دیئے گئے شعر کی دھنائی کریں

شاعر دراصل پانی سے محبت کی بڑی بڑی بڑھکیں تو مارتا ہے مگر کشتی ذرا سے گہرے پانی میں جانے لگے تو مگرمچھ سے ڈرتا ہے. شاعر کو معلوم نہیں تھا کہ آنکھوں کے پانی کے نیچے ہڑپنے کے لیے کوئی مگرمچھ نہیں ہوتا بلکہ ڈسنے کے لیے دل کا ناگ ہوتا ہے. تاہم، شاعر کی بچت ہوگئی، پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں!

اگلا شعر:
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
شاعر کے معدہ میں شدید تلاطم برپا تھا مگر قوت گرفتگی کی شر انگیز سے جان ہلکان تھی۔وہ اس ہیجان خیز تلاطم سے چھٹکارا پانا چاتے تھے ۔دوست نے جب ان کی حالت دیکھی تو فوری مدد کو دوڑا اور اپنے گھر سے اپنے دادا مرحوم کے بخشے ہوئے نسخے سے تیارکردہ چورن شاعر صاحب کو ایک ماشہ بطور دوا کھلایا دیا۔چورن نے معدہ میں پہنچتے ہی تلاطم کو راستہ نجات کی راہ دیکھائی ۔شاعر نے قرار پاتے ہی اس حادثے نما واقع کو شعر کی صورت ڈھالا۔
 
لیجیے پھر ذرا اس کی دھن ڈالیے
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
شاعر ان چند لوگوں میں سے ہے جو ہر وقت حساب کتاب میں لگے رہتے ہیں. کبھی محبوب کو جمع کر لیا، جواب درست نہ ہوا تو نفی! کبھی ضرب لگائی اور کبھی خود کو ہی تقسیم کیا. خسارے میں تو انسان تھا ہی، یہ تو سود سمیت خسارہ ہو گیا. (معاف کیجیے گا، ہم آج سنجیدگی سے دھنائی کر رہے ہیں!) :unsure:

اگلا شعر


تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟
 

شمشاد خان

محفلین
شاعر کو کسی نے افطاری پر بلایا تھا اور وہ اپنے ساتھ بہت سارے لوگوں کو لیکر چلا تھا لیکن راستے میں کئی مقامات پر ٹھہرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ تھک کر رہ گئے اور آخر میں اس کے ساتھ صرف دو چار لوگ ہی رہ گئے۔ اس کے باوجود میزبان کا پتہ نہیں ملا رہا کہ اس کا گھر کہاں ہے، اب وہ ناچار ہو کر ہر ایک سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ کیا کروں، ادھر سے افطاری کا وقت بھی قریب ہے۔

تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو
(سعداللہ شاہ)
 
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو
(سعداللہ شاہ)
یہ شعر مکمل طور پر سیاسی نوعیت کا ہے. شاعر اس مقام پر پہنچ چکا ہے جس میں وہ محبوب کو روکنا ہی نہیں چاہتا . اس نے بڑی محنت سے ایک عدد دروازہ بنایا ہے اور جگاڑ ایسا لگایا ہے کہ محبوب کو تاقیامت پتا نہیں چلے گا کہ یہ راہیں ہموار اس کے آنے کے لیے کی جا رہی ہیں یا جانے کے لیے! آخر کار فیصلہ بھی محبوب پر چھوڑ کر اس کے سر ایسا احسانِ عظیم کیا ہے جس کا بدلہ اس کی نسلیں بھی نہیں چُکا سکتیں! :cool:

اگلا شعر:

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
 

شمشاد خان

محفلین
شاعر سے کسی نے اس فاقہ کشی کے دور میں ادھار مانگ لیا ہے۔تو وہ کہہ رہا ہے کہ مانگنے والے سے بالکل نا آشنا ہو جاتا ہوں، اگر کوئی ماضی میں عہد کیا تھا تو وہ بھی بھول جانا ہی اچھا ہے۔ اور ادھار مانگنے والے کو کہہ رہا ہے کہ خفا ہوتے ہو تو ہو جاؤ، میری بلا سے، میں تو ادھار نہ دوں گا۔

تو نے دستک ہی نہیں دی کسی دروازے پر
ورنہ کھلنے کو تو دیوار میں بھی در تھے بہت
(جلیل حیدر لاشاری)
 
تو نے دستک ہی نہیں دی کسی دروازے پر
ورنہ کھلنے کو تو دیوار میں بھی در تھے بہت
شاعر دروازوں کی 'ڈیزائننگ' کرتے ہوئے زنجیر لگانا بھول گیا ہے اور محبوب کو علم نہیں کہ 'نِری دیوار' کیسے کھٹکھٹاتے ہیں. کمیونیکیشن کی اس کمی کے باعث شاعر کو یہ شعر لکھنا پڑا مگر تب تک محبوب محلے کے باقی سب گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر بھاگ چکا تھا.

اگلا شعر:
کی مے سے ہزار بار توبہ
رہتی نہیں برقرار توبہ
 
آخری تدوین:

شمشاد خان

محفلین
شاعر پورے کا پورا پھڈے باز ہے اور وعدہ خلافی کرنے والا ہے۔ مزید یہ کہ جھوٹ بھی بہت بولتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں ہزاروں بار توبہ کی۔ حالانکہ بھولے سے کہیں دو چار کر بھی لی ہو گی، پھر عذر یہ پیش کرتا ہے کہ توبہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔ پوچھو تو بھلا کیوں، جب من ہی نہیں مانے گا تو توبہ کا کیا ہے۔

اگلا شعر
اب میرؔ نہیں ہیں تو گلی سونی پڑی ہے
عطار کے لونڈے بھی دکھائی نہیں دیتے

(آثم پیرزادہ)
 
شاعر پورے کا پورا پھڈے باز ہے اور وعدہ خلافی کرنے والا ہے۔ مزید یہ کہ جھوٹ بھی بہت بولتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں ہزاروں بار توبہ کی۔ حالانکہ بھولے سے کہیں دو چار کر بھی لی ہو گی، پھر عذر یہ پیش کرتا ہے کہ توبہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔ پوچھو تو بھلا کیوں، جب من ہی نہیں مانے گا تو توبہ کا کیا ہے۔

اگلا شعر
اب میرؔ نہیں ہیں تو گلی سونی پڑی ہے
عطار کے لونڈے بھی دکھائی نہیں دیتے

(آثم پیرزادہ)
ارے بھئی اس کام چوری کی سیدھی سی وجہ یہ موا لاک ڈاون ہی ہے ۔میر اور عطار کے لونڈے جب ہی تو گھر میں محصور ہوئے ہیں ورنہ توبہ کیجے حضور یہ لوگ کہاں سکون سے بیٹھنے والے تھے۔ پل میں یہاں اور پل میں وہاں سارا محلہ سر پر اٹھائے رکھتے تھے۔

اگلا شعر

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
 

شمشاد خان

محفلین
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

شاعر بڑا بہانے خور ہے۔ اپنی جیب سے ایک پیسہ خرچ نہیں کرنا چاہتا۔ اپنے ساتھی کو کہہ رہا ہے کہ اپنی ٹارچ مجھے دے دو، نجانے گھر پہنچتے پہنچتے کون سی گلی ایسی آئے جہاں روشنی نہ ہو اور میں اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا پھروں۔

تو سالوں بعد بھی مجھ کو منانے آئے تو
میں اپنی ایک ہی ضد پر تجھے اڑا ملوں گا
(عابد عمر)
 
تو سالوں بعد بھی مجھ کو منانے آئے تو
میں اپنی ایک ہی ضد پر تجھے اڑا ملوں گا
(عابد عمر)
مستقل مزاجی اور ضد اگرچہ ایک ہی خط پر موجود ہیں مگر زاویہ ان کا 180 ڈگری کا ہے. شاعر نے محبوب سے سالوں روٹھنے میں مستقل مزاجی دکھائی مگر باز نہ آنے کی ضد پکڑے رکھی، مزید یہ کہ اس پر نادم بھی نہیں! کیونکہ اس دنیا میں ہر کوئی Right ہے سوائے مخاطب کے! :)

تمام عمر گزاری ہے ہجرتیں کرتے
ہمارے نام کی تختی کسی مکاں پہ نہیں
 

شمشاد خان

محفلین
شاعر نے سارے عمر کرائے کے مکانوں میں بسر کی ہے۔ اور ہر دفعہ مکان کے باہر بڑے شوق سے اپنے نام کی تختی بھی لگاتا رہا، لیکن ہر دفعہ کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مالک مکان اسے دھکے دے کر گھر بدر کرتا رہا۔ اور اس کے نام کی تختی بھی اتار دیتا رہا۔

رات کہتے ہیں تیری زلف گرہ گیر کو لوگ
تُو اگر سر منڈھا دے تو اجالا ہو جائے
 
رات کہتے ہیں تیری زلف گرہ گیر کو لوگ
تُو اگر سر منڈھا دے تو اجالا ہو جائے
:ROFLMAO:
یہ شعر اپنی مدد آپ کے تحت دھن چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ محبوب کی بھی عالی شان دھنائی ہوچکی ہے. :rolleyes:

اگلا شعر:
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا
 

فہد اشرف

محفلین
تمام عمر گزاری ہے ہجرتیں کرتے
ہمارے نام کی تختی کسی مکاں پہ نہیں
حل لغات: تختی، مصغر ہے لفظ تخت کا یعنی چھوٹا تخت۔
مطلب: چونکہ شاعر مہاجر ہے اور ہجرت کرنے سے قد گھس کر چھوٹا ہو جاتا ہے اس لیے لیٹنے کے لیے تخت کے بجائے تختی ہی کافی ہوتی ہے۔ اب چونکہ شاعر اس شدید قسم کا مہاجر ہے کہ اس نے تمام عمر ہجرت کر کے ہے گزاری ہے اس لیے اس کا قد ہی عنقا ہو گیا ہے اور اب اسے لیٹنے کے لیے تختی کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہوتی بلکہ لیٹنے کی بھی حاجت نہیں ہوتی اس لیے اس کے میزبان اپنے مکان پہ اس کے نام کی تختی ہی نہیں رکھتے۔
اس شعر میں شاعر نے صنعت مبالغہ کا استعمال کیا ہے۔
 
Top