دو غزلیں اصلاح کے لیے! اصلاح فرما دیں

حسن نظامی

لائبریرین
سلام مسنون ! ہمارے ایک دوست عبدالواحد یمنی کی دو غزلیں اصلاح کے لیے پیش خدمت ہیں۔ گزارش ہے کہ اصلاح کی جائے۔ خواہش وصل نے اب تارک لذات کیا
تجھے پانے کا وظیفہ میں نے دن رات کیا
ہے کبھی دشت خموشاں تو کبھی حشر کا شور
قلب کو آپ نے جب محوعنایات کیا
میں بھی مجنوں کی طرح دھر میں مشہور ہوا
عقل آزاد کو جب تابع جذبات کیا
رزم گاہوں میں، محبت میں بھلا کچھ ہے تمیز؟
جو کوئی سامنے آیا تو اسے مات کیا
یہ جفاؤں کی ادائیں، تو حقیقت ہیں ناں ظالم
یا انہیں بھی بتقاضائے رسومات کیا
پہلے تو خود ہی گرفتار کمالات کیا
بات جب حد سے بڑھی ، شکوہ حالات کیا
ہر تماشائی وہاں ورطہ حیرت میں تھا گم
کیسے مجھ ناطق بے لاگ کو بے بات کیا
انکی پلکیں بھی نہ بھیگیں ترے جانے پہ حسن
تیری آنکھوں نے سمندر جنہیں خیرات کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا اتنا تو مجھ پہ بھی کرم ہے کم سے کم
غیر سے بے باکیاں مجھ سے شرم ہے کم سے کم
آپ کی آنکھوں کے آنسو یہ گواہی دے گئے
آپ کا دل بھی تو اندر سے نرم ہے کم سے کم
اور نسبت نہ سہی پر اس قدر تو سوچیے
آپ کا میرا سبھی کا اک دھرم ہے کم سے کم
نام آتے ہی نگاہوں کو جھکا لیتے ہیں لوگ
آج بھی اتنا زمانے میں بھرم ہے کم سے کم
وہ مرے نہ ہو سکے اعزاز پھر بھی یہ دیا
آنے جانے کے لیے ان کا حرم ہے کم سے کم
ہم تو سمجھے تھے حسن زندہ نہیں دل اب رہا
پر خدا کا شکر ہے وہ بے شرم ہے کم سے کم
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی کہ یہ اصلاح پوسٹ کر چکا۔ اب لو۔۔۔۔

خواہش وصل نے اب تارک لذات کیاتجھے پانے کا وظیفہ میں نے دن رات کیا
//دونوں مصرعوں میں ربط محسوس نہیں ہو رہا۔ تکنیکی طور سے دوسرا مصرع خارج از بحر ہے، کہ ’میں نے‘ محض ’منے‘ تقطیع ہو رہا ہے، دو حروف کا ایک ساتھ اسقاط اچھا نہیں۔
ہے کبھی دشت خموشاں تو کبھی حشر کا شورقلب کو آپ نے جب محو عنایات کیاتکنیکی طور پر درست، لیکن مطلب؟ ’محوِ عنایات ‘ کی ترکیب بھی معنی خیز نہیں۔

میں بھی مجنوں کی طرح دھر میں مشہور ہواعقل آزاد کو جب تابع جذبات کیا// درست
رزم گاہوں میں، محبت میں بھلا کچھ ہے تمیز؟جو کوئی سامنے آیا تو اسے مات کیا// لہجہ اکھڑا اکھڑا لگتا ہے، روانی میں کمی ہے۔ دوسرے، ’مات دیا’ تو محاورہ ہوتا ہے، مات کیا‘ نہیں
روانی یوں بہتر ہو سکتی ہے
بزم الفت ہو کہ ہوں رزم گہیں، کیا ہے تمیز ؟
لیکن دوسرا مصرع کا متبادل سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔

یہ جفاؤں کی ادائیں، تو حقیقت ہیں ناں ظالمیا انہیں بھی بتقاضائے رسومات کیا//پہلا مصرع خارج از بحر ہے، یوں کہو
یہ جفاؤں کی ادائیں، تو حقیقت ہیں ضرور
پہلے تو خود ہی گرفتار کمالات کیا

ہر تماشائی وہاں ورطہ حیرت میں تھا گمکیسے مجھ ناطق بے لاگ کو بے بات کیا// ’بے‘ اور اضافت کے ساتھ ہندی ’لاگ‘ نہیں آ سکتا، اور اسی طرح بے بات بھی غلط ہے۔ قافیہ ہی غلط ہو تو شعر کی کیا اصلاح کی جائے،

انکی پلکیں بھی نہ بھیگیں ترے جانے پہ حسنتیری آنکھوں نے سمندر جنہیں خیرات کیا//درست، اچھا خیال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کا اتنا تو مجھ پہ بھی کرم ہے کم سے کمغیر سے بے باکیاں مجھ سے شرم ہے کم سے کم//’شرم‘ کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے، یہاں ’ر‘ ساکن ہے، اس لئے قافیہ غلط ہے۔

آپ کی آنکھوں کے آنسو یہ گواہی دے گئےآپ کا دل بھی تو اندر سے نرم ہے کم سے کم
//نرم کا تلفظ بھی وہی ہے، ’ر‘ساکن
اور نسبت نہ سہی پر اس قدر تو سوچیےآپ کا میرا سبھی کا اک دھرم ہے کم سے کم// اردو تلفظ کے حساب سے چل سکتا ہے قافیہ، ویسے ہندی میں دھرم میں بھی ’ر‘ پر جزم ہے۔ ’نہ سہی‘ میں ’نا‘ کے طور پر نہ‘ آ رہا ہے، اس کی جگہ یوں کہ دیں۔
اور کچھ نسبت نہ ہو، پر اس قدر۔۔۔۔۔

نام آتے ہی نگاہوں کو جھکا لیتے ہیں لوگآج بھی اتنا زمانے میں بھرم ہے کم سے کم//درست

وہ مرے نہ ہو سکے اعزاز پھر بھی یہ دیاآنے جانے کے لیے ان کا حرم ہے کم سے کم//شعر بے معنی لگتا ہے، غالباً ’حرم‘ کا قافیہ محض برائے قافیہ ہے۔ یہاں کیا مراد ہے؟

ہم تو سمجھے تھے حسن زندہ نہیں دل اب رہاپر خدا کا شکر ہے وہ بے شرم ہے کم سے کم
// یہاں بھی شرم کا تلفظ غلط ہے
 

مغزل

محفلین
اجی قبلہ بہت میں ت کی بہتات ہوگئی سر کھڑکی سے باہر چلا گیا۔۔۔ سلامت رہیں شاد رہیں آباد رہیں۔۔
 
Top