دکھ دان اسلام عظمی

الف عین

لائبریرین
عورت ہونے کے ناطے عورت کو وہ لڑائیاں بھی لڑنا پڑتی ہیں ، جن میں وہ فریق نہیں ہوتی۔ جذب ہونے اور جذب کرنے کی خوبیاں نے اسے کتنا مشکل اور کتنا سہل بنا دیتی ہیں۔ دھرتی پر اپنے پاؤں جمائے رکھنے کے لئے اس قدم قدم اور ہر سانس اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ ثبوت طلب کرنے والی بھی اکثر و بیشتر اس کی ہم جنس ہوتی ہے۔ کوسنوں کی شکل میں اس کے منہ سے اگلا جانے والا زہر شاید اس کی ساس کے دو پہر والے زہریلے کوسنے کا ردِ عمل تھا؟
آج ہی اس پر وار ہوا تھا اور آج ہی اس نے اپنی بقا کی جنگ جیت لی تھی۔ زنانہ جنگ میں نویدا کے ڈٹ کر لڑنے کی خبر ، احمد علی کے گھر لوٹنے سے پہلے ہی، احمد علی تک پہنچ چکی تھی۔ دیہاتنوں کی جنگ میں شہرن پہلی صف میں کھڑے ہو کر بے جگری سے لڑی تھی اور اس نے صفِ دشمناں کو تتر بتر کر دیا تھا۔ چند مہینوں ہی میں اس نے ٹھیٹھ دیہاتنوں کے طور و اطوار کامیابی کے ساتھ سیکھ لئے تھے۔ عورت بھی پانی کی طرح ہوتی ہے۔ اسے جس برتن میں ڈالو، اس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
’‘ یہ اچھا نہیں ہوا " نواز کا خیال تھا
" کیوں ؟ "دستور کا سوال تھا
" تاریخ با با تاریخ۔ ا سکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ۔ جب شیر افگن نے ہمایوں کے دسترخوان پر ، بھنے ہوئے دنبے سے اپنے کھانے کے لئے گوشت کا ٹکڑا ، خنجر سے کاٹ کر الگ کیا تھا۔ بات ہے بھی اور نہیں بھی۔ معاشرے کے صدیوں پر انے رواج اور مزاج بدلے نہیں ہیں۔ وہ عائشہ ؓ ہو۔ مریمؓ ہو یا سیتا ، اسے کبھی نہ کبھی امتحان سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ پندرہ سولہ سال پہلے فریدہ کی وجہ سے مجھ سے میرا گھر چھوٹ گیا تھا اور آج نویدا کو اپنے گھر میں یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ ہر حال میں اپنے نئے خاندان کے ساتھ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو کمزور بناتی ہے۔ مشرق ، مغرب، شمال اور جنوب کچھ بھی اس کی فطرت کو نہیں بدل سکتا۔ وہ جب جب کمزور پڑتی ہے ، مرد تب تب اور طاقتور ہوتا جاتا ہے۔ ویسے مرد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کہ اسے اس کی مونچھیں کہیں کا نہیں رہنے دیتیں "
" اور ہمیں تم کہیں کا نہیں رہنے دیتے ؟سیر تفریح کے لئے آئے ہیں تو اس کا لطف اٹھانے دو " دستور نے اسے ٹوک دیا
" یعنی میں بور کرنے لگا ہوں ؟ " نواز نے استفسار کیا
" جی ہاں "
" تو پہلے بتا دینا تھا "
" تم کہیں رکتے تو کوئی کچھ کہہ پاتا؟ تمہارا حال تو اس عورت کا سا ہے۔ جو پہلی بار کھانا تقسیم کرنے بیٹھی تھی اور اس نے کھانے کی تقسیم کا آغاز گھر کے بڑوں سے کیا تھا۔ بڑوں کو کھانا دیتے دیتے وہ سب سے چھوٹے بچے کو تقریباً نظر انداز کر چکی تھی۔ چھوٹے بچے کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ زیادہ دیر تک انتظار نہ کر سکا اور تنگ آ کر کہنے لگا۔ "بے بے ، تو آج ڈاک گاڑی بنی ہوئی ہے ، چھوٹے اسٹیشنوں پر رکتی ہی نہیں۔ "
"اب تم ڈاک گاڑی نہ بنو " میں نے دستور کو یاد دلایا اور بات ختم ہو گئی۔ چائے آ گئی تھی۔ سبھی نے چائے پینا شروع کر دی تو دستور نے یاد دلایا کہ بھائی احمد علی کو تو کسی نے چائے دی ہی نہیں۔ جس پر احمد علی نے بتایا کہ وہ چائے نہیں پیتا۔
"کیوں ؟" میں نے پھر سوال کیا
" اچھے بچے بڑوں کی باتوں میں دخل نہیں دیتے "دستور نے مسکرا کر احمد علی کی طرف سے جواب دے دیا" ویسے بھائی احمد علی، آپ چائے کیوں نہیں پیتے ؟"دستور نے معنی خیز نظروں سے احمد علی کو گھورتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں سوال پھر دہرا دیا۔
ہماری شب گزاری کا انتظام بیٹھک میں کیا گیا تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد ہم بیٹھک میں آئے تو اس کے ایک کونے میں چھت تک گنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میرے استفسار پر کہ گنے کچھ زیادہ لگ رہے ہیں۔ احمد علی نے نفی میں سر ہلا کر بتایا کہ ایک تو گنے پُونے ہیں۔ دوسرے ہمارے علاوہ اور لوگ بھی گپ شپ کے لئے آئیں گے اور گنے چوسیں گے۔ آتشدان میں لکڑیاں جلا کر کمرے کو اتنا گرم کر دیا گیا تھا کہ ہماری رضائیوں میں بیٹھ کر گنے چوسنے کی حسرت دھری کی دھری رہ گئی۔ ہمارے ساتھ گپ شپ کے لئے اتنے لوگ آ گئے تھے کہ کرسیاں بھر جانے کے بعد ہماری چار پائیوں پر بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں رہی تھی اور کمرہ لکڑیوں اور سانسوں کی گرمی سے جلنے لگا تھا۔
بات چیت شروع ہوئی اور جلد ہی کچھ لوگوں نے میرے اور نواز کے لہجے سے ہمارے سیالکوٹی ہونے کا اندازہ لگا لیا۔ سیالکوٹ کا ذکر آیا تو اس وقت کے مقبول فلمی گانے "اوہ منڈیا سیاکوٹیا " کا ذکر چھڑ گیا۔ گانے کے ذکر سے بات فلموں تک آ گئی۔ نواز تو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا کہ رنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے۔ اسے کسی پسندیدہ موضوع کی تلاش تھی اور وہ اسے مل گیا تھا۔ اس کی دربدری کا آغاز ایک طرح سے فلموں کی باتوں سے ہوا تھا اور فلمیں اس کے شب و روز کا لازمی حصہ بن چکیں تھیں۔ سادھے سادھے دیہاتی سامعین اس کے ہاتھ آ گئے تھے۔ نواز نے فریدہ کی طرح فلم کے پر دے پر کبھی قہقہے اور کبھی آنسو بکھیرتے ہوئے کرداروں کی باتیں چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔
سال ہا سال کی در بدری اور دشت نوردی نے سیدھے سادھے اور نادان لڑکے کو ایک تجربہ کار داستان گو بنا دیا تھا۔ برسوں پہلے لفظوں سے مبہوت ہونے والا نواز اب خود لفظ تماشے سے اپنے سامعین کو گھائل کر سکتا تھا۔ وہ لفظوں سے مر مریں پیکر تراش سکتا تھا۔ انہیں زندہ کر سکتا تھا اور مار سکتا تھا۔ روح پر لگے ہوئے چرکوں نے لفظوں کا روپ دھار لیا تھا۔ اپنی چرب زبانی اور بے پناہ لفاظی کے بل بوتے پر ، کچھ دیر کے لئے سہی ، وہ وقت کی گردش کو بھی روک سکتا تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی اس کا مظاہرہ کر چکا تھا۔ اس کی قوتِ داستان گوئی ایک بار پھر عروج پر تھا۔ فرق تھا تو یہ کہ اس روز وہ ہڈ بیتی سنا رہا تھا اور آج جگ بیتی سنا رہا تھا۔
احوالِ مہ رخاں اور تذکرۂ پر ی وشاں نے سننے والوں کو مبہوت کر دیا تھا۔ فلمی کردار اس کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور اس کی انگلی کے ذرا سے اشارے پر دیکھنے والوں کے سامنے جھک کر سلام کرنے لگتے تھے۔ ہر کردار اپنا احوال بیان کرنے کے بعد کورنش بجا لاتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا اور نیا کردار سامنے آ جاتا۔ مرد کرداروں کے مقابلے میں نسوانی زیادہ دیر تک سٹیج پر رکتے اور دیکھنے والوں کا دل لبھاتے۔
مدھو بالا سب کے آخر میں سٹیج پر آئی تو نواز بے خود ہو کر خود بھی سٹیج پر آ گیا۔ مدھو بالا سے باتیں کرتا کرتا، وہ اُسے دیکھنے والوں کے اتنا قریب لے آیا کہ دیکھنے والے اُسے چھو کر محسوس تو کیا؟ اُس کے دل کی دھڑکن تک سن سکتے تھے۔ رات کی خاموشی میں لفظ جیسے نازل ہو رہے تھے۔ لڑاکو، بات بات پر جھگڑا کرنے والے اور پانی کاٹنے میں چند منٹوں کی دیر یا سویر پر لاٹھیاں نکال لینے والے اجڈ اور گنوار دیہاتی، بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ ہمہ تن گوش بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ رات کب اور کیسے گزر گئی ؟ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ فجر کی اذان نے جب یہ طلسم توڑا تو یوں لگ رہا تھا کہ ہم سب ایک گہری نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ صبحِ صادق طلوع ہو چلی تھی۔ کٹھ پتلیوں کا ناچ یکا یک تھم گیا۔ شہرِ تماشا آناً فاناً آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ تماشا گاہ جیسے تھی ہی نہیں۔ احمد علی کی بیٹھک تھی اور ہم۔ گنے کے چھلکوں کے ڈھیر چارپائیوں سے اوپر اٹھ آئے تھے۔
" تو کیا ہم نے ساری رات سیر گاہِ خیال میں اٹھکیلیاں کرتے کرتے کاٹ دی ہے ؟جو کچھ ہم نے سنا ، جو کچھ ہم نے دیکھا کیا وہ سب وہم تھا؟ " سننے والوں کی آنکھوں میں ایک تحیر تھا۔ نواز الف لیلیٰ و لیلیٰ کی داستان کے پیرِ تسمہ پا کی طرح رات بھر ہمارے کندھوں پر سوار رہا تھا۔ "یار زندہ صحبت باقی"کہہ کر نواز نے محفل کی برخواستگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ رات اور بات ختم ہو چکی تھی۔ گاؤں والے چلے گئے تومیں نواز سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ رات ہمارے سامنے تم تھے یا کوئی جادوگر؟
"وہ نہ میں تھا اور نہ کوئی جادوگر۔ ایک ہارا ہوا آدمی زندہ رہنے کی کوشش کر رہا تھا "
ہمارا ارادہ گاؤں میں ایک رات رکنے اور صبح واپسی کا تھا مگر پوری رات جاگنے کے بعد ہمارے لئے رختِ سفر باندھنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ حوائجِ ضروریہ سے فراغت اور ناشتے کے بعد ہم سو گئے۔ بعد از دو پہر ہمارے جاگنے تک کھانا تیار ہو چکا تھا۔ ہم کھانا کھا چکے تو احمد علی ہمیں اپنے کھیت دکھانے لے گیا۔ کھیتوں سے واپسی پر نہر کے پل پر ہمیں ایک مداری مل گیا اور تماشا دکھانے پر اصرار کرنے لگا۔ وہیں پل کی دیوار پر بیٹھ کر ہم تماشا دیکھنے لگے۔ بچپن کی یادیں پھر تازہ ہونے لگیں۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم چارآج اکیلے مداری پر نظر رکھ کر تماشے کا راز جان لیں گے اور پھر اس کا مذاق اڑائیں گے۔ وہ تماشا دکھاتا رہا مگر کوشش کے باوجود ہم اس کی کوئی کمزوری پکڑ نہیں پائے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اس نے ایک سے دو ، دو سے چار اور چار سے آٹھ روپے بنائے۔ بہی کھاتے کی پر انی کتاب کے صفحوں سے چھینٹ کے کپڑے کے نئے نئے ڈیزائین نکال کر دکھائے گلاس میں پانی اور پانی میں گوبر ڈالا اور ملغوبہ سا بنا کر احمد علی پر پھینکا۔ مغولبے سے پھول بنائے۔ پر انے بوسیدہ ہیٹ سے خر گوش نکالا اور غائب کیا۔ بچے جمورے کو ایک بڑے ٹو کرے ڈال کر چادر سے ڈھانپا اور غائب کیا۔ باری باری ہر ایک سے پوچھا کہ وہ کیا کھائے گا یا کیا پئے گا؟کسی نے سیب مانگا تو اسے ٹوکرے سے سیب نکال کر دیا۔ کسی نے کسی خاص مشروب کا مطالبہ کیا تواسی مشروب کی بوتل حاضر کر دکھائی۔ تماشا ختم ہو گیا اور ہم اس کا محنتانہ ادا کر چکے تو وہ اپنا سامان سمیٹنے لگا۔
"میرا یہ دوست پوچھ رہا ہے کہ ابھی ابھی تم کوئی ٹرِک(trick ( استعمال کر رہے تھے یا کہ یہ کوئی جادو تھا؟ "نواز نے مداری کو مخاطب کرتے ہوئے اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
" جو کچھ بھی آپ کا دل مان لے ، وہی ٹھیک ہے " وہ مسکرا کر بولا
"یہ تھے تو ٹِرک(trick ) مگر ایک سوال تھوڑا تنگ کر رہا ہے "میں وضاحت کی۔
"پوچھ لو، آج مداری بھی ترنگ میں ہے اور آج کے بعد آپ بھی کب یہ تماشا دیکھنے والے ہیں ؟شہروں میں ہم جیسے مداریوں کا اب کیا کام؟وہاں تو بڑے بڑے مداری آتے ہیں اور بڑے بڑے تماشے کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہاں یہ سوال پوچھ سکو گے ؟"
"ٹوکرے والا کرتب دکھاتے وقت تم ہر کسی سے پوچھ رہے تھے کہ اسے کیا چائیے ؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ چیزیں تمہارے پاس تھیں اور تم اپنے ہاتھ کی صفائی سے انہیں نکال نکال کر مانگنے والے کو دکھاتے جا رہے تھے۔ جو سوال مجھے تنگ کر رہا ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز مانگ لیتا ، جو تمہارے پاس نہیں تھی تو تم کیا کرتے ؟"
"سوال اچھا ہے میرے بھائی۔ اسے ایسے سمجھ لو کہ بچے اکثر ماؤں سے ایسی چیزوں کی ضد کرتے رہتے ہیں ، جو اس کے پاس نہیں ہوتیں ، وہ اپنے پاس موجود چیزوں کو دائیں بائیں کر کے ضد کرتے ہوئے بچے کو چپ کرا لیتی ہیں۔ بچہ کہتا ہے کہ اس دہی سے شکر نکال دو۔ ماں شکر نکالنے کی اداکاری کرتی ہے اور کہتی ہے "یہ دیکھو شکر نکال دی "۔ بچہ ماں کی بات کا یقین کر لیتا ہے اور وہی دہی کھانے لگتا ہے۔ ساری ترکیبیں ناکام ہو جائیں تو ان کا آخری ہتھیار بچے کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرا دینا ہوتا ہے۔ ماں بچے کے ہاتھ سے کوئی چیز غائب کرنا چاہتی ہے تو مخالف سمت میں اشارہ کرتی ہوئی کہتی ہے۔
"وہ دیکھو! کوا۔ بچہ کوے کی طرف دیکھتا ہے اور چیز غائب ہو جاتی ہے۔ ماں اسے کہیں چھپا دیتی ہے۔ ہم مداری بھی یہی کرتے ہیں۔ بات توجہ کی ہے۔ توجہ ہٹا دو "۔ وہ اپنا سامان سمیٹ چکا تھا۔ اپنی زنبیل اپنے کندھے پر ڈالتے ہوئے اس نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
" کوئی اور سوال؟"ہماری طرف سے کسی نئے سوال کے آثار نہ پا کراس نے ایک گہری سانس لی اور بچے جمورے کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا" باؤ جی ! آپ کو خبر نہیں کہ آپ نے مجھ سے بظاہر ایک بے ضر ر ساسوال پوچھ کر میرے سینے پر سوار سالوں پر انا بوجھ اتار دیا ہے۔ مائیں بھی کہاں کہاں کام آتی ہیں ؟"
مداری چلا گیا تو نواز میری طرف دیکھ کر بولا۔ " مداری کا جواب تمایرے صبح والے سوال کا جواب تھا۔ ""بیچارہ مداری بھی ہماری طرح دکھی نکلا۔ اس دنیا میں کوئی خوش ہے بھی؟" نواز نے دبی زبان میں شاید خود سے سرگوشی کی۔
"کیا کہا؟" احمد علی نے چونک کر کہا
"کچھ نہیں "نواز منمنایا" اوپر والے سے دعا کر رہا تھا کہ وہ سب کو خوش رکھے۔ "
"آمین"
 

الف عین

لائبریرین
آنکھیں ، خواب ، سراب

دستور کو بہاولپور چھوڑے ایک سال گزر چکا تھا۔ میرا فائنل کا امتحان سر پر آ پہنچا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ کالجوں اور ا سکولوں کے طالب علم اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ شہر خالی خالی لگنے لگا تھا۔ میرا دن کا سارا وقت پڑھنے میں گزر جاتا۔ عشاء کے بعد کتابیں سمیٹنے کے بعد ، میں پر دیسی ہوٹل پر پہنچتا تو نواز میرا انتظار کر رہا ہوتا۔ ہم دونوں مل کر کھا نا کھاتے۔ نواز کھانے کے دوران دیر سے آنے والے اکا دکا گاہکوں کو بھی بھگتاتا رہتا۔ نو بجے کے لگ بھگ نواز ہوٹل بند کر دیتا اور ہم گھومنے نکل جاتے۔ امتحانوں کے قریب آ جانے کی وجہ سے میں نے کھیل پر جانا بند کر دیا تھا اور میری وجہ سے نواز نے مدھو بالا کی فلمیں بھی دیکھنا بند کر دی تھیں۔ چار سال ایک ساتھ گزارنے کے بعد بچھڑنے کا موسم سر پر آ گیا تھا۔ کاؤنٹ ڈاو ن(count Down)شروع ہو چکی تھی اور ایک بے نام اداسی ہمارے اندر اترنے لگی تھی۔ ہماری آنکھوں نے خواب دیکھنے بند کر دئیے تھے۔
نواز چلتے چلتے رک جاتا۔ "پاس ہو کر کیا کرو گے ؟"
"لاہور یا کراچی چلا جاؤں گا"
"لاہور یا کراچی ہی کیوں ؟"
"نوکری تو وہاں ہی مل سکتی ہے ناں "
"یہاں کیوں نہیں ؟"نواز بجھ سا جاتا
" یہ قدرت کا قانون ہے کہ ہر چیز ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتی۔ ریگستانوں میں ریت ملتی ہے۔ دریاؤں میں پانی ہوتا ہے۔ ہریالی کے لئے جنگلوں میں جانا پڑتا ہے۔ پتھروں کے لئے پہاڑ سر کرنا پڑتے ہیں "
" شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ ہر چیز ہر جگہ نہیں ملتی۔ ریگستانوں میں سراب ملتے ہیں تو شہروں میں خواب اُگتے ہیں مگر خواب و سراب زدہ آنکھیں ہر جگہ مل جاتی ہیں۔ جس کا جہاں نصیب ہوتا ہے ، پہنچ جاتا ہے یا پہنچا دیا جاتا ہے۔ " نواز جواب دیتا
"نواز۔ تم بھی چونڈے واپس لوٹ جاؤ" میں اسے مشورہ دیتا
" میں ؟میں اب کہاں جاؤں گا؟" وہ ہنس دیتا "اتنے سالوں کے بعد کون ہو گا وہاں مجھے پہچاننے والا؟یہ بھی تو ہو سکتاہے کہ مجھے پہچاننے والے اور میرے جاننے والے بھی دوسرے شہروں کی طرف نکل چکے ہوں۔ مجبوریوں نے انسانوں کے پاؤں میں چکر ڈال دئے ہیں۔ کسی دور میں لوگ پیدل چلتے تھے۔ پھر بسیں اور ریل گاڑیاں آ گئیں اور اب تو سنا ہے کہ لوگ اُڑنے بھی لگے ہیں۔ اُڑنے والا گھنٹوں میں کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے "نواز بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا۔
"دیکھو نواز یہ بجھارتیں چھوڑو اور ایک بار واپس جا کر تو دیکھ لو۔ تمہیں جاننے والا ، تمہیں پہچاننے والا وہاں ، کوئی نہ کوئی تو ہو گا"
"ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اگر وہاں مجھے جاننے والا کوئی بھی نہیں ہوا ، تو میں بہت اکیلا پڑجاؤں گا"
"یہاں بھی تو تم اکیلے ہو؟"
"یہاں تو میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں "
"کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے ؟"
"تم چلے جاؤ گے تو سوچوں گا"
"وعدہ کرو "
"وعدہ؟ کیسا وعدہ ؟کس کے ساتھ وعدہ؟ " وہ جواب دیتا" میں اب وعدوں میں یقین ہی نہیں رکھتا۔ میں نے اس شہر میں اپنی زندگی کے اہم ترین دس سال بارہ گزار دیئے ہیں۔ دس بارہ سال زندگی کا بہت بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ دس بارہ سالوں میں تو سنا ہے کہ نئے شہر آباد ہو جاتے ہیں۔ پرانے وقتوں کی ایک کہاوت سنا کرتے تھے کہ بارہ سالوں کے بعد تو"رُوڑی" کی بھی سنی جاتی ہے۔ میرے تو بارہ سال بھی پورے ہو چکے ہیں۔ میری تو نہیں سنی گئی۔ میرے دن تو نہیں بدلے۔ میرا خیال ہے کہ تب بھی کچھ بدلتا نہیں تھا، آدمی خود بدل جاتا تھا۔ ہاں ! اس شہر میں آ کر کچھ سکون ضرور ملا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ میں نے خواب دیکھنا بند کر دئیے ہیں۔ اپنے جیسے کچھ مست ملنگ مل گئے تھے۔ وقت اچھا گزرنے لگا تھا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ باقی کی زندگی ایسے ہی گزر جائے گی۔ ان میں سے ایک چلا گیا ہے اور دوسرا جانے کے لئے پر تول رہا ہے۔ اب یہ شہر چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ دل کے اندر کوئی کتنے خانے بنائے ؟خواہشوں کے کوئی کتنے دفتر کھولے ؟زندگی کو کوئی کتنے حصوں میں تقسیم کرے ؟دل کو کوئی کتنی تسلیاں دے ؟سوچ پر کوئی کتنے پہرے لگائے ؟ "
نواز ہی کہتا تھا۔ بظاہر تو بساط بچھی ہوئی تھی مگر خانے ایک ایک کر کے خالی ہوتے جا رہے تھے۔ نویدہ کی شادی ہو چکی تھی۔ دستور جا چکا تھا اور میں جانے والا تھا۔ بہت زیادہ ہنسنے کے بعد نوازنے ہنسنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ میری باتیں اس مسافر کی طرح تھیں جو سرائے چھوڑنے سے پہلے سرائے کے مالک کی دلجوئی بھی ضروری سمجھتا ہے کہ" فکر نہیں کرنا۔ ابھی تھوڑی دیر میں ایک اور قافلہ آتا ہے۔ "گردن گردن پانی میں ڈوبے ہوئے آدمی کو "کچھ نہیں ہو گا"کی تسلی دینا ایک بھونڈے مذاق کے مترادف تھی۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے "ابھی اُجالا ہو جائے گا"کی بات کسی دیوانے کا خواب تھی۔ ٹوٹے ہوئے کے کانچ کے ٹکڑے تسلی کے لفظوں سے تھوڑے جڑتے ہیں۔ پھر بھی باتیں کر، کر، کر کے دلوں کا غبار نکال لینے میں حرج ہی کیا تھا؟
"راجے !تم ابھی زندگی کو مذاق سمجھتے ہو، مگر جب زندگی تمہارے ساتھ مذاق کرے گی، تو تمہیں پتہ چلے گا کہ ٹوٹ جانے کے بعد زندہ رہنا کتنا مشکل ہے۔ آدمی بظاہر ثابت و سالم نظر آتا ہے مگر اندر سے کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ خواب، خواہشیں اور حادثے آدمی کے اندر اتنے خانے بنا دیتے ہیں کہ وہ خود یہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کس خواہش کو ، کس خانے میں رکھا تھا اور تازہ حادثہ کس خانے میں جائے گا۔ زندگی کی بساط پر مہرے ، اس کی مرضی سے نہیں ، حالات کے دباؤ کے تحت آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹتے ہیں۔ ہارتا ہوا آدمی ایک خاموش بلکہ بے بس تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔ کھیل کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پٹے ہوئے مہروں کا ڈھیر بڑھتا جاتا ہے۔ خانے خالی ہو جاتے ہیں۔ بازی ختم ہو جاتی ہے۔ ہاں !آدمی اکیلا نہ پڑ جائے ، اندر سے ٹوٹ نہ جائے تو دوسری بات ہے۔ راکھ سے چنگاری پھوٹ سکتی ہے۔ بساط پھر سے بچھ سکتی ہے۔ نئے جوش، نئے ولولے اور تازہ امیدوں کے ساتھ نئے مہرے میدان میں اتر سکتے ہیں۔ کھیل پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے کوئی آس، کوئی امید ، کوئی دیا ، کوئی جگنو تو باقی رہنا چاہئے۔ واپسی کی کشتیاں جلا دینے اور لینے میں بہت فرق ہے۔ ایک مثبت عمل ہے اور دوسرام نفی رویہ ہے۔ شاید ہم کشتیاں جلا لینے والی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کشتیاں جلا لینے والوں کا مقدر اجنبی سر زمینوں میں بے نامی ہے۔ ہماری خارجی اور باطنی ساری کی ساری قوتوں کا ہدف ممنوعہ لذتوں کا ہر قیمت پر حصول ہے۔ حصول کی خواہش بذاتِ خود کوئی روگ نہیں۔ روگ خواہشوں کا "ہر قیمت پر حصول" ہے۔ یہ روگ شاید ہمیں آدم و حوا سے وراثت میں ملا ہے ؟ "
"حمیدہ کا رنڈوا جیٹھ اپنے چھوٹے بھائی کی نوعمر سالی فریدہ کو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ فریدہ ہر قیمت پر اس صورتِ حال سے بچنا چاہتی تھی۔ حمیدہ ہر قیمت پر اپنی بہن کو بچانا چاہتی تھی۔ اور نواز؟ میری حیثیت شیر کے شکار میں کام آنے والے "تر نوالے " کی تھی۔ مر گیا ، سو مر گیا اور بچ گیا ، سو بچ گیا۔ " نواز خود ہی سوال اٹھاتا اور خود ہی اس کا جواب ڈھونڈھنے لگتا
"مایوسیاں اور توڑ ڈالنے والی ناکامیاں شاید اس لئے ہمارا مقدر بنتی ہیں کہ ہماری خواہشوں کے مینار ہمارے قدوں سے کہیں زیادہ بلند ہو کر ہوا میں اڑتے ہوئے بادلوں سے بھی کہیں اونچے نکل جاتے ہیں۔ آئینے ہمیں ہمارے عکس دکھانے کی بجائے خواب دکھانے لگ جاتے ہیں۔ بڑی بڑی خواہشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا گلہ دبا دیتے ہیں۔ بڑی خواہشیں قیمت بھی بڑی مانگتی ہیں۔ ان سے مایوس ہو کر، خالی جھولی لئے ، جب ہم چھوٹی خواہشوں پر ہی اکتفا کرنے کے لئے پیچھے مڑتے ہیں تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ہوتا یہ ہے کہ وقت کے بازار میں طلب اور رسد کا توازن بدل جانے کی وجہ سے چھوٹی خواہشوں کا بھاؤ بھی بڑھ چکا ہوتا ہے اور خالی جھولیوں کا ایک میلہ رہ جاتا ہے۔
"میلے سجتے ہیں تو جیبیں بھی کٹتی ہیں مگر میلے میں جیب کٹوا لینے والے میراثی کی طرح تم یہ کیوں سمجھتے ہو کہ میلہ صرف تمہاری جیب کاٹنے کے لئے سجایا گیا تھا" میں اسے ہنسنے پر اکساتا مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ اس نے نہ ہنسنے کی جیسے قسم کھا لی تھی۔
"دیکھو راجے ! تم نے بہت سی جماعتیں پڑھی ہیں۔ بہت سی اور جماعتیں پڑھنے کے لئے تم اس شہر سے زیادہ بڑے شہر میں جاؤ گے۔ تم بہت پڑھو گے کیونکہ تمہاری آنکھوں میں بڑے بڑے خواب ہوں گے۔ یہ خواب دیکھتے وقت تم یہ نہیں سوچو گے کہ اسی بڑے شہر میں تم سے پہلے بھی ہزاروں بلکہ لاکھوں راجے ایسے ہی سپنے لئے موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے خوابوں کے مقابلے میں تمہارا خواب چھوٹا ہو مگر یہ خواب اتنا چھوٹا بھی نہیں ہو گا کہ اس میں ایک بڑی کرسی شامل نہ ہو۔ یہ خواب دیکھتے وقت تم یہ نہیں سوچو گے کہ یہ لوگ بڑی کرسی پر اس لئے نہیں بیٹھ سکے کہ ان کے باپ چھوٹے آدمی تھے۔ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے تم کہو گے کہ ان کے جذبے صادق نہ تھے اور ان کی طلب سچی نہ تھی۔ صادق جذبہ اور سچی طلب لے کر بڑی کرسی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ، جب نڈھال ہو کر تم گرنے لگو گے تو شاید تمہیں ایک چھوٹی کرسی مل جائے اور یہ بات بھی میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ قنوطیت پسند ہونے سے رجائیت پسند ہونا بہر حال بہتر ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
تم اس چھوٹی کرسی پر بیٹھ کر یہ امید لگا لو گے کہ یہ چھوٹی کرسی تمہیں اک نہ اک بڑی کرسی پر بٹھا دے گی کیونکہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لئے آغاز تو اس کے قدموں سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو بڑی کرسی کا اہل ثابت کرنے کے لئے تم اپنے باس کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرو گے۔ وہ تم سے ہنس کر بات کرے گا تو تم سمجھو گے کہ تمہاری محنت رنگ لا رہی ہے۔ تمہاری کوششیں ملک اور ملت کے کام آ رہی ہیں ، حالانکہ تم محض زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہو گے ، بالکل میری طرح جو تندور پر روٹیاں پکا کر یہ سمجھتا ہے کہ میں نہ ہوتا تو ماڈل ٹاؤن کی آدھی آبادی کو بھوکا سونا پڑتا۔ میں اس خیال میں خوش رہوں گا۔ کھانے والے پیٹ بھر کر کھا لینے کی وجہ سے لمبی تان کر سوئیں گے اور دیس کا راجہ یہ دعویٰ کرے کہ اس کے راج کی بدولت عوام کتنے سکھ میں ہیں۔
تمہیں بڑی کرسی مل گئی تو تمہاری ساری عمر دوسرے لوگوں کو یہ باور کرانے میں گزر جائے گی کہ آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہر کسی کے لئے برابر کے مواقع تھے اور ہیں اور تم اس کی زندہ مثال ہو۔ مگر ! مجھے بتاؤ کہ اگر دوڑ برابر کی ہے تو سبھی دوڑنے والے ایک ہی مقام سے دوڑنا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ مگر صورتِ حال یہ ہے کہ دوڑنے کے مواقع تو یکساں ہیں مگر سات چکروں کی دوڑ میں ریاض تو زیرو پوائنٹzero Point ) )سے دوڑنا شروع کرتا ہے اور کسی خادمِ ملت کا بیٹا اپنی پسند کے چکر سے دوڑ میں شامل ہوتا ہے کہ اس باپ یا شاید پاپ اس سے پہلے کے چکر پورے کر چکا ہے۔ استدلال اچھا ہے کہ اسے پورے چکر لگانے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ اسے پورے چکروں پر مجبور کرنا ، اس کے باپ کے سٹیٹس(status )توہین ہے۔ ریاض زیرو پوائنٹ( Zero Point )سے دوڑنے کے لئے اس لئے مجبور ہے کہا گر وہ دوڑے گا نہیں تو بڑی کرسی کیسے حاصل کرے گا؟
کتابوں میں لکھا ہے کہ میزان کے دن جب اچھے عمل کرنے والے جنت پا چکے ہوں گے اور برے عمل کرنے والے دوزخ میں دھکیلے جا چکے ہوں گے۔ ایک شخص ہو گاجو جو دوزخ کے دہانے پر کھڑا ہو گا اور اپنے رب سے درخواست کرے گا کہ یہ اس کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ دوزخ کے دہانے پر کھڑے اپنے بندے کو دوزخ سے باہر کھڑا نہ کرے۔ دوزخ سے باہر آنے پر وہ دوزخ سے ذرا پر ے ہٹنے کی درخواست کرے گا اور اسے ذراپر ے ہٹا دیا جائے گا۔ وہ درخواستیں کرتا کرتا جنت کی دیوار تک پہنچ جائے گا اور یہ جگہ اتنی بڑی ہو گی کہ اس نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔
اس دنیا میں بھی اس آخری جنتی کی طرح کے دوزخیوں کا ایک لشکر ہے ، جو قدم بقدم ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلتا ہوا، انتہائی "نظم اور ضبط" کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ "تھوڑا سا اور ، تھوڑا سا اور " چلاتا ہوا یہ لشکر دکھوں کی دوزخ سے سکھوں کی جنت کی دیوار سے قریب اور قریب تر ہونے کی آس میں جیتے جی مر رہا ہے۔ ذرا سے فاصلے پر نظر آتی ہوئی چھاؤں قریب آتی ہی نہیں ہے۔ دھوپ کا سفر ہے کہ کٹتا نہیں ہے۔ دکھوں کی دوزخ کی تپش کم ہوتی ہی نہیں۔ جنت کا خواب پورا ہوتا ہی نہیں ہے۔ خوابوں کا سحر ٹوٹتا ہی نہیں ہے۔ بند آنکھ کھلتی ہی نہیں ہے۔ راجے ، مہاراجے "ہل من مزید " پکارتے پکارے دوزخ کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہ جو بتائے کہ بقا تو بس فنا کو ہے۔ باقی بس خدا کا نام رہے گا۔ اور اس داستان کا "خوش پہلو" یہ ہے کہ ہمارا ایقان ابھی زندہ ہے۔ "
 

الف عین

لائبریرین
یہ محبتیں بھی عجیب ہیں

میں نے یہ توسن رکھا تھا کہ لاہور، لاہور ہے مگر یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ لا ہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہلا قدم رکھتے ہی جس شخص پر میری نظر پڑے گی ، وہ دستور ہو گا۔ دستور کو اپنے سامنے پا کر مجھے اپنی آ نکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں تو اپنی دانست میں ایک نئے شہر میں نئے سرے اور نئے ڈھنگ سے زندگی شروع کرنے جا رہا تھا۔ میرے پاس ایک رات گزارنے کے لئے بھی کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میرے پاس کچھ نام پتے تو تھے مگر وہ اتنے پرانے تھے کہ انہیں ڈھونڈنا کارے دارد تھا۔ ایسے میں دستور جیسے دوست کا آسانی کے ساتھ مجھے مل جانا ایک حسنِ اتفاق تھا۔ اس حسنِ اتفاق پر میری طرح دستور بھی حیران تھا۔
"سائیں ! آپ کو مان گئے۔ اتنی درست ٹائمنگ(timing) تو آجکل سوئس گھڑیوں کی بھی نہیں ہوتی۔ "
" گھڑیاں گھڑیاں ہوتی ہیں۔ انسان انسان ہوتا ہے۔ "میں نے اپنے لہجے کو تھوڑا گمبھیر بناتے ہوئے بات جاری رکھی "بابا!دستورسائیں کے شاگرد ہیں۔ علم جانتے ہیں۔ دلوں کا حال چہرے سے پڑھ لیتے ہیں۔ ہماری ٹائمنگ کیسے غلط ہر سکتی ہے۔ کہو تو تمہارے بارے میں کچھ اور بھی بتائیں "
"بتا ئیں بابا سائیں !بتائیں "
"تمہارا نام دستور ہے اور تم اپنے کسی جاننے والے کو الوداع کہنے کے لئے آئے ہو۔ آئے ہو یا نہیں ؟"
"سچ بابا سائیں ! سچ۔ آپ نے بالکل سچ فرمایا۔ "ہماری باتیں سن کر ہمارے پاس سے گزرتا ہوا ریلوے گارڈ رک گیا تھا اور ہماری باتوں کو بڑی سنجیدگی سے سن رہا تھا۔ "آپ کا نام واقعتاً دستور ہے "
" جی ہاں "
"اس کا مطلب ہے کہ بابا سائیں پہنچے ہوئے بزرگ ہیں "
"ہاں جی ہاں۔ ابھی ابھی پہنچے ہیں " دستور نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ " با با سائیں اس نیلی پوشاک والے کے بارے میں بھی کچھ بتائیں "
"کیا بتائیں ؟اس کی تو ساری عمر ہری اور سرخ جھنڈیاں دکھانے میں گزرنے والی ہے " گاڑی چلنے والی تھی۔ ریلوے گارڈ عجیب سی نظروں سے مجھے اور دستور کو گھورتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
میرا اندازہ درست نکلا تھا۔ دستور کے اکلوتے روم میٹ (room-mate (کا جہلم سے آگے کے کسی شہر میں تبادلہ ہو گیا تھا اور وہ اسے الوداع کہنے کے لئے اسٹیشن پر آیا تھا۔ کمال کی بات یہ تھی کہ جس ڈبے میں دستور نے اپنے دوست کو چڑھایا تھا، اسی ڈبے سے میں اُترا تھا۔ یہ جان کر کہ مجھے رہنے کا ٹھکانہ ابھی ڈھونڈنا ہے ، اُس کی مسرت قابلِ دیدنی تھی۔ اکیلا پڑنے سے پہلے ہی اسے روم میٹ مل گیا تھا۔ بہاولپور میں دستور کے ساتھ پہلی ملاقات کی طرح لا ہور کی پہلی ملاقات میں بھی میرے پاس رہنے کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ دستور کے ساتھ اپنی اچانک ملاقات کو تائیدِ ایزدی سمجھ کر ، میں اس کی پیشکش کو ٹھکرا نہیں سکا۔
" چلو ، گاڑی لے لیں اور گھر چلیں " اس نے کہا۔
میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور اس کے ساتھ چل دیا۔ اس کے منہ سے گاڑی کا لفظ سن کر مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ "تو کیا دستور نے گاڑی خرید لی ہے ؟" میرے ذہن میں سوال اٹھا اور اس سے کیا ہوا برسوں پر انا عملی مذاق بھی یاد آ گیا تھا۔
ہوا یوں کہ کسی کمپنی نے اپنے صابن کی ٹکیاؤں میں دو گاڑیوں کی چابیاں ڈالنے کا اشتہار جاری کیا تو دستور نے بطورِ خاص وہ صابن خریدنا شروع کر دیا۔ ایک روز میں نے مذاقاً اس کی صابن کی ٹکیا میں ایک عام سی چابی چھپا دی۔ چھپائی ہوئی چابی دوسرے یا تیسرے دن دستور کو مل گئی۔ گاڑی کی چابی ملی تو مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ بعد میں یہ راز کھلنے پر کہ اُسے ملنے والی چابی اصلی نہیں ہے تو خفت اور مایوسی نے دستور کو بے حال کر دیا۔ تب اس نے قسم کھا کر کہا تھا کہ طوہاً یا کرہاً میں بہت جلد اس گاڑی سے کہیں بڑی اور بڑھیا گاڑٰی لے کر رہوں گا۔ لے کر رہوں گا۔ لے کر رہوں گا۔ خواہش پالنا کوئی غیر فطری بات نہیں مگر دستور اس دن سے بالکل بدل گیا تھا۔ اس نے ہر بات کو نفع و نقصان کے پیمانے سے ناپنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے اس جنون کی وجہ سے اس بات میں تو کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کسی نہ کسی گاڑی حاصل کر لے گا مگر اتنی جلدی گاڑی خرید لے گا ، اس بات کی توقع نہیں تھی۔
"تو کیا دستور نے گاڑی لے ہی لی ہے ؟" میرے ذہن میں سوال اُبھرا۔ میں اس سے گاڑی کے بارے میں پوچھنے ہی والا تھا کہ وہ سائیکل اسٹینڈ کے پاس پہنچ کر رک گیا۔
"تم ، یہیں ٹھہرو۔ میں سائیکل لے کر آتا ہوں "
ہت تیرے کی، کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ میری سوچوں کو خود بخود لگام لگ گئی۔ منہ کا ذائقہ بے وجہ کڑوا ہو گیا۔ لا ہور میں آ کر دستور نے سائیکل خرید لی تھی اور گاڑی سے اس کی مراد سائیکل تھی۔ کچھ نہ ہونے سے سائیکل بہر حال بہتر تھی۔ اس نے مجھے سائیکل پر بٹھا لیا اور سائیکل دوڑانا شروع کر دی۔ دس پندرہ منٹوں کی پیڈل ماری کے بعد ہم جس سڑک پر پہنچے ، اس کے دونوں طرف سینما گھر ہی سینما گھر تھے۔ ایک نسبتاً پرانے سینما گھر کے سا منے پہنچ کر اس نے سائیکل روک لی۔
" منزل آ گئی ہے "اس نے اعلانِ عام کر دیا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ ہمارے دائیں ، بائیں ، اوپر یا نیچے کسی طرف بھی کوئی رہائشی مکان نہیں تھا۔
" تم سینما گھر کے اندر رہتے ہو؟ " میں نے سینما گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
" نہیں سا ئیں ، اس سینما گھر کے عقب میں ہمارے گاؤں کے شاہ صاحب کی کوٹھی ہے۔ اس کوٹھی میں ایک کمرہ مجھے بھی مل گیا ہے۔ وہیں رہ رہا ہوں۔ ویسے میں اس سینما میں بھی رہ سکتا ہوں کہ یہ سینما بھی ہمارے شاہ صاحب کی ملکیت ہے۔ شودا ، ڈھاہڈا چنگا ، تے ڈھاہڈا غریب پر ور بندہ اے " بات کرنے کا دستور کا اپنا ہی ڈھنگ تھا۔
دو سینما ؤں کے درمیان کی پتلی گلی سے گزرتے ہوئے ہم کوٹھی تک آ گئے۔ کوٹھی کا گیٹ کھلا تھا۔ دستور نے گیٹ پار کیا کوٹھی اور کوٹھی کی چار دیواری کے بیچ کی راہداری سے گزرتا ہوا، مجھے کوٹھی کے پچھواڑے میں لے آیا۔ ہمارے سامنے ایک وسیع و عریض میدان تھا۔ پورے کے پورے میدان میں پکی اینٹوں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ کوٹھی کی بلند چار دیواری کے ساتھ ساتھ اُگائے گئے بلند و بالا سفیدے کے درختوں نے ماحول کو خاصا پر اسرار بنا دیا تھا۔ میدان کے آخر میں کمروں کی ایک قطار تھی۔ عمارت سے دور ترین کمرہ اپنی دوری کی وجہ سے مویشیوں کے زیرِ استعمال تھا۔ اِس کمرے کے ساتھ والے کمرے میں مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے والے رہ رہے تھے۔ اَگلا کمرہ دستور کا تھا۔ بعد والے تین چار کمروں میں شاہ صاحب کے مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ آخری کمرہ خاص مہمانوں کے لئے مخصوص تھا اور اس کمرے کا ایک دروازہ کوٹھی کے اندر کھلتا تھا۔ میدان صاف ستھرا تھا مگر کشادگی اور بلند دیواروں میں گھرے ہونے کی وجہ سے اس پر کسی آسیب زدہ ویرانے کا گمان گزرتا تھا۔
"دستور! تم اس قسم کے ویرانے کیسے ڈھونڈ لیتے ہو؟ "
"میں کہاں ڈھونڈتا ہوں ، سائیں !ویرانے خود مجھے ڈھونڈ لیتے ہیں "
"کچھ کہا تم نے ؟ " بیک وقت ہم دونوں کے منہ سے نکلا مگر کسی ن بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ میرے دل میں دستور کے نئے کمرے کے حوالے سے کچھ کہنے کی خواہش جاگی تو تھی کہ مگر بات لبوں تک آنے سے پہلے ہی مر گئی تھی۔
چار سال پہلے جب قصبہ ، بچپن اور بچپن کے ساتھی ایک ساتھ مجھ سے چھوٹ گئے تھے تو دستور اور نواز نے مجھے نئے شہر سے متعارف کرایا تھا۔ اجنبی گلیوں میں چلنا اور کھل کر ہنسنا سکھایا تھا۔ یہ بتایا تھا کہ بات سے بات کیسے نکالی جاتی ہے ؟ جملہ کیسے اچھالا جاتا ہے اور یہ بھی کہ تیر نشانے پر لگنے کی بجائے واپس لوٹ آئے تو اسے کس طرح خندہ پیشانی سے وصول کیا جاتا ہے ؟نئے شہر اور کالج میں بہت سے نئے لوگ ملے تھے۔ سب کچھ اپنا اپنا لگنے لگا تھا۔ دل بہل گیا تھا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ اب سب کچھ یونہی رہے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
مگر سب کچھ یونہی کہاں رہتا ہے ؟
دستور کا بہاولپور چھوڑنا گویا آغازِ جشنِ خزاں تھا۔ آشنا چہرے تتر بتر ہونے لگے۔ زندگی پھر سے ریل گاڑی کا سفر بن گئی۔ ہر اسٹیشن پر کچھ لوگ سوار ہوتے اور کچھ لوگ اُتر جاتے۔ ہر لمحہ بیک وقت ، ملنے اور بچھڑنے کا لمحہ رہا۔ ہر قہقہہ اپنے ساتھ آنسو بھی لاتا رہا۔ میری زندگی کے سفر میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ بچھڑنے والوں میں سے کوئی دوبارہ مل گیا ہو۔ میں اس روشن لمحے کی حلاوت میں کسی تلخی کا زہر نہیں گھولنا چاہتا تھا۔
"کیا سوچ رہے ہو؟"
"کچھ نہیں "
"کچھ نہیں ؟یہ کیا بات ہوئی؟ سوچو سائیں کچھ سوچو "
چار سال پہلے کی طرح، اک بار پھر، میں ایک اجنبی شہر میں تھا اور دستور کے روبرو کسی طفلِ مکتب کی طرح کھڑا تھا۔ آج پھر وہ میرا راہنما تھا۔ مگر آج کے دن اور اس دن میں بہت فرق تھا۔ بچے کو کس کس جتن سے بولنا سکھایا جاتا ہے۔ وہ باتیں کرنا سیکھ جاتا ہے اور باتیں کرتا ہی جاتا ہے تو اسے باتیں کرنا سکھانے اس کی مسلسل باتوں سے تنگ آ کر اُسے چپ رہنے کی تلقین کرنے لگتے ہیں۔ بات کرنے کی آزادی ملی تو مجھ پر بات کرنے اور بات سے بات نکالنے کا جنون سوار ہو گیا۔ بہت باتیں کرنے کر خاموش رہنے میں سکون ملنے لگا تھا۔ بہت بولنا بالآخر ہر کسی کو چپ رہنا سکھا دیتا ہے۔ کوئی خاموش رہنا دنوں میں سیکھ لیتا ہے اور کسی کو یہ بات جاننے میں عمر لگ جاتی ہے۔
دن میں دستور یونیورسٹی جاتا اور شام کوکسی پرائیویٹ ادارے میں نوکری کرتا تھا۔ اُس کی تنخواہ اُس کی قابلیت کے مقابلے میں کم تھی مگر اُس کی رہائشی اور تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی تھی۔ وہ ایک پر حوصلہ شخص تھا اور کٹھن حالات کے باوجود مایوس نہیں ہوتا تھا۔ بات کرنے کا اس کا اپنا ڈھنگ تھا۔ مخصوص سرائیکی لہجے میں لفظوں کی ادائیگی اور ان کی ادائیگی کے درمیان ایک مخصوص ٹھہراؤ، اسے دوسروں لہجوں سے ممتاز کرتا تھا۔
"سائیں !مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مایوسی کا لفظ یاس سے نکلا ہے اور یاس ابلیس کا مادہ بھی ہے۔ خواب کا سچ ہو جانا، محبوب کا مل جانا اور مراد کا پورا ہو جانا مقدر کی بات ہے۔ مقدر میں کچھ نہیں ہے تو خواہ مخواہ دل جلانے سے کیا حاصل؟"
کچے کے مزاج اور معاشرت میں ایک مخصوص ٹھہراؤ تھا۔ کسی کو کسی کام کی جلدی نہیں تھی۔ بے پناہ محرومیوں نے کچے والوں کو صبر کی بے پناہ طاقت بھی عطا کر دی تھی۔ پیلوؤں کی چند روزہ بہار کا انتظار سال بھر چلتا تھا۔ روہی ، ریتوں ، پیلوؤں اور کھجوروں کو خوشیوں کا استعارہ بننے میں صدیاں لگی تھیں۔ چولستان میں بھیڑوں اور بکریوں کو ہانکتے ہوئے چروا ہے ، اونٹوں کی مہاریں تھامے ہوئے اور صدیوں پرانے گیت گاتے ہوئے شتر بان، اپنے آپ میں چلتی پھرتی تاریخ دنوں میں نہیں بنے تھے۔ نسل در نسل منتقل ہوتے رہنے والے دکھ ، ان کے لئے بوجھ نہیں تھے بلکہ ان کا اثاثہ تھے۔ یہ لوگ کسی گمشدہ تہذیب کی گمشدہ کڑی نہیں تھے بلکہ ایک تہذیب کا تسلسل تھے۔
بخار ہوتا یاسر میں درد ہوتا ، ان کے پاس بس ایک ہی سیدھا سادھا علاج تھا۔ اُسے گاؤں کے سب سے بوڑھے بزرگ کے پاس لے جاتے۔ وہ کچھ پڑھتا اور پھونک مار دیتا۔
"وہ کہتا ہے ، ہو جا اور ہو جاتا ہے "
زیادہ لوگ شفا یاب ہو جاتے۔ کوئی کوئی وقت سے پہلے مر بھی جاتا۔ آنسو بہتے مگر تسلیم و رضا کا فلسفہ صبر عطا کر دیتا۔ ہزاروں افراد میں چند افراد ہی جانتے تھے کہ بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں جو مرتے ہوئے انسانوں کو موت کے منہ سے نکال سکتے ہیں۔ تاہم مسیحائی کرنے سے پہلے وہ اپنی مسیحائی کی قیمت وصول کر لیتے ہیں۔ قوتِ مسیحائی مفت میں تو نہیں بٹتی تھی۔ اسے حاصل کرنا پڑتا تھا اور قیمت ادا کر سکنے والے ، اِسے ہر قیمت پر حاصل کرتے تھے۔ بچنے والے کے پاس ادا کرنے کے لئے قیمت ہو تو مسیحائی کرنے والے اُسے بچا لیتے ، جیب خالی ہو تو اُسے اُوپر والے کی رضا پر چھوڑ دیتے۔
"آخر وہی تو ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ "
دستور" کچے " کا رہنے والا تھا۔ صدیوں سے دریاؤں کے کنارے کنارے آباد ہری پٹی"کچا " کہلاتی تھی۔ بر وقت بارش ہو جاتی یا مناسب حد میں سیلابی پانی خشکی پر چڑھ آتا تو کچے والوں کے وارے نیارے ہو جاتے۔ کھیت خوشوں سے اور دل خوشیوں سے بھر جاتے۔ ایسا نہ ہوتا تو ضروری کام اگلے سال تک موخر کر دئیے جاتے۔
کوٹ مٹھن پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع تھا اور پانچ پانیوں کی مٹھاس یہاں کے رہنے والوں کے لہجے اور گیتوں میں گھل مل گئی تھی۔ خواجہ غلام فریدؒ کا کوٹ مٹھن اس علاقے کا تہذیبی دارالخلافہ تھا۔ خواجہ ؒ کی کافیاں دکھی دلوں کے لئے ایک دعا تھیں۔ محبت ایک دستور تھا۔ دستور محبت کے دستور کا پابند تھا۔ وہ اپنے خوابوں کی انگلی پکڑے پکڑے پکے کے علاقے میں آ نکلا تھا مگر سانس کچے کی فضاؤں میں لیتا تھا۔ محبت اس کے خون میں یوں رچ بس گئی تھی کہ وہ مجھ جیسے اجنبی کو پناہ دینے پر مجبور تھا۔ صحراؤں اور ویرانوں میں کوئی کتنے دن اکیلا رہ سکتا ہے۔ دستور کا کہنا تھا۔
"سائیں !سفروچ ہک توں ڈو چنگے ہوندے نے "
اب پھر حالات نے ہمیں اکٹھا کر دیا تھا تو انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ شاہ صاحب اس سے واجبی سا کرایہ لیتے تھے۔ ہاں !یہاں رہنے والوں کی لئے اپنی آنکھیں اور زبان بند شرط رکھنا تھا اور شاہ صاحب کے خاص مہمانوں کی آمد و رفت کو راز رکھنا ضروری تھا۔ اگر ان کے بارے میں کسی پوچھ پڑتال کی صورت میں ، یہ لوگ شاہ صاحب کے مہمانانِ گرامی نہیں ہوں گے بلکہ اس کمپاؤنڈ ( Compound) میں رہنے والوں کے عمومی اور عوامی مہمان ٹھہریں گے۔ بات"میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو" والی تھی۔ شا ہوں اور بادشاہوں کی باتیں عجیب ہوتی ہیں اور غریب غرباء کے پلے نہیں پڑتیں۔ بادشاہ اکثر و بیشتر بادشاہوں سے بادشاہوں والا اور رعایا سے رعایا والا سلوک کرتے ہیں۔
مجھے وہاں رہتے ہوئے تین ہفتے ہو چکے تھے۔ اس دوران نہ تو شاہ صاحب تشریف لائے تھے اور نہ ہی ان کا کوئی خاص مہمان آیا تھا۔ خالی کمپاؤنڈ کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ ہم بھینسوں کا تازہ دودھ وافر مقدار میں پی پی کر" ڈشکرا"گئے تھے۔ میرے خالی ذہن میں خالی کمروں کو دیکھ کر ایک سوال اٹھا" تین ہفتوں میں کوئی مہمان تو آیا نہیں ، کمرے خواہ مخواہ خالی پڑے ہیں۔ شاہ صاحب انہیں کرائے پر کیوں نہیں اٹھا دیتے "میں نے یہ سوال دستور سے پوچھا تو وہ ہنس دیا۔
" ارے مورکھ!شاہ صاحب گدی نشین ہیں ، زمیندار ہیں اور دو سینماؤں کے مالک ہیں۔ انہیں کمرے کرائے پر اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ؟وہ تو مجھ سے بھی تھوڑا سا کرایہ اس لئے لیتے ہیں کہ مفت میں رہنا میرے ضمیر پر بوجھ نہ بنے۔ شودا ڈھاہڈا چنگا ، تے ڈھاہڈا غریب پر ور بندہ اے ، سائیں !"
ایک چھوٹے سے قصبے سے ایک بڑے شہر اور ایک بڑے شہر سے بہت بڑے شہر کے سفر میں مجھے نواز اور دستور کے علاوہ کسی اور فرد سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔
ٹو۔ ان۔ ونtwo In One) )قسم کے کردار تو عام تھے مگر تھری۔ ان۔ ون ( (three In Oneقسم کا کردار میں پہلی بار دیکھنے جا رہا تھا۔ میں نے فلموں میں ایسے کردار دیکھے تھے یا پھر ایسے "وڈے اور ڈھاہڈے " آدمیوں کے بارے میں کتابوں میں کچھ پڑھ رکھا تھا۔ چند ایک کو چھوڑ کر ایسے آدمیوں کی اکثریت شرفاء کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔
دستور، کوٹ مٹھن اور شاہ صاحب کو ملا جلا کر میرے ذہن میں اس "شودے ڈھاہڈے چنگے تے ، ڈھاہڈے غریب پر وربندے "کی جو تصویر بنتی تھی ، وہ سفید پگڑی اور لمبی گھنی داڑھی والا ایسا شخص تھا، جس کی تسبیح اس کے گھٹنوں تک لٹکی ہوئی تھی۔ ایسے چہرے مہرے والے افراد تو میں نے بہت دیکھے مگر ان میں کوئی بھی کسی سینما کا مالک نہیں تھا۔ شاہ صاحب آنے کی خبر کے ساتھ ہی ویرانے میں گویا بہار آ گئی۔ اس بر جستہ محاور ے کا استعمال میں نے دستور کے سامنے کیا تو وہ مسکرا کر کہنے لگا " سائیں ، شاہ صاحب کو ایسا ویسا نہیں سمجھو ، ان کی پہنچ بہت دور دور تک ہے ، اگر وہ چاہیں تو بہار بقلم خود آ بھی ّ سکتی ہے۔ کمروں کی جھاڑ پونچھ اور مہمانوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔ ان مہمانوں میں مرد کم اور عورتیں زیادہ تھیں۔ ان چلتی پھرتی اشتہار نما عورتوں کو دیکھ کر شاہ صاحب کے اعلیٰ ذوق کی داد ، دینا پڑتی تھی۔ جوں جوں شاہ صاحب کے آنے کا دن قریب آتا چلا جا رہا تھا، دستور کچھ فکر مند دکھائی دینے لگا تھا۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اس نے قہقہہ لگایا اور بولا" سائیں ! مجھے تو بہت فکر ہو رہی تھی کہ شاہ صاحب سے تمہارا تعارف کس حیثیت سے کراؤں گا مگر یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ تم ٹھیک ٹھاک لکھتے ہو۔ انگریزی فلموں کو ناظرین سے متعارف کرانے کے لئے فلم کی کہانی کا خلاصہ مشتہر کیا جاتا ہے۔ تم مترجم ہو اور اس کام کے ماہر ہو۔ واہ بھئی واہ "
" مگر میرا تو ایسا کوئی تجربہ نہیں ہے "
"سائیں !اس کام میں تجربے کی کیا ضرورت ہے ؟یہ تو پندرہ بیس دلکش لفظوں کا ہیر پھیر ہوتا ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو فلم کی کہانی سمجھانا نہیں ، انہیں فلم دیکھنے پر اکسانا ہوتا ہے ، بات آئی سمجھ میں ؟تم آج سے ایک زبردست اور منجھے ہوئے مترجم ہو "
دستور کا یہ روپ میرے لئے بالکل نیا تھا۔
کیا لاہور کی فضا نے دستور کی کایا کلپ کر دی ہے ؟
صادق ایجرٹن کالج کے پرنسپل صاحب مذاقاً کہا کرتے تھے "سائیں ، بہاولپور ، دا، بندہ لوہدھراں تے سمے سٹے توں پر اں لنگ جاوے تے پر دیسی تھیں جاندا اے "(سائیں۔ بہاولپور کا رہنے والا لوہدھراں اور سمہ سٹہ عبور کرتے ہی پر دیسی ہو جاتا ہے )۔ وہ بالکل سیدھا سادھا آدمی تھا۔ یہ باتیں اس کے مزاج کے خلاف تھیں۔ میں جانتا تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہا تھا۔ مگر کیا یہ واقعی ضروری تھا؟ضروری ہے تو وہ ایسا کر رہا ہے ناں۔ میں نے اپنے آپ کو سمجھایا اور پھر شاہ صاحب کی آمد کی خبر نے مجھے ان سوچوں سے نجات دلا دی۔
شاہ صاحب کو دیکھ کر مجھے خاصی مایوسی ہوئی۔ وہ میرے ذہن میں بنی ہوئی اپنی تصویر سے یکسر مختلف تھے۔ داڑھی ، مونچھ چٹ شاہ صاحب کی عمر دستور کی عمر سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ نہ تو سر پر کوئی پگڑی تھی اور نہ ہی ان کے ہاتھ میں کوئی تسبیح تھی۔ انہیں دیکھ کر ایک مشہور سگریٹ پاسنگ شو (passing Showکی ڈبیا پر بنی تصویر یاد آ جاتی تھی۔
خوش لباسی کے علاوہ انہیں اداکاری کا شوق تھا۔ مگر ان کا چہرہ ہیرو کے روایتی چوکھٹے میں فٹ نہیں ہوتا تھا اور ولن کا کردار انہیں قبول نہیں تھا۔ تنگ آ کر انہوں نے فلم سازی کی ٹھان لی تھی اور ان کے مہمانوں کی اکثریت اسی فلم سازی کے شوق سے متعلق تھی۔ فلموں میں کام کرنے کے شوقین، دور و دراز سے آتے۔ جلد ہی انہیں احساس ہو جاتا کہ کیمرہ اور کمرہ ٹیسٹ دونوں میں پاس ہونا آسان نہیں ہے۔ اکیلے آئے ہوئے مرد تو ساتھ لائی ہوئی پونجی کے ختم ہوتے ہی واپس چلے جاتے مگر محبت کی ڈور میں بندھ کر گھر سے بھاگ کر آئے ہوئے لڑکے لڑکیوں کے لئے مشکل بن جاتی۔ اداکاری کا شوق انہیں نہ تو گھر کا اور نہ ہی گھاٹ کا رہنے دیتا۔
شاہ صاحب کا مہمان خانہ انہی بے آسرا لوگوں کے لئے آخری سے پہلی جائے پناہ تھی۔ ڈیرہ داری کچے کے علاقے کی روایت تھی۔ ہر گاؤں میں ایک مہمان خانہ ضرور ہوتا تھا۔ مہمان خانے میں بیک وقت درجنوں مہمان قیام کر سکتے تھے۔ کوئی بھی مہمان یہاں رات کے لئے رک سکتا تھا۔ چارپائی، بستر، حقہ اور کھانا مانگے بغیر حاضر کر دیا جا تا تھا۔ مواصلات کی جدید سفری سہولتوں سے محروم ان علاقوں میں پیدل سفر کرنا مجبوری تھا اور پیدل سفر میں مناسب فاصلے پر پڑاؤ کی سہولت ایک ضرورت تھی۔ صدیوں سے مروج اس نظام میں فصل کی کٹائی کے وقت حصص کی تقسیم سے پہلے دو سیر فی من کے حساب سے ڈیرے کا حصہ الگ کر لیا جاتا تھا۔ اس طرح مہمان خانے کا کم و بیش نصف خرچ گاؤں والی مل کر اور باقی کا نصف خرچ، وڈیرے ادا کرتے تھے۔ مگر اس مہمان خانے کا عمومی خرچہ "جنس کے بدلے جنس "کے اصول پر شاہ صاحب اکیلے برداشت کرتے تھے۔
جنس کے بدلے جنس کے تصور نے ہی شاید " وٹے سٹے " کی شادیوں کی ضرورت کو جنم دیا تھا۔ بازو دے دو، بازو لے لو۔ تم چٹکی کا ٹو گے ، تمہیں چٹکی کاٹی جائے گی۔ تم پتھر مارو گے ، تمہیں پتھر مارا جائے گا۔ جنگل میں جنگل کا قانون ہی چل سکتا تھا۔ زندگی کو آسان رکھنے کے لئے نظام بھی فول پروفfool-proof) ) ہونا چاہئے۔ آسانیوں کی عادت راسخ ہو جائے تو پھر "دوا"کی جگہ بھی "دعا " لے لیتی ہے۔ تن آسانی کے بعد والا مرحلہ تالی والا مرحلہ ہوتا ہے۔ تالی بجا دو۔ تالی تعریف اور مذمت دونوں صورتوں میں ایک سا اثر دکھاتی ہے۔
"ملکۂ ہند نور جہاں نے دھوبن کے شوہر کو تیر سے نشانہ لگا کر ہلاک کیا ہے۔ شہنشاہِ ہند انصاف کریں گے۔ ابھی تھوڑی دیر میں قاتلہ کا شوہر یعنی شہنشاہِ ہند نشانے پر کھڑا ہو گا۔ دھوبن بھی قاتلہ کے شوہر کو تیر سے نشانہ لگا کر ہلاک کر سکتی ہے " سینما ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ بادشاہ سلامت تختِ شاہی سے اٹھ کر ہدف پر آن کھڑے ہوتے ہیں۔ سینما ہال پھر تالیوں سے گونج اٹھتا ہے مگر دستور کی تالیاں تو رکنے کا نام ہی نہیں آتیں۔ نواز اسے ٹوکتا ہے "ارے گدھے !بند کر یہ تالیاں۔ دھوبن فقط کپڑے دھونے کا ہنر جانتی تھی ، تیر اندازی کا نہیں۔ تیر اندازی تو اس کے مقتول شوہر کو بھی نہیں آتی ہو گی؟اگر اُسے تیر اندازی آتی ہوتی تو اسی وقت اپنا بدلہ نہ چکا لیتی۔ مگر اس صورت میں تاریخ اکبر جیسے ذہین و فطین بادشاہ" انصاف کے ایک سنہری، تاریخی اور فلمی واقعے سے محروم رہ جاتی" نواز نے ساری فلم کا مزہ کرکرا کر دیا تھا۔
دستور کی حیثیت اِس کھیل کے ناظم الامور کی تھی۔ وہ غیر ارادی طور پر یہ عہدہ قبول کر چکا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ دستور ، اس کھیل کا اہم حصہ ہونے کے باوجود ، یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ کوئی اسے اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا "سائیں ، ہمیں اس سے کیا ؟ یہ تو پیسے والوں کے چونچلے ہیں۔ ہمیں ان سے کیا لینا دینا ہے ؟وہ جانیں اور ان کا کام۔ ہمیں تو اور سال چھ مہینے یہاں گزارنا ہے۔ ڈگری ملنے تک ہم یہاں ہیں۔ ڈگری ہاتھ میں آئی تو ہم گئے۔ "
اس کے خلوص میں کوئی شک نہیں تھا۔ وہ ایک کھرا آدمی تھا مگر ابھی تک صدیوں پر انی روایات کے مخصوص دائرے سے باہر نہیں نکلا تھا اور میری مطالعے کی عادت میرا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔ میرا بیشتر وقت لائبریریوں میں گزرتا تھا اور حالات کے تحت بدلتے ہوئے انسانی رویوں کی سچی جھوٹی کہانیوں کا مطالعہ مجھے پر کھ کی کسوٹی کا ادراک عطا کرتا رہتا تھا۔ تشکیک میرے مزاج کا حصہ بننے لگی تھی۔
راحیلہ نے میرے ساتھ اپنا تعارف خود کرایا تھا۔ "میں راحیلہ ہوں اور دستور کی ہونے والی منگیتر ہوں "دستور کو اچانک گاؤں جانا پڑ گیا تھا اور وہ اس کی بلا اطلاع غیر حاضری سے پر یشان ہو کر اسے ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے گھر تک آ گئی تھی۔ میرے دروازہ کھولنے پر وہ بلا خوف اندر گھس آئی تھی۔
چھریرے بدن کی دھان پان سی ، راحیلہ، چہرے مہرے سے بمشکل میٹرک کی طالبہ لگتی تھی۔ وہ دستور کی منگیتر ہو سکتی ہے ، میرے لئے نا قابلِ یقین بات تھی۔ سالہا سال ایک ساتھ گزارنے کی وجہ سے ، ہمارا کوئی راز ایک دوسرے سے چھپا ہوا نہیں تھا۔ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اسے میرے تذبذب کا اندازہ ہو گیا تھا۔
"آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ کو جانتی ہوں۔ آپ کا نام ریاض ہے اور آپ بہاولپور سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ بیں اور دستور ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں۔ دستور آپ کے بارے میں باتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کی باتیں سن سن کر میں نے آپ کی جو تصویر بنائی ہے ، اس کے مطابق آپ ایک دوستی نبھاہنے والے مگر بزدلی کی حد تک محتاط انسان ہیں۔ ہم ڈرپوک نہیں ہیں اور ہمارا بہت جلد شادی کرنے کا ارادہ ہے۔ ہم عہد کر چکے ہیں کہ ہم ایک ساتھ جئیں گے یا پھر ایک ساتھ مریں گے۔ دستور گاؤں گیا ہے تو اپنے کسی بڑے کو میرے ماں باپ سے میرا رشتہ مانگنے کے لئے ضرور ساتھ لائے گا"
 

الف عین

لائبریرین
چھریرے بدن کی دھان پان سی ، راحیلہ جو اپنے چہرے مہرے سے بمشکل میٹرک کی طالبہ لگتی تھی محبت اپنی عمر سے کہیں بڑی بات کر رہی تھی۔ وہ یا تو بہت زیادہ فلمیں دیکھتی تھی یا پھر سطحی قسم کی رومانی کتابوں سے بہت زیادہ متاثر تھی۔ محبت میں "لگے "جانے کے جراثیم عام طور پر یہیں پھولتے پھلتے اور یہیں سے پھیلتے تھے۔
"آپ اپنی عمر سے کچھ زیادہ بڑی بات نہیں کر رہیں ؟"
"نہیں۔ "وہ مسکرا کر بولی"میں جو کچھ کہہ رہی ہوں سوچ سمجھ کر کہہ رہی ہوں۔ ویسے میں اتنی چھوٹی نہیں ہوں ، جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ مَیں یونیورسٹی میں دستور سے ایک سال سینئر(senior)ہوں۔ "
"میں انگلش میں ایم۔ اے۔ کر رہی ہوں "
"رومانویت اور کلا سکس(classics)کا دور گزر نہیں چکا؟"
"جی نہیں۔ اہلِ دل ہر دور میں اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ "
راحیلہ کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اُسے دستور پر اندھا اعتماد تھا۔ ان کے درمیان دوستی تھی یا کہ عشق کا رشتہ بے پناہ تھا۔ اپنے رانجھے کے لئے چُوری کی بجائے ، وہ اپنے ساتھ کچھ زنانہ سوٹ اور دوسرے تحائف بھی لائی تھی۔ دستور کی طرف سے اُس کے گھر آنے والا شخص کو خالی ہاتھ نہیں آنا چاہئے تھا۔ وہ دستور کے دیہاتی پس منظر سے واقف تھی اور اسے اپنے ماں باپ کی نظروں میں ہر طرح سے سرخرو دیکھنا چاہتی تھی۔ یہ بات راحیلہ کی دانائی اور ان کی محبت کی گہرائی کا ثبوت تھی۔ بہت دیر تک وہ اپنے اور اپنے بہن بھائیوں کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ اس کے گھر والے اس سے بہت پیار کرتے تھے اور اس کی خوشی کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار تھے۔ اسے یقین تھا کہ اس کے گھر والے ، اس کی اور دستور کی شادی کیلئے رضامند ہو جائیں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ ساتھ وہ دنیا داری کے تقاضوں پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ جیت کے پختہ یقین کے باوجود وہ ہارنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔
دستور ایک ہفتے کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ اس کا باپ بھی تھا۔ دستور بہت خوش تھا کہ اس کے گھر والوں کو راحیلہ کے ساتھ اس کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ رشتہ کے لئے راحیلہ کے گھر جانے سے پہلے راحیلہ نے خود دستور کے باپ کو اپنے گھر کے طور طریقوں سے آگاہ کیا۔ آدابِ سوال سکھائے اور نشانے سے پلٹ کر آنے والے جوابی تیروں سے بچنے کے گر سکھائے۔ مگر جب دستور کا باپ راحیلہ کے گھر سے واپس آیا تو اس کا منہ اترا ہوا تھا۔ راحیلہ کے گھر والوں نے دستور کا رشتہ ٹھکرا دیا تھا۔ دستور ایک چھوٹی سی نوکری کر رہا تھا اور کسی طرح بھی ان کے معیار پر نہیں اترتا تھا
" مگر وہ ایم ایس۔ ای بھی تو کر رہا ہے "دستور کے باپ نے راحیلہ کے باپ کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
"ایم۔ ایس۔ ای۔ کر لینے کے بعد اس نے کون سا تیر چلا لینا ہے ؟" راحیلہ کے والد کا جواب تھا
رشتہ کے ٹھکرائے جانے سے دستور کو بہت مایوسی ہوئی تھی۔ راحیلہ کے کہنے پر ، وہ بڑی بڑی باتیں کر کے اپنے باپ کو گاؤں سے لے کر آیا تھا۔ خالی ہاتھ لوٹنا خاصی شرمندگی کی بات تھی۔ راحیلہ اس کے بعد بھی آتی رہی۔ اس نے ابھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ اسے امید تھی کہ اس کے والدین جلد یا بدیر رضا مند ہوہی جائیں گے۔ ان کی رضامندی بس تھوڑے وقت کی بات تھی۔ مگر دستور انتظار کے حق میں نہیں تھا۔ " سائیں ! انتظار چنگی شے کائی نہیں " اس کا ایک طرح سے تکیۂ کلام تھا۔ دستور نے اسے کورٹ میں سول میرج کی تجویز دے ڈالی مگر راحیلہ ڈولی میں بیٹھ کر اپنے گھر سے وداع ہونا چاہتی تھی۔
"اب ایسا ممکن نہیں ہے " دستور کا کہنا تھا۔ وہ ایک بار اپنے باپ کو راحیلہ کے گھر بھیج کر بے عزت کرا چکا تھا اور اب سول میرج کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ یہ بات راحیلہ کو منظور نہیں تھی۔ جب بھی وہ ملتے بات کہیں سے کہیں نکل جاتی۔ محبت کا بھوت اتر نے لگا تھا۔ ملاقاتیں کم ہوتیں ہوتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئیں۔ دستور نے ماسٹرز ڈگری حاصل کر لی۔ دستور کو ایک اچھا کام مل گیا۔ اس نے ایک بار پھر راحیلہ کے ماں اور باپ کو رضا مند کرنے کوشش کی مگر ان جواب وہی پر انا تھا۔ لڑکا لڑکی کے جوڑ کا نہیں۔ راستے الگ الگ ہو چکے تھے۔
محبت کی آگ کی رہی سہی چنگاریاں بھی بجھ چکیں تھیں۔ مگر محبت کے اس کھیل کو ابھی ختم نہیں ہونا تھا۔ معلوم نہیں امریکہ والوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے ماسٹرز ڈگری والوں کو گرین کارڈ (green Card) دینا شروع کر دیا۔ دستور کے پاس بھی ماسٹرز ڈگری تھی اس کی بھی لاٹری لگ گئی۔ جوں جوں ویزے کا حصول ممکن ہوتا گیا اس کی زندگی کے پلان بدلتے گئے۔ امریکہ میں جا کر تھک محنت، ایک بہت بڑا بینک اکاؤنٹ، واپس آ کر گاؤں میں ایک بہت بڑی کوٹھی اور اس کوٹھی میں ایک زبردست بیوی۔ دوستوں کو دستور کی ساری باتیں سمجھ آتیں تھیں مگر "زبردست بیوی"اور "گاؤں میں بڑی کوٹھی " کی سمجھ نہیں آتی تھی۔
" بیوی والی بات تو میں ابھی تمہیں نہیں بتاؤں گا مگر گاؤں میں کوٹھی والی بات یہ ہے کہ بڑے شہر وں میں تو پہلے ہی بہت بڑی بڑی کوٹھیاں ہیں۔ ایک اور بن جائے گی تو کسی کو کیا؟۔ گاؤں میں چھوٹی کوٹھی بھی بن گئی تو کچے میں دھوم مچ جائے گی" دستور کو کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں تھا ، وہ تو ایک عملی آدمی تھا۔
نقل مکانی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ دستور کی امریکہ کو روانگی سے کچھ روز پہلے ، اس بات کی خبر راحیلہ اور اس کے گھر والوں کو بھی ہو گئی۔ راحیلہ کے گھر والوں کے لئے دستور یکا یک قابلِ قبول ہو گیا تھا۔ لڑکی والوں نے جھٹ پٹ ایک مصالحاتی وفد ترتیب دیا اور دستور کے گاؤں کو روانہ کر دیا۔ دستور کا دیہاتی باپ لڑکی والوں کی بات نہیں ٹال سکا اور اس نے رشتہ قبول کر لیا۔ مگر دستور اب اس شادی پر رضا مند نہیں تھا۔ محبت کا حساس پود اپنی بقا اور نشو و نمو کے لئے مسلسل توجہ مانگتا ہے اور لگاتار ریاضت کا تقاضہ کرتا ہے۔
دید کا طلسم ٹوٹ جائے تو آنکھیں نئے منظر ڈھونڈنے لگتیں ہیں۔ جذبوں کا تسلسل ٹوٹ جائے تو فکر کی ریشمی ڈوری میں گانٹھیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسی گانٹھیں جنہیں دانتوں سے بھی کھولنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیلیٰ مجنوں ، ہیر رانجھا، سوہنی مہنوال اور دوسری عشقیہ داستانوں میں کردار کے سامنے محبت کے علاوہ اور کسی"اعلیٰ"مقصد کا حصول نہیں تھا۔
دستور کو گرین کارڈ نے یکسر بدل ڈالا تھا۔ دستور کی مشکل یہ تھی کہ وہ اپنے باپ کی بات نہیں ٹال سکتا تھا اور بدلے ہوئے حالات میں راحیلہ سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے اپنی رضامندی اس بات سے مشروط کر دی کہ وہ تین سال کے بعد شادی کے لئے آئے گا مگر اس موقعہ پر راحیلہ کو ساتھ لے جانے کے لئے اس پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔ تین سال کے بعد دستور آیا۔ دھوم دھام سے شادی کی تقریبات ہوئیں اور کیوں نہ ہوتیں ؟ محبت آخرِ کار جیت گئی تھی۔ راحیلہ نے دستور کو جیت لیا تھا۔ دوستی کے پرانے دن پھر سے لوٹ آئے تھے۔ تجدیدِ عہد ہو چکا تھا۔ منزل مل چکی تھی اور سفر کی کلفتیں کہیں پیچھے رہ گئیں تھیں۔ دستور دو ڈھائی ماہ ٹھہرا اور واپس چلا گیا۔
راحیلہ کے لمبے لمبے خطوط اور دستور کے " بہت جلدی سب ٹھیک ہو جائے گا" کی قسم کے جوابوں کی مصروفیت میں دو تین سالوں کے گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ اسی دوران دستور کے باپ کی وفات ہو گئی۔ وہ آیا ، راحیلہ کو تھوڑا اور انتظار کرنے کو کہا اور چلا گیا۔ اب کی بار دستور کی طرف سے خطوں کے جواب آنے میں تاخیر ہونے لگی اور پھر جواب آنے ہی بند ہو گئے۔ راحیلہ شکایت کرتی بھی تو کس سے ؟ دستور کے باپ کی طرف سے دستور پر جو دباؤ تھا ، ختم ہو چکا تھا۔ پیار کتھا ایک بار پھر سورج گرہن کی زد میں آ گئی تھی۔
کئی سال گزر گئے مگر دستور واپس نہیں آیا۔ اس دوران راحیلہ سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہی۔ جانے والے لوٹتے کیوں نہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال تھا، جس کا جواب ڈھونڈتے ہوئے ڈر سا آتا تھا۔ حقیقتوں کی باتیں کرنا ایک بات تھی مگر حقیقتوں کا سامنا کرنا بہت حوصلہ چاہتا تھا۔ مادیت پسندی کے دور میں کوئی کب تک پیلوؤں کے موسم کا انتظار کر سکتا تھا؟بے پناہ روشنیوں اور ان گنت رنگوں کی دھوپ چھاؤں میں چند روزہ بہار اور پھیکا پیار کسے یاد رہتا ہے۔ بڑی جاگیر اور بڑی جائیدادوں کی ڈوریاں تو بلاوا بن سکتی ہیں ، خالی بلاوا ڈوری نہیں بن سکتا ہے۔ چھوٹے گھروں سے بڑے خواب لے کر نکلے ہوئے ، اس کوے کی مثال ہیں ، جنہیں خواہش کی چڑیا چھلنی تھما کر دریا سے پانی لینے روانہ کر دیتی ہے۔ سوراخ چھلنی کو بھرنے نہیں دیتے اور دریا میں پانی کی فراوانی چھلنی بھرنے کی آس ٹوٹنے نہیں دیتی۔
سفر گاؤں سے لاہور کا ہو یا لاہور سے لندن ، شارجہ یا شکاگو کا ہر سفر جدید شاہراہ کا سفر ہے۔ جدید شاہراہوں پر سفر کے خاص تقاضے ہیں۔ آپ اپنی مرضی کی رفتار پر سفر نہیں کر سکتے۔ ہر جگہ سے واپس مڑ نہیں سکتے۔ واپس مڑنے کے لئے بھی بہت آگے جانا پڑتا ہے کیونکہ ان شاہراہوں پر یو۔ ٹرن (u-turn) بنانا حفاظتی نقطۂ نظر سے خطر ناک ہوتے ہیں۔ سفر کو محفوظ بنانے کے لئے " اور ہیڈ برج " (over Head Bridge)بنانے پڑتے ہیں۔ یہ شاہراہیں بڑے شہروں کو دوسرے بڑے شہروں سے ملانے کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں اور ایک بڑے شہر کو دوسرے بڑے شہر سے قریب کر دیتی ہیں مگر واپسی کے سفر کو مشکل اور پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ تیز رفتار گاڑی میں سفر کرتے ہوئے راستے میں پڑنے والے چھوٹے گاؤں کسے یاد رہتے ہیں ؟ دو قریبی دیہات ہمیشہ کے لئے دور بھی ہو جائیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟
خوبصورت مستقبل کی خاطر سفر کرنے والے اور ان کو الوداع کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر آدم حوا کے بہکاوے میں آ سکتا ہے تو اس کے بیٹے حوا کی بیٹیوں کے وار سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ ہزار سال پہلے لکھی جانے والی داستان "الف لیلیٰ ولیلیٰ " میں بھ تو وہی کہانیاں ہیں جو سرگوشیوں میں "مغرب اور "بہت دور والے مشرق" کی آوارگیوں کی مکروہ داستانوں کے نام پر "سینہ بسینہ سفر کرتی ہیں۔ اولادِ آدم کے حیلے وہی ہیں ، بناتِ حوا کی چالاکیاں وہی ہیں۔ اس کھیل میں کبھی مرد اور کبھی عورت مظلوم ہے۔ بات اتنی ہے کہ کون کس وقت کہاں کھڑا ہے ؟
ایک ہی کمرے ، ایک ہی گھر اور ایک ہی شہر میں رہنے والے ایک جیسی آنکھیں رکھنے کے باوجود الگ الگ خواب دیکھتے ہیں۔ ایک ہی رہگزر پر چلنے والوں کی منزل کب ایک جیسی ہوتی ہے۔ ایک جیسے خوابوں کی تعبیر کب ایک جیسی ہوتی ہے۔
راحیلہ کو اور مجھے ایک ہی دن بالترتیب امریکہ اور خلیج کا ویزا ملا تھا۔ کراچی تک کا سفر ہم دونوں نے ایک ہی ہوائی جہاز میں کیا تھا۔ دونوں اپنے اپنے خوابوں کے ساتھ اپنی اپنی جنتوں سے اجنبی زمینوں کی طرف اُڑان بھر رہے تھے۔ نئی دنیاؤں میں داخلے کے پروانے پا کر ہماری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ جدائی کے ناٹک ہوائی جہاز میں داخل ہوتے ہی ختم ہو گئے تھے۔ دستور اپنی پوری کوششوں کے باوجود راحیلہ کو"بوجوہ" امریکہ نہیں بلا سکا تھا مگر راحیلہ اب خود پیا کے دیس جا رہی تھی۔ برسوں پر انا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔
میں لاہور کے دفتروں کے گھسے پٹے ، منافقانہ اور اس سے زیادہ غلامانہ نظام سے رہائی پا کر ایک نئے ملک میں از سرِ نو زندگی شروع کرنے جا رہا تھا۔ میری آنکھوں میں بھی بہت سے خواب تھے۔ خواب پورے ہونے جا رہے تھے ؟
مگر خواب کہاں پورے ہوتے ہیں ؟

 

الف عین

لائبریرین
آنکھ ، آنکھ، صحرا

"بس ایک سال اور " کرتے کرتے اور پر دیس کاٹتے کاٹتے مجھے ایک زمانہ گزر چکا تھا۔ بہت سے خواہشیں پوری ہو گئی تھیں۔ بہت سی خواہشیں ابھی ادھوری پڑی تھیں۔ بہت مصروفیتیں تھیں اور کان کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ ایسے میں ، کبھی کبھی، بچپن کا وہ کھیل یادآ جاتا تھا، جس میں دو لڑکے یا دو لڑکیاں ٹانگیں پھیلا کر اور ایک دوسرے کے پاؤں کے تلوؤں کے ساتھ تلوے ملا کر بیٹھ جاتے تھے۔ پاؤں پھیلا کر بیٹھنے والوں میں سے ایک اپنا پاؤں اٹھاتا تھا اور دوسرے کے پاؤں پر رکھ کر پکارتا تھا۔
"اک مٹھی چُک (اُٹھا ) لئی، اک اور تیار"
اس کی یہ پکار کھیل میں شریک تیسرے لڑکے یا تیسری لڑکی کو کھیل میں شمولیت کی دعوت ہوتی تھی۔ اس کو ان کی ٹانگوں کے اوپر سے پھلانگنا ہوتا تھا۔ وہ پھلانگ چکتا یا پھلانگ چکتی تو پاؤں پھیلا کر بیٹھنے والوں میں سے دوسرا اپناپاؤں اٹھا کر پہلے والوں کے اوپر رکھ دیتا اور پکارتا۔
"اک مٹھی چُک (اُٹھا ) لئی، اک اور تیار"
تیسرا پھر پھلانگتا۔ پاؤں کے بعد مٹھیاں رکھی جاتیں۔ پھلانگنے والا پھر بھی پھلانگ لیتا تو مٹھیوں کے ساتھ انگوٹھے بھی اٹھانے شروع کر دئیے جاتے۔ پاؤں ، مٹھیاں اور مٹھیوں کے ساتھ انگوٹھے اٹھانے اور ساتھ ہی ساتھ "اک مٹھی چک لئی ، اک تیار "کی پکار اس وقت تک جاری رہتی جب تک پھلانگنے والا پھلانگنے میں ناکام نہ ہو جاتا۔ باریاں ختم ہونے یا کھیلنے والوں کے تھک جانے تک یہ کھیل جاری رہتا۔
ہر کھیل کے دوران کوئی نہ کوئی ایسا لمحہ آتا ہے ، جب کھیلنے سے جی اکتا جاتا ہے۔ دل فرصت کے دنوں اور فرصت کی راتوں کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔ مگر فرصت کے دنوں اور فرصت کی راتوں کا ملنا کب کسی کے اختیار میں ہوتا ہے۔ کھیل کے ختم ہونے تک اپنی باری تو دینا پڑتی ہے۔ فریدہ عرف رضوانہ سے ملاقات نے میر ی سوچوں کی اتھل پتھل کر رکھ دیا تھا۔ خواہشیں کیسی کیسی خواب دکھاتی ہیں اور حالات کہاں پر لا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ بے خواب آنکھوں اور بے خواہش دل کے ساتھ سانس لیتے جانا شاید اسی دنیا میں جہنم ہے۔ میں فریدہ سے اپنی ملاقات کی بات نواز کو بتانا چاہتا تھا۔ وہ بھی نواز کی طرح ایک بے آس زندگی گزار رہی تھی۔ ریزہ ریزہ ہو جانے کے باوجود وہ بھی نواز کی طرح کسی اور کو اپنی طرح برباد نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ فریدہ اور نواز ناکام ہو کر بھی کامیاب تھے۔ دستور اور راحیلہ محبت کی ڈور میں از خود بندھے تھے۔ کسی نے انہیں محبت کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ ایک ہونا چاہتے تھے۔ وہ ایک ہو بھی گئے تھے۔
میں اسے دستور اور اس کی محبوبہ کے معاشقے کی ناکام"کامیابی" کی داستان سنانا چاہتا تھا۔ وہ کیوں ناکام ہوئے ؟شاید اس لئے کہ وہ اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے تھے۔ وہ طے ہی نہیں کر سکے تھے کہ کارِ محبت ضروری ہے یا کارِ جہاں اہم ہے۔ ایک ساتھ بہت سی چیزوں کے پیچھے بھاگنے سے بہت سی چیزیں مل تو جاتی ہیں مگر بہت سی ضروری کام ادھورے بھی رہ جاتے ہیں۔ ان کے لئے کون سی کامیابی زیادہ اہم تھی؟ پر ہوتے تومیں اُڑ کر بہاولپور پہنچ جاتا مگر مشورہ دینے والوں کا مشورہ یہ تھا کہ ائیرکنڈیشنڈ ریل گاڑی سے سفر کرنا مناسب رہے گا۔
بہت سال پہلے کی طرح سے ایک بار پھر میں بہاولپور کی طرف گامزن تھا مگر پہلے سفر کے تحیر کی جگہ دیکھے ہوئے اور دیکھے ہوؤں کو ایک بار پھر دیکھنے کی خواہش نے لے لی تھی۔ وہ گلیاں ، وہ کوچے ، وہ راستے ا ور وہ در و دیوار جہاں سے میں نے اس دنیا کو اپنی نظروں سے دیکھنا سیکھا تھا، ویسے ہی ہوں گے یا بدل چکے ہوں گے ؟کوئی مجھے پہچانے گا بھی یا نہیں ؟پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کی شکل و صورت ویسی ہی ہو گی یا نہیں ؟پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ سے میرا تعارف دستور نے کرایا تھا۔
دستور امریکہ کی رنگینیوں میں کھو چکا تھا اور ایسا کھویا تھا کہ اس نے راحیلہ کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
فریدہ، جس کی خاطر نواز نے اپنا دیس چھوڑ دیا تھا، پر ائے دیس میں جا کر بے نام ہو چکی تھی۔
کسی نخلستان کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے ، مجھے بھی اک عمر گزر چکی تھی۔
آنکھ آنکھ صحرا تھا اور قدم قدم سراب۔ ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کہکشاں قریہ قریہ ، شہر شہراور ملک ملک پھیلی ہوئی تھی۔ سونے کی تلاش میں نکلی ہوئی نسل کے بالوں میں چاندی اتر آئی تھی۔ نیند سے بو جھل آنکھ جگراتوں کے دشتِ بے اماں کی نذر ہو چکی تھیں۔ میں نواز کو فریدہ کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ کیا خبر، نواز وہاں ہو گا بھی کہ نہیں ؟اور نواز زندہ ہو گا بھی کہ نہیں ؟ اس نامعقول خیال کے ذہن میں آتے ہی، بے اختیارانہ میری چیخ نکل گئی۔
؂ غلام فریدا، اوتھے کیہ وسنا ں جتھے یار نظر نہ آوے
خوابوں کی تلاش میں نکلے ہوئے لوگوں میں سے کتنوں نے منزل پائی تھی ؟کتنوں نے منزل ہی بدل لی تھی۔ کتنوں نے راستے میں ہی راستہ بدل لیا تھا۔ اک حسنِ اتفاق نے ہمیں اکٹھا کر دیا تھا اور زندگی میں کامیابوں کی تلاش نے ہمیں تتر بتر کر دیا تھا۔ میرا نواز اور دستور سے ملنا کل کی بات لگتا تھا۔
میں اپنی زندگی کا پہلا سفر کر رہا تھا اور میں پچھلے سولہ گھنٹوں کے دوران ایک پل بھی سویا نہیں تھا۔ دن بھر ریل گاڑی کے سا تھ ساتھ بھاگتے ہوئے مناظر کودیکھتے دیکھتے میری آنکھوں کے پپوٹے درد کرنے لگے تھے۔ نیند کی انتہائی شدت کے باوجود میں جاگ رہا تھا۔ کسی اسٹیشن پر ریل گاڑی کے رکتے ہی مسافروں میں ہلچل مچ جاتی۔ اترنے والے مسافروں کا سامان دروازوں میں ڈھیر ہو کر نئے آنے والوں کا داخلہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیتا۔ ریل گاڑی کے اسٹیشن پر رکنے کا قلیل وقفہ، سوار ہونے والوں کو کسی کھلے دروازے کی تلاش میں گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگنے پر مجبور کر دیتا۔ آنے والے مسافروں کے استقبال کے لئے آئے ہوئے لوگوں کا ہجوم صورتِ حال کو اور پیچیدہ کر دیتا۔ بیچ بیچ میں گرم چائے ، ٹھنڈی لسی، تازہ پکوڑے ، خستہ مرمرے اور جانے کیا کیا بیچنے والوں کی آوازیں ایک عجیب سا سماں باندھ دیتیں۔
دو تین منٹوں تک قیامت کا سا منظر رہتا۔ پھر انجن وسل دیتا۔ بھاگم بھاگ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ جاتی۔ دوسری وسل کے ساتھ ریل گاڑی رینگنے لگتی۔ چھک چھک کی آواز ابھرتی۔ جانے والوں کو الوداع کہتے ہوئے ہاتھ فضا میں لہرانے لگتے اور سارا منظر جیسے ساکت ہو جاتا۔ چھک چھک ، چھک چھک پہلے چھک چھک چھکا چھک ، چھک چھک چھکا چھک اور پھر چھک چھکا چھک، چھک چھکا چھک میں بدل جاتی۔ ریل گاڑی اس اسٹیشن کو پیچھے چھوڑ کر نئے اسٹیشن کی طرف فراٹے بھرنے لگ جاتی۔ پٹڑی کے ساتھ ساتھ کی چیزیں دور کی چیزوں کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ پیچھے کی طرف ہٹتیں اور یوں لگتا کہ دور کی چیزیں پلٹ پلٹ کر پھر ریل گاڑی کی طرف آ رہی ہیں۔ ریل گاڑیوں کو انہی راستوں پر بھاگتے بھاگتے لگ بھگ سو سال پر انی ہو چلے تھے مگر ریل گاڑی کے سفر کی پر اسراریت ابھی تک جوں کی توں تھی۔ ہر روز اپنے مقررہ وقت اور مقررہ راستے سے گزرتی ہوئی ریل گاڑی کو دیکھنے والوں میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں نئی آنکھیں ضرور ہوتی ہیں۔ انہی نئی آنکھوں میں کچھ نہ کچھ پر انی آنکھیں بھی ضرور شامل ہوتی ہیں۔
لاٹھی کا سہارا کے کر چلنے والے ، کتنے ہی بوڑھے اور بوڑھیاں جو اپنے پوتوں اور پوتیوں ، نواسوں اور نواسیوں کو سینکڑوں میلوں کا سفر طے کر کے پہلی بار دیکھنے کے لئے پہلی بار اس گاڑی میں سوار ہوتے ہیں جو عمر میں ان سے کچھ ہی بڑی ہوتی ہے۔ کسے یاد تھا کہ جب پہلی ریل گاڑی اس خطے میں داخل ہوئی تھی تو کیسا غدر مچا تھا اور یہ خطہ کس قیامت سے گزرا تھا؟
کچھ نہ جاننے میں کتنی عافیت ہے ؟
جان پہچان کتنا بڑا عذاب ہے ؟
سپنے دیکھنے کی عمر میں علمِ تعبیر کے حصول کی خواہش خود پر کتنا بڑا ظلم ہے ؟
زمانے کی اونچ نیچ سے انجان ، بچپن اور نوجوانی کی سرحد پر کھڑے ، لڑکے اور لڑکیاں پہلی بار جب سیرِ جہاں کو نکلتے نہیں تو ان کے دل کس زور سے دھک دھک دھڑکتے ہیں ؟ آنکھ کا پہلا سپنا، انتظار کا پہلی رات ، دھوپ کا پہلادن جو یاد رکھتا ہے ، جیتے جی مر جاتا ہے۔ صبح و شام ، دن رات ، عید شبرات، سردی گرمی، آندھی طوفان ہر آن ہر موسم میں زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔
کھیتوں کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے کسان ریل گاڑی کو دیکھ کر ایک لمحہ کے لئے رکتے اور پھر اپنے اپنے کام میں جٹ جاتے۔ ۔ پٹڑی کے ساتھ ساتھ گھاس چرتے ہوئے جانور ، جب تک پٹڑی کے انتہائی قریب نہ ہوتے ، ریل گاڑی کا نوٹس لئے بغیر اپنی بھوک مٹانے میں جٹے رہتے۔ دن ، رات، کھیت ، کھلیانوں اور مالک کسانوں کی طرح ریل گاڑیاں بھی شاید ان کے معمولات کا حصہ بن چکی تھیں۔ بچے ، البتہ ریل گاڑی کو دیکھ کر رک جاتے اور اسے دیکھنے لگتے ، چند ایک ہاتھ بھی ہلانے لگ جاتے۔ مجھے ان سب پر رشک آ رہا تھا کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ ؟جنہیں روزانہ اتنی ساری ریل گاڑیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے سفر شروع سے کئی دن پہلے "ریلوے ٹائم ٹیبل " خرید لیا تھا اور میں آنے والے اہم ریلوے اسٹیشنوں کے نام تقریباً حفظ کر لئے تھے۔ "آنے والے اسٹیشن کا نام بتا سکنے " او ر " گاڑی فلاں اسٹیشن پر فلاں وقت پر پہنچے گی"کی تفصیل جاری کرتے رہنے کی بنا پر ، میں ڈبے کا اہم ترین فرد بن چکا تھا۔ ڈبے کے زیادہ تر مسافروں کو پندرہ بیس گھنٹوں کا سفر طے کرنا تھا اور رات گزر جانے کے بعد اگلے دن جا کر کہیں اپنی منزل پر پہنچنا تھا۔ اس کے باوجود وہ ہر اسٹیشن پر کوئی نہ کوئی مسافر احتیاطاً پوچھ لیتا کہ سمہ سٹہ آنے میں کتنے اسٹیشن باقی ہیں ؟
اسٹیشنوں کی تعداد بتاتے بتاتے میں تنگ آ گیا تو میں نے باقی سفر کا حساب گھنٹوں میں رکھنا اور بتانا شروع کر دیا۔ سفر میں اب مجھے لگ بھگ سولہ گھنٹے گزر چکے تھے۔ مزید تین یا چار گھنٹوں میں مجھے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جانا تھا۔ اجنبی شہر، اجنبی چہروں ، اجنبی سڑکوں اور اجنبی لوگوں سے پالا پڑنے کے خیال نے میری حالت عجیب کر دی تھی۔ نئے لوگوں ، نئے شہر اور نئے راستوں سے پالا پڑنے سے پہلے ہی مجھے فضا سے اجنبیت کی بو آ نے لگی تھی۔
جون کے سورج کی تپش سے فضا جلنے لگی تھی اور ریل گاڑی کی کھڑکیوں کی درزوں سے در کر آنے والے ریت کے گرم ذرے کانٹوں کی طرح آنکھوں میں چبھنے لگے تھے۔ یوں سر زمینِ فرید کے بارے میں میرا پہلا تاثر کچھ خوشگوار نہیں تھا۔ جو کچھ بھی تھا مجھے تو اب آنے والے کئی سال یہیں گزارنے تھے۔ وہ "کئی سال"کب کے گزر چکے تھے۔ اب تو ان سالوں کی یادیں بھی ذہن کی سلیٹ سے مٹنے لگی تھیں۔
"زندگی سے کوئی خوش بھی ہے ؟"نواز کا کہا ہوا جملہ بے دھیانی میں مجھ سے میرے منہ سے خاصی بلند آواز میں ادا ہو گیا تھا۔
"کچھ مجھ سے پوچھا؟بابو جی؟" میرے ساتھ والے مسافر نے میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے پوچھا
"نہیں تو"
" مگر ابھی ابھی آپ نے کوئی سوال گیا تھا، مجھ سے یا کسی اور سے۔ کیا تھا ناں ؟"
"ہاں۔ جی ہاں۔ یہ گاڑی بہاولپور جا رہی ہے ناں ؟"بات ختم کرنے کے لئے مجھے کچھ نہیں سوجھا تو میں نے ایسے ہی پوچھ لیا
"جی ہاں بہاولپور ہی جا رہی ہے۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آپ یہ سوال چوتھی بار پوچھ رہے ہیں۔ کوئی شک ہے آپ کو اس میں ؟"
"شک تو کوئی نہیں مگر پوچھ لینے بھی کوئی حرج نہیں ؟"
"آپ آدمی دلچسپ ہیں "
"نواز سے زیادہ نہیں ؟"
"نواز کون؟"
"وہی ، جس سے ملنے کے لئے بہاولپور جا رہا ہوں ؟"
"کوئی خاص دوست لگتا ہے۔ "
"بہت ہی خاص دوست ہے "
"دوست کی کوئی خاص بات؟"
"خواجہ کی کافیاں گاتا ہے تو سماں باندھ دیتا ہے۔ بارش ہو یا کہ آندھی ہر روز کھیل دیکھنے ضرور جاتا ہے "
"کھیل کیا؟"
"کھیل نہیں جانتے آپ؟ لگتا ہے نئے ہیں آپ بہاولپور میں ؟"
"اتنا نیا بھی نہیں ، دس بارہ سالوں سے بہاولپور میں ہوں "
"میں ساٹھ کی دہائی کے اوائل کی بات کر رہا ہوں۔ ۔ "گاڑی نے بریک لگائے اور ہماری باتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ بہاولپور کا اسٹیشن آ چکا تھا۔
میں نے اپنا بریف کیس تھاما اور گاڑی سے نیچے اتر آیا۔ ٹکٹ ، ٹکٹ بابو کے حوالے کیا اور نچلے درجے کے ٹکٹ گھر کے راستے سے ہو کر اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔ وسیع و عریض میدان میں سیمنٹ کے بنے ہوئے چاند تارے کے ارد گردبہت سے موٹر رکشا کھڑے تھے۔ میں نے ایک رکشا والے سے بات کی اور اس میں بیٹھ گیا۔ رکشا ڈرائیور نے کک لگائی اور چاند ستارے کا چکر پورا کرتے ہوئے رکشا شہر کی طرف بھاگنے لگی۔ پیچھے سے آنے والی ایک رکشا ہمارے برابر میں آئی۔ ایک لمحے کے لئے "جھورے بادشاہ" کی پکار میرے کانوں میں پڑی اور بے اختیا ر " اللہ بادشاہ"کے الفاظ میرے منہہ سے ادا ہو گئے۔
"کچھ کہا بابو جی؟"رکشا والے نے استفسار کیا
"نہیں "میں نے جواب دیا۔ وہی چالیس پہلے والا شہر تھا مگر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں کسی اور شہر میں آ گیا ہوں۔ دل میں پھر اسی خدشے نے سر اٹھایا۔ اگر نواز نہیں ملا تو؟میں اپنے اندر اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پا رہا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے میرے جی میں آیا کہ رکشے والے کو کہوں کہ وہ رکشا موڑے اور مجھے واپس اسٹیشن پر چھوڑ آئے مگر آ کر اسے ڈھونڈے بغیر چلے جانا بھی مردانگی کی بات نہیں تھی۔ رکشا غلہ منڈی اور ماڈل ٹاؤن کی درمیانی سڑک پر دوڑ رہا تھا۔ میری آنکھیں سڑک کے بائیں جانب لگی ہوئی تھیں۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی مگر تیز رفتار رکشے نے انتظار کے لمحوں کو لمبا کھنچنے نہیں دیا۔
پر انی دوکانوں کے بیچوں بیچ "پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ" کے سڑک کی طرف بڑھے ہوئے چھپر دور سے ہی نظر آ گیا۔ تندور کے سامنے اسی طرح سے میز کے گرد چار کرسیاں پڑی تھیں۔ نواز تندور گرم کرنے میں مصروف تھا۔ رکشا رکا، میں نے رکشے سے اتر کر کرایہ ادا کیا مگر نواز کا دھیان اپنے کام کی طرف لگا رہا۔ اس کے قریب پہنچ کر میں نے اسے متوجہ کیا تو پھر بھی مجھے پہچاننے میں اس نے کچھ دیر لے ہی لی۔ مجھے پہچانا اور "اوئے راجے تم"کہہ کر میرے ساتھ لپٹ گیا" ظا لما، اتنی دنوں کے بعد یاد آئی" بات کرتے کرتے اس کی آواز بھرا گئی"اتنا برا تو نہیں تھامیں۔ اتنے دن تو دشمن بھی انتظار نہیں کراتا"
"پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ" پر کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ دوکان کے سامنے وہی چبوترہ۔ چبوترے پر نصب فرشی تندور۔ تندور کے سامنے نواز کی فرشی نشست۔ فرشی نشست کے دائیں طرف لکڑی کی چوکی پر گندھا ہوا آٹا اور خشکا۔ بائیں طرف سالن کا دیگچہ اور کچھ برتن۔ ہر چیز وہی اور وہیں تھی البتہ چیزوں کی عمریں بڑھ گئی تھیں۔ کالے خان کے گھڑے کی طرح پانی کے مٹکے پر گرد کی اتنی تہیں جم چکی تھیں کہ وہ کسی انجانی دھات کا بنا ہوا لگتا تھا۔ دروازے کے کواڑوں پر چسپاں تصویروں ، بورڈ پر لکھے لفظوں اور دوکان کے اندر ٹنگے ہوئے پر دے کے رنگ اڑنچھو ہو چکے تھے۔ میز اور کرسیوں پر ٹین کی پتریوں کے جوڑ بڑھ کئے تھے۔
غروبِ آفتاب کے بعد گاہک آنے لگے۔ آس پاس کے گھروں سے روٹیاں بھی پکنے کے لئے آنے لگیں۔ سب کچھ وہی تھا۔ وہ گاہکوں کو بھگتانے کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ باتیں بھی کرتا جا رہا تھا۔
"نواز زمانہ بدل گیا ہے۔ تم بھی خود کو بدل لیتے تو اچھا ہوتا"
"زمانہ بدل گیا ہے ؟"نواز قدرے تلخ ہو کر بولا"زمانہ بدل گیا ہے ؟کہاں ؟کدھر؟"
"سب جگہ، یہاں بھی ، وہاں بھی؟"
"نہیں راجے !کہیں بھی کچھ نہیں بدلا"پر انا نواز دھیرے دھیرے جاگنے لگا تھا"زمانہ کہاں بدلتا ہے میرے دوست؟بدلتا تو آدمی خود ہے۔ خود بدل کر اسے لگتا ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ وہ تو بس خود سری کے دنوں میں کچھ لمحے ایسے آ جاتے ہیں کہ وقت رک سا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت کی طنابیں کھنچ کر اس کے ہاتھ میں آ گئی ہیں اور سب کچھ اس کی مرضی سے ہونے لگا ہے مگر جلد ہی سپنا ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ اسی راستے پر چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو اس کے لئے مقرر کر دیا گیا ہے۔ "اس کی سرد مہری کی برف پگھلنے لگی تھی۔ سڑک کے اس پار سے ایک کم سن لڑکی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں ایک پلیٹ تھامے نمودار ہوئی اور سڑک پار کرنے کے لئے ٹریفک کے کم ہونے کا انتظار کرنے لگی مگر موٹر رکشاؤں اور موٹر کاروں کی قطار تھی کہ ٹوٹنے میں ہی نہیں آتی تھی۔ نواز نے اسے دیکھا تو پکار کر بولا"مومو! وہیں رکو، میں آ رہا ہوں۔
وہ اس کا ہاتھ تھام کر تنور پر لے آیا۔ وہی کتابی چہرہ اور گہری نیلی آنکھیں ، اگر اس کے بال سنہری نہیں ہوتے تو میں اس پر ویدہ کا دھوکا کھا جاتا۔
"نویدہ کی بیٹی ہے "نواز نے میرے پوچھنے کے بغیر ہی بتا دیا
" چھوٹی ہے سب سے ؟"
"نہیں ، ایک بھائی سے بڑی ہے۔ شادی کے بہت سالوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ "
"نویدہ آئی ہوئی ہے ؟"
" اب وہ یہیں رہتی ہے "
"احمد علی بھی؟"
"نہیں ، اپنے باپ والے گھر میں رہتی ہے "
"اور احمد علی؟"
"وہ مر چکا ہے "
"اوہ " یہ خبر اتنی غیر متوقع تھی کہ میں اس پر کسی قسم کے ردِ عمل کا اظہار بھی نہیں کر سکا۔ میری چپ کو نواز نے خاصی دیر کے بعد اپنے سوال کے ساتھ توڑ دیا "پوچھو گے نہیں کہ احمد علی کی موت کے بعد نویدہ گاؤں میں کیوں نہیں رہی؟"
"نہیں۔ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں "
"کیوں ؟"
"ایک پگڑ والے کی بیٹی کو دوسرے پگڑ والوں نے اس کی زمین کا وارث ماننے سے انکار کر دیا ہو گا"
"تمہیں کس نے بتایا؟"
"کسی نے بھی نہیں۔ میں بھی تو اسی دھرتی کا رہنے والا ہوں اور صورتِ حال کو سمجھ سکتا ہوں "یہ کہنے میں مجھے جیسے صدیاں لگ گئیں۔ میں نواز کو اپنی کامیابیوں اور نا کامیوں کے بارے میں بتا نا چاہتا تھا۔ میں نوازکو فریدہ عرف رضوانہ سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ میں اسے دستور اور اس کی محبوبہ کے معاشقے کی کامیاب ناکامی کی داستان سنانا چاہتا تھا۔ مگر د علی کی موت کی خبر اور نویدہ کی بے چارگی کے قصے نے مجھے لا چار کر دیا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
"نویدہ سے ملو گے ؟" نواز نے طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا
"نہیں " میں نویدہ کو ملنا چاہتا تھا۔ میں اس سے رابعہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا۔ میں دکھی نویدہ سے نہیں ، اس پر انی ہنس مکھ نویدہ سے ملنا چاہتا تھا۔ پرانے چہروں میں سے ایک رابعہ ہی تو بچی تھی ، جس کے بارے مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ یہ اسرار کھلنا نہیں چاہیے تھا۔ یہ درست تھا کہ مجھے نویدہ سے ملنا چاہیے۔ ملنے سے اور دکھوں کے بارے میں بات کرنے سے دکھوں کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ مگر صرف شروع شروع دکھوں کے بارے میں بات کر کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔
زخموں کو کریدتے رہنے سے زخم نا سور بن جاتے ہیں۔ زخموں کو کریدنے سے تکلیف اور بڑھ جاتی ہے۔ دکھ تماشا بن جاتے ہیں۔ میں اُجڑے ہوئے میلے میں کس کس کی اور کیوں تلاش کرتا؟ جنہیں میں ملنا چاہتا تھا ، جنہیں میں ڈھونڈنا چاہتا تھا، وہ سب تو میرے اندر زندہ تھے۔ میرے ساتھ ساتھ چل پھر رہے تھے۔ میں اداس ہوتا تھا تو مجھے تسلی دینے لگ جاتے تھے۔ وہ دکھی ہوتے تھے تو میں انہیں تسلیاں دینے لگتا تھا۔ بے وجہ انہیں تماشا کیوں بناؤں ؟ بے وجہ خود تماشا کیوں بنوں ؟جس نے یہ تماشا گاہ بنا ئی ہے ، وہی اور فقط وہی اس تماشا گاہ کے بھید جانتا ہے۔ میں نے اپنی گھڑی کو دیکھا۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد میں کراچی کی گاڑی پکڑ سکتا تھا۔
"در اصل میں تہیں بتانا بھول گیا تھا کہ مجھے آج ہی چلے جانا ہے "
"کل چلے جانا"
"کل مجھے گلف کی فلائیٹ پکڑنا ہے "
"جیسے تمہاری مرضی" نواز نے مجھے رکنے پر مجبور نہیں کیا۔
مسافروں نے حسبِ معمول دروازوں کے سامنے سامان رکھ کر داخل ہونے کے راستے بند کئے ہوئے تھے۔ گاڑی کی روانگی کی سیٹی ہونے تک کوئی دروازہ کھلا ہوا نہیں ملا تو نواز نے دو قلیوں کی مدد سے مجھے اُٹھا کر کھڑکی کے راستے گاڑی کے اندر پھینک دیا۔ اپنے پاؤں فرش پر جما کر میں نے اپنی گردن کھڑکی سے باہر نکالی تو گاڑی رینگنے لگی تھی۔ نواز کا اوپر اٹھا ہوا ہاتھ، ہوا میں رومال لہرا رہا تھا اور اسٹیشن پیچھے سرکنے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نے سپیڈ پکڑ لی۔ روشنیاں تیزی کے ساتھ غائب ہونے لگیں۔ کچھ ہی دیر میں تاریکی روشنیوں کو نگل گئی۔ تیز رفتار گاڑی دیکھتے ہی دیکھتے بہاولپور، رابعہ، نواز ، نویدا اور مومو کو بہت پیچھے چھوڑ چکی تھی۔ پیچھے رہ جانے والے اتنا پیچھے رہ گئے تھے کہ میں ان کو ہزار کوشش پر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔
***

ختم شد

مصنف کی اجازت اور سلیمان جاذب کا شکریہ جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا۔
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com
 
Top