دیا بجھانے کی ضد میں ہیں وہ

امان زرگر

محفلین
اس وقت ہی کچ اہمیت ہو سکتی ہے جب ایک ہی قافیہ دو اشعار میں مسلسل آئے۔ یا دو اشعار میں تسلسل سے ایک ہی خیال کی گونج ہو ۔ اس صورت میں فاصلہ رکھنا مناسب ہے۔
اس غزل کی زمین ہی مجھے پسند نہیں آئی۔ محاورہ اور روانی دونوں بہتر ہو سکتی ہے اگر اس زمین کو، یا ردیف کو ’ضد ہے ان کو‘ کر دیا جائے۔

اب اشعار کو پھر دیکھیں
اجاڑ کر میرے دل کی ہستی.
نئے ٹھکانے کی ضد میں ہیں وہ
ہستی کیوں؟ یہاں ’بستی‘ زیادہ مناسب لگتا ہے۔

بھلا سا دنیائے آب و گل میں.
نگر بسانے کی ضد میں ہیں وہ.
یہں دوسرے مصرع میں ہندی کا نگر ہے جو پہلے مصرع کی دنیائے آب و گل کی ترکیب سے مناسبت نہیں رکھتا۔ اس کو بدل دو۔
سر ذرا دیکھئے گا کچھ بہتر لگے تو
.
بھلا سا دنیائے آب و گل میں
مقام پانے کی ضد ہے ان کو
محمد ریحان قریشی الف عین
مقام تو عربی زبان کا لفظ ہے جی!
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
دیا بجھانے کی ضد ہے ان کو
اندھیرا لانے کی ضد ہے ان کو
اجاڑ کر میرے دل کی بستی
نئے ٹھکانے کی ضد ہے ان کو
نگاہ و دل جن کے منتظر تھے
نظر چرانے کی ضد ہے ان کو
نیا ہے منظر نئے زمانے
کہاں پرانے کی ضد ہے ان کو
بدل کے چرخِ کہن کو نو سے
ستم اٹھانے کی ضد ہے ان کو
بھلا سا دنیائے آب و گل میں
مقام پانے کی ضد ہے ان کو
 

الف عین

لائبریرین
درست ہو گئی ہے غزل۔ لیکن پہلے کیا تھا، یا مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا، لیکن اب کم از کم عجیب لگ رہا ہے
بدل کے چرخِ کہن کو نو سے
’نو سے‘ کا نو چرخ سے الگ ہونے کے باعث گنتی سمجھا جا سکتا ہے۔ نو سے، دس سے۔۔۔۔
 

امان زرگر

محفلین
درست ہو گئی ہے غزل۔ لیکن پہلے کیا تھا، یا مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا، لیکن اب کم از کم عجیب لگ رہا ہے
بدل کے چرخِ کہن کو نو سے
’نو سے‘ کا نو چرخ سے الگ ہونے کے باعث گنتی سمجھا جا سکتا ہے۔ نو سے، دس سے۔۔۔۔
اس پہ محنت کرتا ہوں سر نو کو چرخ کے قریب لانے کے لئے
 
Top