قیصرانی

لائبریرین
26 اپریل 1986 کو سابقہ یو ایس ایس آر اور موجودہ یوکرائن میں موجود چرنوبل کا ایٹمی بجلی گھر حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے کی اصل وجہ اس کے ڈیزائن میں خامیاں تھیں۔ یہ بجلی گھر 4 ری ایکٹروں پر مشتمل تھا۔ یہ حادثہ انسانی تاریخ کا بدترین ایٹمی حادثہ شمار ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حادثے کی اطلاع بیرونی دنیا کو دو دن بعد اس وقت ملی جب چرنوبل سے 1000 کلومیٹر دور سوئیڈن میں ایک ایٹمی بجلی گھر میں موجود تابکاری کا الارم بجنے لگا۔ اس حادثے کو شدت کے اعتبار سے درجہ نمبر 7 میں رکھا گیا تھا جو ایٹمی حادثے کا شدید ترین درجہ ہے۔ انسانی تاریخ میں ہونے والا اس شدت کا دوسرا حادثہ 2011 میں جاپان میں زلزلے اور سونامی کے بعد ہونے والا فوکوشیما ڈائچی کا حادثہ ہے۔ حادثے کے وقت ری ایکٹر میں 160 ٹن ایٹمی ایندھن موجود تھا۔

چرنوبل کا ایٹمی بجلی گھر 1977 میں اس وقت فعال ہوا جب پہلا ری ایکٹر چالو ہوا۔ 1978 میں دوسرا، 1981 میں تیسرا اور 1983 میں چوتھا ری ایکٹر کام کرنے لگا۔ ہر ری ایکٹر 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ ایک بجلی گھر یوکرائن کی کل ضرورت کا 10واں حصہ بجلی پیدا کرتا تھا۔ پانچواں ری ایکٹر حادثے کے وقت زیر تکمیل تھا جسے ادھورا چھوڑ دیا گیا۔

اس حادثے میں فوری طور پر 31 افراد ہلاک ہوئے جو بجلی گھر کے ملازمین اور ہنگامی امدادی کارکن تھے۔ بعد میں یہ تعداد 64 تک پہنچ گئی۔ تابکاری سے متائثر ہونے والے کئی لاکھ افراد میں سے 4000 تابکاری سے پیدا ہونے والے کینسر کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ ری ایکٹر جو حادثے کا شکار ہوا، میں پانی کی مدد سے اسے ٹھنڈا رکھنے کا نظام تھا۔ اس قسم کے ری ایکٹر میں خاصی مقدار میں حرارت پیدا ہوتی ہے اور اگر انہیں بند بھی کر دیا جائے تو بھی کافی عرصے تک یہ کچھ نہ کچھ گرمی پیدا کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو مسلسل کولنگ سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ پگھل بھی سکتے ہیں۔ ری ایکٹر نمبر 4 میں کل 16000 فیول چینل تھے اور ہر ایک چینل کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے 28000 لٹر پانی فی گھنٹہ درکار ہوتا تھا۔ چونکہ یہ پانی بجلی سے چلنے والے پمپوں کی مدد سے گردش کرتا تھا اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں جب کہ ری ایکٹر کو بند کر دیا جائے تو متبادل کے طور پر ڈیزل سے چلنے والے تین جنریٹر رکھے گئے تھے تاکہ ری ایکٹر کو بند کرنے کے بعد اسے ٹھنڈا رکھنے کا نظام چلتا رہے۔ ضرورت کے وقت یہ جنریٹر محض پندرہ سیکنڈ میں کام شروع کرتے تھے لیکن پوری طاقت سے بجلی پیدا کرنے کا عمل کل ایک سے سوا منٹ تک لے جاتا تھا۔ جب یہ جنریٹر پوری طاقت سے چلتے تو پھر پانی کو گردش دینے والا بڑا پمپ چالو ہو جاتا تھا۔ اس ایک منٹ جتنے وقفے کو ختم کرنے کے لئے ایک تجویز یہ تھی کہ ری ایکٹر کے بند ہونے کے بعد حرارت سے پیدا ہونے والی بھاپ کی مدد سے بجلی پیدا کی جائے جو تقریباۢ 45 سیکنڈ تک پمپ کو چلا سکتی تھی۔ تاہم اس نظریے کا تجرباتی ثبوت حاصل کرنے کے لئے تجربہ کرنا لازمی تھا۔ اس مقصد کے لئے 1982، 1983 اور پھر 1986 میں ناکام تجربے کئے گئے۔ 1986 میں ایک اور تجربے کا فیصلہ کیا گیا اور اس وقت ری ایکٹر معمول کی مرمت کے لئے بند کیا جانا تھا۔

جب حادثہ رونما ہوا تو اس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ 1000 ٹن وزنی چھت اڑ کر دور جا گری۔ تابکاری کی شرح اتنی زیادہ تھی کہ 20000 رونتگن فی گھنٹہ ہو گئی۔ عام انسان کی ہلاکت کے لئے ایک گھنٹے میں 500 رونتگن جتنی تابکاری کی مقدار کافی ہوتی ہے۔ ایک رونتگن ایک ایکسرے کے برابر ہوتی ہے۔ بہت سارے کارکن ایک منٹ سے بھی کم وقت میں تابکاری کی مہلک مقدار کا شکار ہو چکے تھے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تابکاری کی پیمائش کرنے والا ایک میٹر ملبے تلے دب گیا تھا اور دوسرا میٹر کام نہ کر سکا۔ دیگر چھوٹے میٹر تابکاری کی کم مقدار کی پیمائش کرنے کے قابل تھے جس کی وجہ سے تابکاری کی شرح کا درست اندازہ نہ ہو سکا۔

آگ بجھانے کے عملے کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ اگر وہ قانون کے مطابق چلتے تو وہ کبھی جائے حادثہ پر نہ پہنچتے کیونکہ انہیں بخوبی علم تھا کہ تابکاری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا ماننا تھا کہ یہ ڈیوٹی نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری تھی جو وہ پوری کرنے پہنچے۔

فوجی اور سول، دونوں طرح کے کارکنان کو لالچ، دباؤ، حتیٰ کہ معلومات دیئے بغیر امدادی کاروائی کے لئے بھیجا گیا لیکن ہزاروں کارکن نے اس لازمی ڈیوٹی کے ختم ہونے کے بعد بھی رضاکارانہ طور پر کام جاری رکھا جبکہ انہیں تابکاری کی شدت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ زیادہ تر کارکنوں کو روس کی حکومت کی طرف سے میڈل دیئے گئے اور تمام کارکنوں کو ویٹیرن کا درجہ ملا ہوا ہے۔ 1986 اور 1987 میں کل 240000 کارکنوں کو جبکہ کل ملا کر 6 لاکھ کارکنوں کو باقاعدہ سند دی گئی ہے کہ انہوں نے امدادی کام میں حصہ لیا۔

جب یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ حادثے کے بعد ایٹمی ایندھن گرم ہو کر پگھلنے لگا ہے اور خطرہ ہے کہ وہ عین نیچے موجود پانی کے ذخیرے تک نہ پہنچ جائے۔ اگر پگھلا ہوا ایندھن، کنکریٹ اور دیگر عناصر عین نیچے موجود پانی کے ذخیرے تک پہنچتے تو ایک انتہائی بڑا دھماکہ ہوتا جو ایٹم بم کے دھماکے سے مشابہہ ہو سکتا تھا۔ اب یہاں دو انجینروں نے رضاکارانہ طور پر غوطہ خوری کا لباس پہن کر پگھلے ہوئے کنکریٹ کے خطرے اور تابکاری وغیرہ سے قطع نظر جا کر اس ذخیرے کو خالی کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ وجہ یہ تھی کہ امدادی کارکنوں کو علم نہ تھا کہ یہ ذخیرہ خالی کرنے والے والو کہاں لگے ہوئے ہیں۔ آپ بخوبی سوچ سکتے ہیں کہ ایٹمی بجلی گھر کے انجینئر کو اس وقت پوری صورتحال کا بخوبی علم ہوگا کہ وہ کس طرح مشن امپاسبل پر جا رہے ہیں جہاں تقریباۢ یہ بات کنفرم ہے کہ انہوں نے واپس نہیں لوٹنا۔ انہوں نے نہ صرف جانے کا فیصلہ کیا بلکہ ان کے ساتھ ایک اور رضاکار بھی روانہ ہوا تاکہ پانی کے اندر روشنی کے لئے لیمپ لے جائے۔ لیمپ نے تھوڑی دیر بعد کام چھوڑ دیا اور انجینروں نے ٹٹول ٹٹول کر والو کھولے تاکہ پانی کا ذخیرہ خالی ہو سکے۔

کیا بہادری، ایثار یا فرائض واقعی کسی مذہب کی تابع ہوتے ہیں یا انسان کی اخلاقیات ان سب سے ماوراء بھی ہو سکتی ہیں؟
 

عمر سیف

محفلین
ان سائنسدانوں نے زبردست بہادری اور ہمت کا مظاہرہ کیا ۔۔ اور اس مشکل صورتحال میں بیک آوٹ نہ کرنا یقینا قابل ستائش عمل ہے ۔۔۔
قیصرانی بھائی اس پہ ایک ڈاکومینٹری نیشیل جیوگرافک چینل نے بنائی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ دونوں غوطہ خور چند دن بعد انتقال کر گئے تھے
مجھے یہ چیز بہت پریشان کر رہی ہے کہ روس جیسے ملک میں جہاں مذہب کو ایک طرح سے زبردستی رد کیا جاتا ہے، اعلٰی تعلیم یافتہ افراد محض اس وجہ سے اپنی جان دینے کو تیار ہو گئے کہ انہیں علم تھا کہ وہ کتنے بڑے مقصد کے لئے جان دینے جا رہے ہیں۔ اس وقت ری ایکٹر میں جو ایٹمی ایندھن موجود تھا، اگر وہ نیچے پانی کے ذخیرے تک پہنچتا تو یورپ بھر میں تباہی پھیل جاتی۔ پھر بھی پورے عملے میں سے دو فرد سامنے آئے جنہوں نے یہ کام کرنے کی حامی بھری۔ ذرا سوچیئے کہ اس وقت ان کے کیا احساسات، جذبات رہے ہوں گے؟ جنت جہنم کا تو ان کے نزدیک شاید ہی سوال پیدا ہوتا ہو
 

تلمیذ

لائبریرین
میرے خیال میں لامذہب ہونا الگ چیز ہے اور انسانی ہمدردی اور اخلاقیات علاحدہ اوصاف ہیں۔ جو ان دونوں کی فطرت میں شامل تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے خیال میں لامذہب ہونا الگ چیز ہے اور انسانی ہمدردی اور اخلاقیات علاحدہ اوصاف ہیں۔ جو ان دونوں کی فطرت میں شامل تھے۔
جی۔ میری عادت ہے کہ ایک ہی بات کو کئی مختلف طریقوں سے سوچتا رہتا ہوں۔ انسان کسی مقصد کے لئے جانے دینے کو کیوں تیار ہو جاتا ہے؟ اس کی ایک extreme مثال خود کش حملہ آور ہیں۔ یہ بات کہ خود کش بمبار بھی خود کش حملہ کیوں کرتے ہیں، ان کے پاس ایک incentive ہے کہ جی وہ جنت میں جائیں گے۔ کافروں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ ان کی برین واشنگ کی گئی ہے۔ کچھ بھی ممکن ہے۔ اسی طرح بدھ مت کے بھکشو چین کی حکومت کے خلاف خود کو آگ لگا کر خود کشی کرتے ہیں۔ ان کی ہمت دیکھیئے کہ بیٹھ کر اپنے اوپر پیٹرول یا تیل چھڑک کر آگ لگانے کے بعد جب تک وہ زندہ رہتے ہیں، حرکت بھی نہیں کرتے۔ ترکی میں PKK یعنی کردستان ورکرز پارٹی کے رہنما عبدللہ اوجلان کو جب گرفتار کیا گیا تو کئی کردوں نے احتجاجاً خود سوزی کی تھی
اب سوچتا ہوں کہ اگر وہ دو انجینئر اپنی خدمات نہ پیش کرتے تو عین ممکن ہے کہ کوئی اور فرد یہ کام کرتا یا یہ کام ہو ہی نہ پاتا۔ پھر بھی ان کے نزدیک کیا incentive ہوگا؟ حکومت کی طرف سے تو کوئی recognition کے امکانات ہوں یا نہ ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جب بندہ ہی زندہ نہیں رہا۔۔۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ایسے لوگ فقط ایک مقصد (اس صورت میں انسانی ہمدردی) کے تحت کسی incentive کے بغیر ہی یہ کارنامے انجام دیتے ہیں۔ (میں خود کش بمباروں کی بات نہیں کر رہا:)
 
Top