دو ماہی گلبن، لکھنؤ-نومبر-دسمبر 2013

تلمیذ

لائبریرین
تلمیذ
عالم نقوی کا مضمون "ادبی منافقت" ضرور پڑھیے گا۔ یہ لکھنؤ میں قیام پذیر ہیں اور وہاں کے اخبار آگ سے وابستہ ہیں

مضمون پڑھ لیاہے، جناب۔ اس کو زاہد گوگی کی ادیبوں اور شاعروں کے اسکینڈلز والی کتاب جو آپ نے اپ لوڈ کی تھی، کی توسیع ہی کہنا چاہئے لیکن تحقیقی انداز تحریر اور لکھنوی مقفیٰ اور مسجع زبان کے ساتھ ،حوالہ جات سے معمور یہ مضمون اس کتاب کے مضامین سے کہیں اوپر ہے۔ ویسے تو انہوں نے فقط تین چار حضرات اور وہ بھی شاعروں (اورایک خاتون) کو تختہ مشق بنایا ہے۔ لیکن جو کچھ لکھا ہے بھر پورلکھا ہے. بات وہیں آ جاتی ہے کہ زیادہ ترمشاہیر ادب کی ذاتی زندگی اور ادبی اوصاف و محاسن کے مابین بہت زیادہ فرق ہوتاہے، لیکن تمام قارئین چونکہ اس بات سےبا خبر نہیں ہوتے اس لئے وہ مقبولیت کی فصل کاٹتے رہتے ہیں۔ بہرحال مجھے ان کا یہ مضمون اچھا لگا ہے اور میں ان کی کئی باتوں سے متفق ہوں۔
بیگم سرفراز اقبال مرحومہ کے بارے میں پڑھ کر ذرا حیرت ہوئی ہے کیونکہ مختلف جگہوں پر ان کے بارے میں کافی اچھے مضامین پڑھ رکھے تھے۔ محمد طفیل مرحوم نے ان کے بارے میں بہت کچھ لکھ رکھا ہے۔
فلک شیر,
 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
سرور پر کوئی ایسا مسئلہ ہے جس کی بنا پر اپنی تازہ ترین پوسٹ (گلبن پر مفصل تبصرہ۔ ) کو شامل کرنے کے بعد یہ دیکھنے سے قاصر ہوں کہ وہ ظاہر ہورہی ہے یا نہیں لہذا غالبا کئی مرتبہ ایک ہی پوسٹ دوہرائی گئی ہے۔ ایڈمن سے درخواست ہے کہ براہ کرم ایسے تمام پیغامات کو حذف کردیں۔
 

راشد اشرف

محفلین
اول
زیر نظر شمارے میں عالم نقوی صاحب کا مضمون "ادبی منافقت" شائع ہوا ہے جسے منسلک کردہ فائل میں بطور خاص شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے فیس بک پر کل فرمایا کہ یہ مضمون انہیں قطعی پسند نہیں آیا ہے۔
یہ پسند ناپسند کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ دیکھا جائے تو ساری دنیا ہی اسی پر چل رہی ہے۔ ایک چیز مجھے پسند آتی ہے تو کوئی اسے تنقید کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بہرحال، فیصلہ آپ قارئین کا۔
"ادبی منافقت" نقوی صاحب نے خاصی تحقیق کے بعد لکھا ہے، سطحی مطالعہ اس قسم کی تحریروں کو جنم نہیں دیتا۔ ایک لکھنے والے کی نظر چہار سو رہتی ہے۔
گلبن میں اس مرتبہ قارئین کے خطوط بھی تمام کے تمام دلچسپ ہیں۔ محبوب راہی کی خودنوشت کی ایک قسظ پڑھیے، یہ خودنوشت جلد ہی ہند سے شائع ہونے والی ہے۔ "میری ساٹھ کوسی پریکرما" نامی تحریر دو گھنٹوں کا سفرنامہ ہے۔ یا خدا! یہ سفرنامے بھی گھنٹوں کے حساب سے لکھے جانے لگے ہیں، یہ راقم کا اولین خیال تھا لیکن مطالعے کے بعد احساس ہوا کہ اس ماحول میں اس قسم کی تحریروں کی ایک خاص افادیت ہے۔
آخر میں ذکر رام پور کے ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کے ایک افسانے "حرافہ" کا جسے منسلک کردہ فائل میں خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے۔
 

راشد اشرف

محفلین
دوم
ان دنوں لطائف پر مبنی افسانوں کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ راقم نے بھی ایک لطیفے پر مبنی ایک تحریر بعنوان "خودکش" گھسیٹ ڈالی تھی جو کراچی کے دنیازاد اور بعد ازاں پٹنہ کے آمد میں شائع ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر اسے پسند کیا گیا۔ اس کے بعد راقم نے مزید طبع آزمائی سے توبہ کرلی۔ حآل ہی میں کراچی کے مجلے "اجراء" میں ایک صاحب نے گزشتہ پرچے میں شائع ہونےو الے ایک افسانے پر اعتراض کیا ہے۔ ان کے بقول افسانہ نگار نے ایک لطیفے کو افسانے کی شکل میں ڈھال دیا ہے۔ اس بات میں کسی کو شک نہ ہوگا کہ ایک لکھنے والا اپنے خارجی ماحول سے لکھنے کی تحریک پاتا ہے اور یہ بھی ایک تجربہ ہی سہی۔
یہ تمہید اس لیے باندھی گئی کہ قارئین کو صلائے عام دی جاسکے کہ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا افسانہ "حرافہ" پڑھیں اور یاد کیجیے کہ کیا یاد آتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ 1979 کا ایک لطیفہ 2013 میں پھر سے زندہ ہوکر سامنے آگیا۔ اور وہ بھی یہاں کراچی کا ڈوبا کہاں رام پور میں ابھرا۔
 

راشد اشرف

محفلین
سوم
جی ہاں! یہ وہ لطیفہ ہے جو معین اختر مرحوم نے 1979 میں کراچی کے ایک آڈیٹوریم میں براہ راست پرفارمنس کے دوران سنایا تھا۔ مذکورہ شو، معین اختر کا "ون مین شو" تھا۔ اس پروگرام کو راقم کے ایک عزیز نے اپنے کیسٹ ریکارڈر پر ریکارڈ کرلیا تھا۔ اسی کی دہائی میں راقم نے اسے سنا اور کئی لطائف ذہن سے چپک کر رہ گئے تھے۔ انہیں میں سے ایک لطیفہ وہ تھا جس کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں نے مذکورہ افسانہ تحریر کیا ہے۔ لطائف، سرحد کے پابند نہیں ہوتے، شکلیں بدل بدل کر ان کا سفر جاری رہتا ہے۔ ذرا سی تحریف، ذرا سی ترمیم لیکن بنیادی خیال محفوظ ہی رہتا ہے جیسے "حرافہ" کا ہے۔ راقم کے قارئین میں سے اگر کوئی نجی ملاقات میں اس لطیفے کو سننا چاہیں تو اسے اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ سنانے کو تیار پائیں گے۔
 

راشد اشرف

محفلین
چہارم
لیجیے اسے سن ہی لیجیے:
ایک خوبصورت سی لڑکی ایک مولوی صاحب کے پاس گئی اور کہنے لگی "مولوی صاحب مجھے ایک آدمی سے عشق ہوگیا ہے"
مولوی صاحب کہنے لگے "لڑکی تیرا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ہے"
یہاں معین اختر نے مذکورہ بالا فقرے کو پہلے اسی انداز میں لہجے کو کھینچ کھینچ اور لہرا لہرا کر دوہرایا ہے جیسے ایک زمانے میں گاؤں کی مسجد کے مولوی صاحب ترنم کے ساتھ کسی بھی بات کو دوہراتے تھے۔ اور پھر اس کے بعد معین نے اسی فقرے کو درشت لہجے میں، لفظ لڑکی کے بغیر، ادا کیا تھا۔ یعنی "تیرا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ہے"۔ امید ہے سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے۔
لڑکی: "مولوی صاحب، مجھے اس آدمی سے بلا کا عشق ہے، میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔"
مولوی صاحب: " لڑکی! غضب خدا کا، کہ تو مجھ ایسی باتیں کررہی ہے" (ترنم کے ساتھ) ۔ ۔ ۔ "مجھ سے ایسی باتیں کررہی ہے" (ڈپٹ کر)
 

راشد اشرف

محفلین
پنجم
لڑکی: مولوی صاحب، ، مجھے راتوں کو اسی کے خواب آتے ہیں، میں خودکشی کرلوں گی
مولوی صاحب: " لڑکی اپنی زبان کو لگام دے۔ کہٰیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن میں تیرا دامن پکڑ کے تجھ سے سوال کرلوں"
"تجھ سے سوال کرلوں" (تجھ سے-ایک توقف-"سوال کرلوں"-ڈپٹ کر)
لڑکی: مولوی صاحب آپ مجھے کہنے نہیں دے رہے جو میں کہنا چاہ رہی ہوں
مولوی صاحب: کہہ لڑکی تجھ کیا کہنا ہے۔ (آواز کو لہرا کر اور ترنم کے ساتھ)
لڑکی: مولوی صاحب، مجھے "آپ" سے عشق ہوگیا ہے
مولوی صاحب: آواز کو لہرا کر، بلا کے ترنم اور آواز میں لوچ کے ساتھ: "چل جھوٹی"
اور اس چل جھوٹی کی اس آڈیٹوریم میں ہرطرف گونجتی آواز اور اس کے عقب میں اسی انداز میں لوگوں کے بے ساختہ قہقہوں کی آوازیں ۔ ۔ ۔ ۔
راقم کو ہمیشہ یاد رہیں گی۔
 

تلمیذ

لائبریرین
سرور پر کوئی ایسا مسئلہ ہے جس کی بنا پر اپنی تازہ ترین پوسٹ (گلبن پر مفصل تبصرہ۔ ) کو شامل کرنے کے بعد یہ دیکھنے سے قاصر ہوں کہ وہ ظاہر ہورہی ہے یا نہیں لہذا غالبا کئی مرتبہ ایک ہی پوسٹ دوہرائی گئی ہے۔ ایڈمن سے درخواست ہے کہ براہ کرم ایسے تمام پیغامات کو حذف کردیں۔
اس وقت آپ کی تمام پوسٹیں درست نظر آ رہی ہیں۔
 
Top