دوستوں سے بات چیت

اکمل زیدی میاں آپ سے لکھنے کا وعدہ کیا کیا اپنے ہاتھ پاوں کٹوالئے، یہ کہہ دیا تھا کہ جب تک اپنی گزارشات پیش نہیں کرتا نہ کچھ لکھوں گا نہ شعر کہوں گا۔ لکھنے کی تو خیر فرصت نہیں ہے مگر شعر کا معاملہ دوسرا ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شعر کا ایک مصرع ہوا تو خیال آیا "اکمل سے وعدہ ہے شعر نہیں کہہ سکتے۔" تو یہ طے ہوا کہ ایک نشست میں بیٹھ کر لکھنے کو وقت تو شاید دیر سے ملے کیوں نہ ایک مکالمہ شروع کردیا جائے جس میں اپنی سہولت سے جب جتنا ہوسکے لکھ دیا جائے۔
اس سے دو فائدے ہیں اول تو یہ کہ آپ کے وعدے کے حصار سے نکلا جا سکتا ہے ( کیونکہ گزارشات پیش کرنا شروع کر دی ہیں) دوسرا یہ کہ اگر گزارشات طویل بھی ہوئیں تو بوجھ نہیں بنیں گی۔
اہلِ محفل سے درخواست ہے کہ مجھے اپنی بات مکمل کر لینے دی جائے ۔ اور جب تک میں اپنی بات ختم کرنے کا اعلان نہ کردوں اس لڑی میں کوئی جواب نہ دیا جائے۔
میں اس حوالے سے آپ حضرات کا پیشگی شکرگزار ہوں۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
میرا مشورہ یہ ہے کہ تبصروں کے لیے ایک الگ دھاگا کھول لیں اور اس دھاگے کا ربط یہاں اپنے مراسلے میں شامل کر دیں۔
اس کا یہ فائدہ ہو گا کہ پڑھنے والوں کے ذہن میں جو کچھ بھی آئے گا وہ اسی وقت تبصروں کے دھاگے میں جا کر لکھ دیں گے، ورنہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد تو ذہن سے محو ہو جاتا ہے کہ کیا سوچا تھا تحریر کا کوئی خاص جملہ یا حصہ پڑھ کے۔
اور ہاں، جب تبصروں کا ھاگا بنا چکیں تو میرے اس مراسلے کے نیچے رہورٹ کا بٹن دبا کر انتظامیہ سے درخواست کر کے میرا یہ مراسلہ بھی وہاں تبصروں میں منتقل کروا دیجیے گا۔ :)
 
خداوندِ عالم نے انسان کی سرشت میں ہر طرح کے جذبے۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی لکھ ہی رہا تھا کہ فاتح بھائی کے مراسلے کی اطلاع ملی:mad3: ۔۔۔ کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ۔۔۔۔:atwitsend::atwitsend::atwitsend:

:battingeyelashes::battingeyelashes: جی فاتح بھائی۔۔ :lol:۔۔ بہت خوشی ہوئی آپ کا مشورہ پڑھ کر ۔۔ ایسا ہی کرونگا۔۔
 

فاتح

لائبریرین
خداوندِ عالم نے انسان کی سرشت میں ہر طرح کے جذبے۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی لکھ ہی رہا تھا کہ فاتح بھائی کے مراسلے کی اطلاع ملی:mad3: ۔۔۔ کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ۔۔۔۔:atwitsend::atwitsend::atwitsend:

:battingeyelashes::battingeyelashes: جی فاتح بھائی۔۔ :lol:۔۔ بہت خوشی ہوئی آپ کا مشورہ پڑھ کر ۔۔ ایسا ہی کرونگا۔۔
یہ تو میرا اخلاقی فرض تھا۔
(چلیے تو جب پہلے والا مراسلہ منتقل کروائیں گے تو یہ بھی کروا دیجیے گا۔ :laughing: )
 

فاتح

لائبریرین
فلموں میں یہ جملہ ہیرو ایک "خاص کاروائی" کی کامیاب روک تھام کے بعد کہتا ہے ۔۔:jokingly::jokingly::jokingly:
مگر آپ نے "کاروائی" کے بعد کہا ہے :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا نو کمنٹس
(ذرا سوچیے کہ کوئی کمنٹس نہ ہونے پر بھی ایک عدد مزید مراسلہ آ گیا) :laughing:
 
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا نو کمنٹس
(ذرا سوچیے کہ کوئی کمنٹس نہ ہونے پر بھی ایک عدد مزید مراسلہ آ گیا) :laughing:
نہیں نہیں اب کوئی مسئلہ نہیں میں نے طے کر لیا ہے صرف اس کام کےلیے ایک نیا مراسلہ بنانا درست نہیں ہوگا۔ اب یہ کرونگا کہ جب میری بات مکمل ہوجائے گی تو ابن سعید بھائی سے کہہ کر تمام مراسلوں کو یکجا کروا کر ابتدا میں لگوالوں گا۔

اچھا تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔
 

فاتح

لائبریرین
نہیں نہیں اب کوئی مسئلہ نہیں میں نے طے کر لیا ہے صرف اس کام کےلیے ایک نیا مراسلہ بنانا درست نہیں ہوگا۔ اب یہ کرونگا کہ جب میری بات مکمل ہوجائے گی تو ابن سعید بھائی سے کہہ کر تمام مراسلوں کو یکجا کروا کر ابتدا میں لگوالوں گا۔
شاید یہ ممکن نہ ہو کہ مراسلوں کی ترتیب تبدیل کی جا سکے۔ ہاں! تبصروں کو الگ دھاگے میں منتقل کرنا پرانا اور آزمودہ حل ہے۔
اچھا تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔
جی جی آپ جاری رکھیے۔۔۔
 
خداوندِ عالم نے انسان کی سرشت میں ہر طرح کے جذبے ودیت کئے ہیں۔ اچھے انسان وہ ہیں جو بُرائی کے جذبے کو زیر کرلیں اور اچھائی اور بھلائی کے جذبوں سے اپنے قلب کو بھی منور رکھیں اور دوسروں تک بھی اس کی ضوفشانیاں پہنچاتے رہیں۔ یہ تو ایک واضح حقیقت ہے کہ ہر انسان فکری اعتبار سے کسی نہ کسی سوچ، خیال، مکتبہء فکر سے متاثر ہوتا ہے اور اسے درست سمجھتا ہے۔ عمرانیات کے حوالے سے میری نظر میں معاشرے کی تعریف میں سب سے مضبوط رائے یہ ہے کہ " معاشرہ، افراد کے درمیان روابط کا نام ہے"
 
جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس کی اساس اخوت اور بھائی چارہ ہے اور الحمدللہ ہمارا معاشرہ اسی روش پر قائم ہے۔ یہاں ہر مسلک، مکتبہءفکر سے تعلق رکھنے والے اختلافات سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اکمل زیدی میاں کی دھمکی آمیزفرمائش پر اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں۔
 
حالیہ دہائی میں ہمیں دو گروہ بہت تیزی سے سر اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اول ان میں جدت پسند ہیں اور دوم شدت پسند۔ اکثر ہ بیشتر ابلاغِ عامہ اور سماجی رابطے کے مراکز پر انہیں دونوں فریقوں کے متاثرین بلند آہنگ سے مصروفِ عمل ہیں، یا پھر ان کے متعلق بات کرنے والے مصروفِ کار نظر آتے ہیں۔
 
یہ ہونا فطری بھی ہے۔ انسانوں کی بڑی تعداد اپنے اطراف و اکناف سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے۔ مگر جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کے لیے اشیا اور معاملات کے دیگر اسرار بھی نمودار ہوتے ہیں جن تک عموماََ عوام کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔ع۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
 
آخری تدوین:
ہمارا معاشرہ اس حوالے سے دیگر پڑوسیوں سے مختلف ہے کہ ہم نے اسلام کو بہت وسیع تناظر میں قبول کیا ہے۔ ہم نے تمام تر مسلکی اور اختلافی امور سے بلند ہو کر مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کی کوشش بھی کی اور بحمدللہ حاصل بھی کیا۔ اس سلسلے میں اگرآپ تحریکِ پاکستان کا مطالعہ کرتے رہے ہیں یا بزرگوں سے ان کے حالات و واقعات سنتے رہے ہیں تو آپ کے علم میں ہوگا کہ اس وقت سے تاحال ، ہم غیر مسلکی انداز میں اپنے معاشرے کا قیام عمل میں لائے ہیں۔
 
کیسے دقیق مسئلے چھیڑے ہیں آپ نے
تمہید چھوڑ ، بر سرِ مطلب تو آئیے
فاتح نے مشورہ جو دیا ہے، کمال ہے
اِک تبصروں کے واسطے دھاگہ بنائیے
چلتی رہیں گی آپ کی باتیں اجی حضور!
باتوں کو چھوڑ، کوئی غزل گنگنائیے
لگتا ہے آپ کو مری باتیں بری لگیں
اِس بد زبان کے لیے دل نہ جلائیے
 
چند دہائیوں سے درپیش کچھ واقعات کو بنیاد بنا کر بعض لوگ یہ تصور کر بیٹھے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مسلکی حد بندی میں راہِ اعتدال سے ہٹ گیا ہے ۔ یہ تصور بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس تصور کے پیش کرنے والوں میں اکثریت بھی ان لوگوں کی ہے جو یا تو شدت یا جدت پسند ہیں یا انہی میں سے کسی ایک سے متاثر دیارِ غیر میں بیٹھے ، وہ لوگ جن کی معلومات کا اسی فیصد انحصار میڈیا ہے۔
 
جبکہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ عموماََ "خاموش اکثریت" بننے کو ترجیح دیتے ہیں، اور اپنے مشاہدات و معاملات کا اس طور اظہار نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے بعض غلط تصورات بظاہر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں
 
آخری تدوین:
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ آج بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے ، جس میں شعیہ سنی مل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرتے ہیں ایک دوسرے کی دل آزاری سے بچتے ہیں، آپس کے معاملات میں مسلکی اختلافات سے بلند ہو کر افہام و تفہیم کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر ہم عام زندگی کا مشاہدہ کریں تو ہمارے ساتھ دفتروں، کارخانوں میں برادرانِ اہلسنت بھی ہیں اور برادرانِ اہلِ تشیع بھی، جو شانہ بشانہ معاشرتی ترقی کے پہیے کو دھکیل رہے ہیں۔وہاں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے سب مل جل کر کام کرتے ہیں، آپس میں گہری دوستی اور رشتہ داریاں قائم ہیں۔
 
Top