دہلی اور اس کے اطراف کا ایک مختصر علمی سفر

بافقیہ

محفلین
دہلی اور اس کے اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔۱-
تحریر: عبد المتین منیری​

بروز بدھ مورخہ ۴ دسمبر کی شام پانچ بجے جب اسپائس جٹ کا طیارہ منگلور ہوائی اڈے پر ایک جھٹکے کے ساتھ اترا تو ایسا لگا کہ کوئی خواب ادھورا ہی درمیان سے ٹوٹ گیا ہو، اور بات کچھ ایسی ہی تھی، علم وکتاب گروپ کے نادیدہ احباب سے ملاقات کی جو خواہش عرصے سے دل میں تڑپ رہی تھی، اسے پورا کرنے کے لئے ۳۰ /نومبر کی صبح نوبجے ہم دہلی کے ہوائی اڈے پر دبی سےجاکر اترے تھے، ارادہ تھا کہ علم وکتاب کی بزم سجانے والے باذوق رفیق مولانا مفتی محمد ساجد کھجناروی صاحب سے بھی بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے، اوران کی رفاقت اور رہنمائی میں دہلی اور اس کے اطراف کے ان علاقوں کی زیارت کی جائے، جہاں پر ان عظیم شخصیات علماء اور مصلحین نے جنم لیاتھا ،جنہوں نے ایک صدی پیشتر مغربی سامراج کے دور عروج میں ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنمائی کی اور دین اسلام سے اس کی وابستگی کو اٹوٹ بنانے کے لئےکلیدی کردار انجام دیا ، ان کے قائم کردہ ادارے آج بلند وبالا روشن میناروں کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں،جن سے نور علم کی ضوء فشانی ہوتی ہے، اور جن کے فیض یافتہ ، نسل در نسل سے رشد وہدایت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس علاقے میں مقیم جن احباب سے اب تک گروپ کے ذریعہ غائبانہ تعارف حاصل تھا، ان بالمشافہ ملاقات کا کوئی موقعہ نکالا جائے ، اوران تعلقات سے غائبانہ تکلفات کے پردوں کو ہٹا کر حقیقت پر مبنی روابط استوار کئے جائیں، اس سفرکا حوصلہ ہمارے عزیز مولانا عبد المعز منیری سے ہمیں ملا تھا،سفر میں ایسے چاہنے والے عزیز کی رفاقت سونے پر سہاگہ ہوتی ہے، وہ دبی سے ہم سفر تھے او ربھٹکل سے عزیزم مولوی محی الدین مروان منیری دہلی ہوائی اڈے پر آکر اس قافلے میں مل گئے تھے۔
چونکہ یہ ایام شمالی ہند کے مدارس میں ششماہی امتحانات اور تعطیلات کے تھے، لہذا احباب کی ایک بڑی تعداد جو زیادہ تر مدارس میں تدریس سے وا بستہ ہے ، اپنے مستقر سےدور ادھر ادھر بکھر گئی تھی،دہلی کے پرانے شناسا مولانا شاہ اجمل فاروق صاحب انسٹیوٹ آف اوبجکٹیو اسٹڈیز کے متعینہ پروگراموں کی وجہ سے سفر پر اپنے پڑائوسے دور تھے، اور خود ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور کے ایک طے شدہ پروگرام کی وجہ سے بے تاب تھے، انہوں نے اپنی جگہ ایک صالح نوجوان لقمان اظہر کو دہلی میں ہمارے استقبال اور میزبانی کی ذمہ داری سونپ دی تھی، اس رو ز رات گئے مفتی ساجد صاحب دہلی پہنچ کررفیق سفر بن گئے، ان کے ساتھ مظفرنگر کے مفتی ندیم صاحب بھی ہم رکاب ہوگئے، اس دوران لقمان صاحب نے ہمارے آرام وراحت کا جو خیال رکھا، اور اس کے لئے جو زحمت اٹھائی، شاید اس سے بہتراہتمام کرنا مفتی صاحب کے بس میں بھی نہیں تھا، لقمان صاحب نے ہماری رہائش دہلی میں مسلم عظمت کی نشانی جامع مسجد کے محراب کی پشت پر واقع ایوان شاہی ہوٹل میں رکھی تھی۔
ظہر سے کچھ پہلے جب ہم ہوٹل پہنچے تو مولانا مفتی عبد الخالق امروہوی ، اور مولانا عبد الملک قاسمی صاحب توشہ دان کے ساتھ تشریف لائے ،انہوں نے ہماری تواضع دہلی کے بہترین پایہ اور نہاری سے کی ، مفتی عبد الخالق صاحب ۲۰۱۴ میں جب گروپ شروع ہوا تھا اس وقت سے رفاقت نباہ رہے ہیں ، آپ ترکی سفارت خانے کے تحت قائم ادارہ گلچیں میں ترکی زبان و ادب کے استاد اور دہلی کے علاقہ خورجی کی جامع مسجد میں امام و خطیب کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، بڑے ہی خوش مزاج اور بااخلاق ، ہماری بڑی خواہش تھی کہ ان احباب سے ڈھیر ساری باتیں کریں، ہمارے مابین دلچسپی کے موضوعات بھی کئی ایک تھے، چونکہ رت جگا ہوا تھا، اور سفر کی تھکاوٹ بھی بہت تھی، ہم مفتی صاحب کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے جس کا افسوس اورتشنگی کا احساس بھی رہا۔
دہلی میں ہمارے مشفق اور دانشور ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی خواہش تھی کہ دوپہر تین بجے اوکھلا کی اسلامی اکیڈمی میں ایک علمی نشست رکھی جائے ، جس میں ہماری قدیم علمی مراجع کے موضوع پر ایک گفتگو ہو، چونکہ وقت پر وہاں پہنچنے کا امکان نہیں تھا، اور لکچر اور خطبات جیسی چیزوں سے جی چرانے کی عادت رہی ہے لہذا ان سے پیشگی ہی معذرت طلب کرلی۔
بعد نماز مغرب ہم محترم ڈاکٹر مفتی مشتاق احمد تجاروی ، پروفیسر اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ دہلی سے ملنے روانہ ہوئے،یہاں ہم نے خصوصیت کے ساتھ محترم مفتی عبید اللہ قاسمی صاحب سابق استاد دارالعلوم دیوبند و حال پروفیسر لسانیات دہلی یونیورسٹی سےملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی، امید تھی جناب وارث مظہری صاحب سے بھی یہاں ملاقات ہوگی، لیکن ان کی اچانک علالت کی وجہ سے محرومی رہی ، جس کا بہت افسوس ہوا۔
مفتی عبید اللہ صاحب کے علم وفضل کا تو گروپ میں ظہور ہوتا رہا ہے، ان کی نرم وگرم، کھٹی اور میٹھی باتوں سے ممبران محظوظ ہوتے رہے ہیں، لیکن مفتی مشتاق صاحب تو ہمارے لئے ایک انکشاف اس معنی میں رہے کہ گروپ میں رہنے اور وقتا فوقتا اپنے افادات سے نوازنے کے باوجود ہم انہیں پہنچان نہ سکے ، مفتی ساجد صاحب نے ہمیں بتایا کہ کئی ایک بار ڈاکٹر صاحب کے افادات پر ہمارا تبصرہ کچھ سخت تھا، ہمیں اس سلسلے میں کچھ یاد نہیں ، اگر بات ایسی ہوئی تھی تو یہ ہماری غلطی تھی، ہم نے ایک سنجیدہ صاحب علم کی بات کو سمجھنے میں غلطی کی، آپ سے ملاقات پر محسوس ہوا کہ بڑے ہی نستعلیق، سنجیدہ، اور دھیمے انداز میں بولنے والی شخصیت ہیں، علمی موضوعات پر ان کی دسیوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ہمارے لئے یہ خوش قسمتی کی بات تھی کہ ڈاکٹر صاحب کئی ایک ایسے موضوعات سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں جو کبھی ہماری دلچسپی کے موضوع رہا کرتے تھے، کبھی کا لفظ اس لئے ہم نے لکھا کہ کسی موضوع میں ہمارا اختصاص نہیں ہے، مختلف ڈالیوںاور پودوں سے پھول چننے کی ہماری عادت رہی ہے، لہذا دلچسپیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔
قریبی دور میں علمائے دیوبند خصوصا ہمارے مخدوم حضرت مولانا سید علی میاں ندوی علیہ الرحمۃ نے تصوف میں تزکیہ کے پہلو کو اپنی تصانیف میں بڑی قوت سے اجاگر کیا تھا، آپ کی کتاب ربانیۃ لا رہبانیہ اس موضوع پر ایک سنگ میل سمجھی جاتی ہے، آپ کے رفیق کار حضرت مولانا محمد منظور نعمانی علیہ الرحمۃ نے بھی اپنے مجلہ الفرقان لکھنو اور تصنیفات کے ذریعہ اس تحریک کو مزید تقویت دی، عرب علماء خاص طور پر شامی علماء خصوصا ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عرب دنیا میں اس فکر کو عام کیا ، ان حضرات نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگر د رشید ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات میں اس تصوف کی تائید کو اجاگر کیا ،اور آج کے دور میں پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتھم بر صغیر میں اسی تحریک کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
لیکن جہاں تک تصوف تعلق ہے اس میں تزکیہ کے پہلو کو چھوڑ کر اس کا علمی اور فلسفیانہ پہلو بھی ہے،جس کی اسلامی لٹریچر اور ادب میں بڑی اہمیت ہے، اور اب برصغیر میں اس کے ماہرین شاذونادر ہی نظر آتے ہیں، اور جو نظر آتے ہیں ان میں زیادہ تر تعداد بدعات کی طرف مائل ہےیا پھر اس کے ناقد محض ہیں۔
۱۹۷۶ء میں مصر سے جاری ایک مجلہ میں ہمیں ایک سلسلہ وار مضمون پڑھنے کو ملا، جس میں ایک داعی کو کون کون سی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے ، اس کی رہنمائی کی گئی تھی، اس میں یہ بات بھی بتائی گئی تھی کہ دل کو نرم کرنے اور تزکیہ نفس کے لئے کتب تصوف کا پڑھنا از حد لازمی ہے، اس دوران شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم محمود کی رحلت کا واقعہ پیش آیا، شایداحباب کو معلوم نہ ہو، مشائخ ازہر کا عموما تصوف کے سلسلوں سے تعلق رہتا ہے، اور یہ عموما سجاد ہ نشین ہوا کرتے ہیں، موجودہ شیخ الازہرڈاکٹر احمد محمد الطیب کا شمار چوٹی کے علمائے تصوف میں ہوتا ہے، یہ خود سلسلہ خلوتیۃ کے سجاد ہ نشین ہیں، انہیں قریب سے جاننے والے معاملاتی امور وغیرہ میں ان کے تقوے اور پاک بازی کا بہت تذکرہ کرتے ہیں، ڈاکٹر عبد الحلیم محمود نے علم تصوف کے قدیم ورثہ کو جدید تحقیق کے مطابق از سرنو منظر عام پر لانے کے لئے اہم کردار ادا کیا ، اور آپ کی دلچسپیوں سے، اللمع لابی نصر السراج الطوسی، الرسالۃ القشریہ لابی القاسم القشیری، التعرف لمذہب اہل التصوف لابی بکر محمد بن اسحاق الکلابازی، اور الانوار القدسیۃ للشیخ عبد الوہاب الشعرانی جیسی امہات الکتب منظر عام پر آئیں، یہ کتابیں ہمیں ۱۹۷۹ ء میں دبی آنے کے بعد پڑھنے کو ملیں، لیکن ڈاکٹر عبد الحلیم محمود کی مجاہدانہ زندگی کچھ ایسی تھی، کہ ۱۹۷۸ء میں آپ کی رحلت پر ایک طفلانہ مضمون بھی لکھ دیا، جو ہمارے تحریر کردہ بالکل ابتدائی مضامیں میں سے ایک ہے۔ ۱۹۷۹ء کے آغاز میں حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ سے کئے گئے ایک طفلانہ انٹرویو نے خواجہ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات فواد الفواد، خواجہ معین الدین اجمیری کے ملفوظات، اور شیخ یحیی منیری کے مکتوبات صدی وغیرہ پڑھنے کا شوق دلایا۔جن کے بعد شیخ عبد الوہاب شعرانی کی الطبقات الکبری، علی الخواص کی تحفۃ الاکیاس فی حسن الظن بالناس ،اوراردو میں ڈاکٹر یوسف سلیم چشتی کی تاریخ تصوف کے مطالعہ کا موقعہ ملا۔جس سےیہ بات سمجھ میں آئی کہ اسلامی لٹریچر میں تصوف کی تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ بحیثیت علم و فلسفہ بھی بڑی اہمیت ہے۔
تصوف کے نقد وقدح پر وہابی نقطہ نظر سے لکھی گئی کتابوں نے کبھی اپنی جانب متوجہ نہیں کیا، البتہ اس دوران تصوف کے رد میں کراچی کے مسعود احمد کے پمفلٹ نظر سے گذرے جن میں ملفوظات کی اصل کتابوں سے اقتباسات کے عکس دینے کا اہتمام تھا، البتہ اس دوران ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی کے مجلہ علوم القرآن میں صوفیہ اور تبلیغ دین پر دو مضامین اور تصوف ایک تحقیقی جائزہ ، اور ڈاکٹر عبید اللہ فراہی کی تصوف ، ایک تجزیہ اور ڈاکٹر محمد احمد لوح کی تقدیس الاشخاص فی الفکر الصوفی نے ضرور متوجہ کیا۔
ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی صاحب سے اس مختصر ملاقات کے بعد محسوس ہوا کہ ہم علم تصوف کے ایک بحر بے کراں کے سامنے کھڑے ہیں، بڑا نپاتلا انداز، غیر جذباتی معروضی اسلوب، اور حقیقت پسندانہ موقف، کہیںمحبت اور جذبات کو مجروح کرنے والی بات نہیں، تصوف کا پہلا درس اپنے ذات کی نفی سے شروع ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں اس کی عملی تصویرنظر آئی۔نماز مغرب کے وقت آپ کے یہاں پہنچے تھے، بعد نماز عشاء علمی وروحانی تشنگی لئے واپسی ہوئی ، رہی پیٹ کی بھوک تو ہمارے میزبان لقمان صاحب نےپرانی دہلی کے ایک ایک مشہور ہوٹل کی خوش ذائقہ چنگیز ی کی ضیافت سے پوری کی۔ جاری۔۔۔
 

بافقیہ

محفلین
دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۲-
تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

یکم دسمبر کو ہم دہلی پہنچےتھے تو ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور میں ہزار میل دور اپنے ایک پیشگی مقررہ پروگرام میں مصروف تھے، آخروہاں انہیں کہاں چین آتا ؟۔روح دہلی میں اٹکی ہوئی تھی، سخت سردی میں رات دو بجے دہلی پہنچے، اور صبح تڑکے اپنے رفیق سفر مفتی ندیم احمد قاسمی صاحب کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے، کڑاکے کی سردی میں سفر کی تکان کو دور کرنے کا بھی خیال نہیں رکھا، اور آٹھ بجے جب کہ ابھی ہوٹل کھلے نہیں تھے، ناشتہ کرواکر گاڑی پر سفر کی اولین منزل کاندھلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں پانی پت اور کیرانہ کے قصبوں سے گزرے۔ خیال تھا کہ صبح دس گیارہ بجے تک پہنچیں گے۔ لیکن وہ انسان ہی کیاجو اپنے تمام ارادوں میں کامیاب ہو جائے، خالق اور مخلوق کے فرق کا احساس ایسے ہی موقعوں پر ہوا کرتا ہے۔کاندھلہ پہنچتے پہنچتے ظہر کا وقت ہوگیا۔
کاندھلہ یوں تو ایک تاریخی بستی ہے، مسلمان ہند کے علم و جہاد کی داستانیں اس سے وابستہ رہی ہیں ، مغلوں کے آخری دور اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یہ قصبہ مسلمانوں کا دھڑکتا ہوا دل بن گیاتھا، ۱۸۵۷ ء کے انقلاب میں اس قصبہ نے خون سے اپنی تاریخ لکھی، اس تاریخی قصبے کو دیکھنے، یہاں کی مٹی کو سرمہ بنانے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم یہاں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مقصد اسلاف کی نشانی ، اور برصغیر کے عظیم مورخ و محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتھم سے شرف ملاقات حاصل کرنا بھی تھا۔
مولانا ایک عظیم کتب خانہ کے مالک ہیں ، اور آپ کی بہت ساری علمی اور تحقیقی کتابیں منظر عام پر آکر اہل علم میں سند قبولیت حاصل کرچکی ہیں، لیکن اب بھی آپ کے سینے میں عظمت اسلاف کی ایسی داستانیں محفوظ ہیں، جو صفحہ قرطاس میں قید نہیں ہوئی ہیں۔
اس قصبے میں مسلمان چھٹی صدی ہجری سے آباد ہیں ، مولانا کے آباء و اجداد پہلے پہل ۷۵۰ھ میں یہاں آئے تھے، یہاں پر علماء و اکابر مغلوں سے پہلے سے پائے جاتے رہےہیں ، اپنے سنہرے دور میں یہاں پر بڑے بڑے کتب خانے آباد تھے، لیکن مغلوں کے آخری دور میں مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں نے اس علاقے کو تاراج کیا اور دو مرتبہ یہاں کے قیمتی کتب خانوں کو جلا دیا۔اس تاراجی کے بعد مولانا مفتی الہی بخش کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر از سر نو علم کی سیج سجائی ، اور کتب خانہ کی بنا ڈالی، آپ کے پوتے مولانا نور الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا نام پایا، آپ بہت زبردست عالم دین تھے، دو مرتبہ شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بخاری کا درس مکمل کیا تھا، مفتی صدر الدین آزردہ کے بھی آپ شاگرد رشید تھے،آپ علامۃ الدھر تھے، مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ جیسے متکلم اسلام نے عیسائیوں کے خلاف جب اپنی عظیم الشان کتاب ازالۃ الاوہام لکھی تو آپ کو اپنی کتاب نظر ثانی کے لئے یہ کہ کر عنایت کی کہ آپ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی نظر اس کتاب کی کمزوریوں تک جاسکے ۔یہاں سے اس کتب خانے نے بڑی ترقی کے مراحل طے کئے، اس زمانے میں اس میں نو ہزار قلمی نسخے محفوظ تھے، ہندوستان میں چھپنے والی سبھی کتابیں یہاں آتی تھیں،یہ کتب خانہ تقسیم ہند کے دنوںمیں ضائع ہوگیا۔
مولانا نور الحسن راشد صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو اس میں ڈھائی سو کتابیں باقی رہ گئی تھیں، اس وقت کسی نے آپ کو قلمی کتابوں اور کتب خانے کی قدر وقیمت بتائی نہ ہی مخطوطات کی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد کی، بس خدا کی ایک دین تھی جو آپ کو اس قومی ورثے کی اہمیت کا احساس ہوا ، اور راہیں کھلتی چلی گئیں، آپ نے پیٹ کاٹ کر کتابیں جمع کرنی شروع کیں، کچھ دوست احباب بھی کتابیں ہدیہ کرنے لگے، اس طرح برصغیر کا ایک منفرد اور انمول کتب خانہ کھڑا ہوگیا، جہاں سترہ سو ۱۷۰۰ بڑے ہی قیمتی علمی مخطوطات زمانے کی دست برد سے محفوظ ہیں ، ان میں بعض مخطوطات ساتویں صدی ہجری کے ہیں، یہاں ایک سو پچھٹر ۱۷۵ مصنفین کی اپنے قلم سے لکھی ہوئی کتابیں پائی جاتی ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی کے قلم سے لکھا گیا مقدمۃ فتح الباری، اور ابن عبد البر کی کتاب استغناء کا ۶۸۶ ھ میں نقل کیا گیا نسخہ موجود ہے۔یہاں پر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندا ن کے علماء کی جملہ تصانیف، حاجی امداد اللہ، تحریک سید احمد شہید کے جملہ علماء، اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ کی جملہ تصنیفات محفوظ ہیں۔
مولانا راشد صاحب سے یہ ہماری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی، مولانا بڑی اپنائیت سے ملے، ایسا لگا جیسے مولانا مدتوں سے اس ملاقات کے انتظار میں تھے، اور عرصہ سے وہ اس ناچیز سے واقف ہیں ، یہ آپ کے اخلاق کی بلندی تھی، ورنہ ہم کہاں اس قابل ، مولانا کی اس اپنائیت پر ۱۹۸۴ ء میںایک عظیم اللہ والے بزرگ حضرت مولانا محمد احمد پرتاب کی الہ آباد میں ملاقات یا د آئی ، ہر آنے والے مہمان سے اسی اہتمام اور محبت سے مل رہے تھے، جیسے انہی کے انتظار میں بیٹھے ہوں، جسم کمزور ہوگیا تھا، کھڑے ہونے کی کوشش کرتے تو گر پڑتے، لیکن جوش میں ہر نووارد مہمان کی آمد پر یکدم کھڑے ہوتے، اور بڑی محبت سے اپنے ہاتھ سے تواضع کرتے، کتنے عظیم لوگ تھے یہ بھی، جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ راشد صاحب نے بھی بڑوں کی آنکھیں دیکھی ہیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ سے ابتدا سے آخر تک درسیات حرفا حرفا پڑھیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ خاندان کے بزرگ تھے ان سے قربت رہی، اور آپ سے امام صغانی کی کتاب مشارق الانوار کا مکمل درس لیا، یہ شرف پانے میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ کے نواسے مولانا محمد شاہد مظاہری صاحب صرف آپ کے شریک رہے۔
کاندھلہ میں بھٹکل کے نوجوان عالم مولوی محمد عاکف سے ملاقات ہوئی ،جو دو ماہ سے آپ کے زیر تربیت تھے، اور مولانا کے خادم خاص مولوی ارشد قاسم کاندھلوی تو بچھے ہوئے تھے، اس نوجوان کو دیکھ کو دل بہت خوش ہوا، اس وقت مولانا نور الحسن راشد صاحب مسلمانان ہند کے ایک زرین عہد کی تاریخ کو اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہیں، کتاب بیزاری کے اس دور میں دور تک ایسے افراد نظر نہیں آتے جو اس بار امانت کو آئندہ نسل تک منتقل کردیں، مولانا نےاپنی بساط سے زیادہ قربانی دے کر علمی و تاریخی ورثے کو جتنا محفوظ کرسکتے تھے کیا، مولوی ارشد نے جب گھر کی اوپری منزل پر اس عظیم کتب خانے کو دکھایا تو دل پر ایک آری سی چل گئی، ان دفینوں میں کونسے خزانے محفوظ ہیں ؟ انہیں مولانا راشد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، ایک بوسیدہ منزل پر جہاں درست روشنی کا انتظام بھی نہیں ہوسکا ہے، کتابیں اس حالت میں ہیں کہ صاحب کتب خانہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کونسی کتاب کہاں رکھی ہے؟اور جو کتاب ہے اس کی قدر وقیمت کیا ہے؟مولانا بھی عمر کے جس مرحلے میں ہیں اس میں ایک ایک کتاب کے لئے سیڑھیاں چڑھنا ، جان جوکھوں کا کام ہے، دل میں ایک ہوک اٹھی، کاش سونے سے زیادہ قیمتی ان علمی جواہر پاروں کی حفاظت کا کوئی انتظام ہوجائے، اگر ایسا کوئی نظم نہ ہوسکا تو شاید آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کرسکیں۔کام کی جو وسعت ہے، بلند حوصلگی کے باوجود مولوی ارشد جیسے نوجوانوں کے بس کا نہیں ہے، اس کے لئے جہاں جگہ کی وسعت مطلوب ہے، اس کے پوشیدہ خزانوں تک رسائی کے لئے مخلص باذوق نوجوانوں کی ایک کھیپ کی ضرورت ہے۔
جاری۔۔۔
 

یاقوت

محفلین
دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۲-
تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

یکم دسمبر کو ہم دہلی پہنچےتھے تو ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور میں ہزار میل دور اپنے ایک پیشگی مقررہ پروگرام میں مصروف تھے، آخروہاں انہیں کہاں چین آتا ؟۔روح دہلی میں اٹکی ہوئی تھی، سخت سردی میں رات دو بجے دہلی پہنچے، اور صبح تڑکے اپنے رفیق سفر مفتی ندیم احمد قاسمی صاحب کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے، کڑاکے کی سردی میں سفر کی تکان کو دور کرنے کا بھی خیال نہیں رکھا، اور آٹھ بجے جب کہ ابھی ہوٹل کھلے نہیں تھے، ناشتہ کرواکر گاڑی پر سفر کی اولین منزل کاندھلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں پانی پت اور کیرانہ کے قصبوں سے گزرے۔ خیال تھا کہ صبح دس گیارہ بجے تک پہنچیں گے۔ لیکن وہ انسان ہی کیاجو اپنے تمام ارادوں میں کامیاب ہو جائے، خالق اور مخلوق کے فرق کا احساس ایسے ہی موقعوں پر ہوا کرتا ہے۔کاندھلہ پہنچتے پہنچتے ظہر کا وقت ہوگیا۔
کاندھلہ یوں تو ایک تاریخی بستی ہے، مسلمان ہند کے علم و جہاد کی داستانیں اس سے وابستہ رہی ہیں ، مغلوں کے آخری دور اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یہ قصبہ مسلمانوں کا دھڑکتا ہوا دل بن گیاتھا، ۱۸۵۷ ء کے انقلاب میں اس قصبہ نے خون سے اپنی تاریخ لکھی، اس تاریخی قصبے کو دیکھنے، یہاں کی مٹی کو سرمہ بنانے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم یہاں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مقصد اسلاف کی نشانی ، اور برصغیر کے عظیم مورخ و محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتھم سے شرف ملاقات حاصل کرنا بھی تھا۔
مولانا ایک عظیم کتب خانہ کے مالک ہیں ، اور آپ کی بہت ساری علمی اور تحقیقی کتابیں منظر عام پر آکر اہل علم میں سند قبولیت حاصل کرچکی ہیں، لیکن اب بھی آپ کے سینے میں عظمت اسلاف کی ایسی داستانیں محفوظ ہیں، جو صفحہ قرطاس میں قید نہیں ہوئی ہیں۔
اس قصبے میں مسلمان چھٹی صدی ہجری سے آباد ہیں ، مولانا کے آباء و اجداد پہلے پہل ۷۵۰ھ میں یہاں آئے تھے، یہاں پر علماء و اکابر مغلوں سے پہلے سے پائے جاتے رہےہیں ، اپنے سنہرے دور میں یہاں پر بڑے بڑے کتب خانے آباد تھے، لیکن مغلوں کے آخری دور میں مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں نے اس علاقے کو تاراج کیا اور دو مرتبہ یہاں کے قیمتی کتب خانوں کو جلا دیا۔اس تاراجی کے بعد مولانا مفتی الہی بخش کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر از سر نو علم کی سیج سجائی ، اور کتب خانہ کی بنا ڈالی، آپ کے پوتے مولانا نور الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا نام پایا، آپ بہت زبردست عالم دین تھے، دو مرتبہ شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بخاری کا درس مکمل کیا تھا، مفتی صدر الدین آزردہ کے بھی آپ شاگرد رشید تھے،آپ علامۃ الدھر تھے، مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ جیسے متکلم اسلام نے عیسائیوں کے خلاف جب اپنی عظیم الشان کتاب ازالۃ الاوہام لکھی تو آپ کو اپنی کتاب نظر ثانی کے لئے یہ کہ کر عنایت کی کہ آپ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی نظر اس کتاب کی کمزوریوں تک جاسکے ۔یہاں سے اس کتب خانے نے بڑی ترقی کے مراحل طے کئے، اس زمانے میں اس میں نو ہزار قلمی نسخے محفوظ تھے، ہندوستان میں چھپنے والی سبھی کتابیں یہاں آتی تھیں،یہ کتب خانہ تقسیم ہند کے دنوںمیں ضائع ہوگیا۔
مولانا نور الحسن راشد صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو اس میں ڈھائی سو کتابیں باقی رہ گئی تھیں، اس وقت کسی نے آپ کو قلمی کتابوں اور کتب خانے کی قدر وقیمت بتائی نہ ہی مخطوطات کی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد کی، بس خدا کی ایک دین تھی جو آپ کو اس قومی ورثے کی اہمیت کا احساس ہوا ، اور راہیں کھلتی چلی گئیں، آپ نے پیٹ کاٹ کر کتابیں جمع کرنی شروع کیں، کچھ دوست احباب بھی کتابیں ہدیہ کرنے لگے، اس طرح برصغیر کا ایک منفرد اور انمول کتب خانہ کھڑا ہوگیا، جہاں سترہ سو ۱۷۰۰ بڑے ہی قیمتی علمی مخطوطات زمانے کی دست برد سے محفوظ ہیں ، ان میں بعض مخطوطات ساتویں صدی ہجری کے ہیں، یہاں ایک سو پچھٹر ۱۷۵ مصنفین کی اپنے قلم سے لکھی ہوئی کتابیں پائی جاتی ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی کے قلم سے لکھا گیا مقدمۃ فتح الباری، اور ابن عبد البر کی کتاب استغناء کا ۶۸۶ ھ میں نقل کیا گیا نسخہ موجود ہے۔یہاں پر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندا ن کے علماء کی جملہ تصانیف، حاجی امداد اللہ، تحریک سید احمد شہید کے جملہ علماء، اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ کی جملہ تصنیفات محفوظ ہیں۔
مولانا راشد صاحب سے یہ ہماری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی، مولانا بڑی اپنائیت سے ملے، ایسا لگا جیسے مولانا مدتوں سے اس ملاقات کے انتظار میں تھے، اور عرصہ سے وہ اس ناچیز سے واقف ہیں ، یہ آپ کے اخلاق کی بلندی تھی، ورنہ ہم کہاں اس قابل ، مولانا کی اس اپنائیت پر ۱۹۸۴ ء میںایک عظیم اللہ والے بزرگ حضرت مولانا محمد احمد پرتاب کی الہ آباد میں ملاقات یا د آئی ، ہر آنے والے مہمان سے اسی اہتمام اور محبت سے مل رہے تھے، جیسے انہی کے انتظار میں بیٹھے ہوں، جسم کمزور ہوگیا تھا، کھڑے ہونے کی کوشش کرتے تو گر پڑتے، لیکن جوش میں ہر نووارد مہمان کی آمد پر یکدم کھڑے ہوتے، اور بڑی محبت سے اپنے ہاتھ سے تواضع کرتے، کتنے عظیم لوگ تھے یہ بھی، جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ راشد صاحب نے بھی بڑوں کی آنکھیں دیکھی ہیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ سے ابتدا سے آخر تک درسیات حرفا حرفا پڑھیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ خاندان کے بزرگ تھے ان سے قربت رہی، اور آپ سے امام صغانی کی کتاب مشارق الانوار کا مکمل درس لیا، یہ شرف پانے میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ کے نواسے مولانا محمد شاہد مظاہری صاحب صرف آپ کے شریک رہے۔
کاندھلہ میں بھٹکل کے نوجوان عالم مولوی محمد عاکف سے ملاقات ہوئی ،جو دو ماہ سے آپ کے زیر تربیت تھے، اور مولانا کے خادم خاص مولوی ارشد قاسم کاندھلوی تو بچھے ہوئے تھے، اس نوجوان کو دیکھ کو دل بہت خوش ہوا، اس وقت مولانا نور الحسن راشد صاحب مسلمانان ہند کے ایک زرین عہد کی تاریخ کو اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہیں، کتاب بیزاری کے اس دور میں دور تک ایسے افراد نظر نہیں آتے جو اس بار امانت کو آئندہ نسل تک منتقل کردیں، مولانا نےاپنی بساط سے زیادہ قربانی دے کر علمی و تاریخی ورثے کو جتنا محفوظ کرسکتے تھے کیا، مولوی ارشد نے جب گھر کی اوپری منزل پر اس عظیم کتب خانے کو دکھایا تو دل پر ایک آری سی چل گئی، ان دفینوں میں کونسے خزانے محفوظ ہیں ؟ انہیں مولانا راشد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، ایک بوسیدہ منزل پر جہاں درست روشنی کا انتظام بھی نہیں ہوسکا ہے، کتابیں اس حالت میں ہیں کہ صاحب کتب خانہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کونسی کتاب کہاں رکھی ہے؟اور جو کتاب ہے اس کی قدر وقیمت کیا ہے؟مولانا بھی عمر کے جس مرحلے میں ہیں اس میں ایک ایک کتاب کے لئے سیڑھیاں چڑھنا ، جان جوکھوں کا کام ہے، دل میں ایک ہوک اٹھی، کاش سونے سے زیادہ قیمتی ان علمی جواہر پاروں کی حفاظت کا کوئی انتظام ہوجائے، اگر ایسا کوئی نظم نہ ہوسکا تو شاید آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کرسکیں۔کام کی جو وسعت ہے، بلند حوصلگی کے باوجود مولوی ارشد جیسے نوجوانوں کے بس کا نہیں ہے، اس کے لئے جہاں جگہ کی وسعت مطلوب ہے، اس کے پوشیدہ خزانوں تک رسائی کے لئے مخلص باذوق نوجوانوں کی ایک کھیپ کی ضرورت ہے۔
جاری۔۔۔

اپنی میراث تو ساری یونہی لٹی ،کچھ نے دجلہ کے گیسو کو سنوارا،کچھ کے شعلے آسمان نے خود سے باتیں کرتے پائے ،کچھ اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوئی ،کچھ نسل نو کے ہاں لائق التفات ہی نہ رہی۔
اب کہاں سے لائیں وہ لوگ کہ نئی کتاب کو دیکھ کر جن کا انگ انگ مسرت سے ناچتا ہو،جسم میں بجلی کی ایسی رو دوڑے کہ بال کانٹے ہو جائیں ،دل کی دھڑکن بے اختیار ہو جائے ۔
اچھا ہو ا پڑھنے والے پہلے چلے گئے وہ کتاب کو ایسی حالت میں نہ دیکھ سکتے چلا چلا کر بہرے سماج میں اپنا گلا بٹھاتے کسی کا کیا جاتا۔اب بس کتاب باقی ہے جس کی سننے والا کوئی نہیں وہ تو آہ و زاری سے بھی مستثنیٰ ہے۔کوئی دن کی بات ہے یہ ماضی کی سسکیاں جو الماریوں میں دبی پڑی ہیں تحلیل ہو جائیں گی اور ظالم وقت کی دیمک انہیں کھا جائے گی حافظوں سے تو وہ بہت پہلے ہی اتر چکی ہیں پھر نظروں سے بھی اتر جائیں گی۔
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۲-
تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

یکم دسمبر کو ہم دہلی پہنچےتھے تو ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور میں ہزار میل دور اپنے ایک پیشگی مقررہ پروگرام میں مصروف تھے، آخروہاں انہیں کہاں چین آتا ؟۔روح دہلی میں اٹکی ہوئی تھی، سخت سردی میں رات دو بجے دہلی پہنچے، اور صبح تڑکے اپنے رفیق سفر مفتی ندیم احمد قاسمی صاحب کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے، کڑاکے کی سردی میں سفر کی تکان کو دور کرنے کا بھی خیال نہیں رکھا، اور آٹھ بجے جب کہ ابھی ہوٹل کھلے نہیں تھے، ناشتہ کرواکر گاڑی پر سفر کی اولین منزل کاندھلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں پانی پت اور کیرانہ کے قصبوں سے گزرے۔ خیال تھا کہ صبح دس گیارہ بجے تک پہنچیں گے۔ لیکن وہ انسان ہی کیاجو اپنے تمام ارادوں میں کامیاب ہو جائے، خالق اور مخلوق کے فرق کا احساس ایسے ہی موقعوں پر ہوا کرتا ہے۔کاندھلہ پہنچتے پہنچتے ظہر کا وقت ہوگیا۔
کاندھلہ یوں تو ایک تاریخی بستی ہے، مسلمان ہند کے علم و جہاد کی داستانیں اس سے وابستہ رہی ہیں ، مغلوں کے آخری دور اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یہ قصبہ مسلمانوں کا دھڑکتا ہوا دل بن گیاتھا، ۱۸۵۷ ء کے انقلاب میں اس قصبہ نے خون سے اپنی تاریخ لکھی، اس تاریخی قصبے کو دیکھنے، یہاں کی مٹی کو سرمہ بنانے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم یہاں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مقصد اسلاف کی نشانی ، اور برصغیر کے عظیم مورخ و محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتھم سے شرف ملاقات حاصل کرنا بھی تھا۔
مولانا ایک عظیم کتب خانہ کے مالک ہیں ، اور آپ کی بہت ساری علمی اور تحقیقی کتابیں منظر عام پر آکر اہل علم میں سند قبولیت حاصل کرچکی ہیں، لیکن اب بھی آپ کے سینے میں عظمت اسلاف کی ایسی داستانیں محفوظ ہیں، جو صفحہ قرطاس میں قید نہیں ہوئی ہیں۔
اس قصبے میں مسلمان چھٹی صدی ہجری سے آباد ہیں ، مولانا کے آباء و اجداد پہلے پہل ۷۵۰ھ میں یہاں آئے تھے، یہاں پر علماء و اکابر مغلوں سے پہلے سے پائے جاتے رہےہیں ، اپنے سنہرے دور میں یہاں پر بڑے بڑے کتب خانے آباد تھے، لیکن مغلوں کے آخری دور میں مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں نے اس علاقے کو تاراج کیا اور دو مرتبہ یہاں کے قیمتی کتب خانوں کو جلا دیا۔اس تاراجی کے بعد مولانا مفتی الہی بخش کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر از سر نو علم کی سیج سجائی ، اور کتب خانہ کی بنا ڈالی، آپ کے پوتے مولانا نور الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا نام پایا، آپ بہت زبردست عالم دین تھے، دو مرتبہ شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بخاری کا درس مکمل کیا تھا، مفتی صدر الدین آزردہ کے بھی آپ شاگرد رشید تھے،آپ علامۃ الدھر تھے، مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ جیسے متکلم اسلام نے عیسائیوں کے خلاف جب اپنی عظیم الشان کتاب ازالۃ الاوہام لکھی تو آپ کو اپنی کتاب نظر ثانی کے لئے یہ کہ کر عنایت کی کہ آپ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی نظر اس کتاب کی کمزوریوں تک جاسکے ۔یہاں سے اس کتب خانے نے بڑی ترقی کے مراحل طے کئے، اس زمانے میں اس میں نو ہزار قلمی نسخے محفوظ تھے، ہندوستان میں چھپنے والی سبھی کتابیں یہاں آتی تھیں،یہ کتب خانہ تقسیم ہند کے دنوںمیں ضائع ہوگیا۔
مولانا نور الحسن راشد صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو اس میں ڈھائی سو کتابیں باقی رہ گئی تھیں، اس وقت کسی نے آپ کو قلمی کتابوں اور کتب خانے کی قدر وقیمت بتائی نہ ہی مخطوطات کی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد کی، بس خدا کی ایک دین تھی جو آپ کو اس قومی ورثے کی اہمیت کا احساس ہوا ، اور راہیں کھلتی چلی گئیں، آپ نے پیٹ کاٹ کر کتابیں جمع کرنی شروع کیں، کچھ دوست احباب بھی کتابیں ہدیہ کرنے لگے، اس طرح برصغیر کا ایک منفرد اور انمول کتب خانہ کھڑا ہوگیا، جہاں سترہ سو ۱۷۰۰ بڑے ہی قیمتی علمی مخطوطات زمانے کی دست برد سے محفوظ ہیں ، ان میں بعض مخطوطات ساتویں صدی ہجری کے ہیں، یہاں ایک سو پچھٹر ۱۷۵ مصنفین کی اپنے قلم سے لکھی ہوئی کتابیں پائی جاتی ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی کے قلم سے لکھا گیا مقدمۃ فتح الباری، اور ابن عبد البر کی کتاب استغناء کا ۶۸۶ ھ میں نقل کیا گیا نسخہ موجود ہے۔یہاں پر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندا ن کے علماء کی جملہ تصانیف، حاجی امداد اللہ، تحریک سید احمد شہید کے جملہ علماء، اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ کی جملہ تصنیفات محفوظ ہیں۔
مولانا راشد صاحب سے یہ ہماری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی، مولانا بڑی اپنائیت سے ملے، ایسا لگا جیسے مولانا مدتوں سے اس ملاقات کے انتظار میں تھے، اور عرصہ سے وہ اس ناچیز سے واقف ہیں ، یہ آپ کے اخلاق کی بلندی تھی، ورنہ ہم کہاں اس قابل ، مولانا کی اس اپنائیت پر ۱۹۸۴ ء میںایک عظیم اللہ والے بزرگ حضرت مولانا محمد احمد پرتاب کی الہ آباد میں ملاقات یا د آئی ، ہر آنے والے مہمان سے اسی اہتمام اور محبت سے مل رہے تھے، جیسے انہی کے انتظار میں بیٹھے ہوں، جسم کمزور ہوگیا تھا، کھڑے ہونے کی کوشش کرتے تو گر پڑتے، لیکن جوش میں ہر نووارد مہمان کی آمد پر یکدم کھڑے ہوتے، اور بڑی محبت سے اپنے ہاتھ سے تواضع کرتے، کتنے عظیم لوگ تھے یہ بھی، جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ راشد صاحب نے بھی بڑوں کی آنکھیں دیکھی ہیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ سے ابتدا سے آخر تک درسیات حرفا حرفا پڑھیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ خاندان کے بزرگ تھے ان سے قربت رہی، اور آپ سے امام صغانی کی کتاب مشارق الانوار کا مکمل درس لیا، یہ شرف پانے میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ کے نواسے مولانا محمد شاہد مظاہری صاحب صرف آپ کے شریک رہے۔
کاندھلہ میں بھٹکل کے نوجوان عالم مولوی محمد عاکف سے ملاقات ہوئی ،جو دو ماہ سے آپ کے زیر تربیت تھے، اور مولانا کے خادم خاص مولوی ارشد قاسم کاندھلوی تو بچھے ہوئے تھے، اس نوجوان کو دیکھ کو دل بہت خوش ہوا، اس وقت مولانا نور الحسن راشد صاحب مسلمانان ہند کے ایک زرین عہد کی تاریخ کو اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہیں، کتاب بیزاری کے اس دور میں دور تک ایسے افراد نظر نہیں آتے جو اس بار امانت کو آئندہ نسل تک منتقل کردیں، مولانا نےاپنی بساط سے زیادہ قربانی دے کر علمی و تاریخی ورثے کو جتنا محفوظ کرسکتے تھے کیا، مولوی ارشد نے جب گھر کی اوپری منزل پر اس عظیم کتب خانے کو دکھایا تو دل پر ایک آری سی چل گئی، ان دفینوں میں کونسے خزانے محفوظ ہیں ؟ انہیں مولانا راشد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، ایک بوسیدہ منزل پر جہاں درست روشنی کا انتظام بھی نہیں ہوسکا ہے، کتابیں اس حالت میں ہیں کہ صاحب کتب خانہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کونسی کتاب کہاں رکھی ہے؟اور جو کتاب ہے اس کی قدر وقیمت کیا ہے؟مولانا بھی عمر کے جس مرحلے میں ہیں اس میں ایک ایک کتاب کے لئے سیڑھیاں چڑھنا ، جان جوکھوں کا کام ہے، دل میں ایک ہوک اٹھی، کاش سونے سے زیادہ قیمتی ان علمی جواہر پاروں کی حفاظت کا کوئی انتظام ہوجائے، اگر ایسا کوئی نظم نہ ہوسکا تو شاید آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کرسکیں۔کام کی جو وسعت ہے، بلند حوصلگی کے باوجود مولوی ارشد جیسے نوجوانوں کے بس کا نہیں ہے، اس کے لئے جہاں جگہ کی وسعت مطلوب ہے، اس کے پوشیدہ خزانوں تک رسائی کے لئے مخلص باذوق نوجوانوں کی ایک کھیپ کی ضرورت ہے۔
جاری۔۔۔
مولانا راشد صاحب کاندھلوی کے پاس ناچیز بھی ایک چلہ سے کچھ عرصہ زائد گزارچکا ہے۔ مولانا کے پاس جو نوادرات جمع ہیں زبان سے کما حقہ تعارف بھی ہمارے لئے محال ہے۔۔۔
مولانا کی شخصیت مغربی یوپی کی تاریخ کے علم میں بالخصوص اور ہندوستان کی بالعموم تحقیق و تصنیف کی سب سے ممتاز شخصیت کہی جاسکتی ہے۔ برصغیر کے تمام تاریخی تحقیق سے وابستہ افراد مولانا کے قائل ہیں۔۔۔

مولانا ضعف کے باوجود جس طرح آج بھی کتابوں میں گھرے رہتے ہیں ۔۔۔ اور اپنا لمحہ لمحہ کتابوں سے دل لگائے جی رہے ہیں۔ یہ انھیں کا سر ہے اور اسی کا سودا ۔
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۳۔
تحریر: عبد المتین منیری​

کاندھلہ میں پہلی مرتبہ جائیں اور صرف دو تین گھنٹے ٹہریں، تو شاید یہ بات بدذوقی کی علامت شمار ہوگی، کیونکہ کاندھلہ ایسی سرزمین نہیں کہ اس پر سے ایسے سرسری نگاہیں ڈال کر گزرا جائے، یہاں سے دہلی تک پھیلا ہوا زمین کا چپہ چپہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے شہیدوں کے خون سے سینچا ہوا ہے، مولوی ارشد قاسم بتا رہے تھے کہ حضرت جی منزل کے سامنے واقع مسجد میں گزشتہ کئی صدیوں سے اللہ والے نماز پنچگانہ اداکرتے آرہے ہیں ، یہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شاہ اسماعیل شہید اور تحریک مجاہدین کے جملہ رہنما سجدہ ریز ہوتے رہے ہیں، آپ نے قریب ہی میں وہ برجی بھی دکھائی جس میں ۱۸۵۷ء کے مجاہدین نے پناہ لی تھی، یہاں کی تنگ گلیاں جہاں پہنچ کر سامراجی کارندے بھول بھلیوں کی طرح راہ بھٹک جاتے تھے، اور جہاں سے ایک بیل گاڑی کے علاوہ کسی اور سواری کے گزرنے کی گنجائش نہیں تھی،جہاں اس سڑک سےملےہوئے مکانات کی قطار پر سے نگاہ ہٹانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا،وہیں محلے سے گزرتی قدیم افغانی برقعہ میں سرتاپاڈھکی ہوئی ایک خاتون نے نگاہوں کو۱۹۶۰ء کے بھٹکل میں ہمیں لاکھڑا کردیا، شایدکاندھلہ اور بھٹکل کے ماضی میں ایسی کئی ایک مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔
ہمارے بچپن میں بھٹکل جملہ آٹھ محلوں، تکیہ محلہ، علوہ محلہ ، قاضی محلہ ، مشما محلہ، جامع محلہ، خلیفہ محلہ، سلطان محلہ، غوثیہ محلہ پر مشتمل تھا، ان کے علاوہ ، مومن اسٹریٹ ، صدیق اسٹریٹ، اور شوکت علی اسٹریٹ کی حیثیت ذیلی گلیوں کی تھی ۔بس یہاں کا مرکزی چوک بازار، محمد علی اسٹریٹ پر واقع تھا ، قدیم بھٹکل کے نقشے کو آج سوچتے ہیں توان دونوں قصبوں کے محل وقوع میں یہ فرق نظر آتا ہے کہ کاندھلہ اور آس پاس کا علاقہ میدانی اور مسطح ہے ، اور بھٹکل کے مغربی جانب ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحیرہ عرب، مشرق، شمال اور جنوب سے نستار، جبلین سے شروع ہونے والا پہاڑیوں کا سلسلہ جو انجمن آباد ہوتے ہوئے ، مخدوم کالونی سے گزر کربھٹکل کے شمالی علاقے کو گھیرتا ہے، اب تو ہمت نہیں رہی، جب جامع مسجد کی تعمیر نو ختم ہوئی تھی ، اور ہم نے اس کے بلند مینار پر چڑھ کر چاروں طرف بھٹکل پر ایک اچٹتی نظر ڈالی تھی تو ایسا لگا تھا، جیسے یہ پہاڑیاں کسی اسٹڈیم کے دائرے کے مانند کھڑی ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھٹکل کے نام کی کئی ایک توجیہات بیان کی جاتی ہیں لیکن مورخ وکٹر ڈیسوزا نے اس کی ایک توجیہ یہ بیان کی ہے کہ بھٹکل نام کی اصل مراٹھی کا لفظ Vatkul ہے جس کے معنی ہیں پہاڑیوں سے گھرا ہوا گائوں۔دیوناگری قاعدے کے مطابق حرف وائو باء سے بدل گیا، اطالوی سیاح فریر جورڈانوس ۱۳۳۰ءنے اس کانام بھٹگلہ ، مورخ الطیب بافقیہ ۱۰۰۰ھ/۱۵۹۲ء نے اس کا عربی نام بادقل، اور ابن ماجد ۱۵۰۰ء نے بادقلۃ لکھا ہے، دوچار سالوں سے بعض افراد اس قصبے کی نسبت کنڑا زبان کے گرامر نویس بھٹکلنکا ، کی طرف کسی بڑے تاریخی انکشاف کی حیثیت سے کررہے ہیں، حالانکہ اس کی وفات جورڈانوس تین سوسال بعد سترھویں صدی عیسوی میں ہوئی ہے۔ یعنی بھٹکلنکا کے تین سو سال قبل سے بھٹکل شہر کا نام رائج ہے۔
آج نصف صدی قبل کے بھٹکل کے نقشے کو سوچ کرایسا لگتا ہے کہ یہ قصبہ کسی ٹیلے پر آباد کیا گیا ہوگا،یہ اس طرح کہ پہلے تین چار فٹ زمین کھود کر سڑکیں بنائی گئیں، پھر اطراف کو کرسی بنا کر اس پر دو طرفہ مکانات تعمیر کئے گئے، لہذا اب بھی پرانے مکانا ت کی دیوڑھیاں تین چار فٹ اونچی نظر آتی ہیں، مکانات مشترکہ دیواروں کے ساتھ مل کر کھڑے کئے گئےہیں، سڑکوں کی چوڑائی بہت تنگ رکھی گئی تھی، ایک بیل گاڑی کے علاوہ کسی اور سواری کے جانے کی گنجائش نہیں، گھروں کا مین دروازہ سڑک پر کھلتا، لیکن پچھواڑ ے چوکور یا دائرہ نما میدان ہوا کرتا۔ جس کے چاروں سمت مکانات کا پچھلا آنگن کھلتا ، جو چاروں طرف پھیلے محلوں کو ان گھروں سے ملاتا، اس طرح چاروں طرف واقع تکیہ محلہ، علوہ محلہ ، جامعہ محلہ ، قاضیا محلہ وغیرہ کی مستورات ، گھروں کے مردانہ حصوں سے گذرے بغیر پچھواڑے سے اڑوس پڑوس اور دوسرے محلوں میں بلا روک ٹوک آجاسکتیں، اس طرح محلے جہاں پر ختم ہوتے وہاں سے دائیں بائیں راستے نکلتے، ہنگامی حالات اور خطرات میں ممکن نہیں تھا کہ کوئی جیب گاڑی بھی آسانی سے قصبے میں داخل ہوسکتی، بوقت ضرورت مرد حضرات بھی ادھر ادھر آزادی سے آمد ورفت کرسکتے۔۱۹۷۰ء کے اوائل میں بلدیہ کے احکامات پر مکانات کی چھتیں، اور سڑک سے ملی کمروں کی دیواروں کو کاٹ کرسڑکیں اتنی چوڑی کی گئیں کہ کہ پولیس جیب اور امباسیڈر کاریں قصبے میں داخل ہوسکیں۔
کاندھلہ کے درودیوار مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی ان گلیوںکو قومی ورثہ قرار دے کر حفاظت کی جائے، انہیں مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جائے،اور انہیں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کیا جائے ، کیونکہ جن قوموں کا حال ماضی سے جڑا ہوا نہیں ہوتا، ان کے روشن مستقل کی ضمانت نہیں ہوا کرتی، لیکن اس قیمتی قومی ورثہ کی حفاظت کون کرے؟ ۔ یہ کام تو حکومتوں کے کرنے کے ہیں، اور ایسے منصوبے جن سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ان کی قربانیاں اجاگر ہوتی ہوں، انہیں جڑ سے اکھاڑنے ہی میں فسطائی مزاج حکمرانوں کی دلچسپی ہوسکتی ہے، سنا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد یونیسکو نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا تھا کہ دہلی کے شاہجہاں آبادعلاقہ کو قومی ورثہ قرار دے کر اسے محفوظ کیا جائے، لیکن اس وقت کی سیکولر حکومت نے اس سے صاف انکار کردیا، بات یہیں پر نہیں رکی، اس وقت کے وزیر اعظم اپنے وقت کے مجاہدین آزادی اور تقسیم ہند کے مخالف مسلم رہنمائوں اور جگری دوست مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی علیہ الرحمۃ کے پاس اس وقت تشریف لائے جبکہ دہلی فرقہ وارانہ فسادات سے جل رہا تھا،اور بتایا کہ کیبینٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ دارالسلطنت دہلی سے مسلمانوں کا انخلا کیا جائے، لہذا آپ اپنی جان کی امان چاہیں اوردہلی چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں،اللہ غریق رحمت کرے ان پاسبان امت کو، جنہوں نے اپنی جان بچاکر نکلنے کے بجائے دارالسلطنت میں مکمل طور پر مسلمانوں کے پائوں اکھڑنے سے روکنے کی طرف توجہ مرکوز کی،جب مکانات سے شعلوں کی لپٹیں اٹھ رہی رتھیں ، تویہاں کے مکینوں کا حوصلہ بڑھایا۔یہ حال جب سیکولر حکمرانی کے میں تھا، تو آج کی فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے حکمرانوں کے دور میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔مولانا نور الحسن راشد صاحب کی پر لطف ضیافت، کے بعد دوبارہ کاندھلہ آنے کی حسرت لے کر ہمارا قافلہ سوئے دیوبند روانہ ہوا۔جاری۔۔۔

http://www.bhatkallys.com/ur/articles/muniri-62/
 

بافقیہ

محفلین
دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۴-
تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل​

دہلی سے کاندھلہ کے راستے آپ دیوبند کو نکلیں تو راستے میں ان مقامات سے گذر ہوتا ہے ، جن کے چپوں چپوں پر امت کی ان کہی داستانیں چھپی ہوئی ملتی ہیں، یہ وہ سرزمین ہے جس کے تذکرےکے بغیر آزادی وطن اور اصلاح امت کی تاریخ کے ابواب مکمل نہیں ہوسکتے ، کاندھلہ سے گذرے تو راستے میں شاملی آیا جس کے میدان پر جدجہد آزادی کی اولین داستان قلم بند کی گئی تھی، اور پھر تھانہ بھون ، ایک ویرانہ جسے حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاح امت کا عظیم مرکز بنادیاتھا، جس کی خوشبو ایک صدی بعد بھی مشام جاں کو معطر کررہی ہے، یہاں ایک باغیچہ میں کھلی زمین پر سادہ دو قبریں پائی جاتی ہیں، جن کی مٹی کوئی تین چار انچ اوپرکو اٹھی ہوئی ہے ، تاکہ غلطی سے اجنبی کے قدم ان پر نہ پڑ جائیں،ایک قبر کے سرہانے بطور علامت ایک سادہ پتھر ایستادہ ہے، قبر پر نہ کوئی گنبد ، نہ سمنٹ اور گارہ سے بنی پختہ عمارت، یہاں بیسویں صدی کا وہ عظیم مجدد اور مصلح آسودہ خاک ہے، جس کی پوری امت اسلامیہ ہندیہ احسان مند ہے۔
ہماری نظر اس سادہ قبر پر تھی اور ذہن میں وہ منظر گھوم رہا تھا، جب حضرت حکیم الامت نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تھا ، اور وارفتگی میں آپ کے عاشق زار خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طویل مرثیہ میں اس کی منظر کشی کی تھی، جس کے ابتدائی بند یوں تھے۔
يہ رحلت ہے کس آفتاب ہدي کی – يہ ہر سمت ظلمت ہےکيوں اس بلا کي
يہ کس قطب ا رشاد نے منہ چھپايا – کہ دنيا ہے تاريک صدق وصفا کي
اٹھا کون عالم سے محبوب عالم – صدا کيوں ہے ہر سمت آہ وبکا کي
يہ کس کا ہے سوگ آج گھر گھرجہاں ميں – احبہ کي قيد نہ قيد اقرباء کي
آج سے کوئی چالیس سال قبل حضرت مولانا حکیم محمد اختر رحمۃ اللہ کی خانقاہ میں مولانا قاری سید نجم الحسن تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مجلس منعقد ہوئی تھی، جس میں قاری صاحب نےمجذوب صاحب کا کلام پیش کیا تھا، قاری صاحب کے بارے میں مشہور تھا، کہ مجذوب صاحب کی ہوبہو نقل کرتے ہیں، جسے خواجہ صاحب کو سننے کا موقعہ نہیں ملا وہ آپ کوسنے ، اس مجلس میں آپ نے اپنے بھانجے مولانا تنویر الحق تھانوی صاحب سے خواجہ صاحب کا کلام پیش کرنے کی فرمائش کی تھی، اس وقت تنویر الحق صاحب نے خواجہ صاحب کا یہ مرثیہ بڑے موثر انداز میں پیش کیا تھا، حضرت حکیم صاحب کے خانقاہ سے اس مجلس کی پوری کیسیٹ ہمیں موصول ہوئی تھی، جسے ہم نے بھٹکلیس پر کوئی اٹھارہ سال قبل پیش کیا تھا، اوریہاں سے یہ ریکارڈنگ مختلف سوشل میڈیا پر دستیاب ہونے لگی ، اسی طرح مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز میں ۱۹۶۸ء وغیرہ کی مختلف رمضان کریم کی مجالس سے خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا کلام الگ کرکے، اور پھر شکیل بارہ بنکوی کی آواز میں خواجہ صاحب کا کلام جمع کرکے انہیں بھٹکلیس پر عام کرنے کا شرف ہمیں حاصل ہواہے۔ مولانا تنویر الحق کی آواز ویسے بھی اپنے والد ماجد کی طرح بارعب اور موثر ہے، یہاں تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کی قبر سامنے تھی، ویسے بھی یہ مرثیہ کانوں میں پڑ جائے تو ایک عجیب سی رقت طاری ہوجاتی ہے،اور وہ منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہاں سے ہم دیوبند کے لئے روانہ ہوئے۔
دیوبند ہمارے لئے کوئی نیا نہیں ہے ، یہاں کے دارالعلوم اور اس کے بطن سے نکلنے والے وقف دارالعلوم میں کئی بار آنے کا شرف ہمیں حاصل ہوا ہے، کوئی دس بارہ سال قبل دارالعلوم کے مہمان خانے میں جنوبی افریقہ کے ایک بزرگ ہمارے ساتھ ٹہرے ہوئے تھے، غالبا وہ مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں میں تھے، وہ ہمیں بتارہے تھے کہ ہرسال چند ہفتے فارغ کرکے وہ یہاں آتے ہیں، تو ایمان کی تازگی کا احساس ہوتا ہے، ہمارا تو دیوبند آنا ایک دن یا چند گھنٹوں ہی کے لئے ہوتا ہے، لیکن ان گزرے لمحات کی برکتوںکی تازگی کافی عرصہ تک باقی رہتی ہے۔ مغرب کے بعد ہم دیوبند پہنچے تو مولانا سلمان بجنوری صاحب دامت برکاتہم مہمان خانے کے دروازے پر استقبال میں آنکھیں بچھائے کھڑے تھے،یہ ہماری مولانا سے پہلی ملاقات تھی، اس سے پہلے ہم نے مولانا کا نام سنا تھا، یا اچٹتی نظر سے آپ کی ادارت میں جاری ماہنامہ دارالعلوم کے مضامین دیکھے تھے، لیکن جب مفتی ساجد صاحب آپ کو علم وکتاب کی بزم میں لے آئے توآپ سے ایک اپنائیت سی محسوس ہونے لگی، ایسا لگا کہ مدتوں کی شناسائی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ گروپ کے سبھی ممبران آسما ن علم کے آفتاب وماہتاب ہیں، لیکن ا س میں مولانا بجنوری اور گجرات کے عالم حدیث مولانا محمدطلحہ منیار صاحب، اور مولانا محمد اسلام قاسمی جیسی شخصیات کی شرکت اور سرپرسرستی نے اسے وقار اور استناد بخشنے میں مہمیز کا کام کیاہے،مختلف احوال سے گزرنے کے باوجو د یہ گروپ طلبہ اور اہل علم کے لئے ایک روشنی کا مینار بنا ہوا ہے، اور ا س سے اس ناچیز کو بھی جوڑے ہوئے ہے۔مولانا مجلہ دارالعلوم کے مدیر کی حیثیت سے دارالعلوم کی ترجمانی کے ساتھ یہاں کے ممتاز استاد ادب بھی ہیں، اور طلبہ میں بے حد مقبول ، اللہ نےآپ میں جاذبیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے، پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتھم سے بیعت و ارشاد و خلافت کے تعلق نے آپ کی افادیت کے میدان کو بہت پھیلا دیا ہے، دارالعلوم کی ترجمانی کےساتھ ساتھ اس تعلق کی وجہ سے بھی آپ کے اسفار کا سلسلہ لگار تار لگا رہتا ہے، ہمارے دیوبند پہنچنے سے ایک روز قبل ہی آپ سفر سے لوٹے تھے، اور دوسرے ہی روز حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ جنوبی افریقہ کا سفر پر جانا تھا، ایسے میں اس ناچیز کو دئے جانے والےلمحات کی قدر وقیمت وہی جان سکتا ہے جس کے سفر کا اہم ترین مقصد ایک نادیدہ قدردان سے ملاقات رہا ہو۔
پیر ذوالفقار احمد صاحب کے تذکرہ پر یاد آیا کہ مارچ ۲۰۰۸ء میں اور اس کے بعد دو ایک بار شرف ملاقات کا موقعہ ملا تھا، اس وقت تک نیرل ۔ مہاراشٹر میں خانقاہ قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے آپ کے شیخ پیر غلام حبیب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ملنا یاد پڑتا ہے، ہمارے محترم مولانا محمد فہیم رحمۃ اللہ کی مسجد الصالحین کی رہائش گاہ میں وقتا فوقتا آنے والی شخصیات میں آپ بھی ہوا کرتےتھے۔ پیر ذوالفقار صاحب یوں تو اس وقت مرجع خواص و عام ہیں، ان کے اوصاف حسنہ کا کیا کہنا؟۔ لیکن آپ کی دو باتیں ذہن میں پتھر کی لکیر کی طرح بیٹھ گئ ہیں۔
پیر صاحب نے انجینیر کی حیثیت سے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام امریکہ میں گذارے ہیں، امریکہ اور یورپ میں عام طور پر تحریر شدہ
نوٹس کی بنیاد پر کی جانی والی تقاریر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، پیر صاحب کو دیکھا کہ اپنے درس میں وہ موضوع سے نہیں ہٹتے، دوسرے یہ کہ تحریر ی شکل میں آپ کے پاس درس کے علمی مواد کی ایک فائل ہوا کرتی ہے، جس میں صاف اور واضح حروف میں درس کا علمی مواد حوالہ جات کے ساتھ محفوظ ہوتا ہے۔ آپ درس اور تقریر اس کے مندرجات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں، جس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سامع کو محسوس ہوتا ہے کہ مجلس سے وہ کچھ نیا لے کر جارہا ہے، اور موضوعات کے تکرار کی بوریت سے سامع بچ جاتا ہے، مستورات کے اجتماعات میں ایک اور مسئلہ درپیش ہوتا ہے، ہر نئے آنے والے مقرر یا واعظ کا موضوع پردہ اور حیا ہوتا ہے، کئی مرتبہ ہمیں مستورات کی شکایت سننی پڑی ہیں کہ ان مولویوں نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے؟ ہمیشہ صرف پردہ ہی پر وعظ ونصیحت ہوتی ہے، کیا ہم بازاروں میں سر کھول کر گھومنے والی خواتین انہیں نظر آتی ہیں؟۔درس ومواعظ کے اسی مرتب انداز کی برکت سے خطبات فقیر کی ۴۳ جلدیں خطباء اور واعظین کے لئے اہم مرجع بن گئی ہے۔
دوسری بات جس نے ہمیں متوجہ کیا وہ یہ تھی کہ جہاں آپ کا وعظ رکھا جاتا ہے وہاں کی تواضعات اور میزبانی سے پرہیز کیا جائے۔یہ بات ذہن میں اٹکنے کی بڑی وجہ حضرت مولانا سید علی میاں ندوی رحمۃ اللہ کی جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاون میں طلبہ و اساتذہ کے درمیان ۲۷ مئی ۱۹۸۴ء کو ہوئی تقریر جس میںآپ نے معاشرے میں علماء کے عزت و وقار کو بلند رکھنے کے لئے تیں نصیحتیں کی تھیں، ان میں سے ایک یہ تھی،اس میں آپ نے اکابرین کا عمل یاد دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، جب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ کے جلسوں میںشرکت کے لئے گائوں گائوں جاتے تو اجلاس کے منتظمیں کواپنے کھانے اور مہمان نوازی کا اہتمام کرنے سے روک دیتے، اور منتظمین کے گھر کا پانی تک نہ پیتےتھے۔
عشاء کی نماز کے بعد حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم مہتمم دار العلوم دیوبند خاص طور پر ملنے مہمان خانہ تشریف لائے، یہ وقت ان کے درس کی تیاری کا تھا، اور ویسے بھی جلد سونے کی ان کی عادت ہے، اس کے باوجود آپ نے ہمیں کافی وقت دیا، اور بڑی شفقت کا معاملہ کیا۔
حضرت مہتمم صاحب کی ملاقات کے بعد مولانا سلمان بجنوری صاحب کے دولت کدہ پر حاضری ہوئی، پر تعیش عشائیہ تھا، دوسرے روز مجوزہ لمبے سفر کے باوجود طویل وقت تک علمی و فکر ی موضوعات پر تبادلہ خیال رہا، اب ہم مولانا بجنوری کے اخلاق و اطور، بلند فکری وغیرہ کی کیا تعریف کریں؟ گروپ کے ساتھی ہیں، لہذا گروپ کے بے تکلفانہ ماحول کو باقی رکھنے کے لئے اپنی بات یہیں روک دیتے ہیں۔
یہاں مولانا کے تین فرزندگان سے ملاقات کا شرف ملا، اللہ ان کی عمروں میں برکت دے، اور ان سے امت کے عظیم خیر کا کام لے،ان سے بات کرکے جی بہت خوش ہوا، شبل من ذلک الاسد کی مثال۔ بڑے فرزند تخصص فی الحدیث ، دوسرے تخصص فی الفقہ کررہے ہیں، اور تیسرے زیر تعلیم ہیں ۔ پہلے ہم نے سنا تھا کہ دارالعلوم میں انگریزی اور دوسرے علوم کے دو سالہ تخصصات کے کورس جاری ہیں، کبھی اس سلسلے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا، اب ان نوجوانوں سے ان تخصصات کے بارے میں تفصیلی معلومات ملیں، کہ دورہ حدیث ، افتاء کے درجات میں فائق پانچ طلبہ کو منتخب کرکے تخصص فی الحدیث ،تخصص فی الفقہ وغیرہ کے دو سالہ ریسرچ کے تربیتی کورس ہوتے ہیں، اور ان میں طلبہ کو خوب صیقل کیا جاتا ہے، ان سے تحقیقی کام لیا جاتا ہے تو تخصص کے کورس وغیرہ کی تفصیلات جان کر دل خوش ہوا۔ تخصص کے بعد اگر توفیق یزدی شامل حال رہے اور اپنے تخصص کے مطابق انہیں آئندہ علمی زندگی میں جولانیاں دکھانے کا موقعہ ملے، اور حصول علم اور تحقیق و جستجو کی کوششوں میں تسلسل باقی رہےتو یہی آج کے نوجوان مستقبل کے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری،اور علامہ مفتی مہدی حسن بن سکتے ہیں، ان شاء اللہ۔
ہماری کئی سالوں سے عادت رہی ہے کہ سفر میں لیپ ٹوپ ، کتابوں کی ہارڈ ڈسک اور پروجکٹر ساتھ رہتا ہے، کیوں کہ جب کبھی طلبہ سے مخاطب ہونے کا موقعہ ملتا ہے، ان آلات کے ذریعہ کچھ مفید باتیں بتانے کی کوشش کی جائے، اس سفر میں تو گویا گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے تھے ، نیچے اترنے کا موقعہ نہیںتھا، لہذا طلبہ سے ملنے ملانے کا موقعہ بھی نہیں تھا، کیونکہ اس لحاظ سے سفر کے لئے یہ وقت مناسب نہیں تھا، ابھی ابھی تعطیلات ختم ہوئی تھیں، طلبہ و اساتذہ کی ایک بڑی تعداد سفر میں تھی، امتحانات بھی چل رہے تھے، لہذا یکسوئی سے بات کرنے کا موقعہ نہیں تھا، مولانا کے فرزندان کی موجود گی نے ہمت بڑھائی، اور ان سے پروجکٹر پر پی ڈی یف کتابوں کی افادیت، ان کے استعمال ، مکتبہ شاملہ کے امتیازات، چند سکنڈوں میں ۲۴ جلدوں پر مشتمل اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی پی ڈی یف فائل سے مطلوبہ مواد تک رسائی، اور اردو لغت کبیر کی ۲۴ جلدوں کی پی ڈی یف فائل کے تعارف کا موقعہ ملا، خواہش تھی کہ ان میں سے چند اہم مواد انہیں دے آئیں، لیکن دسمبر کی سرد رات لمبی ہوچکی تھی، اور صبح سویرے ہمیں بھی اور محترم میزبان کو بھی رخت سفر باندھنا تھا، لہذا یار زندہ صحبت باقی کی امید پر سمند ر سے تشنگی لئے ہم نے الوداع کہنا ہی مناسب سمجھا۔جاری

Bhatkallys.com - دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۴- تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل - Bhatkallys.com
 
Top