دُعا

نیلم

محفلین
دعا کے لیے تمہیں کسی ہونٹ یا زبان کی ضرورت نہیں ہے۔ہاں‘ اگر ضرورت ہے تو ایک خاموش باخبر دل کی‘ ایک "اعلی خواہش" ایک "اعلی خیال" کی اور سب سے اہم ایک "اعلی قوت ارادی" کی جو نہ تو شبہات میں الجھتی ہے‘ نہ کہیں ہچکچاتی ہے۔ کیونکہ الفاظ اگر ان کے اعراب میں دل موجود نہ ہو اور وہ دھڑک نہ رہا ہو‘ بے مغی ہوتے ہیں۔ اور جب دل موجود ہو اور دھڑک رہا ہو تو زبان کے لیے بہتر یہی ہے۔ کہ وہ بےفکر ہو کر سو جاہے یا مہربستہ لبوں کے پیچھے چھپ جاے۔
دعا کے لیے تمہیں عبادت گاہوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
جس کو اپنے دل میں عبادت گاہ نہیں ملتی‘ اس کو کسی بھی عبادت گاہ میں اپنا دل حاضر نہیں ملتا۔

(میخاہل نعمیی)
 

نیلم

محفلین
مجھے ایک بزرگ کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔۔کچھ لوگ ان کے متعلق سن کر ان کے عقیدت مند بن گئے۔۔۔ ایک دن خیال آیا کہ ان کے پاس چلیں اور جا کر خود ان کی کرامتوں کا مشاہدہ کریں۔۔۔ وہ لوگ ان بزرگ کے شہر پہنچے اور آستانے پر ڈیرے جما لئے۔۔
ایک دو ہفتے بعد انھیں احساس ہوا کہ وہ بزرگ تو عام آدمیوں جیسے ہیں۔۔ اس بات سے ان لوگوں کا دل بزرگ کی عقیدت سے خالی ہونا شروع ہو گیا۔۔۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اپنے مال اور وقت کو ضائع کیا ہے بہتر ہے واپس چلیں اور کسی سچے ولی کی تلاش کریں۔۔ اسی سوچ میں وہ بزرگ کے پاس اجازت کے غرض سے پہنچے۔۔۔
بزرگ نے انہیں دیکھا اور مسکرائے۔۔۔ اور بولے کیا آپ نے پچھلے دو ہفتے میں مجھ سے کوئی ایسی بات ہوتے دیکھی جو شریعت ، سنت اور اخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافی ہو۔۔۔۔
سب یک زبان بولے نہیں بلکہ ہم نے آپ کو شریعت کے احکامات کا پابند اور نہایت متقی پایا۔۔۔
بزرگ پھر مسکرائے۔۔۔ اور بولے دوستو اللہ کے ولیوں کی سب سے بڑی کرامت ان کا احکام شریعت کی بجا آوری اور خلق خدا کی خدمت میں جتے رہنا ہوتا ہے۔۔۔ اب اگر آپ سمجھتے ہو یہ چیزیں مجھ میں ہیں تو آپ کا آنا غلط نہیں گیا۔۔۔
دوستو ! میرے خیال میں ہم جسے بابا یا مرشد کہتے ہیں وہ ایک گائیڈ ۔۔ایک معالج کی طرح ہوتا ہے جو مجاہدون،مراقبوں اور اذکار کے ذریعے مرید کی مثبت سائیڈ کو طاقتور بناتا ہے اور برائیوں سے بچنے کے طریقے سکھاتا ہے۔۔۔ تاکہ مرید کے لئے شریعت کی راہ پر چلنا اور احکام خداوندی کو سمجھنا ، سہل اور آسان ہو جائے۔۔۔
دوسری بات مرشد مرید کو اس نسبت۔۔۔ جو کلمہ پڑھنے کے بعد آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قائم ہوتی ہے۔۔۔ اس کی پہچان کراتا ہے اور مرید کو اس نسبت کے قابل بننے اور نبھانے کے لئے مو ٹی ویشن اور طریقہ سیکھاتا ہے۔۔۔
بد قسمتی سے ہم مرشد یا بابا کی ذات میں طلسم ہوشربا تلاش کرتے ہیں اور توہمات کی دلدل میں گرتے جاتے ہیں۔۔ قرآن اور سنت سے عدم واقفیت کی وجہ سے شعبدہ بازون اور بہرو پیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔۔
اسی لئے میں سمجھتا ہوں ۔۔۔اور ۔۔۔اپنی ذات کی حد تک ہر اس شخص کی عزت اور تکریم کرتا ہوں جو شریعت کے مطابق حدود اللہ کا خیال رکھتا ہو اور مخلوق خدا کے لئے خیر ہو۔۔۔
اللہ کی رحمت سے یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ حقیقت ریلی ٹیو (relative) ہوتی ہے۔۔ ہر شخص کی حقیقت الگ ہوتی ہے جو اس کے تجربے، مطالعے اور ان حالات پر ڈی پینڈ کرتی ہے جس میں اس نے زندگی گزاری ہو۔۔۔ پھر ہر فرد کا ۔۔دیکھنے کا اینگل یا زاویہ بھی الگ ہوتا ہے۔۔
ہم لوگ چونکہ نفس و انا پرست بن چکے ہیں اور خود کو برتر مانتے ہیں اس لئے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سب ہمارے سچ کو مانیں ۔۔ ہماری سختی دوسرے کی سختی کا باعث بنتی ہے اور پھر شر ہی شر پیدا ہوتا ہے۔۔ ہمیں چاہئے ہم ان موضوعات پر بات کرین جن پر ہم سب مسلمان ایک ہیں۔۔ اس سے شخصی ڈیفینسیو رویہ کم ہو تا اور محبت بڑھتی ہے۔۔ جب محبت بڑھے گی تب ہی ہم ایک دوسرے کا پوائنٹ آف ویو سمجھ سکنے کی پوزیشن میں ہونگے۔۔ جب تک انا کا کھیل جاری رہے گا۔۔۔ ہم صرف خرابی کی طرف ہی جائیں گے ۔۔۔یہ ہی وجہ ہے کہ میں ہر کلمہ گو سے محبت کرتا ہوں ۔۔ چاہے وہ کسی بھی سکول آف تھاٹ یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو۔۔۔ راہیں جدا ہو سکتی ہیں ۔۔۔ سوچ کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں۔۔۔ اور ایسا تو ہر خاندان میں ہوتا ہے ۔۔۔چار بھائی ہیں۔۔۔ تو ضروری نہیں سب ایک ہی سوچ رکھتے ہوں۔۔۔ لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں ان کے درمیان۔۔۔ لیکن ہوتے تو سب بھائی ہی ہیں ۔۔
ہر وہ مسلمان محبت کے قابل ہے جس کا دل اللہ اور اس کے رسول کے عشق سے منور ہے ۔۔ تمام اہل محبت کی منزل ایک ہی ہے۔۔۔ اور وہ ہے۔۔۔۔ حضور کے دین کے مطابق اللہ کی رحمت کی تلاش۔۔۔
۔الله تعالی ہم ۔نمانیوں کو اسلام کی روح سمجھنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین۔۔۔
 
Top