جاہلیت نے غرور اور ضد میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ انسان اچھی خاصی شخصیت رکھتے ہوئے بھی اخلاق کا دامن چھوڑ دیتا ہے ۔ اور یہ اسباب اپنے مدارج طے کرتے ہوئے آج خوں ریزی کی سطح پر آ کھڑے ہوئے ہیں ۔

دین میں جن حقیقوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ ان میں ایک حقیقت یہ ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد زمین و آسمان کے درمیان ہر عقیدے اور ہر عمل کو صحیح یا غلط قرار دینے کا حق صرف قرآن مجید کو حاصل ہے ۔ اللہ نے اپنی کتاب کے اس پہلو کے بارے میں اس طرح فرمایا ہے کہ :

اللہ وہي ہے جس نے حق كے ساتھ كتاب اتاري يعني ميزان نازل كي۔ (الشوريٰ : 32:18
اور
بڑي ہي بابركت ہے وہ ہستي جس نے اپنے بندے پر يہ فرقان اتارا۔ (الفرقان :25:1)

ميزان" يعني ميزانِ عدل، جس پر تول كر ديكھا جائے كہ كيا صحيح ہے اور كيا غلط۔ "فرقان" يعني حق و باطل ميں فرق كرنے والي، غرض يہ كہ ہر اختلاف، ہر مسئلے، ہر معاملے ميں اس كي بات، آخري بات۔ مگر ہمارے ہاں اس حقيقت كو صحيح معنوں ميں تسليم نہيں كيا جاتا۔ بلکہ جان بوجھ کے اس سے گریز کیا جاتا ہے ۔ دوسري كتابوں اور دوسرے لوگوں كي باتوں كو قرآن پر فوقيت دے دي جاتي ہے۔ اس سے ظاہر ہے كہ ہم اپنے فكري مركز سے محروم ہو جاتے ہيں۔ پھرعجيب و غريب عقائد وجود پذیر ہونے لگتے ہيں۔ عجيب و غريب نقطہ ہائے نظر کی بھرمار ہوجاتی ہے ۔ عجيب و غريب فرقوں بننے لگتے ہيں۔ اور پھر يہ فكري انتشار، اجمتاعی انتشار كي صورت اختيار كر ليتا ہے۔ جو ہمیں مخلتف نظریات اور عقائد کیساتھ فرقوں میں بانٹ دیتا ہے ۔

قرآنِ مجيد ايك كتاب ہے۔ ايك منظم اور باربط كتاب۔ يہ الگ الگ اور متفرق آيات كا مجموعہ نہيں ہے ۔فرقہ بندي كے پہلو سے اس حقيقت كو اگر دیکھا جائے تو كوئي شخص قرآن كو ميزان تو تسليم كرے ، مگر اسے ايك باربط كتاب نہ مانے تو قرآن اس كے ليے صحيح معنوں ميں ميزان بن ہي نہيں پاتا۔ اصل ميں قرآنِ مجيد كا اسلوب ادبي ہے اورادب يك سطحي نہيں ہوتا، اس كي كئي سطحيں اور كئي جہتيں ہوتي ہيں۔ يعني اس كے كئي معني ہوتے ہيں۔ ظاہر ہے كہ جب قرآني آيات كے كئي معني نكل رہے ہوں گے تو وہ اپنے ماننے والوں كو ايك نكتے پر جمع نہيں كر سكتا۔ معاذ اللہ اس طرح انتشار كا كام تو خود اسي كے باعث ہونے لگتا ہے۔ يہ نظمِ قرآن ہي ہے جو ہميں مجبور كر ديتا ہے كہ اس كے الفاظ كے وہي معني ليں جو اس كے سياق و سباق سے نكلتے ہيں۔ اور يہ حقيقت ہے كہ ہم ہر كتاب كے ساتھ ايسا ہي معاملہ كرتے ہيں۔ كسي انگريزي كي كتاب ہي كي مثال لے ليں۔ كتاب پڑھتے ہوئے كوئي مشكل لفظ سامنے آئے تو ہم لغت ديكھتے ہيں۔ لغت ميں اس لفظ كے كئي معني لكھے ہوتے ہيں، مگر ہم اسي ايك معني كو ليتے ہيں جسے اس جملے كا سياق و سباق قبول كرتا ہے ۔ مگر قرآنِ مجيد كے معاملے ميں کچھ لوگوں میں یہ سادہ سي بات نہيں ماني جاتي ۔

اب آتے ہیں ایک ایسی حقيقت کی طرف جو قانون رسالت کہلاتا ہے۔ جب كسي علاقے ميں رسول بھيجا جاتا ہے ۔ اور وہاں جب کوئی قوم رسول كا انكار كرتي ہے اسے اللہ کی طرف سے سزا دي جاتي ہے ‐ يہ سزا دو صورتوں ميں نازل ہوتی ہے۔ ايك صورت وہ ہے کہ جب اگر رسول كو مناسب تعداد ميں ساتھي ميسر نہ آئيں تو قدرتي آفات كے ذريعے رسول کا انکار کرنے والی قوم کو عذاب ملتا ہے ۔ حضرت نوح ، حضرت لوط كي اقوام كو ایسے ہی عذاب ملے ۔ دوسري صورت ميں اگر رسول كو سياسي اقتدار حاصل ہو جائے اور ایک منظم ریاست یا جماعت کی تشکیل ہوجائے تو سركش قوم كو يہ سزا رسول اور اس كے ساتھيوں كي تلواروں كے ذريعے ملتي ہے۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم كي قوم كے حوالے سے دوسري صورت كي سزا كے نفاذ كا اعلان ہوا۔ سورۃ توبہ كے آغاز ہي ميں حكم ہوا كہ ان مشركين كو جہاں كہيں پاؤ قتل كردو ۔ اسي طرح قوم كے وہ افراد جو رسول كي بات مانيں ان کی رسالت کا اقرار کیا اور اس كا ساتھ ديا انھيں جزا دي گئی ۔ انھيں اس علاقے ميں غلبہ ديا گیا ۔ صحابہٴ كرام كو عرب ميں دوسري اقوام پر جو غلبہ حاصل ہوا وہ اسي قانونِ الٰہي كے تحت تھا ۔

اللہ تعاليٰ كے كچھ احكام اور قوانين ايسے ہيں جو رسولوں اور ان كي براہِ راست مخاطب اقوام كے ساتھ خاص ہيں۔ ان احكام اور قوانين كو اب كسي شخص يا قوم پر نافذ نہيں كيا جا سكتا۔ ان احكام اور قوانين كے لحاظ سے اب كسي شخص يا قوم كے ساتھ كوئي معاملہ نہيں كيا جا سكتا۔ مگر ہمارے ہاں لوگ اس سے واقف بھي نہيں ہیں۔ اور دیکھا گیا ہے کہ تشدد پسند لوگ يہ خاص احكام اور قوانين كا اطلاق دوسروں پر كرتے ہيں، دوسرے فرقوں نے اس قانون کو صحيح طور نہیں سمجھا اور ان خاص احکامات اور قوانین کو ان کے اصل سیاق و سبق سے الگ کرکے وہ اسي قانون سے متعلق اۤيات الہٰي يا سيرت كے واقعات ليتے ہيں پھراور انہی كي بنيادوں پر دوسروں كو كافر قرار دیدتے ہيں اور يوں سادہ لوح مذہبي افراد كو ، كافر فرقے كے لوگوں كو قتل كرنے پر قائل كر ليتے ہيں۔ سادہ لوح افراد بھي ان كي بات كو حكمِ الٰہي سمجھ كر، رضائے الہٰي كے حصول كا ذريعہ سمجھ كر اور جنت ميں داخلے كا پروانہ سمجھ كر دل و جان سے قبول كرلیتے ہيں اور یوں خوں ريزي كا ايك نہ ختم ہونے والا "مقدس" سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔

قرآن کو محور و مرکز سمجھنے کا انحراف ایک اسٹبلشمنٹ کا طریقہ کار ہے ۔ اور دراصل یہی وہ بنیادیں اور جڑیں ہیں ، جنہوں نے فرقہ پرستی کی ہوا دی ۔ گروہ بنائے ، عقائد اور نظریات کو قرآن کے محور ومرکز سے ہٹا کر منقسم کیا ۔ جس کی وجہ سے نفرت ، تشدد ، ہٹ دھڑمی ، غرور و تکبر ، عدم ِ برداشت ، تنگ نظری جیسی چیزیں وجود میں آئیں ۔ اب لوگوں کا یہ حال ہے کہ کوئی حدیث پر ان سے زیادہ ایمان رکھے مگر قرآن کو پہلے محور و مرکز سمجھنے پر زور دے تو یہ لوگ اسے منکرینِ حدیث قرار دیدتے ہیں ۔ سو ضرورت اس امر کی ہے ۔ ہم ان حقیقوں کو سمجھیں ۔ اور دین کے ماخذ کا تعین کریں ۔ اور پھر دیکھیں کہ ہم کس طرح روایتوں اور تقلید کے انتہائی درجے پر جاکر کس طرح فرقوں میں بٹ گئے ہیں ۔

( معلومات بشکریہ : محمد بلال )
 
منکرینِ حدیث کے تمام سربراہان کو ہمارا چیلنج ہے کہ :
منکرین حدیث سے ہٹ‌ کر دورِ حاضر کی امت مسلمہ میں جتنے بھی مکاتبِ‌ فکر پائے جاتے ہیں ، ان کے منشور سے کوئی ایک سطر ایسی دکھا دیں جن میں واضح طور پر لکھا ہو کہ : ۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح)حدیث دین کے اصل ماخذوں (Original Sources) میں شامل نہیں ہے !!

اگر یہ چیلنج پورا نہ کر سکیں (اور ان شاءاللہ تاقیامت نہ کر سکیں گے) تو خدارا اس طرح‌ کے پروپگنڈے کو "پروموٹ" کرنے سے باز آ جائیں۔ آخر آپ نے ایک دن مرنا بھی ہے اور اللہ کے سامنے جواب بھی دینا ہے !!
:

صحیح حدیث ، کمزور حدیث حدیث، درست حدیث، غلط حدیث، ان چکروں میں کیوں‌ڈالتے ہیں لوگوں کو بھائی؟
جب آپ خود یہ صحیح و غلط، و درست و ضعیف کو مانتے ہیں تو رہ کیا گیا؟ صاحب کتب روایات تو جوں جوں پیچھے جائیں پتلی ہوتی جاتی ہیں۔ حتی کہ 400 سال پہلے کی کتب کی روایات کی تعداد ، متن اور ترتیب آج کی کتب روایات کی تعداد ، متن و ترتیب سے بالکل نہیں ملتی ؟ جب سچ جھوٹ‌کا پتہ نہیں؟ ، اصل بخاری و مسلم جیسی اہم کتب موجود نہیں ؟ خود بریلوی، دیوبندی فرقوں میں روایات پر جھگڑے ؟ تو پھر آپ کا چیلنج کیسا؟؟؟؟؟ آج کی کتب روایات کو اگر خود بخاری و مسلم دیکھیں تو شاید بھونچکا رہ جائیں کہ جو ان بڑے بڑے لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے وہ اتنا بے ترتیب، متن کی خامیوں ، تعداد کے فرق جیسی غلطیوں سے بھرپور ہے کہ اس کو درست سمجھنا کسی بھی معیاری رویہ کے خلاف ہے۔

صاحب منکر حدیث تو وہ ہوا جو ایک بھی " صحیح حدیث" کو رد کرتا ہو ، یہاں‌بریلوی دیوبندی کی حدیث کو رد کرتا ہے، تو سنی ، شیعہ کی حدیثوں رد کرتا ہے۔

ایک سوال، آپ شیعہ برادری کی کن کن حدیثوں‌کو قبول کرتے ہیں اور کن حدیثوں کو رد کرتے ہیں؟ اگر رد کرتے ہیں تو آپ ہوئے " منکر حدیث" شیعہ آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے اور سنی ، شیعہ حدیثوں‌کو نہیں مانتے ۔ تو دونوں ہوئے منکر حدیث۔ تو باقی کونسا فرقہ بچا؟

قرآن و کتب روایات میں کتنا بڑا فرق ہے کہ قرآن اللہ کا کلام اور کتب روایات اسرائیلیات سے بھرپور۔ دونوں کا کچھ بھی نہیں‌ملتا۔ کتب روایات کہتی ہیں کہ قرآن کے پاس نا جانا۔ بھائی آخر خرابی کیا ہے ہمارے قرآن میں ؟ کہ لوگ اسے چھوڑ کر دوسری کتب کے پیچھے بھاگیں؟

رسول اکرم کی بہت سی احادیث ایسی ہیں کہ قران پڑھنے والے کا دل مانتا ہے کہ یہ ہمارے پیارے رسول ہی نے فرمایا ہوگا۔ لیکن ان کتب روایات کا بیشتر حصہ، آپسی جھگڑے کی جڑ ہے۔ 1150 سال میں بھی ان کتب روایات کے ماننے والے آپس میں یہ تک طے نا کرسکے کہ اس میں درست کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ تو پھر ایسے چیلنج کرنا اپنا ہی مضحکہ اڑانے کے مترادف ہے۔
 
عمار، تمہارے خیال میں اس موضوع کے لیے کونسا پلیٹ فارم بہتر ہے؟ اور یہ پلیٹ فارم اس بحث کے لیے غیر موزوں کیوں ہے؟
یہ پلیٹ فارم اس بحث کے لیے غیر موزوں یوں ہے کہ میں نے یہاں ہونے والے جتنے مباحث دیکھے ہیں، ان کی اکثریت اپنے موضوع سے ہٹ کر آپس میں الجھ گئی۔۔۔ چند دوستوں کے علاوہ کوئی بھی غیر جانبدار ہوکر بحث میں حصہ نہیں لیتا۔ مقلد ہونے کے سبب اپنے اسلاف کے نکتہ نظر سے ہٹ کر کوئی بات برداشت نہیں کی جاتی۔۔۔ علمی مباحث میں وہ لوگ بھی کود پڑتے ہیں جن کا علم اس معاملہ میں زیادہ نہیں ہوتا اور وہ جذباتیت کا سہارا لیتے ہیں اور علمی بحث کرنے والا انہیں مطمئن کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔
میرے خیال میں بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ اگر کوئی دوست ایک موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو اس کی رائے کی حمایت کرنے والے اس دھاگے پر اپنا نکتہ نظر پیش کریں اور اس رائے سے اختلاف کرنے والے ایک الگ دھاگے پر اظہار خیال کریں تاکہ تصادم کی گنجائش کم سے کم ہو۔ یہ میری ادنی رائے ہے جس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
عمار مجھے ایسا نہیں لگتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بات بہت اچھی طرح آگے بڑھتی ہے اور جو لوگ بحث و مباحثہ میں پیچھے تھے وہ بھی سیکھ گئے ہیں ۔ تھوڑا بہت جذباتی ہوجانا برا نہیں ہوتا۔ جنگیں انسانوں کے ذہن میں پیدا ہوتی ہیں، ان علاج بھی وہیں‌ہونا چاہئیے۔۔

یہ فورمز بہت ہی اچھے مراکز ہیں ۔ اگر یہ سب مباحثہ نہ ہوتے تو سوچئیے، سب کچھ ذہنوں میں دفن رہتا اور ایک دن لاوے کی طرح پھٹ پڑتا۔

یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہم پاکستان مجموعی طور پر اس ملائیت جو مغلیہ دور میں پروان چڑھی اور جس کو مشیت ایزدی نے سرسید کے ہاتھوں‌قتل کروایا، آج بھی اس کی چنگاریاں دبی ہوئی ہیں۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ ہی ماند پڑیں‌ گی۔ اگر علیگڑھ جیسی تحریک نہ ہوتی تو آج مسلمان اسکولوں سے کوسوں دور ہوتے۔۔۔۔ اور ترقی سے بھی دور ہوتے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
برادرم ہمت علی کی میں بھی تائید کروں گا۔ جناب ظفری کا جملہ درحقیقت قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
محترم ظفری صاحب کا بیان کردہ نقطہء نظر اصل میں محترم غامدی صاحب کی سوچ کا ہی آئنہ دار ہے ۔ ویسے باذوق صاحب آپ یہ فرمائیے کہ طفری صاحب کا مذکورہ بالا بیان کس طرح قرآن و سنت کے مخالف ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
محترم ظفری صاحب کا بیان کردہ نقطہء نظر اصل میں محترم غامدی صاحب کی سوچ کا ہی آئنہ دار ہے ۔ ویسے باذوق صاحب آپ یہ فرمائیے کہ طفری صاحب کا مذکورہ بالا بیان کس طرح قرآن و سنت کے مخالف ہے؟
محترم آبی ٹوکول ۔۔۔۔۔ انسان جب کوئی علم سیکھتا ہے تو کسی استاد کے پاس ہی جاتا ہے ۔ اگر اس استاد کے دلائل اور استدلال آپ کو مطمئن کردیں تو آپ وہ طرزِ فکر اپنالیتے ہیں ۔ جیسے ہمارے ہاں ‌عموماً ہوتا ہے ۔ آپ بھی کسی کے طرزِ فکر سے متاثر ہونگے ۔ جیسے یہاں لوگ رضا بریلوی ، مولانا مودودی وغیرہ سے متاثر ہیں ۔ اگر میرا بیان کردہ نقطہِ نظر " اصل " میں محترم غامدی صاحب کی سوچ کا آئینہ دار ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ۔
رہی آپ کی دوسری بات تو میں ان موصوف سے خود پوچھ پوچھ کر تھک گیا ہوں کہ اس بیان میں‌ کونسی بات قرآن و سنت کے خلاف ہوگئی تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے اور جب جواب دیتے ہیں تو خود لکھتے ہیں ، خود ہی سمجھتے ہیں ۔ ہم کچھ کہیں تو ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ذاتیات پر اتر آتے ہیں ۔ یعنی ایک شخص کو آپ اپنے " علم و فضل " سے منکرینِ حدیث اور آپ کے بیانات کو قرآن و سنت سے خلاف قرار دیکر دین سے خارج ہونے کا فتوی جاری کردیتے ہیں ۔ مگر یہ بات ان کی نظر میں ذاتیات میں شمار نہیں ہوتی ۔ یعنی کہ آپ غرور و تکبر کی انتہا کا اندازہ لگائیں کہ ان لوگوں نے جنت کے سارے پلاٹ پر خود سارا قبضہ کرنے کا کتنا عظیم الشان منصوبہ بنایا ہوا ہے ۔ جیسا کہ یہاں زمین پر قبضہ مسجد کے نام پر کرتے ہیں ۔ ;)
 

آبی ٹوکول

محفلین
محترم آبی ٹوکول ۔۔۔۔۔ انسان جب کوئی علم سیکھتا ہے تو کسی استاد کے پاس ہی جاتا ہے ۔ اگر اس استاد کے دلائل اور استدلال آپ کو مطمئن کردیں تو آپ وہ طرزِ فکر اپنالیتے ہیں ۔ جیسے ہمارے ہاں ‌عموماً ہوتا ہے ۔ آپ بھی کسی کے طرزِ فکر سے متاثر ہونگے ۔ جیسے یہاں لوگ رضا بریلوی ، مولانا مودودی وغیرہ سے متاثر ہیں ۔ اگر میرا بیان کردہ نقطہِ نظر " اصل " میں محترم غامدی صاحب کی سوچ کا آئینہ دار ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ۔
رہی آپ کی دوسری بات تو میں ان موصوف سے خود پوچھ پوچھ کر تھک گیا ہوں کہ اس بیان میں‌ کونسی بات قرآن و سنت کے خلاف ہوگئی تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے اور جب جواب دیتے ہیں تو خود لکھتے ہیں ، خود ہی سمجھتے ہیں ۔ ہم کچھ کہیں تو ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ذاتیات پر اتر آتے ہیں ۔ یعنی ایک شخص کو آپ اپنے " علم و فضل " سے منکرینِ حدیث اور آپ کے بیانات کو قرآن و سنت سے خلاف قرار دیکر دین سے خارج ہونے کا فتوی جاری کردیتے ہیں ۔ مگر یہ بات ان کی نظر میں ذاتیات میں شمار نہیں ہوتی ۔ یعنی کہ آپ غرور و تکبر کی انتہا کا اندازہ لگائیں کہ ان لوگوں نے جنت کے سارے پلاٹ پر خود سارا قبضہ کرنے کا کتنا عظیم الشان منصوبہ بنایا ہوا ہے ۔ جیسا کہ یہاں زمین پر قبضہ مسجد کے نام پر کرتے ہیں ۔ ;)
السلام علیکم محترم جناب ظفری صاحب معاف کیجیے گا آپ میری بات کا غلط مطلب سمجھے میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں تھا جو آپ سمجھے دراصل میں نے یہ مختصر سا تبصرہ صرف آپکی پوسٹ کا پہلا حصہ پڑھ کر کردیا تھا بقایا پوسٹ میں نے بعد میں پڑھی تھی اور بعد والے حصوں میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ آپکا تھریڈ محترم جناب غامدی صاحب ہی کی فکر کا ترجمان ہے ۔ باقی‌آپکی دیگر باتوں پر مجھے کچھ تبصرہ نہیں کرنا ۔ ۔ ۔
 

باذوق

محفلین
محترم آبی ٹوکول ۔۔۔۔۔ انسان جب کوئی علم سیکھتا ہے تو کسی استاد کے پاس ہی جاتا ہے ۔ اگر اس استاد کے دلائل اور استدلال آپ کو مطمئن کردیں تو آپ وہ طرزِ فکر اپنالیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان موصوف سے خود پوچھ پوچھ کر تھک گیا ہوں کہ اس بیان میں‌ کونسی بات قرآن و سنت کے خلاف ہوگئی تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے
میں نے اسی تھریڈ کی پوسٹ نمبر 6 اور پوسٹ نمبر 9 میں صاف صاف اور بادلائل جواب دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دین کے معاملات میں عقل کی برتری کے قائلین کا ردود آیاتِ قرآنی ہی کے سہارے اس پوسٹ میں بھی کیا جا چکا ہے۔
یعنی ایک شخص کو آپ اپنے " علم و فضل " سے منکرینِ حدیث اور آپ کے بیانات کو قرآن و سنت سے خلاف قرار دیکر دین سے خارج ہونے کا فتوی جاری کردیتے ہیں ۔
کسی ایک شخص کی طرف بطورِ خاص اور باقاعدہ نام لے کر طنز و طعن کرنا ہماری فطرت نہیں ہے بلکہ جن لوگوں کی فطرت رہی ہے اس کا ثبوت ہم یہاں محفوظ کر چکے ہیں !
دوم یہ کہ ۔۔۔۔
"منکرین حدیث" کے دین سے خارج ہونے کا فتویٰ اگر کسی (بشمول راقم الحروف) نے یہاں محفل پر دیا ہو تو ثبوت فراہم کیا جائے ورنہ ذرا ہم کو بھی بتا دیا جائے کہ اردو محفل پر اس طرح کے بےبنیاد الزامات کے سہارے کس "تہذیب" کو فروغ دیا جا رہا ہے؟
ہم کچھ کہیں تو ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ذاتیات پر اتر آتے ہیں
ذرا یہ تحریر پڑھ لیں اور انصاف سے بتائیے کہ اس کو "ذاتیات" پر اتر آنا نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟؟
اور پھر یہ بھی بتائیے کہ وہ کیا وجہ تھی کہ محترم فاروق سرور خان نے پہلے باقاعدہ نام لے کر "باذوق یہ ہے ۔۔۔ باذوق وہ ہے ۔۔۔۔" کا شور مچایا ، پھر دوسرے دن "باذوق" کی جگہ "ایک شخص" کر دیا گیا !!
جب "باذوق" کا نام استعمال کیا گیا تب کیا آپ لوگوں نے غلطی کی تھی یا اب نام ہٹا کر آپ لوگ اس غلطی کا ازالہ کر رہے ہیں؟
بتلائیے ، آپ لوگوں کے پاس انصاف کی کوئی قدر ہے بھی کہ نہیں ؟؟
آپ غرور و تکبر کی انتہا کا اندازہ لگائیں کہ ان لوگوں نے جنت کے سارے پلاٹ پر خود سارا قبضہ کرنے کا کتنا عظیم الشان منصوبہ بنایا ہوا ہے ۔ جیسا کہ یہاں زمین پر قبضہ مسجد کے نام پر کرتے ہیں ۔
ایسے جو بھی لوگ ہیں ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے یکسر لاعلم ہیں۔ ورنہ تو حدیث کا ایک معمولی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ زمین و جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف کتنی سخت وعیدیں ہیں۔
 
Top