دعائے محبّت

دعائے محبّت​
جھلک سی ہمیں اک دکھا کے محبّت
کہاں چھپ گئی دلربائے محبّت۔ ۔ ۔ ۔
نہ سوزِ دروں ہے نہ کوئی فسوں ہے
سکوں اب نہیں ہے سوائے محبّت
ہے آبادئِ دل کی بس ایک صورت
کہ ویراں سرائے میں آئے محبّت
بہت بے ادب ہوں، بہت ناسمجھ ہوں
سلیقہ مجھے کچھ سکھائے محبّت
بہت چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے یہ
کہاں میں کہاں یہ دعائے محبّت
حبیبِ خدا آپ سے التجا ہے
عطا ہو مجھے بھی دوائے محبّت
اندھیروں سے اب جی تو گھبراگیا ہے
چراغِ وفا اب جلائے محبّت۔ ۔ ۔ ۔
کوئی چارہ گر ہو کوئی شیشہ گر ہو
جو بخشے دلوں کو جِلائے محبّت
مجازی بتاں کو نظر سے گرا کے
حقیقت کی دل میں بسائے محبّت
رگ و پے میں مستی کے دریا بہائے
کہ آتش سی دل میں لگائے محبّت
حکومت مرے دل پہ ہو ذکرِ حق کی
پڑے سر پہ ظلّ ِ ہمائے محبّت۔ ۔ ۔ ۔​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، البتہ مطلع میں قافیہ غائب ہے۔ "دکھا کے" کی جگہ کچھ اور لفظ لائیں تو درست مطلع ہو سکے، اور ب غیر مطلع کی ہی مان لی جائے تو ردیف یعنی "محبت" بدل دین کہ کسی کو مطلع کا شک نہ ہو۔
 
Top