دُکھ میں گُندھے ہوئے کالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرارشدمحمودناشاد

سجادعلی

محفلین
(ڈاکٹرارشدمحمود ناشاد صاحب علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں‌اُردو کے استاد ہیں۔




خاورچودھری عجب سیماب صفت آدمی ہے۔اُس کے اندرکی بے قراری اُسے اپنے ثابت وسالم وجودکوریزہ ریزہ کرنے پراُکساتی ہے اوروہ تابع فرماں معمول کی طرح اس کارِ تخریب میں منہمک ہوجاتاہے۔وہ بڑی چابک دستی سے اپنے ثابت وسالم وجودکوریزہ ریزہ کردیتا ہے۔انگ انگ ایک دوجے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ابھی تخریب کایہ سفرختم نہیں ہوچکتا؛ابھی یہ ریاض مکمل نہیں ہوپاتاکہ اس کی نظرمیں یہ سارا کیاکرایاکام نامحمودہونے لگتاہے۔محنت اکارت جاتی ہے،عبادت بے معنی ہوجاتی ہے اوروہ ادھراُدھربکھرے ہوئے ریزوں اورٹکڑوں سے از سرِنو اپنا وجودتعمیرکرنے کاخواب اپنی آنکھوں میں سجالیتاہے۔اُس کے اندرکی مہارتیں اُسے پھرویساہی پیکرعطاکردیتی ہیں۔اُس کے ناخن گرہیں لگانے اورکھولنے میں اس قدرطاق ہیں کہ پلک جھپکنے میں وہ زمانوں پرپھیلے ہوئے وقت کوباندھ اورکھول کررکھ دیتاہے۔اس سارے عمل میں کہیں فقیرکی ادائے بے نیازی اپنی جھلک دکھاجاتی ہے اورکہیں مداری کی ہُنرمندانہ چابک دستی ماحول پرنظربندی کاجال ڈال دیتی ہے۔ دیکھنے والوں کوکُچھ سمجھ نہیںآ تا۔حواس بے احساس ہوجاتے ہیں۔منظرتھم جاتاہے۔پس منظرجاگ اُٹھتاہے۔اُس کی نگاہ تھمے ہوئے منظر کی اسیر نہیں رہ سکتی۔وہ منظرکی ہمہ رنگی پرایک نگاہِ غلط اندازڈالتاہے اورپھرپس منظرکی پہنائیوں میں گُم ہوجاتاہے۔تھمی ہوئی چیزیں اورٹھہرے ہوئے منظراس کی نگاہ میں بے وقعت وبے قیمت ہیں۔اُس کے قدم کسی ایک میدان میں رُک نہیں سکتے؛نادیدہ دُنیائیں اُسے اپنی طرف بُلاتی ہیں اور وہ وفورِشوق میں اُن کی طرف اُڑنے لگتاہے مگرحیرت اُس وقت چہارچندہوجاتی ہے جب وہ ان طلسم کدوں اورفسوں خانوں کی گرفت سے بھی بہ خیر وخوبی نکل آنے میں کامران ہوجاتاہے۔اس کاوجودثابت وسالم رہتاہے۔انگ انگ سلامت اوردل پہلے کی طرح جواں تر_____!!
یہ جوکُچھ میں لکھ آیاہوں محض”حسنِ تمہید“نہیں بل کہ ان حرفوں میں خاورچودھری کے نقش ونگارجگ مگارہے ہیں۔اُس کے خال و خط کی رعنائی الفاظ کے ان جسموں میں روح کی طرح موج زن ہے۔ان حرفوں اوران لفظوں کے باطن میں سانس لیتے خاورچودھری کے وجود کی شناخت میں میںآ پ کی معاونت کرتاہوں۔ٹھہرنااُس کے اختیارمیں نہیں۔ قیام کرنے کی عادت اُس کے خمیرمیں نہیں۔حضروسے عروس البلادتک کاطویل سفراُس نے لمحوں میں کرلیا۔وہ دریاکے کنارے سے اُٹھااورسمندرکے کنارے جا ڈیرے ڈالے۔ مگر سمندراپنی لامحدودوسعتوں اوربے پناہ رنگینیوں کے باوجوداُس کے آئینہ ٴ نگاہ میں عکس فگن نہ ہوا۔اُس کے حاشیہٴ خیال میں دریاکی روانی ثبت تھی،سواُس نے اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹناشروع کردیااورپھرایک لمحے میں رُکے ہوئے سمندرکے قُرب کوتیاگ کررواں دواں دریا کے کنارے آن بیٹھا۔جیساگیاتھاویساہی لوٹ آیا۔پورے کاپورا؛ثابت وسالم __ __ _ ___اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزابھگت کرآیاتوپھر اپنی مٹی سے ہی نئے جہانوں کی تعمیرکرنے لگا۔نِت نئے منظراُجالنااورپھرپس منظرکی پہنائیوں میں گُم ہوجاناتواُسے ہمیشہ سے عزیزرہا ہے، سو یہاں یہی آنکھ مچولی شروع ہوئی۔اُس کاوجودہربارایک نئے منطقے میں ظہورکرتارہا۔لذتِ پیدائی کے جنون نے اُس کے نقوش کوبگڑنے نہیں دیا؛ وہ ہمیشہ ثابت وسالم رہا۔ ادب سے صحافت اورصحافت سے ادب تک کے اسفارمیں اُس کے قدموں نے کئی منزلوں کوچھوامگروہ رُکانہیں کہ رُکنے کے ذائقے سے وہ ناواقف تھا۔کبھی حضرو،کبھی سحرتاب،کبھی تیسرارُخ،کبھی تعلّم،کبھی غزل،کبھی نظم،کبھی ہائیکو،کبھی ماہیا،کبھی واکا،کبھی افسانہ، کبھی مضمون،کبھی خط،کبھی کالم_________اس کے سفرکے کیاکیاپڑاوٴرہے_________ مگر اُس کے بال وپرمیں رکھی سفرکی اُڑان کبھی ختم نہ ہوئی؛اُس کے قدموں میں پھیلی ہوئی مسافت کبھی پوری نہ ہوئی۔وہ کتنے منطقے پامال کرآیا۔کتنی زمینیں اُس کے قدموں تلے آئیں۔ وہ کتنے زمانے گھوم آیامگرحیرت ہے کہ ابھی وہ تھکانہیں۔اُس کاوجودپہلے کی طرح ثابت وسالم ہے اوراس کاشوقِ سفراُسی طرح قائم ودائم ہے؛ تازہ دم مسافروں کی طرح_ ____ _ __ _____!!!
میں خاورچودھری کے کالموں کے حوالے سے کُچھ باتیں کہنے چلاتھامگراُس کی شخصیت کی گھمن گھیریوں میںآ پھنساہوں۔دراصل اُس کے کالم اُس کی شخصیت سے یوں پیوست ہیں کہ ان کوالگ نہیں کیاجاسکتا۔اگرمیں یہ کہوں توشایدغلط نہ ہوگاکہ اُس کاکالم اُس کی شخصیت اور اُس کی شخصیت اُس کاکالم ہے۔شخصیت سے کالم اورکالم سے شخصیت تک کایہ سفروہی کرسکتاہے جواپنے وجودکوریزہ ریزہ کرکے ازسرِ نوتعمیر کرنے کا ہُنرجانتاہو۔وہ جسے تخریب سے تعمیرکرآتی ہو۔دردمندی اوردردآشنائی کے بغیرکرب زاروں کے سفرکی رودادبیان نہیں کی جاسکتی۔بے چشمِ نم دیکھے ہوئے منظروں کی داستاں دوسروں کی پلکوں کوانجم آشنانہیں کرسکتی۔خاورچودھری کی ہمہ رنگ شخصیت کی طرح اُس کے کالموں کاموضوعاتی تنوّع بھی دیدنی ہے۔سیاست،مذہب،معاشرت،تعلیم،ادب،سائنس،کھیل،ثقافت اورجانے کیاکیااُس کے کالموں میں سمٹ آیاہے۔ انسانوں کے رویّے،میلانات، عادتیں، تجربے ،احساسات اورخیالات کاکون سارنگ ہے جوان کالموں میں اظہارنہیں پاتا۔اس کے کالموں کے آئینے میں صرف لمحہٴ موجودہی جلوہ گرنہیں بل کہ رفتہ وفرداکے رنگ بھی تمام ترجلوہ سامانیوں کے ساتھ موجودومتشکل ہیں۔اُس نے زندگی کا ادھورا خاکہ پیش نہیں کیابل کہ اُسے ایک ایسے پیکرمیں ڈھال دیاہے جواپنے نقش ونگارکے اعتبارسے کامل ومکمل ہے۔
خاورچودھری کے کالم دُکھوں میں گندھے ہوئے ہیں۔وہ منظرکے جھلملاتے اورجگ مگ کرتے رُخ کونہیں دیکھتابل کہ پس منظرمیں سسکتے،روتے،کُرلاتے،لہوبہاتے اوربَین کرتے لمحوں کوکھوج نکالتاہے۔اسلام اورپاکستان_________اس کے ایمان اورعقیدے کے دو ستون ہیں۔ان کی محبت اُس کے خون میں موج زن ہے۔ان سے وابستگی کاخماراُس کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔دُنیاکے موجودہ منظرنامے پرجب وہ امتِ مسلمہ کی زبوں حالی اورشکستگی کی اندوہ ناک صورتیں دیکھتاہے تواُسے اپنااندرٹوٹتاہوامحسوس ہوتاہے۔اُس کی رگوں میں خون جمنے لگتاہے۔کرب ناکی کی اس کیفیت میں وہ محض ماتم نہیں کرتابل کہ پس منظرمیں جھانک کرغیروں کی ریشہ دوانیوں اوراپنوں کی عاقبت نااندیشیوں کوشناخت کرتاہے اورمکروفریب،ظلم واستبداداوربے حسی وکم کوشی پرپڑے نقابوں کی دھجیاں اُڑادیتاہے۔اس کی حمیتِ ایمانی اور غیرتِ ملی اس کے قلم کوتوانائی عطاکرتی ہے۔وہ بے خوفی اوربے باکی سے ظالموں،غاصبوں،آمروں،وڈیروں،مکاروں اورفتنہ پردازوں کو للکارتاہے۔اُس کے اندردہکتی چنگاریاں شعلہٴ جوّالہ کی صورت اختیارکرکے جب اُس کے کالموں میں اظہارپاتی ہیں توکیسے کیسے فرعونوں کے خرمنِ اناکوبھسم کردیتی ہیں۔اُس کاقلم غفلت شعاروں اورتغافل کیشوں کے لیے تازیانہ بن جاتاہے۔
خاورچودھری کودُکھ چننے اورغم بانٹنے کاجنون ہے_________لادوااورناقابلِ علاج۔پہلے وہ دُکھوں کی تلاش میں پھرتاتھا اب دُکھ اُس کی تلاش میں رہنے لگے ہیں۔دُکھوں سے وابستگی کے اس عرصے میں اُس کی پلکوں کے کنارے نم ناک اوراُس کاسینہ بارِ غم سے بوجھل رہاہے۔اس کے باوجودوہ دُکھوں کوعزیزجانتاہے؛اُس نے اپنے نہاں خانہٴ دل میں دُکھوں کواس سلیقے اورقرینے سے سجایاہواہے کہ اُس کے اندرکی مہارتوں پرحیرت ہوتی ہے۔اُس کاباطن رنگ رنگ اورقسم قسم کے دُکھوں کی آماج گاہ ہے۔اُس کااندربھراہواہے۔ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی کادُکھ،ارضِ وطن کے جسدِ لہولہوکادُکھ،اُجڑی مسجدوں اورویران مدارس کادُکھ،وانا،وزیرستان،کشمیر،فلسطین،عراق اورافغانستان میں ظلم وبربریت کانشانہ بننے والے نہتّے ایمان داروں کادُکھ،غُربت وافلاس کی چکی میں پسنے والے مفلوک الحال انسانوں کادُکھ،گندگی کے ڈھیروں سے رزقِ حیات تلاشتے نوخیز بچوں کا دُکھ، جہیزکوترستی کنواری لڑکیوں کادُکھ،وڈیروں اورجاگیرداروں کے پنجوں میں پھنسے ہاریوں اور مزارعوں کادُکھ__________ان گنت دُکھ۔بے پناہ دُکھ۔خاورچودھری کے نہاں خانہٴ دل میں سجی ہوئی دکھوں کی دُکان ہے۔ وہ جب چاہتاہے اورجس وقت چاہتاہے اپنے بھرے ہوئے سینے سے ایک دُکھ نکالتاہے اورکالم کے چوکھٹے میں جَڑدیتاہے۔اُس کاوجودثابت وسالم رہتا ہے،پہلے کی طرح مگراپنے پڑھنے والوں کوریزہ ریزہ کرڈالتاہے۔”ازدل خیزددردل ریزد“کی سچائی اُس کے کالموں کوپڑھ کرآشکارہوتی ہے۔ اُس کاکمال یہ ہے کہ وہ اپنے نہاں خانہٴ دل میں سجائے ہوئے دُکھوں کواپنے پڑھنے والوں کے دلوں میں اُتاردیتاہے۔چابک دستی اور مہارت کے ساتھ۔اس کام کووہ فرض کی طرح انجام دیتا ہے۔پورے خشوع وخضوع کے ساتھ،کامل یک سوئی اورانہماک کے ساتھ۔
ادب سے وابستگی نے خاورچودھری کوقدرتِ بیان کی صفت سے مالامال کیاہے۔اُس نے اپنے باطن کے درد،قلب کی بے قراری، خوابوں کی رعنائی اورخیالوں کے حُسن کوبہ تمام وکمال لفظوں کے قالب میں ڈھال دیاہے۔اُس کے لفظ بولتے ہیں؛اُس کے حرف جاگتے ہیں۔ بے حسوں کوجھنجوڑکربے دارکرنے اوردُکھ آشناوٴں کوگرنے سے سنبھالنے والے لفظ،اُس کے اندرکی مہارتوں کے گواہ ہیں۔اُس کے قارئین کا دائرہ وسعت آشناہونے لگاہے۔اُس کے جذب وشوق کی توانائی بڑھ رہی ہے۔میرایقین ہے کہ اُس کے قدموں کااستحکام اورسینے کی دردمندی اُس کی آنکھوں میں سجے ہوئے خوابوں کوضرورشرمندئہ تعبیرکرے گی۔وہ خاورہے______اسمِ بامسمّا۔اُس کااُفق بے آفتاب نہیں رہے گا۔ ان شاء اللہ

(چراغ بہ کف سے لیا گیامضمون)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ کیا سچ کہا ۔۔۔واہ ۔۔

سجاد علی صاحب
آداب
جناب اتنی پر مغز تحریر پیش کرنے کیلیے بہت بہت شکریہ
 
Top