دھڑکنیں تیز ہو گئیں‘ چہرہ بھی لال ہو گیا (سعداللہ شاہ)

ساجن

محفلین
دھڑکنیں تیز ہو گئیں چہرہ بھی لال ہو گیا
اس نے سلام کیا کیا اپنا تو حال ہو گیا

بزمِ سخن میں ہم سے پھر اس کا وہ حال پوچھنا
جیسے غزل سی ہو گئی‘ جیسے کمال ہو گیا

مجھ کو تو کچھ خبر نہیں میں نے جواب کیا دیا
حیرتِ بے پناہ میں میں تو سوال ہو گیا

میں تھا خموش سربسر‘ اس کی نظر سے بے خبر
اس کی نگاہ کیا اٹھی میں تو نہال ہو گیا

ہیرا صفت نے کیا کِیا‘ اور یہ مجھ کو کیا ہوا
کیسے میں اس کے روبرو شیشہ مثال ہو گیا

بات مری ضرور ہے لہجہ مگر ہے شوخ سا
اس کا مزاج آشنا میرا خیال ہو گیا

گرچہ نہیں‌ ہے پاس اب پر وہ جدا ہوا ہے کب
مجھ کو تو جیسے ایک سا ہجر و وصال ہو گیا

کب تھی زمین آسماں اور کہاں تھی کہکشاں
باعثِ زینتِ سخن زہرہ جمال ہو گیا

ماہِ تمام کیا ہوا‘ گھٹتا گیا وہ دن بدن
جس کو عروج مل گیا روبہ زوال ہو گیا

اس نے ذرا سی بات کی میں نے فسانہ لکھ دیا
سعد میں اس کے ذکر سے شہد مقال ہو گیا
(سعداللہ شاہ)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب!

بہت اچھی غزل ہے اور ایک ہی نشست کی غزل معلوم ہوتی ہے۔ سب ہی اشعار خوب ہیں۔

بزمِ سخن میں ہم سے پھر اس کا وہ حال پوچھنا
جیسے غزل سی ہو گئی‘ جیسے کمال ہو گیا
 
Top