دکھ دان اسلام عظمی

الف عین

لائبریرین
کچھ مصنف کے بارے میں

اسلام عظمی(عبدالسلام )نے تبلیغ الاسلام ہائی ا سکول چونڈہ ضلع سیالکوٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بیچلر آف سائنس کی ڈگری صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے حاصل کی۔ نظامت بحالی اراضی لا ہور میں تیرہ سال بے مصرف تحقیق میں ضائع کئے۔ 1979 میں متحدہ عرب امارات میں رہائش اختیار کی۔ عمر تعمیراتی مواد کی جانچ پڑتال میں کٹ رہی ہے۔ دورانِ ملازمت ابو ظہبی، العین، دوبئی اور دوحہ قطر میں قیام رہا۔

تخلیقات
جوگ اور سنجوگ۔ افسانوں کا مجموعہ
بہت پر انی کہانی۔ افسانوں کا مجموعہ
اڑانواں کا ہرا موسم۔ شاعری
دکھ دان۔ ناول
 

الف عین

لائبریرین
داستاں سرائے

شش جہت پھیلتا ہوا شہر عجیب شہر تھا۔
صبح ہوتی کہ شام ، دن ہوتا یا کہ رات آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔
ملک ملک سے آئے ہوئے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ہر رنگ، ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ برسوں سے اس شہر میں قیام پذیر تھے۔ کام وافر تھا۔ کام کے دام مناسب تھے۔ جو جتنا کرے ، اتنا پائے۔ جو جس کا کھائے ، اس کا گائے۔ کھانے ، پینے اور پہننے کی ہر ضروری شے افراط سے دستیاب تھی۔ مہنگی چیز خریدنے والا مہنگی چیز خرید تا تھا۔ سستی اشیاء خریدنے والا بازار میں سستی اشیاء وافر مقدار میں پاتا تھا۔ اک حسنِ ترتیب نے شہر کو چار دانگ میں بے مثال بنا دیا تھا۔
جو کچھ کوئی پینا چاہتا تھا ، پیتا تھا۔
جو کچھ کوئی کھانا چاہتا تھا، کھاتا تھا۔
جو کچھ کوئی پہننا چاہتا تھا ، پہنتا تھا۔
اپنی مرضی کا کھانے ، پینے اور پہننے پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے ہنس، رو اور سو سکتا تھا۔ البتہ دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی سخت ممانعت تھی۔ ڈنڈا تھا اور سب کچھ ٹھنڈا تھا۔ امن و آشتی کا دَور، دَورہ تھا۔ قانون کی بالا دستی تھی۔ خلقِ خدا، حد سے زیادہ نہ تو روتی تھی اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ ہنستی تھی۔ جرم کر کے جرم کرنے والے کا بچ جانا محال تھا۔ بھینس، بھینس والے کی تھی۔ دودھ، دودھ والے کا تھا۔ دودھ میں پانی نہیں تھا۔ بڑا بول نہیں تھا۔ کم تول نہیں تھا۔ سونے میں کھوٹ نہیں تھا۔ الیکشن اور ووٹ نہیں تھا۔ اخبارات جرم و سزا ، زور و زیادتی اور اُکسانے والے الفاظ کے عدم استعمال کے باوجود بھی خریدے اور پڑھے جاتے تھے۔ طروں والے نظریں نیچی کئے ٹوپی والوں کے پاس سے گزر جاتے تھے۔ حسبِ کوشش ہر کسی کے پاس رخت تھا اور ہر کوئی اپنے اپنے حال مست تھا۔ زمین شور اور زیرِ زمین پانی کڑوا تھا، پھر بھی شہر ہرا بھرا تھا۔ اہلِ انتظام کا انتظام کھرا تھا۔
ہاں ، ایک بات ضرور تھی۔ ہر پل اور ہر سو پھیلتے ہوئے اِس شہر پر کسی وسیع و عریض انتظار گاہ کا گمان ہوتا تھا۔ ہر کوئی کسی نہ کسی انتظار کی اک عجیب اور نا محسوس ڈوری میں بندھا تھا۔ خواہشیں اور خواب سند باد جہازی کے "پیرِ تسمہ پا"کی طرح ہر کسی کے کاندھے پر سوار تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ کوئی بھی ان سے بیزار نہیں تھا بلکہ خوشی خوشی انہیں عام طور پر کندھوں پر اُٹھائے اور حالِ دل سب سے چھپائے پھرتا تھا۔
رات بھر سویرے سویرے کام پر جانے کا انتظار، کام پر جانے کے بعد دن کے ختم ہونے کا انتظار، دن بھر کی بھاگم بھاگ کے دوران شام کا انتظار، جمعے کا انتظار، مہینے کا انتظار، سال کے ختم ہونے کا انتظار، سالانہ چھٹی کا انتظار۔ بہتر رتوں کا انتظار۔ غرضیکہ ہر کوئی انتظار کی کبھی نہ ختم ہونے والی کسی نہ کسی زنجیر میں بندھا ہوا تھا۔
کھاؤ ، پیؤ اور جیؤ۔
کام کرو، آرام کرو۔ پیسہ کماؤ اور گھر کو جاؤ۔
مگر کون سے گھر ؟ گھر سے لوٹنے والے ہر شخص کی جھولی اپنے ملک کی مہنگائی کی نہ ختم ہونے والی کہانیوں سے بھری ہوتی۔ بار بار سنی ہوئی یہ کہانیاں ایک بار پھر سننے کے لئے واپس آنے والے کے اعزاز میں مہینوں محفلیں جمتی رہتیں۔ ہر کہانی کا آغاز عموماً "سچ کہوں ، اس بار میرا واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا اور گھر والے بھی یہی چاہتے تھے مگر۔ ۔ ۔ ۔ "کے جملے کے ساتھ اختتام ہوتا۔ ایک عجیب سا ڈر اور ایک عجیب سا خو ف ہر کسی کو سچ کا سامنا کرنے سے باز رکھتا تھا۔ لوگ نہایت سلیقے کے ساتھ سچ بولتے اور جھوٹ سنتے تھے۔ اسی اگر مگر اور سچ جھوٹ میں دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے جا تے تھے۔
بڑی سڑکوں اور بڑی سڑکوں کے ساتھ قطار اندر قطار باندھے فلک بوس عمارتوں کے عقب میں بسی ہوئی بستیاں شکل و صورت میں تیسری دنیا کے کسی بھی شہر کی کچی آبادیوں سے مختلف نہیں تھیں۔ کچھ سال پہلے کھجور کے پتوں سے بنی جھونپڑیوں کی جگہ پر حکومت نے سرکاری خرچے پر خاصے قبول صورت گھر بنا دئے تھے۔ گھروں کا ڈیزائن(design) بناتے وقت ، مقامی لوگوں کی بود و باش اور عادات کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ مقامی لوگ کھلے آسمان تلے صحراؤں میں رہنے کے عادی تھے۔ چنانچہ گھروں کا تعمیر شدہ رقبہ، غیر تعمیر شدہ رقبے سے کم رکھا گیا تھا۔ ڈیزائن بنانے والوں کا خیال تھا کہ ان گھروں میں رہنے والوں کا بیشتر وقت صحنوں میں گزرا کرے گا۔ کافی دنوں تک یہ روایت قائم رہی۔ کمرے میں ائر کنڈیشنر چل رہا ہوتا اور لوگ باہر گرم ریت پر چٹائیاں بچھائے قہوہ پیتے اور کھجوریں کھاتے رہتے اور پر انے دنوں کی باتیں کرتے رات کے بھیگنے اور محفل کے ختم ہونے کا انتظار کرتے رہتے۔
مگر روایات کی ڈوری انہیں بہت دیر تک بدلنے سے روک نہ سکی۔ ایک جفا کش معاشرے سے بہت آسودگی کے دنوں کی کایا کلپ نے انہیں بھی بدلنا شروع کر دیا۔ پیسہ جہاں سے آتا ہے ، اپنے ساتھ وہاں کا کلچر بھی لے آتا ہے۔ بدلاؤ کا عمل پیسہ آنے کی رفتار سی کہیں زیاد ہ تیز ہوتا ہے۔ بین الاقوامی کلچر پانی کے تیز ریلے کی طرح دنوں میں صدیوں پر انی روایات کے خس و خاشاک کو بہا کر لے جاتا ہے۔ چنانچہ بدلتی ہوئی ضروریات اور بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے گھروں کی استعمال میں نہ آنے والی کھلی جگہوں میں ڈربہ نما کمرے بنا کر اور کرائے پر چڑھا کر اضافی آمدنی کی صورت نکال لی۔
رہائشی مکانوں کی قلت کی وجہ سے ان کمروں کا حصول بھی آسان نہیں تھا۔ کمرہ خالی ہونے سے پہلے ہی اُمیدواروں کی قطار لگ جاتی۔ ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ تھا۔ بعض اوقات تو ایڈوانس بکنگ(advance Booking)کی نوبت بھی آ جاتی۔ ملحقہ غسل خانوں (attached Bath Rooms) والے ان کمروں میں ، جنہیں عرفِ عام میں مکان کہا جاتا تھا، عموماً نصف درجن کنواروں Bachelors) (کا رہائش پذیر ہو جانا ایک عام بات تھی۔ انہی کمرہ نما مکانوں میں کہیں کہیں نئے شادی شدہ جوڑوں کو بھی رہنا پڑج اتا۔ دو سے شروع ہونے والا خاندان چند سالوں ہی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر کے دوگنا چوگنا ہو جاتا۔ مرد سورج نکلنے سے پہلے کام کے لئے نکل جاتے۔ ا سکول جانے والے بچے صبح سویرے ا سکول چلے جاتے۔ مردوں اور بچوں کے چلے جانے کے بعد عورتیں گھر میں کوئی کرنے کا کام نہ ہونے کی بنا پر دوبارہ بستر سنبھال لیتیں اور مردوں کی واپسی سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک سوئی رہتیں۔
لاکھوں کی آبادی والے شہر میں دن بھر ہو کا عالم طاری رہتا۔ عصر سے مغرب کے درمیانی وقت میں گلیوں میں زندگی کے آثار نظر آنے لگتے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد بازار کا رخ کیا جاتا۔ چھوٹی بڑی سبھی دوکانیں گاہکوں سے بھر جاتیں۔ پر انے مال سے نجات حاصل کرنے کے لئے دوکان دار تخفیفات یعنی سیل (sale)کا ہتھکنڈہ اپناتے۔ ہر موسم میں کسی نہ کسی دوکان میں سیل (sale)لگی رہتی۔ سیل والی دوکانوں میں رات کو تو خاص طور پر تل رکھنے کی جگہ بھی نہ بچتی۔ پر انی چیزیں گرم پکوانوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔ سینماؤں میں آخری شو کا وقت ہونے تک دوکانیں اور بازار لوگوں سے کھچاکھچ بھرے رہتے۔
آخری شو کے شروع ہوتے ہی بازاروں کی چہل پہل ماند پڑنے لگتی۔ شو کے ختم ہوتے ہی گلی کوچے بھی سوجاتے۔ روز یہی تماشا ہوتا البتہ جمعے کی بات الگ تھی۔ اہم کام جمعے کی چھٹی کے دن تک رکے رہتے۔ جمعہ مردوں کے ڈٹ کر سونے کا دن بھی ہوتا۔ ڈٹ کر سونے کے اس مقابلے کے دوران جب جب عورتوں کی آنکھ کھلتی ، وہ مردوں کو سرگوشیوں میں ضروری کاموں کی یاد دلا تی رہتیں اور مرد خراٹوں کے دوران ُ" مجھے یاد ہے ، مجھے سب یاد ہے "گردان دہراتے رہتے۔
جمعے کی نماز سے ذرا پہلے جاگنے کا عمل شروع ہو جاتا۔ کوئی غسل کر لیتا اور کوئی وقت کی تنگی کی وجہ سے صرف وضو کر کے اور کوئی کوئی پانی کی تنگی کی وجہ سے محض تیمم کر کے مصلیٰ اٹھائے مسجد کی طرف بھاگتا۔ " جہاں ہے اور جیسے ہے "کی بنیاد پر نماز ادا کرتا اور "اللہ کا شکر ہے کہ نماز مل گئی" کا ورد کرتا ہوا واپس لوٹ آتا۔
جمعے کی نماز کے بعد ڈٹ کر کھانا کھایا جاتا اور پھر قیلولے کے بعد توجہ ضروری کاموں کی طرف مبذول ہو جاتی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے کام کم ہی نپٹ پاتے۔ ہونے والے کام ہو جاتے۔ بچ جانے والے کام اگلے جمعے تک کے لئے ملتوی کر دئے جاتے۔
شب و روز جمعے اور جمعے اگلے جمعوں کی زنجیر میں اس طرح جڑے ہوئے تھے کہ سال، سالوں میں ڈھل جاتے مگر اُن کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔ عمریں گزر جاتیں مگر عمریں گزر جانے کا بھی احساس تک نہ ہوتا۔ کام اور آرام کی راحت کے بعد ڈٹ کر کی ہوئی پیٹ پوجا کچھ اور سوچنے ہی نہیں دیتی تھی۔ شام کے بعد کچھ فرصت ملتی بھی تو واقف کاروں سے میل ملاقاتوں کی نذر ہو جاتی۔
چھڑے چھانٹوں کا احوال البتہ کچھ الگ تھا۔ ان کے لئے جمعے کا دن اپنے اپنے پوسٹ بکس کھنگالنے اور اپنے اپنے خطوط نکالنے کا دن تھا۔ ہر روز سینما کا آخری شو دیکھنے کے بعد کچھ اور سوچنے کا وقت ہی کہاں بچتا تھا؟میں تو خیر تھا ہی کنوارہ ، بیوی کے بغیر رہنے والے بڈھے کھوسٹوں کا بھی یہی احوال تھا۔ کچھ فرق تھا تو یہ کہ وہ مہینے دو مہینے کی بجائے ہر ہفتہ گھر پر ٹیلی فون کیا کرتے تھے۔ ابو ظہبی سے باہر ٹیلی فون کرنا ، ان دنوں جوئے شیر لانے سے بھی مشکل کام تھا۔ صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے ٹیلی فون کے دفتر جا کر رات کے لئے وقت پیشگی بک کرانا پڑتا تھا۔ بعض اوقات پیشگی بکنگ میں بھی کئی دن لگ جاتے تھے۔ الاٹ کردہ ، وقت پر جانے کے بعد بھی گھنٹہ دو گھنٹوں کا انتظار معمول کی بات تھی۔ چنانچہ وقت گزاری کے لئے کوئی ایک بندہ ساتھ رکھنا بھی ایک ضرورت بن چکا تھا۔
میرے دفتر کے ایک ساتھی وقفۂ انتظار کے دوران گپ شپ کے لئے مجھے اپنے ساتھ لے لیا کرتے تھے۔ ایک روز وہ صاحب اپنی بیوی سے ٹیلی فون پر باتیں کرتے کرتے کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آ گئے اور والہانہ اظہارِ محبت میں یہ بھول ہی گئے کہ وہ پبلک ٹیلی فون بوتھ میں کھڑے ہیں۔ ان کی ، اندر کی باتیں ، درجنوں کان سن رہے تھے مگر وہ باتوں میں اتنے منہمک تھے جیسے کہ یہ باتیں اگر وہ آج ، نہ کہہ پائے تو پھر کبھی نہ کہہ پائیں گے۔ دور کی لائنوں پر بلند لہجے میں بات کرنے کی مجبوری اور ان کا جذباتی پن ، بات چیت کا ایک ایک لفظ براڈ کاسٹ کر رہا تھا۔ چھ منٹ پورے ہونے کے بعد وہ اپنی بات چیت ادھوری چھوڑ کر بوتھ سے باہر آئے تو وہاں پر موجود پوری خلقت کی نظریں ان کے ’بوتھے ‘(چہرے ) پر جمی ہوئی تھیں۔ زمانہ شناس تھے ، لوگوں کا اس طرح مشکوک نظروں سے گھورنا کھٹکا تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ ماجرا کیا ہے ؟ جب یہ معلوم پڑا کہ ان کے اظہارِ محبت کا حرف حرف عوام الناس تک پہنچ رہا تھا تو گھبرا کر بولے۔
"یار، یہ تو بہت برا ہوا۔ باتیں بہت پر ائیویٹ تھیں۔ مجھے اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا"
" یہ بات ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ آپ کے پر جوش لہجے سے توایسا لگ رہا تھا کہ آپ اپنی بیوی سے نہیں کسی ’اور ‘ سے بات کر رہے تھے ؟ " اس کے بعد وہ ، احتیاطاً، اپنی بیوی کے ساتھ اتنی آہستہ آواز میں گفتگو فرمانے لگے کہ دیکھنے اور سننے والوں کو ان کے چال چلن پر شک رہنے لگا۔ حالانکہ پیرانہ سالی کے باعث ان کی چال میں کچھ کچھ لڑکھڑاہٹ تو تھی مگر چلن اس مقام پر تھا کہ حرام تو حرام ، حلال چیزیں بھی از خود حرام کے زمرے میں آنے لگی تھیں۔ باتیں کرنے والوں کو باتیں کرنے سے کون روک سکا ہے ؟جو وہ روک پاتے۔ انہوں نے اس شہرتِ بدکو مددِ غیبی سمجھ کر کبھی تردید کا جھنجھٹ نہ پالا۔ ان کا کہنا تھا کہ مفت کی شراب اگر قاضی کو حلال ہو سکتی ہے تو مفت کی شہرت کیوں ان کا حق نہیں ٹھہرتی ؟
ابو ظہبی سے العین جانے والی سڑک پر نئے روڈ پر اجیکٹ پر اپنی تعیناتی سے پہلے مجھے مجھے اپنے پر دیس میں ہونے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ ابو ظہبی کے پر رونق بازاروں کے بر عکس یہاں پر سڑک کے دونوں طرف چند عمارتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ ضرورت کی کوئی چیز خریدنے کے لئے ابو ظہبی جانا پڑتا۔ تعمیراتی کمپنی کے کارکنوں کے علاوہ، وہاں پر نہ تو کوئی اور بندہ تھا اور نہ ہی بندے کی ذات تھی۔ کئی ہفتوں تک میں اپنے کاروان میں پڑا پڑا، بستر توڑتا اور وقت گزارتا رہا۔ ایک روز میں نے ان مشکلات کا ذکر ایک دوست سے کیا تو وہ ہنس دیا۔ "ارے بھائی ، تمہارے قریب ہی ذرا سے پیدل فاصلے پر ایک بڑی آبادی ہے ، تم ضرورت کی ہر چیز وہاں سے خرید سکتے ہو اور رات کو سیر کرنے اور وقت گزارنے کے لئے وہاں جا سکتے ہو۔ شرط ہے تو کہ تم جرن یا فور میں جا کر دیکھو۔ "
جرن یا فور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے تک مجھے اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔ ریت کے ٹیلوں کے بیچوں بیچ ایک بڑے نشیبی میدان میں اتنی بڑی آبادی ، جنگل میں منگل کی جیتی جاگتی مثال تھی۔ ہزاروں نفوس پر مشتمل یہ آبادی ابو ظہبی سے العین جانیوالی بڑی سڑک سے محض دو ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر تھی مگر ریت کے ٹیلوں کی اوٹ اور قدرے نشیب میں واقع ہونے کی وجہ سے آنکھوں سے اوجھل رہتی تھی۔ آبادی کے نوے فی صد سے زیادہ مکانات پلائی وڈ کے بنے ہوئے تھے۔ سڑکیں کچی تھیں مگر بجلی ، پانی اور ٹیلی فون کی بنیادی سہولتیں با آسانی میسر تھیں۔ مرکزی سڑک کے دونوں طرف درجنوں دوکانیں تھیں۔ دوکانوں سے ضرورت کی ہر شے دستیاب تھی۔ واقفانِ ماضی و حال کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ جرن یا فور میں ڈھونڈنے پر "نایاب "اشیاء کا ملنا بھی نا ممکن نہ تھا۔
ہاں ! ایک قباحت ضرور تھی۔ ایک گھر آگ پکڑتا تو ارد گرد کے کئی گھر آگ کی لپیٹ میں آ جاتے۔ گھروں کا سارے کا سارا سامان جل کر راکھ ہو جاتا۔ مگر مکانوں کا کم کرایہ ہونے والے ممکنہ نقصان کو قابلِ برداشت بنا دیتا۔ آتش زدگی کے بعد مکان کی دوبارہ تعمیر بہت مہنگا سودا نہیں تھا۔ تاہم گھروں میں ضرورت کا سامان ہی رکھا جاتا۔ اپنی قیمتی اشیاء اور اہم کاغذات بشمول پاسپورٹ ابو ظہبی میں جان پہچان والے کسی شخص کے ہاں رکھوا دیئے جاتے۔
جرن یا فور کی ایک اور خصوصیت یہاں پر پائے جانے والے ایسے گھرانے تھے ، جن کے سربراہ کوکسی وجہ سے جلدی میں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ بعض اوقات نا دانستہ طور پر ان کے اہل و عیال پیچھے رہ جاتے اور بعض اوقات وہ اپنے لواحقین کو بوجوہ پیچھے چھوڑ جاتے تھے۔ بے مرد کے ایسے خاندانوں کے کئی افراد کے پاس پاسپورٹ یا دوسرے قانونی کاغذات بھی نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بے سہارا خاندانوں کو مجبوراً کم کرائے والی بستیوں میں پناہ لینا پڑتی۔ بے سہارا لوگ اچھے دنوں کی اُمید میں بُرے دن ہنس ہنس کر گزارتے رہتے۔ جرن یا فور میں ایسے بے سہارا خاندان بہت تھے۔ اَڑوس پڑوس والے ، اس وقت تک، اُن کی کچھ نہ کچھ مالی اعانت کرتے رہتے ، جب تک متاثرہ خاندان کا کوئی بچہ جوان ہو کر کمانے کے قابل نہ ہو جاتا۔ لوگوں کی اکثریت ایسے ضرورت مندوں کی مدد اپنا قومی اور اخلا قی فرض سمجھ کر کرتی مگر ایسے افراد کی بھی کمی نہیں تھی، جو ایسی بے سہارا عورتوں کے بارے میں چسکے دار باتیں گھڑنے اور پھیلانے کو معاشرے سے گندگی دور کرنے کی ایک کوشش قرار دیتے رہتے۔ کوئی اُن سے اِن باتوں کے درست ہونے کا ثبوت مانگ لیتا تو بات قہقہے میں اڑا دی جاتی۔
 

الف عین

لائبریرین
"ارے بھائیو!دیکھو، میرا یہ بھولا بھالا دوست !ثبوت مانگ رہا ہے۔ آپ ہی بتاؤ، ایسے کام کوئی گواہ ساتھ رکھ کر کرتا ہے۔ بات میں کچھ جھوٹ ہو بھی سکتا ہے مگر صاحبو! آگ کے بغیر بھی کبھی دھُواں اٹھا ہے ؟ "
ایسی ناگفتنی باتیں عموماً " اللہ معاف کرے " کہہ کر شروع اور ختم کی جاتیں۔ بات "بات کہنے کی نہیں ہے " کہہ کر شروع کی جاتی اور نیند اُڑا دینے والی خیالی داستاں سنانے کے بعد "ویسے بات ابھی ختم نہیں ہوئی " یا "میں صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہوں "کہہ کر ختم کر دی جاتی۔ بات تاش کی محفلوں میں "اللہ معاف کرے " کی قسم کے کردار با افراط پائے جاتے تھے۔ ایسے افراد محفلوں کی زینت ہی نہیں ، ضرورت بھی تھے۔ ان کی یہ "منہ زبانی" دست درازیاں اور فسانہ طرازیاں "خیالی " جرائم کی فہرست میں آتی تھیں اور خیالی جرائم نا قابلِ دست اندازیِ پولیس تھے۔ روکھے سوکھے ماحول میں ، وقت گزاری کے لئے کسی رنگین کردار کا ہونا ضروری تھا۔ اصلی تو تھے نہیں مجبوراً فرضی کردار ایجاد کر لئے جاتے تھے تا کہ بوقتِ ضرورت ان کا تذکرہ کر کے "لا حول"پڑھی جا سکے اور محفل جواں رکھی جا سکے۔
کہانی کار ہونے کے ناطے سے مجھے ، جرن یا فور والوں سے ، متعارف ہو نے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ پر دیس میں "کام چلاؤ"قسم کی دوستیاں تیزی سے پر وان چڑھتی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ جب تک کام رہتا ہے ، محفلیں رہتی ہیں۔ جب تک محفلیں رہتی ہیں ، ساتھ رہتا ہے۔ جب تک ساتھ رہتا ہے ، دوستی رہتی ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں فصلوں کی کٹائی کے دنوں میں نئی نئی دوستیاں بننا بہت پر انی روایت ہے۔ آتے جاتے موسموں کی طرح یہ دوستیاں بھی فصلی ہوتی ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بہت سے عملی محاورے بھی تعلق اور قطعِ تعلق کے باب میں اہلِ جفا کے ساتھ ہیں۔ مثلاً چنوں کی کٹائی ختم ، دوستی ختم۔ کھیل ختم ، پیسہ ہضم۔ رات گئی ، بات گئی۔ اہلِ ہنر ضرورت پڑنے پر کیا کیا گنجائش پیدا کر لیتے ہیں۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد میں ، چہل قدمی کرتا ہوا، جرن یا فور کے کسی ایک ڈیرے پر چلا جاتا۔ تاش کی بازی لگتی ، گپ شپ ہوتی ، شہر سے آئی ہوئی تازہ خبروں کا تبادلہ ہوتا اور ابو ظہبی میں کوئی اچھی فلم لگی ہوتی تو اگلے روز اِسے دیکھنے کا پروگرام بنانے کے بعد میری واپسی ہو جاتی۔ جمعرات کی رات تاش کے کھیل کے لئے مخصوص ہوتی۔ عشاء کے بعد تاش کی محفل جمتی اور جمعے کی صبح تک جمی رہتی۔ کھیل ختم ہونے کے بعد کبھی کبھار میں وہیں لیٹ جاتا۔
جرن یا فور میں رہائش پذیر، پاکستانی خاندانوں میں ایسے خاندان بھی کافی تعداد میں تھے ، جن خاندانوں کے بچوں کی اکثریت نے یہیں آنکھ کھولی تھی۔ یہیں جمے ، پلے اور بڑھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ متحدہ عرب امارات کے قیام سے سالوں پہلے اس وقت یہاں آئے تھے ، جب مہم جو لوگ پاسپورٹ اور دوسرے قانونی کاغذات کے بغیر ملکوں ملکوں گھوم لیا کرتے تھے اور یہ کوئی بہت پر انی بات نہیں تھی۔ اس دور کی خاص بات یہ تھی کی ہر کوئی ہر کسی کو جانتا تھا اور ہر کوئی ہر کسی کی مانتا تھا۔ ایک ملک کے لوگ ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ ان لوگوں کے درمیان میری حیثیت ایک اجنبی کی تھی۔ ایک لحاظ سے ان کی بات ٹھیک بھی تھی۔ ان کے مقابلے میں مجھے یہاں آئے ہوئے ، جمعہ جمعہ، آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے۔ نو واروں کو کوئی انوکھی بات کر کے چونکانا ایک بے ضر ر مذاق کے زمرے میں آتا تھا۔ "کل تم نے بازار جانا ہے ناں۔ تو ایسا کرنا، چار من بطیخ ہندی لیتے آنا۔ ہم چھ آدمیوں کے لئے کافی رہے گا ناں۔ " ایک دوسرے کو بلند آواز میں کہتا۔ نیا آنے والا کان کھڑے کرتا۔
"آدمی چھ اور بطیخ ہندی چار من یعنی ایک سو ساٹھ سیر۔ "
اُس کے چہرے پر اُبھرنے والی حیرانی کا مزا لیتے ہوئے بات شروع کرنے والوں میں سے کوئی ہنس کر اُسے بتانے لگتا"ارے بھائی، یہ ہمارے والا من نہیں ہے۔ اِدھر کا من چار سیر کا ہوتا ہے "وہ ایک قہقہہ لگا کرنئے پکھیرو کی معلومات میں اضافہ کر جاتا۔
"معلوم ہے ، بطیخ ہندی کیا ہوتا ہے ؟"وہ پوچھتا۔
"کوئی انڈین پھل ہو گا"
"نہیں یار۔ اپنا تربوز ہوتا ہے ناں ، اِسے عربی لوگ بطیخ ہندی کہتے ہیں "
ہر کوئی مجھے پرانے وقتوں کے رہن سہن ، پرانے لوگوں اور روگوں سے آگاہ رکھنا اپنے فرض سمجھتا تھا۔ "وہ دن بھی کیا دن تھے ! "ایک مشترکہ تکیہ کلام تھا۔ گزرے ہوئے دنوں کا طلسم پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ اُن سنہری دنوں کی سنہری یادیں بس یادیں ہی تھیں۔ اُن سنہری سالوں نے بھی کسی کے حالات کو بہتر نہیں کیا تھا۔ اپنے حالات سے کوئی بھی مطمئن نہیں تھا اور کسی کا بھی کوئی خواب پورا نہیں ہوا تھا۔ کتابوں میں لکھا تھا کہ افریقہ کے سارا سال بارش والے علاقوں کے جنگلوں میں ایسی دلدلیں ہوتی ہیں ، جن میں پھنس جاتے کے بعد نکلنا محال ہوتا ہے۔ اسی طرح صحراؤں میں ہلکی ریت(quick Sand)کے پھندے ہوتے ہیں۔ جو پھنس گیا۔ وہ دھنس گیا۔ ہلکی ریت کے جال میں پھنس جانے والا ایک جگہ پر رقص کرتا کرتا رہ جاتا ہے۔ صحراؤں میں سرابوں کے عذاب اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔
خوابوں کی تعبیریں دھونڈنے والے مسافروں کے لئے جنگلوں میں دلدلیں ، صحراؤں میں ہلکی ریت اور فضاؤں میں (air Pockets)کی طرح کی طرح کے کیا کیا پھندے ہیں۔ قدیم و جدید ، یہاں پر آئے ہوؤں کے مسائل یکساں اور طرزِ زندگی ایک سا تھا۔
پر انے آئے ہوئے "میں تو اگلے سال چلا جاؤں گا" اور نئے آنے والے "ایک بات طے ہے کہ میں نے زندگی یہاں تباہ نہیں کرنی" کا راگ الاپتے رہتے تھے۔ ہر کوئی اپنی ذات میں "لا جروری " باتوں کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھا۔ کس نے کہاں سے زندگی کا آغاز کیا تھا؟کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔ کس نے کتنا کمایا اور کس طرح اجاڑا تھا؟سبھی کے علم میں تھا۔ ماضی کے بارے میں گفتگو کرنا اور کرتے رہنا سب کا مرغوب تریں مشغلہ تھا۔
ان دنوں کی باتیں ، جب یہ شہر کھجور کے پتوں کی جھونپڑیوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ جب کپڑے کے تاجر چٹائیوں پر رکھ کر کپڑے کے تھان بیچا کرتے تھے۔ جب فلاں بینک کے مالک کا منی ایکسچینج Money Exchange) )لکڑی کی ایک ٹرے پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ جب فلاں بڑا آدمی آئس کریم کی ریڑی لگایا کرتا تھا۔ جب فلاں شہر میں عورتوں کا بازار لگا کرتا تھا۔ ہر شخص کے پاس لاتعداد کہانیاں تھیں۔ ہر شخص ہر کہانی کا شاہد بھی تھا۔ لوگ بندر عباس سے راس الخیمہ، راس الخیمہ سے دوبئی اور دوبئی سے ہوتے ہوئے ابو ظہبی آیا کرتے تھے۔ سڑکیں نہیں ہوا کرتی تھیں اور بدو جی۔ ایم۔ سی۔ G.m.c) ( گاڑیوں میں صحرائی راستوں سے پینتیس روپوں میں دوبئی سے ابو ظہبی لایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی بد قسمت گاڑی راستہ بھول جاتی تو بد قسمت مسافر بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا جایا کرتے۔
جدید ترین تین رویہ شاہراہوں پر ایک سو چالیس اور ایک سو پچاس کلو میٹر پر دوڑتی ہوئی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے کبھی کبھار اس پر انے سفر کی یاد آ جاتی تو ایک انجانا سا خوف مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا۔ سفر پر نکلے ہوئے کتنے ہی لوگ کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔ کتنی ہی آنکھیں منزل کو دیکھے بغیر بند ہو جاتی ہیں۔ راستہ تلا شتے ہوئے کتنے ہی لوگ راستوں میں خاک ہو جاتے ہیں۔ تہذیبیں کتنی ہی انسانی جانوں کا نذرانہ لے کر پر وان چڑھتی ہیں۔ کتنے ہی لوگ بھوک کاٹتے ہیں تو کھیتوں میں خوشے لہلاتے ہیں۔ کتنے ستاروں کا خوں ہوتا ہے تو نویدِ صبح ملتی ہے۔
ماضی کی باتیں کرتے ہوئے باتیں کرنے والوں کے چہرے تمتمانے لگتے۔ وہ بھی کیا اچھے دن تھے کہ کام نہ ہونے کی صورت میں ہو ٹل والوں کے پاس پاسپورٹ رکھ کر مہینوں کھانا کھایا جا سکتا تھا۔ ہوٹلوں میں پینے کا پانی الگ سے خریدنا پڑتا تھا۔ مٹی کے تیل والی شیشے کی بوتل میں پانی بھر کر بیچا جاتا تھا۔ پانی کی بوتل مہنگی اور سالن کی پلیٹ سستی ہوتی تھی۔ کورنش پر صبح کے وقت عورتیں اور مرد پاس پاس بیٹھے حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہو لیتے تھے۔ یہ بتاتے ہوئے زور" پاس پاس" پر رہتا تھا۔ لوگ سمندر میں نہاتے تھے اور دل کھول کر نہا لینے کے بعد چار آنے میں خریدے ہوئے پیپے کے پانی کو بدن پر سے بہا کر سمندر کے نمک والے پانی کے اثرات ختم کر لیتے تھے۔
کہانیاں بہت تھیں اور سامعین نسبتاً بہت کم تھے۔ کہانیاں ، داستاں گوئی کی چھلنی سے سینکڑوں بار چھلنے کے بعد اور پر لطف ہو جاتیں۔ کسی بھی سچی داستان میں دو چار نئے "ٹوٹے "شامل ہوتے رہتے۔ نئے نئے "ٹوٹوں " کے تڑکوں کی بدولت بار بار سنی جانے والی کہانی بھی سماعت پر گراں نہ گزرتی۔ یہ کہانیاں ایک طرح سے خواب و سراب کی وادیوں میں در بدر لوگوں کی ان لکھی تاریخ تھیں۔ وہ کہانیاں جنہیں کوئی لکھنے والا نہیں ملنا تھا۔ وہ زخم جنہیں کوئی مرہم نہیں ملنا تھا۔ کوئی سامع میسر آ جاتا تو گویا انہیں اپنے اپنے دل کا غبار نکالنے کا موقع مل جاتا۔ گھروں اور گھر والوں کو یاد کرتے رہنا فیشن بن چکا تھا مگر سچی بات یہ تھی کہ ان کی جھولیوں میں فقط باتیں تھیں اور کچھ نہیں تھا۔
قصہ گوئی کی ان محفلوں میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی یوں لگتا کہ میں الف لیلوی دور کی کسی داستاں سرائے میں بیٹھا ہوں۔ رات بھیگنے لگی ہے۔ دف بجانے والے کا ہاتھ دف پر تھاپ لگاتے لگاتے شل ہو چکا ہے۔ رقاصہ رقص کرتے کرتے تھک کر فرش پر ڈھیر ہو چکی ہے۔ قہوہ میرے سامنے ، دھرا دھرا ٹھنڈا ہو چکا ہے۔ جن کی جان والے طوطے کے پر اور اعضاء ایک ایک کر کے نوچے جا چکے ہیں۔ طوطے کی گردن مروڑتے ہی جن اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ شہزادہ، شہزادی کو حاصل کر چکا ہے۔ قصہ گو ، قصہ بیان کرتے کرتے خود اونگھنے لگا ہے کہ اچانک ڈاکو آ گئے ، ڈاکو آ گئے ، کا شور اٹھتا ہے۔ کوئی پکارتا ہے۔ بھاگو! بھاگو! اپنی جان بچانے کے لئے جس طرف بھی بھاگ سکتے ہو، بھاگو!ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگتا ہے۔ ڈاکو سر پر آ جاتے ہیں۔ میں بھاگنا چاہتا ہوں مگر بھاگ نہیں پاتا۔ ایک تلوار لہراتی ہے اور میرا سر تن سے جدا ہو جاتا ہے۔ میں دونوں ہاتھوں سے اپنے گرتے ہوئے سر کو تھامنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کوشش کے باوجود میں اپنے سر کو فرش پر گرنے سے نہیں روک پاتا اور فرش پر ڈھیر ہو جاتا ہوں۔ " ریاض صاحب!لگتا ہے آج آپ نے دو پہر میں نیند نہیں کی؟ " مجھے فرش پر گرتے ہوئے دیکھ کر کوئی پکارتا۔
" تم آج کی بات کرتے ہو، میں نے تو صدیوں سے پلک تک نہیں جھپکی۔ اپنی آنکھوں میں خواب سجائے جنگلوں ، صحراؤں ، کھیتوں ، کھلیانوں ، ویرانوں میں دیوانوں کی طرح کہاں کہاں بھاگتا رہا ہوں۔ خواب پورا ہونے کے قریب آتا ہے تو میری نیند ٹوٹ جاتی ہے ، آنکھ کھل جاتی ہے۔ مگر وہاں تو کچھ بھی نہیں۔ تپتی ہوئی ریت پر میں اکیلا پڑا ہوں۔ قافلہ منزل کی تلاش میں اگلے پڑاؤ کی طرف بڑھ چکا ہوتا ہے۔ قافلے والو!قافلے والو! مجھے بھی ساتھ لے لو۔ میں پکارتا ہوں مگر وہاں کوئی ہو تو میری پکار سنے۔ صحرا میں کوئی کسی کی پکار نہیں سنتا تھا بلکہ سن ہی نہیں سکتا تھا۔ یہاں پر پہچان نام سے نہیں کام سے ہوتی تھی۔
چھوٹا حاجی، انہی چرب زبان ، داستاں گویوں میں سے ایک تھا۔ حاجی کے ساتھ چھوٹے کے لا حقے کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اس کا چھوٹا بھائی اس سے بہت بعد میں یہاں آ کر بہت بڑا آدمی بن گیا تھا اور اس نے حج کی سعادت بھی بڑے بھائی سے بہت پہلے حاصل کر لی تھی۔ اور یوں چھوٹا بھائی ، بڑا حاجی اور بڑا بھائی، چھوٹا حاجی بن گیا تھا۔ لال پر ی کا ساتھ مل جاتا تو ان کا اندازِ بیاں دو آتشہ ہو جاتا۔ یارو! عجیب شہر ہے یہ، بلیاں چوہوں سے ڈرتی ہیں ، کتے بلیوں سے ڈرتے ہیں ، پانی سے پٹرول سستا ہے ، سبزیاں پھلوں سے سستی ہیں ، شکر نمک سے سستی ہے ، مرد سر ڈھانپتے ہیں مگر ۰۰۰۰۰
عام سی بات سے نئی بات نکالنے اور نئے ڈھنگ سے اچھالنے کے فن نے اسے محفلوں کی ضرورت بنا دیا تھا۔ چھوٹا حاجی یہاں آنے والے قدیم ترین لوگوں میں سے تھا اور ان لوگوں میں اب شاذ ہی کوئی یہاں رہ گیا تھا۔ لگ بھگ ساری کی ساری عمر یہاں گزار دینے کی وجہ سے چھوٹا حاجی ہر کس و نا کس کے حالاتِ زندگی سے واقف تھا۔ لوگ اس کی بیحد عزت کرتے تھے جب کہ اس کا اپنا خیال یہ تھا کہ عزت وزت کچھ نہیں کرتے ، ڈرپوک ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لینا ، چھوٹے حاجی کے بائیں ہاتھ کا کمال تھا۔ کسی بھی راہ چلنے والی کی چال سے اس کے چلن کا اندازہ لگا لینا اس کا کمالِ فن تھا۔
ہاں !جرن یا فور میں ، رضوانہ نام کی کوئی عورت تھی جس کا تذکرہ ، چھوٹا حاجی کبھی بھول کر بھی نہیں کرتا تھا۔ با خبر ذرائع کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ چھوٹا حاجی اسے دور سے دیکھ لیتا تو راستہ ہی بدل لیتا ہے۔ کیوں بدل لیتا ہے ؟یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب اگر کسی کے پاس تھا تو وہ چھوٹا حاجی تھا۔ مگر چھوٹے حاجی سے یہ سوال پوچھنا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا تھا۔ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی جرات تو مجھ میں بھی نہیں تھی۔ تاش مافیا کے دوستوں نے ایک سوچی سمجھی شرارت کے تحت مجھے یہ سوال پوچھنے پر اکسایا تھا اور اب چھوٹے حاجی کے جواب یا عتاب کے منتظر تھے۔ چھوٹے حاجی نے بڑے تحمل کے ساتھ میرے سوال کو سنا تھا اور انگارہ آنکھوں سے مجھے گھورے چلا جا رہا تھا۔
" بابو جی! پر انے زخموں اور دبی ہوئی راکھ کو نہیں کریدتے ، کیا خبر مردہ راکھ سے کوئی زندہ چنگاری نکل آئے۔ آگ پھر بھڑک اٹھے اور سب کچھ جلا دے۔ یہ لوگ بہت نا سمجھ ہیں ، سمجھتے ہیں کہ میں آپ کے گلے پڑ جاؤں گا مگر آپ نے تو ان کے اکسانے پر یہ سوال پوچھا ہے ناں ؟ از خود تو یہ سوال نہیں پوچھا؟ آپ نے سوال نہیں پوچھا بلکہ میرے منہ پر ایک طمانچہ مارا ہے۔ طمانچے کا جواب طمانچہ ہوتا ہے مگر میں نے آپ کو معاف کیا۔ دعا کریں کہ سوہنا رب مجھے معاف کر دے۔ معاف کر دے۔ معاف کر دے "کسی کو چھوٹے حاجی سے ایسے ٹھنڈے جواب کی امید نہیں تھی۔ محفل کو اک چپ لگ گئی تھی۔ چھوٹا حاجی کچھ کہے بغیر، بھری محفل کو چھوڑ کر اٹھ گیا اور اس کے بعد کسی نے اسے جرن یا فور میں نہیں دیکھا۔
 

الف عین

لائبریرین
اِسی آنکھ میں کئی خواب تھے

اُس کی عمر پچاس سالوں سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی مگر وہ پچاس سالوں سے زیادہ کی لگتی نہیں تھی۔ ماہ و سال کی گردش کی سوئی اس کے معاملے میں شاید پچاس کے ہندسے کے آس پاس آ کر جیسے اٹک گئی تھی۔ اس کی وجہ اس کا اکہرا بدن اور درمیانہ قد بھی ہو سکتا تھا اور آف وائٹ ((off White رنگ کی طرح کی رنگت کا بھی کہ زردی ملا سپید رنگ، نیا ہو تو نیا نہیں لگتا ، پر انا ہو جائے تو پر انا نہیں لگتا۔ وجہ اس کا جرن یا فور میں رہنا بھی ہو سکتا تھا کہ گلی سڑی پلائی وڈ اور لوہے کی پھٹی پر انی چادروں سے بنائے ہوئے گھروں میں پر انی چیزیں بھی نئی لگنے لگتی ہیں۔
مریل سے ، ایف۔ اے۔ پاس رضا کو کنٹریکٹر کے ایک پاکستانی فورمین نے لیبارٹری میں کام دینے کی سفارش کی تھی۔ اپنی جسمانی ساخت کی بنا پر وہ لیبارٹری کے نسبتاً سخت کام کے لئے قطعاً غیر موزوں تھا۔ اس کے دھان پان سے جسم کو دیکھ کر ایسے ہی ایک شخص کی کہانی یاد آ جاتی تھی جو کچھ یوں تھی۔
ا یک خوبرو اور جوان دوشیزہ ایک دھان پان سے نوجوان کو یہ بتاتی ہے کہ اس بھرے شہر میں بس وہی ایک ایسا نوجوان ہے جو اس کی ایک دیرینہ خواہش پوری کر سکتا ہے۔ اس خدمت کے عوض اگر وہ چاہے تو نقد معاوضہ حاصل کر سکتا ہے۔ نوجوان وہ خدمت بلا معاوضہ سر انجام دینے پر تیا رہو جاتا ہے۔ گھر لے جا کرجوان خاتون نوجوان کو اپنے خوبصورت ڈرائنگ روم میں بٹھاتی ہے اور کھلاتی پلاتی ہے۔ اصرار کر کے نوجوان کے غیر ضروری کپڑے اتروا دیتی ہے۔
" تھوڑا سا اور انتظار ، میں ابھی گئی اور ابھی آئی " کہہ کر خاتون اپنے بیڈ روم میں چلی جاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد نوجوان کے انتظار کی انتظار کی گھڑیاں ہوتی ہیں۔ خاتون اُس کے سامنے ، اُس سے بھی"گئی گزری" صحت والے بچے کا بازو تھامے آ کھڑی ہوتی ہے اور بچے کو خبردار کر تی ہے۔
"دیکھو منے ! اگر تم ڈھنگ سے نہیں کھاؤ گے تو اس نوجوان کی طرح ہو جاؤ گے "
رضا کے لئے کسی کے پاس ایسا کوئی کام نہیں تھا۔ تا ہم پڑھا لکھا ہونے کی بنا پر اسے نتائج کی صاف شدہ نقول بنانے کے کام پر لگایا جا سکتا تھا۔ میں نے ہاں کر دی مگر کچھ ہی دنوں کے بعد اس کے انچارج نے شکایت کی کہ یہ کام بھی اس کے بس کا نہیں۔ پوچھ گچھ پر پتہ چلا کہ وہ ایف۔ اے۔ پاس تو کجا میٹرک پاس بھی نہیں ہے۔ وہ گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر پایا تھا اور دو سال پہلے ویزوں کا کاروبار کرنے والی کسی کمپنی سے ویزہ خرید کر یہاں آیا تھا۔ اسے ویزہ دیتے وقت کمپنی نے واضح کر دیا تھا کہ اپنے لئے کام کا بندوبست اسے خود کرنا ہو گا۔ پچھلے دو سالوں میں اسے صرف چند ماہ ہی کام ملا تھا۔ مشکل دنوں میں اسے اس کی بہت دور کی ایک انٹی (aunty) نے سہارادیا تھا اور اب وہ اپنی انٹی کے پاس رہ رہا تھا۔
اس کی خراب صحت اور گھریلو پس منظر کی بنا پر اسے کام سے ہٹانا، نا مناسب بات تھی۔ ٹھیکیدار کے فور مین نے اس کی سفارش کی تھی۔ لیباریٹوری ٹھیکیدار کی تھی اور وہی اس کی تنخواہ دیتا تھا۔ مجھ سے پوچھا جانا تو محض ضابطے کی کاروائی تھا۔ اگر اس کے کام نہ کرنے سے بھی کام چل سکتا تھا تو اس کے لیباریٹوری میں ہونے یا نہ ہونے سے مجھے کیا فرق پڑتا تھا؟ مجھے کام چاہیے تھا۔
اس کا انچارج یعنی کنٹریکٹر کا میٹیریل انجنیئر (materials Engineer) اور اس کے ساتھی کارکن اسے برداشت کرنے پر آمادہ تھے ، سو بات آئی گئی ہو گئی۔
وہ آتا ، پورا دن لیباریٹوری میں گزارتا اور چلا جاتا، البتہ جمعرات کو دوپہر کے بعد چھٹی کر لیتا۔ دو تین ہفتے گزر گئے۔ پھر اس نے جمعے کی چھٹی کے ساتھ ہفتے کی چھٹی بھی کرنا شروع کر دی۔ کام پھر بھی چلتا رہا۔ ہفتہ وار دو چھٹیوں کے بعد اس نے ہفتے کے بیچ میں بھی چھٹیاں کرنا شروع کر دیں۔ کام پھر بھی چلتا رہا۔ ایک بار وہ ہفتہ بھر غائب رہا تو ایک دن میں نے ایسے ہی اس کے بارے میں پوچھ لیا تو پتہ چلا کہ وہ تو بس تنخواہ لینے کے لئے آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
"کوئی پوچھتا نہیں ؟"میں نے پوچھا
"کون پوچھے گا؟ پوچھنے والوں نے تو اسے رکھوایا ہے " اس کے انچارج نے وضاحت کی۔ سائٹ کیمپ (site Camp) میں چار سو کے قریب لوگ رہ رہے تھے اور ان میں سے صرف اور صرف چار آدمی شراب نہیں پیتے تھے۔ رضا اور اس کو کام پر رکھوانے والا فور مین دونوں شراب بیچنے والوں اور شراب پینے والوں کے درمیان میں رابطے کا کام کرتے تھے۔ بہت زیادہ مذہبی شخص نہ ہونے کے باوجود، یہ بات بتاتے ہوئے اُس کے لہجے میں اک عجیب سا دکھ تھا۔ سخت مقامی قوانین کے ہوتے ہوئے بنتِ انگور کی دستیابی کی بات ناقابلِ یقین لگتی تھی۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟"میرا سوال تھا۔
"ایسا ہونا تو نہیں چاہیے مگر ایسا ہے " اس کا جواب تھا۔
ایشائی ملکوں سے لوگ ، اپنی جائیدادیں بیچ بیچ کر اور اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں پیسہ بنانے کے لئے آتے تھے۔ یہاں آنے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ پیسہ تو کام کرنے پر ملتا ہے۔ زیادہ کام کرو گے تو زیادہ پیسہ ملے گا۔ اصول سیدھا سادھا تھا اور سمجھ میں آتا تھا۔ چنانچہ ہر کوئی، ہر وقت، ہر طرح کا اضافی کام کرنے کر لئے آمادہ رہتا تھا۔ لمبے اوقاتِ کار کے نتیجے میں ملنے والی اضافی رقوم شروع شروع میں بہت مزہ دیتیں۔ جیب بھری بھری لگنے لگتی اور اچھے اچھے خواب دکھائی دینے لگتے مگر کچھ ہی سالوں میں حقائق سر اٹھانے لگتے۔ لمبے اوقاتِ کار صحت پر اثر انداز ہونے لگتے۔ خواب سراب بن جاتے اور ادراک ہوتا کہ بھری بھری لگنے والی جیب میں بہت سارے ایسے سوراخ بن چکے ہیں ، جن کی وجہ سے جیب بھرنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
تیزی سے گزرنے والے مہ و سال ، آدمی کو اندر ہی اندر توڑنے لگتے۔ تھکاوٹ نیند کا سبب بننے کی بجائے جگراتوں کو جنم دینے لگتی۔ زندگی مصنوعی سہاروں کی طلب کرنے لگتی۔ ایسے ہی کسی کمزور لمحے میں عارضی خوشیوں کے سوداگر دکھوں کی دوا لے کر آ جاتے۔ ہر معاشرت اپنے قاعدے اور قوانین خود ، وضع کر لیتی ہے۔ ضرورتیں خود اپنا راستہ نکال لیتی ہیں۔
ہر ایجاد کسی نہ کسی ضرورت کی بیٹی ہے۔ کمانے کی خواہش میں گھر سے نکلنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ میلہ سجانے والے ، میلہ کمانے والے ، میلہ لوٹنے والے اور میلہ گھومنے والے سبھی جلد سے جلد پا لینے کی خواہش کے اسیر ہوتے ہیں۔ فقیری اور امیری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ داؤ لگانے والا کبھی ہارتا ہے اور کبھی کبھی جیت بھی جاتا ہے۔ داؤ کا سکہ رکھنے والے کو کسی کی ہار جیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، اس کے لئے کھیل کا جاری رہنا ، اہمیت رکھتا ہے۔
اپنے کارندے کے طور پر ، ان سوداگروں کا پہلا انتخاب کوئی فور مین بنتا کہ وہ ہوتا ہی مڈل مین ہے۔ مڈل مین ، اوپر سے بہت نیچے اور نیچے سے ذرا اوپر ہونے کی وجہ سے تھوڑے سے اور پیسے بنانے کے لا لچ میں آ جاتا۔ رضا کی طرح کے کارندوں کی البتہ کوئی کمی نہیں تھی۔ ایک کو ڈھونڈنے پر ہزار مل جاتے تھے۔ کم محنت میں زیادہ پیسے مل جائیں تو کام کے اچھے برے ہونے کے بارے میں کون سوچتا ہے ؟سمندر میں ڈوبنے والے کے پاس بچانے والے کا شجرۂ نسب پوچھنے کا وقت کہاں ہوتا ہے۔ وہ تو ، جو اسے بچا لے ، اسی کا ہو جاتا ہے۔
رضا جب کبھی لیباریٹوری آتا تو سلام کرنے کے لئے میرے کمرے میں ضرور آتا۔ مجھ سے اپنے لائق کسی خدمت کا پوچھتا۔ جواباً مجھے بھی اس کا حال احوال اور اس کی صحت کا پوچھنا پڑتا۔ اس بار وہ مجھے ملنے کے لئے آیا تو میں نے اسے بٹھا لیا اور اس کی لگاتار غیر حاضریوں کی وجہ پوچھنا شروع کر دی۔ میرے غیر متوقع سوالوں سے وہ کچھ پر یشان سا ہو گیا۔ مگر آدمی گھاگ تھا ، سمجھ گیا کہ کسی نے اس کے بارے میں میرے کان خوب بھرے ہیں۔ سچی باتوں کو وہ، ایک خاص حد سے زیادہ، جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا اور مان بھی نہیں سکتا تھا۔ برائی کا رواج تو تھا مگر برائی کوبرائی کے خانے میں ہی رکھا جاتا تھا۔ ایسے وقت میں مجبوری کا بہانہ بنا لینا معمول کی بات تھی۔ اس بھی نے اپنی مجبوریاں گنوائیں۔ بہت مشکلوں سے اسے یہ کام ملا تھا اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی بات اتنی غلط بھی نہیں تھی۔ پر دیس میں کام کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ موقع مل جائے تو تھوڑا بہت ثواب کما نے میں کیا ہرج تھا؟
"تم اپنی انٹی کے پاس رہتے ہو ناں ؟"
"تمہاری انٹی کو معلوم ہے کہ تم بہت چھٹیاں کرتے ہو؟"میں نے براہِ راست سوال کرنے کی بجائے ساول کو تھوڑا گھما دیا
" جی، ہاں "
۔ "یعنی تمہاری انٹی کو تمہاری ساری باتوں کا علم ہے ؟"
"جی، ہاں "
"یعنی تمہارے انکل کو بھی معلوم ہے کہ تم کیا کرتے ہو ؟"سوال کچھ اتنا ٹیڑھا نہیں تھا مگر میرے اس سوال پر اسے چپ سی لگ گئی۔ خاصی دیر خاموش بیٹھے رہنے کے بعد وہ جواب دئے بغیر اٹھ گیا۔ اس بات کا ذکر میں نے اس کے انچارج سے کیا تو وہ مسکرا دیا۔
"اس کا کوئی انکل ہوتا تو وہ انکل کی بات کرتا۔ "
" کسی انٹی کا ذکر تو اس نے خود کیا تھا۔ انٹی ہے تو انکل بھی ہونا چاہیے ؟ "
" اصولاً تو ہونا چاہیے مگر نہیں ہے اور اندر کی بات یہ ہے کہ جسے وہ انٹی کہتا ہے وہ اس کی انٹی بھی نہیں ہے۔ رضا کراچی کا رہنے والا ہے اور اس کی انٹی لاہور کی رہنے والی ہے " رضا کے انچارج نے بات کو اور اُلجھا دیا تھا۔ میں نے ان دونوں کے باہمی تعلق کو کوئی شکل دینے کی کوشش کی مگر بات اُلجھتی چلی گئی۔ چھٹی کا وقت ہونے والا تھا اور جمعرات کا دن تھا۔ مجھے کچھ ضروری کاغذات نپٹانے تھے۔ میں کاغذات میں مصروف ہو گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ ویسے بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔
پر دیس بہت سے ایسے رشتے ایجاد کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ، جو عام حالات میں ضروری نہیں ہوتے۔ نئی مائیں بنتی ہیں ، نئی بہنیں بنتی ہیں اور بعض افراد تو بہنیں بنانے کے کام میں اتنے مشہور ہو جاتے ہیں کہ لوگ انہیں بہنوں والا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ماسی کا لفظ خالہ کی چھلنی سے گزر کر انٹی بنتا بنتا خاصا خوشبودار ہو جاتا ہے۔ کام کے سیٹ اپ میں رضا کا ہونا یا نہ ہونا کچھ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ تا ہم انٹی کے حوالے سے کچھ دیر تک رضا کا نام ذہن میں گردش کرتا رہا۔ جلدی کے ایک دو کام نکلے تو سب کچھ بھول گیا۔ جمعرات کی رات تھی، تاش کی محفل جمی تو ذہن کی رہی سہی صفائی بھی ہو گئی۔
اس ماہ کے بعد کئی ماہ گزر گئے۔ جمعرات کی پوری رات تاش کھیلنے میں گزری تھی۔ رات بھر جاگنے والے گھوڑے بیچے بغیر گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ مجھے کیمپ میں کوئی ضروری کام تھا اور میں نے ڈیرے والوں کو بتا دیا تھا کہ میں سویرے سویرے نکل جاؤں گا۔ جاگنے پر میں نہ ملوں تو اسے باعثِ تشویش نہ سمجھا جائے۔ سورج نکلنے سے ذرا پہلے جاگ کر میں سونے والوں کے اوپر سے پھلانگتا پھلانگتا کمرے سے باہر نکل آیا۔ بستی ابھی جاگی نہیں تھی اور لوگ لمبی تان کر سوئے ہوئے تھے۔ گلیاں سنسان تھیں۔ دل میں بے وجہ ہی نئے راستے کی خواہش جاگی اور میں معمول کے راستے کو چھوڑ کر میں گلیوں گلیوں بھٹکنے لگا۔ کوئی گلی کیچڑ والی نکل آتی تو کسی گلی میں کچرے کی بو داخل نہ ہونے دیتی۔ دائیں بائیں مڑتے مڑتے میں نے راستہ کھو دیا کہ معاً ایک دروازہ کھلا اور رضا میرے سامنے آ گیا۔
" صاحب جی !آپ؟ "میرے اچانک سامنے آ جانے کی وجہ سے اس کی آواز غیر ارادی طور پر بلند ہو گئی تھی۔ جواب میں میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اندر سے ایک اور آواز ابھری "کون ہے رضا؟ "
" میرے لیباریٹوری والے صاحب ہیں۔ "رضا نے جواب دیا مگر وہ رضا کے جواب کا انتظار کئے بغیر دروازے میں آ گئی۔
"کون ہے رضا؟ "مجھے دیکھے بغیر اس نے اپنا سوال پھر دہرا دیا تھا۔ مجھے دیکھا تو جھجھک گئی
اس کی عمر پچاس سالوں سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی مگر وہ پچاس سالوں سے زیادہ کی لگتی نہیں تھی۔ ماہ و سال کی گردش کی سوئی اس کے معاملے میں شاید پچاس کے ہندسے کے آس پاس آ کر جیسے اٹک گئی تھی۔ اس کی وجہ اس کا اکہرا بدن اور درمیانہ قد بھی ہو سکتا تھا اور آف وائٹ (off White ) رنگ کی طرح کا، اس کا زردی ملا سپید رنگ بھی کہ یہ نیا ہو تو نیا نہیں لگتا ، پر انا ہو جائے تو پر انا نہیں لگتا۔ وجہ اس کا جرن یا فور میں ہونا بھی ہو سکتا تھا کہ گلی سڑی پلائی وڈ اور لوہے کی پھٹی پر انی چادروں سے بنائے ہوئے گھروں میں پر انا فرنیچر بھی نیا لگنے لگتا تھا۔ میں چلتے چلتے رک گیا۔ رضا دروازے سے باہر آ گیا تھا اور اس کی انٹی کھلے دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ صبح کا وقت تھا اور بستی ابھی جاگی نہیں تھی۔ اک بے نام عورت ، عورت کے بیٹے کی عمر کا ایک بد نام لڑکا اور اک اجنبی مرد آمنے سامنے کھڑے تھے۔ ہر کوئی دوسرے سے خائف ، سہما اور ڈرا ہوا تھا۔
" رضا ، انہیں اندر لے آؤ "
"نہیں مجھے جانا ہے ، پھر کبھی آؤں گا"
" ایک بار دروازے سے لوٹ جائے تو پھر کون آتا ہے۔ آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ کو جانتی ہوں۔ آپ کے ایک سوال کا جواب مجھ پر قرض ہے "
"میرے سوال کا قرض؟ میں سمجھا نہیں ؟"
"اسی لئے تو کہہ رہی ہوں کہ اندر آ جائیں۔ ناشتہ بھی ہو جائے گا اور آپ کو ایک پر انے سوال کا جواب بھی مل جائے گا" عورت بے نام تھی ، لڑکا بد نام اور میں ایک اجنبی۔ پھر بھی کسی کے دروازے پر آ کر لوٹ جانا مجھے اچھا نہیں لگا۔ کچھ توقف کے بعد میں گھر کے اندر چلا گیا۔ دو کمروں کے مکان میں ایک کمرہ سونے کے کمرے اور دوسرا ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ میں اور رضا ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے تو وہ ناشتہ لے آئی۔ انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ گھر کے بنائے ہوئے پر اٹھے تھے۔
"رضا نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کہانیاں بھی لکھتے ہیں "
" لکھا کرتا تھا مگر اب بہت دنوں سے کوئی کہانی نہیں لکھی۔ آپ کہانیاں پڑھتی ہیں ؟"
"نہیں ، میں کہانیوں کو جنم دیتی ہوں " وہ کھلکھلا کر ہنس دی " میں عورت ہوں ناں۔ اس لئے ایسا کہہ رہی ہوں۔ اس دنیا کی پہلی کہانی کو بھی ایک عورت ہی نے جنم دیا تھا۔ کچھ لوگ عورت کے بغیر بھی کہانی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول تو کہانی بنتی نہیں ، بن بھی جائے تو دلچسپ کہانی نہیں بنتی۔
ہاں تو آپ کا سوال کیا تھا؟ مگر ٹھہرئیے۔
اس سے پہلے میں ایک وضاحت کر دوں۔ یہ لڑکا، رضا میرا بیٹا نہیں ہے مگر یہ مجھے ماں اور میں اسے اپنا بیٹا مانتی ہوں۔ ٹریولنگ ایجنسی پر بہت سے لوگ آتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو کہہ کر اسے کام پر رکھوایا تھا۔ مگر جو کام اسے ملا اس کے بارے میں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
میں تو ، خیر، اتنی اچھی عورت نہیں ہوں۔ مگر اَچھے مردوں کی یہ کیا مجبوری ہے کہ وہ اَچھی عورت کوبھی برے روپ ہی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ شخص رضا کے ذریعے میرے قریب ہونا چاہتا تھا۔ قریب ہونے کا مطلب تو آپ بھی جانتے ہوں گے ؟اب میں اتنی گئی گزری بھی نہیں کہ مرد کی آنکھ میں چھپی کہانی کو نہ پڑھ سکوں اور ان کے دل کی بات کو نہ سمجھ سکوں۔ اب یہ ایک ٹریولنگ ایجنسی میں ٹی۔ بوائے کا کام کر رہا ہے۔ اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات ہے تو بتا دیں "
وہ اس تیزی کے ساتھ وہ اپنے موضوعات بدل رہی تھی کہ اس کی باتوں کو سمجھ پانا مشکل سے مشکل ہو تا چلا جا رہا تھا"محترمہ! میں آپ کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ ان باتوں کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے ؟"
"تعلق ہے تو بات کر رہی ہوں ناں۔ ویسے میرا نام محترمہ نہیں ، رضوانہ ہے "
"رضوانہ؟ " رضوانہ کا نام سنتے ہی میں ، حیرت کے مارے ، اچھل پڑا۔ رضوانہ ، تاش کی محفلوں میں درجنوں بار سنا ہوا نام تھا۔ اسی کے بارے میں سوال کرنے کی وجہ سے چھوٹے حاجی نے جرن یا فور چھوڑ دیا تھا۔ انٹی کا نام میں نے دفتر میں سنا تھا۔ ایک ہی وقت میں ، رضوانہ اور انٹی ، دونوں میرے سامنے آن کھڑی ہوئی تھیں۔
" آپ میرا نام سن کر اتنا چونکے کیوں ہیں ؟" اب میری بجائے رضوانہ عرف انٹی کے چونکنے کی باری تھی "لگتا ہے کہ آپ نے میرا نام سنا ہوا ہے۔ "وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئی پھر ایک لمبی ا ور گہری سانس لے کر بولی " ضرور سنا ہو گا۔ اتنا چھوٹا سا تو شہر ہے۔ ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہے مگر آپ جیسا شخص بھی میرا نام جانتا ہو گا، یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔ واہ !کیا بات ہے۔ واہ۔ مولا! واہ ؟"
پل بھر میں رضوانہ کے لہجے پر ، لے کا نہیں چیخ کا گمان ہو نے لگا تھا۔ کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی الجھ گئی تھی۔ جان پہچان کی خواہش کسے نہیں ہوتی مگر جان پہچان مروجہ قاعدے قانون کے اندر ہی رہنی چاہیے۔ رضوانہ کا لہجہ بتا رہا تھا کہ دنیا نے اسے گہرے گھاؤ لگائے ہیں۔ میں نے چھوٹے حاجی کی طرح اس کی بھی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ چھوٹے حاجی کی طرح وہ بھی بے طرح تڑپ اٹھی تھی۔ زخم کو مرہم کی ضرورت تھی۔
دکھوں کی کرید کوئی اچھی بات نہیں تھی مگر اب بات چل نکلی تھی تو اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہو گیا تھا۔ بات چھوٹے حاجی نے بھی ٹال دی تھی، چپ رضوانہ بھی توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ ان کی عمروں کے درمیان خاصی بڑی تفاوت کے باوجود ان کا کوئی دکھ مشترک لگتا تھا۔ کوئی نہ کوئی کڑی کہیں نہ کہیں جڑی ہوئی تھی۔
"رضوانہ جی، میں نے آپ کو محترمہ کہہ کر اس لئے پکارا تھا کہ آپ عمر میں مجھ سے بہرحال بڑی ہیں۔ تخاطب کے لئے کچھ تو کہنا ضروری تھا۔ آپ نے ، شاید بات سے بات نکالنے کے لئے ، اپنا نام بتا دیا جو میں نے سنا ہوا تھا۔ میں "رضوانہ" کے بارے میں فقط اتنا جانتا ہوں کہ اس نام کی کوئی عورت ہے اور کوئی داستان اس سے منسوب ہے۔ داستان کیا ہے ؟اس شہر میں نیا ہونے کی وجہ سے نہیں جانتا ہوں۔ آپ نے اپنا نام بتایا۔ میں نے وہ نام دہرا دیا۔ یہ بے نام لوگوں کی بستی ہے۔ یہاں وقت گزاری کے لئے کوئی داستان چاہیے۔ داستان کے لئے کوئی نام چاہیے۔ داستان گوئی کے لئے کوئی خوبصورت اور بد نام، نام چاہیے کیونکہ کہانی ہمیشہ شر سے جنم لیتی ہے۔ خیر سے تو اسے سمیٹا جاتا ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر کیا جاتا ہے۔ سچ کہا، ناں میں نے "
اس کے چہرے سے ناگواری کے اثرات کم ہونے لگے تھے۔ میری باتوں کا وار کارگر ہو رہا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے اور اپنی سوچوں کو مجتمع کرنے کے بعد میں نے اپنا سوال داغ دیا
" آپ چھوٹے حاجی کو جانتی ہیں ؟ "
"آپ چھوٹے حاجی کو جانتے ہیں ؟"
"ہاں اور آپ کو نہ جاننے کے باوجود یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آپ بھی اُسے ضرور جانتی ہیں "
" آپ سے یہ کس نے کہا ؟"
"کسی نے بھی نہیں۔ کچھ تحریریں وقت ماتھے پر یوں لکھ دیتا ہے کہ اندھا بھی انہیں پڑھ سکتا ہے اور میں تو آنکھوں والا ہوں "
"کہتا تو ہر کوئی یہی ہے مگر سمجھتا کوئی کوئی ہے۔ بات بہت پر انی ہے۔ سن کر آپ کو کیا ملے گا؟"بات شروع کر کے اس نے خود ہی چپ سادھ لی۔
"میں سن رہا ہوں "
"میں بھولی بسری باتیں کیوں یاد کروں ؟"
" اس لئے کہ آپ نہیں بتائیں گی تو مجھے خود داستان گھڑنی پڑے گی۔ میں کہانیاں لکھتا ہوں۔ میں نے کہانی شروع کر لی ہے تو کہانی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا، میرے فرضِ منصبی میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کہانی کا لکھا جانا اب اس کا مقدر ہو چکا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اسے کون سنائے گا؟آپ یا میں ؟یہ ہڈ بیتی ہو گی یا جگ بیتی؟"
"جگ بیتی بھی کسی کی ہڈ بیتی ہوتی ہے "
" تو پھر بسم اللہ کیجئے "
" کسی اور دن سہی"
"کسی اور دن کیوں ؟ آج کیوں نہیں ؟"
" میں بھی نواز سے ایسے ہی کہا کرتی تھی"
" نواز کون؟چھوٹا حاجی؟ "
"نہیں۔ یہ تب کی بات ہے جب چھوٹے حاجی کے گھر والے میرے رشتے کے لئے میری بہن اور میرے باپ کو مجبور کر رہے تھے "روانی میں بات کہہ دینے کے بعد رضوانہ کو اچانک احساس ہوا کہ وہ تو کوئی اور باتیں کرنے لگ گئی ہے۔ گاڑی رفتار پکڑنے سے پہلے ہی رک گئی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
" رکیے نہیں ، بات کہہ دیں۔ چپ کے تو سینکڑوں پہلو نکلیں گے "
"کیا کیا کہوں ؟باتیں تو بہت ہیں مگر قصہ کوتاہ یوں کہ بالآخر میری بڑی بہن کے چار بچوں کے باپ رنڈوے جیٹھ چھوٹے حاجی سے میری شادی ہو ہی گئی۔ میری اور چھوٹے حاجی کی عمروں کی تفاوت اور اس کے چار بچوں کے باپ ہونے کے باوجود میں نے اسے قبول کر لیا تھا۔ چھوٹے حاجی کی نوکری بھی واجبی سی تھی اور گھر کا خرچ مشکل سے ہی پورا ہوتا تھا۔ ان دنوں خلیج سے آنے والوں کی دولت کے بڑے چرچے ہوا کرتے تھے۔ چھوٹے حاجی کا ایک لنگوٹیا دوست بھی وہیں ہوا کرتا تھا۔ ہماری شادی کے دو سال کے بعد وہ آیا تو چھوٹے حاجی کو بھی ساتھ لے گیا۔ ان دنوں میں ہوائی جہاز سے تو کوئی کوئی سفر کرتا تھا۔ لانچوں سے زندگی اور موت کی بازی لگا کر لوگ سفر کرتے تھے اور پھر برسوں کے بعد ان کی خیر خیریت کی خبر ملتی تھی۔ چھوٹا حاجی چھ سالوں کے بعد واپس لوٹا تو زنانہ اور مردانہ کپڑوں کے دو اٹیچی ساتھ لایا تھا۔ چھوٹا حاجی چھ ماہ ٹھہرا، اور مجھے وہاں جلد بلا لینے کا وعدہ کر کے واپس چلا گیا۔ ایک سال کے بعد اس نے پیغام بھیجا کہ میں رضوانہ کے نام کا پاسپورٹ بنوا لوں۔
رضوانہ کے نام کا کیوں ؟ جواب ملا، کوئی قانونی مجبوری ہے۔ ویزہ آیا مگر اس پر شوہر کے خانے میں چھوٹے حاجی کی بجائے کوئی اور نام لکھا ہوا تھا۔ ٹیلیفون پر میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ؟ تو جواب ملا کہ کسی قانونی مجبوری کے تحت ایسا کرنا پڑا ہے اور اس میں فکر کی کوئی بات نہیں۔ میں نے کوئی فکر نہیں کیا۔ مگر میرے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی اس چھوٹے سے شہر میں خبر پھیل چکی تھی کہ چھوٹے حاجی نے اپنی بیوی اپنے دوست کی بیوی بنا کر یہاں بلائی ہے۔ رضوانہ چھوٹے حاجی کے دوست کی بیوی کا نام تھا۔
اس سے پہلے بھتیجوں ، بھانجوں کو بیٹا اور بھتیجیوں ، بھانجیوں کو بیٹی بنا کر بلانے کا رواج تو تھا مگر اپنی بیوی کو کسی دوسرے کی بیوی بنا کر پر دیس میں بلانے کا شاید پہلا واقعہ تھا۔ چھوٹے حاجی اور اس کے دوست کے بارے میں اس سے پہلے بھی کئی نا گفتنی باتیں مشہور تھیں۔ میں آئی تو باتیں بننے کا عمل تیز سے تیز تر ہو گیا۔ ان لوگوں کو ، جن کے بارے میں چھوٹے حاجی کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی، باتیں گھڑنے کا سنہری موقع مل گیا۔ لوگ بھی کیا لوگ ہیں ؟اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لئے کوئی بھی اور کسی پر بھی وار کر گزرتے ہیں۔ کسی کی ماں ، بہن اور بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی بھی کوئی ماں ، بہن اور بیٹی ہے۔ عورت مرد کے لئے محض ایک جسم ہے اور بس۔ باتونی چھوٹا حاجی دوسروں کی باتوں کی تاب نہ لا سکا۔ میری بہن اور میرے باپ کے سامنے شیر نظر آنے والا مرد بھیگی بلی سے بھی کمزور ثابت ہوا۔ نتیجتاً ہمیں اپنا اپنا راستہ الگ الگ کرنا پڑا۔ اپنے پڑھے ہونے کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ تھوڑی تگ و دو کے بعد مجھے ایک ٹریولنگ ایجنسی میں کام مل گیا۔ پر ائے دیس میں پر ائے مردوں کے درمیان بیٹھ کر نوکری کرتے کرتے میری عمر بیت چلی ہے اور بس۔ نوکری کرتی ہوں ، باتیں سنتی ہوں اور زندگی گزار تی ہوں۔ لوگ پیٹھ پیچھے ضرور باتیں کرتے ہوں گے مگر منہ پر بات کرنے کی کبھی کسی نے ہمت نہیں کی۔ بہت باتیں بنانے والے اکثر چھوٹے حاجی کی طرح بے ہمت ہوتے ہیں "
"الگ ہونے کے بعد چھوٹے حاجی سے کبھی ملاقات یا بات ہوئی ؟"
"نہیں ہوئی اور ہو بھی نہیں سکتی کہ پہلی بیوی سے اس کے دونوں بیٹے اب یہیں ہوتے ہیں اور باپ کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ بندہ بشر ہے ، کبھی بھی بھٹک سکتا ہے "
بات مکمل ہو چکی تھی ، موذن نے جمعے کی پہلی اذان دینا شروع کر تھی اور اٹھنے کی اجازت طلب کرنے کا بہانہ بھی مل چکا تھا۔ مگر رضوانہ کے منہ سے نواز اور چار بچوں والے رنڈوے جیٹھ کا غیر شعوری ذکر مجھے نواز، حمیدہ اور فریدہ کی المیہ کہانی تک لے گیا۔ نواز اچانک میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔
سوال نا مناسب تھا مگر غیر ضروری نہیں تھا۔ تجسس بیدار ہو گیا تھا اور اپنے سوال کے جواب کا تقاضا کرنے لگا تھا۔ بات لبوں پر آ ہی گئی تھی تو اِسے اب کیا ٹالنا تھا؟ اُٹھنے سے پہلے میں نے ایک آخری سوال کی اجازت مانگ ہی لی۔
"ایک آخری سوال جس کا تعلق شاید کسی سے بھی نہیں ، پوچھ سکتا ہوں ؟"
"بات تو ختم ہو چکی ہے مگر سوال کوئی خاص لگتا ہے ؟ اس لئے اجازت مرحمت کی جاتی ہے " اس کے لبوں پر پہلی بار مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔
"آپ کا اصلی نام فریدہ اور بڑی بہن کا نام حمیدہ تھا ناں ؟"میں جانتا تھا کہ میرا سوال نا مناسب ہے مگر اس کے نہ پوچھنے سے ایک چبھن ہمیشہ کے لئے میرے دل میں رہ جانی تھی۔ وہ مجھ سے اس سوال کی کسی طرح بھی توقع نہیں کر رہی تھی۔ میرے سوال نے اس پر جیسے سکتہ طاری کر دیا۔ مجھے اپنے سوال کی سنگینی کا پہلی بار احساس ہوا مگر تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔
معلوم نہیں اس کی آنکھوں میں آنسو پہلے آئے یا لبوں پر ہنسی پہلے آئی مگر روئے یا ہنسے بغیر ، میری طرف دیکھے بغیر، ہاتھ سے گر کر ٹوٹے ہوئے گلاس کی کرچیوں پر سے اپنے پاؤں ہٹائے بغیر اس نے جیسے سرگوشی کی۔
" میرا نام اب رضوانہ ہے اور بس۔ جو آگے تھے وہ آگے نکل چکے اور جو پیچھے تھے وہ پیچھے رہ گئے۔ کچھ کہوں بھی تو سننے والا کون ہے ؟"
کہانی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی تھی۔ کہنے اور سننے کو کچھ بھی تو نہیں رہ گیا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا اور خدا حافظ کہہ کر گھر سے باہر نکل آیا۔
 

الف عین

لائبریرین
تکون

بہاولپور کے ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک کھلے میدان میں ، کنکریٹ سے بنے ہوئے چاند اور ستارے والے گول چکر کے ارد گرد لا تعداد سائیکل رکشائیں مسافروں کا انتظار کر رہی تھیں۔ جھلسا دینے والی دھوپ میں دیر تک کرتے رہنے کی وجہ سے ڈرائیوروں کے جسم پسینے میں شرابور تھے۔ مسافروں کو دیکھتے ہی وہ چیونٹیوں کی طرح میدان میں پھیل گئے۔ گٹھے ہوئے جسم والے ایک ڈرائیور نے اپنی سائیکل رکشا میری طرف بڑھائی۔
"بابو جی! کہاں جانا ہے ؟"
"نئی غلہ منڈی"
"تو بسم اللہ کیجئے "
اپنا سامان سیٹ پر جما کر میں نے رکشے پر اپنی جگہ سنبھال لی تو ڈرائیور نے اپنے جسم کا سارا بوجھ رکشے کے اوپر اٹھے ہوئے پیڈل پر ڈال دیا۔ پیڈل پر زور پڑا، پہیہ گھوما اور سائیکل رکشا رینگنے لگی۔ ڈرائیور کے کولہے یکے بعد دیگرے دائیں بائیں اور ٹانگیں اوپر اور نیچے حرکت کرنے لگیں۔ ہماری سائیکل رکشا اسٹیشن کے سامنے والے میدان کو پیچھے چھوڑ کر سڑک پر آ گئی۔ سورج سر پر تھا اور گرمی کی شدت سے سڑک کی تارکول پگھل گئی تھی ، ہماری سائیکل رکشا پگھلی ہوئی تارکول پر اپنے نشان چھوڑتی ہوئی منزل کی طرف بڑھنے لگی۔ ڈرائیور نے دائیں اور بائیں جھکتے ہوئے پیڈلوں پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا، جس سے رکشا کی رفتار خاصی بڑھ گئی۔ سڑک سنسان تھی اور اک سناٹا ماحول کو گھیرے ہوئے تھا۔ ایک لمحے کے لئے مجھے ایسے لگا کہ اس شہر میں زندگی کا وجود، بس ان رکشاؤں سے ہے ، یہ رک گئیں تویہ شہر پتھرا جائے گا۔
ایک رکشا ہمارے رکشا کے برابر میں آ گئی۔ "کالے بادشاہ" پیچھے سے آنے والے نے آواز لگائی۔
"اللہ بادشاہ" کالے بادشاہ نے جواب دیا اور پھر دونوں ڈرائیوروں کے جسموں میں جیسے بجلیاں بھر گئیں۔ پیڈلوں پر پاؤں کا دباؤ بڑھتا گیا اور رکشائیں ہوا سے باتیں کرنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری رکشا نے دوسری رکشا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک بڑے گول چکر کے پاس پہنچ کر رکشا والے نے رکشا بائیں طرف کاٹ لی۔ پیچھے کی طرف گردن گھما کر پوچھا "باؤ جی۔ غلہ منڈی میں کہاں جانا ہے ؟"
" غلہ منڈی کے شما لی دروازے کے پاس کوئی پیلی کوٹھی ہے ، وہاں "
"دستور بابو کے پاس؟"
" ہاں ! مگر تمہیں کیسے پتہ چلا؟ "
" اس لئے کہ میں بھی وہیں رہتا ہوں۔ ویسے میرا نام کالے۔ ۔ "
" کالے بادشاہ ہے " میں نے اس کی بات کاٹ دی "ہے ناں ؟"
" نہیں بابو جی!کالے بادشاہ نہیں ، میرا نام کالے خاں ہے "
" ابھی کچھ دیر پہلے تو ایک ڈرائیور نے تمہیں کالے بادشاہ کہہ کر پکارا تھا"
" ہاں جی ! مگر پکارنے سے تو کوئی کالے خاں سے کالے بادشاہ نہیں بن جاتا؟ بادشاہ تو اوپر والا ہے۔ ہم تو اس کے بندے اور اس کے بندوں کے بندے ہیں " پل جھپکنے سے بھی کم عرصے میں ، چاک و چوبند ، کالے خاں کے لہجے میں ایک عجیب سی تھکن اتر آئی "وہ جس حال میں رکھے ، اس کی مرضی"
بائیں طرف ایک بڑے آہنی گیٹ پر "نئی غلہ منڈی۔ بہاولپور"کا بورڈ آویزاں تھا۔ گیٹ کے اندر داخل ہو کر اس نے اپنی رکشا روک دی۔
" وہ رہی پیلی کوٹھی، باؤ جی "
غیر پلستر شدہ دیواروں والی ایک نا مکمل عمارت میرے سامنے تھی۔ اس کی بیرونی دیواروں پر کی جانے والے چونے میں پیلا رنگ ملایا دیا گیا تھا۔ اس کا پیلا رنگ اسے دوسری عمارتوں سے ممتاز کر رہا تھا۔ یہ عمارت کسی طرح بھی کوٹھی کہلانے کی مستحق نہیں تھی اور محض پیلے رنگ کی وجہ سے اسے پیلی کوٹھی کا نام دے دیا گیا تھا۔ ۔ عمارت کے درمیان میں ایک بڑا سا دروازہ تھا اور دروازے کے دونوں جانب گیراج نما دوکانیں بنی ہوئی تھیں۔ دوکانوں کے ادھ کھلے دروازوں کے سامنے خاصی ترتیب میں بہت سی سائیکل رکشائیں کھڑی تھیں۔ کالے خاں نے اپنی رکشا بھی انہی رکشاؤں میں ملا دی اور میرا اٹیچی کیس تھام کر بڑے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ بے رنگ و روغن کے دروازے پر سرخ رنگ کے چاک کے ساتھ موٹے موٹے لفظوں میں "دستور" لکھا ہوا تھا۔ بند دروازے پر ایک صحت مند دیسی تالا پڑا تھا۔
" لگتا ہے دستور بابو راستے میں کہیں رک گئے ہیں۔ آپ گھبرائیں نہیں ، تھوڑی دیر میں آ جائیں گے۔ آپ کا جی مانے تو آپ میرے کمرے رک کر ان کا انتظار کر سکتے ہیں " اس کے لہجے میں ایسی اپنائیت تھی کہ میں انکار نہیں کر سکا۔ خلوص نے پل جھپکتے میں اجنبیت اور تذبذب کو شکست دے ڈالی تھی۔
کالے خاں نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور فرش پر بچھی ہوئی دری کی طرف اشارہ کر کے بولا" آپ کو فرش پر ہی بیٹھنا پڑے گا۔ مجبوری ہے " کوئی تکلف کئے بغیر، میں دری پر بیٹھ گیا۔ کمرے کی بے پلستر اور سیلن زدہ دیواریں ، فلمی پوسٹروں اور فلم ایکٹرسوں کی تصویروں سے بھری پڑی تھیں۔ تصویروں کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لوہے کے کیل اور لکڑی کی کھونٹیاں گڑی تھیں۔ کھونٹیوں پر کمرے میں رہنے والوں کے دھلے اور ان دھلے کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ ان دھلے کپڑوں کی بہتات اور سیلن کی افراط کی وجہ سے کمرے کے اندر ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ کمرے کی سامنے والی دیوار کے ساتھ ساتھ ٹین کے صندوق رکھے ہوئے تھے۔ دروازے کے پاس والے ایک کونے میں کھانے اور کھانا پکانے کے برتن پڑے تھے۔ دوسرے کونے میں گھڑونچی پر ایک گھڑا اور گھڑے پر الومینیم کا ایک گلاس اوندھا پڑا تھا۔ گھڑے اور گلاس دونوں پر میل کی ان گنت تہیں جمی ہوئی تھیں۔ جس کی وجہ سے گھڑے کا سرخ رنگ اور گلاس کا سفید رنگ ہم رنگ ہو چکے تھے۔ عام حالات میں ، میں شاید اس گھڑے یا اس گلاس سے پانی پینے یا نہ پینے پر غور کرتا مگر پیاس کی شدت نے مجھے سوچنے کا موقعہ نہیں دیا۔ میں نے کالے خاں سے پوچھے بغیر، گھڑے سے گلاس میں پانی انڈیلا اور غٹا غٹ پی گیا۔
دھوپ سے سائے میں آ جانے اور گھڑے کے ٹھنڈے پانی نے ساری کی ساری تھکن اتار دی۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں بے گھر ہوئے مجھے ایک ماہ ہو چلا تھا اور ہر دن نئی حیرتیں اور نئے تجربات کے ساتھ طلوع ہو رہا تھا۔ کالے خان نے ایک سرہانہ میری طر ف سرکا دیا اور دوسرے سرہانے پر سر رکھ کر لیٹنے ہی والا تھا کہ سڑک پار سے دیسی برقعوں میں ڈھکی ہوئی دو عورتیں نمودار ہوئیں اور کالے خاں کے رکشے کے پاس آ کر رک گئیں۔ کالے خاں لیٹتے لیٹتے رک گیا اور اٹھتے ہوئے بولا "اللہ بادشاہ! آدھے دن کے انتظار کے بعد آپ، آج کی میری پہلی سواری تھے۔ اب آرام کرنے لگا ہوں تو سواریاں خود بخود آ گئی ہیں۔ میں سواریاں چھوڑ کر واپس آتا ہوں " کالے خاں کمرے سے نکلتے ہوئے بولا"آپ بلا تکلف دستور بابو کا انتظار کریں۔ اگر وہ میرے آنے سے پہلے آ جائیں تو تالا "کڑیچ " کر دیں "
تالے کے ساتھ "کڑیچ" کے لفظ نے مجھے اک عجیب سا لطف دیا اور میں کڑیچ کے لفظ کا اردو مترادف سوچنے لگا۔ مگر طویل سفر کی تھکاوٹ نے مجھے اس کی مہلت نہیں دی۔ میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ میں نے اٹیچی کیس کا سرہانہ بنایا اور آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر تک کپڑوں اور سیلن کی بو مجھے ماحول کی اجنبیت کا احساس دلاتی رہی مگر جلد ہی تھکن غالب آ گئی اور ایک گہری نیند نے مجھے آن لیا۔ خاصی لمبی نیند کے بعد میری آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور گھنی لمبی داڑھی والا ایک شخص میرے برابر میں سویا ہوا تھا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ سورج ڈھل کر کوٹھی کے پچھواڑے کی طرف جا چکا تھا اور دوکانوں کے سامنے والے حصے کو درختوں کے پھیلتے ہوئے سایوں نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ یہ منظر دوپہر کے منظر سے قطعی مختلف تھا۔ کمرے سے نکل کر میں ’پیلی کوٹھی‘ کے صدر دروازے تک آ گیا۔ دروازہ بند نہیں تھا اور میں دروازے کے دونوں پٹوں کے بیچ سے اندر جھانک سکتا تھا۔
دروازے کے عین سامنے منج کے بان سے بنی ہوئی، کھری چارپائی پر دستور سویا ہوا تھا۔ اس کا نیم برہنہ بدن پسینے سے شرابور تھا اور پسینے کے قطرے چارپائی کو بھگونے کے بعد فرش پر گر رہے تھے۔ کالے خاں کے کمرے کی طرح ، اس کمرے کی دیواریں بھی غیر پلستر شدہ تھیں۔ سامنے والی دیوار کے ساتھ سا تھا ایک ہی سائز کی میزیں سجی ہوئیں تھیں اور ان پر تیل ، صابن ، کنگھا، آئینہ اور ضرورت کی دوسری چیزیں بکھری پڑی تھیں۔ کچھ توقف کے بعد میں دروازے پر دستک دے ڈالی۔ دستور نے چارپائی پر لیٹے لیٹے آنکھیں کھول کر مجھے پہچاننے کی کوشش کی اور پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
" کون؟"
" میں ریاض ہوں۔ ہماری پچھلے ہفتے کالج میں ملاقات ہوئی تھی۔ آپ نے کالج میں میرا داخلہ کروایا تھا اور اپنا پتہ لکھ بھی دیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر میں اس پتے پر آپ کے پاس بلا تکلف آ سکتا ہوں " میں نے دستور کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی چٹ ، جیب سے نکال کر دکھاتے ہوئے اسے یاد، دلایا۔
" پہچان لیا، سائیں ! بالکل پہچان لیا" چٹ نے اسے سب کچھ یاد دلا دیا۔ چارپائی سے اٹھ کر اس نے میرے ساتھ مصافحہ کیا اور پہلی نظر میں پہچان نہ پانے کی معذرت کرنے لگا " سائیں ! میں آپ کو پہچان تو گیا تھا۔ بس ان آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ مگر آپ کو تو جمعے کی دوپہر کو آنا تھا"
" آج جمعہ ہی ہے اور میں دوپہر کو ہی آ گیا تھا مگر آپ کمرے میں نہیں تھے۔ اتفاق سے میں کالے خاں نامی ایک رکشا ڈرائیور کے رکشے میں آیا تھا اور اس نے مجھے اپنے کمرے میں پناہ دے دی تھی۔ اب وہیں سے آ رہا ہوں "
"غلطی کی معافی چاہتا ہوں ، سائیں !مجھے بھولنا نہیں چاہیے تھا۔ مگر بندہ بشر ہے ناں ، بھول چوک ہو جاتی ہے "دستور کی باتوں میں بناوٹ نہیں تھی۔ اس کا قدرے نا مانوس مگر پر حلاوت لہجہ اس کے خلوص کا عکاس تھا۔ کالج میں داخلے والے دن ، اس کے ساتھ میری جان پہچان اتفاقاً ہو گئی تھی۔ نئے طالب علموں کو"فسٹ ائیر فول" بنانے اور ان کا مذاق اڑانے کی سنی سنائی باتوں اور شہر میں اجنبی ہونے کی وجہ سے میں دل ہی دل میں بہت ڈرا ہوا تھا اور داخلے کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھ بھی نہیں رہا تھا۔ ایسے میں اچانک میری نظر دستور پر پڑی۔ آج صبح وہ میرے ساتھ ریل گاڑی سے اترا تھا۔ تب وہ ٹھیٹ دیہاتی لباس میں تھا مگر اب وہ پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ " تو کیا یہ بھی کالج میں داخلہ لے لئے آیا ہوا ہے ؟" میں نے دل ہی دل میں سوچا"ایسا ہے تو یہ میری مدد کر سکتا ہے۔ شکل و صورت سے تو بھلا مانس لگتا ہے "
 

الف عین

لائبریرین
" بھائی صاحب!" میں نے اس سے ہم کلام ہونے کی ہمت کر ہی لی۔
" حکم !سائیں ! " وہ میرے قریب آ چکا تھا
"آپ کا داخلہ ہو گیا ؟"
"داخلہ ؟" اس نے کچھ سوچنے کی کوشش کی اور پھر مسکرا دیا۔ "سایئں !اساں تے کئی سالاں توں ایس کالج چ دھکے کھاندے پئے آں۔ کوئی حکم؟" اس کا لہجہ نا مانوس مگر مٹھاس سے بھر پور تھا
"آج صبح میں آپ کے ساتھ ہی گاڑی سے اترا تھا۔ اس شہر میں نیا ہوں اور کالج میں داخلہ لینے آیا ہوا ہوں "
" داخلہ لے لیا؟"
"ابھی نہیں "
"فارم لے لیا ؟"
"ابھی نہیں "
"تو صبح سے کیا کیا ہے ؟"
"انتظار"
"انتظار؟ سائیں انتظار چنگی شے کائی نئیں " اس نے مجھے ساتھ لیا، کلرک کے پاس گیا، اس سے داخلہ فارم مانگا اور فارم میرے ہاتھ میں دے دیا " سائیں ! فٹا فٹ بھر و، پرنسپل صاحب کو جانے سے پہلے نہیں پکڑا تو بات کل پر پڑ جائے گی اور بڑا لمبا انتظار کرنا پڑے گا" میں فارم پر کر چکا تو اس نے فارم میرے ہاتھ سے لے لیا اور مجھے پرنسپل کے کمرے میں لے گیا۔ پرنسپل سے پھر وہی پہلے والے نامانوس مگر حلاوت سے بھر پور لہجے میں بات کی۔ داخلے کی منظوری کے دستخط کرائے۔ کلرک کے کمرے میں جا کر داخلہ فیس جمع کرائی اور میرے رول نمبر کی پرچی میرے ہاتھ میں تھما دی " سائیں انتظار چنگی شے کائی نئیں "
وہ مجھے کنٹین پر لے گیا۔ چائے پلائی اور پھر ایک چٹ پر اپنا نام، پتہ، ٹھکانہ لکھ کر مجھے دے دیا۔ "اس شہر میں ر ات گزارنے کے لئے چھت نہ ملے تو بلا تکلف میرے پاس آ جانا۔ مایوسی تو ہو سکتی ہے ، نا کامی نہیں ہو گی"
" تو میں اگلے جمعے کو آ جاؤں گا "
"بہت بہتر"
دستور کا نام میں نے اس کی دی ہوئی چٹ کو پڑھ کر جا نا تھا۔ اس کے نام اور پتے والی چٹ میری مٹھی میں دبی ہوئی تھی۔ چٹ دیتے ہوئے اس نے اپنے بارے میں کہا تھا " میرا نام دستور ہے۔ کچے کا رہنے والا ہوں مگر کوئی دوست مان لے تو بہت پکا ہوں " اس کے کچے پکے کی اس وقت مجھے سجھ نہیں آئی تھی۔ چنانچہ میرا اس سے پہلا سوال کچے اور پکے کے بارے میں تھا۔ کچا پنجاب سے سندھ میں داخل ہونے والی ریلوے لائن کے مغرب کی طرف صدیوں سے دریا کے ساتھ ساتھ آباد علاقہ تھا اور پکا ریلوے لائن کے مشرق میں نہری پانی کی مدد سے نئی آباد کردہ زمینیں تھیں۔ کچے کی طرف والی نہروں میں پانی سال میں چھ ماہ اور پکے کی نہروں میں پانی سارا سال چھوڑا جاتا تھا۔ کچے والے تصوف اور پکے والے تصرف کے دلدادہ تھے۔
پکا مختصر عرصے میں سارا سال پانی والی زمینوں ، نسبتاً کم آبادی اور محنتی ہاتھوں کی وجہ سے زیادہ خوشحال نظر آنے لگا تھا۔ پکے والوں کی دکھاوے کی عادت کی وجہ سے یہ خوشحالی حقیقت میں اتنی نہیں تھی، جتنی کہ یہ نظر آتی تھی۔ اس دکھاوے کی چکا چوند کی وجہ سے صدیوں پر انے تصوف کی آنکھیں چندیانے لگیں تھیں۔ دستور ان لوگوں میں سے تھا، جو حالات و واقعات کو ان کے پس منظر سے الگ کر کے نہیں دیکھتے تھے۔
کچے کے مختصر تعارف کے بعد اس نے اپنا مفصل تعارف بزبانِ خود کرانا شروع کر دیا۔ اس کے زندگی نامے میں اس کی اپنی داستان کم اور تذکرۂ گل رخاں زیادہ تھا۔ تاہم ان دلپذیر داستانوں میں ابوابِ فتوحات سے قصہ ہائے پسپائی زیادہ تھے۔ یہ مردِ دانا و ر عنا اب تک بسبب رحمتِ پروردگار زندہ تھا۔ پیشتر اس کے کہ وہ مجھے اپنے خاص اسلوبِ قصہ گوئی سے قتیلانِ زبانِ پہلوی میں شامل کر لیتا، میں نے یہ وضاحت کر ڈالی کہ میں نہ تو ایران سے آیا ہوں اور نہ ہی مستقبلِ قریب میں میرا قصدِ ایران کا کوئی ارادہ ہے۔ لہٰذا فقیر بے تقصیر کو کشتگانِ زبانِ پہلوی میں شامل نہ کیا جائے۔ میری وضاحت پر وہ ہنس دیا کہ اس کا ارادہ مستقبل میں تیل(petrol) کی تجارت کا ہے اور وہ آجکل فارسی پر ہاتھ صاف کر رہا ہے۔
"پڑھیں فارسی بیچیں تیل" کا مفہوم اس نے یہ نکالا تھا کہ تیل بیچنے کے لئے فارسی زبان کی تحصیل بہت ضروری ہے۔ وہ باتیں کرتا رہا اور میں اس کی باتیں سنتا رہا۔ اسی دوران وہ غیر محسوس طور پر آپ سے تم اور پھر تم سے تو پر اتر آیا۔ اسی اثنا میں مغرب کی اذان ہونا شروع ہو گئی تو اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے تعارف کو ضرورت سے زیادہ طویل کر چکا ہے اور مہمان نوازی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس اس کی تلافی کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
" میں بھی کتنا بیوقوف ہوں کہ تم یہ بھی نہیں پوچھا کہ کچھ کھایا پیا بھی ہے یا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"
"کھایا تو کچھ نہیں البتہ کالے خاں کے کمرے سے کچھ پانی ضرور پی لیا تھا" میں نے اس کی بات کاٹ کر مکمل کر دی۔
" تو یہ بات مجھے پہلے بتانا تھی ناں " وہ خود ہی خود ہنس دیا اور ایک عجیب سے مضحکہ خیز انداز میں وہ اپنے ہاتھ اپنے کانوں کی طرف بڑھاتا ہوا بولا " مگر میں بولنے کا موقع دیتا تو کچھ بتاتے ناں ؟"
"کوئی گل نہیں ، سائیں " میں نے اس کو کان کو پکڑ کر معافی مانگنے کے جھوٹ موٹ عمل سے روکتے ہوئے کہا " مقاماتِ آہ و فغاں پر دیس میں نہیں آئیں گے تو کہاں آئیں گے ؟ایک تومیں بن بلایا مہمان ہوں اور دوسرے مہمان بے زبان ہوتا ہے "
" بات کر کے جی خوش کر دیا، سائیں ؟" اس نے مجھے اور میں نے اسے گھورا اور پھر ہم دونوں کھلکھلا کر ہنس دئیے۔
 

الف عین

لائبریرین
پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ

کچھ ہی دیر بعد ہم"پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ" کی اکلوتی میز کے ارد گرد رکھی ہوئی چار کرسیوں سے دو پر براجمان تھے۔ ایک عام سی دوکان کے دروازے کے ساتھ مٹی کا ایک چبو ترہ بنا ہوا تھا۔ چبوترے پر ایک تندور نصب تھا۔ تندور کے ساتھ فرشی نشست تھی اور بائیں طرف تندور سے منسلک چولہے پر ایک دیگچہ پڑا تھا۔ دیگچے کے قریب پانی کا مٹکا اور مٹکے کے پاس چند بر تن پڑے تھے۔ تندور پر کام کرنے والے کی فرشی نشست کے دائیں طرف لکڑی کی چوکی تھی۔ چوکی پر گندھا ہوا آٹا اور آٹے کے پیڑے گیلے کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے۔
دروازے کے دونوں کواڑوں پر کالے خان کے کمرے کی طرح فلم ایکٹرسوں کی تصویریں چسپاں تھیں البتہ ان تصویروں میں مدھو بالا کی تصویریں بہت نمایاں تھیں۔ دروازے کی دہلیز اور چھت کے درمیانی حصے میں ہاتھ سے لکھا ہوا ’پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ‘ کا بورڈ لٹک رہا تھا اور بورڈ سے کچھ اوپر کھجور کے پتوں سے بنا ہوا چھپر تندور کے اوپر سے ہوتا ہوا کرسیوں تک پہنچ گیا تھا۔ چھپر کو لکڑی کے دو تنے سہارا دئیے ہوئے تھے۔ ہوٹل اور اس کے گرد و پیش کا سر سری جائزہ لیتے ہوئے ، میں دستور سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ اس تندور نما ہوٹل کے ساتھ" اینڈ ریسٹورنٹ" لکھنے کی کیا تک ہے ؟
دستور نے دوکان کے اندر لٹکے ہوئے اور دوکان کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے پر دے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ " ہوٹل تو تم دیکھ رہے ہو۔ باقی رہی ریسٹورنٹ کی بات تو وہ رہا "اینڈ ریسٹورنٹ"۔ پر دے کے آگے ہوٹل اور پر دے سے پیچھے ریسٹورنٹ "۔ ہماری باتیں سن کر ’اینڈ ریسٹورنٹ‘ سے تیس ، بتیس سال کا سانولے رنگ کا ایک آدمی برآمد ہوا اور میری طرف دیکھے بغیر بولتا چلا گیا" سائیں ! آج آنے میں بڑی دیر لگا دی۔ خیریت تو تھی ناں ؟ میں تو مایوس ہو چلا تھا "
" مایوسی گناہ ہے ، میرے بچے ! " دستور کا طرزِ کلام یکا یک بازاری ہو گیا۔ اس نے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے اور آنکھیں بند کرتے ہوئے بات جاری رکھی "بالکے !ہم جیسے پہنچے ہوئے بزرگوں کے ہوتے ہوئے مایوسی گناہ ہے " کچھ دیر اسی پوز میں رہنے کے بعد دستور نے اپنی انگلی گما کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹوٹا ہوا سلسلۂ کلام پھر جوڑ دیا " ان سے ملو یہ ہیں مسٹر ریاض" تنور والا اس وقت تک میرے قریب پہنچ کر میری طرف اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد دستور نے انگلی کا رخ میری طرف سے ہٹا کر تنور والے کی طرف موڑ دیا " اور یہ ہیں مسٹر نواز پر دیسی۔ پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کے بیک وقت۔ مالک، منیجر، خانساماں اور بیرے "
" ریاض صاحب! گاؤں سے آئے ہیں ؟ "نواز نے میرے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا
" نہیں سائیں !سیالکوٹ سے آئے ہیں۔ بطورِ خاص "
"سیالکوٹ سے ؟یعنی سیالکوٹ سے " نواز بجلی کی سی پھرتی سے آگے بڑھ کر مجھ سے بغل گیر ہو گیا" اوئے ظالما، سیالکوٹ توں آیاں ایں ؟"
مجھے ، نواز کی اس غیر متوقع گرم جوشی سے کچھ پریشان پا کر دستور نے نواز کی گرم جوشی کا بھانڈہ پھوڑ دیا"ریاض صاحب !پریشان نہیں ہونا۔ بات در اصل یہ ہے کہ پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کے مالک، منیجر، خانساماں اور بیرہ
سبھی کبھی سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے "
"رکھتے تھے سے مطلب؟"
"رکھتے تھے۔ یعنی۔ ماضی بعید میں تعلق رکھتے تھے "
"اور اب؟"
"یہ ایک لمبی اشٹوری ہے اور اس کا تذکرہ فرصت میں ہو گا۔ اب کچھ کھانا چاہئے " یہ کہہ کر وہ بآوازِ بلند چلایا "بیرہ"
نواز مجھے چھوڑ کر دستور کے سامنے تقریباً جھک گیا"آرڈر ، سر"
"کیا کیا پکا ہے ؟"
"سادہ گوشت، آلو گوشت، انڈا گوشت، بھنڈی گوشت، آلو انڈہ ، بھنڈی سادہ، دال سادہ، کیا لاؤں ؟صاحب"
’بھنڈی گوشت ‘
’ختم ہو گیا صاحب‘
’آلو گوشت‘
’ختم ہو گیا صاحب‘
’بھنڈی سادہ‘
’پکائی نہیں صاحب ‘نواز نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔ جس پر ہم دونوں اپنی ہنسی نہ روک سکے۔
’تو پھر جو پکایا ہے اور ختم نہیں ہوا وہ لے آؤ‘
’ابھی لایا صاحب‘
نواز کھانا لانے میں مصروف ہو گیا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے تو دستور کو اپنے بارے میں ابھی تک کچھ بتایا نہیں ہے ، پھر اس نے کیسے نواز کو بتا دیا کہ میں سیالکوٹ سے آ یا ہوں ؟
یہی سوال میں نے اس سے پوچھا تو وہ مسکرا دیا " سائیں !علم جانتے ہیں۔ دلوں کا حال چہرے سے پڑھ لیتے ہیں۔ " سانس لینے کے لئے وہ تھوڑا رکا اور بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا " ارے با با! میرے سامنے تم نے داخلہ فارم نہیں بھرا تھا؟ فارم بھر کر مجھے نہیں دیا تھا؟ فارم پر میٹرک پاس کرنے والے ا سکول کا نام نہیں لکھا تھا؟کیا میں ان پڑھ ہوں ؟کیا مجھے پڑھنا نہیں آتا ؟ اگر تم میرے یار نواز کے شہر سیالکوٹ کے نہیں ہوتے ، تومیں تمہیں چائے کیوں پلاتا؟اپنا نام پتہ کیوں دیتا؟اور یہاں کیوں لاتا؟گال سمجھ میں آئی ، سائیں ! "
اتنی عام سی بات سمجھ نہ سکنے پر مجھے خود پر ترس آنے لگا۔ ا سکول سے کالج کا سفر واقعتاً زندگی کا ایک یاد گار سفر ہوتا ہے۔ کسی کی انگلی پکڑ کر چلنے کا دور ختم ہوتا ہے ، اختیار کی آزادی ملتی ہے اور ذمہ داریاں از خود سنبھالنے کا دور شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے ایک ایسا امتحان شروع ہوتا ہے جس کا ممتحن امتحان میں بیٹھنے والا خود ہوتا ہے۔ یہاں سے اپنی پہچان اور خود شناسی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ زندگی کی عملی درس گاہ کا پہلا دروازہ ہے۔ داخلے والے دن، میں دستور کی بجائے میں کسی پرانے گھاگ طالب علم کے ہتھے چڑھ جاتا تو شاید فسٹ ائیر فول بن کر ہی رہتا۔ دستور کا ملنا اور کالج میں داخلے کے مراحل کا منٹوں میں طے ہو جانا کسی خواب کا حصہ سا لگتا تھا۔ دستور قدم قدم پر میرے لئے فرشتۂ رحمت ثابت ہوا تھا۔
نواز نے ماش کی دال اور روٹیاں میز پر لا کر رکھ دی تھیں۔ کھانا دیکھ کر، مجھے اپنے گھر کی یاد آ نے لگی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں چھت پر لکڑی کے تخت پوش کے اوپر کھانے کے بر تن ترتیب کے ساتھ رکھے ہوں گے۔ تخت پوش کے پاس گھڑونچی پر گھڑا پڑا ہو گا۔ کورے گھڑے کی مٹی کی ہمک، چاولوں کی سوندھی سوندھی مہک اور سالن کی خوشبو اشتہا کو اور تیز کر رہی ہو گی۔ اچانک ساتھ والی چھت سے نکی دھوبن پوچھے گی" ماسی! چاول پکائے ہیں کیا؟ " اثبات میں جواب ملنے پر وہ اپنے بارہ سالہ کاکے کے لئے تھوڑے سے چاول مانگے گی اور جواب میں ماں ان کے تینوں افرادِ خانہ کے لئے چاول نکال کر دیوار کے اوپر سے اسے پکڑا دے گی۔ چاولوں والے پتیلے کا ڈھکن اٹھتے ہی چاولوں کی مہک فضا کو معطر کر دے گی۔ میں اٹھ کر بیٹھ جاؤں گا۔ ماں پوچھے گی۔
" بھوک لگ گئی راجے ! "
" ابھی نہیں لگی۔ بی بی ! "میں جھوٹ بولنے کی ناکام کوشش کروں گا مگر ماں میرے لہجے سے جان جائے گی کہ مجھے بھوک لگ چکی ہے۔ وہ میری بہنوں کو آوازیں دینے لگے گی۔ سبھی گھر والے تخت پوش کے ساتھ والی چار پا ئیوں پر جمع ہو جائیں گے۔ وہ تھالیوں میں چاول اور چاولوں پر سالن ڈال ڈال کر باری باری سب کے سا منے رکھتی جائے گی۔ "ماں تم خود بھی تو کھاؤ؟ " ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی کہے گا۔ "اب میں اپنے لئے ہی تھالی بنانے لگی ہوں ناں " وہ جواب دے گی مگر اپنے لئے تھالی نہیں بنائے گی۔ اپنے لئے چاولوں کی پلیٹ بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ ، وہ سارے گھر والوں کے کھانا کھا لینے کے بعد کر ے گی۔ مگر ماں زندہ ہوتی تو مجھے گھر چھوڑنا ہی کیوں پڑتا؟
مائیں اتنی جلدی کیوں مر جاتی ہیں ؟اس سوال کا جواب میرے پاس کیا؟ کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ مائیں نہیں رہتیں تو گھر گھر نہیں رہتے۔ گھر نہیں رہتا تو اس میں رہنے والے افراد، دمدار تاروں کی طرح لا امتناع خلاؤں کا نوالہ بن جاتے ہیں۔ ماں نہیں رہی تھی تو کئی راز، راز نہیں رہے تھے۔ حقیقتیں خود ہی خود مجھ پر منکشف ہونے لگی تھیں۔ مجھے سمجھ ّ گئی تھی کہ ماں کوکسی مانگنے والے کی صدا کا انتظار کیوں رہتا تھا؟کسی ضرورت مند کو کھانا دینے سے پہلے وہ گھر کے افراد کو کھانا کیوں نہیں دیتی تھی ؟اور وہ خود گھر کے سارے افراد کے کھانا کھا چکنے کے بعد ہی کھانا کیوں کھاتی تھی؟
 

الف عین

لائبریرین
"بھائی !کھانا کھاؤ۔ ٹھنڈا ہو جائے گا" دستور نے یادوں کی چلتی ہوئی گاڑی کی زنجیر کھینچتے ہوئے کہا
"مجھے بھوک نہیں ہے "
" بھوک تو مجھے بھی نہیں ہے ، سائیں ! مگر یہ پاپی پیٹ ساتھ لگا ہے ناں ، کھانا تو کھانا ہی پڑے گا " دستور اپنائیت سے کہتا ہے
"گھر یاد آ رہا ہے ؟" نواز میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور پنے ہاتھ سے میرا چہرہ اپنی طرف گھما کر میری آنکھوں میں جھانک کر کہتا ہے " میری طرف دیکھو۔ تمہاری عمر کا تھا، جب گھر سے نکلا تھا یا شاید بھاگا تھا۔ زمین ٹھکانہ نہیں دیتی تھی اور قدم کہیں ٹکتے نہیں تھے۔ کھانا کھانے بیٹھتا تھا تو کوئی ساتھ بیٹھنے والا نہیں ہوتا تھا۔ بات کرنا چاہتا تھا تو کوئی بات سننے والا نہیں ہو تا تھا۔ اک عمر اِدھر اْدھر بھٹکنے کے بعد اب کہیں ٹک کر بیٹھا ہوں اور سالوں کے بعد کوئی درد آشنا اور کوئی دوست ملا ہے۔ تم تو بہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں سفر آغاز میں ہی دستور جیسا دوست مل گیا ہے۔ دستور جیسا دوست قسمت والے کو نصیب ہوتا ہے۔ ویسے تمہارا جی مانے تو تم مجھے بھی اپنا دوست سمجھ سکتے ہو "
دستور اور نواز دونوں ٹھیک ہی کہتے تھے۔ کسی کا ساتھ ہو یا نہ ہو ، بھوک ہو یا نہ ہو، پیٹ تو بھرنا پڑتا ہو۔ پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ رزق کی تلاش میں تھوڑا بہت چلنا ہی پڑتا ہے۔ پاپی پیٹ کو بھرنے کے لئے کوئی بازوؤں سے کام لیتا ہے ، کوئی ہاتھ پھیلاتا ہے اور کوئی علم کا ناٹک کرتا ہے۔
ہم کھانا کھا چکے تو نواز پوچھنے لگا "کھیل پر چلو گے ؟ "
" کھیل کیا؟ "
" کھیل یعنی فلم۔ نیلو کی فلم۔ میں ہوں ایک پہیلی ، ہر دم نئی نویلی " نواز لہک لہک کر گانے لگا
" آج نہیں ، ریاض تھکا ہوا ہو گا، آرام کر لے ، کل چلیں گے " دستور نے جواب دیا
" جیسے آپ کی مرضی مگر میں تو جا رہا ہوں۔ کل پھر چلے جائیں گے "
نواز کھیل دیکھنے نکل گیا تو دستور مجھے چہل قدمی کے لئے قریبی پارک میں لے گیا۔ ایک دوسرے کی زندگی کے بارے میں کریدتے کریدتے پارک کے بند ہونے کا وقت ہو گیا۔ واپس آ کر سونے کیلئے چھت پر آئے تو چھت چار پائیوں اور کھجور کی چٹائیوں سے بھری پڑی تھی۔
" چار پائیاں تو سونے کے لئے ہیں۔ چٹائیاں کیا تہجد کی نماز کے لئے ہیں ؟ " میں نے چٹائیوں کی طرف اشارہ کر کے دستور سے پوچھا
" نہیں تو!یہ پیلی کوٹھی میں رہنے والے رکشا ڈرائیوروں کے بستر ہیں۔ آخری شو کے بعد اونگھتا ہوا شہر پوری سو جائے گا تو ان کا دھندہ بھی بند ہوتا جائے گا۔ وہ اپنی اپنی رکشائیں کھڑی کر کے چھت پر آتے جائیں گے اور کوئی چارپائی یا کوئی چٹائی خالی نہیں رہے گی "
رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھلی تو ٹھنڈی ہوا کے چلنے کی وجہ سے فضا خوشگوار ہو چکی تھی۔ چارپائیوں اور چٹائیوں والے آ چکے تھے اور گرد و پیش سے بے خبر گہری نیند سو رہے تھے۔ دن بھر کی مشقت نے انہیں اتنا تھکا دیا تھا؟کہ انہیں یہ بھی ہوش نہ تھی کہ وہ کہاں سوئے ہوئے ہیں ؟ صرف ایک دن کی تھکن کے بعد سونے میں ا تنا چین ہے تو زندگی بھر کی تھکن کے بعد ہمیشہ کے لئے سونا کتنا اچھا لگتا ہو گا؟میرے ذہن نے اچانک ایک سوال اچھال دیا۔ اس سے پہلے کہ میرا ذہن اس سوال کے جواب میں الجھتا، ہوا کے دوش پر رقصاں کسی گانے والے کی طلسما تی تان نے مجھے مسحور کر دیا۔
؂ اچیاں ، تے لمیاں ، لال کجھوراں ، پترجنہاں دے ساوے
زمین کی کوکھ سے چاند ابھر رہا تھا اور چاندنی چھدرے درختوں سے چھن چھن کر سامنے والے مکان کی اونچی دیوار پر برس رہی تھی۔ گانے والے کی آواز میں رات کے پچھلے پہر کی خنکی اور چاند کی چاندنی دونوں گھل مل گئے تھے۔ رات کی خاموشی میں گانے والے کی آواز اور بھی نمایاں ہو گئی تھی۔ کافی کے بول اور گانے والے کا درد بھرا لہجہ، دونوں مل کر مجھے ایک بار پھر نیند کی آغوش میں لے گئے۔
بعد از دوپہر کالج سے واپسی کا سفر خاصا لطف دے گیا۔ جھلسا دینے والی لو کے جھونکے گام گام قدم بوسی کو آتے اور پسینے کے قطروں کی شکل میں جسم پر بوسوں کے نشان چھوڑ جاتے۔ گرمی کی شدت نے بازاروں کو ویران اور سڑکوں کو سنسان کر دیا تھا۔ زیادہ تر دوکانیں بند تھیں۔ کھلی ہوئی دو کانوں کا احوال بھی بند دوکانوں جیسا تھا۔ ان میں کام کرنے والے ، لو سے بچنے کے لئے دوکانوں کے اندرونی حصوں میں پناہ لئے ہوئے تھے۔
یہ بیکانیری گیٹ ہے۔ یہ شاہی بازار ہے۔ یہ شاہی چوک ہے۔ دستور میری معلومات میں اضافہ کرنے پر بضد تھا۔ اس نے " یہ چوک شہزادی ہے " کہا تو میری حسِ مزاح جاگ اٹھی۔
" اس چوک میں کوئی شہزادی رہتی تھی کیا؟ "
" اس کی تو مجھے خبر نہیں کیوں کہ میں بھی اس شہر میں اتنا پر انا نہیں "
" شہزادیاں کیسی ہوتی ہیں ؟ "
" کبھی کسی شہزادی سے پالا تو تمہیں بھی بتا دوں گا مگر۔ ۔ ۔ ۔ "
" مگر کیا؟ "
" سنگِ مرمر کی سلیں بہت ٹھنڈی ہوتی ہیں "
" تجربہ ہے یا سنی سنائی بات؟ "
" واہ سائیں !واہ۔ استادوں سے استادیاں " دستور میرے سوالوں سے لطف انداز ہوتے ہوئے بولا "بھائی میں تو تمہارا دل بہلانے کی کوشش میں تھا۔ تم نے تو الٹا میرا جلوس نکالنا شروع کر دیا ہے "
" برا مان گئے ، سائیں ! تمہاری اور نواز کی وجہ سے تو در بدری کا یہ دکھ برداشت کر گیا ہوں۔ تمہیں دکھ دینے کا اور تمہارا جلوس نکالنے کا میں کیسے سوچ سکتا ہوں ؟ تم کہو تو زندگی بھر کے لئے چپ سادھ لوں ؟ "
" پھر استادی؟" وہ مسکرا کر بولا۔ "سائیں ! ہم جو ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں ، اصل میں اپنے آپ کو سہارا دے رہے ہوتے ہیں۔ اکیلے رہ کر ہمیں اپنے ویران ہو جانے کا ڈر رہتا ہے۔ ہمارے اندر کا خوف ہمیں مل کر رہنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے گروؤں کو بھی چیلوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ویسے تمہاری بات کا جواب یہ ہے کہ جتنے دن ساتھ ساتھ ہیں ، ہنس کھیل کر گزاریں گے۔ راستے الگ الگ ہو جائیں تو دوسری بات ہے۔ " دستور نے ایک بار پھر مجھے اپنائیت کا احساس دلا دیا
" دستور ، تمہیں سمجھنا بہت مشکل ہے ؟ "
" کچھ مشکل نہیں۔ یوں سمجھ لو کہ سفر میں ہم سفر ضرورت بن جاتا ہے "دستور کو سمجھنا واقعتاً ایک مشکل کام تھا۔ ایک پل میں وہ گیان اور دھیان کی دنیا میں ہوتا تو دوسرے پل میں وہ پورے کا پورا حقیقت پسند انسان دکھائی دینے لگتا۔ پل میں تولا، پل میں ماشہ۔ وقت صدیوں سے مروج اخلاقی اقدار کے ساتھ کھیل کھلواڑ کرنے لگا تھا۔ خیالات پر روک لگانے اور سوچوں کو قابو میں رکھنے کی کوششوں کے باوجود د، زمینی حقیقتیں زمانی صداقتوں پر حاوی ہونے لگتی تھیں۔ انسان دن بدن بے بس ہوتا چلا جا رہا تھا۔
باتیں کرتے کرتے ہم بازار سے باہر نکل آئے تھے اور سبزی منڈی میں داخل ہو چکے تھے۔ نواز ہوٹل کے لئے سبزیاں خریدنے کے لئے بازار آیا ہوا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے دور سے ہی تان لگا دی " آج کیا چلے گا، دستور بابو؟"
" گردے کپورے "دستور نے نواز کی تان سے بھی لمبی تان لگاتے ہوئے جواب دیا تو میں اپنی ہنسی نہیں روک سکا۔ تا ہم ہنسی کے ساتھ ساتھ دل میں بازار میں کھڑے ہونے کا احساس ابھرا۔ بازار میں کھڑے ہو کر اس طرح کی حرکت میرے نزدیک نا شائستہ حرکت تھی۔ جیسے کوئی بازار میں کھڑا کھڑا اپنے کپڑے اتار دے۔ جیسے کوئی بھری محفل میں ناچنا شروع کر دے۔ کوئی کیا کہے گا؟ ایک ڈر سا ذہن کے کسی گوشے سے ابھرا۔
"کوئی کیا کہے گا ؟
" کوئی کون؟ کون کیا کہے گا؟"دستور نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا " یہاں تو ہمارے سوا اور کوئی نہیں "
" کوئی نہیں ؟ ہم بازار میں ہیں ؟اس طرح سرِ عام تانیں لگا کر بات کرنا کیا نا شائستہ حرکت نہیں ؟ "
" نہیں تو۔ ویسے ہم شائستہ ہیں کب؟ "
" عجیب منطق ہے ؟ "
" محبت کی کوئی منطق نہیں " دستور نے جواب دیا " گردے کپورے بیچنے اور خریدنے والے بھی تو انسان ہوتے ہیں "
" مگر انسانوں اور انسانوں میں فرق تو ہوتا ہے ناں ؟ "
" کوئی فرق نہیں ہوتا، سبھی الو کے پٹھے ہوتے ہیں "
" جی نہیں ، انسان ، انسانوں کے پٹھے ہوتے ہیں "
"کیا باتیں چل رہی ہیں ؟"نواز ہمارے قریب آ چکا تھا
"تمہاری اور تمہارے شہر کی باتیں چل رہی تھیں "
" میرے شہر کی باتیں ؟سمجھا یعنی میرے شہر کی باتیں۔ پسند آیا شہر؟"
" ریاض سے پوچھو"
"اچھا ہے "
"اچھا ہے ؟ یا اچھا ہے۔ ؟"
"اچھا ہے "میرا جواب مختصر تھا
" شکر ہے۔ میرا یار بولا تو۔ ویسے گرمی خشکی ذرا سی کم ہو تو اس شہر کا بھی جواب نہیں ‘۔ ۔ ۔ ‘
" ہوں " میں نے بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جواب دیا
" دن گرم ہوتا ہے مگر راتیں ٹھنڈ ی ہو تی ہیں "
"ہوں "
"کچھ منہ سے بھی پھو ٹو گے یا گونگوں کی، طرح، ہوں ہوں ، کرتے رہو گے ؟ "وہ حسبِ معمول بے تکلفی پر اتر آ یا مگر میں نے پھر بھی اسے لفٹ نہیں کرائی تو جھینپ سا گیا "ارے بھائی، دیکھنے میں ، میں کیسا بھی سہی ، دل کا برا نہیں ہوں "
" اور گلے کا تو بہت اچھا ہوں "دستور اس کی مدد کو آ گیا اور ہیجڑوں کی طرح کولہے مٹکا نے لگا
" آدھی رات کو میں نے کسی کو گاتے ہوئے سنا تھا "
" کیا گا رہا تھا ؟ "
میں نے خواجہ فریدؒ کی کافی کے بول دہرائے تو نواز بول اٹھا" وہ میں تھا۔ میں گا رہا تھا۔ رات کو میں گا رہا تھا۔ I was singing))میں کیسا گا رہا تھا؟ "
" کافی بہت زبردست تھی"
"کمینگی چھوڑ بھی دو اب"دستور نے ہم دونوں کے درمیان ہری جھنڈی رکھ دی
"چھوڑ دی " میں نے ہتھیار ڈال دئیے۔
" تو اس خوشی میں آج رات کا کھیل پکا " نواز نے چہک کر کہا
" پکا "دستور نے نواز کی تجویز پر منظوری کی مہر ثبت کر دی
بارہ آنے والی کھڑکی کے سامنے ایک لمبی قطار لگی تھی " قطار میں کون لگے گا؟ " میں نے پوچھا
" کوئی نہیں۔ استاد نواز ٹکٹ نکالے گا " دستور نے جواب دیا
" قطار میں لگے بغیر؟ "
" ہاں بھائی "
ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے کھلتے ہی ایک قطار سے کئی قطاریں بن گئیں اور دھکم پیل شروع ہو گئی۔ ہر کوئی دوسرے کو دھکیلتا ہوا کھڑکی کی طرف بڑھنے لگا۔ نواز نے قمیض اتار کر دستور کے حوالے کی، چادر کا لنگوٹ کسا ، دانتوں میں ایک ایک کے تین نوٹ دبائے۔ ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے جسم کو تولا اور پھر چھلانگ لگا کر ہجوم کے اوپر کود گیا۔ نیچے والوں نے اس کی ماں اور بہنوں کی شان میں چند ثقیل قسم کے الفا ظ ادا کئے اور نواز کو ٹانگوں سے پکڑ کر نیچے گھسیٹ لیا مگر وہ اس دوران چار ٹکٹ نکال چکا تھا۔ نیچے اتر کر اس نے خود کو گھسیٹنے والوں کا انہی کے ادا کردہ الفاظ میں جوابی شکریہ ادا کیا اور چو تھا ٹکٹ انہی میں سے ایک مستحق کو ایک روپے میں نذر کر دیا۔ دھکم پیل اسی طرح جاری تھی اور میں اس منظرمیں کھو سا گیا تھا۔ دستور نے مجھے بازو سے پکڑ کر سینما ہال کی طرف کھینچتے ہوئے یاد دلایا کہ نواز ٹکٹ خرید چکا ہے اور اب ہمیں ہال کی طرف چلنا ہے۔ میں طفلِ نو مکتب کی طرح اس کے ساتھ ساتھ چل دیا۔
ہال میں پیچھے والی کئی سیٹوں پر لمبی لمبی چادریں بچھی ہوئی تھیں ، جیسا کہ مجھے آنے والے دنوں میں پتہ چلا یہ ایک طرح کی ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی۔ گروپ کی شکل میں آئے ہوئے افراد میں سے ایک، بلیک کا ٹکٹ لے کر ہال میں آ جاتا اور باقی ساتھیوں کے لئے جگہ روک لیتا۔ اس طرح دیر سے آنے والوں کو بھی اچھی جگہ مل جاتی۔ جگہ روکنے والا دو چار کرسیاں اور بھی روک لیتا اور اضافی کرسیاں کسی جاننے والے کے کام آ جاتیں۔
"یہاں آ جاؤ ، استاد!" نواز کو دیکھ کر کسی نے آواز لگائی
"اکیلا نہیں ہوں۔ ہم تین ہیں "
" تین؟ ایک سے دو ہوتے تو سنے تھے۔ ایک سے ڈائریکٹ تین ہونے کی بات پہلی بار سن رہا ہوں ؟ بہر حال ، جگہ بہت ہے تینوں آ جاؤ"
"کھیل تو اگلے بنچوں پر بیٹھ کر دیکھنے والا ہے مگر مہمان ساتھ ہے ، اس لئے پیچھے بیٹھ ہی جاتے ہیں "بارہ آنے والی سیٹوں کی پہلی قطار میں کرسیاں سنبھالنے سے پہلے نواز نے ہمارا تعارف کرسیوں پیش کرنے والے سے کرایا۔ وہ سبزی منڈی کی کسی دوکان پر کام کرتا تھا۔ کھیل دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ دستور کے میری سہولت کے لئے فلم کے گانوں کی ایک کاپی خرید لی۔ نواز اس فلم کو چودھویں بار دیکھ رہا تھا اور دیکھنے کی مزید ہو س رکھتا تھا۔
’اس میں آخر کیا ہے جو تم با ر بار اسے دیکھ رہے ہو؟‘
’ہے ایک بات مگر تمہیں یہ جاننے میں وقت لگے گا‘
’کیوں ؟‘
"اس لئے کہ نواز مدھو بالا کا عاشق ہے " نواز کے جواب دینے سے پہلے دستور بول اٹھا
"عجیب عشق ہے۔ وہ اُدھر یہ ا، دھر؟"
"عشق ایسی باتیں نہیں سوچتا۔ عشق ایسی باتیں سوچنے لگتا توس وہنی کچے گھڑے پر چناب پار نہیں کرتی"
"اسے تو یہ پتہ نہیں تھا کہ گھڑا کچا ہے یا پکا"
"غلط بالکل غلط" نواز فلسفیانہ لہجے پر اتر آیا"گھڑے کے کچے یا پکے ہونے کا تو اندھے کو بھی پتہ چل جاتا ہے۔ سوہنی جانتی تھی کہ گھڑا کچا ہے مگر اسے اپنے عشق پر یقین تھا"
"اور عشق اسے لے ڈوبا"
"ہاں ہاں ، عشق اسے لے ڈوبا۔ عشق سب کو لے ڈوبتا ہے۔ عشق مجھے بھی لے ڈوبے گا" نواز ترنگ میں آ کر بآوازِ بلند گانے لگا
؂ عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
"چپ رہ، مجنوں کے بچے " ہال سے کسی کی آواز ابھری۔ دستور نے آنے والی آواز کی سمت کا اندازہ لگایا اور اسی لہجے میں جواب اچھال دیا
"چپ ہو گیا ، لیلیٰ کے بھائی صاحب۔ " سینما ہال قہقہوں سے گونج اٹھا
"اگر لڑائی ہو جاتی تو؟" میں اپنے اندر کی بزدلی کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکا۔ میری اس بزدلی میں شاید اس قصبے کے صلح جو ماحول کا بھی ہاتھ تھا، جہاں سے میں آیا تھا۔ قصبے گاؤں اور شہر کی درمیانی کڑی ہوتے ہیں۔ ان کے مکین نہ تو گاؤں والوں کی طرح جلدی اشتعال میں آتے ہیں اور نہ ہی شہر والوں کی طرح چالاک ہوتے ہیں۔
"لڑائی نہیں ہوتی۔ لوگ یہاں تفریح کے لئے آتے ہیں ، لڑنے کے لئے نہیں اور پھر جو دوسروں کی باتوں کا برا مانتے ہیں وہ خود خاموش رہتے ہیں۔ اس طرح کا ہنسی مذاق اور ہلکی پھکی فقرے بازی تو چلتی رہتی ہے۔ سینما گھر میں روتے ہوئے شیر خوار بچے کے رونے پر ایک دو مخصوص جملے ضرور اچھالے جاتے ہیں۔ ان فقروں کے اچھالے جانے کے باوجود نہ تو عورتیں سینما گھر میں آنا بند کرتی ہیں اور نہ ہی شیر خوار بچوں کو گھر میں چھوڑ کر آتی ہیں۔ ہاتھی پالنے والے اپنے دروازے بھی اونچے رکھتے ہیں۔ "
 

الف عین

لائبریرین
اس اثنا میں ہال کی بتیاں ایک ایک کر کے بجھنا شروع ہو گئیں اور سلائیڈ چلنے لگے۔ فلم کے شروع ہونے تک باتوں کا شور مدھم پڑنے لگا۔ فلم شروع ہو ئی ، عادی تماش بینوں نے افتتاحیہ تالیاں بجا کر فلم کا خیر مقدم کیا اور ہال میں خاموشی چھا گئی۔ کوئی گانا آتا تو گانے کی آواز سیٹیوں کے زور میں دب کر رہ جاتی۔ اگلے بنچوں پر بیٹھنے والے جیبوں سے ریز گاری نکال کر سٹیج پر پھینکنے لگتے۔
پیلی کوٹھی ایک مکان اور درجن بھر دوکانوں پر مشتمل ایک ایسی عمارت تھی ، جسے تزئین کے مرحلے سے گزار ے بغیر کرائے پر ، اٹھا دیا گیا تھا۔ دوکانوں میں سائیکل رکشا ڈرائیور اور ان جیسے دیگر کم آمدنی والے لوگ رہائش پذیر تھے۔ مکان کئی سال پہلے ہوسٹلوں میں جگہ نہ پا سکنے والے کچھ"پڑھاکو " طالب علموں نے کرائے پر لیا تھا اور پھر طالب علموں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا تھا۔ تعلیم مکمل کر لینے والے طالب علم چلے جاتے اور نئے طالب علم ان کی خالی کی ہوئی جگہ پر کر دیتے۔ پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ ان کی کھانے پینے کی ضروریات پوری کر دیتا۔ ہوسٹل کے بھاری اخراجات کے مقابلے میں وہ بہت تھوڑے پیسوں میں گزارا کر لیتے اور بچے ہوئے پیسوں میں فلمیں دیکھ لی جاتیں۔
کئی سالوں تک ایسا چلتا رہا تھا مگر اب پیلی کوٹھی میں اکیلا دستور باقی رہ گیا تھا۔ کرایہ بہت کم ہونے کی وجہ سے اس میں اکیلے رہ لینا بھی سستے کا سودا تھا۔ میرے آنے سے دستور کو ایک ساتھی اور مجھے سر چھپانے کے لئے چھت مل گئی۔ نواز کے ساتھ اس کا پہلے سے یارانہ تھا۔ میں آیا تو ہم تینوں کے ملنے سے "متساوی الساقین" مثلث وجود میں آ گئی۔
پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کے گاہک کم و بیشتر مستقل نوعیت کے تھے اور ہر کھانے کے ساتھ بل ادا کرنے کی بجائے ماہانہ بنیادوں پر ادائیگی کرتے تھے۔ ان میں غلہ منڈی کے پلیدار، تعمیراتی کاموں پر کام کرنے والے مزدور، پیلی کوٹھی میں رہنے والے رکشا ڈرائیور اور ہم جیسے ، ہوسٹل سے باہر رہائش پذیر ، کالج کے طالب علم تھے۔ ان کے علاوہ ارد گرد کے گھروں سے روٹیاں پکنے کے لئے آ جاتیں۔
سڑک پار سے کتابی چہرے ، میدے جیسے رنگ ، نیلی آنکھوں اور کٹے ہوئے بالوں والی ایک کمسن لڑکی بھی روٹیاں لگوانے آتی تھی۔ اپنی شکل و صورت سے وہ اس پورے منظر سے الگ تھلگ دکھائی دیتی تھی۔ اس کا نام ویدہ تھا اور اتنی نرم و نازک تھی کہ چلچلاتی دھوپ میں ذرا سا چلنے پر بھی اس کا رنگ لال گلال ہو جاتا تھا ، اُسے آٹے کی پر ات اٹھائے سڑک پار کرتے دیکھ کر کوئی بھی اُس کی ماں کی سنگ دلی کے بارے میں سوچے بغیر نہ رہ سکتا۔ اس کی ماں اپنی چھوٹی سی بیٹی کو اتنی دھوپ میں باہر بھیجنے کی بجائے کیا خود گھر پر روٹیاں نہیں پکا سکتی ؟ کئی دنوں تک یہ سوال میرے ذہن میں کلبلاتا رہا اور پھر ایک دن میں نے اسے سوچ کے تہہ خانے سے باہر نکال کر دستور کے آگے رکھ دیا۔
"سوال اچھا ہے "دستور نے حسبِ دستور تمہید باندھ کر بات شروع کرنے کی گنجائش پیدا کی۔ " سوال اچھا ہے مگر جواب اتنا اچھا نہیں ہے۔ تب ویدہ نے ابھی چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا، جب ایک حادثے نے ویدہ اور اس کی بڑی بہن نویدہ سے ان کی ماں چھین لی تھی اور ان کے باپ کو معذور بنا دیا تھا۔ باپ کا آڑھت کا کاروبار تھا اور وہ ایک بار گھر سے نکلنے کے بعد شام کو گھر واپس لوٹتا تھا۔ دودھ پیتی ویدہ ، اور گھر کے کام کاج کی ذمہ داری دس بارہ سالہ نویدہ پر آن پڑی تھی۔ نویدہ اچھا برا سالن گھر پر بنا لیتی۔ آٹا گوندھتی اور روٹیاں پکوانے کے لئے کے تندور پر لے آتی۔ تندور یا ہوٹل پر اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی مرد گاہک بیٹھا ہی رہتا۔ نویدہ کی روٹیاں جلد پکانے کے باوجود اسے کچھ نہ کچھ دیر تو مردوں کی نگاہوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا۔
اس بات کے باوجود کہ نویدہ نواز کی کچھ لگتی نہیں تھی اور زمانے کی نظروں میں ابھی حیا باقی تھی ، نواز کو اس کا تندور پر آنا اچھا نہ لگتا۔ وہ بڑی ہونے لگی تھی۔ ایک دن وہ ہمت کر کے اس نے نویدہ کو تندور پر آنے سے منع کر دیا اور خود نویدہ کے باپ کے پاس چلا ہی گیا۔ نویدہ کا معذور باپ کیا کر سکتا تھا؟ مگر نواز تو کچھ کر سکتا تھا۔ "آپ اجازت دیں تو میں آپ کے گھر سے آٹا لے جایا کروں گا اور روٹیاں پکا کر چھوڑ جایا کروں گا"۔
بات معقول مگر دنیا نا معقول تھی۔ باتیں بن سکتی تھیں مگر باتیں تو اب بھی بن رہی تھیں۔ چناؤ بڑی برائی اور چھوٹی برائی میں تھا۔ محلے والے کیا کہیں گے ؟۔ یہی کہ ایک غیر مرد آپ کی چوکھٹ پر کیوں آتا ہے ؟۔ مجبوری ہے۔ پھر بھی یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہاں یہ بات تو ہے ، مگر آپ پڑوسی ہونے کا حق تو ادا کر سکتے ہیں۔ فرمائیے ؟۔ آپ میں سے کسی کا کوئی بچہ آٹا لے کر تندور پر جا سکتا ہے اور روٹیاں پکوا کر چھوڑ سکتا ہے۔ معقول بات ہے۔ محلے والے مان گئے مگر دو چار دن سے زیادہ وعدہ نبھا نہیں سکے۔ نویدہ کے باپ کو نواز کی بات ماننا ہی پڑی۔
اس بات کو کئی سال ہو چکے ہیں۔ نواز اپنا وعدہ نبھا رہا ہے۔ وقت نکال کر خود جا کر آٹا لاتا ہے اور روٹیاں پکا کر چھوڑ آتا ہے۔ ہاں ، کسی دن نواز کو فرصت نہ ملے اور مہمان وغیرہ آ جائیں تو ویدہ کو آ نا پڑ جاتا ہے۔ ویسے ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔
"نویدہ اور نواز کے درمیان کوئی چکر تو نہیں ؟"میرے نا پختہ ذہن میں ایک واہیا ت سا خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا اور اس سے قبل کہ دستور مجھے روک پاتا، میں نے اسے باہر اچھال دیا
"نواز مدھو بالا سے بھی عشق کرتا ہے اور نوید اسے بھی ؟"
"سائیں !بندے دا بوتھا بیشک بھیڑا ہوئے ، پر گل چنگی کرنی چاہیے " نواز کا لہجہ کچھ تلخ ہو گیا۔
" کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے؟"میں نے قدرے فکر مند ہو کر پوچھا
"ہاں ، بہت بڑی غلطی۔ دیکھنے والی آنکھ کچھ بھی سمجھے ، تم کچھ بھی سمجھو، نواز کی نظر کھوٹی نہیں ہے "
"آپس میں یہ کیا سرگوشیاں ہو رہی ہیں ؟کوئی خاص بات لگتی ہے ؟" نواز نے ہماری کھسر پھسر سے "کچھ گڑبڑ ہے " کی بو سونگھتے ہوئے پوچھا
" کچھ نہیں بس ایسے ہی ریاض نے ایک بات پوچھی تھی "دستور نے بات گول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا
" بات لبوں تک آ جائے تو اسے روکنا نہیں چاہئے "
اس کے سوال کا انداز غیر معمولی نہیں تھا۔ تا ہم اس کے لہجے سے لگتا تھا کہ بات اس تک پہنچ چکی ہے۔ آپس کی بے تکلفی اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ میں اپنا سوال بے کم و کاست دہرا دوں۔ مگر دستور کی خفگی بالواسطہ یہ اشارہ کرتی تھی کہ سوال نا پسندیدہ ہو سکتا ہے۔ بات کو چھپانا اچھا نہیں تھا اور بات کا کہہ دینا نا مناسب تھا۔ کچھ توقف کے بعد میں نے دستور سے پوچھا ہوا اپنا سوال دہرا دیا۔
نواز میرا سوال سن کر بجھ سا گیا۔ کچھ دیر چپ سادھے رکھی ، دو تین بار لمبی گہری سانسیں لے کر نارمل کیا اور پھر تھوڑا مسکرا دیا۔ "راجے ! تو تو پڑھاکو بچہ ہے۔ تجھے تو پڑھی ہوئی باتیں اتنی جلدی نہیں بھولنا چاہیے۔ مجھے تو یاد ہے کہ دوسری یا شاید تیسری جماعت کی اردو کی کتاب میں ایک جملہ تھا۔ پہلے بات کو تولو، پھر بولو۔ یاد ہے کہ نہیں ؟"
"یاد توہے "
"یاد ہے تو اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ "وہ خود کو اپنے قابو میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا مگر اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ سوال کا گھاؤ گہرا ہے۔ مندمل ہونے میں وقت لگے گا۔
"یقین مانو میرا ارادہ تمہیں دکھ دینے کا نہیں تھا۔ بس ایسے ہی منہ سے بات نکل گئی تھی۔ "
"میں یہ جانتا بھی ہوں اور مانتا بھی ہوں۔ مگر میرے بھائی !نا ممکن باتیں نہیں سوچتے۔ میرے کسی کو پسند یا نا پسند کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟نواز لاکھ مدھو بالا اور نویدہ کو پسند کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز ایک تندور والا ہے ، مدھو بالا اور نویدہ دونوں ہی ایک تندور والے کے لئے نا قابل ِرسائی ہیں۔ "
"ایسی بات ہے تو پھر خواہ مخواہ جلنے سے فائدہ؟"کوشش کے باوجود میں سوال کو روک نہ سکا
"کوئی اپنی مرضی سے تو نہیں جلتا ، کوئی جلاتا ہے تو جلنا پڑتا ہے "نواز نے تندور سے ایک جلی ہوئی روٹی نکال کرجلی ہوئی روٹیوں کے ڈھیر میں پھینکتے ہوئے جواب دیا۔ " شاید یہی زندگی ہے۔ آنکھیں ہیں تو خواب ہیں۔ خواب ہیں تو سراب ہیں۔ "اس کے لہجے میں غصہ ، پشیمانی یا جھنجھلا ہٹ نہیں تھی بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کہ کسی نے دودھ میں شکر یا شکر میں گھی ملا دیا ہو۔ بات کو اور بڑھا نا مناسب نہیں تھا مبادا کہ شکر والا دودھ یا گھی والی شکر کسی تلخی کی آگ میں جل کر اپنا ذائقہ یا خوشبو ضائع کر دے۔ نواز سینما گھر کے اندر والے نواز سے یکسر مختلف لگنے لگا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد گھر لوٹتے ہوئے دستور نے بتایا کہ اس نے پہلی بار نواز کی باتوں میں اتنا دکھ اور گہرا پن محسوس کیا ہے اور اسے تو ڈر سا لگنے لگا ہے۔ "رب خیر کرے۔ شودا نواز، ڈھاہڈا دکھی اے "اس نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا۔
سوچ کر نہ بولنے کی عادت پر مجھے پہلی بار ڈر لگا۔ دل کے دریا کا سمندر سے زیادہ گہرے ہونے کا احساس ہوا۔ دل دریا کا بھید تو شاید خود پر بھی نہیں کھلتا۔ کسی کے دکھ کو جان لینے کی کوشش میں ، کبھی کبھی کوشش کرنے والا خود بے پر دہ ہو جاتا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ آئندہ بات چیت کرتے ہوئے محتاط رہا کروں گا۔ غیر ذمہ دار لفظ پتھر بن کر کسی کو زخمی بھی کر سکتا ہے اور کسی کو پتھر بنا بھی سکتا ہے۔
ہوٹل پر جانے اور کھانا کھانے کا وقت ہو چکا تھا مگر میں خود میں نواز کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پا رہا تھا۔ کل کی باتوں نے میرے سارے کس بل نکال دئے تھے۔ کھانا تو کھانا ہی تھا اور یہ ہوٹل پر گئے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ہم ہوٹل پر گئے تو میرے خدشات کے برعکس سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ کل والے رنجیدہ نواز کی بجائے وہی پر انا ہنس مکھ نواز ہمارے سامنے بیٹھا تھا۔ اگلا دن چھٹی کا دن تھا۔ کھانے کے بعد ہم پارک کی طرف نکل گئے۔ چاندنی رات تھی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ایسے میں بات چیت کا پہلو تو نکل ہی آتا ہے۔ میں ابھی تک کل والے حادثے کے اثرات سے جانبر نہیں ہوا تھا۔ بات کرنا بھی مشکل تھا اور چپ رہنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے میں ، مجھے ایک محفوظ موضوعِ گفتگو سوجھا اور میں نے نواز سے خواجہ فرید ؒ کی کوئی کافی سنانے کی فرمائش کر دی۔
نواز نے کافی سنائی اور دستور نے اس کے مشکل الفاظ کا اور زیادہ مشکل الفاظ میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔ بات سے بات نکلی۔ شمعِ محفل گھومتی گھامتی نواز کے سامنے آ گئی۔ پورے چاند کی رات تھی اور موسم اچھا تھا۔ باتیں شروع ہو گئیں اور بے دھیانی میں ماضی کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ماضی کی باتیں شروع ہو جائیں تو کہاں ختم ہوتی ہیں ؟
 

الف عین

لائبریرین
بات اک پر ی وش کی

تنگ گلی کے آ خر والا میدان ہر عمر کے بچوں کے لئے ایک پسندیدہ جگہ تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میدان سے قریب والا اکلوتا مکان برسوں سے غیر آباد تھا اور یہاں بچے جی بھر کر شور و غل کر سکتے تھے۔ چھوٹے بچے میدان کے ارد گرد کھڑی دیواروں پر بلا خوف و خطر " چیچو چیک گلیریاں ، دو تیریاں دو میریاں " کھیلتے ہوئے کوئلوں سے سیاہ لکیریں کھینچ سکتے تھے۔ بڑے بچے ، پوری آزادی کے ساتھ ’پٹھو گرم‘ کھیل سکتے تھے۔ زور سے پھینکی ہوئی گیند غیر آباد گھر کے میں چلی بھی جاتی تو کسی کی خوشا مد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ کوئی بھی دیوار پھاند کر اندر جا سکتا تھا اور گیند واپس لا سکتا تھا۔
سال کے سال ا سکول میں کھیلوں کے ناکارہ سامان کی نیلامی ہوتی تو محلے کے لڑکے چندہ جمع کر کے کرکٹ کا سامان خرید لاتے اور ’پٹھو گرم ‘میدان ’کرکٹ گراؤنڈ ‘ بن جاتا۔ دو بڑے لڑکے کپتان بن جاتے اور بقایا لڑکے دو، دو، کی ٹولیوں میں بٹ کر دور چلے جاتے۔ ہر ٹولی کے رکن اپنے لئے خفیہ نام چنتے اور کپتانوں کے پاس آ کر پوچھتے
" ایک کا نام چاند، ایک کا نام تارا۔ چاند کس کا ؟، تارا کس کا؟ "
چاند ، چاند مانگنے والے کپتان کی ٹیم میں اور تارا مخالف کپتان کی ٹیم میں چلا جاتا۔ ٹیمیں بن جاتیں تو چاند اور تارے پورے انہماک کے ساتھ کھیل میں جٹ جاتے۔ کھیل میں عموماً ربڑ کی گیند استعمال کی جاتی۔ خوب چوکے اور چھکے لگتے۔ خوب شور مچتا۔ گیند بار بار غیر آباد مکان کے صحن میں گرتی۔ لڑکے بار بار غیر آباد مکان کی دیوار پھاندتے۔ لڑکوں کے خوش اور ولولے کو دیکھ کر لگتا جیسے کہ وہ پاکستان کے کسی گمنام قصبے کی ایک بند گلی کے آخر کے میدان میں نہیں بلکہ انگلینڈ کے تاریخی میدان او ول میں کھیل رہے ہیں اور یہ بند گلی کے آخر کا نہیں بلکہ وہ تاریخی میدان ہے جہاں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم نے پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی ٹیم کو اس کی اپنی گراؤنڈ میں ہرایا اور خود کو منوایا تھا۔
نواز نے اسی گراؤنڈ سے اپنے کھیل کا آغاز کیا تھا۔ کرکٹ کے کھیل کے اصولوں سے نا واقفیت کے باوجود بلے بازی میں اس کی مہارت حیران کن تھی۔ وکٹ پر جم جانے کے بعد اسے آوٹ(out)کرنا ناممکن ہو جاتا۔ ابھی وہ ساتویں جماعت میں تھا کہ اسے ا سکول کی ٹیم میں لے لیا گیا اور وہ ا سکول کی ٹیم کے ساتھ دوسرے قصبوں میں میچ کھیلنے کے لئے جانے لگا۔ ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل کھیلنے کے لئے جب وہ سیالکوٹ گیا تھا تو جیب خرچ کے لئے اسے پانچ روپے ملے تھے اور تب اس نے پہلی مرتبہ سینما ہال میں بیٹھ کر کوئی فلم دیکھی تھی۔
اُسے اُس فلم کا نام تو یاد نہیں تھا مگر یہ ضرور یاد تھا کہ اس فلم کی ہیروئین مدھو بالا تھی اور وہ مدھو بالا پر سو جان سے فدا ہو گیا تھا۔ وہ اسے بھلانے کی لاکھ کوشش کرتا مگر اس کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا اور اس کی سوچیں بہکنے لگتیں۔ پردۂ فلم پر بولتی تصویروں نے اس کے خیالات پر ایسا شب خون مارا تھا کہ اسے جنسِ مخالف سے ڈر سا لگنے لگا تھا۔ وہی لڑکیاں جن کے ساتھ وہ پہروں کھیلتا رہا تھا۔ اسے نظر آ جاتیں تو وہ نظریں دوسری طرف پھیر لیتا۔ اسے یوں لگتا کہ اس کا وجود ان کی نظروں کی حدت کی تاب نہ لا کر بارود کی طرح بھک سے اڑ جائے گا۔ اس کی انگلیوں نے بے دھیانی میں ہی کسی جسم کو چھو لیا تو چھویا جانے والا بدن وائیلن کے تاروں کی طرح بولنے لگے گا۔ ذرا سی غلطی پر اتنا شور مچے گا کہ وہ کہیں بھی جائے فرار نہ پا سکے گا۔
اس دن سے کھیل میں اس کا انہماک اور بڑھ گیا۔ لیکن اگر بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید وہ آج" پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ" پر نہ بیٹھا ہوتا۔ اس کی زندگی بھی قصبے کے دوسرے لڑکوں کی طرح گزر جا تی۔ وہ بھی اسی میدان میں چیچو چیک گلیریاں ، پٹھو گرم اور کرکٹ کھیلتے کھیلتے جوان ہو جاتا۔ کوئی سیدھی سادھی لڑکی اس کے پلے بندھ جاتی۔ گھر کے اندر ایک اور گھر بس جاتا۔ شب و روز" آٹے ، دال اور لکڑیوں " کے چکر میں کٹنے لگتے۔ آنگن میں بچوں کی قطار لگ جاتی۔ بچے بڑے ہو نے لگتے اور آنگن چھوٹا پڑنے لگتا۔ حسبِ روایت بچے گھر سے گلی اور گلی سے بند گلی کے آخر والے میدان میں جانے لگتے۔ بند گلی کا میدان جس میں ، اس نے اور اس سے پہلے اس کے باپ نے اور اس سے بھی پہلے اس کے دادا نے ، اپنا اپنا بچپن کھیل کھیل کر گزارا تھا، اس کے بچوں سے آباد ہو جاتا۔ مگر شاید ایسا نہیں ہونا تھا ، سو نہیں ہوا۔ کیوں ؟ اس کیوں کا جواب کس کے پاس تھا؟ جو اس کے پاس ہوتا۔
تنگ گلی کے آخر والے میدان کے یاد آتے ہی وہ ماضی کے دھند لکوں میں کھو گیا۔ اس میدان میں اب بھی بچے کھیلتے ہوں گے مگر اس کے بچے ؟اس کے بچے تھے کہاں ؟ جو وہ ان بچوں میں شامل ہوتے۔ وہ میدان، وہ قصبہ اور وہ جنت بہت پیچھے رہ چکی تھی اور وہ بہت آگے نکل آیا تھا۔ اس کا رشتہ نسل در نسل چلے آنے والے تسلسل سے کٹ چکا تھا اور وہ ایک طرح سے زندہ ہوتے ہوئے بھی مر چکا تھا۔
کسی دن اسی پر ائے شہر میں ، اسی تنور میں روٹیاں پکاتے پکاتے ، اس کا جسم اس کی روح کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے گا۔ اس کے تن کا خستہ مکان ڈھے جائے گا۔ اس دن یا شاید کئی آنے والے دنوں تک تنور میں آگ نہیں جلے گی۔ تب بلند چار دیواریوں والے خوبصورت گھروں کے اندر رہنے والی نرم ہاتھوں ، اجلے کپڑوں ، جاگتے جسموں اور میدے کی سی کھِلی ہوئی رنگت والی کتنی ہی عورتوں کو ایک دن یا شاید کئی دنوں کے لئے آرام تج دینا پڑیگا۔ توے پر روٹیاں سینکتے ہوئے جب آگ کی حدت ان کے نرم و نازک ہتھیلیوں تک پہنچے گی تو شاید انہیں کچھ دیر کے لئے تنور والا یاد آ جائے جو خود ، تو اپنی ناکام خواہشوں کی آگ میں جلتا رہا مگر اس کی بدولت کتنے ہی وجود آگ کی حدت سے بچے رہتے تھے۔
اس نے قصبہ نہ چھوڑا ہوتا تو اس کے وجود کا ایک نا محسوس حصہ، میزان کے دن تک اسی میدان میں چیچو چیک گلیریاں ، پٹھو گرم یا کرکٹ کھیلتا رہتا۔ مگر یہ بھی اک مفروضہ تھا۔ کوئی بولتا ہے ، کوئی چپ سادھ لیتا ہے اور کوئی شور کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے ، جو ہونا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں بقا ہے تو فنا کو ہے ، باقی سب کوئی دنوں کا فسانہ ہے۔
رات پوری طرح سے بھیگ چکی تھی مگر نواز اپنے ماضی کے ان دھندلکوں میں کھو چکا تھا جہاں سے فوری طور پر لوٹنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔ وہ کوئی کہانی یا کوئی جگ بیتی نہیں سنا رہا تھا۔ یہ تو اس کی اپنی ہڈ بیتی تھی یا شاید اس کا اپنا ذاتی مرثیہ تھا۔ اندر کے دکھ نے اس کے بیانیہ میں از خود ایسی لذت بھر دی تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی اسے سنے بغیر اٹھنا نہیں چاہتا تھا۔
اُس روز میں کئی دنوں کے بعد کرکٹ کھیلنے کے لئے بند گلی کے آخر والے میدان میں گیا تھا۔ گیند غیر آباد مکان کے صحن میں جا گری تھی۔ میں حسبِ معمول بندر کی سی پھرتی کے ساتھ دیوار پر چڑھ کر صحن میں کود گیا تھا اور پھر اپنے سامنے ایک لڑکی کو کھڑے پا کر کچھ دیر کے لئے پتھرا گیا تھا۔ لڑکی کے جسم کا بالائی حصہ برہنہ تھا اور گیند لڑکی کے قدموں میں پڑی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس نے تیزی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی قمیض کو کندھوں تک اوپر اٹھا لیا تھا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی کے ساتھ اور غیر متوقع طور پر ہوا تھا کہ نہ تو میں نظریں پر ے ہٹا سکا تھا اور نہ ہی وہ پر دے کی اوٹ میں جا سکی تھی۔ وقت کی گردش جیسے رک گئی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے جیسے صدیاں بیت گئیں تھیں۔ تب میدان سے آنے والی پکار"اوئے کتھے مر گیا ایں " نے ہمیں جیسے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ میں نے اس کے قدموں میں پڑی ہو ئی گیند کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اور اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا "گیند اندر آ گئی تھی اور میں پہلے کی طرح اِسے لینے کے لئے دیوار پھاند کر اندر آ گیا تھا۔ میں کئی دنوں کے بعد کھیلنے آیا تھا اور مجھے ہرگز ہر گز خبر نہیں تھی کہ یہ گھر آباد ہو چکا ہے "
اس نے کھڑے کھڑے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے گیند میری طرف اُچھال دیا اور پھر جیسے اپنے آپ سے تخاطب کرتی ہوئی بولی"بے آباد گھروں کی دیواریں پھاندنا کتنا آسا ن ہوتا ہے ؟"
"کیا جی کیا؟"
"کچھ نہیں۔ اپنی گیند پکڑو اور بھاگ جاؤ"میں نے گیند پکڑ لی مگر اس کی بات ختم نہیں ہوئی تھی"اور ہاں ، آئندہ گیند اندر آ جائے تو دیوار نہیں پھاندنا، دروازہ کھٹکھٹا دینا۔ یہ دروازہ کھٹکھٹانے پر کھول دیا جاتا ہے "
"جی !اچھا جی!"گیند ہاتھ میں آ جانے کے بعد میں نے پلٹنے میں دیر نہیں لگائی مگر میرے قدم لا شعوری طور پر پھر دیوار کی طرف بڑھ گئے۔ اس سے پہلے کہ میں دوبارہ دیوار پر چڑھتا۔ ایک آواز نے "دروازہ دوسری طرف ہے "کہہ کر میرے قدم روک دئیے۔ میں نے اپنی سمت درست کی۔ دروازے کی طرف آیا۔ کنڈی کھولی اور باہر نکلنے سے پہلے یونہی پلٹ کر پیچھے دیکھ لیا مگر وہ پر دے کی اوٹ میں جا چکی تھی۔
اس رات پھر مجھے نیند نہیں آئی۔ اس رات مدھو بالا نے مجھے سونے نہیں دیا تھا اور آج بند گلی والی نے میری نیند اڑا دی تھی۔ کسی لڑکی کو اتنے قریب سے دیکھنے کا یہ میرا پہلا واقعہ تھا۔ دیوار پھاند کر صحن میں داخل ہونے سے لے کر دروازے سے نکلنے تک کا مختصر سا دورانیہ میرے ذہن سے چپک گیا تھا۔ ابدیت کا وہ لمحہ جو اب تک محض مفروضات کی دنیا میں تھا اور جسے روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی کسی خلائی گاڑی میں جنم لینا تھا ، وجود میں آ چکا تھا۔ بند گلی کے آخر والا میدان تھا۔ میدان میں گھپ اندھیرا تھا۔ اور وہیں کہیں ایک روشن دروازے میں ایک نیم روشن ہیولاکھڑا تھا۔ ہیولے پر کبھی مدھو بالا اور کبھی اُس لڑکی کا گمان ہوتا تھا، میں جس کے نام سے بھی ناواقف تھا۔ ہیولا بار بار پکارتا تھا"یہ دروازہ کھٹکھٹانے پر کھول دیا جاتا ہے "
یہ مکان حمیدہ کے باپ کا ، جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا، آبائی گھر تھا۔ جو اس کے اس کے سر کاری ملازم ہونے کے ساتھ ہی غیر آباد ہو گیا تھا۔ جب پاکستان بنا تھا تو وہ گورداسپور کے بھارت میں رہ جانے والے کسی قصبے میں نوکری کر رہا تھا۔ ضلعے ، قصبے اور علاقے کی آبادی میں مسلمانوں کی واضح اکثریت کے پیشِ نظر عام خیال یہ تھا کہ یہ ضلع پاکستان کا حصہ بنے گا۔ مسلمان مطمئن تھے اور یہاں سے ہجرت کرنے کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اسی عام خیال کی وجہ سے حمیدہ کے باپ نے فسادات کے خطرے کے باوجود اپنے اہلِ خانہ کو اپنے آبائی قصبے میں بھیجنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
باؤنڈری کمیشن(boundry-commition)کے گورداسپور کو بھارت کا حصہ قرار دینے کے غیر متوقع فیصلے اور سکھوں کے مسلمان آبادیوں پر اچانک حملوں نے مسلمانوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ سرحد زیادہ دور نہیں تھی، قصبے والوں نے قافلہ بنا کر پیدل سرحد عبور کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سرحد سے ذرا پیچھے تک کا سفر تو ٹھیک سے کٹ گیا مگر عین سرحد پر سکھوں کے جتھے نے حملہ کیا تو قافلے والے متحد نہ رہ سکے۔ جس کا منہ جس طرف تھا وہ اس طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ فریدہ باپ کے کندھے پر تھی اور حمیدہ ماں کی انگلی تھامے ہوئے تھی۔ باپ اور فریدہ سرحد پار کر آئے۔ حمیدہ اور ماں پیچھے رہ گئیں۔ تیسرے دن حمیدہ ایک دوسرے قافلے کے ساتھ آ کر باپ اور فریدہ سے آ ملی مگر ان کی ماں کا پتہ نہیں چلا۔ کوئی کہتا تھا کہ سکھوں نے اسے قتل کر دیا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ وہ زندہ بچ گئی تھی مگر دریا عبور کرتے ہوئے ڈوب گئی تھی۔ جتنے منہ تھے ، اتنی ہی باتیں تھیں۔ چند دنوں میں لاکھوں ہزاروں ہنستے کھیلتے گھر اُجڑ گئے تھے۔
سرحد پار سے آنے والے گھرانوں میں شاید ہی کوئی ایسا گھرانہ تھا ، جس کا کوئی فرد قتل یا لا پتہ نہیں ہوا تھا۔ قتل ہونے والوں کے وارثوں کو تو صبر آ گیا تھا مگر لا پتہ ہونے والوں کے لواحقین ہر روز اک نئی قیامت سے گزرتے تھے۔ کوئی خبر لے آتا کہ اُس نے فلاں کے بارے میں فلاں سے سنا تھا۔ وہ زندہ بچ گیا تھا، پاکستان پہنچ گیا تھا اور فلاں جگہ بالکل خیریت سے ہے۔ لوگ نئی اُمیدیں لے کر اُن کے بتائے ہوئے پتے پر جاتے اور تازہ کہانیوں سے جھولیاں بھر کر اور مایوس ہو کر لوٹ آتے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھیں۔ لاکھوں عزتیں لٹی تھیں۔ اک قیامت گزر گئی تھی مگر نجومیوں اور فال نکالنے والوں کی لاٹری لگ گئی تھی۔ اپنے دھندے کو جاری رکھنے کی خاطر وہ کسی کو نا امید نہیں کرتے تھے اور انہیں نئے سپنے دکھا کر رخصت کر دیتے تھے۔
نوکری کے سلسلے میں نگر نگر گھومتے گھومتے باپ بوڑھا اور بیٹیاں جوان ہو گئیں۔ پنشن کے دن قریب آئے تو اس نے قصبے میں لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ اک عمر قصبے کے باہر گزار دینے کے بعد ، وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ قصبے میں واپس آیا تھا تو اس دوران ایک نئی نسل چڑھ چکی تھی، ایک نسل جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دے رہی تھی اور ایک نسل تقریباً ختم ہو چلی تھی۔ وہ اپنے ہی آبائی قصبے میں اجنبی تھے۔ گلیاں ، مکان اور مکین جوں کے توں تھے۔ نسل در نسل چلے آنے والے رسم و رواج اور معاشرتی قدریں جوں کی توں تھیں۔ اور تو اور لوگوں کا رہن سہن تک نہیں بدلا تھا۔ بڑے بوڑھے پہلے کی طرح سے محلے کے کسی بھی بچے کو شرارت کرنے پر ٹوکنے کا حق رکھتے تھے۔ بچے بلا تخصیص خود سے بڑوں کی عزت کرتے تھے۔ اپنے پر ائے کا سوال کم کم ہی اٹھتا تھا۔ تا ہم لوگوں کی اکثریت یہ بھول چکی تھی کہ بند گلی کے آخر والے مکان میں کبھی کوئی رہتا بھی تھا۔ اس مکان کے مکین واپس لوٹے تھے تو وہ قصبے سے اپنی لمبی غیرحاضری ، رہن سہن اور الگ پہناوے کی وجہ سے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہے تھے۔
حمیدہ کے باپ کو اب بھی بہت سی راتیں بسلسلۂ ملا ز مت گھر سے باہر گزارنا پڑتی تھیں۔ حمیدہ شاد ی شدہ تھی مگر نا معلوم وجوہات کی بنا پر سسرال والوں سے جھگڑا کر کے میکے آ بیٹھی تھی۔ گلی میں کھڑی چارپائیوں کے سامنے ٹانگیں پسار کر اوزار بند بنتی ہوئی عورتیں اپنا زیادہ تر وقت حمیداں کے سسرال سے میکے آ بیٹھنے کی ممکنہ وجوہات کی باتوں میں گزارتیں۔ شادی کے سالوں بعد تک ماں نہ بن سکنا اور لڑکے کا آوارہ اور بد چلن ہونا دو بڑی ممکنہ وجوہ تھیں۔
کسی مرد کے نمودار ہوتے ہی سرگوشیاں دم توڑ جاتیں ، پھلجھڑیاں چھوڑتے ہوئے لبوں پر تالے جگ جاتے اور ایک گہری چپ چھا جاتی۔ تا ہم میری عمر کے لڑکوں کی بات اور تھی۔ عورتوں کی اکثریت انہیں ابھی بچے سمجھتی تھی۔ اِن" بچوں "کا عورتوں کی باتوں کو عمداً سن لینا بھی اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اور بعض باتیں عمداً ان کے کانوں میں ڈال دی جاتی تھیں۔ تاہم بعض باتیں انتہائی خفیہ کے زمرے میں آتی تھیں اور کوشش کے با وجود ان کو سن پانا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ بہت کوشش کے بعد میں بس اتنا جان پایا تھا کہ سرگوشیوں میں کی جانے والی گفتگو کا موضوع حمیدہ یا اس کی چھوٹی بہن نہیں بلکہ ان کی گم شدہ ماں ہوا کرتی ہے۔ عورتوں کی زیادہ تر سرگوشیوں کا حاصل اکثر ایک ایسی پھلجھڑی ہوتی تھی، جسے سن کر سننے والیوں کے چہرے لال گلال ہو جاتے تھے۔ بہر حال ایسی کوئی وجہ ضرور تھی کہ محلے کی لڑکیوں کا اس نئے آباد شدہ گھر میں جانا، شجرِ ممنوعہ کا پھل چکھنے کی طرح نا پسندیدہ ٹھہر ا تھا۔
کئی ہفتوں تک کرکٹ کے ایک ٹور نا منٹ کے میچوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے ، میں بند گلی والے میدان میں کھیلنے جا نہ سکا تھا اور یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا تھا۔ دیوار پھاند کر گیند واپس لانے کا واقعہ میرے ذہن سے محو ہو چلا تھا اور نیند برابر آنے لگی تھی۔ ایک شام جب میں ا سکول سے گھر لوٹ رہا تھا تو حمیدہ مجھے گلی کی نکڑ پر مل گئی۔ میں نے آنکھ بچا کر گزرنا چاہا تو اس نے آگے بڑھ کر میرا راستہ روک لیا"پھر نہیں آئے کبھی گیند اٹھانے ؟"
"اس دن کے بعد میں کھیلنے آیا ہی نہیں "
" بہانہ تسلی بخش نہیں۔ ویسے کسی نے روک دیا ہو تو دوسری بات ہے "
"روکا تو خیر کسی نے نہیں "
"تو پھر آؤ گے ناں ؟"
"ہاں "
"کب؟"
 

الف عین

لائبریرین
وہ رات پھر ایک مشکل رات تھی۔ کب؟، کب؟، کب کا سوال ہتھوڑے کی طرح میرے ذہن پر چوٹیں لگا رہا تھا۔ حمیدہ چو بیس پچیس سالوں کی مناسب سی قدوقامت اور خاصے گوارا خد و خال والی لڑکی نہیں ، بلکہ ایک عورت تھی۔ اس کی جلد کی رنگت قصبے کی عورتوں سے زیادہ صاف تھی یا شاید گھر میں بند رہنے یا دھوپ کے اثرات سے بچے رہنے کی وجہ سے بہتر لگ رہی تھی۔ اپنی خوش لباسی اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے اصلی نہیں تو دیسی میم ضرور لگتی تھی۔
وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑی تھی اور اس کی عمر کی عورت سے میرا بات کرنا کوئی معیوب بھی نہیں تھا۔ جو بات مجھے اس کے گھر جانے سے روکتی تھی، یہ تھی کہ اس گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ تب میں اپنی عمر کے زیادہ تر لڑکوں کی طرح زمانے کی اونچ نیچ سے نا واقف چودہ پندرہ سالوں کا سیدھا سادہ لڑکا تھا جو اتنا ضرور جانتا تھا کہ جب کوئی لڑکا اور لڑکی چھپ کر ملتے ہیں تو کچھ گڑبڑ کی بات ہوتی ہے۔ وہ بات کیا ہوتی ہے ؟میری عقل اس کا احاطہ کرنے سے قاصر تھی۔
گھٹائیں کئی دنوں سے فضا میں آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ وقفے وقفے سے بوندا باندی اور بیچ بیچ میں زور دار بارش کے چھینٹوں کے تسلسل نے کاروبارِ زند گی کو قریب قریب مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ بچے بارش میں نہا نہا کر ، پوڑے کھا کھا کر اور گڑکا گٹا اُڑا اُڑا کر اکتا چکے تھے مگر پوہ ماگھ کی جھڑی تھی کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی تھی۔ بوندا باندی بارش کی شکل اختیار کر لیتی تو بچے بارش کے چھینٹوں سے محفوظ کسی جگہ پر بیٹھ کر گلی کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چھوڑنے لگتے۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے جانے کب، کب؟کب؟کب کا ہتھوڑا میرے ذہن پر چوٹیں لگانے لگا اور دستک پر کھول دئیے جانے والا دروازہ آپ ہی آپ میرے سامنے آ گیا۔ حیرت اور تجسس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا اور خود کو بارش میں بھیگنے سے بچاتا ہوا حمیدہ کے مکان تک پہنچ گیا۔ بارش کے پانی نے دیواروں کو گیلا کر کے پر اسرار کر دیا تھا۔ دستک دینے کے بعد مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ تا ہم دروازہ کھولنے والی حمیدہ نہیں تھی بلکہ اس کی چھوٹی بہن فریدہ تھی "باجی حمیدہ ہیں ؟"
"ہیں مگر سو رہی ہیں۔ کوئی کام ہو تو بتا دیں ، جگا دیتی ہوں "
"کوئی خاص کام نہیں ہے ، پھر آ جاؤں گا"
"پھر کیوں ؟بیٹھو۔ باتیں کرتے ہیں۔ اتنی دیر میں وہ جاگ جائیں گی"
"نہیں ، میں پھر آ جاؤں گا"
"پھر کیوں ؟اب کیوں نہیں ؟میں کیا بری لگتی ہوں ؟"
"ایسا کچھ نہیں "
"تو پھر اندر آ جاؤ"اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا
برآمدے میں دو کرسیوں کے بیچ ایک میز رکھی ہوئی تھی اور میز پر پانی کا جگ ، ایک گلاس اور کچھ رسالے رکھے ہوئے تھے۔
"چائے پیو گے ؟"
"چائے ؟"
"ہاں۔ چائے۔ تم تو چائے کے نام پر ایسے چونکے ہو جیسے چائے کا نام پہلی بار سنا ہو؟"
"نام تو سنا ہے مگر پی نہیں کبھی؟"
"اوہ میرے خدا!پی نہیں کبھی۔ باجی ٹھیک ہی کہتی تھی۔ چونڈہ واقعتاً گاؤں ہے۔ جوان جہان لڑکا چائے سے نا واقف ہے۔ اب تو تمہیں چائے پلانا ہی پڑے گی"
"زبردستی ہے "
" ہاں۔ ز۔ بر۔ د۔ ستی۔ ہے " وہ ہنس دی
وہ چائے بنانے یا پکانے رسوئی میں چلی گئی۔ میں نے ایک رسالہ اٹھایا، دوسرا رسالہ اٹھایا اور پھر ایک ایک کر کے رسالے اٹھاتا چلا گیا۔ سب کے سب فلمی رسالے تھے۔ سبھی رسالوں کے سرورقوں پر فلمی اداکاراؤں کی تصویریں تھیں۔ مدھو بالا کی تصویر کے علاوہ میں کسی اور فلمی اداکارہ کو نہیں پہچانتا تھا۔ میں نے مدھو بالا کی تصویر والا ایک رسالہ اٹھا لیا اور تصویریں دیکھنے اور ان کے نیچے لکھے ہوئے نام پڑھنے لگا۔ وہ چائے لے آئی تھی۔ میں نے پیالی اٹھائی مگر چائے کے گرم گھونٹ نے میرے منہ کو جلا دیا۔ وہ ہنس دی۔
" اچھے بچے ، چائے ٹھنڈی کر کے پیتے ہیں "
" اچھا جی " کہہ کر میں نے چائے کا پیالی ایک طرف ٹھنڈی ہونے کے لئے رکھ دی۔ کافی دیر تک میں نے پیالی نہیں اٹھائی تو پوچھنے لگی " دن میں کتنی بار چائے پیتے ہو ؟ "
"ایک بار بھی نہیں "
" کیا کہا؟"
"ایک بار بھی نہیں۔ یہاں چائے کا رواج نہیں ہے "
"میں سمجھ رہی تھی کہ تم مذاق کر رہے ہو مگر جس انداز سے تم نے ڈر کرپیالی ایک طرف رکھی ہے ، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تم واقعتاً پہلی بار چائے پی رہے ہو۔ اب تو تم سے دوستی کرنا ہی پڑے گی۔ کرو گے دوستی؟"
"میں تم سے دوستی کیسے کر سکتا ہوں ؟ تم تو لڑکی ہو"
" لڑکی سے دوستی میں کیا برائی ہے ؟ "
"یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر ایسے ہی سنا ہے "
"کس سے سنا ہے ؟"
"ہر کوئی ایسا ہی کہتا ہے "
"لڑکا لڑکی سے شادی تو کر سکتا ہے ناں ؟"
" ہاں۔ شادی تو کر سکتا ہے "
"تو پھر شادی کر لو " وہ کھکھلا کر ہنس دی"ڈرو نہیں ، میں مذاق کر رہی تھی۔ تمہاری ابھی شادی کی عمر نہیں ہے اور میرا ابھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ البتہ دوستی ٹھیک ہے "
"آپ کہتی ہیں تو دوستی کر لیتے ہیں "
" پکی بات؟" اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
"پکی بات" غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ بھی آگے بڑھ گیا۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ رات پھر ایک مشکل رات تھی۔ کب؟، کب؟، کب کا سوال ہتھوڑے کی طرح میرے ذہن پر چوٹیں لگا رہا تھا۔ حمیدہ چو بیس پچیس سالوں کی مناسب سی قدوقامت اور خاصے گوارا خد و خال والی لڑکی نہیں ، بلکہ ایک عورت تھی۔ اس کی جلد کی رنگت قصبے کی عورتوں سے زیادہ صاف تھی یا شاید گھر میں بند رہنے یا دھوپ کے اثرات سے بچے رہنے کی وجہ سے بہتر لگ رہی تھی۔ اپنی خوش لباسی اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے اصلی نہیں تو دیسی میم ضرور لگتی تھی۔
وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑی تھی اور اس کی عمر کی عورت سے میرا بات کرنا کوئی معیوب بھی نہیں تھا۔ جو بات مجھے اس کے گھر جانے سے روکتی تھی، یہ تھی کہ اس گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ تب میں اپنی عمر کے زیادہ تر لڑکوں کی طرح زمانے کی اونچ نیچ سے نا واقف چودہ پندرہ سالوں کا سیدھا سادہ لڑکا تھا جو اتنا ضرور جانتا تھا کہ جب کوئی لڑکا اور لڑکی چھپ کر ملتے ہیں تو کچھ گڑبڑ کی بات ہوتی ہے۔ وہ بات کیا ہوتی ہے ؟میری عقل اس کا احاطہ کرنے سے قاصر تھی۔
گھٹائیں کئی دنوں سے فضا میں آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ وقفے وقفے سے بوندا باندی اور بیچ بیچ میں زور دار بارش کے چھینٹوں کے تسلسل نے کاروبارِ زند گی کو قریب قریب مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ بچے بارش میں نہا نہا کر ، پوڑے کھا کھا کر اور گڑکا گٹا اُڑا اُڑا کر اکتا چکے تھے مگر پوہ ماگھ کی جھڑی تھی کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی تھی۔ بوندا باندی بارش کی شکل اختیار کر لیتی تو بچے بارش کے چھینٹوں سے محفوظ کسی جگہ پر بیٹھ کر گلی کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چھوڑنے لگتے۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے جانے کب، کب؟کب؟کب کا ہتھوڑا میرے ذہن پر چوٹیں لگانے لگا اور دستک پر کھول دئیے جانے والا دروازہ آپ ہی آپ میرے سامنے آ گیا۔ حیرت اور تجسس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا اور خود کو بارش میں بھیگنے سے بچاتا ہوا حمیدہ کے مکان تک پہنچ گیا۔ بارش کے پانی نے دیواروں کو گیلا کر کے پر اسرار کر دیا تھا۔ دستک دینے کے بعد مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ تا ہم دروازہ کھولنے والی حمیدہ نہیں تھی بلکہ اس کی چھوٹی بہن فریدہ تھی "باجی حمیدہ ہیں ؟"
"ہیں مگر سو رہی ہیں۔ کوئی کام ہو تو بتا دیں ، جگا دیتی ہوں "
"کوئی خاص کام نہیں ہے ، پھر آ جاؤں گا"
"پھر کیوں ؟بیٹھو۔ باتیں کرتے ہیں۔ اتنی دیر میں وہ جاگ جائیں گی"
"نہیں ، میں پھر آ جاؤں گا"
"پھر کیوں ؟اب کیوں نہیں ؟میں کیا بری لگتی ہوں ؟"
"ایسا کچھ نہیں "
"تو پھر اندر آ جاؤ"اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا
برآمدے میں دو کرسیوں کے بیچ ایک میز رکھی ہوئی تھی اور میز پر پانی کا جگ ، ایک گلاس اور کچھ رسالے رکھے ہوئے تھے۔
"چائے پیو گے ؟"
"چائے ؟"
"ہاں۔ چائے۔ تم تو چائے کے نام پر ایسے چونکے ہو جیسے چائے کا نام پہلی بار سنا ہو؟"
"نام تو سنا ہے مگر پی نہیں کبھی؟"
"اوہ میرے خدا!پی نہیں کبھی۔ باجی ٹھیک ہی کہتی تھی۔ چونڈہ واقعتاً گاؤں ہے۔ جوان جہان لڑکا چائے سے نا واقف ہے۔ اب تو تمہیں چائے پلانا ہی پڑے گی"
"زبردستی ہے "
" ہاں۔ ز۔ بر۔ د۔ ستی۔ ہے " وہ ہنس دی
وہ چائے بنانے یا پکانے رسوئی میں چلی گئی۔ میں نے ایک رسالہ اٹھایا، دوسرا رسالہ اٹھایا اور پھر ایک ایک کر کے رسالے اٹھاتا چلا گیا۔ سب کے سب فلمی رسالے تھے۔ سبھی رسالوں کے سرورقوں پر فلمی اداکاراؤں کی تصویریں تھیں۔ مدھو بالا کی تصویر کے علاوہ میں کسی اور فلمی اداکارہ کو نہیں پہچانتا تھا۔ میں نے مدھو بالا کی تصویر والا ایک رسالہ اٹھا لیا اور تصویریں دیکھنے اور ان کے نیچے لکھے ہوئے نام پڑھنے لگا۔ وہ چائے لے آئی تھی۔ میں نے پیالی اٹھائی مگر چائے کے گرم گھونٹ نے میرے منہ کو جلا دیا۔ وہ ہنس دی۔
" اچھے بچے ، چائے ٹھنڈی کر کے پیتے ہیں "
" اچھا جی " کہہ کر میں نے چائے کا پیالی ایک طرف ٹھنڈی ہونے کے لئے رکھ دی۔ کافی دیر تک میں نے پیالی نہیں اٹھائی تو پوچھنے لگی " دن میں کتنی بار چائے پیتے ہو ؟ "
"ایک بار بھی نہیں "
" کیا کہا؟"
"ایک بار بھی نہیں۔ یہاں چائے کا رواج نہیں ہے "
"میں سمجھ رہی تھی کہ تم مذاق کر رہے ہو مگر جس انداز سے تم نے ڈر کرپیالی ایک طرف رکھی ہے ، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تم واقعتاً پہلی بار چائے پی رہے ہو۔ اب تو تم سے دوستی کرنا ہی پڑے گی۔ کرو گے دوستی؟"
"میں تم سے دوستی کیسے کر سکتا ہوں ؟ تم تو لڑکی ہو"
" لڑکی سے دوستی میں کیا برائی ہے ؟ "
"یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر ایسے ہی سنا ہے "
"کس سے سنا ہے ؟"
"ہر کوئی ایسا ہی کہتا ہے "
"لڑکا لڑکی سے شادی تو کر سکتا ہے ناں ؟"
" ہاں۔ شادی تو کر سکتا ہے "
"تو پھر شادی کر لو " وہ کھکھلا کر ہنس دی"ڈرو نہیں ، میں مذاق کر رہی تھی۔ تمہاری ابھی شادی کی عمر نہیں ہے اور میرا ابھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ البتہ دوستی ٹھیک ہے "
"آپ کہتی ہیں تو دوستی کر لیتے ہیں "
" پکی بات؟" اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
"پکی بات" غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ بھی آگے بڑھ گیا۔

کسی لڑکی کی موجودگی میں کسی فلمی رسالے کی ورق گردانی کرنے اور لڑکیوں کی تصویریں دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقعہ تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کہ میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ رسالوں کی ورق گردانی کرتے کرتے ہم اکتا گئے تو فریدہ نے فلموں کی باتیں چھیڑ دیں۔ اس نے ڈھیروں فلمیں دیکھ رکھی تھیں۔ فلموں کی باتوں سے وہ فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کی نجی زندگی کی باتیں کرنے لگی۔ میں کسی تماشا گاہ میں تماشا دکھانے والے کے سامنے بیٹھے ہوئے معمول کی طرح گم سم بیٹھا اس کی باتیں سن رہا تھا۔
اپنے خد و خال ، چہرے کے بناؤ سنگھار، لباس کی تراش خراش اور اپنی ختم نہ ہونے والی باتوں کی بنا پر وہ مجھے اسی طلسماتی دنیا کی رہنے والی لگ رہی تھی، جس کے رہنے والے فلم ا سکرین پر نمودار ہو کر ڈھائی تین گھنٹوں تک تماشائیوں کو سپنوں کے جہان کی سیر کراتے رہتے ہیں۔ وہ جہان، جس میں رنگ ہی رنگ ، سکھ ہی سکھ، خوشیاں ہی خوشیاں اور قہقہے ہی قہقہے ہوتے ہیں۔ جب وہ مجھے یہ بتا رہی تھی کہ وہ بہت سے فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کو دیکھ بھی چکی ہے تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا، وہ مجھے پر لے درجے کی جھوٹی لگ رہی تھی۔ انہیں کوئی کیسے دیکھ سکتا ہے ؟انہیں کوئی کیسے چھو سکتا ہے ؟ان دنوں فلمی دنیا والے ، مجھے ہی نہیں ان گنت لوگوں کو، رسائی سے ماور اء کوئی مخلوق لگتے تھے۔ اگر یہ لڑکی انہیں دیکھ چکی ہے اور انہیں چھو چکی ہے تو یقیناً یہ لڑکی دوسری لڑکیوں سے مختلف ہے ، مھے اس کی باتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا مگر اس کی باتوں کو جھٹلانے کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں تھی۔
وہ باتیں کرتی جا رہی تھی اور میں ٹکر ٹکر اس کا منہ دیکھے جا رہا تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ میں ایک گہری نیند میں ہوں اور کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ معاً گہرے بادلوں کے پیچھے سے ایک پر ی نمودار ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ آسمان سے اُتر کر میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ میرا ہاتھ تھامتی ہے اور دوبارہ اُڑنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ہاتھ آتے ہی میرا وجود روئی کی طرح ہلکا ہو جاتا ہے اور میں ہوا میں تحلیل ہونے لگتا ہوں۔ بلند ہوتے ہوتے ہم بادلوں سے جا ٹکراتے ہیں۔
آسمان میں جمع ہونے والے گھنے سیاہ بادل آپس میں ٹکرائے اور اس زور سے بجلی چمکی جیسے کہ ہزار ہزار واٹ watt)) کے کئی بلب ایک ساتھ جل اُٹھے ہوں۔ چمک کے بعد بجلی اس شدت کے ساتھ کڑکی کہ ہم دونوں گھبرا کر بے ساختہ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے۔ ہماری سانسیں بے ترتیب ہو گئی تھیں اور ہمارے دل دھک دھک دھڑک رہے تھے۔ یہ کیفیت بجلی کی کڑک سے بھی کم وقت رہی اور پھر ہم جس تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے چمٹے تھے ، اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔
"ڈرپوک" ہمارے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔ بجلی کی چمک اور کڑک تھی ہی ایسی تھی کہ کسی کا بھی دل دہل سکتا تھا مگر اُٹھ کر ایک دوسرے سے چمٹ جانے والی بات غیر متوقع تھی۔ آج یہ بات سوچتا ہوں تو یہ بات عجیب نہیں لگتی۔ عورت بزدل سے بزدل مرد سے دلیری کی توقع کرتی ہے۔ اسے اپنا محافظ گردانتی ہے۔ شاید یہ بات عورت کی فطرت میں شامل کر دی گئی ہے۔ کمزور سے کمزور مرد بھی وقت آنے پر عورت کے لئے ڈھال بن جاتا ہے۔ شاید یہ بات مرد کی فطرت میں شامل کر دی گئی ہے۔
"یہ بجلی ضرور کہیں گری ہے "اس نے پہلی بار کوئی ایسی بات کی ، جو میری سمجھ سے باہر نہیں تھی۔
"ہاں۔ یہ بجلی ضرور کہیں گری ہے "
"تم تو یوں کہہ رہے ہو جیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "وہ اپنی بات مکمل کئے بغیر رک رک گئی
"جیسے کیا؟"
"جیسے یہ بجلی ضرور کہیں گری ہے " وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
اُس کی بات کی بے ساختگی سے لگ رہا تھا کہ وہ چند لمحے پہلے رو نما ہونے والے واقعے کو یکسر بھلا چکی ہے۔ اِس کے بر عکس میں ابھی تک اُس کے ساتھ بے اختیار لپٹ جانے کی غیر معمولی "حرکت "میں اَٹکا ہوا تھا۔ بجلی پہلی بار نہیں چمکی تھی۔ میں نے بجلی کا کڑاکا پہلی بار نہیں سنا تھا۔ پھر ایسا کیوں ہوا تھا؟اس کی بڑی بڑی ٹھہری ٹھہری آنکھوں میں وہی پہلے والی بیباکی لوٹ آئی تھی۔
رات کو چڑیلوں کے ویران جگہوں میں گھومنے کے باتیں ان دنوں میں بہت عام تھیں۔ یہ سب کچھ رات کے وقت ہوا ہوتا تو شاید میں اُسے کوئی چڑیل سمجھ کر شاید میں بھاگ چکا ہو تا مگر یہ رات کی بات نہیں تھی۔ ذہن میں چڑیلوں کیا خیال آیا تو میرا دھیان چڑیلوں کے مڑے ہوئے پاؤں کی باتوں کی طرف چلا گیا۔ کرسی ایک طرف کھسکا کر میں نے "احتیاطاً " اس کے پاؤں کی طرف دیکھ کر اطمینان کر لیا کہ وہ چڑیل نہیں ہے۔
مجھے اپنے آپ پر ہنسی آ گئی۔ میں اسے پہلی بار تھوڑی دیکھ رہا تھا۔ چند لمحے پہلے اس کے دل کی متلاطم دھڑکن اس بات کی غمازی کرتی تھی کہ وہ چھوٹی عمر کی ایک بڑی لڑکی تھی ، جو بچپن کو تو پیچھے چھوڑ چکی تھی مگر جوانی کی سرحد میں بھی داخل نہیں ہوئی تھی۔ ہاں !عمر میں مجھ سے کچھ ہی بڑی ہونے کے با وجود ، وہ دنیا کو دیکھنے اور جاننے کے معاملے میں مجھ سے کہیں آگے تھی۔ قصبے کی لڑکیوں سے مختلف ہونے ، نے اسے قصبے کی لڑکیوں کے لئے اور اس کی باتوں نے اسے میرے لئے پر اسرار بنا دیا تھا۔ اتنا پر اسرار کہ اسے دیکھنے کے بعد اس کے قریب ہونے کی خواہش دل میں جاگنے لگتی اور اس کے قریب ہونے پر ایک عجیب سا ڈر ذہن کے ساتھ چپکا رہتا۔
قصبے کی بے زبان اور گاؤ صفت لڑکیوں کے بر عکس وہ دھوم دھڑکے دار لڑکی تھی۔ جس کی باتیں اور شخصیت دونوں لچھے دار تھیں۔ اس کی عمر کی قصبے کی لڑکیاں بکھرے بالوں ، ڈھیلے ڈھالے اور میلے کچے یلے کپڑے پہنے گلیوں گلیوں پھرتی رہتیں۔ ویران چہرے اُن کا خاصہ تھے۔ فارغ وقت میں ان کی سر گر میاں گڈی اور گڈے کے کھیلوں تک محدود تھیں۔ بہت ہوتا تو وہ بالوں کو تیل سے چپڑ کر گوندھ لیتیں۔ دو "گتاں " کر لیتیں۔ پھیری والے سے دو تین آنوں میں بھرائی ہو ئی کریم کی شیشی سے چہرے کو لیپ پوت لیتیں۔ دو پیسے کی سرخ سیاہی کی ٹکیا سے ہونٹ رنگ لیتیں۔ دانتوں کو کیکر کے ’سک‘ سے چمکا لیتیں اور بالوں میں لکڑی کا کلپ لگا کر بزعمِ خود حسن کے اعلے ٰ ترین معیاروں کو چھو لیتیں۔ یہ بھی کبھی کبھار بیاہ شادیوں پر اور صرف چند گھنٹوں کے لئے ہو تا۔ ورنہ تو ان کی زندگی گلی کوچوں میں کسی سنگ تراش کے ادھورے مجسموں کی لڑھکتے لڑھکتے گزر جاتی۔ بڑی بوڑھیوں کے مطابق بن سنور کر انہیں کون سا اپنے خصموں کو رجھانا تھا۔
ان کے بر عکس فریدہ گلی سے گزرتی تو اسے دیکھ کر کچی عمر کے لڑکے دل کے اندر ہی اندر "شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں "کی قسم کے شعر الاپنے لگتے۔ بڑی عمر کے لڑکے دوسروں سے نظریں بچا کر اسے آنکھوں میں سمو لینے کی کوشش کرنے لگتے۔ الغرض، قصبے کے پر سکون ماحول کے تالاب میں کسی نے انجانے میں کوئی پتھر دے مارا تھا اور اس پتھر سے پیدا ہونے والی لہروں کی پیدائش کا عمل طویل سے طویل تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔
تب یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ میں بھی کسی دن اِس زلف کا اسیر ہو جاؤں گا اور ایک نا کردہ گناہ کی پاداش میں مجھے کالے پانی کی سزا ہو جائے گی۔ شروع شروع میں اس کھیل میں میری دلچسپی ، بند ر اور بندریا کے تماشے میں اس چھوٹے بچے کی دلچسپی سے زیادہ نہ تھی ، جسے ڈگڈگی کی آواز چوپال میں لے تو جاتی ہے مگر تمام شے کا حصہ بننے پر نہیں اکساتی، خاص طور پر اس مرحلے سے تو ہر بچے کی جان جاتی ہے جب مداری اپنے سامنے بیٹھے ہوئے بچے سے پوچھتا ہے۔
"بند ر سے لڑو گے ؟"مداری بچے کو للکارتا ہے اور جب بچہ "ہاں " میں جواب دے دیتا ہے تواس کی انا سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے "تم اس سے نہیں لڑ پاؤ گے۔ یہ بہت بہادر ہے "
"میں بھی بہت بہادر ہوں "
"یہ بہت چالاک ہے "
"میں بھی بہت چالاک ہوں "
"یہ بہت ہوشیار ہے "
"میں بھی بہت ہوشیار ہوں "
مدار ی تواتر کے ساتھ ترپ کے پتے پھینکتا جاتا ہے اور جوابات اگلواتا جاتا ہے اور پھر آخر میں پھلجھڑی چھوڑ دیتا ہے
"یہ بہت حرامی ہے "
"میں بہت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
بچہ روانی میں مداری کا مطلوبہ جواب دے دیتا ہے تو بیسیوں صحت مند قہقہوں کی خفت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہ خفت ہر بچے کو مداری کے سامنے بیٹھنے اور تماشے کا حصہ بننے سے روکتی ہے مگر ہر تماشے میں کسی نہ کسی بچے کو، کبھی مداری کے اکسانے پر ، کبھی اپنی مرضی سے اپنی بہادری کا ثبوت دینے کے لئے یا کبھی دوسروں کے اصرار پر مداری کے سامنے بیٹھنا ہی پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر تماشے کے لوازمات پورے نہیں ہوتے۔ بچے کے مداری کے سامنے بیٹھنے کی وجہ کوئی بھی ہو، تماشے کا اختتام ہمیشہ مداری کے سامنے بیٹھنے والے بچے کی تضحیک پر ہوتا ہے۔
اس گھر کے پھر سے آباد ہونے سے پہلے اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں مشہور تھیں۔ کوئی کہتا تھا کہ اس گھر میں چڑیلیں رہا کرتی تھیں ، جس کی وجہ سے اس کے مکینوں کو گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ کسی کا کہنا یہ تھا کہ اس مکان کے پچھواڑے میں ایک کنواں ہوا کرتا تھا اور اس کنوئیں میں پرانے وقتوں کا ایک خزانہ دفن تھا۔ جس کی حفاظت پر ایک سانپ مامور تھا۔ ایک رات مکینوں کو اشارہ ہوا کہا گر وہ دودھ یا پوت میں سے کوئی ایک چیز سانپ کو بھینٹ کر دیں تو سانپ ان کو خزانے تک جانے کا راستہ دے دے گا۔ انہوں نے دودھ دے دیا مگر راستہ نہیں دیا اور خزانے سمیت غائب ہو گیا۔ ان باتوں میں کتنی سچائی تھی ؟کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا مگر نقل مکانی کر کے چلے جانے والے ہندوؤں میں سے کوئی ایک ہر سال چھ مہینے کے بعد آتا اور پولیس کی نگرانی میں اپنے آبائی گھر میں کھدوائی کروا کر دفن شدہ سونا اور سونے کے زیورات واپس لے جاتا۔ اس کے واپس جاتے ہی ، باقی ماندہ متروکہ مکانوں میں رہنے والے اپنے اپنے مکانوں کی چھتیں دیواریں اور فرش ٹٹولنے لگتے۔ خیر و برکت کے لئے پہنچے ہوئے پیروں اور فقیروں سے مشورہ کیا جاتا۔
 

الف عین

لائبریرین
نجوم اور فال نکالنے کا دھندہ ٹھنڈا پڑنے کے بعد کچھ لوگوں کے لئے خدا نے رزق کی نئی صورت پیدا کر دی تھی۔ قصبے کے پرانے مکینوں میں سے کوئی کسی جگہ کی نشان دہی کرتا۔ "مل گیا تو مال آدھا آدھا" کے اصول پر کھدائی شروع ہو جاتی۔ ہفتوں تک چوری چھپے کھدائی چلتی رہتی۔ کھدائی کے بند ہو جانے کی اطلاع کھدائی کرنے والوں کے اترے ہوئے چہرے اور ٹوٹی ہوئی کدالیں گھر گھر پہنچا دیتیں۔ کبھی کبھی ایسی خبریں بھی سننے کو ملتیں کہ فلاں گھر والوں کو سونا مل گیا تھا مگر سونے کی بٹائی پر جھگڑا ہو گیا، پولیس آئی اور سارا سونا لے گئی۔
ان دنوں میں جب یہ مکان غیر آباد تھا تو مکان کے صحن میں گری ہوئی گیند کو اٹھانے کے لئے ، دیوار پھاند کر اندر جانے والے کسی لڑکے کو کبھی کوئی چڑیل یا کوئی سانپ نظر نہیں آیا تھا اور اب جب کہ یہ مکان آباد ہو گیا تھا تو گلی والے کیا کیا پر انی باتیں لے بیٹھے تھے۔ کبھی کبھی فریدہ کے پاس بیٹھے بیٹھے مجھے شنیدہ باتیں یاد آ جاتیں تو ایک عجیب سا خوف مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا۔ ’ ٖ ’ کہیں حمیدہ اور فریدہ چڑیلیں تو نہیں ؟ یہ سارا سارا دن کیوں گھر میں پڑی رہتی ہیں ؟میں جو یہاں ہوں تو کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا؟ایسا خیال آتے ہی ، میں اپنے دانتوں سے اپنی انگلی کو کاٹ کر اپنے آپ کو اپنے جاگتے ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کرنے لگتا۔ "بیٹھے بٹھائے تم اپنی انگلی کیوں کاٹنے لگتے ہو ؟ نیند آتی ہے کیا؟ " فریدہ پوچھنے لگتی اور میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر ہنس دیتی۔ "دوست ملا بھی تو بدھو۔ " ہنسی کی آواز معمول سے بلند ہو جاتی تو حمیدہ اپنے کمرے سے نکل آتی۔
"کس بات پر ہنسی آ رہی ہے ؟"
"کسی بات پر بھی نہیں۔ ہم کب ہنس رہے ہیں ؟"فریدہ جھوٹ بول دیتی۔
"تو یہ کھی کھی کی آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں ؟"
"یہیں سے۔ باجی! تم بھی کبھی کبھار ہنس لیا کرو۔ ہنسی صحت کے لئے اچھی ہوتی ہے "
حمیدہ کا چہرہ اتر جاتا"پگلی۔ تم نہیں جانتی کہ نہ ہنسنا کتنا مشکل ہوتا ہے ؟"
فریدہ مجھے اپنی شخصیت کے سحر میں پوری طرح اسیر کر چکی تھی۔ دن نکلتے ہی میں سہ پہر کا انتظار کرنے لگتا۔ دہ پہر تک کا وقت تو پھر بھی کٹ جاتا مگر دوپہر سے سہ پہر کا وقت پل پل گننے میں گزرتا۔ ایک ایک کر کے گھر والے سو جاتے تو دبے پاؤں گھر سے نکلتا اور میں فریدہ کے ہاں چلا آتا۔ فریدہ بھی میری طرح میرا انتظار کر رہی ہوتی۔ فریدہ بڑے شہروں کے بازاروں کی، سینماؤں کی۔ دوکانوں کی ، باغوں کی، بہاروں کی اور مزاروں کی باتیں کرنے لگتی۔ وہ روز روز وہی باتیں دہراتی مگر ہر بار ان کا ذائقہ نیا لگتا۔ اکیلے بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا کہ میں بار بار سنی ہوئی باتیں سننے کے لئے کیوں اتنا بے قرار رہتا ہوں ؟ تو خود پر ہنسی آ جاتی۔ کھانے پینے کی گنتی کی چند چیزوں کی طرح باتیں بھی وہی پر انی ہوتی ہیں ، یہ تو انہیں دہرانے والے کا کمال ہوتا ہے جو، ہر بار انہیں اور خوشبو دار اور ذائقے دار کر دیتا ہے۔ ایک ہی کہانی صدیوں سے بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ "مجھے تم سے محبت ہے " کا جملہ شاید پہلی بار جنت میں بولا گیا تھا، تب سے اب تک ان گنت بار بولے جانے کے باوجود جب اسے کوئی لڑکی یا کوئی لڑکا ، کوئی عورت یا کوئی مرد کسی کے سامنے پہلی بار دہراتا ہے تو بولنے والے اور سننے والے ، دونوں کی نس نس میں سنسنی پھیل جاتی ہے۔
"اس چھوٹے سے قصبے میں تمہارا دل نہیں گھٹتا؟" وہ پوچھتی
"نہیں تو"
"عجیب اُلو باٹے ہو تم۔ مگر اس میں تمہارا بھی کوئی قصور نہیں۔ مینڈک کے لئے کنواں ہی کل کائنات ہوتا ہے۔ یہاں رہ رہ کر تو میں گھٹ گھٹ کر مر جاؤں گی"
اس کے منہ سے "اُلو باٹے "کے لفظ کی ادائیگی مزا دے جاتی۔ نام ہے میرا اُلو باٹا، کھاتا ہوں میں گھی اور آٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ " تم محلے کی لڑکیوں کے ساتھ دوستی کیوں نہیں کر لیتی؟"باتیں ختم ہو جاتیں تو وہ اس سے سوال کرتا۔
"اِس محلے کی لڑکیوں کے ساتھ دوستی؟ ناں بابا ناں "
"کیوں اِن میں کیا خرابی ہے ؟"
"کوئی خوبی بھی تو نہیں "
"تمہیں کون سی خوبی چاہیے ؟‘
"اپنی عمر کے مطابق کوئی بات کریں۔ اپنی عمر کے مطابق کوئی کھیل کھیلیں۔ گڈی گڈے کا کھیل بھی کوئی کھیل ہے ؟میری عمر کی لڑکی ’شاہ شٹاپو‘ کھیلتے اچھی لگتی ہے ؟ تم بھی تو اسی قصبے میں رہتے ہو۔ تم کرکٹ کیوں کھیلتے ہو؟"
"کرکٹ ؟ کر کٹ مجھے اچھی لگتی ہے ، اس لئے کھیلتا ہوں۔ "
"مجھے بھی کوئی کھیل اچھا لگے گا تو ضرور کھیلوں گی"
"کب کھیلو گی؟"
"جب وقت آئے گا"
"وقت کب آئے گا؟"
"شاید بہت جلد۔ "وقت کی بات آ جاتی وہ بیٹھے بٹھائے بے وجہ اداس ہو جاتی۔ اس کی ساری شوخی ہوا ہو جاتی۔ وہ وہ بالکل مختلف نظر آنے لگتی۔
"میری ایک بات مانو گے ؟"
"بات ماننے والی ہوئی تو ضرور مانوں گا"بات کے ساتھ ماننے کی شرط لگا دی جائے تودل خواہ مخواہ شک میں پڑجاتا ہے تو جواباً "ماننے والی ہوئی تو"کی شرط لگا دیتا ہے۔
"ماننے والی بات ہوئی تو مانوں گا، تو نہ ماننے والی بات ہوئی"
"چلو بابا !مان لوں گا، بولو"
"کسی دن لاہور چلتے ہیں۔ وہاں میری کئی سہیلیاں ہیں ، کسی کے ہاں بھی ٹھہر جائیں گے اور خوب سیر سپاٹا کر کے واپس لوٹ آئیں گے "
"باجی اجازت دے دیں گی؟"
"باجی تو اجازت نہیں دے گی"
۔ ۔ تو پھر؟"
"تو پھر؟"
باجی حمیدہ سے پوچھنا گویا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا تھا۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ہمت میں کر نہیں سکتا تھا اور فریدہ ’بوجوہ ‘کرنا نہیں چاہتی تھی۔ مہینوں تک کئی کئی گھنٹے یہی باتیں چلتی رہیں۔ مجھے بھی اس کی باتیں درست لگنے لگی تھیں۔ ایک روز فریدہ بیٹھے بیٹھے اچانک اچھل پڑی۔
۔ ۔ "آئیڈیا"
"کیا؟"
"کسی کو بتائے بغیر گھر سے بھاگ چلیں "
"کسی کو بتائے بغیر گھر سے بھاگ چلیں ؟"
گھر سے بھاگ جانے کا واقعہ اس سے پہلے کم از کم ہمارے قصبے میں نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک بالکل ایک نئی بات تھی جو مجھے اچھی نہیں لگی مگر فریدہ نے ایسا ہوتے ہوئے کئی فلموں میں دیکھا تھا اور خاتمہ ہمیشہ بالخیر ہوا تھا۔
"کچھ نہیں ہو گا" فریدہ کا کہنا تھا۔ فریدہ نے ایک دنیا دیکھی تھی اور اس کی بات کا انکار کرنا مجھ جیسے " گاؤں جیسے قصبے کے "سیدھے سادھے لڑکے کے لئے نا ممکن تھا۔
جوں جوں سورج اپنی منزل کی طرف بڑھتا گیا میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔ اسی د ن میری بہن سسرال سے آئی تھی۔ اس کے بچے آنگن میں کھیل رہے تھے۔ میں چلا گیا تو ماں کیا سوچے گی؟ماں کیا کرے گی؟ذہن کے کسی گوشے سے سوالات ابھرنے لگے۔ خود کو بے بس سا محسوس کر کے میں یکبارگی چلا اٹھا۔
"ماں "
۔ ۔ "کیا بات ہے بیٹے ؟"
"سہ پہر میں ، میں نے ایک عجیب سا سپنا دیکھا ہے "
"کیا؟"وہ میرے پاس آ گئی
"وہ یہ کہ میں مر گیا ہوں "
"مریں تمہارے دشمن۔ تم یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟"
"ایسے ہی۔ ویسے میں مر جاؤں تو تم کیا کرو گی؟"
ماں کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں "تو میں بھی مر جاؤں گی" ماں نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس دن کے بعد سے میں نے ماں کو اور ماں نے مجھے نہیں دیکھا۔
گاڑی پلیٹ فارم پر آئی تو ایک سایہ درختوں کی اوٹ سے نکل کر میرے پاس آ گیا۔ رات کی گاڑٰ ی کے زیادہ تر ڈبے خالی تھے۔ ہم ایک خالی ڈبے میں سوار ہو گئے۔ گاڑی اسٹیشن سے نکل کر کر فراٹے بھرنے لگی مگر فریدہ نے برقعے کا نقاب نہیں اٹھایا۔ اور پھر میرے کہنے پر نقاب اٹھایا تو ایک بجلی سی چمک گئی۔ میرے سامنے فریدہ نہیں حمیدہ بیٹھی ہوئی تھی
"آپ"
"ہاں میں " وہ منمنائی
"اور فریدہ؟"
"اسے میں باپ کے سپر د کر آئی ہوں "
"اور خود بھاگ آئی ہو؟"
"بھاگ کر نہیں آئی ، تمہیں واپس لینے آئی ہوں۔ فریدہ نے تمہیں بتایا تھا کہ وہ کیوں گھر سے بھاگنا چاہتی ہے "
"وہ کہتی تھی کہ اس چھوٹے سے قصبے میں اس کا دم گھٹتا ہے "
"فریدہ نے تم سے یہ کہا اور تم نے مان لیا۔ پگلے د م تو بڑے شہروں میں گھٹتا ہے جہاں انسانوں سے زیادہ مشینیں ہوتی ہیں "
"مجھے کیا پتہ؟ "
"فریدہ نے تمہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ میرے سسرال والے میرے رنڈوے جیٹھ کے لئے جو چار بچوں کا باپ ہے ، اس کا رشتہ مانگ رہے ہیں۔ مجھے میکے میں بٹھا کر میرے باپ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ میرے اور فریدہ کے علاوہ اور کسی کو اس رشتے پر اعتراض نہیں۔ فریدہ اس شادی کے ڈر سے گھر سے بھاگنے کا پروگرام بناتی رہی ہے۔ پگلی یہ نہیں جانتی کہ وہ دریا سے بچ بھی گئی تو دلدل میں پھنس جائے گی۔ سمجھانے سے اس نے ماننا نہیں تھا۔ اس لئے اس کی جگہ میں بھاگ آئی ہوں۔ مجھے تب تک لاہور میں ٹھہرنا ہو گا، جب تک اس کے لئے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل جاتا۔ تمہیں تب تک میرا ساتھ دینا ہو گا"
میں لاہور میں رک گیا۔ ایک سال گزر گیا اور دوسرا سال لگ گیا۔ فریدہ کے لئے مناسب رشتہ ملنے سے پہلے ہی ماں نے اپنا وعدہ "کہ تم نہیں رہو گے تو میں بھی نہیں رہوں گی"پورا کر دیا۔ ہیضے کی وبا پھیلی تھی اور بہت سے لوگوں کو ساتھ لے گئی تھی۔ میری ماں بھی ان لوگوں میں شامل تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
اک دوستِ دیرینہ کا ملنا

اور دنوں کی طرح ، اس دن بھی، جلتی ہوئی دو پہر تھی۔ اور دنوں کی طرح ، اس دن بھی، سنسان سڑک تھی۔ اور دنوں کی طرح ، اس دن بھی، ویران دل تھا۔ اور دنوں کی طرح، اس دن بھی، میں اکیلا کالج سے لوٹ رہا تھا۔ معاً دور افق سے ایک سیاہ ہیولا نمودار ہوا۔ ہیولا میری طرف اور میں اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کم ہوتے ہوئے درمیانی فاصلے نے جلد ہی ہیولے کو ایک سیاہ فیشنی برقعے میں تبدیل کر دیا۔ خیموں جیسے دیسی برقعوں اور چادروں کے دیس میں فیشنی برقعے کا نظر آنا ایک واقعہ تھا۔ اونچی ایڑیوں والے سینڈلوں کی ٹپ ٹپ قریب سے قریب تر ہوتی گئی اور پھر میرے سامنے آ کر رک گئی۔
"راجے ! تم "ایک شناسا سی پکار آئی۔
"راجے ! تم "۔ ۔ "راجے ! تم "چپ کی جھیل میں لفظوں کا پتھر گرا تو خود ہی خود سناٹا بول اُٹھا۔
ایک شناسا سی آواز ، ایک شناسا سے لہجے اور ایک شناسا سے طرزِ تکلم نے اپنی پہچان کرانے میں دیر نہیں لگائی۔ میرے سامنے رابعہ کھڑی تھی" تم کہاں۔ تم کہاں ؟"کا الاپ ایک ساتھ گونجا۔ چپ کا سریع الاثر زہر سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں ہمارے رگ و پے میں سرائیت کر گیا۔ ہم ٹکر ٹکر ایک دوسرے کو گھورے جا رہے تھے۔ پھر رابعہ نے اس چپ کو توڑا کہ وہ عورت تھی اور کسی عورت اور مرد کا یوں بر سرِ عام کھڑے رہنا اس شہر کی روایات کے خلاف تھا۔
"تمہارے دائیں طرف میرا گھر ہے " رابعہ نے مجھے بتایا اور مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے ڈالی۔ رابعہ کی دعوت کو رد کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ میں انکار نہیں کر سکا۔ کچھ کہے بغیر میں دائیں طرف مڑ گیا۔ ۔ رابعہ کے گھر میں داخل ہونے تک چپ کا سلسلہ بدستور رہا۔ رابعہ نے دروازے پر دستک دی۔ رابعہ کی ماں نے دروازہ کھولا اور رابعہ کے بتانے سے پہلے ہی مجھے پہچان لیا۔
"راجے ! تم اور یہاں ؟"دوسری پہچان میں بھی پہلی پہچان سے کم حیرانی نہیں تھی۔
رابعہ اور اس کے والدین چھ سات سال تک ہمارے پڑوسی رہے تھے۔ اس کا باپ کوئی اہم سرکاری ملازم تھا اور دن بھر ملاقاتیوں کے جمگھٹ میں گھرا رہتا تھا۔ اپنے کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس کے پاس کسی اور سے ملنے کے لئے وقت اور فرصت نہیں تھی۔ اس کی بیوی اور بیٹی کے پاس البتہ وقت بھی تھا اور فرصت بھی تھی۔ ہمسائیگی کے تعلق سے ، ان کا ہمارے گھر گپ شپ کے لئے آ نا جانا شروع ہو گیا تھا۔ چو تھی سے نویں تک کی جماعتیں ہم دونوں نے ساتھ ساتھ مگر الگ الگ ا سکولوں میں پڑھ کر پاس کی تھیں۔ ایک ہی جماعت میں پڑھنے اور پڑوسی ہونے سے زیادہ ، غیر نصابی کتابوں کے شوقِ مطالعہ نے ہمیں ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا تھا۔
اپنی عمر کے دوسرے بچوں کے بر عکس ، کھیل کود میں وقت گزارنے کی بجائے ، ہمارا زیادہ تر وقت نئی نئی کتابیں پڑھنے میں صرف ہوتا تھا۔ ہم نے اپنے مطالعاتی سفر کا آغاز، آنے دو آنے میں ملنے والی شہزادے ، شہزادیوں اور ٹارزن کی مصور کہانیوں کیا تھا۔ ان مافوق الفطرت مگر دلچسپ کہانیوں سے سیری کے بعد بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت اور سائنس کی دنیا کی قسم کے رسالے ہمارے ہاتھ آئے۔ آخر آخر میں ا سکولوں کی لائبریریاں ہمارا نشانہ بنیں اور تاریخی ناولوں کو ضد باندھ کر، ایک ایک دن اور پھر ایک ایک نشست میں ، پڑھنا ہمارا دستور ہو گیا۔ ایک ہی کتاب کو باری باری پڑھ لینے کے بعد ہم اس پر تبصرہ بھی کرنے لگے تھے۔ ایک بات جس کی ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی، یہ تھی کہ شہزادی اور شہزادے کی رنگ رلیوں میں بھنگ ڈالنے والی عورت اکثر و بیشتر باندی ہی کیوں ہوتی ہے ؟ اور مردِ مجاہد کے عشق کا محور ہمیشہ کافر زادی ہی کیوں ٹھہرتی ہے ؟ مومن زادیاں شادی کی پہلی رات کو ہی مجاہدوں کو جنگ کے میدان میں کیوں جھونک دیتی ہیں ؟
اسلامی تاریخی ناولوں میں ، ہماری ضرورت سے زیادہ دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمارے بڑوں نے اشارے کنائیوں میں ہمیں سمجھا دیا کہ ہم اب بچے نہیں رہے۔ اکٹھے بیٹھ کر ہمارا ناولوں کا، اگرچہ وہ اسلامی اور تاریخی ہی کیوں نہ ہوں ، مطالعہ کرنا ٹھیک نہیں۔ یوں ہمارا ایک ساتھ بیٹھ کر پڑھنا موقوف ہو گیا حالانکہ نہ تو میں مردِ مجاہد تھا اور نہ ہی رابعہ کافر زادی تھی۔ تا ہم ہمارے ملنے جلنے پر کوئی پابندی نہیں لگی تھی۔ ہم کتابوں کا تبادلہ کر سکتے تھے۔ پڑھی ہوئی کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتے تھے۔
"بنڈل ہے "
"بنڈل اور بور ہے "
"ایک بار پڑھنے میں کوئی حرج نہیں "
کسی کسی کتاب کو"اچھی ہے "کا اعزاز بھی مل جاتا تھا۔
رابعہ کے باپ کا تبادلہ ہو گیا۔ ہمارے پڑوس میں نئے لوگ آ گئے۔ رابعہ کا نام ذہن کی سلیٹ سے مٹتا چلا گیا مگر میری کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں چھوٹی۔ میں اسلامی تاریخی ناول پڑھتا رہا مگر نہ تو وہ مجھے مردِ مجاہد بنا سکے اور نہ ہی میں مجاہد مردوں کو بدل سکا۔ مجبوراً میں نے لائن بدل لی۔ اب منٹو، احمد ندیم قاسمی ، بیدی ، کرشن چندر، اور اس قبیل کے دوسرے کہانی کار میری کمزوری بن گئے۔
 

الف عین

لائبریرین
رابعہ نے چائے میرے سامنے رکھ دی۔ چائے پیتے ہوئے ، موضوعِ گفتگو کی تلاش میں ، میں نے منٹو کو آگے کر دیا
" منٹو کو کبھی پڑھا ہے "
"پڑھا ہے مگر وہ مجھے کچھ زیادہ ہی زنانہ مصنف لگتا ہے "
"پھر تو تمہیں عصمت چغتائی کچھ زیادہ ہی مردانہ مصنفہ لگتی ہو گی"
وہ ہنس پڑی"آج کل زور بہشتی زیور پر ہے "
"یہ تو تم اچھا کر رہی ہو مگر اس آخری باب ابھی نہیں پڑھنا"
"کیوں نہیں پڑھنا۔ میں نے تو شروع ہی آخری باب سے کیا ہے "
اتنے میں رابعہ کے والد آ گئے۔ انہوں نے بھی تعارف کے بغیر ہی مجھے پہچان لیا۔ رابعہ کچن میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹانے کے لئے اٹھ گئی اور وہ مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی عمر کے لوگوں کی باتیں چھیڑ دیں۔ فلاں کیسا ہے ؟ فلاں کیا کرتا ہے ؟ فلاں اب کیسے چلتا ہے ؟جو لوگ زندہ تھے ان کے بارے میں ، میں نے انہیں بتایا۔ جو نہیں رہے تھے ، ان کے بارے میں ، انہوں نے باتیں کیں۔ تعلق خواہ کتنا بھی موہوم ہو، دل و دماغ کے کسی نہ کسی کونے میں چھپا رہتا ہے۔ آدمی کتنا بھی آگے نکل جائے ، پیچھے رہ جانے والے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ چھوٹی ہوئی محفلیں ، ٹوٹی ہوئی رفاقتیں اور مٹتی ہوئی پہچانیں ، زند گی بھر دبے پاؤں ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ پڑاؤ ڈالتے اور اسبابِ سفر کھولتے ہی یادیں شریکِ بزم ہو جاتی ہیں۔ کھانا کھا لینے کے بعد رابعہ نے اپنے والد کو یاد دلایا کہ آج ان کو کسی ضروری کام سے بغداد الجدید جانا ہے تو وہ معذرت کرتے ہوئے اٹھ گئے۔
رابعہ نے میری ماں کے بارے میں پوچھا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ سمجھ گئی کہ ماں نہیں رہی۔ مجھے تو چپ لگی ہی تھی ، رابعہ بھی خاموش ہو گئی۔ رابعہ کسی دن ہمارے گھر نہیں آتی تھی تو ماں متفکر ہو جاتی تھی۔ وہ دوسرے دن بھی نہ آتی تو اس کی خیریت پوچھنے ان کے گھر چلی جاتی تھی۔ میری دو بڑی بہنیں اپنے اپنے سسرال میں تھیں اور دور دراز کے فاصلوں کی وجہ سے سالوں میکے آ نہیں پاتی تھیں۔ ماں ان کو دن میں کئی کئی بار یاد کرنے کے باوجود جلدی جلدی میکے کا چکر لگانے کے لئے اس لئے نہیں کہا کرتی تھی کہ بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں ہی رہتی اچھی لگتی ہیں۔ رابعہ کی شکل میں اسے پلی پلائی بیٹی مل گئی تھی تو وہ اس کا خیال کیوں نہ رکھتی۔ یہی وجہ تھی کہ گھنٹوں ہمارے گھر گزارنے کے باوجود اس کے گھر والوں کو اس کا دھیان یا دوسرے لفظوں میں اس پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
یادوں نے یکا یک فضا کو ابر آلود کر دیا تھا۔ پلکوں کے نیچے اور آنکھوں کے اندر دکھائی نہ دینے والی بوندا باندی ہونے لگی تھی۔ گزرے ہوئے واقعات ساون اور بھادوں کے بادلوں کی طرح چھپا چھپائی کا کھیل کھیلنے لگے تھے۔ سیاہ و سفید بادل تیزی کے ساتھ مختلف شکلیں بنانے لگے تھے۔ شکلیں یوں ایک دوسرے میں گڈ مڈہو رہی تھیں کہ ان گنت چہروں میں شناسا چہروں کی پہچان ناممکن ہونے لگی تھی۔ مگر ماں کا چہرہ ان سے مستثنیٰ تھا۔ تبھی اچانک مجھ پر منکشف ہوا کہ زندہ احساس کے ساتھ، چند لمحوں کے لئے بھی کسی کی یاد میں چپ ہو جانا ، اسے کتنا بڑا خراج ادا کرنا ہے۔ رابعہ کی طرح میں بھی سال بہ سال بدلے جانے والے کیلنڈر پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ ہم برسوں تک برسوں کے بعد آنے والے مختصر سے لمحوں کے رستے میں آنکھیں بچھائے رہتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کبھی نہ ختم ہونے والی خوشیاں لے کر آئے گا مگر وہ لمحے ٹوٹتے ہوئے تارے سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتار کے ساتھ جل کر بھسم ہو جاتا ہے۔ ہماری جھولی میں ٹوٹے ہوئے خوابوں اور جلی ہوئی یادوں کی راکھ رہ جاتی ہے۔ جن سانسوں کو ہم زندگی کی علامت قرار دیتے ہیں ، وہ در اصل ہمیں موت سے قریب لے جانے کا عمل ہے۔ زندگی موت کے نا محسوس کھیل کا نام ہے۔
رابعہ اور میں نے کئی سالوں تک، پہروں اکٹھے بیٹھ کر جنوں ، پر یوں ، شہزادوں ، شہزادیوں ، درختوں جنگلوں ، گلہریوں ، پہاڑوں ، آبشاروں ، بہاروں اور ان گنت خوبصورت چیزوں کی باتیں کیں تھیں مگر ماں کی موت کے تذکرے نے ہم سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ ہم چپ بھی تھے اور ایک دوسرے سے ہم کلام بھی تھے۔
کسی نے اپنی پوری قوت سے دروازہ پیٹ ڈالا اور ہم لا موجود سے وجود میں آ گئے۔ رابعہ نے راہداری میں جا کر دروازہ کھولا۔ ۔ ۔ "کیا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی تم؟"آنے والی رابعہ پر برس رہی تھی" گھنٹے بھر سے گھنٹی پر گھنٹی پر بجا رہی ہوں مگر کوئی جواب ہی نہیں آ رہا تھا"ایک وقفے کے بعد آنے والی نے سلسلۂ کلام دوبارہ جوڑا تو اس کا لہجہ بالکل بدل چکا تھا"اتنی دیر تک جواب نہ آنے کی وجہ سے مجھے تو امی کی فکر ہونے لگی تھی، ٹھیک تو ہیں ناں وہ؟"
"تم بولنا بند کرو گی تو میں کچھ بول سکوں گی ناں "
"بولو"
رابعہ کے کچھ بولنے تک وہ دونوں ڈرائنگ روم کے دروازے کے سامنے تک آ چکیں تھیں۔ آنے والی کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ رک گئی"اچھا تو دروازہ نہ کھلنے کی یہ تھی وجہ؟"
"نویدا! یہ میرے بچپن کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "رابعہ فقرہ پورا کرنے سے پہلے ہی ہکلا کر رک گئی۔ عورت ہونے کی مجبوری، اس پر غالب آ گئی تھی۔ وہ اپنی زبان سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکالنا چاہتی تھی ، جس کے لئے ، اسے بعد میں وضاحت پیش کرنا پڑ جائے۔
"دوست نہیں تو دشمن ہی کہہ دو" کتابی چہرے ، میدے کی سی رنگت اور بولتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں والی، آنے والی نے کسی تکلف کے بغیر فقرہ اچھال دیا۔
"ان کا نام ریاض ہے۔ چونڈے سے آئے ہیں "رابعہ نے بات شروع کی
"خیر سے آئے ہیں ؟"آنے والی نے پھر چوٹ کی۔ رابعہ نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
"چونڈے میں ہم ان کے پڑوسی رہے ہیں۔ کتابیں پڑھنا اور سمجھنا ہم نے ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ ان دنوں ہم بہت اچھے دوست تھے "
"شکر ہے رشتے کو کوئی نام تو ملا۔ اب دوست نہیں ہیں ؟"
"ہو بھی سکتے ہیں مگر اب جب ہم بڑے ہو چلے ہیں ، تعلق کو کوئی نام نہ دینا ہی بہتر ہے "
"دل میں چور ہو تو ایسی تشریحات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اندھا پن اندھوں کی مجبوری ہے مگر آنکھ والے تو دن اور رات میں تفریق کر سکتے ہیں ؟"
"حقیقت کچھ بھی ہو، دنیا، آنکھ کے دیکھے سے زیادہ ، کان کے سنے پر یقین کرتی ہے "
"چلو فی الحال ہ اسے تجدیدِ ملاقات کہہ لیتے ہیں "
"لڑکا کیا کرتا ہے ؟"
"تمہیں دلچسپی ہے تو خود ہی پوچھ لو؟"رابعہ کو بازی برابر کرنے کا موقعہ مل ہی گیا
"اچھا تو ریاض بھائی آپ کیا کرتے ہیں ؟"
"پڑھتا ہوں "
"ُپرائمری ا سکول میں ؟"
"کالج میں پہلے سال میں پڑھتا ہوں ؟"
"کہاں رہتے ہیں ؟"
"ماڈل ٹاؤن میں "
"ماڈل ٹاؤن میں کہاں ؟"
"ُپردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کے پاس، پیلی کوٹھی میں "
"اتنے بھاری بھر کم الفاظ بول کر زبان کو تھکانے کی کیا ضرورت ہے ؟پر دیسی تندور کہہ لیں سیدھا سادھا "کتابی چہرے ، میدے کی سی رنگت اور بولتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں والی نے رابعہ کے بعد اب مجھے اپنے تیکھے فقروں کا نشانہ بنا لیا تھا۔
اس نے پر دیسی تندور کا ذکر کیا۔ پر دیسی تندور، کتابی چہرہ، میدے جیسی رنگت اور بولتی ہوئی نیلی آنکھیں۔ یہ سب لمحے بھر کے لئے یکجا ہوئے تو خود بخود ایک نام بن گیا۔
"تو آپ ہیں نویدہ ؟"
اس بار نویدہ کے چونکنے کی باری تھی۔ "ہاں ، میں ہی نویدہ ہوں۔ آپ مجھے کیسے جانتے ہیں ؟"
"جیسے آپ پر دیسی تندور کو جانتی ہیں "
"ہاں ، یہ تو ہے۔ چھوٹا سا شہر ہے۔ کسی نہ کسی حوالے سے جان پہچان تو نکل آتی ہے "
"آپ ویدہ کی بڑی بہن ہیں ناں ؟"
"ویدہ میری چھوٹی بہن ہے " اس کا جواب تھا
"ایک ہی بات ہے "
"نہیں "اس نے اپنے جواب کا دفاع کرتے ہوئے کہا"ایک بات نہیں۔ بڑے ہونے کا احساس ذمہ دار ی سکھاتا ہے۔ محتاط رہنے کا سبق دیتا ہے اور دیکھ کر چلنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ویدہ مجھ سے سات آٹھ سال چھوٹی ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کہ میں اس سے صدیوں بڑی ہوں "
اس کی جھیل ایسی نیلی او ر گہری آنکھوں میں شوخی اور ٹھہراؤ ایک ساتھ تھا۔ لہجے میں بڑی بوڑھیوں جیسا اعتماد تھا۔ وہ تشکیک کی منزلوں سے کہیں آگے نکل آئی تھی۔ وہ چیزوں کو اپنی سوچ کے پیمانے سے نہیں بلکہ ان کے اصلی قد سے پر کھ رہی تھی۔ چند برس پہلے تک وہ ویدہ کی جگہ روٹیاں پکوانے آتی تھی۔
نواز، اُسے اپنی باتوں کی وجہ سے اچھا لگتا تھا۔ نواز کے بارے میں باتیں کرنے میں وہ کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھی۔ یہ نواز ہی تھا ، جس نے بے ماں کی چھوٹی سی بچی کو بڑی بوڑھیوں کی طرح سوچنا سکھایا تھا۔ نواز خود کو ایک ڈھال بنا کر فریدہ کو زمانے کے گرم و سرد سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ دودھ کے جلے کی طرح وہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہا تھا۔ نواز ایک ایسی غلطی کا کفارہ ادا کر رہا تھا، جو اس نے کی نہیں تھی۔ نواز ایک ایسے جرم کی سزا بھگت رہا تھا ، جو اس نے کیا نہیں تھا۔ عمروں کے ایک بڑے فرق کے باوجود نواز اور نویدہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے۔ کیا یہ کافی نہیں تھا؟
شاید وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔ کسی کو ٹھیک سے سمجھ لینا، اسے پا لینے سے کہیں زیادہ افضل تھا۔ نواز نے اپنی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی مگر زند گی کی ٹھوکروں نے اسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ نویدہ، زندگی کی سچائیوں کو کتابوں کے ذریعے جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرے اور رابعہ کے بیچ میں کتاب کا رشتہ تھا۔ کتاب ہی کے رشتے نے رابعہ اور نویدہ کو سہیلیوں کے رشتے میں باندھ دیا تھا۔ نویدہ اور نواز، ایک دوسرے کو جانتے تھے ، سمجھتے تھے ، پسند بھی کرتے تھے مگر حا صل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔
فریدہ والے حادثے سے گزرنے کے بعد نواز نے دنیا ہی تیاگ دی تھی۔ نواز کے نزدیک کسی کو ڈھنگ سے تیاگ دینا، اُسے حیلہ جوئی سے پا لینے کی نسبت کہیں افضل تھا۔ اس کی زندگی کی پہلی اور آخری شکست میں اس کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اس کھیل میں اس کی حیثیت تو ایک مہرے کی تھی۔ وہ کھیل ہی عجیب تھا۔ کھیلنے والا بھی جیت نہیں سکا تھا اور مہرہ بھی پَٹ گیا تھا۔ نواز اس کھیل میں وہ مہرہ تھا کہ کھیلنے والے کی جیت یا ہار دونوں صورتوں میں اس نے پَٹنا ہی تھا۔
زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر زندگی اپنے اصل روپ میں سامنے آ جاتی ہے۔ حقیقتوں کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ خوابوں کی زنجیریں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ رشتوں کا بھرم ٹوٹنے لگتا ہے۔ سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔ اپنی پہچان کا یہ لمحہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ کون جانتا ہے کہ دنیا کو ترک کرنے والے اور جنگلوں اور ویرانوں میں بسیرا کر لینے والے پہچان کے لمحے کی پیداوار ہوتے ہیں یا کہ اپنی شکست کی آواز ہوتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
پگڑ والا

احمد علی نویدہ کی اکلوتی پھوپھی کا بیٹا تھا۔ نویدہ اور خاص طور پر ویدہ کو جب پھوپھی کی شفقت کی ضرورت تھی، پھوپھی کی ساری کی ساری توجہ اپنے چھوٹے اور چھٹے بیٹے کی دیکھ بھال پر صرف ہوتی رہی تھی۔ اپنے بیٹے کو نظر انداز کر کے وہ دوسرے کی بیٹیوں پر شفقت کیوں ضائع کرتی۔ تا ہم اب جبکہ اس کا چھوٹا بیٹا جوان ہو گیا تھا تو وہ بھائی کی بیٹی پر اپنا حق جتانے بھائی کے گھر آ بیٹھی تھی۔ بھائی اور بہن کے بیچ دنوں سے ، ایک سرد جنگ چل رہی تھی۔ بہن نے اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔
بیٹی کے باپ کا کہنا تھا کہ لڑکا ان پڑھ ہے اور لڑکی کے جوڑ کا نہیں۔
بیٹے کی ماں کا سوال تھا کہ یہ سوچ اب ہی کیوں ؟ بات تو ایک عورت اور ایک مرد کے بندھن کی ہے۔ مرد کا نٹا ہے ، عورت پھول ہے اور ان دونوں کا بہت پر انا رشتہ ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ جینا اور مرنا پڑتا ہے۔
بھائی بہن سے پوچھتا تھا کہ بہن جانتے بوجھتے ہوئے بھائی کی بیٹی کو جہنم میں کیوں دھکیلنا چاہتی ہے ؟
بہن کا جواب تھا کہ اس نے بھی اس جہنم میں اپنی مرضی سے چھلانگ نہیں لگائی تھی۔
باپ دلیل دیتا تھا کہ ایک غلط بات دوسری غلط بات کا جواز کیسے بن سکتی ہے ؟
ہر کوئی اپنی اپنی جگہ سچا تھا۔ رسم و رواج انہوں نے نہیں بنائے تھے۔ وہ سب آدم کے وقت سے چلی آنے والی رشتوں کی زنجیر سے بندھے تھے۔ صدیوں سے ایسا ہوتا چلا آیا تھا۔ بات ایک حد سے آگے بڑھنے لگی تو نویدہ بیچ میں کود پڑی۔
"تم سب بے کار میں جھگڑ رہے ہو۔ میری مرضی تو پوچھ لو" سب کو اک چپ سی لگ گئی۔ وہ کیا بولے گی؟کسی کو کچھ خبر نہیں تھی۔ ساری کی ساری نظریں اس کے چہرے پر گڑ گئیں۔ وہ کیا کہے گی؟
"مجھے یہ رشتہ منظور ہے " کہہ کر اس نے سب کو چونکا دیا۔
"کیوں ؟"اس حیرت میں اس کے باپ کے ساتھ ساتھ اس کی پھوپھی بھی شامل تھی۔ کسی کو بھی اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ اس کے جواب نے سب کو چونکا دیا تھا۔ لڑکیوں کے منہ سے کبھی کبھی "ناں "کا لفظ تو سننے کو مل جاتا تھا مگر ایسی صورت میں لڑکی خود ہاں کہہ دے گی ، ایک ان ہونی بات تھی۔ دستور کا خیا ل تھا یہ بھی قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔
"اس لئے کہ میری ناں سے بہت سے لوگ متاثر ہوں گے "اس نے دلیل دی
"تمہاری ہاں سے بھی، بہت سے لوگ متاثر ہوں گے "سننے والوں نے کہا
نویدہ کی منگی کے لڈو، اس کے سسرال والوں نے گاؤں میں شہر سے بلائے ہوئے حلوائی کے ہاتھوں خالص دیسی گھی سے بنوائے تھے۔ انہیں بانٹنے کی رسم کے موقعہ پر نواز، رابعہ اور اس کے گھر والوں ، دستور اور مجھے بطورِ خاص بلایا گیا تھا۔ سانجھے حالات اور دکھوں نے ہمیں غیر محسوس طور پر اپنائیت کی ان دیکھی ڈوری میں پر و دیا تھا۔
"کیا پڑھی لکھی نویدہ پگڑ والے ان پڑھ دیہاتی کے ساتھ خوش رہ سکے گی؟"میری چھٹی حس بار بار ایک ہی سوال اچھال رہی تھی۔ میں بار بار یہ سوال نواز کی طرف سرکا دیتا تھا اور وہ ہر بار میری بات، سنی ان سنی کر دیتا۔
"ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب دیا جائے "یہ اس کا موقف تھا
" مگر جواب ڈھونڈا تو جانا چاہیے " دستور نے بالآخر اپنا فیصلہ سنا دیا۔
"میں نے زندگی سے ایک سبق ہی سیکھا ہے۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ اونٹ بھی عجیب جانور ہے۔ خود آگے کی طرف چلتا ہے اور اس پر سوار دائیں بائیں گھولتا ہے۔ کبھی تو کسی رشتہ بنانے میں یہ قباحت ہوتی ہے کہ فریقین بے جوڑ ہیں۔ کبھی فریقین جوڑ کے ہو کر بھی بے جوڑ ٹھہرتے ہیں۔ ہونا کیا چاہیے ؟" نواز نے بات کرتے کرتے آنکھیں بند کر لیں اور مراقبے میں چلا گیا۔ ایک لمبے مراقبے کے بعد مراجعت ہوئی تو ایک سوال داغ دیا۔
"تم دونوں میں سے کسی نے کبھی سمت کا تعین کئے بغیر صحرا میں سفر کیا ہے ؟"
"نہیں تو"ہمارا جواب تھا
" تو پھر میں تمہیں کیا بتاؤں ؟"یہ ایک طرح سے نوازکی طرف سے اپنا موقف تفصیل سے بیان کرنے کا اعلان تھا " میں نے صحرا میں سمت کا تعین کئے بغیر سفر کیا ہے۔ اس سفر میں بار بار ایسے مرحلے آئے کہ زندہ رہنے کی امید دم توڑگئی مگر ہر بارکسی ان دیکھے ہاتھ نے ، مجھے مرنے سے بچا لیا۔ کوئی راستہ نہ ہونے کے باوجود کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا تھا۔ ساوے پتوں والی لال کھجوروں کے جھنڈ صحراؤں میں مناسب فاصلوں پر خود بخود اُگ آتے ہیں۔ لمبے دنوں کی تپتی دوپہروں میں اس حقیقت کے باوجود کہ بظاہر کوئی حیلہ جو نہیں ہوتا، انہی کھجوروں کے ساوے پتوں کے نیچے سے برف رنگ " بور " جنم لیتا ہے۔ بے رحم لو ، لوریاں سنا سنا کر بور سے خوشے بناتی ہے۔ اِن خوشوں کی پر ورش کرتی ہے اور انہیں لال رنگ کا چولا عطا کرتی ہے۔ ہوا کا کوئی شریر جھونکا یا عادت سے مجبور کوئی پرندہ ادھ پکے "ڈوکے "زمین پر گرا تا ہے۔ پھر موت کے دروازے پر دستک دیتا ہوا کوئی درماندہ مسافر آتا ہے اور انہیں اٹھا کر اپنے منہ میں رکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس نے مصری کی ڈلی منہ میں ڈال لی ہے۔ حالآنکہ یہ حلاوت ان ادھ پکے ڈوکوؤں میں نہیں ہوتی ، حلاوت انہیں بدن کی احتیاج عطا کرتی ہے ، انہیں شہد سے بھی میٹھا بنا دیتی ہے۔ آدم و حوا کی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو حاصل کرنے کے لئے انسانی حدیں تک پار کر جاتے ہیں۔ "محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے " کے نام پر حرام کو حلال بنا دیتے ہیں۔ جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے داؤ پر لگا دیتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس کھیل کا کوئی اصول نہیں ہے۔ کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔
کوئی ایسا کلیہ نہیں ہے کہ جمع و تفریق یا ضرب و تقسیم کے فلاں عمل سے خوش گوار زندگی کا حصول یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ جو نہیں چلنا چاہیے چل جاتا ہے۔ جو چلنا چاہیے وہ نہیں چلتا۔ زندگی کے نا ہموار راستوں میں در گذری کا پیمانہ چھلک چھلک جاتا ہے۔ منطقی میزان پر تولیں تو نویدہ اور اس کا باپ بھی ٹھیک ہیں ، احمد علی اور اس کی ماں بھی ٹھیک ہیں۔ تو پھر ٹھیک کون ہے ؟
یہ کہانی اس کہانی کی طرح ہے۔ جس میں دو اشخاص تیسرے کے پاس اپنا فیصلہ کرانے کے لئے آتے ہیں۔ وہ ایک فریق کی بات سنتا ہے اور فیصلہ سنا دیتا ہے کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ دوسرا فریق احتجاج کرتا ہے کہ اس کی بات تو سنی ہی نہیں گئی۔ تیسرا دوسرے کی بات سنتا ہے اور کہتا ہے کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ چوتھا تعجب کرتا ہے کہ دونوں فریق ٹھیک کہتے ہیں تو جھگڑا کس بات کا ہے ؟ تیسرا اس کی بات بھی سنتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بھی ٹھیک کہتے ہو۔ سب کہتے تو ٹھیک ہیں مگر ٹھیک کرتا کوئی نہیں ہے۔ "
باتوں باتوں میں نواز نے بات کو اتنا الجھا دیا تھا کہ دستور کو اسے روک کر اعلان کرنا پڑا کہ تم ٹھیک کہتے ہو اور خدا کے لئے اب ہمارا پیچھا چھوڑ دو۔ میں نے جواب ڈھونڈنے کی اپنی درخواست واپس لے لی۔
شادی کی تاریخ طے ہوئی توہم پر کھلا کہ شادی کے انتظامات کے لئے گھر میں نویدہ کے معذور باپ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے ، چنانچہ نواز نے ایمرجنسی (emergency ) کا اعلان کر دیا۔ " پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ "غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا۔ دستور اور میں نے کالج سے چھٹی لے لی۔ رابعہ اور اس کی ماں نے نویدہ کے گھر میں کیمپ آفس(camp office)بنا لیا۔
رابعہ اور اس کی ماں نے جہیز کی چیزوں ، شادی کے جوڑوں اور ملنی کے کپڑوں کی لسٹ بنائی تو نواز نے چاول، گھی، چینی، مصالحوں ، گوشت کا حساب لگا لیا۔ نویدہ کے باپ نے اپنی جیب کو ٹٹولا۔ برات والے دن کے لئے صوفوں ، کرسیوں ، شامیانوں اور کرا کری کا انتظام دستور اور مجھے سونپ دیا گیا۔ محلے والوں نے اپنے افرادِ خانہ کی احتیاطاً دوبارہ گنتی کر کے بتایا کہ برات والے دن براتیوں اور محلے والوں کو ملا کر کتنے لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنے کی ضرورت تھی۔ غرضیکہ ہر کوئی بقدرِ ہمت شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہا تھا۔
دستور جو کام کاج کے معاملے میں ہمیشہ سے کاہل مشہور تھا، خوب بھاگ بھاگ کر کام کر رہا تھا۔ اس نے مجھ سے صوفوں ، کرسیوں ، شامیانوں اور کرا کری کے سامان کی تین تین لسٹیں بنوا لی تھیں۔ تا کہ ایک لسٹ کی گمشدگی کی صورت میں دوسری اور دوسری لسٹ کی گمشدگی کی صورت میں تیسری لسٹ سے کام لیا جا سکے۔ اس کی زبان پر کوئی حرفِ شکایت تو نہیں آیا تھا مگر وہ یہ ضرور کہہ رہا تھا کہ اگر شادی کے لئے یہ کچھ کرنا پڑتا ہے تو وہ لنڈورا ہی بھلا۔ جس پر نواز نے اسے جتا دیا تھا کہ لنڈورا تو وہ پہلے سے ہے۔ دستور کی واقعتاً دم نہیں تھی۔
ہماری پوری کوششوں کے باوجود بہت سے ایسے لوازمات تھے ، جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ نویدا کی شادی اس لحاظ سے روکھی سوکھی رہی کہ اس شادی میں تیل مہندی کی رسم ہوئی ، نہ ڈھولک بجی اور نہ ہی گیت گائے گئے۔ شادی سے پہلے کی رات عام راتوں کی طرح سے تھی۔ علیٰ الصبح ٹینٹ سروس والے آئے اور شامیانے نصب کر کے کرسیاں اور میزیں لگا گئے۔ کھانا پکانے والے آئے اور کھانا پکانے میں جٹ گئے۔
گیارہ بجے کے لگ بھگ بارات آئی۔ پگڑیوں والے ، لشکارے مارتی ہوئی ڈانگیں تھامے لاری سے نکلنے لگے۔ بڑے پگڑ والا دراز قد اور تنو مند دولہا سب کے بعد لاری سے نکلا۔ اس کا چہرہ سہرے میں چھپا ہوا تھا اور کندھے پھولوں کے ہاروں سے لدے ہوئے تھے۔ دولہے کے بعد گنتی کی چند عورتیں اتریں جنہوں نے گہرے رنگوں کے گوٹے کناری والے کپڑے پہن رکھے تھے۔ بارات کی تواضع ٹھنڈے دودھ سوڈے کے ساتھ کی گئی۔ پھر نکاح پڑھایا گیا۔ لگ بھگ دو بجے مردوں کے لئے کھانا کھولا گیا۔ مردوں کے بعد عورتوں کو کھانا کھلایا گیا۔
جہیز کے لاری پر لادے جانے تک دن ڈھل چکا تھا اور رخصتی کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ بچھڑنے کا موسم سر پر کھڑا تھا۔ ویدہ عجیب حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ جس عمر میں بڑی بہن نے گھر سنبھالا تھا ، اسی عمر میں چھوٹی بہن گھر سنبھالنے جا رہی تھی۔ دل بو جھل ہو گئے تھے اور آنکھوں کے پیمانے کناروں تک لبا لب بھر چکے تھے۔ ہر کوئی انہیں چھلکنے سے باز رکھنے کی کو شش میں تھا۔
نویدہ کو باہر لایا گیا۔ دولہا اور دولہن ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے۔ چھوٹی بہن بڑی بہن کے کندھے پر سر رکھ کر روئی۔ باپ نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعا دی اور داماد کے کندھے پر تھپکی دے کر بیٹی سے آنے والے دنوں میں سر زد ہونے والی غلطیوں کی درگزری کی درخواست کی۔ باراتی لاری میں سوار ہو چکے تھے۔ دولہا اور دولہن سوار ہو گئے تو لاری منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔
شامیانوں کے اتارے جانے اور کھانے کے برتنوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد ہم نے واپسی کی اجازت چاہی تو نویدہ کے باپ نے ہمارا شکر یہ ادا کرتے ہوئے رات کا کھانا کھا کر جانے کے لئے کہا مگر ہم نے بھوک ہونے کے باوجود بھوک نہ ہونے کا بہانہ کر دیا اور پر دیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ میں لوٹ آئے۔ نواز نے دوکان کا دروازہ کھولا اور چار پائیاں باہر نکالنے لگا۔
"چار پائیاں کیوں نکال رہے ہو استاد؟"دستور نے اسے روکتے ہوئے کہا"کچھ خبر بھی ہے ؟ مدھو بالا کی فلم لگی ہوئی ہے اور آخری دن ہے آج۔ "
"تو ؟"
"تو کیا؟ دیکھ آتے ہیں "
"آج نہیں۔ پھر لگے گی تو دیکھ لیں گے "نواز کے لہجے میں ایک عجیب سی اداسی اور تھکن اتر آئی تھی"
"جیسے تمہاری مرضی"دستور غیر ارادی طور پر چار پائی کی ادوائین پر بیٹھ گیا۔ خستہ رسی اس کا بوجھ نہیں سہار سکی اور ادوائین کی رسیاں تڑک سے ٹوٹ گئیں۔ وہ بوکھلا کر دوسری چار پائی کی ادوائین پر بیٹھا تو اس کا حشر بھی پہلے سے بہتر نہیں ہوا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ نواز کی حسِ مزاح جاگ اٹھی اور اس کے ہونٹوں پر مسکرا ہٹ کھیلنے لگی۔
 

الف عین

لائبریرین
"چلو با با چلو، چلے چلتے ہیں کھیل دیکھنے۔ ورنہ آج چار پائیوں کی خیر نہیں "دستور نے کھیل کی تجویز اس لئے پیش کی تھی کہ ذرا تفریح ہو جائے گی مگر فلم نے ہمیں اور بھی افسردہ کر دیا۔ مگر اداسی کوئی پوشاک تو تھی نہیں کہ اپنی مرضی سے اسے اتار لیا جائے۔ انسانوں اور دکھوں کا تو شاید چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انہیں تو ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے عمر بھر ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ ان کا ساتھ تو اس وقت ٹوٹتا ہے جب زندگی کے پاؤں سے حرکت اور حرارت دونوں روٹھ جاتے ہیں۔
نویدہ، سسرال سے لوٹی تو خاصی خوش تھی " میں کہتا تھا ناں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور دیکھ لو ، سب ٹھیک ہو گیا ہے " دستور نے اپنا فلسفہ بگھارنا شروع کر دیا " یہ چناؤ وناؤ تو بس کہنے کی باتیں ہیں۔ سب ٹھیک ہو جاتا ہے خود بخود، وقت آنے پر "
" تم ٹھیک کہتے ہو بر خور دار " نواز نے اسے بھاگنے کا موقعہ نہیں دیا " جانوروں کو دیکھ لو۔ وہ چناؤ یا انتخاب کے چکر میں پڑتے ہیں کیا؟ وہ نظریۂ ضرورت کے تحت نظرئیے اور ضرورتیں بدلتے رہتے ہیں اور چھری کے نیچے آنے تک کی زندگی کامیابی کے ساتھ گزار دیتے ہیں "
"اور دیکھو کتنے خوش رہتے ہیں ؟"دستور ہار ماننے والوں سے نہیں تھا
"گدھوں کو کبھی کسی نے اداس ہوتے نہیں دیکھا" نواز جھلا کر بولا
" مگر آج میں نے دیکھا ہے "دستور کی حسِ مزاح آج کچھ زیادہ ہی موزوں لگ رہی تھی
اس سے پہلے کہ نواز کوئی جواب دیتا اور سڑک پار سے پگڑ والے کو آتا دیکھ کر دونوں چپ ہو گئے۔ احمد علی کواپنی طویل القامتی اور پگڑ کی وجہ سے ہزاروں کی بھیڑ میں بھی پہچاننا مشکل نہیں تھا۔
"السلام علیکم"
"وعلیکم السلام" اس کے استقبال کے لئے ہم تینوں کھڑے ہو گئے۔ احمد علی نے باری باری ہم تینوں سے ہاتھ ملایا اور پھر ہمارے پاس بیٹھنے کی بجائے تندور کی فرشی نشست پر بیٹھے ہوئے نواز کے پاس آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ "کھانے کو کیا ہے ؟"
"بہت کچھ ہے مگر گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
"اگر مگر کو چھوڑو بھائی۔ کچھ ہے تو دے دو۔ وہاں سب کے سامنے رَج کر کھایا نہیں گیا"کھانا کھانے کے بعد احمد علی کی فرمائش پر ہمیں فلم کا پر و گرام بنانا پڑ گیا۔ باتوں کے دوران جہاں جہاں موقعہ نکلتا وہ نویدہ کے بارے میں بھی بات کرتا جاتا۔ مثلا یہ کہ وہ بہت بھولی بھالی ہے۔ وہ سمجھتی تھی کہ گندم کے درخت ہوتے ہیں۔ گڑ گنے کے پودوں کے ساتھ ڈلیوں کی شکل میں اگتا ہے مکئی کے سٹے مکئی کے پودے کی چوٹی پر اُگتے ہیں۔ ۔ ہم اس کی باتیں سنتے اور ہوں ہاں کرتے رہے۔ گھر کے نزدیک پہنچ کر اس نے ہمیں گاؤں آنے کی دعوت دے ڈالی جسے نوازنے کچھ پس و پیش کے بعد قبول تو کر لیا مگر وقت کا تعین نہیں کیا۔
ہم نے گاؤں کی سیر کا پروگرام بنانے میں جلدی نہیں کی۔ سب کا متفقہ فیصلہ یہی ٹھہرا کہ ایک تو نویدہ اور احمد علی کی شادی ذرا پر انی ہو جانی چاہیے اور دوسرے موسم کچھ ٹھنڈا ہو جانا چاہیے۔ گاؤں کی سیر کا لطف تو دسمبر کی کپکپی طاری کر دینے والی راتوں میں چارپائیوں پر رضائیوں میں بیٹھ کر گنے چوسنے کا مقابلہ کرنے ، میٹھی میٹھی دھوپ میں مکی کی گرم گرم روٹی پر مکھن والا ساگ رکھ کر کھانے اور ڈھلتی ہوئی شام میں چاول کے مرمرے ٹھونسنے میں ہے۔ دوسرے چھوٹے لوگوں کی طرح ہماری خواہشیں بھی بہت چھوٹی چھوٹی تھیں ، اتنی چھوٹی کہ اک بار تالاب میں ناچتے ہوئے مچھلی کے پونگ کی طرح ہاتھ سے پھسل جائیں تو عمر بھر ہاتھ نہ آئیں۔
احمد علی کے گاؤں میں پہنچنے کا راستہ آسان نہیں تھا۔ بہاولپور سے روزانہ ایک لاری یزمان کے لئے روانہ ہوتی تھی۔ اس لاری میں سیٹ حاصل کرنے کے لئے فجر کی نماز کے فورا بعد لاری اڈے کی طرف بھاگنا اور بر وقت ٹکٹ حاصل کرنا پڑتا تھا۔ راستے میں جھال والے پل پر اتر کر دو ڈھائی میل نہر کی پٹڑی پر چلنا ہوتا تھا۔ پٹڑی ختم ہوتے ہی بائیں طرف گردن موڑ کر چار پانچ کوس چلتے رہنے کے بعد ہریالی ختم ہو جاتی تھی۔ اور صحرا شروع ہو جاتا تھا ہوتا تھا۔ یہاں سے پھر بائیں جانب گردن گھمانے پر اونچی اور لمبی کھجوروں کے جھنڈ دکھائی دینے لگتے تھے۔ انہی کھجوروں کی سیدھ میں چل کر احمد علی کا گاؤں آتا تھا۔ گاؤں اور پٹڑی کے درمیان ریت کے ٹیلے حائل تھے۔ ان کو عبور کر کے گاؤں پہنچنا چلنے والے کی مہارت اور ہمت پر منحصر تھا۔ ریت کے ٹیلے قدم بڑھانے نہیں دیتے تھے اور دور سے نظر آ نے والے کھجوروں کے جھنڈ گاؤں کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ گاؤں کو جانے والا سیدھا راستہ جھال والے پل کی طرف سے نکلتا تھا اور اس آسان راستے سے دوگنا لمبا تھا۔
سیدھے راستے کو اس کی طوالت کی وجہ سے کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ ہاں ، کوئی بھول چوک کر ادھر چلا جائے تو دوسری بات تھی۔ اپنے آنے کی پیشگی اطلاع پر احمد علی جھال والے پل پر گائیڈ کھڑا کر سکتا تھا مگر نواز کا کہنا یہ تھا کہ بتا کر جانا بھی کوئی جانا ہے ؟کسی دن اچانک ہلہ بولیں گے اور وہاں پہنچ کر انہیں حیران کر دیں گے اور یہ کہ سفر کا مزا ، راستے کی دشواریوں میں چھپا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسے مڈل ا سکول میں اردو کی کتاب میں پڑھی ہوئی ، مرزا ظاہر دار بیگ والی کہانی ابھی تک یاد تھی اور وہ اچانک گاؤں پہنچ کر نویدا اور احمد علی کو چونکا دینا چاہتا تھا۔
وہ دسمبر کی ایک صبح تھی اور ہم سورج نکلنے سے پہلے لاری اڈے پہنچ کر اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے مگر سواریاں پوری نہ ہونے کی بنا پر لاری وقتِ معینہ سے صرف تین گھنٹے لیٹ روانہ ہوئی۔ اس دوران مسافر گنجائش سے لگ بھگ ڈیڑھ گنا ہو چکے تھے۔ بس کی رحم دل انتظامیہ نے انہیں پیچھے چھوڑ جانا مناسب نہ سمجھا اور ایک ہی لاری میں محمودہ و ایاز کو ٹھونس ٹھونس کر بھر لیا۔ دو چھوٹے بچے ہمارے حصے میں بھی آ گئے۔ نواز انہیں کھلانے اور دستور انہیں بہلانے میں مصروف ہو گیا۔ میں کھڑکی کی طرف بیٹھے ہونے کی وجہ سے کسی کارِ خیر میں ہاتھ بٹانے سے محروم رہ گیا۔
مسافروں کے خدا خدا کر نے پر لاری چلی تو اس میں سوار بچوں کی ماؤں سکون کا سانس لیا کیوں کہ انجن سے نکلنے والی چوں چوں نے روتے ہوئے بچوں کی بولتی بند کر دی تھی۔ لاری سڑک پر سائیکلیں دوڑاتے ہوئے سائیکل سواروں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی شہر سے باہر نکل آئی۔ درخت، کھیت اور پرندے ابھی سرما کی دھندکی چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ لاری کے پرانے انجن کی کھڑکھڑاہٹ سوئے ہوئے پرندوں کو جگاتی اور آوارہ کتوں کو بھگاتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔
لا ری کے مسافروں میں ہم اپنے لبا س کی وجہ سے مختلف دکھائی دے رہے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ راستے میں ایک حوالدار بادشاہ بھی سوار ہوا تو ہمیں سیٹ خالی کرنے کے لئے نہیں کہا گیا حالانکہ وہاں صاف صاف لکھا ہوا تھا کہ فرنٹ سیٹ بوقتِ ضرورت خالی کرائی جا سکتی ہے۔ لاری کے اندر کی دیواروں پر جا بجا کار آمد باتیں لکھی ہوئی تھیں جن سے مسافر اپنی ناخواندگی کے باعث فائدہ اٹھانے سے معذور تھے۔
راستے میں ایک جگہ لاری رکی تو ایک خاندانِ غلاماں کی قسم کا ایک منحنی سا آدمی شاہی گولیاں لے کر سوار ہو گیا۔ یہ گولیا ں ہمہ صفت تھیں۔ کھانسی ، نزلہ زکام ، پر انا بخار، جوڑوں کا درد ، کمر کا درد غرضیکہ ہر مرض کی مجرب دوا تھیں۔ عورت اور مرد دونوں اس کے فوائد سے بہرہ مند ہو سکتے تھے۔ ان گولیوں کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ یہ گولیاں کم سن بچوں سے لے کر قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے بوڑھوں تک ، سب کے لئے یکساں مفید تھیں۔ جنس ، عمر اور مرض کے ساتھ ساتھ ان کی خصوصیات خود بخود بدلتی جاتی تھیں۔
بیچنے والے کو یہ نسخۂ خاص ایک بابے نے بدستِ خود عطا کیا تھا اور تاکید فرمائی تھی کہ کسی سے علاج کے پیسے نہ لینا۔ بابا جی کی ہدایت کے مطابق وہ کسی سے بھی علاج کے پیسے وصول نہیں کرتا تھا ، "فقط"دوا کی قیمت وصول کرتا تھا۔ اس کا طریقۂ علاج سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ مختلف نہیں تھا ، جہاں علاج مفت ہوتا تھا مگر دوائیاں بازار سے خریدنا پڑتی تھیں۔ ہسپتالوں میں سرکار کی طرف سے بھیجی جانے والی دوائیاں ہسپتال میں کام کرنے والے اپنے اپنے باباؤں کے لئے لے جاتے تھے۔
جالینوس کے اقوال سے لے کر علامہ اقبال کے اشعار مسافروں کی نذر کرنے کے بعد اس نے ، ان گولیوں کے پر اثر ہونے کی تصدیق ہم جیسے پڑھے لکھے ماہرین سے کروائی تو نواز نے کچھ بولے بغیر گردن ہلا کر اس کے بیانات پر مہرِثبوت ثنت کر دی۔ اس کے صلہ میں وہ ہمیں جاتے ہوئے شاہی گولیوں کی ایک ایک شیشی مفت دے گیا۔
"اپنے تندور سے تو یہ دھندا ، اچھا ہے " نواز نے سر گوشی کی اور گولیوں کی شیشی پیچھے بیٹھے ہوئے ایک ضرورت مند کو مفت دے دی۔ دستور نے البتہ اپنے والی اور میرے والی شیشی اپنے گاؤں کے کسی مستحق کو دینے کے لئے محفوظ کر لی۔
جھال والے پل تک لاری خالی ہو گئی تھی۔ ہم لاری سے اترے اور پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ نہر کے دونوں کناروں پر لگائے گئے آموں اور جامنوں کے بوڑھے درخت ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ درختوں کی چھاؤں ، بہتے ہوئے پانی اور دسمبر کی ٹھنڈی ہوا نے ، ایک ساتھ مل کر کپکپا ہٹ طاری کر دی۔
"کھجوروں والا چک کتنی دور ہے ؟"دستور نے سامنے سے آنے والے ایک مسافر سے پوچھا تو وہ مسکرا دیا
"بہت دور نہیں۔ تم اس رفتار سے چلتے رہے تو ڈیڑھ دو گھنٹوں میں پہنچ جاؤ گے "
"راستہ مشکل تو نہیں ؟"
"نہیں ، وہاں کی کھجوریں دور سے اپنا سراغ دے دیتی ہیں "
سورج درختوں کے پیچھے چھپتا چھپاتا ہمارے سروں کے اوپر آن بیٹھا تھا۔ نہر کی پٹڑی ختم ہو گئی نواز نے قافلے کی کمان سنبھال لیاور ہم ریت کے ٹیلوں کے بیچوں بیچ تانک جھانک کرتی ہوئی اونچی ، لمبی اور ساوی کھجوروں کی سیدھ میں چلنے لگے۔ ٹیلوں سے گزرتے ہوئے کھجوریں کبھی تو آنکھوں سے غائب ہو جاتیں اور کبھی اس بے رنگ منظر میں رنگ بکھیرنے لگتیں۔ ہم اپنی منزل کی طرف بڑھتے گئے حتیٰ کہ ریت کا سفر تمام ہوا اور ہریالی ہمارے قدموں میں اگنے لگی۔ راستے میں ملنے والوں سے دعا سلام کرتے اور احمد علی کے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھتے ہم چوپال تک پہنچ گئے۔
چوپال کے دائیں طرف کچی مٹی کی وسیع چار دیواری کے پیچھے احمد علی کا پختہ مکان دکھائی دے رہا تھا۔ بائیں طرف مسجد تھی۔ دستور نے اپنی پسندیدہ تمہید"میں کہتا تھا ناں "باندھ کر اپنی بات شروع کر نے کا اعلان کیا۔ ہم احمد علی کے گھر کے بیرونی دروازے سے گزر کر رہائشی مکان کے دروازے کی چوکھٹ پر دستک دینے ہی والے تھے کہ اندرونی چار دیواری سے خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک آواز نکلی اور پگھلے ہوئے گرم سیسے کی طرح ہمارے کانوں میں اترتی چلی گئی"کیا کرنا ہے شہر جا کر؟ "نویدا کی ساس اس سے مخاطب تھی"ابھی دو ماہ پہلے تو گئی تھی تم۔ اپنے یاروں سے ملنے کو پھر جی کر رہا ہے ؟"
"ہاں۔ ہاں۔ اپنے یاروں سے ملنے کو پھر جی کر رہا ہے۔ آپ کو کوئی اعتراض ہے ؟اور اگر کوئی اعتراض ہے تو وہ شادی سے پہلے ہونا چاہیے تھا۔ "نویدہ کی آواز میں ہمیشہ کی طرح ایک ٹھہراؤ تھا۔ دستک کی خواہش پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ یہ کیسا سر پر ائز تھا؟آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو پلکوں پر ٹپکنے سے پہلے ہی خشک ہو چکے تھے۔ نوازنے کچھ بولنا چاہا مگر بول نہیں پایا۔
دستک دینے کا حوصلہ تو نہیں رہا تھا مگر اتنے قریب آ کر لوٹ جانا بھی تو ٹھیک نہیں تھا۔ نواز نے کچھ توقف کے بعد دستور کو اشارہ کیا اور اس نے دستک دے ہی ڈالی۔ احمد علی باہر آیا۔ ہمیں دیکھ کر ٹھٹھکا۔ " بے بے جی ! بہاولپور سے مہمان آئے ہیں " پکار کر گھر والوں کو ہماری آمد سے مطلع کیا اور ہمیں اندر لے گیا۔ "بسم اللہ، جی آیاں نوں "احمد علی کی ماں ہمیں دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ نویدہ نے آہستگی سے ہمارے سلام کا جواب دیا اور چار پائیاں سیدھی کر کے ان پر کھیس بچھا نے میں مصروف ہو گئی۔
"ابھی کچھ دیر پہلے ہم آپ لوگوں کو ہی یاد کر رہے تھے "نویدہ کی ساس نے انکشاف کیا۔ مصلحت کا پانی نفرت کی آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو اتنی جلدی ٹھنڈا کر دے تھا، اس کی ہمیں ہرگز امید نہیں تھی۔ چو کھٹ سے باہر دکھائی دینے والے دھوئیں کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ نویدہ کی ساس ہمیں بتا رہی تھی۔ "پتہ ہے ؟ نویدہ جب کبھی یہ کہتی ہے کہ اُس کا کوئی بھائی نہیں ہے تو میں اُسے سمجھاتی ہوں۔ ایسا نہ کہو بیٹی، تمہارے تو ایک دو چھوڑ تین تین بھائی ہیں۔ ہیں ناں ؟ "
" ہیں اور ضرور ہیں۔ چاچی جی!"دستور نے اتنی تیزی کے ساتھ ، نویدہ کی ساس کے ساتھ رشتہ جوڑا کہ چاچی تو چاچی نویدہ بھی ہکا بکا رہ گئی۔ پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں ساس ، ساس سے ماں بن گئی۔ پیڑھی سے اُٹھ کر اس نے باری باری ہم تینوں کے ماتھے چومے اور ہمارے سامنے والی چار پائی پر بیٹھ گئی۔ کایا کلپ کا یہ عمل حیران کن حد تک ناقابلِ یقین تھا۔ نخلستان، آپ ہی آپ چل کر موت کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے مسافروں کے سامنے آ گیا تھا۔
ماں نے میز چارپائیوں کے بیچ رکھ دی۔ احمد علی دوکان سے ’تازہ ‘لڈو لے آیا اور نویدہ چائے بنا لائی۔ اتنے طویل سفر کے بعد گھر کے دودھ کی بنی ہوئی چائے نے چائے کا ذائقہ ہی بدل دیا تھا۔ احمد علی نے البتہ چائے کی بجائے دودھ کا گلاس پینے کو ترجیح دی۔ لڈوؤں کی بات البتہ اور تھی۔ احمد علی اگر یہ لڈو ہماری موجودگی میں دوکان سے نہ لایا ہوتا تو ہم انہیں احمد علی اور نویدہ کی شادی کی مٹھائی کی باقیات میں سے سمجھتے۔ بقول دستور لمبی عمر( long life) والے ان لڈوؤں کو " بعد از روانگی مہمانات "دوکان دار کو واپس لوٹایا بھی جا سکتا تھا۔
احمد علی کی ماں نے نویدہ کی سمجھ داری کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ نویدہ مسکرا مسکرا کر اس کی باتوں کی تائید کرنے لگی۔
دسمبر کا سورج دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ دیواروں کے سائے بڑھتے بڑھتے ہماری چارپائیوں تک آ چکے تھے۔ اس دوران احمد علی کا ’کاما‘ ایک مرغا ذبح کر کے اس کی کھال اُتار چکا تھا۔ نویدہ اور اس کی ساس "رسوئی "میں جا کر ہمارے لئے کھانا بنانے میں مصروف ہو گئیں۔ کاما حقہ تازہ کر لایا تھا۔ وہ حقہ نواز کے سامنے رکھنے لگا تو احمد علی نے اسے روک دیا۔ "ارے بھائی ، یہ شہری لوگ ہیں۔ یہ حقہ نہیں سگریٹ پیتے ہیں۔ جاؤ ، بھاگ کر دوکان سے سگریٹ لے آؤ۔ کون سے سگریٹ منگواؤں ؟"
"کوئی سگریٹ بھی نہیں۔ ہم سے کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا"
" کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا؟"احمد علی کے لئے یہ ایک ناقابلِ یقین بات تھی۔ اسے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سگریٹ پینا شہری زندگی کا ایک لازم و ملزوم حصہ تھا۔ "آپ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں ؟"اس نے ایک بار پھر پوچھا۔
"ہم آپ کے ساتھ ایسا مذاق کیوں کریں گے ؟"نواز نے اسے یقین دلایا
"وہ تو مجھے پتہ ہے کہ آپ میرے ساتھ مذاق نہیں کر رہے۔ مگر کیوں ؟" اس نے جواب دیا مگر اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اسے اب بھی ہماری بات پر یقین نہیں آیا ہے۔
"اس لئے کہ ہم سگریٹ نہیں پیتے ہیں۔ "
احمد علی کسی کام سے باہر چلا گیا۔ نویدہ اور اس کی ساس اس سے پہلے ہی کھانا بنانے کے لئے رسوئی میں جا چکی تھیں۔ ہم اکیلے رہ گئے تو دستورکو اپنی ادھوری رہ جانے والی بات پھر سے یاد آ گئی۔
"میں کہہ رہا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔ "اس نے اپنی ادھوری رہ جانے والی بات کا سلسلہ پھر جوڑنا چاہا مگر مسجد سے مغرب کی اذان شروع ہونے کی وجہ سے اسے درمیان میں ہی روک دیناپڑا۔ نواز نے اپنے کندھے ا چکا کر گویا اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا
"اب نہیں تو پھر سہی مگر کبھی نہ کبھی میں اپنی بات کہہ کر ہی چھوڑوں گا " دستور نے کہا
"سائیں ! شوق سے کہنا۔ تمہیں کوئی نہیں روکے گا" نواز نے اس کی ڈھارس بندھائی اور سبھی اذان سننے لگے۔
 

الف عین

لائبریرین
مونچھ پور

روہی صدیوں سے اسی طرح آباد تھی۔ کبھی سرد ، کبھی گرم۔ موسم آتے ، موسم چلے جاتے۔ روہی کے میلے جھمیلے اور کاروبارِ زندگی صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چل رہا تھا۔ سردیوں کی راتیں یخ کر دینے والی ہوتیں تو گرمیوں کے دن جھلسا کر رکھ دیتے۔ صحراؤں کی یہی صفت اسے میدانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ کھل کر بارش ہو جاتی تو ٹوبے ٹوئے بھر جاتے ، پیلو بھری بہار آ جاتی اور روہی کی گود خوشیوں سے بھر جاتی۔ جس سال بارش نہ ہوتی ٹوبے ٹوئے سوکھ جاتے اور روہی میں آباد قبیلے اپنے اپنے ریوڑوں کے ساتھ پانی والے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ ہزاروں بھیڑ بکریوں ، گاؤں اور اونٹوں پر مشتمل اَن گنت ریوڑ وقفے وقفے سے آباد کاروں کی بستے یوں کے پاس سے گزرتے تو عجیب سماں بندھ جاتا۔ اُونٹوں کی گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیتیں۔ بچے قافلوں کے گزر جانے کے بعد بھی بچھے کچھے اونٹوں کے انتظار میں گھنٹوں ریت کے ٹیلوں پر بیٹھے رہتے۔
"شہزادی نے چلتے وقت بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنی جیب میں سرسوں کے بیج بھر لئے۔ جن اسے اپنی بانہوں میں لئے نئی سرزمینوں کی طرف اُڑتا گیا۔ پھر بارشیں ہوئیں۔ سرسوں کے بیج اُگ آئے۔ جدھر جدھر سے جن شہزادی کو لے کر گزرا تھا، ہریالی کی لکیر کھنچ گئی۔ شہزادہ اس لکیر پر چلتا چلتا جن کے ٹھکانے تک پہنچ گیا اور شہزادی کورہا کرا لایا۔ "
دادیوں اور نانیوں کی سنائی ہوئی کہانیوں کی شہزادیوں کی سرسوں کی طرح ، ریوڑوں کی اجتماعی نقل مکانی ایک غیر محسوس عمل کے ذریعے نامیاتی مواد کو سفر کے راستوں میں پھیلا دیتی۔ بارشیں ہوتیں اور رستے ہریا لیوں سے بھر جاتے۔ پانی کی تلاش میں در بدر قافلے ان لکیروں پر سفر کرتے کرتے واپس اپنے نخلستانوں میں پہنچ جاتے۔
نقل مکانی کی یہ کہانی صدیوں سے دہرائی جا رہی تھی۔ یہی صحرا اُن کے لئے جنت تھے اور یہی صحرا ان کے لئے جہنم بھی تھے۔ ان کا جینا مرنا یہیں تھا۔ وہ جاتے بھی تو کہاں جاتے ؟ ہریالیوں اور نخلستانوں کی از خود نمود کے لئے قدرت کا وضع کردہ نظام روہی میں جشنِ بہاراں کا سماں پیدا کرتا تھا اور صاحبِ نظر اہلِ دل کی صوفیانہ شاعری کا محرک بنتا تھا۔ محبت کے گیت تو صاحبانِ نظر اور اہلِ محبت ہی گا سکتے ہیں۔ بند کمروں میں بیٹھ کر صحرا میں رہنے والے خود نمو ہریالیوں کی پکار کیا سمجھ سکتے ہیں ؟
آہستہ خرامی روہی کا خاصہ تھی۔ دھیرا پن زندگی کو الگ طرح کا حسن عطا کرتا تھا۔ بے صبروں کو جلدیاں وقت سے پہلے تھکا دیتیں ہیں۔ سہج پکے سو میٹھا ہو۔ سخت موسمی حالات میں دھیرے دھیرے پکنے والے پھل زیادہ میٹھے اور لمبی عمر والے ہوتے ہیں۔ خوابوں اور خواہشوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ چھوٹے خواب اور چھوٹی خواہشیں زیادہ تھکاتی نہیں ہیں۔ چھوٹے خواب اور چھوٹی خواہشیں دور تک اور دیر تک ساتھ نباہتی ہیں۔ تپی ریتوں میں لاکھ کوشش پر بھی دوڑ نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ سائنس کہتی تھی کہ عمل اور ردِ عمل برابر ہوتا ہے۔ نتیجتاً صحراؤں میں دوڑنے کی رفتار بھی کم ہوتی ہے اور گرنے پڑنے پر چوٹ لگنے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ زندگی کے ایک ہی ڈگر پر چلتے رہنے کی وجہ سے روہی میں رہنے والوں کے گیت بھی پر انے تھے اور خواب بھی نئے نہیں تھے۔
پھر ہیڈ پنجند بنا۔ پنجند سے نہریں نکلیں اور روہی کے سینے میں زندگی کی شریانوں کی طرح پھیل گئیں۔ پہاڑوں سے نکلا ہوا سر کش پانی، بارش کا پانی تو تھا نہیں کہ ٹوبوں اور ٹویوں میں سما جاتا۔ حکومت نے روہی میں پانی پہنچا دیا تھا مگر پانی کو پھیلانے کا کام اس کے بس سے باہر تھا۔ یہ کام باتیں کرنے والوں کا نہیں تھا۔ باتیں کرنے والے تو کام ہو چکنے کے بعد آتے ہیں اور اپنے مفید مشورے دیتے ہیں۔ اس کام کے لئے توانا بازو اور مہارت والے ہاتھ درکار تھے۔ ایسے ہمت والوں کی ضرورت تھی جو ریت پھانک کر ریت کے ٹیلوں کو تسخیر کر سکیں۔ چنانچہ "ہمت والے آئیں اور پائیں " کا غلغلہ بلند ہوا۔ چار دانگ میں دھوم مچ گئی۔ بے زمیں کسان درخواستیں لے لے کر آئے۔ دوڑے ، بھاگے اور بھاگ والوں کے بھاگ جاگے۔ کسی کو پورا مربعہ ملا تو کسی کے ہاتھ میں آدھا آیا۔ احمد علی کا باپ بھی انہی خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھا، جن کے حصے میں پورا مربعہ آیا تھا۔ احمد علی کے پانچ بڑے بھائیوں کو البتہ آدھا آدھا مربعہ ہی مل سکا تھا۔
بیکا نیر میں احمد علی کے بڑی بڑی مونچھوں والے دادا کی ملکیت چھ بیگے زمین تھی۔ اس میں سے ڈیڑھ بیگہ زمین ، اس کے مونچھوں والے دادا نے احمد علی کے باپ کی شادی کے اخراجات پورت کرنے کے لئے گڑ، تیل اور دالیں بیچنے والے گاؤں کے اکلوتے بے مونچھ مارواڑی دوکاندار کے پاس گروی ڈال دی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ان دنوں احمد علی کے باپ کا دل کام میں نہیں لگتا تھا۔ روایتوں اور کہاوتوں کے مطابق ایسے بچوں کا ایک ہی علاج تھا کہ ان کی شادی کر دی جائے۔ سر پر ذمہ داریوں کا بوجھ پڑے گا تو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ نکھٹو بیٹے ، گھر گرہستی کی ذمہ داریاں سر پر پڑنے کے بعد ، عموماً کماؤ بیٹے بن جاتے تھے مگر اس نکھٹو بیٹے نے اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش پر خوشیاں منانے کے لئے ایک بار پھر آدھ بیگہ زمین اسی مارواڑی کے پاس گروی رکھ دی۔ پانچ بیٹوں کا باپ بننے تک آبائی زمین قریباً قریباً مارواڑی کے پاس رہن رکھی جا چکی تھی۔
چھٹے اور سب سے چھوٹے بیٹے احمد علی کی پیدائش تک پرکھوں کی وراثت میں سے بس مونچھیں ہی بچ پائی تھیں۔ ان کے بچ جانے کی وجہ مونچھوں کا وافر مقدار میں پایا جانا تھا اور دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں گروی رکھ کر کوئی پھوٹی کوڑی بھی ادھار دینے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔ شرط میں ان کے منڈوائے جانے کی روائیتں تو زدِ زبانِ عام تھیں مگر منڈوائے جانے کے بعد اِن کے دوبارہ بڑھا لینے پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ بڑی بڑی مونچھوں کے معاملے میں احمد علی اکیلا ہی خوش قسمت نہیں تھا بلکہ یہ دولت فراوانی سے پورے گاؤں والوں کو میسر تھی۔ مونچھیں تو دستور کی بھی تھیں مگر گاؤں والو کی پلی ہوئی مونچھوں کے مقابلے میں اس کی مونچھیں کسی قحط زدہ علاقے کی مونچھیں لگتی تھیں۔ دستور کا بس چلتا تو بیک جنبشِ لب گاؤں کا نام بدل کر"مونچھ پور "رکھ دیتا۔ اُس کی بات میں دَم بھی تھا کہ کہاوت " مچھ نہیں ، تو کچھ نہیں " اُس کی بنائی ہوئی تو نہیں تھی۔
پاکستان بنا تو احمد علی کا باپ بھی اور لوگوں کی طرح " پرکھوں کی جائیدادیں " چھوڑ کر پاکستان آ گیا۔ اس نے پاکستان آنے کے بعد کچھ سال تو دوسروں کے کھیتوں پر محنت مزدوری کی۔ پھر یہ زمینیں الاٹ ہو گئیں۔
زمینیں کیا تھیں ؟
ریت کے بڑے بڑے بے ڈھنگے پہاڑ تھے۔ ہوا چلتی تو بس چلتی ہی جاتی۔ مسلسل ہوا چلنے کا ایک سلسلہ"چالیسواں " کہلاتا تھا۔ چالیس دنوں تک ہوا چلتی رہتی اور چولہا جلانا تقریباً موقوف ہو جاتا۔ کھانا پکتا بھی تو اس میں نمک اور مرچوں سے زیادہ ریت ہوتی۔ گھر کے اندر باہر ہر جگہ ریت کا فرش بچھ جاتا۔ آنکھوں ، کانوں ، بالوں ، یہاں تک کہ منہ کے اندر بھی ریت ہی ریت ہوتی۔ کھالے (water course} ریت سے بھر جاتے۔ کھیتوں تک پانی پہنچانے کے لئے تقریباً ہر روز کھالوں سے ریت نکالنا پڑتی۔ احمد علی کے باپ نے اپنے باپ کی زندگی میں کی ہوئی کوتاہیوں کی ساری کسر نکال دی تھی۔ مٹی میں مٹی بلکہ ریت میں مٹی ہو کر اس نے مٹی سے سونا اُگا ہی لیا۔
احمد علی سارے بھائیوں میں چھوٹا اور لاڈلا ہونے اور کھیتی باڑی کی وجہ سے گھر کے حالات اچھے ہو جانے کی وجہ سے چار جماعتیں پڑھ گیا۔ اگر احمد علی کا استاد ایک دن احمد علی کو اور احمد علی کے بھائی مل کر احمد علی کے استاد کو نہیں مارتے تو شاید احمد علی پرائمری پاس کر جاتا۔ ا سکول چھوڑنے کے بعد احمد علی کی صلاحیتیں اپنی مونچھوں کی دیکھ بھال پر صرف ہونے لگیں۔ باپ کے مرنے کے بعد پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے سارے بھائیوں نے متفقہ طور پر باپ کا پگڑ احمد علی کے چھوٹے سے سر پر رکھ دیا۔
نئے گاؤں کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے ایک ایک گھر کے لئے دو دو کنال زمین رکھی تھی اور گھر کے مالک کے مر جانے کے بعد کھلا صحن’ بھاں بھاں ‘ کرنے لگا تھا اور یہ’ بھاں بھاں ‘ دور کرنے کا سہل طریقہ یہی تھا کہ احمد علی کی شادی کر دی جائے۔ شادی کے لئے لڑکی کی تلاش شروع ہوئی۔ مطلوبہ لڑکی کا خوبصورت ہونا تو ایک طے شدہ امر تھا۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے لہٰذا لڑکی کا بھی پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ اب آپ اسے نویدا کی خوش قسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ خوبصورت اور پڑھی لکھی بھی نکلی اور قرعۂ فال اسی کے نام کا نکل آیا۔ بھائی کا گھر تھا اور بھائی کے گھر سے بہن کیسے خالی لوٹ سکتی تھی؟ بات پر انی ہو چکی تھی۔ نویدا نے خود کو اس نئے ماحول میں اس طرح ڈھال لیا تھا کہ اسے گاؤں کی دوسری عورتوں سے الگ کر کے اس کی پہچان کرنا تقریباً ناممکن ہو گئی تھی۔
سہ پہر کا وقت تھا۔ شہر سے آئے ہوئے مہمانوں کا سن کر بہت سی عورتیں جمع ہو گئی تھیں۔ عورتوں کی ٹولی ہم سے کچھ ہی فاصلے پر بیٹھی تھی۔ ہم اپنی باتوں اور عورتیں اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ مونگ پھلی ، میوے ، بادام اور دیسی گھی ڈال کر بطورِ خاص بنائے گئے تازہ گڑکے ساتھ ، دانے بھوننے والی بھٹی سے مکی کے بھنوائے گئے دانے اک عجیب مزا دے رہے تھے۔ اچانک گلی میں اک شور اٹھا۔ کچھ بچے بھاگتے ہوئے صحن میں داخل ہوئے اور پھولی سانسوں میں اپنی اپنی ماؤں کے کانوں میں کچھ کہا۔ مائیں چیخیں مارتی ہوئی اٹھیں اور دوڑتی ہوئیں اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گئیں۔
"کیا ہوا؟ کیا ہوا؟"سوال اٹھا۔ سڑک پر عورتوں کے کوسنوں کی آوازیں بلند سے بلند تر ہونے لگی تھیں۔ احمد علی کے بڑے بھائی کی بیٹی بھاگتی ہوئی آئی۔ احمد علی کی ماں کے کان میں کچھ کہا۔ احمد علی کی ماں نے نویدا کے کان میں کھسر پھسر کی اور وہ دونوں بھاگتی ہوئیں صحن سے باہر نکل گئیں۔ صدیوں پر انا مواصلاتی نظام گاؤں میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہا تھا۔
"لگتا ہے کوئی حادثہ ہو گیا ہے "دستور نے صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔ صحن میں ہم تینوں کے سوا اور کوئی نہیں رہ گیا تھا۔ سڑک پر شور بڑھ گیا توہم تینوں بھی سڑک پر آ گئے۔ وہی عورتیں جو کچھ دیر پہلے تک اکٹھی بیٹھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں ، اب دو گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکی تھیں۔ ہسٹیریائی کیفیت کے زیرِ اثر فی البدیع فرمودہ کوسنوں سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا کم از کم میرے اور نواز کے بس میں نہیں تھا۔
دستور البتہ اپنے دیہاتی پس منظر کی وجہ سے اس عقدے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ہمارے کہنے کے بغیر ہی اس نے اپنا تحقیقاتی کام شروع کر دیا۔ دو چار کانوں میں کھسر پھسر کی ، کان لگا کر کوسنوں کو ڈی۔ کوڈDECODE) ) کیا اور منٹوں میں ابتدائی جائزاتی رپورٹ جاری کر دی۔ باہر کھیتوں پر پانی کاٹنے کے وقت پر ، ہونے والی تلخ کلامی تو تو میں میں ، میں بدل گئی تھی اور نوبت ہا تھا پائی تک پہنچ گئی تھی۔ اچھی خبر یہ تھی کہ ڈانگوں کے استعمال سے پہلے ہی بیچ بچاؤ ہو گیا تھا۔ آخری خبریں آنے تک صورتِ حال قابو میں تھی اور تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔
زنانہ محاذ کا کھل جانا یا کھولا جانا محض ایک احتیاطی قدم تھا۔ اس قدم کا اٹھایا جانا ، وقوعے کی بیک اپBACK UP) ) کے طور پر ضروری تھا۔ محاذ سے لوٹنے والے عینی شاہدوں کی آمد کے ساتھ ساتھ لفظیاتی جنگ کی شدت میں کمی آتی گئی، کوسنے کم ہوتے گئے اور بھیڑ چھٹتی گئی۔ اس سے پہلے کہ میدانِ جنگ میں ہماری موجودگی کی طرف کسی کی توجہ مبذول ہوتی ، ہم گھر میں واپس آ گئے۔ نویدا کی ساس واپسی کے بعد بہت خوش تھی کہ اس کی بہو اس معرکے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی تھی اور اس نے دشمنوں کی اینٹوں کا جواب پتھروں کے ساتھ دیا تھا۔ عورت کسی بھی سانچے میں ڈھل جانے کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی تھی۔
 
Top