دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
ہماری قوت پرواز کا ثانی نہیں کوئی
مگر پرواز پر اپنی کہاں ہم ناز کرتے ہیں

عقابی حوصلہ رکھتے ہیں ہم اونچی اڑانوں میں
ہماری رہنمائی میں سبھی پرواز کرتے ہیں
افضل الہ آبادی

پرواز
 

شمشاد

لائبریرین
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
ساحر لدھیانوی

کشمکش
 

سیما علی

لائبریرین
غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا عمر ِ رفتہ کو آواز دینا
مجھے
ایسا لگتا ہے کہ کر دے گا اب آزاد مجھے
میری مرضی سے اڑانے لگا صیاد مجھے

میں ہوں سرحد پہ بنے ایک مکاں کی صورت
کب تلک دیکھیے رکھتا ہے وہ آباد مجھے

آباد
 

شمشاد

لائبریرین
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
جلیل عالیؔ

تصویر
 

سیما علی

لائبریرین
اپنی تصویر ہر اک دل میں لگا رکھی ہے
ان بتوں نے تو بڑی بات بنا رکھی ہے

میرے نالوں نے عجب دھوم مچا رکھی ہے
چرخ کی طرح زمیں سر پر اٹھا رکھی ہے

چرخ
 
ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن ،دِلوں میں اُداسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِس شعر کو یوں بھی پڑھاجاسکتا ہے:
نگاہوں میں اُلجھن ، دلوں میں اُداسی
ہر اک جسم گھائل ہراک روح پیاسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے جب شعرکو الٹ پلٹ کر دونوں طرح پڑھاجاسکے اور اِس کے مطلب میں فرق نہ آئے تو اِسے صنعتِ ترافق کہا جاتا ہے ، شاید واللہ اعلم بالصواب!
تحقیق:کسی شعر کے دونوں مصرعوں کایا رباعی کے چاروں مصرعوں کا اس طرح سے ہوناکہ جس مصرع کو چاہیں، مصرعہ ٔ اول دوم سوم یا چہارم بنالیں اورشعر کے معنوں ، سلاست یا روانی میں فرق نہ آئے ، اُسے ’’صنعتِ ترافق‘‘ کہیں گے جیسے مندرجہ بالاشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا یہ شعر: اگلے وقتوں کے شاعرانِ کرام۔۔کس قدرخوش نصیب ہوتے تھے(کتاب:’’ محاسن الفاظِ غالب صفحہ:115 ‘‘مصنف: نذیر احمد)
ہر
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
چچا غالب

ارمان
 
چلے آتے ہیں دل میں ارمان لاکھوں
مکاں بھر گیا ۔۔میہماں آتے آتے ۔۔۔صنعتِ تکراریعنی ایک لفظ کی تکرار اور وہ لفظ ہے’’ آتے آتے‘‘

لاکھوں
 
رَو میں ہے رَخشِ عمر ۔کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رَکاب میں
(ہاتھ اور پا یعنی پیر میں صنعتِ تضاد پائی جاتی ہے اور رخشِ عمریعنی زندگی کا گھوڑایا اسپِ حیات خوبصورت ترکیب ہے )

پر
 
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ ۔۔گلشن کا کاروبار چلے۔۔۔صنعتِ قطار البعیر یعنی پہلے مصرعے کا آخری لفظ دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ ہو تو یہ صنعتِ قطار البعیر ہے۔ بعیر اونٹوں کو کہتے ہیں ۔اور اونٹوں کی قطار عموماً یوں ہوتی ہے کہ ایک اونٹ کی نکیل دوسرے اونٹ کی دُم سے بندھی ہوتی ہے اور سب سے اگلے اونٹ پر ساربان بیٹھتا ہے۔مندرجہ ذیل شعر میں بھی صنعتِ قطار البعیر ہے :
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
آؤ
 

سیما علی

لائبریرین
اہلِ طوفاں! آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسو بھنور کو چشمِ جانانہ کہیں

دار پر چڑھ کر لگائیں نعرۂ زلفِ صنم
سب ہمیں با ہوش سمجھیں چاہے دیوانہ کہیں

صنم
 

سیما علی

لائبریرین
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

کِیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سُود و زیاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

بُتانِ
 

سیما علی

لائبریرین
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
حکیم الامت کے محضر میں
صنم کدہ ہے جہاں، اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے — کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے
صنم کدہ: بت خانہ،
خلیل: حضرت ابراہیم (علیہ السلام)۔
تاریخِ انبیاء (علیہم السلام) میں رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے بعد، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، جب آپ اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے، تو آپ نے عقل ومنطق، دلیل و برہان، اور نظر و استدلال سے اپنی قوم کو سمجھانے کی ہر کوشش کی، لیکن جب وحیِّ ربانی کی شرینی، آپ کے حُسنِ اسلوب، لہجے کی مٹھاس، اور استدلال کی قوت سے بھرے بیان نے، ان عقل کے اندھوں پر کوئی اثر نہ کیا، تو اپنے انتہائی جرأت سے اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہا: 《اور اللہ کی قسم، جب تم (یہاں سے) پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے، تو میں تمہارے (ان) بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا》[سورہ الانبیاء: آیت 57]،
چونکہ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرتِ مبارکہ ہر دور میں امتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ ہے۔۔
کس لطیف پیرائے میں علامہ صاحب نے دنیا کو بت کدے، اور مردِ حق کو خلیل اللہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے، البتہ یہ ہرگز نہ سمجھیے گا، کہ وہ کسی بھی مردِ مومن کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا رہے ہیں، ہرگز نہیں، بلکہ اس تشبیہ کا مقصد یہ ہے، کہ جو بھی اپنی زندگی کے لئے خلیل اللہ کی سیرت سے روشنی لے گا، وہ اس دنیا، اس کے مقام و مرتبے، جاہ و جلال، شان و شوکت اور مال و دولت کو کوئی اہمیت نہیں دے گا، مگر یہ کے ان چیزوں کا ہدف دینِ حنیف، اور بندگانِ خدا کی خدمت ہو۔
مردِ حق کے لئے توحید سے خالی دنیا اس بت کدے کی مانند ہے، جس میں مختلف انواع و اقسام کے بے جان پتھر رکھ دیے گئے ہوں، لہذا وہ ایسی دنیا اسی نظر سے دیکھے گا، جس نظر سے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے شہر کے بت خانے کو دیکھا تھا۔ علامہ صاحب کہتے ہیں کہ یہی وہ راز ہے، جو لا الہ الا اللہ میں پوشیدہ ہے، یعنی کلمہءِ توحید کا مطلب ہر خدا کی نفی، اور ہر بت کو توڑنا ہے، چاہے وہ شہرت کا بت ہو، فانی دنیا کے حصول کا بت ہو، غرور و تکبر کا بت ہو، یا دنیاوی جاہ و منصب کا بت ہو۔ گویا دوسرے لفظوں میں علامہ صاحب یوں کہنا چاہتے ہیں، کہ اپنے دل سے ان سارے بتوں کو نکال دو، تاکہ تیرا دل لا الہ الا اللہ کے نور کو حقیقی معنوں میں محسوس کر سکے۔
 
Top