دوسری شادی کا حق

انتہا

محفلین
دوسری شادی کا حق
ہر مردعموماً دوسری عورت کا بھی طلبگار ہوتا ہے۔ خدا کی طرف سے دوسری شادی کی اجازت تو مرد ہی کو ہے۔ مغرب میں تو دس سال ایک شخص کے ساتھ گزار لینے کے بعد اس پر لعنت ڈال کر نیا بوائے فرینڈ تلاش کر لیا جاتاہے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے دیسی لبرلز کو اس میں بھی حکمت و دانائی کے مینار نظر آتے ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ اپنی عورتیں لے کر وہ اس مارچ میں گھس جاتے ہیں، جہاں عورتیں کھلم کھلا بےہودہ نعرے لگا رہی ہوتی ہیں۔

لیکن جو عام مرد ہیں، ان کی آنکھ میں بھی دوسری شادی کا لفظ سنتے ہی چمک آجاتی ہے۔ میرا ایک دوست ہے، جس کا اصل نام تو کچھ اور ہے لیکن دوسری شادی کی مہم اور بشارتیں سنانے کی وجہ سے اسے شادیوں والا کہا جاتاہے۔

دوسری شادی کا سنتے ہی اس کو مرگی کا دورہ پڑ جاتاہے اور رال بہنے لگتی ہے۔ گوبال تو رنگے ہوئے ہیں لیکن عمر گزرتی جا رہی ہے اور ہنوز دلی دور است۔ ایک روز دوسری شادی کی فضیلت اور ضرورت بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گیا۔ ایک دلدوز قصہ سنایا:کہتاہے کہ ایک عورت بیوہ ہو گئی۔ اسے کسی سہارے کی تلاش تھی۔ اس نے ایک سہارا ڈھونڈا اور اسے شادی پہ راضی کیا۔ سہارا جب پہلی بیوی سے اجازت لینے پہنچا تو وہ اس کے گلے پڑگئی۔ پہلی بیوی نے سہارے کو باندھ لیا ؛چنانچہ وہ بیوہ کے کسی کام نہ آسکا۔ خدا کی کرنی کیا ہوئی کہ کچھ عرصہ بعد سہارا بھی فوت ہو گیا اور اس کی بیوی بھی بیوہ ہو گئی۔ اب دونوں بیوائیں مل کر کسی ایسی عورت کی تلاش میں نکلیں، جس کا شوہر تینوں کاسہارا بن سکے۔ کتنی عبرت ناک کہانی ہے نا؟

شادیوں والا کہتاہے کہ شروعات کرو سہارا دینے کی۔ سب اپنے اپنے بیٹوں کی دوسری شادی کروادوتاکہ جواباً بیٹے بھی نیکی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہوئے آپ کی دوسری شادی کروادیں۔ یہ اس کا بیس سالہ منصوبہ ہے کہ پورے معاشرے کو دوسری شادی کے ماڈل پہ منتقل کیا جائے اور اتنی مہلت اس کے پاس ہرگز دکھائی نہیں دیتی۔شادیوں والے کو میں نے ایک جوابی منصوبہ پیش کیا کہ اگر آپ دوسری شادی کو فروغ دینے کے اتنے ہی شوقین ہیں تو اپنے دامادوں اور اپنے بہنوئیوں کی دوسری شادی کر وادو۔ اس پہ اس کی زبان پہ فالج گر گیا۔

جو مرد حج، زکوٰۃ، نماز اور روزے سمیت کوئی بھی فرض پورا نہیں کرتے، دوسری شادی پہ وہ بھی ٹیپو سلطان بنے پھر رہے ہیں۔ میں دوسری شادی کا مخالف ہرگز نہیں لیکن آپ عرب اور پاکستان میں فرق تو دیکھیں۔ حکمت بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ ہر عرب عورت یہ جانتی ہے کہ میرا شوہر کئی شادیاں کرے گا۔ یہ اس کے لیے معاشرے میں ہرگز بے عزتی کا باعث نہیں۔

ہمارے معاشرے کی بنیادیں مقامی ثقافت پر استوار ہیں۔ آج تک ہماری شادیوں میں مہندی اورجوتا چھپائی سمیت ساری رسمیں اسی ثقافت کا اظہار ہیں۔ پاکستان میں دوسری شادی کا مطلب ہے پہلی بیوی کے حقوق کا مکمل خاتمہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عورت کو بہت ترس سے دیکھا جاتاہے، جس کا شوہر دوسری شادی کر لے۔

اس کی سخت بے عزتی ہوتی ہے۔ اگر آپ میں اتنا دم ہے تو پہلی شادی کرتے ہوئے بتائیں تو سہی کہ میں بعد میں دوسری شادی بھی کروں گاپھر دیکھتے ہیں کہ کون رشتہ دیتا ہے آپ کو۔ اللہ نے کہیں بھی نہیں کہا کہ دوسری شادی لازماً کرو۔ یہ کہاہے کہ عدل کر سکتے ہو تو کر لو ورنہ ایک بہت۔ یہ بھی کہا ہے کہ عدل کر نہیں سکو گے۔

رسالت مآبؐ کے آخری ایام یاد کیجیے۔شدید بخار تھا۔ ازواجِ مطہرات کو جمع کیا اور اجازت چاہی کہ کیا میں عائشہؓ کے حجرے میں منتقل ہو جائوں۔ یہ اجازت وہ ہستی طلب کر رہی تھی، جس کے لیے یہ کائنات تخلیق کی گئی۔ اب ان کو دیکھیں، جو بیس بیس سال پہلی بیوی کا منہ ہی نہیں دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے۔

شادیوں والے کی منطق یہ ہے کہ کسی بیوہ کو سہارا دینے کے لیے اس سے نکاح ضروری ہے۔ اگر آپ نکاح کیے بغیر بیوہ کو راشن دیں تو کیاوہ شاپر گھما کے آپ کے منہ پر دے مارے گی ؟ بے شمار بیوائیں ساری زندگی تنہا گزار دیتی ہیں ؛اگرچہ انہیں دوسری شادی کا پورا حق ہے۔ اصل بے چینی تو مردوں کو ہو تی ہے کہ یہ حسین بیوہ میرے سہارے کے بغیر اکیلی کیوں پھر رہی ہے۔

شادیوں والے کا ماڈل یہ ہے کہ جیسے آپ کو اطلاع ملے کہ ایک خوبصورت عورت بیوہ ہو گئی تو سہرا باندھ کر گھوڑے پہ بیٹھئے۔ ساتھ دو کلو آٹا لٹکا لیں اور نکاح نامہ لہراتے ہوئے بیوہ پہ حملہ کر دیں۔ علاقے میں کسی بھی بیوہ کو جب علم ہوتاہے کہ شادیوں والا گھر سے نکلا ہے تو وہ فوراً محفوظ مقام پہ منتقل ہو جاتی ہے۔ انہیں بخوبی معلوم ہوتاہے کہ یہ والا آٹا اسے بہت مہنگا پڑے گا۔ (جاری ہے)
دوسری شادی کا حق
 
دوسری شادی کا حق
ہر مردعموماً دوسری عورت کا بھی طلبگار ہوتا ہے۔ خدا کی طرف سے دوسری شادی کی اجازت تو مرد ہی کو ہے۔ مغرب میں تو دس سال ایک شخص کے ساتھ گزار لینے کے بعد اس پر لعنت ڈال کر نیا بوائے فرینڈ تلاش کر لیا جاتاہے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے دیسی لبرلز کو اس میں بھی حکمت و دانائی کے مینار نظر آتے ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ اپنی عورتیں لے کر وہ اس مارچ میں گھس جاتے ہیں، جہاں عورتیں کھلم کھلا بےہودہ نعرے لگا رہی ہوتی ہیں۔

لیکن جو عام مرد ہیں، ان کی آنکھ میں بھی دوسری شادی کا لفظ سنتے ہی چمک آجاتی ہے۔ میرا ایک دوست ہے، جس کا اصل نام تو کچھ اور ہے لیکن دوسری شادی کی مہم اور بشارتیں سنانے کی وجہ سے اسے شادیوں والا کہا جاتاہے۔

دوسری شادی کا سنتے ہی اس کو مرگی کا دورہ پڑ جاتاہے اور رال بہنے لگتی ہے۔ گوبال تو رنگے ہوئے ہیں لیکن عمر گزرتی جا رہی ہے اور ہنوز دلی دور است۔ ایک روز دوسری شادی کی فضیلت اور ضرورت بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گیا۔ ایک دلدوز قصہ سنایا:کہتاہے کہ ایک عورت بیوہ ہو گئی۔ اسے کسی سہارے کی تلاش تھی۔ اس نے ایک سہارا ڈھونڈا اور اسے شادی پہ راضی کیا۔ سہارا جب پہلی بیوی سے اجازت لینے پہنچا تو وہ اس کے گلے پڑگئی۔ پہلی بیوی نے سہارے کو باندھ لیا ؛چنانچہ وہ بیوہ کے کسی کام نہ آسکا۔ خدا کی کرنی کیا ہوئی کہ کچھ عرصہ بعد سہارا بھی فوت ہو گیا اور اس کی بیوی بھی بیوہ ہو گئی۔ اب دونوں بیوائیں مل کر کسی ایسی عورت کی تلاش میں نکلیں، جس کا شوہر تینوں کاسہارا بن سکے۔ کتنی عبرت ناک کہانی ہے نا؟

شادیوں والا کہتاہے کہ شروعات کرو سہارا دینے کی۔ سب اپنے اپنے بیٹوں کی دوسری شادی کروادوتاکہ جواباً بیٹے بھی نیکی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہوئے آپ کی دوسری شادی کروادیں۔ یہ اس کا بیس سالہ منصوبہ ہے کہ پورے معاشرے کو دوسری شادی کے ماڈل پہ منتقل کیا جائے اور اتنی مہلت اس کے پاس ہرگز دکھائی نہیں دیتی۔شادیوں والے کو میں نے ایک جوابی منصوبہ پیش کیا کہ اگر آپ دوسری شادی کو فروغ دینے کے اتنے ہی شوقین ہیں تو اپنے دامادوں اور اپنے بہنوئیوں کی دوسری شادی کر وادو۔ اس پہ اس کی زبان پہ فالج گر گیا۔

جو مرد حج، زکوٰۃ، نماز اور روزے سمیت کوئی بھی فرض پورا نہیں کرتے، دوسری شادی پہ وہ بھی ٹیپو سلطان بنے پھر رہے ہیں۔ میں دوسری شادی کا مخالف ہرگز نہیں لیکن آپ عرب اور پاکستان میں فرق تو دیکھیں۔ حکمت بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ ہر عرب عورت یہ جانتی ہے کہ میرا شوہر کئی شادیاں کرے گا۔ یہ اس کے لیے معاشرے میں ہرگز بے عزتی کا باعث نہیں۔

ہمارے معاشرے کی بنیادیں مقامی ثقافت پر استوار ہیں۔ آج تک ہماری شادیوں میں مہندی اورجوتا چھپائی سمیت ساری رسمیں اسی ثقافت کا اظہار ہیں۔ پاکستان میں دوسری شادی کا مطلب ہے پہلی بیوی کے حقوق کا مکمل خاتمہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عورت کو بہت ترس سے دیکھا جاتاہے، جس کا شوہر دوسری شادی کر لے۔

اس کی سخت بے عزتی ہوتی ہے۔ اگر آپ میں اتنا دم ہے تو پہلی شادی کرتے ہوئے بتائیں تو سہی کہ میں بعد میں دوسری شادی بھی کروں گاپھر دیکھتے ہیں کہ کون رشتہ دیتا ہے آپ کو۔ اللہ نے کہیں بھی نہیں کہا کہ دوسری شادی لازماً کرو۔ یہ کہاہے کہ عدل کر سکتے ہو تو کر لو ورنہ ایک بہت۔ یہ بھی کہا ہے کہ عدل کر نہیں سکو گے۔

رسالت مآبؐ کے آخری ایام یاد کیجیے۔شدید بخار تھا۔ ازواجِ مطہرات کو جمع کیا اور اجازت چاہی کہ کیا میں عائشہؓ کے حجرے میں منتقل ہو جائوں۔ یہ اجازت وہ ہستی طلب کر رہی تھی، جس کے لیے یہ کائنات تخلیق کی گئی۔ اب ان کو دیکھیں، جو بیس بیس سال پہلی بیوی کا منہ ہی نہیں دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے۔

شادیوں والے کی منطق یہ ہے کہ کسی بیوہ کو سہارا دینے کے لیے اس سے نکاح ضروری ہے۔ اگر آپ نکاح کیے بغیر بیوہ کو راشن دیں تو کیاوہ شاپر گھما کے آپ کے منہ پر دے مارے گی ؟ بے شمار بیوائیں ساری زندگی تنہا گزار دیتی ہیں ؛اگرچہ انہیں دوسری شادی کا پورا حق ہے۔ اصل بے چینی تو مردوں کو ہو تی ہے کہ یہ حسین بیوہ میرے سہارے کے بغیر اکیلی کیوں پھر رہی ہے۔

شادیوں والے کا ماڈل یہ ہے کہ جیسے آپ کو اطلاع ملے کہ ایک خوبصورت عورت بیوہ ہو گئی تو سہرا باندھ کر گھوڑے پہ بیٹھئے۔ ساتھ دو کلو آٹا لٹکا لیں اور نکاح نامہ لہراتے ہوئے بیوہ پہ حملہ کر دیں۔ علاقے میں کسی بھی بیوہ کو جب علم ہوتاہے کہ شادیوں والا گھر سے نکلا ہے تو وہ فوراً محفوظ مقام پہ منتقل ہو جاتی ہے۔ انہیں بخوبی معلوم ہوتاہے کہ یہ والا آٹا اسے بہت مہنگا پڑے گا۔ (جاری ہے)
دوسری شادی کا حق
شادی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر استطاعت ہے آپ اُس کا حق دے سکتے ہو اور آپ کی بیوی بھی راضی ہے تو، ویسے میں کوئی مفتی نہیں ہوں اپنی ناقص رائے دی ہے آپ کی مرضی ہے مانیں یا نہ مانیں
 

شکیب

محفلین
ہمارا پسندیدہ موضوع ایک بار پھر۔۔۔
عشاء کے بعد پاپ کارن کے ساتھ حاضر ہوتا ہوں۔
 

علی وقار

محفلین
برصغیر پاک و ہند میں عقد ثانی کی خواہش کے اظہار سے قبل ہی ذہن و دل کے نہاں گوشوں میں بارات گاڑی کی بجائے ایمبولنس وین کا تصورسما جاتا ہے اور شادیانے کی بجائے سائرن کی آوازیں گونجنے لگ جاتی ہیں۔ اب چونکہ مسٹر انتہا نے 'انتہا' ہی کر دی ہے تو چند گزارشات پیش کرنے کا ارادہ یہ فقیر بھی رکھتا ہے۔
 

انتہا

محفلین
برصغیر پاک و ہند میں عقد ثانی کی خواہش کے اظہار سے قبل ہی ذہن و دل کے نہاں گوشوں میں بارات گاڑی کی بجائے ایمبولنس وین کا تصورسما جاتا ہے اور شادیانے کی بجائے سائرن کی آوازیں گونجنے لگ جاتی ہیں۔ اب چونکہ مسٹر انتہا نے 'انتہا' ہی کر دی ہے تو چند گزارشات پیش کرنے کا ارادہ یہ فقیر بھی رکھتا ہے۔
ارشاد ارشاد
 
Top