ذوق دن کٹا جائے اب رات کدھر کاٹنے کو - ذوق

کاشفی

محفلین
غزل
(ذوق)

دن کٹا جائے اب رات کدھر کاٹنے کو
جب سے وہ گھر میں نہیں، دوڑے ہے گھر کاٹنے کو

ہائے صیاد تو آیا مرے پر کاٹنے کو
میں تو خوش تھا کہ چھری لایا ہے سر کاٹنے کو

اپنے عاشق کو نہ کھلواؤ کنی ہیرے کی
اُس کے آنسو ہی کفایت ہیں جگر کاٹنے کو

دانت انجم سے نکلالے ہوئے تجھ بن مجھ پر
منہ فلک کھولے ہے اے رشکِ قمر کاٹنے کو

وہ شجر ہوں نہ گل و بار ، نہ سایہ مجھ میں
باغباں نے ہے لگا رکھا مگر کاٹنے کو

سر و گردن جگر و دل ہیں یہ چاروں حاضر
چاہے دل یار کو جو رنگ اگر کاٹنے کو

شام ہی سے دلِ بیتاب کا ہے ذوق یہ حال
ہے ابھی رات پڑی ، چار پہر کاٹنے کو
 
Top