دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اسلامی تعلیمات کے فروغ میں مدرسئہ جات کا بڑا اہم کردار ہے لیکن میرے ذاتی مشاہدے میں آیا ہے کہ دور دراز یا شہر کی کچی آبادیوں میں محلہ محلہ مدرسئہ جات ہیں ان میں دیں اسلام کی لاعلمی صرف صرف اور قرآن حافظ ہی مدرسئہ چلارہے ہیں اور شریعہ مسائل پر عبور نہ ہونے کی بناء پر توہمات جنم لے رہی ہیں
 

سویدا

محفلین
دنیا کے ہرشعبے میں اچھے برے صحیح غلط ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے درمیان امتیاز ہمیں خود کرنا پڑتا ہے۔
دینی مدارس میں جہاں کچھ خامیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں وہیں اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
اور شعبوں کی طرح اس میں بھی اچھے برے ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ سب بھی ہماری ہی طرح انسان ہیں۔
 

عسکری

معطل
ان تمام مدارس کو تالے لگا کر کوئی اچھا سا تعلیمی نظام وضع کرنا حکومت وقت کا کام تھا پر یہاں کیا ہے سب جانتے ہیں ۔جتنا جلدی انہیں بند کیا جائے گا اتنی ہی جلدی ملک میں امن قائم ہو گا ۔
 

متلاشی

محفلین
ان تمام مدارس کو تالے لگا کر کوئی اچھا سا تعلیمی نظام وضع کرنا حکومت وقت کا کام تھا پر یہاں کیا ہے سب جانتے ہیں ۔جتنا جلدی انہیں بند کیا جائے گا اتنی ہی جلدی ملک میں امن قائم ہو گا ۔
جناب نام نہاد ’’ روشن خیالوں ‘‘ کو اگر اللہ حقیقی بصیرت سے نواز دے تو پھر یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔! کیونکہ زیادہ روشنی میں بھی انسان اندھا ہو جاتا ہے ۔۔۔ یہ قانونِ فطرت ہے ۔۔۔!
 

عسکری

معطل
جناب نام نہاد ’’ روشن خیالوں ‘‘ کو اگر اللہ حقیقی بصیرت سے نواز دے تو پھر یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ ! کیونکہ زیادہ روشنی میں بھی انسان اندھا ہو جاتا ہے ۔۔۔ یہ قانونِ فطرت ہے ۔۔۔ !
ہان جی بالکل جس طرح پمز اور نٹس کے سٹوڈنٹ خود کش حملوں سے معصوم طالبوں کو مار رہے ہیں :laugh:
 
پھر تجاویز تالاجات اس کا حال نہیں ہے اس کا حل ہے کہ اپنے آس پاس کا ماحول دیکھیں یا تو بچے کو کسی ایسے مدرسئہ میں ڈالیں جہاں مفتی نہ سہی لیکن اتنا علم والا معلم تو ہو جو آپ کے شرعی مسئلہ کا حل جانتا ہوں کسی ٹرسٹ کے زیر نگرانی ہو طفل مکتب ہو کوئی سند ہو اس کے پاس نہ کہ صرف قرآن حافظ ہوکر مفتی بن کر بیٹھ کر الٹے سیدھے حل بتاتا ہو
 
اگر نہ ہو تو مساجد میں دیکھیں اور نہ بھی ہوں تو قرانی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس معلم کی سرگرمیوں پرنظر رکھنے کی ضرورت ہوگی اور مسئلے مسائل کے لئے تھوڑی سی بھاگ دور کرکے کسی جامع مدرسئہ میں رابطہ کریں
 
میں مدرسئہ جات کے خلاف نہیں ہوں مدرسئہ جات اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں لیکن گلی گلی مدرسئہ جات کےنام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے انتہائی تشویشناک ہے
 

شمشاد

لائبریرین
میں مدرسئہ جات کے خلاف نہیں ہوں مدرسئہ جات اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں لیکن گلی گلی مدرسئہ جات کےنام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے انتہائی تشویشناک ہے
ذرا ان گلی گلی مدرسئہ جات کی نشاندہی تو کریں کہ کون کون سے ہیں؟
 
میں مدرسئہ جات کے خلاف نہیں ہوں مدرسئہ جات اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں لیکن گلی گلی مدرسئہ جات کےنام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے انتہائی تشویشناک ہے
گلى گلى جعلى يونيورسٹیاں ،سكول، كالج ،نرسريز اور آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ بھی بنے ہوئے ہيں سمجھ دار سرپرست بچے ايڈمٹ كرواتے وقت چيك كر ليتے ہيں کہ ادارہ رجسٹرڈ ہے يا كسى بورڈ سے ايفلييٹڈ ہے سمپل !
جیسے جعلى كلينكوں اور عطائى ڈاكٹروں كا نام لے كر ميڈيكل پروفيشن كو لعن طعن كرنا درست نہيں اسى طرح گنتی کے جعلى مدرسوں كو لے كر سب دينى مدارس و جامعات كى محنت پر پانى پھيرنا انصاف نہيں۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے ہندوستان میں جو نظام تعلیم تھا۔ اس میں مدرسے ہی کلیدی ادارے تھے۔ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی تھی اور صدیوں سے مسلمانوں میں ایسا ہی نظام چلا آیا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے گورے اپنے تئیں اس زعم میں مبتلا ہو چلےتھے کہ انہوں نے ہندوستان پر مکمل اجارہ داری قائم کر لی ہے اور اب کسی میں دم خم نہیں کہ وہ بدیسی مضبوط حکومت کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا کر سکے۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد گورے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لئے مجبور ہو گئے۔ ہندوستان کے لوگوں کو مستقل محکوم بنانے کے لئے بہت سارے اقدامات کے ساتھ ساتھ انہوں نے سابقہ تعلیمی ڈھانچے کو تبدیل کر دیا۔ یقینا گورے طاقت کےبل بوتے پر مسلمانوں کو زیادہ دیر تک زیر نہ رکھ سکے لیکن اپنی پالیسی کے زرو پر انہوں نے مسلمانوں کو ایسا زیر کیا ہے کہ آزادی کی 63 بہاریں دیکھنے کے باوجود ہم ذہنی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔ گوروں نے تمام وسائل کو انگریزی تعلیم کے واسطےمخصوص کر دیا۔ انگریزی تعلیم کو لازمی قرار دیا ۔ ہر سہولت انہیں اداروں کے لئے مخصوص کردی اور انہی اداروں کے تعلیم یافتہ لوگوں پر نوازشات کے دروازے کھولے۔ ایسے حالات میں دین کا درد رکھنے والے حضرات نے اپنے تئیں دین کی تعلیم کا مشکل کام سنبھالا، بڑی جانفشانی اور ذاتی لگن سے دینی تعلیم والے سلسلے کو برقرار رکھا۔ 1857ء سے پہلے برصغیر میں ایک نظام تعلیم تھا یعنی مدرسہ میں پہلے قرآن کی تعلیم اور اس کے بعد مختلف شعبوں کی تعلیم۔ جبکہ 1857ء کے بعد دو نظام تعلیم رائج ہوئے۔ ایک انگریزی نظام تعلیم اور دوسرا اسلامی نظام تعلیم۔ یہی دو نظام تعلیم آج تک ہمارے ملک میں چل رہے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہےکہ انگلش سکولوں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والا اور پھر بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا بابو جب اسلام کو دیکھتا ہے تو اسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے جوا سے مغربی اساتذہ نے اسلام کے متعلق زہر پڑھایا ہوتا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ مناصب زیادہ تر انہی لوگوں کے پاس ہیں جنہیں اسلام کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہوتا انکو آیۃ الکرسی سنانے کا کہا جائے تو قل ھو شروع کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ جو دینی مدارس سےسند یافتہ ہوتے ہیں ان کی اکثریت مساجد اور مدارس تک محدود رہتی ہے۔ عصری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اعلیٰ مناصب حاصل نہیں کر سکتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا جائے اور وہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے اور گورنمنٹ سکولوں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ منتخب دینی کتب کی تعلیم کو ضروری قرار دیا جائے تاکہ مسلمانوں کا ہر بچہ دین کے متعلق ابتدائی معلومات رکھتا ہو اور وہ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے‘‘ کے منصب سے سبکدوش ہو سکے۔
 
اپ نے جو تجویز دی ہے میں اس پوری طرح متفق ہوں اگر اس پر عمل ہوجائے کافی حد تک بہتری آجائے گا لیکن میں یہاں اس بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ سارا کام حکومت پر نہیں چھوڑنا چاہییے ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں
 
تجویز یہ ہے کہ محلہ جات یا گلی جات کے مدرسئہ جات کی نگرانی کیلئے محلہ کمیٹی قائم کی جائے تاکہ کوئی برائی جنم لینے سے پہلے ہی ختم ہوجائے
 

زلفی شاہ

لائبریرین
تجویز یہ ہے کہ محلہ جات یا گلی جات کے مدرسئہ جات کی نگرانی کیلئے محلہ کمیٹی قائم کی جائے تاکہ کوئی برائی جنم لینے سے پہلے ہی ختم ہوجائے
کمیٹیاں تو موجود ہیں لیکن کمیٹی والے اکثروبیشتر دلچسپی نہیں لیتے اور تمام تر ذمہ داری حافظ صاحب پر ڈال دیتے ہیں۔ جب ایک آدمی کے ہاتھ میں سارا انتظام و انصرام آ جائے گا تو خرابیوں کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محلے داروں اور معلمین کے کمبی نیشن سے ادارے چلائے جائیں اور مدرسے کے کام کو دینی فریضہ سمجھ کر باہمی مشاورت سےسرانجام دیا جائے۔ امید ہے کافی افاقہ ہوگا۔
 
Top