دھیرے دھیرے یوں شرارت کرکے آنا یاد ہے۔ غزل

غزل

محمد خلیل الرحمٰن
(حسرت موہانی سے معذرت کے ساتھ)

دھیرے دھیرے یوں شرارت کرکے آنا یاد ہے
اپنے ابّا سے ہمیں پھر مار کھانا یاد ہے


مار کھانا روز ہی ، اپنا یہی معمول تھا
اتفاقاً ہم کو اب تک وہ زمانہ یاد ہے


’’دوپہر کی دھوپ میں میرے ُبلانے کے لیے‘‘
بھائی کا ہر روز گھر سے باہر آنا یاد ہے


بدتمیزی اور شرارت خود ہی کرنا، بعدازاں
پکڑے جانا اور پھر آنسو بہانا یاد ہے


پیٹنے کے بعد ابّا تو نکل جاتے کہیں
وہ مِرا رو رو کے امّا ں کو رُلانا یاد ہے


گھر میں گھس جاتے تو پھر باہر نکلتے ہی نہ تھے
مار کھا کر دوستوں سے منہ چھُپانا یاد ہے


باوجودِ نقلِ حسرت اس غزل میں اے خلیلؔ
اپنے پٹنے کا بتنگڑ بھی بنانا یاد ہے​
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بچپن کے ایام بھی اپنے دامن میں کتنی معصوم ادائیں اور شرارتیں سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔

بہت پیاری غزل ہے عزیزم!

مزہ آگیا پڑھ کر!
 
آخری تدوین:
واہ، ماہنامہ کھلونا مرحوم میں راجہ مہدی علی خاں وغیرہ کی نظمیں یاد آ گئیں

خوش رہیے استادِ محترم الف عین ۔آپ نے کھلونا دہلی کا نام لیا تو ہمارا دل ایک بار پھر اسے دیکھنے کو مچل گیا۔ کیا کسی معزز محفلین کے پاس اس رسالے کے کچھ شمارے محفوظ ہیں اور کیا وہ انہیں اسکین کرکے محفل کی زینت بناسکتے ہیں؟
 
Top