دکن سے ایک مہمان کی کراچی آمد

Rashid Ashraf

محفلین
دکن سے ایک مہمان کی کراچی آمد
ایک نشست کا احوال


اپریل 2012 کی 15 تاریخ کی صبح دس بجے سید معراج جامی صاحب کے گھر پر موجود ’خاتون‘ و حضرات نے نظام آباد دکن سے آئے ہوئے بزرگ صحافی جناب فرید تبسم خاں کو خوش آمدید کہا۔ فرید صاحب روزنامہ مارننگ ٹائمز سے وابستہ ہیں۔شرکاء کی موجودگی ایک ادبی نشست میں تبدیل ہوجائے گی، اس بات کا علم مجھے پہلے سے نہ تھا۔ دکنی شیروانی میں ملبوس حیدآبادی نستعلیق لب و لہجے کے مالک فرید تبسم خاں اپنے ہمراہ ایک قیمتی کتاب لیتے آئے تھے۔، قیمتی اس لیے کہ یہ بمبئی فلمی صنعت سے وابستہ گیت کار و شاعر راجہ مہدی علی خاں پر پی ایچ ڈی کا پہلا تحقیقی مقالہ تھا جسے نظام آباد دکن کے ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر نے تحریر کیا ہے۔ راجہ صاحب پر اس سے قبل تحقیق نہیں کی گئی تھی اور مصنف نے ہندوستان و پاکستان میں اس بات کی تصدیق کے بعد ہی اس موضوع پر اپنے کام کا آغاز کیا۔ پاکستان میں ان کا رابطہ ڈاکٹر جمیل جالبی سے تھا۔ ’راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات‘ کے عنوان سے زیر تحت لکھی یہ کتاب سن 2006 میں دکن سے شائع ہوئی تھی۔

نشست کے آغٓاز میں ایک نوجوان شاعر انجینئر عبداللہ محی الدین نے اپنے کلام سنایا

:

مجھ پہ یہ تیری یاد کا احسان ہے بہت
یہ دل غم حیات سے انجان ہے بہت
جو ہم نہ ہوں تو یاد میں تڑپے گا تیری کون
ورنہ تو جان دینا بھی آسان ہے بہت
قرآن کا حق تو یہ کہ اس پر عمل کرو
ورنہ تو احترام کو جزدان ہے بہت
شرکاء نے لفظ جزدان کے استعمال پر نوجوان شاعر کو داد سے نوازا اور کہا کہ اس سے قبل کسی نے یہ خیال شاعری میں اس انداز سے نہیں باندھا تھا۔


اس کے بعد جناب عزیز احسن نے اپنی حمد کے چند اشعار پیش کیے:

لللہ الحمد کہ منسوب میں اس ذات سے ہوں
خوب سرسبز عنایات کی برسات سے ہوں
فکر ہے دین مری ذات سے بدنام نہ ہو
اپنی حد تک تو نہ خائف میں کسی مات سے ہوں
دولت دیں مجھے اصحاب محمد سے ملی
متمتع میں انہی لوگوں کی خدمات سے ہوں
زہد و تقوی کے تو آثار نہیں ہیں لیکن
شکر، صد شکر، بہت دور خرافات سے ہوں

عزیز احسن کے بعد جناب اختر اندوری نے حاضرین کو اپنے کلام سے نوازا۔ یہ ترنم سے پڑھتے ہیں اور مشاعرہ گاہ اگر کسی کمرے کا دوسرا نام ہو تو قریب بیٹھے حضرات ’کان ‘سنبھال کر بیٹھتے ہیں:


اختر کیسے بتاؤں گزرتی ہے مجھ پہ کیا
دے کے ہنر بنایا گیا بے ہنر مجھے
کس منزل عجیب کی جانب گامزن ہوں میں
پہچانتا نہیں ہے کوئی راہبر مجھے
۔۔۔۔۔۔۔
کرلیا آپ سے آپ ہی کو طلب
دل کی جرات کو ہم دیکھتے رہ گئے
اور اس وقت آپ آئینہ خانے میں
اپنی زلفوں کے خم دیکھتے رہ گئے
ناخدا و خدا بحر میں ساتھ تھے
دست ہمت کے نزدیک ساحل بھی تھا
باوجود اس کے کشتی ڈوبی وہیں
جانب چرخ ہم دیکھتے رہ گئے
باغ نشیمن کو جب آگ دی
شاخ ہی کیا متاع وفا جل گئی
اف بھی کرنے کی ہم کو اجازت نہ تھی
خامشی سے ستم دیکھتے رہ گئے
اف وہ پرکیف دھاروں کی انگڑائیاں
نغمہ راگ و باراں نوائے فضا
کشتی آغوش بحر میں سو گئی
رقص موجوں کا ہم دیکھتے رہ گئے
ذکر میلاد و مجلس سے تھی برہمی
اس کو کافر کہا اور اسے بدعتی
آئے بزم سیاست میں جب شیخ جی
نغمہ ماترم دیکھتے رہ گئے
حادثہ کچھ حرم میں یہ ایسا ہوا
عمر بھر اس کا اختر مجھے غم رہا
یہ صنم میرا ایماں لوٹا کیے
اور اہل حرم دیکھتے رہ گئے
۔۔۔۔۔
اختر اندوری کے بعد سید معراج جامی صاحب نے غزل پیش کی:
میں سراپا ناتواں
اور کاندھوں پر جہاں
تیر سب پیوست جاں
ہاتھ میں خالی کماں
ہے گماں تجھ پر یقیں
مجھ سے تو ہے بدگماں
ہو گیا ہے بوالہوس
آج کا ہر نوجواں
تنگ ہے میرے لیے
یہ مکاں اور لامکاں
جان کا آزار ہے
پھر بھی ہے آرام جاں
میری آہِ سرد سے
جل گیا ہے آسماں
زندگی کی نائو ہے
اور شکستہ بادباں
کون سمجھا ہے مجھے
میں عیاں ہوں میں نہاں
کس کی یہ تصویر ہے
نقش ہیں سارے دھواں
چاہتے ہیں بت مجھے
اب کہاں چاہِ بتاں
سوئے منزل لے چلوں!
اے امیر کارواں
زندگی کے تجربے
ہو گئے سب رائیگاں
آسماں اوڑھے ہوئے
جامیٔ بے خانماں
 

Rashid Ashraf

محفلین
جامی صاحب کے بعد جناب انور احمد علوی نے ایک مکتوب بہ انداز غالب سنایا۔ایک منتخب حصہ ملاحظہ ہو:

’’ بھائی علوی! تم بھی لڑکوں کی سی باتیں کرتے ہو کہ خط میرا تمہارے کسی ہم نام کے ہاتھ جا پڑا۔ بھائی!ایسے فلیٹوں میں کیوں رہتے ہو جہاں پر دو انور علوی ہوں۔ اب میری سنو! کیا ہوا، پچھلے دنوں آم کھا کر بے دھیانی میں دانتوں کے بجائے اپنی آنکھ میں خلال کربیٹھا۔ گھر میں کوئی نہ تھا۔ گھبرا کر باہر کو نکلا ۔ آغا خان اسپتال پہنچا جس کو میں طبی تجربہ گاہ کہتا ہوں۔ سات بجے شام ایمرجنسی میں لایا گیا تھا، رات پونے دو بجے ڈاکٹر میرے معائنے کو آیا۔ آنکھ سے برابر پانی بہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے معائنے کے بعد فلو کا اثر بتلایا اور خون کا ٹیسٹ لکھ کر دے دیا۔ وہ میں نے نہ کرایا کہ اپنے خون پر شک کرنا ہم ترکوں کی حمیت کے خلاف ہے اور دوائی لے کر گھر چلا آیا۔ بی بی نے سنا تو دوا اس نے جھپٹ لی۔ کس واسطے کہ اس کو فلو تھا اور اگلے روز ڈاکٹر سے آنکھوں کی دوائی لے کر لوٹی تھی۔ آج تمہارے دل کی خوشی کے واسطے کاغذ قلم لے کر بیٹھا ہوں۔دو حرف لکھتا ہوں، دو بھیجتا ہوں۔کس بات کو صحیح جانوں ؟ عامل اثر بتلاتا ہے، حکیم نے جگر پر ورم بتلایا ہے۔ڈاکٹر ڈپریشن کہتا ہے۔الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ کے مطابق ماں بننے والا ہوں۔ہومیو پیتھ شوگر کا خدشہ ظاہر کرتا ہے۔ علاوہ اس کے اپنا ای سی جی نکلوایا تھا۔رپورٹ کے بموجب دل کی حرکات منظم نہیں۔صاحب! جو حرکتیں دل کے ہاتھوں سرزد ہوں، وہ کیونکر منظم ہوسکتی ہیں ؟ ہارٹ اسپیشلسٹ نے تین ماہ بعد کی تاریخ دی ہے۔ بہتیرا سمجھایا، بھائی میں تمہاری بچی کی تاریخ نہیں مانگ رہا، بات اس کی سمجھ میں نہ آئی۔سنا ہے تمہارے یہاں کچھ اصحاب میری تکلیقات اور شخصیت پر کام کرکے ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ معلوم کرکے بتلاؤ، ان کا شمار کس قسم کے ڈاکٹروں میں ہوتا ہے اور وہ کن امراض کا علاج کرسکتے ہیں۔سونچتا ہوں، اب انھی میں سے کسی کو دکھا لوں۔ یہ لوگ میری رگ رگ سے واقف ہیں۔شہر کی بابت تمہارے سوال کا جواب یہ ہے۔ یہاں کوئی امر نیا واقع نہیں ہوا ہے۔ وہی حالات واطوار ہیں جو دس بارہ برس قبل دیکھ کر گئے ہو۔ لوگ مرتے ہیں، پر غم میں وہ پہلی سی شدت نہیں۔ استاد ذوق کی موٹر قلعے کے باہر سے اٹھ گئی، کنجی ان کے ہاتھ میں رہ گئی۔تفتہ کی آٹو سائکل بھرے بازار میں چھن گئی۔میر مہدی کا گھر دن دہاڑے لٹ گیا۔ میری میم صاحب کے گہنے سرراہ ڈاکو لے اڑا۔بھائی! یہ شخص مجھ کو اور میرے بھائی یوسف مرزا کو بھی لوٹ چکا ہے۔بندہ خدا ہمارا ’فیملی ڈاکو‘ بنتا جارہا ہے۔اے لو بھول گیا، آج صبح ایک عالم دین قتل کردیے گئے ۔بادشاہ سلامت سے شہادت پر ان کی افسوس کیا تو کہنے لگے مرزا! تمہارے علماء اپنے لیے شہادت کی دعائیں کرتے ہیں، ان کا قتل ہونا ظہور ان کی دعا کی قبولیت کا ہے، نہ کہ سرکار کی نااہلیت کا۔جو کچھ ہوا، موافق رضائے الہی ہوا، اس کا کیا گلہ۔میں چپکا ہورہا۔
‘‘
شرکاء کے قہقہے گاہے گاہے بلند ہوتے رہے!

اس کے بعد شاہینہ فلک صدیقی نے ناصر کاظمی کی زمین میں اپنی غزل پیش کی:

دل کو رنجش کا سبب یاد نہیں
کیا بتائیں تجھے جب یاد نہیں
وہ ترے ہجر کے قاتل لمحے
پہلے تو یاد تھے، اب یاد نہیں
اک تعلق کو نبھانے کے لیے
غم سہے اتنے کہ اب یاد نہیں
کھیلتے ہیں جو لہو کی ہولی
کیا انہیں اپنا نسب یاد نہیں
وحشتیں ناچ رہی ہیں ہر سو
اب ہمیں شام طرب یاد نہیں
۔۔۔۔
اس کے بعد جناب عارف منصور نے اپنا کلام پیش کیا

:

جہاں بھی شب کی ردائے سیاہ پھیل گئی
فراق نور میں ہر اک نگاہ پھیل گئی
تھے خار زار نمایاں ہر ایک منظر میں
شکستہ پائی کو دیکھا تو راہ پھیل گئی
خود اپنے آپ سے اک جھوٹ میں نے بولا تھا
پھر اس کے بعد یہ فصل گناہ پھیل گئی
ہوا میں رقصاں ہے جو گرد باد کی صورت
یوں لگ رہا ہے کہ ذرے کی آہ پھیل گئی
۔۔۔۔
نشست کے آخر میں احباب کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ۔ فرید تبسم خاں صاحب نے دکنی لہجے میں معراج جامی صاحب کی پیش کردہ کتاب سے منتخب کلام سنایا۔

شرکاء متفرق اشعار سناتے رہے اور سنے والے محظوظ ہوتے رہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

کسی کے حصے میں مکان آیا، کسی کے حصے میں دکان آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا، میرے حصے میں ماں آئی (منور رعنا)
۔۔۔۔
بیعت عشق کی ہے میں نے
صاحب سلسلہ تو میں بھی ہوں (شبنم رومانی)
۔۔۔۔۔
گرمی لگی تو خود سے الگ ہوکے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر شخص نے مکان کا ملبہ پہن لیا (بیدل حیدری)
۔۔۔۔۔
آنکھ منزل پر لگی ہے اور کان آواز پر
اک مسافر پھر کھڑا ہے نکتہ آغاز پر
 

شمشاد

لائبریرین
بہت عمدہ روداد لکھی ہے۔

اس میں خط کا منتخب حصہ شائع کیا ہے، اگر پورا خط مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب راشد۔ اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ ماں والے شعر کے خالق منور رانا ہیں، رعنا نہیں۔ ان کی کتاب ’ماں‘ میری برقی کتابوں میں شامل ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
ماشاء اللہ اچھی روداد ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

قرآن کا حق تو یہ کہ اس پر عمل کرو
ورنہ تو احترام کو جُزدان ہے بہت
 

Rashid Ashraf

محفلین
بہت شکریہ تمام احباب کا ۔ ۔ ۔
شمشاد صاحب!ٓ انور علوی صاحب کا مکمل مضمون میرے پاس موجود ہے، اسکین کرکے بھیج سکتا ہوں، آپ مجھے ذاتی صفحے پر اپنا ای میل پتہ دے دیجیے
 
Top