دل ترا ذوقِ شکیبائی رہے یا نہ رہے ! ۔۔۔ غزل اصلاح کے لئے

ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔ اساتذہ اکرام بالخصوص الف عین سر اور احباب سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
دل ترا ذوقِ شکیبائی رہے یا نہ رہے !
تُو بھی دھڑکن کا تمنّائی رہے یا نہ رہے !

تپتے سورج میں رہی ساتھ جو سائے کی طرح
کل یہی جسم کی پرچھائی رہے یا نہ رہے !

آسماں چومتے شہروں میں یہ رائج ہے کہ اب
ہر پڑوسی سے شناسائی رہے یا نہ رہے !

تین حصے تو لٹی عصمت و تہذیبِ زماں
تن پہ باقی ہے جو چوتھائی رہے یا نہ رہے !

دستِ حالات، سلامت ترے تحفے، لیکن
ظرفِ غم اب کے تماشائی رہے یا نہ رہے!

آج ہی بخش دے اے سرخوشی کچھ غم کے نگیں
ان کا پھر دل مرا شیدائی رہے یا نہ رہے

آج دل مائلِ حجّت نہیں جتنے ہوں ستم
کیا پتا کل یہی پسپائی رہے یا نہ رہے !

ایک اک اینٹ بغاوت پہ تُلی ہے گھر کی
گھر جناب آپ کا آبائی رہے یا نہ رہے !

رَہ بنا لیتا ہوں مشکل میں یہ خوبی ہے مگر
وصف فطرت کا یہ دریائی رہے یا نہ رہے !

نت نئے ان کے ستم، رنگِ مروّت میرے !
جانے دونوں کی یہ یکتائی رہے یا نہ رہے!

آج ہر شعر ترے طرزِ تخاطب پہ نثار
کل طبیعت میں پزیرائی رہے یا نہ رہے !

بحرِ ذخّارِ حوادث میں اب اترو کاشف
عزم میں پھر یہ توانائی رہے یا نہ رہے !
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔
دل ترا ذوقِ شکیبائی رہے یا نہ رہے !
تُو بھی دھڑکن کا تمنّائی رہے یا نہ رہے !
۔۔درست، لیکن اس صورت میں کرنا کیا ہے؟ یہ بھی تو کچھ ذکر ہوتا۔

تپتے سورج میں رہی ساتھ جو سائے کی طرح
کل یہی جسم کی پرچھائی رہے یا نہ رہے !
۔۔ درست لفظ پرچھائیں ہے، جو یہاں قافیے میں نہیں آ سکتا۔

آسماں چومتے شہروں میں یہ رائج ہے کہ اب
ہر پڑوسی سے شناسائی رہے یا نہ رہے !
۔۔شہر آسمان نہیں چومتے۔ شہرکی اونچی عمارتیں چومتی ہیں۔ اس کو بدلو۔
تین حصے تو لٹی عصمت و تہذیبِ زماں
تن پہ باقی ہے جو چوتھائی رہے یا نہ رہے !
÷÷واہ، بہت سی داد، زماں کی جگہ کوئی اور لفظ بھی لانے کی کوشش کرو۔ تو مزید بہتر ہو​
باقی اشعار بھی درست ہیں۔
 
اچھی غزل ہے۔
دل ترا ذوقِ شکیبائی رہے یا نہ رہے !
تُو بھی دھڑکن کا تمنّائی رہے یا نہ رہے !
۔۔درست، لیکن اس صورت میں کرنا کیا ہے؟ یہ بھی تو کچھ ذکر ہوتا۔

تپتے سورج میں رہی ساتھ جو سائے کی طرح
کل یہی جسم کی پرچھائی رہے یا نہ رہے !
۔۔ درست لفظ پرچھائیں ہے، جو یہاں قافیے میں نہیں آ سکتا۔

آسماں چومتے شہروں میں یہ رائج ہے کہ اب
ہر پڑوسی سے شناسائی رہے یا نہ رہے !
۔۔شہر آسمان نہیں چومتے۔ شہرکی اونچی عمارتیں چومتی ہیں۔ اس کو بدلو۔
تین حصے تو لٹی عصمت و تہذیبِ زماں
تن پہ باقی ہے جو چوتھائی رہے یا نہ رہے !
÷÷واہ، بہت سی داد، زماں کی جگہ کوئی اور لفظ بھی لانے کی کوشش کرو۔ تو مزید بہتر ہو​
باقی اشعار بھی درست ہیں۔
استاد محترم دوسرے مصرع اسی خدشے کی طرف اشارہ ہے کہ اب شاید دھڑکن بھی گوارہ نہ رہے !
پرچھائیں سے متعلق شعر ابھی غزل سے حذف کرتا ہوں تا آنکہ کوئی بہتر متبادل ملے۔
پہلے کچھ عمارات کا ہی ذکر تھا لیکن بعد میں تبدیل کر دیا تھا۔
آسماں چومتے شہروں کی عمارات میں آج
ہر پڑوسی سے شناسائی رہے یا نہ رہے !
یا کچھ ایسا ہی ۔
درست کرتا ہوں ان شا اللہ۔
جزاک اللہ
 
آخری تدوین:
Top