دینی نقطۂ نظر اور ہمارے اختلافات

ظفری

لائبریرین
تمہید
اکثر دیکھا گیا ہے کہ دین پر جب بھی بحث و مباحثہ ہوا ۔ عقائد اور نظریات آپس میں ٹکرائے تو گویا ایک حق و باطل کی جنگ شروع گئی ۔ معزز ، دین دار ، بردبار ، معمر ، جوان اور ایک عام شخص سے لیکر علماء تک کے رویوں میں ، ایک ایسا حیرت انگیز فرق نظر آیا جس کا اسلام کی اخلاقی تعلمیات سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ دنیا میں اللہ کا دین پھیلانے کی خواہش دل میں رکھنےوالوں کا یہ تضاد ایک عام انسان اور ایک عام مسلمان کو بہت واضع نظر آتا ہے ۔اس سلسلے میں ، کچھ معلومات میں نے اکٹھی کیں ، کچھ محترم عالموں سے مدد لی ، اس کے نتیجے میں مجھے یہ بات سمجھنے میں مدد ملی کی ہم دین و مذہب کے معاملے میں آخر اتنے انتہا پسند کیوں ہوگئے ہیں ۔ ہمیں اپنے سوا سب غلط کیوں نظر آتے ہیں ۔ ہماری دلیلیں ، ثبوت ، شواہد ، استدلال اور معلومات دین کے معاملے میں کسی دوسرے کے نظریے اور عقائد سے کیوں‌ باہم اشتراک نہیں کرتے ۔ ہم تحمل اور صبر سے ایک دوسرے کی بات کیوں ‌نہیں سن پاتے ۔ بہتان ، الزام ترشیاں اور ایک دوسرے کے خلاف فتوؤں کا کیوں آغاز ہوجاتا ہے ۔ تحقیق سے جو باتیں سامنے آئیں میں وہ آپ کے سامنے گوشوار کرتا ہوں مگر آپ سے ایک مخلصانہ درخواست ہے کہ اس مضمون کو کسی اختلاف کے تناظر میں نہ پڑھا جائے بلکہ اسے ایک طالبعلم کی ایسی کوشش کا نتیجہ سمجھا جائے جو کسی بھی عصبیت اور نفرت سے پاک ہے ۔ اور جس کا مقصد کسی کی دل آزاری ، دل شکنی نہیں بلکہ اس معاملے کی حقیقت تک پہنچنا ہے ۔ امید ہے اس مضممون میں کوئی اتار چڑھاؤ آپ کو تکلیف دے تو میں اس کی پیشگی معافی مانگ لیتا ہوں ۔ امید ہے آپ میری اس جسارت کو درگذر فرمادیں گے ۔
،
 

ظفری

لائبریرین
دین کے معاملے میں اطمینان رہنا چاہیے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر موجودہ دور تک بغیر کسی انقطاع کے، مسلسل منتقل ہوتا آیا ہے اور امت، تاریخ کے کسی بھی دور میں اس سے کبھی محروم نہیں رہی۔ حادثہ یہ ہوا ہے کہ دوسری صدی کے بعد قرآن، علم و تحقیق کا محور اس درجے میں نہیں رہا جس درجے میں وہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا۔ ہمارے جلیل القدر ائمہ اور مفسرین میں کچھ تو فقہ کی تشکیل و تدوین میں غیر معمولی دلچسپی لیتے رہے اور کچھ نے اپنی تمام تر صلاحتیں فلسفہ و تصوف کی نظر کر دیں اور قرآن و سنت پر اگر تحقیق کی بھی تو انھی کے زیر اثر کی۔ اس طرز عمل کا نقصان یہ ہوا کہ قرآن و سنت، جو دین میں محور اور اساس کی حیثیت رکھتے تھے، آہستہ آہستہ پس پردہ چلے گئے اور دوسرے بہت سے ثانوی اور معاون علوم اصل کی حیثیت اختیار کر گئے۔

اکثر اس سلسلے میں جن مکاتب فکر کا نام لیا جاتا ہے، ان میں بریلوی علماء نے تصوف کے غیر معمولی اثر کے باعث دین کو بہت مختلف اور محدود نظر سے دیکھا۔ وہ تصوف کے راستے پر چل کر ان بہت سی حقیقتوں کا سراغ لگانے کے درپے ہو گئے جن میں نہ تو دین کو کوئي دلچسپی تھی اور نہ انسانیت کو آخرت میں نجات کے لیے، ان کی کوئی ضرورت تھی۔ فلسفہ و تصوف کے اس اثر سے ان کے ہاں قرآن کبھی بھی علم و تحقیق کا مرکز اور حق و باطل میں فرقان قرار نہ پا سکا۔ قرآن و سنت کو عملا ان کی جائز حیثیت نہ دے کر انھوں نے دین میں ان بہت سی بدعات کا اضافہ کر دیا جس سے اس کا اصل چہرہ اوٹ میں چلا گیا اور بہت سے غلط اور غیر مذہبی تصورات و اعمال دین میں داخل ہو گئے۔ اس روش سے ان کے ہاں علم و تحقیق کا مزاج بری طرح متاثر ہوا اور سارا زور اپنے مکتبۂ فکر کو صحیح ثابت کرنے میں صرف ہونے لگا۔

دیوبندی علماء بھی اگرچہ تصوف سے بہت متاثر رہے، لیکن ان کے ہاں تصوف زیادہ تر علمی حلقوں اور نجی مجالس تک ہی محدود رہا۔ انھوں نے بریلوي مکتبۂ فکر کی طرح اسے عوامی سطح پر پیش کرنے سے بالعموم اجتناب کیا۔ لیکن ان کے ہاں سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے تقلید پرستی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ انھوں نے نہ صرف تقلید کو جائز سمجھ لیا بلکہ قرآن و حدیث سے اس کی شرعی حیثیت ثابت کرنے پر اپنی تحقیقی صلاحتیں صرف کرنے لگے۔ ان کے ہاں تقلید پرستی کا غلبہ اس انتہا تک پہنچ گیا کہ فقہی مسلک کی تبدیلی کو انھوں نے ارتداد یعنی دین سے خروج قرار دے دیا۔ ظاہر ہے کہ شخصیت پرستی کے اس ماحول میں صحیح تحقیقی اور علمی کام کبھی نشوونما نہ پا سکتا تھا اور اپنے علماء اور فقہاء کے خلاف کوئی بات سننا یا ان کی رائے میں غلطی کا امکان تسلیم کرنے کا رویہ کبھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔

اہل حدیث مکتبہ فکر اگرچہ تصوف کی آمیزش سے بہت حد تک پاک رہا لیکن ان کے ہاں غلطی کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ انھوں نے قرآن کی حاکمیت کو عملا نظر انداز کرتے ہوئے، حدیث کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دین کے اصل ماخذوں (Original Sources) میں شامل کر دیا اور محدثین کے کام کی روشنی میں قرآن و سنت کو سمجھنے کا راستہ اختیار کیا۔ حدیث کی طرف اس غیر متوازن جھکاؤ کے سبب ان کے ہاں بھی قرآن و سنت علم و تحقیق کا اصل محور نہ رہے، اور آہستہ آہستہ دین کی حکمتوں کے بجائے محض ظاہری چیزوں کی طرف زیادہ توجہ ہونے لگی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین میں وہ لچک اور حسن ختم ہوتا گیا جو اس کو نازل کرنے والے نے، اپنے بندوں کی طبیعتوں، مزاج اور رجحانات میں تنوّع کے باعث، اس میں رکھا تھا۔ علم و تحقیق کو اپنی اصل اساس سے ہٹا کر اس مکتبۂ فکر کا مزاج بھی پہلے دونوں مکاتب فکر کی طرح تشکیل پا گیا اور اپنے ائمہ کے علاوہ دوسروں کی بات کو سننے، بیان کرنے یا غور کرنے کے داعیات ختم ہوتے چلے گئے۔

یہ اگرچہ ایک بہت بڑا المیہ ہے، اس سے نہ صرف امت دین سے دور ہوئی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کا تصور بھی بری طرح متاثر ہوا۔ اس ساری صورتحال پر اگر کسی کا دل دکھتا ہے تو ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ لیکن ہمیں اس سے مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ان اسباب کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ جس سے یہ مسائل حل ہو سکیں اور امت اپنے اصل دین پر صحیح معنوں میں دوبارہ عمل پیرا ہو سکے۔ اس ضمن میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔امید ہے کہ ان سے اصل مسائل کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملے گی۔

ایک یہ کہ، مختلف مکاتب فکر میں اختلاف ہو جانا اپنی ذات میں کوئی بری چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کے سوچنے اور غور کرنے کی صلاحتیوں میں جو فرق رکھا ہے، اس کی وجہ سے اختلاف ہونا نہایت فطری امر ہے۔ اس معاملے میں جس چیز کو اہمیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اختلاف دلیل کی بنیاد پر کیا جائے، اور دین کے معاملے میں ضروری ہے کہ وہ دلیل، قرآن و سنت اور عقل و فطرت کے مسلّمات کے خلاف نہ ہو۔ بصورت دیگر ایسی دلیل کی علمی دنیا میں ہرگز کوئی اہمیت نہيں ہونی چاہیے۔ مزید یہ کہ باہمی رواداری اور احترام کے ساتھ مکالمے (Dialogue) کا طریقہ اختیار کیا جائے اور جو بھی بحث و مباحثہ کیا جائے، اس حقیقت کو سامنے رکھ کر کیا جائے کہ دین میں غور و فکر اور رائے قائم کرنے کا اختیار ہر صاحب علم کو حاصل ہے۔ اس لیے دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنے کی بجائے اپنی رائے میں غلطی، اور دوسرے کی رائے میں صحت کا امکان ہمیشہ تسلیم کیا جائے۔

دوسری یہ کہ، علمی دنیا میں اس چیز کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے کہ بات کس نے کہی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کیا ہے اور کس بنیاد پر کہی گئی ہے۔

تیسری یہ کہ، اللہ تعالی نے انسان کو عمل کے ساتھ ساتھ، بلکہ اس سے پہلے، علم کی آزمائش میں ڈالا ہے۔ اس آزمائش میں دیکھا جاتا ہے کہ انسان حق واضح ہو جانے کے بعد کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ کامیابی کا واحد راستہ یہی ہے کہ حق بات کے آگے، شرم یا ذلّت محسوس کیے بغیر، خوش دلی سے سر جھکا دیا جائے اور ہر اس بات کو آگے بڑھ کر قبول کیا جائے جو علم و عمل میں اصلاح کا باعث بن سکتی ہو۔

چوتھی یہ کہ، مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر میں جو اختلافات ہیں، ان کا زیادہ تر تعلق دین کے اجتہادی اور فقہی امور سے ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے جہاں اللہ تعالی نے ہر صاحب علم کو رائے قائم کرنے کی مکمل آزادی اور اختیار دیا ہے۔ جبکہ اصل دین میں کسی کے ہاں کوئي بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔

پانچویں یہ کہ، دین میں حق و باطل میں فرق کرنے کے لیے جس چیز کو میزان اور فرقان کی حیثیت حاصل ہے، وہ قرآن مجید ہے۔ تمام محدثین، فقہاء، مفسرین، علماء اور فلسفیوں کی آراء کی اگر کوئی حیثیت ہے تو اسی کے بعد اور اسی کے تحت ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہيں کہ وہ قرآن پر حکومت کر سکے۔ قیامت تک اسی کتاب کو ہر چیز پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق اس کے نازل کرنے والے نے اسے دیا ہے۔

چھٹی یہ کہ، دین میں کوئی بھی چیز عقل و فطرت کے مسلّمات کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب انسانوں کی عقل و فطرت کا خالق، اور ہدایت کا منبع ایک ہی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ ان میں ہاہمی اختلاف پایا جائے۔

ساتویں یہ کہ، اللہ تعالی نے ہدایت سب انسانوں کے لیے نازل کی ہے۔ اس لیے یہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کو سمجھنے کی کوشش کرے اور قرآن و سنت سے اپنا تعلق ایسے قائم کرے جیسے کہ اس سے ہونا چاہیے۔

اور آخری یہ کہ، مسلمانوں سے، کسی خاص مکتبۂ فکر کو اختیار کرنے کا تقاضا نہیں کیا گیا۔ بلکہ مطلوب یہ ہے کہ حق بات جہاں بھی ہو، اسے آگے بڑھ کر لیا جائے اور اپنی اصلاح کے راستے میں کسی بھی تعصّب یا عقیدت کو رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔

( جاری ہے )
 

الف عین

لائبریرین
میں دینی موضوعات پڑھنا ٹال جاتا ہوں۔ اور یہاں بھی موضوع پر کچھ کہنے نہیں آیا۔ بلکہ ایک املا کی عام غلطی کی نشان دہی کرنے آیا ہوں۔
نکتہِ یا نقطہِ۔۔۔ دونوں غلط ہیں۔ ہائے ہوز کے ساتھ جب بھی کسرِ اضافت آتی ہے، یہن ہ کے اوپر ہمزہ کی سورت میں ہوتی ہے۔
نقطہِ نظر
غلط ہے،
نقطۂ نظر
درست۔
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ استادِ محترم ۔۔۔۔ آپ نے درستگی کی ، اس کے لیئے میں آپ کا شکرگذار ہوں ۔ویسے اتنے لمبے چوڑے مضمون میں ایک خون تومعاف ہونا چاہیئے ۔ :)
 
چھٹی یہ کہ، دین میں کوئی بھی چیز عقل و فطرت کے مسلّمات کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب انسانوں کی عقل و فطرت کا خالق، اور ہدایت کا منبع ایک ہی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ ان میں ہاہمی اختلاف پایا جائے۔
( جاری ہے )
کچھ زیادہ اختلاف نہیں۔ مگر یہ جملہ جو اپ نے لکھا ہے کچھ مشکوک ہے۔
عقل تو ہر ایک کی الگ ہوسکتی ہے پھر اسکی وجہ سے فطرت کےمسلّمات بدلتے رہتے ہیں۔ لہذا یہ سمجھنا کہ دین کی کوئی چیز عقل و فطرت کے خلاف نہیں‌ہوسکتی دین کو اپنی سجمھ کے تابع بنانا ہے اور یہ شیطانی کام ہے۔ دین کسی کی عقل کے تابع نہیں ۔
پھر دین کے مسلّمات و احکات کا ماخذ قران ہی ہے اس سے تو کوئی اختلاف نہیں مگر قرآن تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے لہذا سنت و سیرت اور تمام روایات کو سامنے رکھ کر دین کا سمجھنا پڑے گا۔ اس صورت میں عام آدمی کیا کرے۔ وہ تو پھر کسی عالم سے ہی رجوع کرے گا جو ان تمام چیزوں پر علم رکھتا ہے ورنہ پھر غلطی در غلطی کرکے جہنم کے گڑھے میں گرے گا۔
 

باذوق

محفلین
ظفری نے کہا:
چھٹی یہ کہ، دین میں کوئی بھی چیز عقل و فطرت کے مسلّمات کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب انسانوں کی عقل و فطرت کا خالق، اور ہدایت کا منبع ایک ہی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ ان میں ہاہمی اختلاف پایا جائے۔
کچھ زیادہ اختلاف نہیں۔ مگر یہ جملہ جو اپ نے لکھا ہے کچھ مشکوک ہے۔
عقل تو ہر ایک کی الگ ہوسکتی ہے پھر اسکی وجہ سے فطرت کےمسلّمات بدلتے رہتے ہیں۔ لہذا یہ سمجھنا کہ دین کی کوئی چیز عقل و فطرت کے خلاف نہیں‌ہوسکتی دین کو اپنی سجمھ کے تابع بنانا ہے اور یہ شیطانی کام ہے۔ دین کسی کی عقل کے تابع نہیں ۔
پھر دین کے مسلّمات و احکات کا ماخذ قران ہی ہے اس سے تو کوئی اختلاف نہیں مگر قرآن تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے لہذا سنت و سیرت اور تمام روایات کو سامنے رکھ کر دین کا سمجھنا پڑے گا۔ اس صورت میں عام آدمی کیا کرے۔ وہ تو پھر کسی عالم سے ہی رجوع کرے گا جو ان تمام چیزوں پر علم رکھتا ہے ورنہ پھر غلطی در غلطی کرکے جہنم کے گڑھے میں گرے گا۔
برادرم ہمت علی کی میں بھی تائید کروں گا۔ جناب ظفری کا جملہ درحقیقت قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
دلیل میں یہ دیکھ لیجئے :

حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ اپنی صحیح بخاری میں ایک باب کے تحت تعلیقاً حضرت ابو الزناد رحمة اللہ علیہ کی ایک روایت یوں پیش فرماتے ہیں :
مسنون اور شرعی احکام بسا اوقات رائے کے برعکس ہوتے ہیں لیکن مسلمانوں پر ان احکام کی پیروی کرنا لازم ہے ۔
انہی احکام میں سے ایک یہ بھی کہ حائضہ روزوں کی قضا ادا کرے ، لیکن نماز کی قضا ادا نہ کرے ۔
صحيح بخاری ، كتاب الصوم ، باب : الحائض تترك الصوم والصلاة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم کہ حائضہ نماز کے بجائے صرف روزوں کی قضا ادا کرے ، صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث میں بیان ہوا ہے :

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
حضرت معاذہ (رضی اللہ عنہا) نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ روزوں کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی ؟
ام المومنین (رض) نے جواب دیا :
ہم عورتوں کو حیض آتا پھر حکم ہوتا روزوں کی قضا کرنے کا اور نماز کی قضا کا حکم نہ ہوتا ۔
صحیح مسلم ، كتاب الحیض ، باب : وجوب قضاء الصوم على الحائض دون الصلاة ، حدیث : 789

انسانی عقل یا انسانی رائے تو یہ کہتی ہے کہ نماز کی قضا ہونی چاہئے۔ کیونکہ نماز روزانہ کا امر ہے جبکہ روزہ صرف مخصوص دنوں کا۔ اور پھر شریعت میں روزے پر نماز کو فوقیت حاصل ہے۔ اور قرآن میں بیشمار جگہ نماز قائم کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔
مگر دیکھ لیجئے کہ انسانی عقل کے برخلاف شریعت کا حکم ہی الگ ہے۔

درحقیقت سیدھی سی بات یہ ہے کہ انسانی عقل محدود ہے اور مجبور ہے کہ اپنا راستہ وحی (قرآن+سنت) کی روشنی میں طے کرے۔
 

باذوق

محفلین
اہل حدیث مکتبہ فکر اگرچہ تصوف کی آمیزش سے بہت حد تک پاک رہا لیکن ان کے ہاں غلطی کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ انھوں نے قرآن کی حاکمیت کو عملا نظر انداز کرتے ہوئے، حدیث کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دین کے اصل ماخذوں (Original Sources) میں شامل کر دیا اور محدثین کے کام کی روشنی میں قرآن و سنت کو سمجھنے کا راستہ اختیار کیا۔ حدیث کی طرف اس غیر متوازن جھکاؤ کے سبب ان کے ہاں بھی قرآن و سنت علم و تحقیق کا اصل محور نہ رہے، اور آہستہ آہستہ دین کی حکمتوں کے بجائے محض ظاہری چیزوں کی طرف زیادہ توجہ ہونے لگی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین میں وہ لچک اور حسن ختم ہوتا گیا جو اس کو نازل کرنے والے نے، اپنے بندوں کی طبیعتوں، مزاج اور رجحانات میں تنوّع کے باعث، اس میں رکھا تھا۔ علم و تحقیق کو اپنی اصل اساس سے ہٹا کر اس مکتبۂ فکر کا مزاج بھی پہلے دونوں مکاتب فکر کی طرح تشکیل پا گیا اور اپنے ائمہ کے علاوہ دوسروں کی بات کو سننے، بیان کرنے یا غور کرنے کے داعیات ختم ہوتے چلے گئے۔
درج بالا پیراگراف پر صرف احتجاج کرنے کے بجائے ، بہتر ہے کہ کبھی موقع ملنے پر اس کا مفصل جواب دیا جائے۔ مگر کم سے کم احباب یہ تو سن رکھیں کہ یہ پیراگراف بیشمار مغالطات کے سبب میرے نزدیک قابلِ اعتراض ہے۔ :)

دوسری اہم بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ ظفری صاحب محترم کی ذاتی تحقیق نہیں !! ;)
ہم تو جناب اتنا ضرور جانتے ہیں :) کہ ۔۔۔۔۔ اہل حدیث مکتبہ فکر پر جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے تو اس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں‌ سے جا کر ہر حالت میں "منکرینِ حدیث" مکتبہ فکر سے مل جاتے ہیں !!
حوالہ

لگتا ہے آج کل اردو محفل پر بغیر حوالہ والے کاپی / پیسٹ کو خاصا پروموٹ کیا جا رہا ہے :eek:۔ جیسا کہ یہاں بھی میں نے اظہار کر رکھا ہے۔

تیسری اور آخری اہم بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔
یہ (غامدی مکتبہ فکر المعروف منکرینِ حدیث) نے جو فرمایا ہے :
انھوں نے قرآن کی حاکمیت کو عملا نظر انداز کرتے ہوئے، حدیث کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دین کے اصل ماخذوں (Original Sources) میں شامل کر دیا

منکرینِ حدیث کے تمام سربراہان کو ہمارا چیلنج ہے کہ :
منکرین حدیث سے ہٹ‌ کر دورِ حاضر کی امت مسلمہ میں جتنے بھی مکاتبِ‌ فکر پائے جاتے ہیں ، ان کے منشور سے کوئی ایک سطر ایسی دکھا دیں جن میں واضح طور پر لکھا ہو کہ : ۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح)حدیث دین کے اصل ماخذوں (Original Sources) میں شامل نہیں ہے !!

اگر یہ چیلنج پورا نہ کر سکیں (اور ان شاءاللہ تاقیامت نہ کر سکیں گے) تو خدارا اس طرح‌ کے پروپگنڈے کو "پروموٹ" کرنے سے باز آ جائیں۔ آخر آپ نے ایک دن مرنا بھی ہے اور اللہ کے سامنے جواب بھی دینا ہے !!
:mad:
 

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
باذوق بھائی کاپی اور پیسٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اور وہ بھی ظفری صاحب امممممممممممممممم۔
ہاں اگر منکرین حدیث پر کچھ سننا ہے تو یہاں پر ایک بیان ہے
وعلیکم السلام واجد حسین بھائی
منکرینِ حدیث کے پروپگنڈے یا ان کے "پروموٹرز" کا سارا زور قرآن کریم کی ان ہی آیات مبارکہ پر ہوتا ہے جن میں عقل و بصیرت سے کام لینے کا ذکر ہے۔
یہ حضرات صرف انہی آیات کا ذکر کرتے اور انہیں بار بار دہرایا کرتے ہیں۔ مگر جن آیات میں عقل کو "وحی" کے تابع رکھنے کی ہدایت ہے ، ان کا کبھی ذکر نہیں کرتے !!
اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اس کے بعد مومن مرد یا عورت کا کچھ اختیار باقی نہیں رہتا۔
( سورة الاحزاب : 33 ، آیت : 36 )
یعنی اس کے بعد عقل کا استعمال حرام ہو جاتا ہے۔

پھر مومنوں کو اللہ تعالیٰ یہ حکم بھی دیتے ہیں :
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
اگر وہ اپنے اختلاف میں رسول اللہ کو قاضی نہ بنائیں اور ان کا فیصلہ بلا چوں و چرا اور برضا و رغبت تسلیم نہ کریں تو وہ مومن ہو ہی نہیں سکتے۔
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 65 )
اور اس طرح فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (حدیث) کے سامنے بھی عقل کے استعمال پر اتنی شدید پابندی لگا دی گئی ہے۔

ان سب باتوں کے باوجود داد دیجئے ہمارے صاحبان علم و عقل کو جو "مولویت" کے خلاف شور مچاتے تو کبھی نہیں تھکتے مگر قرآن کی ان واضح آیات کے مقابلے میں یوں عقل پرستی کو دین پر ترجیح دلا رہے ہیں :
دین میں کوئی بھی چیز عقل و فطرت کے مسلّمات کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب انسانوں کی عقل و فطرت کا خالق، اور ہدایت کا منبع ایک ہی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ ان میں ہاہمی اختلاف پایا جائے۔
بحوالہ : انڈرسٹينڈنگ اسلام ویب سائیٹ
 

ظفری

لائبریرین
باذوق صاحب ۔۔۔ آپ کی دو تین باتوں کا جواب پہلے دینا چاہوں گا ۔ پھر موضوع پر گفتگو ہوگی ۔
پہلی بات تو آپ یہ ذہن نشین رکھیں کہ میرا نک یہاں ظفری ہے ۔ لہذا اگر میں یہاں کچھ لکھتا ہوں اور پھر اسے کہیں اور لکھتا ہوں تو ضروری نہیں ہے کہ میں اسے ظفری کے نک سے ہی منسوب کروں ۔
دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب کے بارے میں آپ نے جو فرمایا ہے ۔ وہ اس مضمون میں موجود کسی ایک مسلک کی طرف آپ کے عقائد کے رحجان کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں اس مضمون میں جس موضوع پر لکھا گیا ہے آپ اسی کی تائید کر رہے ہیں کہ ہاں واقعی یہ اختلافات موجود ہیں ۔

تیسری بات یہ ہے کہ آپ کی ساری تحریر کا تختہ مشق موضوع نہیں بلکہ غامدی صاحب کا نقطعہ نظر ہے ۔ اگر آپ مکالمہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ آپ سامنے والے کی بھی بات سنیں گے ۔ کسی بات کو صرف اس وجہ سے رد کردینا کہ وہ غامدی یا کسی اور ایسے مکتبہِ فکر کی جانب سے کہی گئی جس سے آپ کو سخت نظریاتی اختلافات ہیں تو آپ سے بحث پھر کیا کی جائے ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
دیوبندی علماء بھی اگرچہ تصوف سے بہت متاثر رہے، لیکن ان کے ہاں تصوف زیادہ تر علمی حلقوں اور نجی مجالس تک ہی محدود رہا۔ انھوں نے بریلوي مکتبۂ فکر کی طرح اسے عوامی سطح پر پیش کرنے سے بالعموم اجتناب کیا۔ لیکن ان کے ہاں سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے تقلید پرستی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ انھوں نے نہ صرف تقلید کو جائز سمجھ لیا بلکہ قرآن و حدیث سے اس کی شرعی حیثیت ثابت کرنے پر اپنی تحقیقی صلاحتیں صرف کرنے لگے۔ ان کے ہاں تقلید پرستی کا غلبہ اس انتہا تک پہنچ گیا کہ فقہی مسلک کی تبدیلی کو انھوں نے ارتداد یعنی دین سے خروج قرار دے دیا۔ ظاہر ہے کہ شخصیت پرستی کے اس ماحول میں صحیح تحقیقی اور علمی کام کبھی نشوونما نہ پا سکتا تھا اور اپنے علماء اور فقہاء کے خلاف کوئی بات سننا یا ان کی رائے میں غلطی کا امکان تسلیم کرنے کا رویہ کبھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔
( جاری ہے )

الحمد للہ آپ نے ایک نازک اور نہایت پیچیدہ موضوع کو شروع کیا کہ جس کیلئے دفتر کے دفتر درکار ہوں‌ گے۔ ایک ایک لفظ تشریح‌کا محتاج ہے فی الحال میں‌صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ آپ تقلید سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اور ہم سب جو کہ اس فورم میں دینی لحاظ سے شائد مستند طالب علم بھی نہیں‌ ہیں۔ کیا مقلد نہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
دین کے معاملے میں اطمینان رہنا چاہیے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر موجودہ دور تک بغیر کسی انقطاع کے، مسلسل منتقل ہوتا آیا ہے اور امت، تاریخ کے کسی بھی دور میں اس سے کبھی محروم نہیں رہی۔ حادثہ یہ ہوا ہے کہ دوسری صدی کے بعد قرآن، علم و تحقیق کا محور اس درجے میں نہیں رہا جس درجے میں وہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا۔ ہمارے جلیل القدر ائمہ اور مفسرین میں کچھ تو فقہ کی تشکیل و تدوین میں غیر معمولی دلچسپی لیتے رہے اور کچھ نے اپنی تمام تر صلاحتیں فلسفہ و تصوف کی نظر کر دیں اور قرآن و سنت پر اگر تحقیق کی بھی تو انھی کے زیر اثر کی۔ اس طرز عمل کا نقصان یہ ہوا کہ قرآن و سنت، جو دین میں محور اور اساس کی حیثیت رکھتے تھے، آہستہ آہستہ پس پردہ چلے گئے اور دوسرے بہت سے ثانوی اور معاون علوم اصل کی حیثیت اختیار کر گئے۔
( جاری ہے )
اور اس کی قدر ہمیں‌ شائد اس لئے نہیں‌ کہ ہمیں‌ بنا بنایا سب کچھ مل گیا، خدا ان فقیہ و محدثین حضرات کو بلند سے بلند درجات سے نوازے جنہوں‌ نے اپنی زندگیاں ، اپنے مال لگا کر اور ظالموں کے کوڑے اوو قید و بند برداشت کر کر کے بھی ہمارے لئے مسائل کا مستند حل جو کہ قرآن و سنت کی ہی روشنی میں‌تیار کیا گیا چھوڑ گئے۔ انکے بعد اس شعبے میں کتنا کام ہوا ؟
 
پہلی بات تو آپ یہ ذہن نشین رکھیں کہ میرا نک یہاں ظفری ہے ۔ لہذا اگر میں یہاں کچھ لکھتا ہوں اور پھر اسے کہیں اور لکھتا ہوں تو ضروری نہیں ہے کہ میں اسے ظفری کے نک سے ہی منسوب کروں ۔

ظفری صاحب کیا ہم آپ کو امیر عبدالباسط سمجھے ؟
 

ظفری

لائبریرین
جی ہاں کیوں نہیں سمجھ سکتے ۔ کیونکہ میں اسی ٹیم میں شامل ہوں ۔ اگر آپ غور سکیں ۔۔ (میرا مطلب ہے کہ اگر غور کرسکیں ) تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہاں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے ۔ اس سائیٹ پر جو سوالات پوچھے جاتے ہیں تو پوری ٹیم اس کا جواب اپنے معلومات اور علم کے مطابق تیار کرتے ہیں اور پھر یہ جوابات اپنے استادوں کی طرف بڑھا دیتے ہیں اور وہاں سے جن تبدیلیوں ، تصیحات ، تشریحات اور وضاحتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ شامل کرکے سائیٹ پر پوسٹ کر دی جاتیں ہیں ۔ آپ کو کیا اس پر کوئی اعتراض ہے ۔ ؟ اگر اعتراض ہے بھی اسے اپنے پاس رکھیئے ۔ کیونکہ میں یہاں علمی بحث کے لیئے آتا ہوں ۔ آپ لوگوں سے علمی بحث نہیں‌ ہوسکتی تو اپنے مولویوں کی طرح ذاتیات پر نہ آئیں ۔ اور دلائل کا جواب دلائل سے دیں ۔ اگر نہیں دے سکتے تو واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے جیسے کہ منکرینِ حدیث وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ :) ۔
 

ظفری

لائبریرین
کچھ زیادہ اختلاف نہیں۔ مگر یہ جملہ جو اپ نے لکھا ہے کچھ مشکوک ہے۔
عقل تو ہر ایک کی الگ ہوسکتی ہے پھر اسکی وجہ سے فطرت کےمسلّمات بدلتے رہتے ہیں۔ لہذا یہ سمجھنا کہ دین کی کوئی چیز عقل و فطرت کے خلاف نہیں‌ہوسکتی دین کو اپنی سجمھ کے تابع بنانا ہے اور یہ شیطانی کام ہے۔ دین کسی کی عقل کے تابع نہیں ۔
پھر دین کے مسلّمات و احکات کا ماخذ قران ہی ہے اس سے تو کوئی اختلاف نہیں مگر قرآن تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے لہذا سنت و سیرت اور تمام روایات کو سامنے رکھ کر دین کا سمجھنا پڑے گا۔ اس صورت میں عام آدمی کیا کرے۔ وہ تو پھر کسی عالم سے ہی رجوع کرے گا جو ان تمام چیزوں پر علم رکھتا ہے ورنہ پھر غلطی در غلطی کرکے جہنم کے گڑھے میں گرے گا۔

ہمممم ۔۔۔۔ آپ نے اس چھٹی بات کو جس طرح سمجھا ہے اس سے ایک بات تو واضع ہوگئی ہے کہ دین کو سمجھنے کا آپ کا طریقہ کار کیا ہے ۔ یعنی ہر بات اپنے مولویوں کی طرح ہی گڑھ لی ۔ اور اپنی مرضی کا اسے مفہوم پہنانے کی کوشش کی جیسا کہ آپ کے مولویوں نے قرآن ، سنت اور حدیث کے ساتھ کیں ۔ اسی چھٹی بات کو پہلی بات کے ساتھ ملا کر دیکھیں کہ آپ کو مذید کیا سمجھ آتا ہے ۔ ! کوشش کریں شاید اللہ آپ پر رحم فرمادے ۔
 
جی ہاں کیوں نہیں سمجھ سکتے ۔ کیونکہ میں اسی ٹیم میں شامل ہوں ۔ اگر آپ غور سکیں ۔۔ (میرا مطلب ہے کہ اگر غور کرسکیں ) تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہاں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے ۔ اس سائیٹ پر جو سوالات پوچھے جاتے ہیں تو پوری ٹیم اس کا جواب اپنے معلومات اور علم کے مطابق تیار کرتے ہیں اور پھر یہ جوابات اپنے استادوں کی طرف بڑھا دیتے ہیں اور وہاں سے جن تبدیلیوں ، تصیحات ، تشریحات اور وضاحتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ شامل کرکے سائیٹ پر پوسٹ کر دی جاتیں ہیں ۔ آپ کو کیا اس پر کوئی اعتراض ہے ۔ ؟ اگر اعتراض ہے بھی اسے اپنے پاس رکھیئے ۔ کیونکہ میں یہاں علمی بحث کے لیئے آتا ہوں ۔ آپ لوگوں سے علمی بحث نہیں‌ ہوسکتی تو اپنے مولویوں کی طرح ذاتیات پر نہ آئیں ۔ اور دلائل کا جواب دلائل سے دیں ۔ اگر نہیں دے سکتے تو واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے جیسے کہ منکرینِ حدیث وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
امیر عبدالباسط صاحب ;)

ذاتیات پر کون اترتا ہے یہ تو آپ سوچ لیں جب کسی فقہہ کا حوالہ دیتے ہیں تو آپ لوگ کہتے ہیں حدیث دیکھاؤ جب حدیث کا حوالہ دیتے ہیں تو پھر کہتے ہیں تو پھر آپ اس کی سکین شدہ کاپی مانگتے ہیں ( یا یہ حدیث کمزور ہے وغیرہ ۔۔۔ ) اور جب قرآن پاک کی کسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں تو پھر آپ اسے صرف نبی السیف ولملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک محدود کر دیتے ہیں تو پھر ہمارے پاس تو بحث کرنے کی گنجائش امممممممممممممممممممممم ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟///

اللہ اکبر کبیرا
 

ظفری

لائبریرین
برادرم ہمت علی کی میں بھی تائید کروں گا۔ جناب ظفری کا جملہ درحقیقت قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

میں یہاں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا مگر میری نظر اس فقرے پر پڑی ۔ سو مجھے بتائیں کہ یہ جملہ کیسے قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہوگیا ۔ پہلے جملہ کا مفہوم واضع کریں اور پھر ثابت کریں کہ یہ بات ایسے قرآن و سنت کے خلاف ہے ۔ بات آپ نے قرآن و سنت کی ہے اور حوالے امام بخاری رح کے دے رہے ہیں ۔ جواب نہیں آپ کا بھی ۔
دوسری بات یہ کہ آپ کا لہجہ اتنا درشت ہے کہ مجھے حیرت ہورہی کہ آپ نے اپنا یہ " نک " کیسے رکھ لیا ۔ آپ کے مولانا کی تقریر سنی جو سراسر ، جھوٹ ، بغض ، حسد ، کینہ اور منافرت سے بھرپور تھی ۔ اور ان کا لہجہ بھی آپ کے لہجے سے کم نہیں تھا ۔ اور جو اندازِ تخاطب اور گفتگو انہوں نے اختیار کی تو مجھے معلوم ہوگیا کہ ایسے مولوی کے پیروکار بھی کیسے ہونگے ۔
آپ بہتان ، تہمتیں لگانے کے بجائے کوشش کریں کہ علمی بحث کریں ۔ اگر کرسکتے ہیں تو کوشش کریں کہ موضوع کے پیرائے میں بھی رہیں ۔ بات استدلال سے کریں ، دلائل سے کریں مگر کوشش کریں کہ گفتگو میں آپ شائستگی کا دامن نہ چھوڑیں ۔ یہ کیا کہ آپ اور آپ کے ساتھی فوراً تُو تڑاک پر آجاتے ہیں ۔ پہلے خود آپ لوگ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات اور گفتگو کے آداب کو اختیار کریں ۔ پھر اس کے بعد کسی کو منکرینِ حدیث کے خطاب سے نوازیئے گا ۔
 

ظفری

لائبریرین


ذاتیات پر کون اترتا ہے یہ تو آپ سوچ لیں جب کسی فقہہ کا حوالہ دیتے ہیں تو آپ لوگ کہتے ہیں حدیث دیکھاؤ جب حدیث کا حوالہ دیتے ہیں تو پھر کہتے ہیں تو پھر آپ اس کی سکین شدہ کاپی مانگتے ہیں ( یا یہ حدیث کمزور ہے وغیرہ ۔۔۔ ) اور جب قرآن پاک کی کسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں تو پھر آپ اسے صرف نبی السیف ولملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک محدود کر دیتے ہیں تو پھر ہمارے پاس تو بحث کرنے کی گنجائش امممممممممممممممممممممم ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟///

اللہ اکبر کبیرا


سچی ۔۔۔ آپ صرف کاپی اور پیسٹ پر اکتفا کریں ۔۔۔۔ علمی بحث آپ کے بس کی بات نہیں ۔ واللہ کیا مثالیں دیں ہیں ۔ جس کا کم از کم میری باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ;)
 
ویسے دیکھا جائے تو ظفری کی ساری لاجک ہی غیر منطقی ہے۔
پہلے تو یہ کہہ رہے ہیں‌کہ پہلے لوگوں‌کی تحقیق سے فائدہ نہ اٹھائیں انھوں نے قران کےاپنے مہفوم کی روشنی میں‌علم وضع کیے ہیں۔ پہلے لوگوں‌نے دین کو اپنی عقل کے مطابق سمجھا لہذا ان کی کوئی رائے سند نہ ہوگی۔ پھر خود یہ کہتے ہیں جو چیز عقل (یعنی اپنی عقل) میں نہ ائے وہ دین نہ ہوسکتی۔ اسے کیا کہیے؟ کیا یہ خالص نفس پرستی نہیں ہے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کی رائے ہماری پسند کی نہیں لہذا اس پر اعتبار نہیں ۔ ہماری اپنی مرضی جو ہے (جو ہماری عقل میں ایا) وہی دین ہے۔ بھائی پھر تو یہ شیطان کادین ہوا۔
 

ظفری

لائبریرین
ویسے دیکھا جائے تو ظفری کی ساری لاجک ہی غیر منطقی ہے۔
پہلے تو یہ کہہ رہے ہیں‌کہ پہلے لوگوں‌کی تحقیق سے فائدہ نہ اٹھائیں انھوں نے قران کےاپنے مہفوم کی روشنی میں‌علم وضع کیے ہیں۔ پہلے لوگوں‌نے دین کو اپنی عقل کے مطابق سمجھا لہذا ان کی کوئی رائے سند نہ ہوگی۔ پھر خود یہ کہتے ہیں جو چیز عقل (یعنی اپنی عقل) میں نہ ائے وہ دین نہ ہوسکتی۔ اسے کیا کہیے؟ کیا یہ خالص نفس پرستی نہیں ہے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کی رائے ہماری پسند کی نہیں لہذا اس پر اعتبار نہیں ۔ ہماری اپنی مرضی جو ہے (جو ہماری عقل میں ایا) وہی دین ہے۔ بھائی پھر تو یہ شیطان کادین ہوا۔
جو نظریہ آپ نے پیش کیا ہے میری منطق کے جواب میں ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک شیطانی نظریہ ہے ۔ کیونکہ میں نے ایسا نہیں کہا جو آپ پیش کر رہے ہیں اور اسی سوچ اور استدلال پر آپ سارا دین پیش کر رہے ہیں ۔ میری ساری بات کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ۔ ویسے آپ اور واجد ایک ہی سکے کہ دو رخ ہیں ۔ دونوں‌کی باتیں ہی بے سروپا ہوتیں ہیں ۔ :)
 
Top