میر دل کی کچھ تقصیر نہیں ہے آنکھیں اس سے لگ پڑیاں

دل کی کچھ تقصیر نہیں ہے آنکھیں اس سے لگ پڑیاں
مار رکھا سو ان نے مجھ کو کس ظالم سے جا لڑیاں

ایک نگہ میں مر جاتا ہے عاشقِ کوچکِ دل اس کا
زہر بھری کیا کام آتی ہیں گو وے آنکھیں ہوں بڑیاں

عقدے داغ دل کے شاید دست قدرت کھولے گا
ناخن سے تدبیر کے میری کھلتی نہیں یہ گل جھڑیاں

نحس تھے کیا وے وقت و ساعت جن میں لگا تھا دل اپنا
سال پہر ہے اب تو ہم کو ماہ برابر ہیں گھڑیاں

میرؔ بلائے جان رہے ہیں دونوں فراق و وصل اس کے
ہجر کی راتیں وہ بھاری تھیں ملنے کے دن کی یہ کڑیاں

میر تقی میرؔ​
 
Top