دہشت گردی کا انمٹ نقش: قندوز میں دینی مدرسے کی تقریب دستار بندی پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری

کیا یہ تصاویر اسی واقعے کی ہیں؟
29695551_2005656899477052_5642950384256151866_n.jpg
اس تصویر کا مجھے نہیں معلوم۔
باقی تمام تو اسی واقعہ کی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ جو قندوز میں حفّاظ ہوئے لقمۂ ظلم
محوِ گریہ ہے قلم ان کے لیے کیا لکّھوں
لینے آئی تھی قضا بن کے دلہن ان سب کو
نوحہ لکّھوں میں، یا ان کے لیے سہرا لکّھوں
۔۔۔ ڈاکٹر مشاہد رضوی​

16299106_232569563987287_5831124352959927687_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر کسی معتبر سورس کا ربط دے دیں تو نوازش ہو گی۔

نوٹ: سوشل میڈیا پر پھرتی تصاویر سے میں مکمل طور ہر متنفر ہوں۔
معتبر سورس یعنی امریکی کوکیز
جو لوگ ری لائی اے بل سورس کی تلاش میں ہیں حیرت ہے انہوں نے فواد ڈیجیٹل پروپگنڈا کی پوسٹ نہیں پڑھی
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
سوائے الجزیرہ کے دنیا بھر کے کسی میڈیا نے افغانستان میں ہونے والےنہایت بہیمانہ قتلِ عام کی خبر نہیں دی۔ بی بی سی اردو کا ہوم پیج دیکھ لیں۔ کہاں گیا آج وسعت اللہ خان کا وہ دبنگ لہجہ یا عدنان کاکڑ کا شدید طنز؟ صاف ظاہر ہے کہ ہرکوئی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لکھتاہے۔ اگروہاں کوئی طالبان لیڈر گیا ہوا بھی تھا تو وہ افغانی طالبان کا لیڈرتھا جو قطعی طورپر دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ مزاحمت کار اور حریت پسند ہیں۔ ہمیں افغانستان میں مزاحمت کرنے والے حریت پسند گروہوں کے ساتھ ویسا ہی ہمدردی کا سلوک کرناہوگا جس کا مظاہرہ ہم کشمیر میں انڈیا کے مظالم کا شکار ہونے والوں کے لیے کرتے ہیں۔ اگروہ مذہب کے نام پر اکھٹے ہوکر مزاحمت کرسکتے ہیں تو انہیں حق ہے ایسا کرنے کا۔ انہیں اکھٹا ہونے کے لیے جو بھی نعرہ دستیاب ہوسکتاہے، انہیں اُس نعرے کو استعمال کرنے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ ان کے دیس کوگزشتہ پچاس سال سے دراندازوں نے اپنی وحشتوں کا مرکز بنارکھاہے۔ مغلوبوں کو اکھٹاہونے کے لیے قوم، زبان، وطن، رنگ، نسل، مارکسزم، سرخ انقلاب یا مذہب کوئی بھی نعرہ میسر ہو تو اسے استعمال کرکے انہیں اکھٹاہوجانا چاہیے۔ بیرونی مداخلت کا کسی قوم کو ذرہ بھر حق نہیں۔ روس ہو یا امریکہ یا نیٹو، کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ انصاف فراہم کرنے کے نام پر دوسروں کی زمینوں پر قبضے کرے اوروہاں کے نہتے شہریوں کا قتل عام کرے۔

یقین جانیے! خود امریکہ کے اندر اب کسی نئے نوم چومسکی کی ضرورت ہے جو اپنی ریاست کو ویتنام وار کی طرح پھر روشنی کا راستہ دکھائے اور کھلم کھلا احتجاج کرے، کیونکہ ہماری تو ہڈیوں کا گُودا تک سُوکھ چکاہے۔ ہم، بقول ابولکلام اُن کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارا کرنے والی قوم ہیں، احتجاج، مقابلہ، جوابی بیانیہ یا کھلم کھلا اختلاف ہمارے بس کا روگ نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تمام ذہن کرائے پہ اُٹھ گئے عالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ادریس آزاد صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا۔ ہمارے دانشوروں کی ترجیحات اور معیارات بدل چکے ہیں ۔جس سر زمین پر پچاس کے قریب ملکوں کی قابض فوجیں موجود ہوں اس کے حریت پسندوں کی مزاحمت کے لئے کوئی کلمہِ خیر ان کے پاس نہیں رہا۔ ایک بار پروفیسر یوسف حسن صاحب کو جب میں نے اصولی بات کہنے پر مجبور کر دیا تو انہوں نے اقرار کیا کہ یہ لوگ قومی مزاحمت کی جنگ ہی لڑ رہے ہیں۔مگر یہ ان کا ایسا موقف نہیں جسے اہمیت دیتے ہوئے وہ تواتر سے پیش کرتے رہیں۔ تحسین ہے بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کی حق پرستی پر جس نے چند برس پہلے ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ کہا کہ ہمیں ان سے نظریاتی اختلاف ہو سکتا ہے مگر عالمی سامراج کی جو مزاحمت عراق اور افغانستان میں ہو رہی ہے ہم اسے سلام پیش کرتے ہیں۔
یہاں اپنا وہ شعر درج کرنے کو جی چاہتا ہے جو گارمنٹس کی ایک دکان کے ایک سیلز مین نے مجھے سنایا تھا۔
تمام ذہن کرائے پہ اٹھ گئے عالی
یہاں کسی کا کوئی نکتہِ نظر ہی نہیں‘‘


جلیل عالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمغہ امتیاز، مفکرپاکستان، بے مثل و بے بدل ادیب و شاعر، استادالاساتذہ، میرے استاذِ المکرم و محترم، جناب جلیل عالی کا کمنٹ، استعمار کے خلاف افغانستان میں جاری مزاحمت سے متعلق میری ایک پوسٹ پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
معروف کالم نگار عامر خاکوانی لکھتے ہیں:

قندوز میں شہید ہونے والے ننھے بچوں کی تصاویر دیکھ کر دل لہو سے بھر جاتا ہے۔ ایک نہایت معصوم پیارے لڑکے کی تصویر تو آنکھ بھر کر دیکھی نہیں گئی۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ یہ ظلم عظیم ہے۔ جہاں نہتے معصوم شہری نشانہ بنیں، افسوس ہوتا ہے۔ کابل میں ہونے والے کسی خود کش دھماکے میں شہری ہلاک ہوں تو وہ لہو رنگ تصاویر بھی اداس کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ڈرون حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں نے تو ہم پاکستانیوں کو ذہنی مریض بنا دیا۔ قندوز پر ہونے والا حملہ اس اعتبار سے زیادہ شدید اور انتہائی شرمناک ہے کہ یہاں حملہ کرنے والوں کو علم تھا کہ چھوٹے بچے اور معصوم حفاظ کرام یقینی طور پرنشانہ بن رہے ہیں۔ بدبخت امریکیوں اور افغان فوجیوں نے یہ حملہ کر کے اپنی سنگ دلی کا مظاہرہ کیا۔ غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔ ہم اور کچھ نہ کر سکیں، کھل کر ظالموں پر نفیر تو بھیج سکتے ہیں۔
اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے اور مقتولین کے ورثا کو صبر دے۔ اولاد کی موت بہت بڑی آزمائش ہے۔ رحم کر، مولا رحم کر، اس خون سے رنگیں خطے پر اپنا خاص کرم فرما۔ آمین۔
پس نوشت :
امریکی حملے کے حمایت کرنے والے بعض حلقے عوامی لعن طعن سے بچنے کے لئے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس تقریب میں کئی طالبان کمانڈروں کو بطور مہمان خصوصی بلایا گیا تھا۔ بھائی طالبان اتنے احمق ہیں کہ وہ قندوز کی ایک پبلک تقریب میں مہمان بن کر پہنچ جائیں گے اور وہ بھی کوئٹہ شوریٰ کے اکٹھے آٹھ دس ارکان۔ امریکی کتوں کی طرح افغان طالبان کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کن ایام ہیں، امریکی اگر طالبان لیڈر شپ کو مارنے میں کامیاب ہوگئے تو مذاکرات میں ان کا پلہ بھاری ہوجائے گا۔ ایسے میں طالبان کمانڈر ایسی حماقت کیسے کر سکتے ہیں کہ ایک تقریب میں با جماعت پہنچ جائیں۔ جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں وہ گوریلا جنگ کے ابجد سے ہی واقف نہیں۔ براہ کرم مجھے کسی مغربی ویب سائٹ کا حوالہ نہ دیجئے گا، کہ ان کی ’’رپورٹنگ‘‘ ہماری آزمائی ہوئی، دیکھی بھالی ہے۔ نائن الیون کے بعد سے سترہ برس ہوگئے ، یہی رپورٹنگ ہی دیکھ رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہاں قاتل "انسانیت کا علمبردار" اور شہید ہونے والے "انسانیت کے ترازو" پہ چونکہ پورا نہیں اترتے اس لئے انسانیت کا راگ صبح و شام الاپنے والے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔
 
اگر کسی معتبر سورس کا ربط دے دیں تو نوازش ہو گی۔

نوٹ: سوشل میڈیا پر پھرتی تصاویر سے میں مکمل طور ہر متنفر ہوں۔
زیک آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ معتبر ہی سورس ہونا چاہیے۔ میں نے ابھی بی بی سی اور ڈان وغیرہ متعدد پیجز کو چیک کیا ہے مگر وہاں تو یہ خبر سرے سے ہی غائب ہے۔
باقی تصاویر اصلی ہوں یا نہ ہوں، ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمیں تو خبر سے غرض ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ:
آپ ہی دیکھیں کہ ایک اتنی افسوس ناک خبر کو ان ویب سائٹس نے سرے سے اڑا دیا۔ کیا اتنے ہی امریکی بچوں کی یکبارگی موت پر بھی ان سائٹس کا یہی رویہ ہوتا؟؟؟
کیا یہ دو رخا رویہ مضحکہ خیز نہیں ہے؟
اب ایسے میں کوئی "معتبر سورس" کہاں سے لائے!
 
Top